جمعرات کی سہ پہر تھی اور میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں کہ دوست اور دشمن میڈیا پر تیزی سے سامنے آنے والی کچھ خبروں اور تصویروں نے میری آنکھوں سے نیند اڑا دی۔ میں ایسی خبر سن رہا تھا جس پر یقین کرنا میرے لیے ناممکن سا تھا۔ یحییٰ سنوار، وہ کمانڈر جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ غزہ کی سرنگوں میں اور کاغذ اور رمز آمیز تحریروں کے ذریعے صیہونیوں کے خلاف جنگ کی کمان سنبھالے ہوئے تھے اور کوئي بھی ان کے ٹھکانے کے بارے میں نہیں جانتا تھا، اپنے دو مجاہد ساتھیوں کے ساتھ رفح کے ایک گھر اور دشمن کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ کے بعد شہید ہو گئے ہیں۔ ایسا لگا جیسے میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ حماس نے ابھی اس خبر کی باضابطہ طور پر تصدیق نہیں کی تھی اور شاید میرا دل بھی یہ بات ماننا نہیں چاہتا تھا کہ خود اعلیٰ کمانڈر میدان جنگ کے بیچ میں تھا۔ پتہ نہیں شاید میں غصے میں تھا کہ کیوں ان کے سلسلے میں سیکورٹی پروٹوکولز کا خیال نہیں رکھا گيا تھا۔ اسی وقت میں خبروں میں پڑھ رہا تھا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے ہی یحییٰ سنوار کا طریقۂ کار یہی تھا اور وہ خود ہی مختلف محاذوں پر قریب سے سپہ سالاری کے فرائض انجام دیتے تھے۔ یہیں پر مجھے محسوس ہوا کہ شاید دشمن میڈیا نے اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے مزاحمت کے اعلیٰ کمانڈر کی شبیہ کو میرے ذہن میں صیہونی اور امریکی کمانڈروں کی طرح بنا دیا تھا کہ جو حملے کے وقت اپنے انڈر گراؤنڈ کمروں سے جنگ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اسی لمحے تاریخ گویا میری نظروں کے سامنے سے گزر رہی تھی یا یہ شہید کا خون تھا جو اس جہاد کی حقیقت پر سے دشمن کی نفسیاتی جنگ کے گرد و غبار کو دور کر رہا تھا۔ مجھے یاد آيا کہ مزاحمتی تحریک کے آغاز سے ہی یہاں تک کہ ایران میں جنگ کے برسوں میں بھی ہمارے بڑے کمانڈروں جیسے شہید الحاج قاسم سلیمانی کا طریقۂ کار کبھی بھی یہ نہیں رہا ہے۔
12 ستمبر 1997 کو، ان دنوں جب جنوبی لبنان ابھی صیہونیوں کے غاصبانہ قبضے میں ہی تھا، حزب اللہ کے مجاہدین نے ان کے خلاف ایک آپریشن کیا۔ اس آپریشن میں حزب اللہ کے دو مجاہد شہید ہوئے اور اسرائيلی فوج نے اس سے تشہیراتی فائدہ اٹھانے کے لیے بڑی تیزی سے ان شہیدوں کی خون آلود لاش کی فلم بنائي اور اسے ٹی وی پر نشر کر دیا۔ بہت جلد یہ بات کنفرم ہو گئي کہ ان دو شہیدوں میں سے ایک حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے بیٹے سید ہادی ہیں۔ اس خبر نے لبنانی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا اور اس نے بڑی اہم تبدیلی پیدا کی۔ لبنان کی تاریخ میں، چاہے وہ خانہ جنگي کا زمانہ ہو یا اسرائيلی فوجی جارحیت سے مقابلے کا زمانہ ہو، کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کسی سیاسی یا نیم فوجی گروہ کے کسی رہنما کا بیٹا، لڑتا ہوا مارا گيا ہو۔
سید حسن نصر اللہ جب لوگوں سے اسرائيل کے مقابلے میں مزاحمت کی ضرورت کے بارے میں بات کر رہے تھے تو انھوں نے خود اپنے بیٹے کو اس حکومت سے لڑنے کے لیے میدان جنگ میں بھیج دیا تھا۔ یہ وہی امامت تھی جس کے بارے میں شہید قاسم سلیمانی بات کیا کرتے تھے۔
فلسطین میں مزاحمت کے بانی اور بڑے رہنما شیخ احمد یاسین اور عبد العزیز الرنتیسی ایسے عالم میں مزاحمت کی بات کرتے تھے جب وہ خود حملوں کا پہلا نشانہ تھے اور اس کے باوجود عام لوگوں کی طرح ہی غزہ کی سڑکوں، مسجدوں اور محلّوں میں آمد و رفت کیا کرتے تھے۔
صیہونی دشمن بھی ہمیشہ اس آئيڈیل کی شبیہ بگاڑنے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے ہی صیہونی حکومت نے بارہا کوشش کی کہ غزہ اور لبنان کے عوام کے ذہن میں یہ بات ڈال دے کہ مزاحمتی محاذ نے عام لوگوں کو ڈھال بنا رکھا ہے، اپنے اہل خانہ کو جنگي علاقے سے باہر نکال دیا ہے اور اس انسانی ڈھال کے پیچھے سے لوگوں کی سختیوں سے سیاسی اور معاشی فائدہ اٹھا رہا ہے تاہم وقت نے یہ دکھا دیا کہ مزاحمت کے کمانڈر انسانی ڈھال نہیں بناتے بلکہ وہ خود انسانیت کی ڈھال ہیں۔
10 اپریل 2024 کو صیہونی حکومت نے شمالی غزہ میں اس گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں حماس کے پولت بیورو کے چیف اسماعیل ہنیہ کے بیٹے سوار تھے۔ یہ خبر ایک بہت بڑا پیغام لیے ہوئے تھی: مزاحمت کے رہنما کے بیٹے شمالی غزہ میں شدید بمباری کے دوران عام لوگوں کی طرح رہ رہے تھے۔
کچھ مہینے بعد خود اسماعیل ہنیہ صیہونی حکومت کی دہشت گردانہ کارروائي کا نشانہ بنے۔ وہ ایسے عالم میں شہید ہوئے کہ کچھ مہینے سے غزہ کا محاصرہ ختم کرانے اور وہاں جنگ بندی کے لیے دن رات کوشش کر رہے تھے۔
کچھ ہفتے بعد صیہونی حکومت نے، جو لبنان میں ایک نیا محاذ کھولنے کے لیے کوشاں تھی، بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ پر ہوائي حملے شروع کر دیے۔ بمباری شروع ہوتے ہی حزب اللہ نے اس علاقے سے عام لوگوں کو باہر نکالنا اور انھیں پرامن جگہوں پر منتقل کرنا شروع کر دیا۔ ٹھیک اس وقت جب دشمن لوگوں کے بے گھر ہونے کا ذمہ دار مزاحمت اور لبنان میں اس کے رہنما یعنی سید حسن نصر اللہ کو ٹھہرانے کی کوشش میں تھا، ضاحیہ میں ان کی شہادت کی خبر سامنے آئي۔ وہ ضاحیہ میں ہی رکے ہوئے تھے تاکہ وہاں کے آخری انسان کو بھی دشمن کی بمباری سے دور لے جا سکیں۔ لبنان کی مزاحمت کے امام نے عوام کو بمباری سے نجات دلائي اور خود اپنے معبود حقیقی کے پاس پہنچ گئے۔
مزاحمتی محاذ کے مجاہدوں کی امامت کا آخری منظر کچھ دن پہلے غزہ میں دکھائي دیا۔ یحییٰ سنوار، جو آوارہ وطنوں کے کیمپ میں پیدا ہوئے، غاصبانہ قبضے میں آئے ہوئے غزہ میں تعلیم حاصل کی، نوجوانی میں مزاحمتی محاذ میں شامل ہوئے اور اسی وجہ سے گرفتار کیے گئے اور انھیں عمر قید کی سزا سنائي گئي، انھوں نے اپنی زندگي کے 23 سال صیہونیوں کی جیل میں گزارے اور رہائي کے بعد اپنے عزم اور ذہانت سے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی بنیاد رکھی اور رفح کے محاصرے میں آئے ہوئے تل السلطان علاقے میں صیہونی ٹینکوں کے خلاف چھپ کر کی جانے والی کارروائي کے دوروان شہید ہوئے۔ صیہونی حکومت نے سنہ 1987 کی طرح بڑی جلد بازی میں ان کی شہادت کی ویڈیو نشر کی لیکن وہ بھول گئی کہ کچھ ہی مہینے پہلے اس نے اپنے میڈیا میں کہا تھا کہ سنوار اپنے اطراف انسانی ڈھال بنا کر غزہ کی زیر زمین سرنگوں میں ہے اور ایک محفوظ جگہ سے غزہ کے لوگوں کے مارے جانے کی خبریں دیکھتا رہتا ہے۔
شاید ہم آج تک اس بات کی وجہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ فلسطین کے بہادر جوان تمام تر سختیوں اور مصائب کے باوجود ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کو پیٹھ کیوں نہیں دکھاتے لیکن اب پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہی باتیں ہیں جو مزاحمت کو زندہ رکھتی ہیں۔ سب سے بڑے کمانڈر بھی دیگر مجاہدین کی طرح میدان جنگ میں لڑتے ہیں اور تحریک کو پیسے اور طاقت سے نہیں بلکہ اپنے خون اور ایمان سے سینچتے ہیں۔ مزاحمت زندہ ہے اور زندہ رہے گي کیونکہ پورے فلسطین میں مزاحمت کے کمانڈر، غرب اردن میں نوجوان ابو جہاد سے لے کر غزہ میں شیخ یحییٰ سنوار تک، لوگوں کے درمیان سے آئے ہیں، ان کے ساتھ مل کر لڑتے ہیں اور مزاحمت کرنے والی اپنی قوم کو زندگي کے معنی سکھاتے ہیں کہ "ان الجہاد؛ نصر او استشھاد" جہاد، یا تو فتح ہے یا پھر شہادت ہے۔