غزہ وہ جگہ ہے، جہاں یہ تحریف شدہ تصویر چکناچور ہو جاتی ہے، غزہ وہ جگہ ہے جہاں مسلمان خواتین نہ صرف صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیت اور نسل کشی کے سامنے ڈٹی ہوئي ہیں بلکہ انھوں نے مغربی طاقتوں کی جانب سے پیش کی جانے والی حقارت آمیز شبیہ پر بھی خط بطلان کھینچ دیا ہے۔ پچھلے پندرہ مہینوں میں یہ خواتین، استقامت، مزاحمت اور حق پر ایمان(1) کے ایک مظہر میں تبدیل ہو گئي  ہیں۔

7 اکتوبر کے بعد صیہونی حکومت نے غزہ پر جو خونبار جنگ مسلط کی، اس میں غاصبانہ قبضے کے تمام برسوں کی طرح تکلیف و تباہی کے پرآشوب میدان میں اور مسلسل مصائب کے دوران غزہ کی مسلمان خواتین نے لگاتار مزاحمت کی حقیقت کی گواہی دی ہے۔ ان عورتوں کی شجاعت صرف گولیوں اور بموں کے جواب میں نہیں رہی بلکہ وہ ان جھوٹے پروپیگنڈوں، تحریف اور غلط شبیہ کے خلاف ایک ناقابل انکار دلیل تھی جن میں انھیں کمزور، شکست خوردہ اور پسماندہ دکھایا جاتا رہا ہے۔

مغرب کی جانب سے مسلمان خواتین کے بارے میں جو اکثریتی رائے ہے وہ نام نہاد مستشرقین کی روایتوں سے متاثر ہے جن میں مسلمان خواتین کو ہمیشہ ظلم و ستم کی چکی میں پستے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ اس سوچ کے مطابق ان خواتین کی کوئي کارکردگي نہیں ہے اور ایک مذہبی معاشرے میں مرد ان کی سرکوبی کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح کی شبیہ پیش کرنے سے جنگي پروپیگنڈوں کی راہ ہموار ہو جاتی ہے اور آزادی کے نام پر سامراجی مداخلت کا راستہ کھل جاتا ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ آزادی ہمیشہ قوموں پر بمباری، پابندیوں، تباہی اور بربادی کی شکل میں ہی پہنچتی ہے۔

غزہ کی خواتین کی سچائی یہ ہے کہ وہ مزاحمت اور غزہ کی بقا کی ستون ہیں۔ چاہے وہ وقت ہو جب فضائي حملوں کے وقت وہ اپنی جان دے کر اپنے بچوں کی ڈھال بن جاتی تھیں اور چاہے وہ وقت ہو جب شدید غذائي قلت اور بے تحاشا تباہی کے دوران وہ نرس اور ٹیچر کے رول میں اپنے دردمند ہموطنوں کو امید اور اطمینان کا پیغام دے رہی تھیں، یا پھر وہ وقت ہو جب اپنے عزیزوں اور جگر گوشوں کے داغ اٹھانے کے دوران وہ اللہ اکبر اور حسبی اللہ کے نعرے بلند کر رہی تھیں، غزہ کی عورتیں ایمان اور صبر کا مکمل مرقع ہیں۔ اپنے ان شوہروں کا داغ اٹھانے والی غزہ کی بہادر خواتین نے، جنھیں مغرب ہمیشہ تشدد پسند اور جلاد بتا کر اپنے اسلام مخالف کارٹونوں میں استعمال کرتا رہا ہے اور غیر منصفانہ فیصلے کرتا رہا ہے، اپنے صبر، اطمینان اور امید کے ذریعے آزادی، غاصب کی نابودی، گھروں کی تعمیر نو اور زندگي جاری رہنے کے سلسلے میں غزہ کے بچوں کے خوابوں کو مضبوط بنایا تھا۔(2)

یہ خواتین جو پوری تاریخ میں بچوں کے سب سے بڑے قتل عام کی داغ دیدہ ہیں، ناقابل بیان شجاعت کے ساتھ ببانگ دہل اعلان کر رہی تھیں کہ "ہم صبر سے کام لیں گے اور جب تک مزاحمت کے رہنما ہم سے چاہیں گے، ہم استقامت سے کام لیں گے۔"(3) غزہ کی خواتین کی طاقت کا اصل منبع، ایمان تھا۔ ایمان انھیں یکجہتی اور ہدف عطا کر رہا تھا۔

اجتماعی طور پر قرآن مجید کی قرائت اور حفظ، بے گھروں کے خیموں میں یا تباہ شدہ گھر کے ملبوں پر قرآن کی کلاسز، بمباری کے وقت ذکر اور دعائيں اور مسجد کے طور پر بپا کیے گئے خیموں میں اجتماع ان کے جذبے کو مزید مضبوط بناتا تھا۔ مصیبت پر صبر، ظلم کے خلاف مزاحمت جیسے اسلامی اقدار نے غزہ کی عورتوں کو غاصبوں کی جانب سے روا رکھے جانے والے تشدد کو برداشت کرنے کی طاقت اور ذہنی و نفسیاتی مضبوطی عطا کی۔ امام خامنہ ای کے بقول غزہ کی عورتوں اور عوام نے اپنے اسی صبر کے ذریعے "انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔"(4)

مغربی میڈیا کبھی بھی انسان کے ایمان اور استقامت کے درمیان پائے جانے والے گہرے رشتے کو تسلیم نہیں کرے گا اور اپنے مفادات کے تناظر میں بدستور مسلمان خواتین کی افادیت اور سرگرمی کا انکار کرتا رہے گا کیونکہ اگر غزہ کی خواتین کا کلیدی کردار دنیا کے سامنے آ گیا تو "مغربی نجات دہندہ" کے سلسلے میں اس کی قلعی کھل جائے گا۔ مغرب کا نفاق اس وقت بخوبی عیاں ہو جاتا ہے جب وہ امتیازی رویہ اختیار کرتے ہوئے صرف اسی وقت مسلمان خواتین کے حقوق کی حمایت کی بات کرتا ہے جب یہ چیز اس کے سامراجی اہداف کے حق میں ہو۔ غزہ کی خواتین مختلف طرح کے مظالم پر غلبے کا مظہر ہیں۔ صیہونی حکومت کی جانب سے غزہ کے لوگوں کے محاصرے، انھیں بے گھر کرنے اور ان کا قتل عام کرنے کے باوجود غزہ کی خواتین بدستور ڈٹی ہوئي ہیں۔ ان کی یہ استقامت، پسپائي نہیں بلکہ بھرپور عمل اور تندہی کا مظہر ہے۔ وہ مزاحمت کرتی ہیں، بچوں کی بہترین پرورش کرتی ہیں اور دلوں میں امید کی لو جگائے رکھتی ہیں۔ یہ فتح کی تجلی ہے، دشمن کے مقابلے میں بھی فتح اور مغرب کی جانب سے ان کی غلط شبیہ پیش کرنے کی کوشش کے مقابلے میں بھی فتح۔

غزہ کی خواتین کی جدوجہد ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں صحیح بات پیش کرنے کی کتنی اہمیت ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں میڈیا، سامراجی طاقتوں کی خدمت میں بندۂ بے دام بنا ہوا ہے، ایسی آوازوں کی تقویت حیاتی اہمیت رکھتی ہے جو موجودہ حالات کو چیلنج کرتی ہیں۔ غزہ کی خواتین ان سبھی لوگوں کے لیے نمونۂ ہیں جنھوں نے سامراجیوں کے خلاف مزاحمت کی ہے اور جو انسانی عزت نفس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

غزہ کی خواتین، جنگ بندی کے ان دنوں میں جہاں مجاہدوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے جلوسوں اور اجتماعات میں حصہ لے رہی ہیں، وہیں وہ ان جھوٹی افواہوں کو بھی طشت از بام کر رہی ہیں جو ان کے سلسلے میں کہی گئی ہیں۔ اب وقت آ گيا ہے کہ دنیا، ان خواتین کو اسی طرح پہچانے، جس طرح وہ ہیں، انھیں مغربی نجات دہندہ کی منتظر قربانیوں کی حیثیت سے نہیں بلکہ مومن اور باعفت دلیر خواتین کے طور پر پہچانے۔

 

  1. Haqq: The Truth, The Right
  2. https://fa.alalam.ir/news/6732958
  3. https://tn.ai/3129160
  4. https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=54271