بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

 الحمد للہ ربّ العالمین والصّلواۃ والسلام علی سیّدنا وبنیّنا ابی القاسم الصطفی محمّد وعلی آلہ الطیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔

فضائیہ اور ایئر ڈیفنس فورس کے برادران عزیز خوش آمدید! آج ایک بار پھر 1979 کی 19 بہمن مطابق 8 فروری کی پرشکوہ اور مبارک تاریخ کی یاد تازہ ہو گئی۔ 19 بہمن مطابق 8 فروری 1979 کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس دن وہ پرچم لہرایا گیا اور وہ بنیاد رکھی گئی جس نے نئی فوج کے بنیادی خطوط کا تعین کر دیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج نے درحقیقت انہیں خطوط پر قدم بڑھایا جن پر چل کر اس دن فضائیہ کے جوان علوی کالج میں آئے اور شجاعت و بہادری کی وہ مثالی داستان رقم کی۔ اس تاریخ کو درحقیقت ںئی ایرانی فوج کی تاسیس کی تاریخ کے نام سے جاننا چاہئے۔

 یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ عامل جو متعدد افراد اور ممتاز شخصیات کو فوج کے اندر سے انقلاب کے میدان میں لایا، 1979 کی 19 بہمن مطابق 8 فروری کا فضائیہ کے جوانوں کا یہی اقدام تھا۔ فوج میں معمولی افسران سے لے کر سینیئر افسران تک ایسے افراد تھے جن کے دل عوام کے ساتھ تھے، انقلاب کے ساتھ تھے لیکن فوج میں، ان کے اندر اس کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ وہ عامل جو اس اعلی سطح پر انہیں انقلابیوں کے درمیان لایا، یہی دلیرانہ اقدام تھا۔ شہید نامجو، شہید صیاد، شہید بابائی، شہید ستاری، شہید کلاہدوز، شہید فلاحی اور دیگر افراد، عظیم شہدا، جو اسلامی جمہوریہ ایران کے نامور شہدا میں شمار ہوتے ہیں، یہ سب فوج سے اٹھے، لوگوں کی نگاہوں میں آئے اور دلیری و شجاعت کی مثال بن گئے۔ وہ عامل جو انہیں اس طرح انقلاب کے میدان میں لایا، اسلامی انقلاب کی کامیابی سے تین دن پہلے کا یہی دلیرانہ اقدام تھا۔ یہ جوان، فضائیہ کے جوان، اسلامی انقلاب کی کامیابی سے تین دن پہلے خطرات کے درمیان، آئے اور یہ کارنامہ انجام دیا۔

وہ کون سی خصوصیت ہے جس پر میں، ہمیشہ زور دیتا ہوں۔ اگر چہ اس اقدام میں چند خصوصیات پائی جاتی تھیں، ان میں سے ایک اس اقدام کا شجاعانہ پہلو تھا۔ شجاعت بہت اہم ہے۔ یہ بات کہ کسی میں یہ جرائت اور ہمت ہو کہ دشوار میدان میں آئے، یہ بہت اہم ہے۔ یہ اقدام، شجاعانہ تھا۔ اس دن کوئی نہیں جانتا تھا کہ تین دن بعد نظام حکومت سقوط کر جائے گا۔ پہلوی حکومت گر جائے گی۔ کوئی نہیں جانتا تھا۔ ممکن تھا کہ ان سب کو سزائے موت سنا دی جاتی۔ انھوں نے واقعی شجاعت دکھا دی۔ 

ایک اور خصوصیت اس اقدام کی بر وقت انجام دہی تھی۔ بعض اقدامات بہت اچھے ہوتے ہیں، شجاعت ہوتی ہے لیکن بر وقت انجام نہیں دیے جاتے۔ جیسے شہادت حضرت سید الشہدا (علیہ السلام) کے چند سال بعد  کوفہ میں توابین کی تحریک تھی۔ تحریک اچھی تھی لیکن بر وقت نہیں تھی۔ جس دن ان کو آنا اور امام حسین کا ساتھ دینا چاہئے تھا، اس دن وہ نہيں آئے۔ بعد میں پشیمان ہوئے اور آئے، اقدام کیا اور سب مارے گئے۔ ان کا میدان بہت سخت تھا لیکن اب کیا فائدہ تھا؟ وقت پر آنا چاہئے۔ اقدام بر وقت ہونا چاہئے۔

ان جوانوں کا اقدام بر وقت تھا۔ ٹھیک اپنے وقت پر تھا۔ یہ باتیں جو میں کر رہا ہوں، یہ صرف اس لئے نہیں ہے کہ ایک گروہ کی تعریف کرنا مقصود ہے بلکہ اس لئے ہے کہ ہمیں آج بھی ان کی ضرورت ہے۔

 اس اقدام کی ایک اور خصوصیت جو بہت اہم ہے، وہ اس اقدام کا سوچ سمجھ کر انجام دینا اور اس کا عاقلانہ پہلو تھا۔ یہ سوچا سمجھا اقدام تھا۔ انھوں نے بیٹھ کر سوچا، غور و فکر کیا اور اس پر عمل کیا۔ اقدام کی نوعیت بتاتی ہے کہ اس اقدام کا فیصلہ آن واحد میں نہیں کیا گیا تھا۔ اس پر غور کیا گیا تھا، کام کیا گیا تھا، سوچا گیا تھا۔ معلوم تھا۔ ہم اس کے شاہد تھے، سمجھتے تھے کہ ان لوگوں نے بیٹھ کر حساب کتاب کیا ہے، منصوبہ بندی کی۔ انقلابی اقدام کے لئے اس  کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ انقلابی اقدام بغیر سوچے سمجھے ہوتا ہے۔ عاقلانہ امور کے برعکس ہوتا ہے۔ یہ سوچ غلط ہے۔  انقلابی اقدام کے لئے ہر اقدام سے زیادہ غوروفکر اور عقل سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک خصوصیت اس اقدام کی یہ بھی ہے۔  

ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے دشمن کی غفلت سے فائدہ اٹھایا۔ یعنی اگر اس وقت کاؤنٹر انٹیلیجنس اور شاہی فوج کے اعلی ترین سطح کے کمانڈر یہ گمان کرتے کہ فوج کے اندر انقلاب کی حمایت میں کوئی قدام اٹھایا جا سکتا ہے تو، ان کے ذہن ميں فضائیہ کا خیال سب سے آخر میں آتا۔  کیونکہ فضائیہ کا خیال وہ زیادہ رکھتے تھے، ان کے اقدام کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ "فاتاھم اللہ من حیث لم یحتسبوا"(2) ان پر وہیں سے وار لگا جس کے بارے ميں انہیں گمان بھی نہیں تھا۔ ان برداران نے ، اس زمانے کے ان جوانوں نے دشمن کی غفلت سے فائدہ اٹھایا اور یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔

 میرے خیال میں اس اقدام نے فوج کو تشخص دیا۔ اس حکومت کے دور میں مجموعی صورتحال یہ تھی کہ ایرانی فوج کا نام امریکی فوجی مشینری کے ذیل میں لیا جاتا تھا۔ اس کا اپنا مستقل کوئی وجود نہیں تھا۔  اس کی ساخت امریکی تھی، اس کے اسلحے امریکی تھے، اسلحے تک دسترسی کے لئے امریکا کی اجازت ضروری تھی۔ یعنی ایف چودہ انھوں نے دیا تھا لیکن اس ایف چودہ سے کہاں کام لیا جائے، اس کی اجازت امریکا دیتا تھا۔ مثال کے طور پر پیشرفتہ نوعیت کے ہوائی جہاز کی تعمیر کہاں ہو، اس کے کلپرزے کہاں بدلے جائيں، یہ امور ایرانی ٹیکنیکل اسٹاف کے اختیار میں نہیں تھے۔ میں نے بارہا اس جلسے ميں کہا ہے (3) کہ خراب ہو جانے والے کلپرزے ہوائی جہاز میں رکھ کے امریکا لے جاتے تھے اور نئے کلپرزوں سے انہيں بدلتے تھے اور پھر ایران لاتے تھے۔ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئی پرزہ یہاں بدلا جائے۔ یعنی در حقیقت فوج امریکی فوج کا ذیلی شعبہ تھا، امریکی فوجی سسٹم کے ذیل میں تھی۔ اہم عہدوں پر امریکی تھے، اسلحے امریکی تھے، ٹریننگ امریکی تھی، اس فوج کا استعمال امریکی تھا۔ یہاں تک کہ ملک کے بڑے عہدیداروں سے بھی کوئی اجازت نہیں لیتے تھے۔  شاہ کو بتاتے بھی نہیں تھے کہ ہم فوج کے اس حصے کو لے گئے اور اس سے یہ کام لیا ہے۔ فوج کی پوزیشن یہ تھی۔

 1964 کی تقریر میں کیپیچولیشن پر امام (خمینی) رضوان اللہ علیہ نے جو اعتراضات کئے تھے، ان میں ایک یہ بھی تھا کہ فوج کی توہین کی جاتی ہے۔(4) یعنی واقعی کیپیچولیشن اس طرح تھا۔ کیپیچولیش کا مطلب یہ تھا۔ جب کوئی حکومت اور ملک کسی دوسرے ملک کے ساتھ کیپیچولیشن معاہدے پر دستخط کرتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اگر اس حکومت کا کوئی فرد، فوجی یا شخصیت اس ملک میں کسی جرم کا ارتکاب کرے گا تو اس پر اس ملک میں مقدمہ نہیں چل سکتا۔ یہ امریکیوں نے اس زمانے کے بادشاہی نظام پر مسلط کر رکھا تھا۔  یہ ہمارے ملک کے اس دور کے کمزورعناصر، بادشاہ سے لے کے سینیٹ اور قومی پارلیمنٹ کے رکن تک اور ممتاز حکومتی شخصیتیں جیسے علم، ہویدا وغیرہ تک نے اس پر دستخط کئے کہ کوئی امریکی چاہے وہ جو بھی ہو، ایران میں کسی جرم کا ارتکاب کرے تو اس پر یہاں مقدمہ نہیں چل سکتا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی امریکی سارجنٹ، کسی سینئر ایرانی فوجی افسر کو تھپڑ مار دے، مثلا کسی ایرانی کرنل کو مار دے تو اس کرنل کو جواب دینے کا حق نہیں تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس سارجنٹ پر یہاں مقدمہ بھی نہیں چل سکتا تھا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ اس کو امریکا لے جائيں اور وہاں تحقیق کریں کہ اس نے برا کام کیا یا اچھا کام کیا! اس سے بڑی ذلت اور کچھ ہو سکتی ہے؟ اس پر امام (خمینی) نے اعتراض کیا۔

امام نے اس تقریر میں ایرانی فوج، حکومت ایران اور ملک ایران پر امریکا کے اس ذلت آمیز تسط پر اعتراض کیا۔ انقلاب آیا۔ اس نے فوج  کو تشخص دیا۔  فوج نے بھی اپنی صلاحیت اور توانائی ثابت کر دی اور ایک مستقل اور سرافراز فوج بن گئی۔  اتفاق سے دفاع مقدس کا موقع آیا اور فوج دفاع مقدس کی اگلی صفوں میں پہنچ گئی۔ اس نے شہید دیے، مجاہدت کی، فعالیت کی۔ میں نے اپنی تقریروں میں اس سلسلے میں بہت سے واقعات نقل کئے ہیں۔ آج صیاد، بابائی، ستاری اور ان کے جیسے ہزاروں درخشاں ستارے، ہمارے ملک کی تاریخ میں چمک رہے ہیں۔ یہ ممتاز ہستیاں ہیں۔ 

آج فوج کو کیا کرنا چاہئے؟ میں یہ سوال اٹھا رہا ہوں: آج فوج کا سب سے بڑا فریضہ کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آج فوج کا سب سے بڑا فریضہ اپنی تقویت ہے۔ یہ فوج کا اہم ترین فریضہ ہے۔ فوج کو افرادی قوت کے لحاظ سے بھی، اسلحے کے لحاظ سے بھی، ٹریننگ کے لحاظ سے بھی، جنگی تیاری کے لحاظ سے بھی، دفاعی آمادگی کے لحاظ سے بھی، اپنی  تقویت کرنا چاہئے۔  جس زمانے میں جنگ نہ ہو، فوجی اداروں کا اہم ترین فریضہ یہ ہے۔ یہ دیکھیں کہ کمزوریاں کہاں کہاں ہیں، کہاں سے نقصان پہنچ سکتا ہے، اگر یہ نقاط کہیں ہیں تو ان کا پتہ لگائيں اور ان پر کام کریں اور اپنی تقویت کریں۔ فوج کو روز بروز خود کو قوی سے قوی تر کرنا چاہئے۔ یہ جدت اور اختراع  کی تحریک چند برس سے نئی چیزیں تیار کرنے کی جو تحریک شروع ہوئی ہے، وزارت دفاع، فوج اور سپاہ پاسداران میں، ہر جگہ اس کو جاری رہنا چاہئے۔

خوش قسمتی سے ہمارے فوجی اداروں اور اسی طرح فوجی صنعت نے اپنی لیاقت ثابت کر دی ہے۔ دکھا دیا ہے کہ بڑے کام کرنے پر قادر ہیں۔ اب تک جو بڑے کام کئے ہیں، ان سے بھی  بڑے کام کر سکتے ہیں۔ ملک کا دفاع سرفہرست ہونا چاہئے اور یہ فوجی اداروں کی تقویت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی جذبے، اسی جوش وخروش، اسی شجاعت، اسی پہل اور  صحیح اندازوں اور منصوبہ بندی کی ضروت ہے جو 1979 کی 19 بہمن مطابق 8 فروری نے ہمیں سکھائی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی تقویت میں ان شاء اللہ آگے بڑھیں اور امور کی پیروی کریں۔ 

چند باتیں مذاکرات کے بارے میں، کچھ وقت سے آپ سن رہے ہیں، اخباروں میں، سوشل میڈیا پر، لوگوں کی باتوں میں، حکومت کے مذاکرات کی بحث ہو رہی ہے۔ ان بحث کرنے والوں کی باتوں میں، چاہے ملک کے اندر ہوں یا ملک سے باہر، جو بات ہے، وہ امریکا سے مذاکرات کا موضوع ہے۔ مذاکرات کا نام لیا جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ جناب مذاکرات بہت اچھی چیز ہے۔ جیسے کوئی مذاکرات کے اچھے ہونے کا منکر ہے!! ان دنوں اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ مصروف ترین وزارت خارجہ ہے۔ اس کا کام یہی ہے۔ دنیا کے ملکوں سے، مشرقی، مغربی، ہر طرح کے ملکوں سے مذاکرات کرتے ہیں۔ آمد ورفت کرتے ہیں، بولتے ہیں، معاملات طے کرتے ہیں۔ اس بیچ جو استثنا ہے وہ امریکا ہے۔ صیہونی حکومت کا ہم نام بھی نہیں لیں گے کیونکہ وہ حکومت نہیں ہے۔ صیہونی حکومت مجرمین کا ایک گینگ ہے جس نے ایک سرمین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ گینگ جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی ہے۔ استثنا امریکا ہے۔

 کیوں استثنا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ پہلی بات یہ ہے کہ ملک کی مشکلات دور کرنے میں امریکا سے مذاکرات کی کوئی تاثیر نہیں ہے۔ یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے۔ ہم پر یہ ظاہر نہ کریں کہ اگر اس حکومت سے مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئے تو وہ مشکل، فلاں مشکل حل ہو جائے گی۔ جی نہیں! امریکا کے ساتھ مذاکرات سے کوئی مشکل دور نہیں ہوگی۔ دلیل تجربہ ہے۔ ہم نے 2010 کے عشرے میں تقریبا دو سال امریکا کے ساتھ مذاکرات انجام دیے۔ البتہ ان مذاکرات میں امریکا اکیلا نہیں تھا۔ دوسرے ممالک بھی تھے۔ لیکن مرکزیت امریکا کو حاصل تھی۔ اہم امریکا تھا۔ اس وقت کی ہماری حکومت نے مذاکرات کئے۔ گئے، آئے، نشست و برخاست کی، مذاکرات کئے، گفتگو کی، ہنسے، ہاتھ ملایا، دوستی کی، ہر کام کیا۔ ایک معاہدہ بھی ہوا۔ (5) اس معاہدے میں ایرانی فریق نے بڑی فراخدلی دکھائی، مقابل فریق کو بہت امتیازات دیے، لیکن اس معاہدے پر بھی امریکیوں نے عمل نہیں کیا۔ یہی شخص جو آج برسر اقتدار ہے، (6) اس نے اس معاہدے کو پھاڑ دیا۔ اس نے کہا کہ معاہدہ پھاڑ دوں گا اور پھاڑ دیا۔ اس پر عمل نہیں کیا۔ اس کے اقتدار میں آنے سے پہلے، جن کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا، انھوں نے بھی اس پر عمل نہیں کیا۔ معاہدہ اس لئے تھا کہ امریکی پابندیاں اٹھا لی جائيں۔ لیکن امریکی پابندیاں ختم نہیں ہوئيں۔ اقوام متحدہ کے تعلق سے بھی زخم میں ایک ایسی ہڈی چھوڑ دی جو ایران کے سر پر ہمیشہ خطرہ بن کے منڈلاتی رہے۔ (7) یہ معاہدہ ان مذاکرات کا ماحصل تھا جو میرے خیال میں، دو سال یا اس سے کچھ کم یا زیادہ عرصے تک انجام دیےگئے۔ یہ تجربہ ہے۔ اس تجربے سے کام لیں۔ ہم نے مذاکرات کئے، مراعات دیں، پیچھے ہٹے، لیکن نتیجے میں اپنا مقصود حاصل نہ کر سکے۔ اسی معاہدے کو جس میں اتنے نقائص تھے، مقابل فریق نے ختم کر دیا۔ اس کی خلاف ورزی کی اور پھاڑ دیا۔ ایسی حکومت سے مذاکرات نہیں کرنا چاہئے۔ مذاکرات کرنا عاقلانہ نہيں ہے، دانشمندانہ نہیں ہے، شرافتمندانہ نہیں ہے۔

ملک کے اندر مشکلات ہیں۔ کوئی مشکلات کے وجود کا منکر نہیں ہے۔ عوام کی معیشت میں بہت زیادہ  مشکلات ہیں، عوام کے اکثر طبقات مصیبت میں ہیں، مشکلات میں ہیں، لیکن وہ عامل جو ان مشکلات کو برطرف کر سکتا ہے، اندرونی عامل ہے۔ یہ عامل فرض شناس حکام کی ہمت اور متحد قوم کا تعاون ہے۔ یعنی وہی چیز جس کا ان شاء اللہ جلوسوں میں مشاہدہ کریں گے۔ عوام کا اتحاد۔ وہ جلوس جو  22 بہمن مطابق 10 فروری کو انجام پائيں گے۔ یہ سالانہ جلوس ہمارے ملک میں ملّی وحدت کے مظہر ہیں۔ ہماری صاحب بصیرت قوم اور انتھک محنت کرنے والے حکام ، یہ ہماری مشکلات برطرف کرنے والے عامل ہیں۔ حکام مصروف ہیں، الحمد للہ کام کر رہے ہیں، مجھے اسی موجودہ محترم انتظامیہ سے بہت امید ہے کہ عوام کی معیشت کی مشکلات کم سے کم  گھٹائيں، سختیاں دور کریں۔

 امریکی بیٹھ کے کاغذ پر  دنیا کا نقشہ بدل رہے ہیں! البتہ صرف کاغذ پر۔ اس کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے۔ ہمارے بارے میں بھی اظہار نظرکر رہے ہیں۔ باتیں کر رہے ہیں، بیانات دے رہے ہیں، دھمکیاں دے رہے ہیں۔ وہ ہمیں دھمکیاں دیں گے تو ہم بھی انہیں دھمکیاں دیں گے۔ اگر دھکی پر عمل کریں گے تو ہم بھی اپنی دھمکی پر عمل کریں گے۔ اگر ہماری قوم کی سلامتی پر حملہ کریں گے تو ہم بھی ان کی سلامتی پر حملہ کریں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ یہ طرزعمل قرآن اور اسلام کے حکم سے ماخوذ ہے اور یہ فریضہ ہے جو ہمارے ذمہ ہے۔ امید ہے کہ خداوند عالم ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیابی عطا فرمائے گا۔ 

 و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1۔ اس ملاقات میں جو 19 بہمن مطابق 8 فروری 1979 کو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے  ایرانی فضائیہ کے جوانوں کی تاریخی بیعت کی سالگرہ پر انجام پائی،ایرانی فوج کی  ‌فضائیہ کے کمانڈر بریگیڈیئر حمید واحدی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

2۔  سورہ حشر آیت نمبر 2"۔۔۔۔۔ لیکن خدا کا وار  وہاں سے ظاہر ہوا جہاں کا ان کو گمان بھی نہیں تھا۔"

3۔ منجملہ فضائیہ کے کمانڈروں اور جوانوں سے خطاب ۔(8 فروری 2004)

4۔  صحیفہ امام، جلد 1 صفحہ 415 ، عوامی اجتماع سے خطاب (26-10-1964)

5۔ جے سی پی او اے سے موسوم جامع ایٹمی معاہدہ

6۔ ڈونلڈ ٹرمپ (امریکی صدر)

7۔ حل اختلاف کا سسٹم ٹریگر میکانزم ، جس کے مطابق اگر جے سی پی او اے کا کوئی فریق اقوام متحدہ سے معاہدے پر عمل در آمد نہ ہونے کی شکایت کرتا ہے تو اسلامی جمہوریہ ایران  کے خلاف سلامتی کونسل کی سبھی قرار دادیں خود بخود بحال ہو جائيں گی اور اقوام متحدہ کے سبھی رکن ملکوں کے لئے ان کی پابندی لازمی ہوگی۔