"ہم غزہ کا مکمل محاصرہ کریں گے، نہ تو وہاں بجلی ہوگي، نہ کھانا، نہ پانی اور نہ ہی ایندھن۔ غزہ کے لوگوں پر ہر چیز بند ہوگي۔"(1) صیہونی حکومت کے وزیر جنگ یوآف گالانت نے غزہ پٹی کے خلاف اس حکومت کی وحشیانہ جارحیت شروع ہونے کے کچھ ہی دن بعد یہ بات کہی تھی۔ اس جارحیت کو شروع ہوئے نو مہینے سے زیادہ ہو چکے ہیں اور غزہ کے حالات پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ صیہونیوں نے، غزہ پٹی کے لوگوں کے ساتھ بالکل وہی رویہ اختیار کیا ہے جو گالانت نے کہا تھا۔ بے قصور لوگوں کو جان بوجھ کر پیاسا رکھنا، غزہ کی جنگ کے ان نو مہینوں میں اس غیر انسانی اور مجرمانہ رویے کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے کہ جس کے نتیجے میں غزہ کے لوگ، بچوں سے لے کر بوڑھوں تک، تھوڑے سے صاف پانی کے حصول کے لیے، جو ان کی ضرورتیں پورا نہیں کر پا رہا ہے، کافی لمبا راستہ پیدل طے کرنے پر مجبور ہیں۔
فلسطینیوں کے خلاف عام تباہی پھیلانے والا ایک نیا ہتھیار
اسرائيل نے اکتوبر 2023 کی جنگ کی شروعات سے غزہ پٹی میں پانی منتقل کرنے والی تمام پائپ لائنوں کو بند کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ یہ بے قصور شہریوں کو مارنے کی ایک منظم سازش ہے۔ غزہ پٹی کے مظلوم لوگوں کے خلاف پانی کی جنگ اتنی واضح ہے کہ صیہونی میڈیا بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک صیہونی میڈیا 972+ نے "تل ابیب نے پانی کو غزہ میں عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار میں بدل دیا ہے" سرخی کے تحت ایک رپورٹ میں لکھا: "اسرائيل نے جنگ کی شروعات سے ہی غزہ پٹی کے فلسطینیوں کو صاف پانی سے محروم کر کے ایک ایسا بحران پیدا کر دیا ہے جس کی ہمیں کوئي نظیر نہیں ملتی۔ اسرائیل نے جنگ کے آغاز سے ہی اس اقدام کو اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے ایک اصل حکمت عملی کے طور پر ایجنڈے میں شامل کیا ہے۔"(2)
جنگ کی شروعات سے لے کر اب تک غزہ میں پانی کی سپلائي اور پانی کی نکاسی کے زیادہ تر انفراسٹرکچر کو جان بوجھ کر اپنے ہوائي حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ بجلی کی سپلائي کٹ جانا اور غزہ تک ایندھن نہ پہنچنے دینا بھی، پانی فلٹر کرنے والے یونٹس کے بند ہو جانے کا سبب رہا ہے۔(3) ان کارروائيوں نے غزہ کو، جو جنگ سے پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا کر رہا تھا، اب پانی کی کمی اور پانی کے خاتمے کے ایک ایسے بحران سے دوچار کر دیا ہے جس کی کوئي مثال نہیں ہے۔ صاف پانی کے ایک گلاس کے حصول کے لیے جنگ اور جدوجہد غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے روزمرہ کے کاموں میں سے ایک میں تبدیل ہو چکا ہے۔ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق پانی حاصل نہیں کر سکتے اور وہ تھوڑا سا پانی جو وہ لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر حاصل کرتے ہیں، اپنی انتہائي اہم ضرورتوں کے لیے، جن میں سب سے اوپر بچوں کی ضروریات ہیں، خرچ کرتے ہیں۔
غزہ شہر کے مغرب میں بے گھر لوگوں کے لیے بنائے گے ایک عارضی مرکز میں رہنے والی فلسطینی خاتون آلاء حمید، اس شہر میں صاف پانی کے بحران کی اس طرح منظر کشی کرتی ہیں: "حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی پوری فیملی کے لیے پانی حاصل نہیں کر سکتی۔ میں صرف اپنے بچوں کے لیے تھوڑا سا پانی حاصل کر پاتی ہوں۔ بڑے لوگ وہ پانی استعمال کرتے ہیں جو صاف نہیں ہوتا۔ ہم جانتے ہیں یہ کام ایسا رسک ہے جس کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے پاس اپنی زندگي بچانے کے لیے اس کے علاوہ کوئي آپشن نہیں ہے۔" ایک دوسری فلسطینی خاتون، آمنہ الحرتانی بھی، جو پانی کی قلت اور پانی کے خاتمے کی وجہ سے پیدا ہونے والی تشویش ناک صورتحال سے تنگ آ چکی ہیں، کہتی ہیں: "ہم ہر دن پانی کے ٹینکر کے پیچھے پیچھے اس سڑک سے اس سڑک پر جاتے ہیں اور پھر بھی ہمیں صاف پانی نہیں ملتا۔ پانی کی قلت، وہ سب سے بڑا بحران ہے، جس کا ہمیں سامنا ہے۔ پینے کے صاف پانی کا حصول ہمارے لیے بہت زیادہ مشقت آمیز کام ہے۔"(4)
سمندر کے پانی کا استعمال اور ناشناس بیماریاں
غزہ کے کنوؤں، پانی کی سپلائي اور نکاسی کے مراکز اور پائپ لائنوں کی تباہی کی طے شدہ پالیسی نے اس خطے کے لوگوں کو سمندر کے پانی کے استعمال پر مجبور کر دیا ہے۔ در حقیقت انھیں پیاس اور پانی کی قلت کے بحران سے بچنے کا واحد راستہ سمندر کے پانی میں نظر آیا۔ یہ وہ کام ہے جو بے گھر افراد انجام دیتے ہیں کیونکہ ایک گیلن پانی حاصل کرنے کے لیے بھی انھیں بہت زیادہ سختیاں اٹھانی پڑتی تھیں۔ البتہ پیاس سے بچنے کے لیے سمندر کے پانی کا استعمال، غزہ کے لوگوں خاص طور پر عورتوں اور بچوں کے لیے بہت سے برے نتائج بھی لایا اور ان میں سے زیادہ تر سمندر کا پانی استعمال کرنے کی وجہ سے جلد کی نامعلوم بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔(5)
اکرم سلطان، غزہ کے ان ہزاروں بے گھروں میں سے ایک ہیں جن پر اور جن کی فیملی پر پانی کی قلت کے بحران نے عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں: "ہم غزہ میں بدترین انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، وہ بھی ایسی حالت میں جب غاصب حکومت، عام شہریوں کے لیے جان بوجھ کر بحران پیدا کرتی جا رہی ہے۔ سمندر کا پانی آج بے گھروں کے لیے پانی کے بحران سے نجات کے واحد حل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بہت سے بے گھر کوشش کرتے ہیں کہ اپنے خیمے ساحل کے قریب نصب کریں تاکہ سمندر کے پانی تک رسائي رہے۔ ہم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔" بہرحال جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا، سمندر کے پانی کے استعمال نے غزہ کے لوگوں کو ناگوار حالات میں مبتلا کیا اور اب بھی کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک فلسطینی ڈاکٹر سائد محمود جو غزہ کے ایک چھوٹے سے میڈیکل سینٹر میں کام کرتے ہیں، کہتے ہیں: "آج ہمیں جس چیز کا سامنا ہے وہ غزہ میں فلسطینی بے گھروں کا بڑی تیزی سے جلدی امراض میں مبتلا ہونا ہے۔ ہمیں تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ صاف صفائي اور نہانے دھونے کے لیے ضروری مقدار میں پانی کی عدم دستیابی اور سمندر کے نمکین اور آلودہ پانی کا لگاتار استعمال، ان خطرناک جلدی امراض میں فلسطینیوں کے مبتلا ہونے کے اصل اسباب میں سے ایک ہے۔"(6)
پیاس کی جنگ، غزہ میں نسلی تصفیہ جاری رکھنے کا اسرائيل کا حربہ
جو چیز واضح طور پر دکھائي دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ اسرائيل، غزہ میں نسل کشی جاری رکھنے کے لیے "پیاس کی جنگ" کو ایک حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کے مراکز نے بھی اس تلخ حقیقت کی تصدیق کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ صیہونیوں نے جان بوجھ کر یہ حربہ اختیار کیا ہے۔(7) اس کے نتیجے میں اگر غزہ کے مظلوم عوام، آلودہ پانی استعمال کر کے موت کے چنگل سے نجات بھی پا جائیں تب بھی یقینی طور پر وہ جلد، سانس اور گردے کی مختلف قسم کی خطرناک بیماریوں سے بچ نہیں پائيں گے(8) اور ان کی مستقبل کی زندگي ان خطرناک اور ناشناس بیماریوں کی وجہ سے بہت سخت ہوگي جیسا کہ اس وقت بھی یہ چیز سامنے آ رہی ہے۔