بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدّین.
بہت خوش ہوں اور خدا کا شکرگزار ہوں کہ ایک بار پھر اس حسینیے میں باوقار، شیریں اور اچھی محفل قرآن کی توفیق حاصل ہوئی۔ ان قرآنی مقابلوں کے لئے جناب آقای خاموشی اور ادارہ اوقاف کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ الحمد للہ ملک میں،مختلف شکلوں میں تسلسل کے ساتھ ترویج قرآن کریم کا کام انجام پا رہا ہے۔ میلاد حضرت ابا عبدالحسین (علیہ الصلواۃ والسلام) کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید ہے کہ خداوند عالم ہمیں آپ کے اور اس محترم خانوادے کے پیرؤوں ميں شمار فرمائے گا۔
قرآن مجید کے بارے میں ہمارے بزرگوں اور علمائے کرام نے ہزاروں بامعنی اور شیریں نکات بیان کئے ہیں اور ہزاروں نکات ایسے ہیں جو ابھی تک بیان نہیں کئے گئے۔ قرآن کے بارے جتنا بھی کہا جائے، اوج فضیلت قرآن اور اس مقدس آسمانی کتاب کے اہمیت کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ آج میں صرف ایک نکتہ بیان کروں گا اور امید ہے کہ حاضرین کرام اور اس تقریر کو سننے والے اس نکتے پر متوجہ ہوں گے اور توجہ رکھیں گے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ ہم جب بھی قرآن کھولیں تو اس بات پر توجہ رکھیں کہ قرآن معجزہ پیغمبر ہے۔ قرآن معجزہ ہے۔ یعنی خداوند عالم نے قرآن کے ذریعے نبوت پیغمبر اسلام کو ثابت کیا ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے۔ قرآن معجزہ خدا ہے۔ دیگر انبیا کے معجزے سے، اس معجزے کا فرق یہ ہے کہ وہ معجزات ان انبیا کے دور اور اس زمانے کے عوام کے لئے تھے۔ ناقہ حضرت صالح کو صرف اس دور کے لوگوں نے دیکھا، عصائے موسی کو ان کے زمانے کے لوگوں نے دیکھا، بعد والوں نے صرف سنا ہے۔ لیکن ہمارے پیغمبر کا معجزہ تاریخ ميں ہمیشہ، آنے والے ہزاروں برس بھی لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ معجزہ پیغمبر اور اعجاز قرآن کا یہ تسلسل اور دوام عالم انسانیت کے لئے، عالم وجود کے لئے، برکت عظیم ہے۔
قرآن کی ہر بات معجزہ ہے۔ لفظ قرآن معجزہ ہے، نظم قرآن معجزہ ہے، مفاہیم قرآن معجزہ ہیں، قرآن ماضی اور مستقبل کی جو خبر دیتا ہے وہ معجزہ ہے، قرآن عالم وجود کی جو روایتیں نقل کرتا ہے، وہ معجزہ ہے، باطن انسان کی جو خبر دیتا ہے، وہ معجزہ ہے۔ قرآن کی ہر بات معجزہ ہے۔ ہمیں اس عظیم معجزے سے استفادہ کرنا چاہئے، فائدہ اٹھانا چاہئے۔ قرآن سے فائدہ اٹھائيں تو انسان کی زندگی سدھر جائے گی اور ساری مشکلات دور ہو جائيں گی۔ انسانوں کے لئے قرآن کے درس، قابل عمل اور قابل تجربہ ہیں۔ یہ قرآن کی ان اعلی تعلیمات سے الگ ہے جو صرف عظیم ہستیوں، اولیائے کرام اور مقربین خدا کے لئے ہیں اور وہاں تک صرف انہیں کی دسترسی ممکن ہے۔ میں جو باتیں عرض کر رہا ہوں، ان سے مراد یہ ظواہر قرآن ہیں، یہ الفاظ ہیں جنہں ہم سب سمجھتے ہیں، یہ "و لقد یسّرنا القران للذّکر فھل من مدّکر" (2) ہے۔ افراد بشر ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ قرآن کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں۔
میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ اس مثال سے قرآن کے طریقہ بیان پر توجہ فرمائيں۔ مثال کے طور پر قرآن فرماتا ہے: " ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ۔"(3) اگر خدا پر توکل کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر بھروسہ اور اعتماد کیا۔ خدا آپ کے لئے کافی ہے اور آپ کو اپنے مقصود تک پہنچنے کے لئے اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے وسیلے اور عامل کی ضرورت نہيں ہے۔ یہ ایک اہم اور کلّی درس ہے۔ لیکن اس پر غور و فکر ضروری ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے کہ "اگر ہم نے خدا پر توکل کیا تو پھر ہمیں کسی دوسرے وسیلے اور عامل کی ضرورت نہیں ہے"؟ کن حالات میں، کس صورتحال میں یہ مسلمہ اور یقینی حقیقت عمل ميں ظاہر ہوگی؟ اس کو خود قرآن سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ یہ قرآن ہمارے لئے بیان کرتا ہے۔ خدا پر توکل اور اس کے موثر ہونے کے لئے ایک ذہنی اور ایک عملی شرط ہے۔ اگر یہ دونوں شرطیں پوری ہو گئيں تو "و من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ" پھر کسی دوسرے عامل کے محتاج نہیں رہیں گے۔
ان دونوں شرطوں میں سے ایک شرط ذہنی ہے۔ ذہنی شرط کیا ہے؟ شرط ذہنی یہ ہے کہ آپ وعدہ الہی کے سچا ہونے پر یقین رکھیں۔ "ومن اصدق من اللہ قیلا"(4) اس پر یقین رکھیں۔ یقین رکھیں کہ خدا کا وعدہ سچا اور پکا ہے۔ یہ توکل کی ذہنی شرط ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو توکل ہوگا ہی نہيں۔ لہذا ملاحظہ فرمائيں کہ خداوند عالم ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس سے بدگمانی رکھتے ہیں:" اَلظّانّینَ بِاللہ ظَنَّ السَّوءِ عَلَیھم دائِرَة السَّوءِ وَ غَضِبَ اللہ عَلَیھم وَ لَعَنھم وَ اَعَدَّ لھم جھنَّمَ وَ ساءَت مَصیراً" (5) یعنی وعدہ الہی کے تعلق سے بدگمانی نہیں ہونی چاہئے۔ یقین رکھنا چاہئے کہ "و لینصرنّ اللہ من ینصرہ" (6) صحیح ہے، یہ یقین رکھیں۔ یہ ذہنی شرط ہے۔
میں نے یہاں ایک بات نوٹ کی ہے، اس کا اضافہ کروں گا کہ اس شرط ذہنی ميں یقین رکھیں کہ اذن خدا سے محال بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ وہ بات ہماری نظر میں محال ہے، وہ ممکن ہو جاتی ہے۔ اس کا یقین رکھیں۔ بہت سی باتیں عالم وجود ميں، ہماری زندگی میں محال سمجھی جاتی ہیں۔ مثلا مردہ کا زندہ ہونا محال ہے۔ یقین رکھیں کہ آذن خدا سے، اگر خدا اجازت دے اور ارادہ فرمائے تو یہ محال ممکن ہو جاتا ہے، واقع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں ایک جگہ حضرت عیسی کی زبانی اور ایک جگہ خود خداوندعالم کے قول سے، (7) ہمارے لئے نقل کیا گیا ہے : "اَنّی اَخلُقُ لَکُم مِنَ الطّینِ کھیۃ الطَّیرِ فَاَنفُخُ فیہ فَیَکونُ طَیراً بِاِذنِ اللہ"۔ مٹی سے ایک حیوان، کبوتر، ایک پرندے کا مجسمہ بناؤں گا پھر اس میں پھونکوں گا اور وہ کبوتر بن جائے گا۔ یہ محال نہیں ہے؟ لیکن اذن خدا سے یہ محال ممکن ہو جاتا ہے۔ "و اُبرِئُ الاَکمہ وَ الاَبرَصَ وَ اُحییِ المَوتیٰ بِاِذنِ اللہ" (8) "اکمہ" یعنی پیدائشی اندھا۔ اذن خدا سے پیدائشی اندھے کو بینا اور مردے کو زندہ کر دیتا ہوں۔ یہ ہے۔ اس پر یقین ہونا چاہئے کہ اذن خدا سے وہ باتیں جو دنیا میں محال ہیں، اور جن کا ہونا ہماری نظر میں ممکن نہیں ہے، وہ بھی ہو جاتی ہیں۔ اس آیہ کریمہ کے مطابق کہ" کَم مِن فِئۃ قَلیلۃٍ غَلَبَت فِئَۃ کَثیرَة بِاِذنِ اللہ" (9) اذن خدا سے ایک تھوڑے سے لوگ بہت زیادہ لوگوں پر غلبہ پا لیتے ہیں۔ اذن خدا سے یہ ہوتا ہے۔ " فھزمو ھم باذن اللہ"۔ (10) طالوت کے زمانے میں ایک چھوٹی سی جماعت نے ایک بہت قوی دشمن پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اذن خدا سے غزہ صیہونی حکومت اور امریکا کو مغلوب کر لیتا ہے۔ یہ ہوتا ہے اذن خدا سے۔ یہ محال نہیں تھا؟ اگر آپ سے کہا جاتا کہ یہ چھوٹا سا ایک بالشت کا غزہ، امریکا جیسی بڑی طاقت سے ٹکرائے گا، اس سے ٹکر لے گا اور دونوں میں جنگ ہوگی اور غزہ اس کو مغلوب کر لے گا تو آپ یقین کرتے؟ یقین نہ کرتے۔ یہ محال ہے۔ لیکن اذن خدا سے یہ کام بھی ممکن ہے۔ یہ ذہنی شرط لازم ہے۔ یعنی یہ جان لیں کہ دنیا کے سبھی محالات، اذن خدا سے ممکن ہو سکتے ہیں۔ ذہنی شرط یہ ہے۔
دوسری شرط، شرط عملی ہے۔ شرط عملی یہ ہے کہ خداوند عالم اس واقعے، یعنی اس محال کو ممکن بنانے کے لئے، اس کا ایک حصہ خود انسان کے سپرد کرتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا ہے کہ ہم گھر کے اندر بیٹھیں اور کہیں کہ "کَم مِن فِئۃ قَلیلۃٍ غَلَبَت فِئَۃ کَثیرَة بِاِذنِ اللہ" جی نہیں۔ بلکہ اس کام کا ایک حصہ خود ہمارے ذمہ ہے۔ جیسا کہ حضرت عیسی کے معاملے میں کام کا ایک حصہ یعنی مٹی سے پرندہ بنانا خود حضرت عیسی کے ذمے تھا۔ یہ کام حضرت عیسی (علیہ السلام) کو کرنا تھا۔ اگر نہ کرتے تو کوئی پرندہ وجود میں نہ آتا۔ یہ کام خود ان کے ذمہ تھا۔ اگر حضرت موسی (علیہ السلام) زمین پر عصا کو نہ مارتے تو وہ واقعہ نہ ہوتا: "و ما تلک بیمینک یا موسی* قال ھی عصای، آتوکّؤ علیھا واھش بھا علی غنمی ولی فیھا مآرب اخری * قال القھا یاموسی* فالقاھا فاذا ھی حیّۃ تسعی" (11) " القھا" لازم ہے۔ خدا نے فرمایا کہ عصا کو زمین پر پھینکو، جب عصا کو زمین پر پھینکو گے تو نتیجہ ملے گا۔ معجزہ ہوگا۔ تو یہ عملی شرط ہے۔ کام کا ایک حصہ خود ہمیں کرنا ہوگا۔ "و ان یکم منکم عشرون صابرون یغلبوا مئتین۔ (12) یہ قرآن نقل فرماتا ہے کہ یہ فرائض جو صدر اول یعنی ابتدائی دور کے مسلمانوں کے ذمے تھے، اگر اسی طرح عمل کریں تو آپ بھی بہت سوں پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔
ہم ایرانی قوم، ہم امت اسلامیہ، ہم انسانی برادری کے لوگوں کے سامنے ایسی مشکلات ہیں کہ ان میں سے بعض ناقابل حل نظر آتی ہیں۔ ان کا حل یہی ہے۔ "و من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ" خدا پر ان دونوں شرائط کے ساتھ توکل کریں، اول اعتماد اور یقین رکھیں کہ میدان میں اتریں گے تو خدا ہماری مدد کرے گا۔ دوسرے میدان ميں اتریں:" فاذا دخلتموہ فانّکم غالبون" (13) خداوند عالم نے حضرت موسی (علیہ السلام) کے ساتھیوں سے فرمایا کہ جاؤ اس شہر میں داخل ہو جاؤ، اگر داخل ہوئے تو" فانّکم غالبون" لیکن وہ شہر میں داخل نہيں ہوئے تو غالب بھی نہيں ہوئے۔ جو آپ کے ذمہ ہے اگر آپ نے وہ انجام دیا تو یقینا نتیجہ حاصل ہوگا اور خداوند عالم اپنے وعدے پر عمل کرے گا۔
آج ہمیں استکبار کا سامنا ہے۔ صرف ایرانی عوام کو ہی نہیں (بلکہ سبھی اقوام کو) لیکن دیگر اقوام سے ایرانی قوم کا فرق یہ ہے کہ ایرانی قوم میں امریکا کو جارح، جھوٹا، دھوکے باز، مستکبر اور امریکا مردہ باد کہنے کی ہمت ہے۔ دوسر ے سمجھتے تو ہیں کہ امریکا جھوٹا، دھوکے باز، سامراجی اور جارح ہے اور کسی بھی انسانی اصول کا پابند نہیں ہے، لیکن کہنےکی ہمت نہیں کرتے، اس کے مقابلے پر کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کرتے۔ یعنی اپنے حصے کا کام نہیں کرتے، جب اپنا کام نہیں کرتے تو نتیجہ بھی حاصل نہيں ہوتا۔ اپنے حصے کا کام کریں، تحمل کریں، مجاہدت کریں، سعی و کوشش کریں تاکہ نتائج حاصل کریں۔
ایرانی عوام نے گزشتہ چالیس سے زائد برسوں ميں تحمل کیا، کوشش کی، دنیا کی سبھی مستکبر طاقتیں ان کے مقابلے میں صف آرا ہوئيں، ان کے خلاف کام کیا، کوشش کی لیکن نہ صرف یہ کہ ایرانی عوام پر کوئی وار نہ لگا، بلکہ وہ آگے بڑھے، پیشرفت کی، ترقی کی، آج کا ایران چالیس برس پہلے والا ایران نہیں ہے۔ ہم نے ہر لحاظ سے ترقی کی ہے۔ اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے معنوی پہلوؤں سے ( ترقی نہیں کی) جی نہیں، معنوی لحاظ سے بھی ملاحظہ فرمائيں، ایک نمونہ یہی قرآنی مقابلے ہیں۔ جب یہ بچے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو ان کی تلاوت سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ حافظ و قاری قرآن ہیں۔ اپنی نوجوانی کے زمانے میں، مشہد ميں، ہم بھی اہل قرآن تھے، قران کریم کی محفلوں ميں شرکت کرتے تھے، لیکن اچھی تجوید سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے، پورے مشہد میں دس افراد بھی نہیں تھے۔ آج ملک میں ہزاروں نوجوان بہت اچھی تجوید کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، قرآن کے ہزاروں حافظ موجود ہیں، ہم نے آج معنوی میدان میں بھی پیشرفت کی ہے۔ قران کریم ( تلاوت اور حفظ وغیرہ ) میں بھی ہم نے الحمد للہ ترقی کی ہے۔ ہم نے مادی میدان میں بھی ترقی کی ہے۔ ہمارے نوجوانوں نے انواع و اقسام کے کارنامے انجام دیے ہیں۔ یہ پیشرفت جاری رہے گی۔ ایرانی قوم، ان شاء اللہ خدا پر توکل کی برکت سے اوج مطلوب تک پہنچے گی۔
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ اس جلسے کے آغاز میں جو اکتالیسویں بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کی اختتامی تقریب کی مناسب سے منعقد ہوا، بعض قاریان قرآن کریم نے تلاوت کی اور ایران کے ادارہ اوقاف کے سربراہ حجت الاسلام سید مہدی خاموشی نے اس حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی۔
2۔ منجلہ سورہ قمر، آیت نمبر 17 " اور یقینا ہم نے قرآن کو سبق آموز قرار دیا ہے۔ تو کوئی اس کی پناہ لینے والا ہے؟"
3۔ سورہ طلاق، آیت نمبر 3 " ۔۔۔ اور جو بھی خدا پر توکل کرے، تو اس کے لئے وہی (یعنی خدا) کافی ہے"
4۔ سورہ نساء آیت نمبر 122 "۔۔۔۔ اور قول میں خدا سے زیادہ سچا کون ہے؟" ۔
5۔ سورہ فتح، آیت نمبر 6 "۔۔۔۔۔۔ خدا ان پر غضبناک ہوا، اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لئے جہنم تیار کر دی ہے اور( یہ کتنا) برا انجام ہے"
6۔ سورہ حج آیت نمبر 4-
7۔ سورہ مائدہ آیت نمبر 110
8۔ سورہ آل عمران آیت نمبر 49
9۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 249
10۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 251
11۔ سورہ طہ آیات 17 الی 20 ۔ " اے موسی! تمھارے دائيں ہاتھ میں کیا ہے؟ کہا " یہ میرا عصا ہے، میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں، اس سے اپنی بھیڑوں کے لئے درختوں کے پتےتوڑ کر گراتا ہوں اور اس سے میرے دوسرے کام بھی ہوتے ہیں' فرمایا" اے موسی اس کو زمین پر پھینکو!" جب پھینکا تو وہ بہت تیزی سے چلنے والا سانپ بن گیا۔"
12۔ سورہ انفال، آیت نمبر 65'۔۔۔۔ اگر تمھارے درمیان تحمل کرنے والے بیس لوگ ہوں تو دو سو پر غالب آئيں گے۔۔۔۔۔"
13۔ سورہ مائدہ آیت نمبر 23'۔۔۔۔ اگر اس میں داخل ہو گئے تو یقینا کامیاب ہو جاؤے گے ۔۔۔ "