انھوں نے زور دے کر کہا کہ اگر اس عظیم معجزے سے فائدہ اٹھایا گيا تو انسان کی تمام مشکلات دور ہو جائيں گي اور انسانی معاشروں کی زندگی بہتر ہو جائے گي۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قرآنی اور نبوی اعجاز کے جاری رہنے کو انسان اور عالم وجود کے لیے ایک عظیم برکت بتایا اور کہا کہ جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کی تلاوت کرتے ہیں تو اس بات پر پوری توجہ رہنی چاہیے کہ ہم ختم المرسلین کے معجزے کے روبرو ہیں۔
انھوں نے توکل کے سلسلے میں قرآنی مفہوم کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید کے مطابق جو بھی اللہ پر توکل کرے، اللہ اس کے لیے کافی ہے بنابریں اگر توکل کی شرطوں کی پابندی کی جائے تو یہ وعدۂ الہی یقینی طور پر عملی جامہ پہنے گا۔
آيت اللہ خامنہ ای نے اللہ کے سچے وعدوں پر بھروسے اور یقین کو توکل کی ذہنی شرط بتایا اور کہا کہ بغیر کسی بدگمانی کے اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ کی اجازت سے ہر ناممکن کام، ممکن ہو جائے گا۔
انھوں نے صیہونی حکومت اور امریکی حکومت پر غزہ کے عوام کی فتح کو، ناممکن کام کے عملی جامہ پہننے کی ایک مثال بتایا اور کہا کہ اگر کہا جاتا کہ غزہ کے چھوٹے سے علاقے کے لوگ امریکا جیسی بڑی طاقت سے لڑیں گے اور اس پر فتح حاصل کر لیں گے تو کوئي بھی یقین نہیں کرتا لیکن یہ ناممکن کام، اللہ کی اجازت سے ممکن ہو گیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قرآن مجید کی اس آيت "جو بھی اللہ پر توکل کرے، اللہ اس کے لیے کافی ہے" کے عملی جامہ پہننے کی دوسری شرط، میدان عمل میں حاضری کو بتایا اور کہا کہ خداوند عالم نے ہر کام میں ایک حصہ، انسان کے ذمے رکھا ہے اور اگر پروردگار کے وعدوں پر قلبی یقین کے ساتھ ان ذمہ داریوں کو بھی پورا کیا جائے تو یقینی طور پر ہر کام، چاہے وہ ناممکن ہی کیوں نہ ہو، ممکن ہو جائے گا۔
انھوں نے نہ صرف ایرانی قوم بلکہ دنیا کی بہت سی اقوام کے ساتھ سامراج کے ٹکراؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسری قوموں اور ایرانی قوم میں فرق یہ ہے کہ ایرانی قوم میں یہ حقیقت بیان کرنے کی ہمت ہے کہ امریکا جارح، جھوٹا، فریبی اور سامراجی ہےاور وہ کسی بھی انسانی اصول کا پابند نہیں ہے اور اسی لیے وہ امریکا مردہ باد کہتی ہے لیکن دوسروں میں ان حقائق کو بیان کرنے، امریکا کے سامنے کھڑے ہونے اور سامراج سے مقابلے میں اپنے حصے کی ذمہ داری کو ادا کرنے کی ہمت نہیں ہے اور اسی لیے وہ نتیجہ بھی حاصل نہیں کر پاتیں۔
آيت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں دنیا کے تمام مستکبرین کی صف آرائي کے مقابلے میں ایرانی قوم کی پچھلی چھیالیس سال سے جاری مجاہدت، صبر اور کوششوں کو ہر پہلو سے ملک کی ترقی و پیشرفت کا سبب بتایا اور کہا کہ ایرانی قوم کو اس ٹکراؤ میں نہ صرف یہ کہ کاری ضرب نہیں لگی بلکہ اس نے تمام میدانوں میں ترقی و پیشرفت بھی کی۔
انھوں نے پورے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں کم عمر اور نوجوان قاریوں اور حافظوں کی پرورش کو ملک کی معنوی پیشرفتوں کی ایک مثال بتایا اور کہا کہ ملک نے مادی پہلوؤں سے بھی ترقی کی ہے اور جوانوں کے ہاتھوں مختلف اور بڑے بڑے کام انجام پائے ہیں اور یہ پیشرفت، اللہ پر توکل کرتے ہوئے اوج تک اور مطلوبہ مقام تک پہنچنے تک جاری رہے گي۔
اس ملاقات کے آغاز میں مشہد مقدس میں منعقد ہونے والے قرآن مجید کے حالیہ بین الاقوامی مقابلوں کے بعض شرکاء اور بعض ممتاز اور کم عمر قاریوں نے قرآن مجید کی تلاوت کی اور اجتماعی طور پر دعائيں پڑھیں۔