بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
یقیناً آج کے زمانے میں جو بہترین کام کیے جا سکتے ہیں، ان میں سے ایک یہی آپ کا کام ہے جس کے لیے آپ آگے بڑھے ہیں۔ اس کا ثقافتی پہلو بھی ہے، سیاسی پہلو بھی ہے، انقلابی پہلو بھی، اس میں مستقبل پر نظر بھی ہے، انسانی و اخلاقی پہلو بھی ہے اور ان لوگوں کی قدر شناسی بھی ہے جنھوں نے اپنی جان قربان کر دی تاکہ ہم آج یہاں بیٹھ کر بے فکر ہو کر ایک دوسرے سے بات کر سکیں۔ بنابریں اس کام کے مختلف پہلو ہیں۔ آپ سب کا شکریہ، ان شاء اللہ آپ کامیاب رہیں۔
البتہ مقدس دفاع کے دوران، تہران شہر کے علاوہ صوبۂ تہران کی یونٹس کی مجاہدت ہمارے لیے عیاں ہے، یعنی یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جو ان لوگوں سے جو جنگ اور مقدس دفاع کے مسائل سے آگاہ ہیں، پنہاں رہ جائيں لیکن انھیں بتایا جانا چاہیے، لکھا جانا چاہیے، ٹھوس طریقے سے پیش کرنا چاہیے، آرٹ کی شکل میں انھیں دوہرایا جانا چاہیے، تجربے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اگر ایک حقیقت کو، وہ چاہے کتنی ہی روشن اور نمایاں ہو، دوہرایا نہ جائے تو وہ بھلا دی جائے گي، اور جب بھلا دی جائے گي تو بدخواہوں کو یہ موقع مل جائے گا کہ اس کی بالکل مخالف شکل یا تحریف شدہ شکل کو پھیلائیں یا بیان کریں۔ بنابریں یہ ایک ضروری کام ہے۔
تہران نے، شہر تہران اور صوبۂ تہران نے، مقدس دفاع کے زمانے میں اور مقدس دفاع کے بعد سے لے کر آج تک واقعی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر سید الشہداء ڈویژن نے کہ جس نے جنگ کے زمانے میں بڑی عظیم کوششیں اور کارہائے نمایاں انجام دیے، اس کے کمانڈروں نے، چاہے خود ڈویژن کے کمانڈر ہوں، چاہے اس کی بٹالینوں کے کمانڈر ہوں، جن میں سے بعض کے نام انھوں نے (2) لیے واقعی بڑے بڑے کام کیے، گرانقدر کام کیے۔ ضروری ہے کہ انھیں بیان کیا جائے، ان کی تشریح کی جائے تاکہ وہ باقی رہیں۔ اس سلسلے میں ہم اور زیادہ کام کر سکتے تھے۔ بتایا گيا کہ دستاویزات کو اکٹھا کیا گيا ہے، ان دستاویزات سے احسن طریقے سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ بیٹھ کر دیکھنا چاہیے کہ ان ہزاروں دستاویزات سے کس طرح تشریحی، تاریخی اور انقلابی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ کچھ گروہوں کو متعین کیا جائے کہ وہ ان پر کام کریں، ان سے استفادہ کریں تاکہ یہ دستاویزات یوں ہی نہ رہ جائيں۔ یہ خزانے کی طرح ہیں، کبھی خزانے کو باہر نکالا جاتا ہے اور کبھی خزانہ زمین کے اندر ہی رہ جاتا ہے، وہ خزانہ ہے لیکن اس کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔ اس خزانے کو باہر نکالا جانا چاہیے اور اس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔
یہ کام جو آپ لوگ کر رہے ہیں، اس کی ایک برکت یہ ہے کہ یہ اس علاقے اور خطے میں، جس کے بیان کا اہتمام آپ نے کیا ہے یعنی صوبۂ تہران یا شہر تہران میں، انقلاب کی توانائي اور انقلابی محرکات کے جاری رہنے کی عکاسی کرتا ہے۔ جب مقدس دفاع شروع ہوا تو بہت سے ایسے محرکات اور صلاحیتوں کو، جن کے سامنے آنے کے لیے کوئي پلیٹ فارم نہیں تھا، پلیٹ فارم حاصل ہو گيا۔ شاید اگر مقدس دفاع نہ ہوتا تو انقلاب کی پیشرفت کی صورتحال کچھ اور ہوتی۔ مقدس دفاع نے صلاحیتوں، استعدادوں، محرکات اور دلوں میں موجود عشق کو سامنے آنے کے لیے میدان عطا کیا۔ مقدس دفاع کے ختم ہونے کے بعد شاید بعض لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ معاملہ ختم ہو گيا لیکن نہیں ہوا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ مقدس دفاع کے خاتمے کے تقریبا پینتیس سال بعد بھی دیکھ رہے ہیں کہ آپ کا جوان مختلف طریقوں سے کوشش کر رہا ہے کہ خود کو صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ کے میدان میں یا داعش سے جنگ کے میدان میں جو سامراج، امریکا اور دوسروں کے پٹھو ہیں، پہنچائے اور وہ پہنچ جاتا ہے، یہ بہت اہم بات ہے۔ یا فرض کیجیے کہ کچھ برس پہلے تہران میں جو فتنہ کھڑا کیا گيا تھا، کون ان فتنوں کے مقابلے میں کھڑا ہوا؟ وہ جوان ہی تھے۔ ان جوانوں نے نہ جنگ دیکھی تھی، نہ امام خمینی کو دیکھا تھا لیکن وہ میدان میں آئے اور ان سبھی فتنوں کو ناکام بنا دیا۔ دشمن نے انقلاب کو اکھاڑ پھینکنے اور ملک و انقلاب کے سامنے مسائل کھڑے کرنے کے لیے جتنی چالیں سوچ رکھی تھیں، انھوں نے ان سبھی چالوں کو ناکام بنا دیا۔ سنہ 2009 کا فتنہ، اس سے پہلے، اس کے بعد جو کچھ ہوا، کس نے انھیں، ان فتنوں کو خاموش کیا؟ وہ یہی جوان تھے۔ چاہے رضاکار فورس کی شکل میں، سپاہ پاسداران کی شکل میں یا پولیس فورس کی شکل میں، وہ مختلف طرح سے میدان میں آئے اور کوشش کی، کام کیا۔ یہ مقدس دفاع کے زمانے کی مجاہدت کی برکت ہے، یعنی مقدس دفاع پرجوش لوگوں کے کام کے لیے ایک سرمشق بن گيا۔ اس کے علاوہ اس نے ملک کے اندر سے ملک کی سرحدوں سے باہر بھی یہ پیغام پہنچایا یعنی استقامت اور مزاحمت کا پیغام۔
آج بہت سے صاحبان رائے یہ بات مان رہے ہیں کہ یہ واقعات جو دنیا میں فلسطین کے حق میں آج کل رونما ہو رہے ہیں، ان میں سے اکثر کا سرچشمہ اسلامی انقلاب کی روح اور اسلامی جمہوریہ کی روح ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم احتیاط اور تکلف سے کام لیں اور کھل کر یہ بات نہ کہیں یا نہ کہہ سکیں لیکن دوسرے کھل کر یہ بات کہہ رہے ہیں۔ واضح الفاظ میں یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اور آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ دنیا میں جو یہ واقعات فلسطین کے حق میں سامنے آ رہے ہیں، یہ وہی باتیں ہیں جو ایرانی قوم کہہ چکی ہے، یہ وہی باتیں ہیں جو امام خمینی کہہ چکے ہیں، یہ وہی نعرے ہیں جو عوام کے دلوں سے نکلے اور ان کی زبان پر آئے اور بیان کیے گئے، آج علاقائي سطح پر اور عالمی سطح پر انھیں بیان کیا جا رہا ہے۔
آپ امریکی یونیورسٹیوں کو دیکھیے! میں نے سنا ہے کہ امریکا کی تقریباً 200 یونیورسٹیوں میں اسٹوڈنٹس کی یہ تحریک گرم ہے۔(3) یہ بہت اہم چیز ہے۔ وہ کام جو وہ لوگ ایران میں کرنا چاہ رہے تھے، وہ خود اس میں دوچار ہو گئے ہیں۔ اسٹوڈنٹ ایسا اقدام کرے، ایسا کام کرے کہ امریکا کی حکومت، امریکا کی پولیس اپنی تمام باتوں اور اپنے تمام نعروں کو پیروں تلے روندنے پر مجبور ہو جائے، لوگوں کی آنکھوں کی سامنے، کیمرے کے سامنے اور دنیا کے میڈیا کے سامنے نوجوان اسٹوڈنٹ کو روندے، بری طریقے سے پروفیسر کو اور اسٹوڈنٹ کو ہتھکڑی لگائے۔ ان لوگوں نے جو کام کیا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ یہ لوگ دکھاوے کو کنارے رکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور میدان میں آ گئے ہیں۔ دنیا میں ان کی فضیحت ہو گئی ہے، ان کی باتوں کو جھٹلایا جا رہا ہے، یہ سب بڑے اہم واقعات ہیں۔
یہ اسی حرکت کی بدولت ہے جو انقلاب کے آغاز میں امام خمینی کی مخلصانہ کوشش کی برکت سے شروع ہوئي۔ خداوند عالم ان شاء اللہ اس عظیم شخص کے درجات کو روز بروز بلند سے بلند تر کرے اور ان کا پرچم لہراتا رہے۔ امام خمینی واقعی ایک بے نظیر شخصیت تھے، بے بدیل شخصیت تھے۔ میں جتنا بھی سوچتا ہوں، اپنی طویل تاریخ میں مجھے کہیں بھی اس عظیم شخص کی کوئي بھی نظیر اور مثال دکھائي نہیں دیتی۔ ان کی جو معجز نما شخصیت تھی، وہ طاقت جو خداوند عالم نے ان کی روح میں اور ان کے ارادے میں رکھی تھی، ان کا ایمان، ان کا دلی ایمان، اس کے باہر کی جانب پھیل جانے اور لوگوں کے دلوں تک پہنچ جانے کا سرچشمہ بن جاتا تھا۔ آمَنَ الرَّسولُ بِما اُنزِلَ اِلَیہِ مِن رَبِّہِ وَالمُؤمِنونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللہِ وَمَلائِکَتِہ(4) اگر رسول مومن نہ ہوتے، ان کا گہرا ایمان نہ ہوتا تو مومنین میں اس طرح سے گہرا ایمان پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں بھی ایسا ہی تھا، ان کا ایمان تھا جو ایمانوں کو اس طرح گہرائي عطا کر رہا تھا۔
بہرحال یہ اچھا کام ہے، نمایاں کام ہے اور بحمد اللہ انقلاب کی حرکت نے اس جوش و جذبے کے ساتھ ہمارے ان جوانوں کو، تہران کے اطراف کے شہروں یعنی صوبۂ تہران کے انھی نمایاں لوگوں کو اس میدان پہنچایا، وہ جوش و جذبہ آج بھی موجود ہے۔
آپ نے دیکھا کہ پچھلے سال کے واقعات میں تہران کے جوانوں نے اپنا نام جاوداں بنا لیا، چاہے خود تہران میں یا پھر تہران کے اطراف کے بعض شہروں میں۔
ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم آپ سب کو کامیاب کرے گا، آپ کی تائید کرے گا اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ