شجاع و فداکار سید مجاہد جناب سید ہاشم صفی الدین رضوان اللہ علیہ... حزب اللہ لبنان کی ممتاز شخصیات میں سے تھے اور ہمیشہ جناب سید حسن نصراللہ ہمراہ رہتے تھے۔ حزب اللہ نے ان جیسے قائدین کی دوراندیشی اور بہادری کی بدولت ہی لبنان کو ٹوٹنے اور بکھرنے کے خطرے سے بچایا اور غاصب صیہونی حکومت کے خطرات کو دفع کیا، جس کی ظالم اور سفاک فوج کبھی بیروت تک پہنچ گئی تھی۔ ان کی اور دیگر کمانڈروں اور مجاہدین کی بہادری اور قربانیوں نے ہی دریائے لیتانی کے جنوبی علاقوں، صور اور دیگر شہروں کو غصب کرکے مقبوضہ فلسطین سے ملحق کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو ناکام کیا۔ انہوں نے لبنان کی سرزمین کی حفاظت کے لیے حزب اللہ کی جان، مال اور عزت کو داؤں لگا دیا اور جارح و جرائم پیشہ صیہونی حکومت کو شکست دی۔ 22 اکتوبر 2024
سید ہاشم صفی الدین، جو پہلے حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ تھے، سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ لیکن صرف چند دن بعد، اکتوبر 2024 میں، بیروت پر صیہونی حکومت کی بمباری میں شہید ہو گئے۔ آج ان کا جسم اطہر شہید سید حسن نصراللہ کے ساتھ، حزب اللہ کے دو شہید سیکرٹری جنرلز کے طور پر، سپرد خاک کیا جائے گا۔
آیت اللہ خامنہ ای کے دفتر نشر و اشاعت کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے حزب اللہ کے دو شہید سیکرٹری جنرلز کی تشییع جنازہ کے موقع پر، شہید حجت الاسلام والمسلمین سید ہاشم صفی الدین کے ساتھ ہونے والی ایک تفصیلی گفتگو کو پہلی بار شائع کیا ہے۔ یہ گفتگو ایران کے اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ کے موقع کی ہے۔ شہید صفی الدین نے اس گفتگو میں حزب اللہ لبنان اور حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے درمیان تعلقات کے بارے میں اپنے خیالات اور یادداشتیں بیان کی ہیں۔ شہید حجت الاسلام سید ہاشم صفی الدین کی رہبر معظم انقلاب کے بارے میں ایک گفتگو جو پہلی دفعہ منظر عام پر آ رہی ہے۔
سب سے پہلے، براہ کرم اپنا مختصر تعارف فرمائیں پھر ہم آپ کی آیت اللہ خامنہ ای سے شناسائی کے بارے میں بات کریں گے۔ اس کے بعد ہم ان اہم مراحل پر بات کریں گے جن سے انقلاب کے بعد کے برسوں میں حزب اللہ کو گزرنا پڑا۔ نیز، جب ہم اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ تک پہنچ چکے ہیں، تو ہم رہبر معظم انقلاب کی حکمت عملی اور ان کے فیصلوں کے نتائج پر بھی بات کریں گے۔
یہ موقع ایک بہت ہی قیمتی، عظیم اور پیارا موقع ہے۔ اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ کا مبارک موقع۔ میں اس موقع پر آپ کو، "سماحۃ القائد" (رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای) کو، ایران کی قوم کو اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کی قیادت میں تیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ عرصہ خود ہی ان کی قابلیت اور صلاحیت کی گواہی دیتا ہے۔ ان کی موجودگی، ان کی قیادت اور ان کی رہنمائی سب کا سب اللہ کی رحمت اور برکت ہے۔ ہمیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ہمیں ایسی نعمت سے نوازا اور ایران کی قوم اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو امام خامنہ ای (دام ظلہ) جیسی روحانی قیادت سے سرفراز کیا۔
"سماحۃ القائد" سے اپنی شناسائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں یہ کہوں گا کہ میں حزب اللہ کی تشکیل کے ابتدائی دور میں مقدس شہر قم میں تھا اور ایک طالب علم کے طور پر اسلامی جمہوریہ ایران میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ میں ایک طالب علم کے طور پر دینی تعلیم حاصل کر رہا تھا، لیکن چونکہ حزب اللہ کی تشکیل ایک بہت ہی مشکل مرحلہ تھا، اس لیے میں حزب اللہ سے اپنی وابستگی کی وجہ سے لبنان کے حالات کو بہت قریب سے فالو کر رہا تھا۔ اس وقت، میں ان بھائیوں کے ساتھ تھا جو قم میں تھے اور حزب اللہ کی تشکیل کے عمل میں شامل تھے۔ ہم حزب اللہ کے قیام اور مزاحمتی سرگرمیوں کے بارے میں ہر چیز کو بہت قریب سے فالو کرتے تھے۔ "سماحۃ القائد" سے میری شناسائی کسی ذاتی ملاقات کی وجہ سے نہیں تھی، بلکہ یہ میری قم میں موجودگی، حزب اللہ سے وابستگی اور اسلامی جمہوریہ کے معاملات میں دلچسپی کی وجہ سے تھی۔ میرا افتخار یہ ہے کہ میں ولایت فقیہ اور امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کے راستے سے وابستہ رہا ہوں۔ جب سے میں اسلامی جمہوریہ ایران آیا ہوں، اسی وقت سے "سماحۃ القائد" کو فالو کرتا رہا ہوں۔ میں بھی قم کے دوسرے لوگوں کی طرح ان کی شخصیت سے واقف تھا اور ان مشکل برسوں میں اسلامی جمہوریہ کے معاملات کو فالو کرتا تھا۔ میں ان کے صدر منتخب ہونے سے تقریباً بیس روز پہلے ایران پہنچا تھا۔
ایران میں اپنے قیام کے دوران، میں نے فارسی زبان سیکھی اور امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) اور پھر امام سیّد علی خامنہ ای کی شجاعانہ اور حکیمانہ قیادت کے سائے میں ایران کے حالات کو فالو کیا۔ میں ان کے جمعہ کے خطبات سے بہت متاثر تھا، جو ایک مجاہد، عالم اور سیّد کی حیثیت سے دیتے تھے۔ میں ان کے خطبات کو بہت گہرائیوں سے بھرا ہوا اور وسیع ثقافتی پیغام دینے والا سمجھتا تھا۔ اس وقت، امام خامنہ ای کے بارے میں جو صدر جمہوریہ کے فرائض انجام دے رہے تھے، ہم بہت کچھ سنتے تھے۔ ان کا سیاسی رول عالمی سطح پر نمایاں تھا اور ساتھ ہی وہ جہادی محاذ پر بھی فعال اور مضبوطی سے موجود تھے۔ ان کی ان محاذوں سے گہری دلچسپی اور موجودگی تھی۔
حزب اللہ کے قیام کے ابتدائی مراحل کے دور میں، میں لبنان کے حالات کو مسلسل فالو کرتا رہا۔ اس وقت، امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) نے حزب اللہ کے امور کی ذمہ داری "سماحۃ القائد" سیّد علی خامنہ ای کو سونپ دی تھی۔ میں لبنان کے معاملات کو فالو کرتا تھا، لیکن براہ راست ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ جب امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کی رحلت ہوئی اور قیادت "سماحۃ القائد" کے حوالے ہوئی، تو میں لبنان واپس آ گیا اور حزب اللہ کی کونسل کا رکن بن گیا۔ البتہ، میرا مطلب 1990 کی دہائی ہے، نہ کہ 1980 کی دہائی۔
اسلامی انقلاب کے ابتدائی دور میں، جب ایران میں انقلاب برپا ہوا اور اسلامی جمہوری نظام قائم ہوا، تو امریکہ اور صیہونیزم نے ایران، مغربی ایشیا اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف طویل مدتی اور وسیع منصوبے بنائے۔ اسلامی انقلاب نے ان کے منصوبوں میں خلل ڈالا، لیکن وہ ہر ممکن طریقے سے اپنی پالیسیوں کو نافذ کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ براہ کرم مغربی ایشیا میں امریکہ اور صیہونیزم کے عزائم کا ایک مختصر اور جامع خاکہ پیش کریں، اس کے بعد ہم اس نکتے پر پہنچیں گے کہ حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں کیا ہوا کہ ان دشمنوں کے منصوبے اور پالیسیاں کامیاب نہ ہو سکیں۔
امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) نے انقلاب کی کامیابی کے فوراً بعد امریکہ کے علاقائی منصوبوں کا مقابلہ کیا اور ایران اور عالم اسلام سے امریکہ کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک سخت اور کٹھن مقابلہ تھا، جو مختلف محاذوں پر جاری رہا۔ ایران پر مسلط کی گئی آٹھ سالہ جنگ درحقیقت اسی مقابلے کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ جنگ دراصل امریکہ کا وہ منصوبہ تھا جسے صدام اور خلیج فارس کے کچھ ممالک نے عملی شکل دی۔ یہ جنگ امریکہ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ پر دباؤ بڑھانے اور اس کے وجود کو ختم کرنے کی کوشش تھی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، امریکہ کی کوشش تھی کہ ایران کے عوام فتحیاب نہ ہوں، لیکن وہ فتحیاب ہوئے۔
جنگ کے بعد، امریکہ نے ایران کو محاصرے میں لینے اور اسے کمزور کرنے کا فیصلہ کیا۔ آٹھ سالہ جنگ کے دوران، دشمنوں نے امام خمینی کو ثابت قدم اور مضبوط پایا۔ انہوں نے فقہی، عرفانی، فکری گہرائی اور بے پناہ عزم و ہمت کے ساتھ "سپاہ پاسداران" جیسی انقلابی فورس تشکیل دی۔ نیز، امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) نے "بسیج" کی فورسز کو منظم کیا اور علمی، فکری اور عقلی میدانوں میں ایران کے عوام کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ میرا ماننا ہے کہ امریکہ اپنی طویل مدتی کوششوں میں امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کے سامنے ناکام اور مایوس ہوا۔ آٹھ سالہ جنگ کے دوران، امام خمینی نہ صرف خود میدان میں موجود تھے، بلکہ انہوں نے پورے معاشرے کو اس جنگ میں شامل کیا۔ انہوں نے مرد، عورت اور بچوں سمیت تمام طبقات کو صدام اور خلیج فارس کے ممالک کے ذریعے انجام دئے جانے والے امریکی منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتارا۔
امام کی رحلت کے بعد، امریکہ نے محسوس کیا کہ ایران کمزور ہو جائے گا۔ ان کا خیال تھا کہ امام اسلامی جمہوریہ کے ستون تھے اور ان کے بعد یہ ستون کمزور ہو جائے گا، جس سے اسلامی جمہوریہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ اسی لیے، امریکہ نے ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوششوں کو تیز کر دیا۔ ظاہر ہے کہ ان کی پچھلی کوششیں ناکام ہو چکی تھیں اور ایران کو محاصرے میں لینے کی کوششیں بھی اسے کمزور نہیں کر سکی تھیں۔ مختصر یہ کہ امریکہ امام خمینی کے سامنے مایوس ہو چکا تھا، لیکن ان کی رحلت کے بعد، امریکیوں میں یہ امید پیدا ہوئی کہ وہ ایران کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں اور اس کے اندرونی اختلافات کو ہوا دے سکتے ہیں۔ امریکہ کا خیال تھا کہ امام کی رحلت کے بعد، ایران اپنے اندرونی سیاسی اور سماجی مسائل میں الجھ جائے گا۔ امریکہ کا اندازہ تھا کہ وہ معاشی محاصرے کے ذریعے ایران کو گھیر سکتے ہیں اور پھر سماجی، ثقافتی اور فکری محاصرے کے ذریعے اس نظام کو گرانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
اس دور میں ایک اہم مسئلہ "سماحۃ القائد" امام خامنہ ای (دام ظلہ) کی قیادت کا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب امام خمینی کی رحلت کے بعد پورا ملک غم میں ڈوبا ہوا تھا، تو آیت اللہ سید علی خامنہ ای ٹی وی پر تشریف لائے اور انہوں نے یہ آیت پڑھی: "وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ" (سورہ آل عمران، آیت 144)۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے عوام طاقتور ہیں اور ان کے قدم ڈگمگائیں گے نہیں۔ امام نے یہ طاقت ہمارے ہاتھوں میں دے دی ہے۔ میں خود بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ ماہرین اسمبلی "سماحۃ القائد" کو ایران کا رہبر منتخب کرے گی، حالانکہ میں نے کچھ علماء اور عرفاء سے ایسی باتیں سنی تھیں۔ ان کے انتخاب کے بعد، میں نے ایک گہرا سکون محسوس کیا۔ مجھے لگا کہ یہ سکون ان کے کلام کے ذریعے پوری ملت ایران تک پہنچ گیا ہے۔
ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد، ملک میں ایک قسم کا سکون طاری ہو گیا۔ سب، بشمول اعلیٰ مراجع، ماہرین اسمبلی، ایران کے عوام، سیاستدان، سربراہان، منتخب کونسلیں اور بقیہ سب، "سید القائد" کی قیادت میں آ گئے۔ اس دوران، امریکیوں کو احساس ہوا کہ وہ ایک نئے مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ یہ تھا کہ امام خمینی (رحمةالله علیه) نے ایک ایسی قوم پروان چڑھائی ہے جو 'ولایت فقیہ' پر یقین رکھتی ہے، ایک ایسی قوم جو ولی فقیہ کے تابع ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اس مرحلے پر، امریکیوں نے خود کو ایک نئے دور میں پایا۔ پہلے وہ یہ سمجھتے تھے کہ ایران کمزور ہو چکا ہے اور آٹھ سالہ جنگ کے بعد وہ اسلامی جمہوریہ کے مختلف اداروں کو دوبارہ تعمیر نہیں کر سکتا۔ مگر پھر امریکیوں کو یہ احساس ہوا کہ ماہرین ایک طاقتور ادارہ ہے، پارلیمنٹ ایک طاقتور ادارہ ہے اور امام نے اپنی وفات سے پہلے ایسے فیصلے کیے تھے کہ اسلامی جمہوریہ کے تمام ادارے مضبوط، طاقتور اور مستحکم رہیں۔ درحقیقت، امریکیوں نے خود کو ایک نئی مایوسی میں مبتلا پایا اور انہوں نے ایک اور راستہ اختیار کیا اور وہ تھا معاشی اور ثقافتی اثر و رسوخ۔
اسلامی جمہوریہ کے اندر، معاشی پالیسی پر کافی بحث ہوئی کہ ملک کو کس سمت میں جانا چاہیے اور آخر کار "سید القائد" کی قیادت میں استحکام اور انتظامی امور کو سنبھالنے ایران کی طاقت نمایاں ہوئی۔
کچھ لوگوں نے اندرونی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ اسلامی جمہوریہ میں موجود آزادی کا فائدہ اٹھائیں — جہاں مختلف سیاسی رجحانات جیسے دائیں بازو، بائیں بازو، اصلاح پسند، اور اصول پسند موجود ہیں — اور ان کے درمیان اختلافات پیدا کریں۔ ان لوگوں نے اختلافات کو بڑھانے کی کوشش کی۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کا واسطہ کسی عام عرب یا اسلامی ملک سے ہے۔ امریکی عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے ایجنٹوں، سفارت خانوں، افسروں، بین الاقوامی چینلز اور عالمی معیشت اور سلامتی کونسل پر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے کسی بھی عرب یا اسلامی ملک یا دنیا کے کسی بھی ملک میں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ تیسرے مرحلے میں، امریکیوں کو یہ احساس ہوا کہ یہ ذرائع ایران میں موجود نہیں ہیں۔ یہ کہ امریکہ کا ایران میں سفارت خانہ نہیں تھا، یہ خدا کی طرف سے تہران کے لیے ایک نعمت تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ امریکہ کی ایران میں براہ راست کوئی موجودگی نہیں تھی، اور ایران کو امریکی افسروں، فوجی ماہرین، معاشی سسٹم اور امریکی ثقافت کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ امریکیوں کو یہ بھی احساس ہوا کہ اگر وہ ایران کے عوام اور معاشرے میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیں، تو وہ اس معاملے میں بہت کمزور اور بے بس ہیں۔
امریکیوں نے بین الاقوامی اور سیاسی ذرائع کی مدد سے ایران سے نمٹنے کے نئے طریقے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ہم سب کو یاد ہے کہ عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او نے ایران سے یہ وعدہ کیا تھا کہ امریکہ تہران کو عالمی معیشت اور بین الاقوامی مارکیٹ میں شامل کر سکتا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ ایران اس تنظیم میں شامل ہو جائے اور اپنی ترجیحات، اصولوں، اور بنیادوں کو بھول جائے، تاکہ ولی فقیہ کے پاس فیصلے کا اختیار نہ رہے۔ اس وقت، ایران کا معاشرہ معاشی اور سماجی طور پر دباؤ میں تھا۔
مگر امریکیوں کے لئے مایوسی کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ انہیں "سید القائد" کے فکری، معاشی، سماجی، ثقافتی، اور بنیادی اثرات کا سامنا تھا، جو اسلامی جمہوریہ کے تمام فیصلوں پر صاف نظر آتے تھے۔ وہ اسلامی جمہوریہ کے اندر اختلافات کو سنبھالنے کی بڑی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ معاشی یا سماجی دباؤ کے نتیجے میں ایران کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر، وہ امریکہ کے منصوبوں سے پوری طرح آگاہ رہتے ہیں۔ جب بھی امریکی ایران میں دراندازی کی کوشش کرتے، انہیں سید القائد کا سامنا کرنا پڑتا۔ جب وہ کھڑکی سے داخل ہونے کی کوشش کرتے، تو کھڑکی بند پاتے۔ اس طرح، تیسرے تجربے میں، امریکیوں نے خود کو ایک نئے "خمینی" کے سامنے پایا۔ اس "نئے خمینی" نے ایک غیر معمولی تجربے، یعنی قیادت کے تجربے کے ساتھ ظہور کیا۔ گہرے فکری تجربے، فقہ کے تجربے، بہادری، بصیرت، اور حاضر ذہنی کے تجربے نے نہ صرف ایران کے معاشرے پر، بلکہ عرب اور اسلامی معاشروں پر بھی گہرا اثر ڈالا۔
ان تمام باتوں نے "سید القائد" کی قیادت کو ایک نئی شکل دی۔ امام خمینی (رحمةالله علیه) کے دور میں اس قسم کی قیادت کے لیے موقع نہیں تھا۔ "سید القائد" کی قیادت کا انداز، جنگ کے خاتمے اور امام کی وفات کے بعد، ایران کے اندر اور باہر وسیع پیمانے پر اثر انداز ہونے پر مبنی تھا۔ ہم ایک ایسے ایران کے سامنے تھے جس نے آٹھ سال مزاحمت کی تھی اور ایک ایسا ملک جو امام خمینی (رحمةالله علیه) کی وفات کے بعد ایک نئے رہنما کے ساتھ کھڑا تھا۔ ایران نے معاشی، علمی اور فکری طور پر ترقی کی۔ اسلامی جمہوریہ نے ایران کے نوجوانوں کی ثقافت اور عقیدے میں جگہ بنائی اور نئی نسلوں کو تربیت دی۔ اسلامی جمہوریہ نے عرب دنیا پر اثر انداز ہونا شروع کیا — فلسطین سے لے کر لبنان میں حزب اللہ اور پورے خطے تک — یہاں تک کہ اسلامی بیداری کا دور شروع ہوا اور تمام مذہبی، امن، سچائی، اور انصاف کے متلاشی نوجوانوں نے اسلامی جمہوریہ کے ساتھ قربت محسوس کی۔
یہ وہ وقت تھا جب امریکہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا اور وہ تھا ایران میں براہ راست فتنہ پیدا کرنے کا مرحلہ۔ یہ امریکہ کا تہران کے ساتھ چوتھا مقابلہ تھا۔ میں مقابلے کے چوتھے مرحلے میں براہ راست فتنہ بھڑکانے کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ آپ کو اس بارے میں مجھ سے زیادہ معلومات ہیں۔ بہرحال، اس مرحلے میں بھی امریکیوں نے خود کو "سید القائد" کی مضبوط دیوار کے سامنے پایا، جنہوں نے اپنی عقل، فکر، انتظامی صلاحیت، بصیرت، اور حوصلے کے ساتھ امریکیوں کا مقابلہ کیا۔ ہم سب کو سید القائد کی نماز جمعہ کا وہ تاریخی خطبہ یاد ہے، جس میں — ہماری سمجھ کے مطابق — انہوں نے صاحب العصر و الزمان (عجّل الله تعالی فرجه) سے اپنے روحانی تعلق کی مدد سے قوم کو مخاطب کیا اور مولا سے کہا کہ یہ ملک آپ کا ہے۔ انہوں نے واضح اور صاف الفاظ میں ایران کے عوام سے بات کی اور نئے فتنے کے منصوبے کو ناکام بنا دیا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان مسلسل لڑائیوں میں، جن میں امریکہ نے مختلف حربے اختیار کئے، "سید القائد" نے ہر بار ان کا مقابلہ کیا۔ امریکہ کی رینڈ کارپوریشن نے، جو ایک بین الاقوامی ادارہ ہے، ایران کے 2009 کے فتنے کے بعد تقریباً نوے صفحات پر مشتمل ایک تحقیق کی، جس میں لکھا گیا تھا کہ "ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ موجودہ رہنما کے بعد ایران میں ہم کیا کر سکتے ہیں!" کیونکہ امام خامنہ ای جیسے شخص کی موجودگی میں، امریکہ ایران میں واپس آنے اور اس کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی امید کھو چکا تھا۔ یہ ان کی شکست کی علامت تھی، کیونکہ وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ امام خامنہ ای (دام ظلہ) جیسے شخص کی موجودگی میں، امریکہ اسلامی جمہوریہ پر غالب نہیں آ سکتا۔
میں تھوڑا پیچھے جا کر آپ کے پیش کردہ تجزیے کو آپ کی یادوں کے تناظر میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہم حضرت امام خمینی (رحمةالله علیه) کی رحلت کے وقت سے شروع کرتے ہیں۔ امام خمینی عالم اسلام کی ایک عظیم شخصیت تھے، جنہوں نے امریکہ کو خطے میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور اس کے منصوبوں کو ناکام بنایا۔ امریکی، امام سے سخت ناراض تھے اور اپنے دل میں یہ گھٹیا خواہش رکھتے تھے کہ کاش امام نہ رہیں تاکہ وہ اپنا کام کر سکتے۔ فطری طور پر، ایران کے عوام، امام کے چاہنے والے پوری دنیا میں، اور حزب اللہ کی مزاحمتی تحریک بھی اس بات پر سب فکر مند تھے کہ آخر کار ایک دن امام کی رحلت ہوگی اور یہ کہ امام کے بعد کیا ہو گا، کون رہبری سنبھالے گا، اور معاملات کس سمت میں جائیں گے۔ آپ حزب اللہ میں اس وقت کیا فکرمندی اور پریشانی محسوس کر رہے تھے اور جب آپ نے سنا کہ حضرت آیت اللہ خامنہ ای کو رہبر منتخب کر لیا گیا ہے، تو آپ اور آپ کے ساتھیوں کی کیسی کیفیت تھی، اسے بیان کریں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، حزب اللہ میں ہماری ثقافت امام خمینی (رحمةالله علیه) کے راستے اور طریقے پر قائم ہے۔ ہماری ثقافت کا ایک اہم پہلو امام سے محبت ہے۔ شاید ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو یہ سمجھتی تھی کہ جذباتی اور روحانی سطح پر امام کے بغیر زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں! یہ ایک فطری بات تھی، اور مجھے ذاتی طور پر یاد ہے کہ امام کی رحلت کا دن میری زندگی کا سب سے غمگین دن تھا۔ میرے خیال میں میری زندگی میں کوئی اور دن نہیں جب میں اتنا غمگین ہوا ہوں۔ ہمارے لیے دوستوں اور خاندان کے لوگوں کو کھونا ایک طرف تھا، اور امام کو کھونا دوسری طرف۔ البتہ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب ہم امام کی بیماری کے دوران خود کو اس دن کے لیے تیار کر رہے تھے۔ اسلامی جمہوریہ نے ٹیلی ویژن کے ذریعے امام کی آخری دنوں کی حالت کو بیان کیا، اور رحلت کے دن کے لیے ایک طرح کی تیاری موجود تھی۔ پھر بھی، جب امام کی رحلت کا اعلان ہوا، تو مجھے محسوس ہوا کہ دنیا رک گئی ہے اور ختم ہو گئی ہے۔ میں اس وقت اسلامی جمہوریہ میں تھا، اور مجھے وہ دن تقریباً یاد ہے۔ ہم سڑکوں پر نکل آئے، لوگ رو رہے تھے، کسی کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی، اور سب ایک دوسرے کو تعزیت دے رہے تھے۔ عجیب بات یہ تھی کہ جب ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے ہوتے، تو ہم دیکھتے کہ ٹیکسی ڈرائیور غمگین ہے، دکاندار غمگین ہے، سب لوگ ایسے ہی تھے، اور ہم سب نے امام کے جنازے میں شرکت کی۔
لیکن جب یہ خبر سنی کہ سید القائد کو نئے رہبر کے طور پر منتخب کیا گیا ہے، تو ہمیں محسوس ہوا کہ ہماری روح واپس آ گئی ہے، اور ہمیں اطمینان کا احساس ہوا۔ فطری طور پر، یہ ایک داخلی اور فکری معاملہ ہے۔ البتہ یہ صرف ایک داخلی معاملہ بھی نہیں ہے، بلکہ یہ احساس اور جذبات اس شخص کے پاس آتے ہیں جو ان کی خصوصیات سے واقف ہوتا ہے اور ان کے خیر و برکات کو جانتا ہے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ خدا کا ہاتھ ہماری طرف بڑھا ہے، اور بلا مبالغہ اور بغیر کسی تکلف کے کہوں کہ ہمیں وہی طاقت محسوس ہوئی جو امام کی حیات میں موجود تھی، اب بھی ان کی رہبری میں موجود ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم نے نہ صرف شروع سے ہی سید القائد کی رہبری پر یقین کیا، بلکہ حزب اللہ کی سطح پر ہمیں یقین تھا کہ یہ انتخاب سب سے پہلے ایک الہی انتخاب ہے، اور الحمدللہ یہ ایک کامیاب انتخاب ہے، اور ہمارا یقین تھا کہ صاحب الزمان (عج) کی عنایات اس معاملے میں شامل تھیں۔ ہمارا حزب اللہ کی سطح پر یہ یقین تھا، اور اس یقین نے حزب اللہ کی پوری تنظیم، رہبری سے لے کر نچلے درجوں تک، سب پر گہرا اثر ڈالا۔
اس لیے، ہمارے اندر ایک طرح کا یہ یقین اور اطمینان موجود تھا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شہید سید عباس موسوی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رہبری کے زمانے میں، وہ کس جوش و خروش سے اس عظیم رہبر کے بارے میں بات کرتے تھے۔ شہید سید عباس موسوی اور حزب اللہ کے دیگر رہنما انہیں اچھی طرح جانتے تھے، اور ان کے برکات مزاحمتی محاذ کے لیے ان حالات میں جب مزاحمت کو چیلنجز کا سامنا ہوتا، بالکل واضح تھے۔ سید القائد (اطال اللہ عمرہ) ہمیشہ ہمارے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہے، اور ہم ان کی رہنمائی، ان کی ترجیحات، اور ان کی توجہات سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ حزب اللہ نے 1980 کی دہائی میں، یعنی ان کی صدارت کے دور میں اور ان کے رہبر منتخب ہونے سے پہلے، اس تعاون کے بہت سے تجربات حاصل کیے۔ جب انہوں نے رہبری سنبھالی، تو پہلے مہینوں اور سالوں میں سخت چیلنجز تھے، اور اس پورے عرصے میں، سید القائد نے ہمیشہ حزب اللہ اور لبنان کی مزاحمت کے لیے نجات کا راستہ کھولا۔ انہوں نے وہ دروازے کھولے جو ہمارے لیے بند تھے۔ انہوں نے ہمیں ہدایت دی اور راستہ دکھایا، اور کہا کہ اس راستے پر چلو، ہم بھی اس راستے پر چلے اور منزل تک پہنچ گئے۔
سید القائد کے ساتھ ہمارے تعاون کے کسی بھی تجربے میں، چاہے وہ ان کی رہبری سے پہلے کا ہو یا ولایت فقیہ کے دور میں ان کی رہبری کے بعد کا، انہوں نے حزب اللہ اور اس کی ہدایت کے بارے میں کوئی موقف اختیار نہیں کیا، سوائے اس کے کہ وہ موقف درست اور مکمل تھا۔ ہم اس موقف کو بالکل درست سمجھتے تھے۔ اسی لیے، آج جب ہم اس موضوع پر بات کرتے ہیں، تو کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ ہمارے رہبر ہیں، اس لیے ہم مبالغہ آرائی یا تکلفانہ بات کر رہے ہیں؛ نہیں! ایسا نہیں ہے۔ ہم اپنے رہبر پر فخر کرتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں، ان کی باتوں اور رہنمائی میں ڈوبے ہوئے ہیں، لیکن ہم جو کچھ ان کے بارے میں کہتے ہیں، اس میں مبالغہ یا تکلف نہیں ہے؛ ہم جو کچھ کہتے ہیں، وہ حزب اللہ کے قیام سے لے کر اب تک کے حقیقی شواہد پر مبنی ہے۔
ہم نے سخت دور دیکھے ہیں؛ جن میں سخت فوجی اور سیکیورٹی چیلنجز شامل ہیں۔ سیاسی دباؤ کے سخت مراحل بھی، جو خطے اور لبنان اور فلسطین کی مزاحمت کو درپیش ہیں۔ آج ہم بہت سے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ درحقیقت، مزاحمت کو اپنے قیام سے لے کر آج تک ان بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔ اس مرحلے میں، ہر سال، ہر دور میں، یہ دباؤ موجود رہے ہیں، اور ان تمام ادوار میں، سید القائد نے مداخلت کی اور ہمیں ہدایت دی۔ وہ ہمیں کہتے تھے کہ میرے خیال میں آپ کو یہ راستہ اختیار کرنا چاہیے، ہم بھی وہ راستہ اختیار کرتے تھے اور پاتے تھے کہ وہ بہترین راستہ ہے۔ اگر ہم ایک جملے میں خلاصہ کریں، تو یہ کہنا چاہیے کہ عزت، فتح، کامیابی، اور ہدایت کی کنجی، لبنان کی مزاحمت کے تجربے کے مطابق سید القائد کے ہاتھ میں ہے۔
اگر آپ کچھ مخصوص مثالوں کی طرف اشارہ کریں، تو اپنی یادداشتوں اور تجربات کی روشنی میں، آپ کن مثالوں کی طرف اشارہ کریں گے جن میں ان کی رہنمائی حزب اللہ کے لیے بہت کارگر ثابت ہوئی؟
جیسا کہ میں نے تفصیل میں بتایا، بہت سے شواہد موجود ہیں؛ لیکن میں کچھ اہم مراحل اور اوقات کی بات کروں گا جو بہت اہم ہیں۔ مثال کے طور پر، حزب اللہ کی بنیاد ــ یعنی حزب اللہ کی روح ــ کے بارے میں بحث تھی کہ آیا حزب اللہ کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں۔ دراصل، حزب اللہ ایک مزاحمتی گروپ تھا، لیکن لبنان میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے، حزب اللہ کو سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا پڑا۔ دنیا بھر میں مزاحمتی گروپس عام طور پر اس بحث کا سامنا کرتے ہیں۔ جب کچھ کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں، جیسے کہ عوامی، سماجی اور سیاسی سطح پر ترقی، تو سیاسی اور مزاحمتی سرگرمیوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ حزب اللہ میں اس مسئلے پر بہت سی بحثیں ہوئیں، اور مختلف آراء تھیں۔ نتیجتاً، سماحۃ القائد نے کہا کہ یہ بات بالکل واضح ہے؛ حزب اللہ کی فطرت مزاحمت کی ہے۔ انہوں نے جو کلی روش بیان کی، وہ آج تک کامیاب رہی ہے۔ حزب اللہ کی بنیاد، اس کی شناخت اور اس کی ترجیحات "مزاحمت" ہیں۔ لہٰذا، سیاسی سرگرمیاں بھی مزاحمتی سرگرمیوں کے تابع ہیں۔ یہ سب سماحۃ القائد کی رہنمائی ہے۔ اس رویے نے مزاحمتی سرگرمیوں کے میدان میں ہمارے لیے بڑے راستے کھولے اور مزاحمت کو بڑی کامیابیوں تک پہنچایا۔ بدقسمتی سے، اس دور میں ہم سیاسی سرگرمیوں میں ضرورت سے زیادہ الجھ گئے؛ لیکن بہرحال، اگر ہم مزاحمت کا راستہ کھو دیتے اور 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں مزاحمت کمزور ہو جاتی، تو ہم آج جو نتائج دیکھ رہے ہیں، وہ ممکن نہ ہوتے۔
دوسری مثال یہ ہے کہ جب فلسطین کے معاملے میں سیاسی مصالحت کا دور شروع ہوا، اور کلنٹن کے دور میں اوسلو معاہدہ فلسطینیوں کے ساتھ اور وادی عربہ معاہدہ اردن کے ساتھ ہوا، تو سب نے کہا کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ عرب دنیا، اسلامی دنیا اور پوری دنیا کا خیال تھا کہ مصالحت کا راستہ ہی آخری راستہ ہے۔ ہم 1990 کی دہائی کے شروع اور درمیان میں، مختلف سیاسی تبدیلیوں کے دوران، سماحۃ القائد کے پاس جاتے تھے۔ تمام مذاکرات کے دوران، جو امریکہ کی نگرانی میں عربوں اور اسرائیلیوں کے درمیان ہو رہے تھے، ہر بار ہم سماحۃ القائد کے پاس جاتے اور خطے کے حالات پر بات کرتے، تو وہ مسکراتے اور کہتے کہ ہمیں مزاحمت کے راستے پر چلتے رہنا چاہیے، اور ان شاء اللہ یہ مصالحت نہیں ہو گی۔ اس وقت، جو شخص یہ کہتا کہ مصالحت نہیں ہو گی، وہ پوری دنیا کے رجحان کے خلاف بات کر رہا ہوتا۔ لیکن سیّد القائد کہتے تھے کہ یہ نہیں ہو گا؛ ڈرو مت اور اپنی مزاحمتی سرگرمیوں کو جاری رکھو؛ پریشان مت ہو، یہ دور بھی گزر جائے گا۔
ایک بہت ہی حساس مرحلے میں، صدر حافظ اسد کی وفات سے کچھ پہلے اور کلنٹن کے صدارتی دور کے اختتام پر، پے در پے میٹنگیں ہوئیں۔ اس وقت، ہمارا خیال تھا کہ حافظ اسد نے جولان کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ اتفاق کر لیا ہے۔ ہمارا مطلب طبریہ جھیل اور اس کے ارد گرد کے تنازعات سے تھا۔ ہمارا اندازہ تھا کہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ اس وقت، کلنٹن اور حافظ اسد کے درمیان مشہور ملاقات جنیوا میں ہوئی، اور لگتا تھا کہ سب کچھ طے ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے، سماحۃ القائد نے کہا تھا کہ پریشان مت ہو، ایسا نہیں ہو گا۔ جنیوا مذاکرات شروع ہوئے، اور پوری دنیا کو توقع تھی کہ اس کے نتائج برآمد ہوں گے۔ لیکن اچانک یہ مذاکرات ناکام ہو گئے، کیونکہ حافظ اسد نے ہار نہیں مانی۔ سماحۃ القائد کا نقطہ نظر یہ تھا کہ خطے میں مصالحت کا کوئی نتیجہ نہیں ہے۔
قدرتی طور پر، آج لبنان، فلسطین اور پورا خطہ اس مرحلے کے واقعات کے نتائج اور اثرات کا سامنا کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے، عرب حکمرانوں اور لبنان کے کچھ رہنماؤں نے اس وقت اس بات پر شرط لگائی تھی کہ سیاسی مصالحت خطے کا حتمی مقدر ہو گی؛ یعنی فلسطین کے مسئلے پر مصالحت ہو گی، خطے میں مزاحمتی گروپوں کا کام ختم ہو جائے گا، حزب اللہ کا کردار ختم ہو جائے گا، فلسطین میں مزاحمت کا کوئی وجود نہیں رہے گا، اور عرب قوموں کو اپنے مسائل کے منصفانہ حل کی کوئی امید نہیں ہو گی اور وہ امریکی فیصلہ سازی کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکیں گی۔ سب سے پہلے جس شخصیت نے مخالف محاذ کی قیادت کی، وہ سماحۃ القائد تھے۔ سماحۃ القائد سیاسی میدان میں دنیا کے رجحانات اور نقطہ نظر کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے اور بہادرانہ اور مزاحمتی موقف اختیار کیا۔ ان لمحات میں، انہوں نے فلسطین کے مسئلے کے دفاع کا حکم دیا اور زور دیا کہ فلسطین میں مزاحمت کو مسلح کرنے اور اس کی صلاحیتوں اور وسائل کو بڑھانے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ سماحۃ القائد نے تنہا سیاسی میدان میں کھڑے ہو کر عالمی محاذ کے مقابلے میں مزاحمتی محاذ اور محور کی قیادت کی، اور تجربے نے ثابت کیا کہ سیاسی مصالحت جھوٹ، کھوکھلے دعوے اور وہم کے سوا کچھ نہیں ہے اور کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔
اس کے بعد، فلسطین، لبنان اور خطے کے کچھ اعلیٰ سطحی سیاست دانوں نے — جن کے نام لینا نہیں چاہتا — ہمارے پاس آ کر کہا کہ آخر کار آپ کا راستہ درست تھا اور ہم نے غلطی کی؛ انہوں نے کہا کہ ہم نے سوچا کہ امریکہ ہمارے سامنے ایک سیاسی حل پیش کرے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ سب کچھ بیس سال پہلے ہوا تھا؛ لہذا جب ہم ان مسائل یا جسے "ڈیل آف سنچری" کہا جاتا ہے کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ بیس سال پہلے نہیں ہوا، وہ اب بھی نہیں ہو گا۔ یہ دوسری مثال تھی جو میں نے پیش کی۔
تیسری مثال یہ ہے کہ مجھے اب اچھی طرح یاد ہے کہ 2000 میں اسرائیل کے لبنان سے انخلاء اور حزب اللہ کی بڑی فتح کے بعد — جو عرب دنیا میں صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کی تاریخ میں سب سے بڑی فتح تھی — ہم اسلامی جمہوریہ ایران آئے اور سماحۃ القائد سے ملاقات کی اور مسائل پر بحث و تمحیص اور کچھ رپورٹس پیش کرنے کے بعد، ہمیشہ کی طرح ان کی رہنمائی سے مستفید ہوئے۔ وہ بولتے تھے اور میں لکھتا تھا؛ اب بھی ان کی باتیں اچھی طرح یاد ہے۔ 2000 کے موسم گرما میں ہم ان کے پاس تھے؛ یعنی اسرائیل کے انخلاء کے تقریباً دو ماہ بعد۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہوا وہ حزب اللہ کی فتح تھی اور آپ اس کے نتائج اور اثرات کو خطے میں اور خاص طور پر فلسطین کے اندر دیکھیں گے؛ لبنان میں اس فتح کے نتائج کو فلسطینیوں کے لیے کم نہ سمجھیں؛ فلسطینی قوم ایک نئے انتفاضے میں سڑکوں پر آئے گی اور اب سے اپنے رہنماؤں اور سیاست دانوں سے صرف انتفاضہ پر مبنی حل کو ہی قبول کرے گی۔
ہمارے اسلامی جمہوریہ ایران کے سفر اور سماحۃ القائد سے ملاقات کے تقریباً ایک ماہ — تھوڑا کم یا تھوڑا زیادہ وقت — گزرنے کے بعد فلسطینی انتفاضہ بھڑک اٹھا۔ میں سچ میں جب مغربی کنارے یا پورے فلسطین میں انتفاضے کی تصاویر دیکھتا تھا، تو مجھے لگتا تھا کہ سیّد القائد اپنی آنکھوں سے ٹی وی پر یہ مناظر پہلے ہی دیکھ رہے تھے۔ مجھے لگا کہ وہ ایسے بول رہے ہیں جیسے ٹی وی کی تصاویر ان کے سامنے ہوں۔ وہ کچھ تفصیلات ایسے بیان کرتے تھے جیسے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ یہ سب کچھ ایک صائب نقطہ نظر کی نشاندہی کرتا ہے۔ اب ہم اس کی تفسیر غیب کے علم یا الہی امداد کے طور پر کر سکتے ہیں یا اسے ایک گہرے سیاسی ادراک کا نتیجہ سمجھ سکتے ہیں۔ چاہے اس کی تفسیر الہی امداد کے طور پر ہو یا گہرے سیاسی ادراک کی کی شکل میں، یہ بہت بڑی اور عظیم چیز ہے۔ بہرحال، یہ دو تفسیریں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ اولیاء اللہ عقل و خرد سے سرشار ہوتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی اولیاء اللہ میں سے ہو تو وہ سیاسی ادراک و شعور سے بھی سرشار ہوتا ہے۔
اسی طرح، سال بہ سال ہمیں یہ احساس ہوا کہ سیّد القائد کا نقطہ نظر بہت گہرا تھا۔ یہاں تک کہ 2006 کی جنگ — یعنی 33 روزہ جنگ — کی تفصیلات بھی سیّد القائد کی پیش گوئی میں بہت اہم تھیں۔ انہوں نے جنگ کے آغاز میں ہمیں میدان میں بہت حوصلہ دیا۔ ہم 33 روزہ جنگ میں ایک بہت سخت اور طاقت فرسا جنگ کا سامنا کر رہے تھے۔ تصور کریں کہ لبنان کی چار ملین آبادی میں سے ایک ملین حامیانِ مزاحمت بے گھر ہو گئے! میں یہ کہوں گا کہ اسی فیصد حامیانِ مزاحمت بے گھر ہوئے، ان کے گھر تباہ ہو گئے، ان کے رہائشی علاقے بمباری کا نشانہ بنے، شہید اور زخمی ہوئے، اور تباہی ہر طرف پھیل گئی۔ یہ واقعات پوری دنیا کی نظروں کے سامنے ہوئے اور حزب اللہ نے تنہا اپنے مستقبل کے لیے جنگ لڑی۔ ایسے حالات میں، سماحۃ القائد کے الفاظ ہمارے لیے مرہم کا کام کرتے تھے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کا پہلا مشہور پیغام جو جناب سیکرٹری جنرل کو بھیجا گیا تھا۔ جناب سیّد حسن نصراللہ نے مجھے فون کیا اور کہا "خوشخبری ہے"؛ میں نے ان سے پوچھا کہ خوشخبری کیا ہے، تو انہوں نے کہا "سماحۃ القائد نے ہمارے لیے ایک پیغام بھیجا ہے اور اس میں انہوں نے ان واقعات کے بارے میں بات کی ہے جو ہمارے ساتھ ہونے والے ہیں اور یہ الفاظ خوشخبری سے بھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ان مشکل دنوں کے بارے میں بات کی جو ہمارے سامنے ہوں گے۔" سیّد حسن نے مزید کہا "سماحۃ القائد نے ہماری جنگ کو خندق کی جنگ سے تشبیہ دی جو بہت سخت تھی۔" جناب سیّد، فون کال کے دوران ہنس رہے تھے اور کہہ رہے تھے "انہوں نے ہمیں ایک سخت جنگ کے بارے میں خبر دی۔" ظاہر ہے یہ کال جنگ کے پہلے ہفتے کی تھی۔ آخر میں سماحۃ القائد کے پیغام میں یہ بھی تھا کہ "ان شاء اللہ آپ کی بھلائی اسی میں ہے جو آپ کے ساتھ ہوا۔ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ اسرائیل آپ کی غفلت کا فائدہ اٹھاتا اور اچانک آپ پر حملہ کر دیتا۔" ہمیں اسرائیل کے حزب اللہ پر اچانک حملہ کرنے کی تیاری کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔ جنگ کے خاتمے کے بعد، اسرائیلی فریق نے اس بات کا اعتراف کیا اور امریکیوں اور مطلع افراد نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اسرائیل اچانک حملہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ مجھے جناب سیّد حسن کے ساتھ اپنی کال کی تفصیلات اچھی طرح یاد ہیں۔ میں آپ سے صاف اور واضح طور پر کہتا ہوں کہ سیّد حسن کے الفاظ بھی ہمیں حوصلہ دیتے تھے؛ یعنی ہمیں آگے بڑھاتے تھے اور ہمارے اندر بہادری کا جذبہ پیدا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سیّد کے لہجے میں بھی سماحۃ القائد کے پیغام کے بعد تبدیلی آ گئی تھی؛ یعنی ان کے الفاظ اس پیغام کے بعد مختلف ہو گئے تھے، جیسے کہ ان کے کلام میں اطمینان نمایاں ہو گیا تھا اور انہوں نے زور دیا کہ سماحۃ القائد کے پیغام کے بعد انہیں اطمینان ہو گیا ہے اور یہ ایک اہم بات ہے۔ سماحۃ القائد کے پیغام میں جناب نصراللہ کے لیے ایک اہم نکتہ — جو لوگوں کے لیے بیان کرنا مفید ہے — یہ تھا کہ اگر 2006 کی جنگ اس وقت نہ ہوتی تو اسرائیل حزب اللہ پر یکبارگی حملہ کر دیتا۔ بعد میں جناب نصراللہ نے یہ بات لوگوں کے سامنے بیان کی۔
سوال یہ ہے کہ ایران میں رہنے والا رہنما اور اسلامی جمہوریہ ایران کو تمام چیلنجوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے چلانے والا رہبر، کیسے جان گیا کہ اسرائیل اچانک حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے؟ ہمیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ ہمیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔ سماحۃ القائد کو کیسے پتہ چلا؟ وہ کیسے اس نتیجے پر پہنچے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہم روحانی سطح پر اس عقیدے اور درست پیش گوئی کی اہمیت کو کبھی معمولی نہیں سمجھ سکتے، یہ چیز جنگ کی قیادت اور اسے آگے بڑھانے میں ہمارے لیے بہت مؤثر تھی۔
اسی طرح سماحۃ القائد نے جناب نصراللہ کو "اے عربی رہنما" کے خطاب سے نوازا۔ انہوں نے حزب اللہ اور جناب نصراللہ کو مبارکباد دی اور ان سے خطاب میں قابل توجہ الفاظ استعمال کیے۔ مثال کے طور پر، انہوں نے "ایّها القائد العربی" — "اے عربی رہنما" — کا استعمال کیا۔ ہم نے سماحۃ القائد کے ساتھ اپنے تجربے سے جانا کہ جناب سیّد حسن نصراللہ، عرب دنیا میں، ایک اہم مستقبل کے سامنے ہیں۔ آج ہم "سیّد حسن نصراللہ؛ عربی رہنما" کے مرحلے میں زندگی گزار رہے ہیں، جس کے بارے میں جناب امام خامنہ ای نے تقریباً تیرہ سال پہلے بات کی تھی۔ یہ موضوع تمام پہلوؤں اور معانی میں قابل توجہ ہے۔
سید القائد ہمیشہ حزب اللہ کے ساتھ روحانی طور پر موجود رہے ہیں، اور ہم ہمیشہ ان کی رہنمائی، ہدایات، اور ان کے غیر معمولی اور تصور سے بالاتر خطابات سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ میں واقعی نہیں جانتا کہ ان کے خطابات کی کن الفاظ میں توصیف کروں! کیا میں انہیں "کرامت" کہوں یا "معجزہ"۔ سید القائد کے خطابات اس نوعیت کے ہیں کہ آپ ان میں عام واقعات سے زیادہ الہام دیکھتے ہیں، کیونکہ وہ تمام واقعات سے باخبر ہیں، تمام واقعات کے بارے میں بات کرتے ہیں، اور مسلسل الہام بخشتے ہیں۔ وہ ہمیشہ سب کو حرکت میں لاتے ہیں، وضاحت کرتے ہیں، تشریح کرتے ہیں، اور تفصیل بیان کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ میرے ذہن میں ہمیشہ یہ سوال رہتا ہے کہ سید القائد ایسے خطابات کیسے کرتے ہیں؛ وہ ایسے غیر معمولی، گہرائی اور وسعت سے بھرپور خطابات کیسے کرتے ہیں؛ میرا مطلب ان خطابات کی فکری، روحانی، سیاسی، اور تجزیاتی گہرائی ہے۔ میں نے صرف مزاحمتی سرگرمیوں کے اہم مراحل کے بارے میں بات کی ہے، اور میں آپ کو پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے بعد، امام خامنہ ای (دام ظلہ) دنیا میں واحد شخص ہیں جو مزاحمت کے بڑھتے ہوئے رجحان کو واضح اور شفاف طور پر دیکھتے ہیں۔
اسلامی انقلاب نے اب تک دو رہبر دیکھے ہیں؛ پہلے رہبر حضرت امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) تھے، اور ان کے بعد حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انقلاب کی قیادت سنبھالی۔ اگر ہم امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای کے ادوار کو کوئی نام دینا چاہیں، تو ان دو ادوار کے لیے کیا نام رکھا جا سکتا ہے؟
فطری طور پر، اگر ہم امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کے بارے میں بات کریں، تو اگر مجھ جیسا کوئی شخص ان کی توصیف کرے، تو یہ ان کی مقدس بارگاہ کی توہین ہو گی، کیونکہ ہم اس کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ لیکن اپنی سادہ اور محدود عقلی سمجھ کے مطابق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام خمینی نے، اسلامی جمہوریہ کے بانی کے طور پر، "ولایت فقیہ" کی بنیاد رکھ کر اور ولی فقیہ — یعنی جامع الشرائط فقیہ — کے کردار کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کے ساتھ، دروازوں کو حقیقی معنوں میں کھول دیا۔ درحقیقت، انہوں نے خیر و برکت کے دروازے کھول دیے۔ انہوں نے دلوں کو فتح کر کے امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے ظہور کی راہ ہموار کی۔ وہ عقلوں کے فاتح تھے اور انہوں نے سب کو خالص اسلام محمدی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور اہل بیت (علیہم السلام) سے روشناس کرایا۔ واضح الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) اسلامی جمہوریہ کے بانی، اس کے معمار، اور اس کے لئے خیر و برکت کے سرچشمہ تھے۔ جو کچھ اسلامی جمہوریہ اور مسلمانوں نے حاصل کیا، اور جو خیر و برکت ہم نے لبنان اور پوری اسلامی دنیا میں اسلامی مزاحمت کے ذریعے حاصل کی، اس کا ایک ہی سرچشمہ ہے، اور وہ امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) ہیں۔ سید القائد، امام خامنہ ای (دام ظلہ) نے اسلامی جمہوریہ اور بین الاقوامی اسلامی تحریک کی بلند عمارت میں اصول اور اقدار کو راسخ کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام خمینی نے دروازے کھولے، اور امام خامنہ ای نے مرحلہ وار اصول اور اقدار کو راسخ کیا۔ جو کچھ امام خامنہ ای نے کہا ہے، اور جو کچھ ان کی تیس سالہ قیادت میں ہوا ہے، وہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ اسلامی تمدن کی تعمیر کے لیے ایک مکمل اور جامع قانون تشکیل پائے، جس کے بارے میں انہوں نے بات کی ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ امام عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے ظہور میں تعجیل فرمائے۔ ان شاء اللہ، اسلامی تمدن امام زمانہ (علیہ السلام) کی پربرکت موجودگی کے سائے میں تشکیل پائے گا، اور ہمیں اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ امام خامنہ ای ایک نئے اور وسیع اسلامی منصوبے کے معمار ہیں۔ وہ اس منصوبے کو فکری، عقیدتی، ثقافتی، ساختیاتی، اور انتظامی طور پر گہرائی میں لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اس راستے پر گامزن ہیں اور اس کے لئے استقامت پر قائم ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ کسی عمل کو جاری رکھنے کی اہمیت اسے شروع کرنے سے کم نہیں ہے۔ لہٰذا، امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) اس راستے کا آغاز کرنے والے تھے، اور امام خامنہ ای (دام ظلہ) اس راستے پر ثابت قدمی اور استقامت کے ساتھ چلنے والے ہیں۔
آپ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ فلسطین کے معاملے میں سیاسی راستہ کامیاب نہیں رہا ہے، اور صرف مزاحمت کا راستہ ہی کارآمد ہے؛ لیکن ہم سنتے ہیں کہ کچھ لوگ یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ فلسطینی خود مصالحت کے خواہاں ہیں! اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، اور کیا واقعی صورتحال ایسی ہے، یا فلسطینی عوام کے درمیان بھی مزاحمتی تحریک ایک مضبوط اور زندہ تحریک ہے؟
میں آپ کے لیے بالکل عینی مثال پیش کرتا ہوں۔ فلسطینی قوم ایک مزاحمتی قوم ہے جو کبھی بھی مزاحمت اور ہتھیار نہیں چھوڑتی۔ تاہم، ہمیں فلسطینی قوم پر پڑنے والے دباؤ کا بھی اندازہ ہونا چاہیے۔ یہ دباؤ بہت زیادہ ہیں اور ہم انہیں کم نہیں سمجھ سکتے۔ فلسطینیوں کو جبری طور پر بے دخل کرنا، انہیں ان کی زمینوں سے نکالنا، امریکیوں اور مغربی ممالک سمیت پوری دنیا کی فلسطینیوں کے خلاف سازشیں، اکثر عرب ممالک — یعنی عرب حکمرانوں — کا ان سے منہ موڑنا، یہ سب دباؤ کا حصہ ہے۔ جیسا کہ عرب دنیا کے وسائل اسرائیل کے مفادات کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں نہ کہ مزاحمت کے لیے۔ ان سب کے باوجود، فلسطینی مزاحمت ستر سالوں سے رکی نہیں ہے۔ یہ مزاحمت کبھی نہیں رکی۔ اگرچہ مزاحمت کو محاصرے میں لیا گیا اور اس پر دباؤ بڑھایا گیا، لیکن پھر بھی یہ ہتھیار ڈالنے پر تیار نہیں ہوئی۔ باوجود اس کے کہ فلسطینی مزاحمت کے اہم رہنماؤں کو شہید کیا گیا، یہ مزاحمت نہیں رکی۔ آج فلسطینی مزاحمت تیس، چالیس یا پچاس سال پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اب فلسطینی مزاحمت اپنے نئے مرحلے میں ہے۔ یعنی وسیع تر اور زیادہ طاقتور مزاحمت کا مرحلہ۔ فلسطینی مزاحمت کے پاس اب میزائل ہیں جو تل ابیب کے لیے خطرہ ہیں۔ ایسی طاقت پہلے نہیں تھی۔ بدقسمتی سے عرب ممالک نے اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا، لیکن اسلامی جمہوریہ کی مدد سے مزاحمت کو ایسے میزائل ملے ہیں جو تل ابیب کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
آج فلسطینی مزاحمت، حزب اللہ کی مزاحمت کو اپنے ساتھ دیکھتی ہے، اور حزب اللہ کی مزاحمت نہ صرف تل ابیب بلکہ صیہونی ریاست کے تمام علاقوں کے لیے خطرہ ہے۔ اسرائیل حزب اللہ کی مزاحمت سے ڈرتا ہے اور اس سے خوفزدہ ہے۔ حزب اللہ کی مزاحمت، فلسطینی مزاحمت کی حامی اور پشت پناہ ہے۔ فلسطینی عوام کا مسلسل اپنی مزاحمت کو آگے بڑھانے اور اسے مضبوط کرنے پر اصرار، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ فلسطینی قوم ایک مزاحمتی قوم ہے۔ ایک ایسی قوم جو ہتھیار نہیں ڈالے گی، ایک ایسی قوم جو ظلم کے آگے جھکے گی نہیں۔ ہاں، اس دوران کچھ کمزور سیاستدان نظر آتے ہیں جو ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانے میں مدینہ منورہ میں بھی ایسے لوگوں کا کردار تھا جو لوگوں کو مایوس کرتے تھے اور ان کے قدم ڈگمگا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں کیوں لڑنا چاہیے، ہمیں جنگ کیوں جاری رکھنی چاہیے؟ قریش نے یہودیوں اور اسلام کے تمام دشمنوں اور عرب قبائل کے ساتھ مل کر مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا اور لوگوں کو ہتھیار ڈالنے کی دعوت دی۔ آج بھی یہ کمزور، بزدل اور منافق لوگ فلسطینیوں اور عرب حکمرانوں میں موجود ہیں۔ وہ لوگوں کو ہتھیار ڈالنے اور جھکنے کی ثقافت کی دعوت دیتے ہیں۔ تاہم، فلسطینی عوام کبھی بھی اس راستے سے تھکے نہیں ہیں اور ان کے ہاتھوں سے مزاحمت کا ہتھیار کبھی نہیں چھوٹا۔ یہ خود مزاحمت کے راستے اور مزاحمتی محاذ کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے؛ ایک ایسا محاذ جس کی امام خامنہ ای (دام ظلہ) ایک فکر، ایک روش، اور ایک طرز عمل کے طور پر رہنمائی کر رہے ہیں۔
فلسطینی قوم آج طاقتور ہے اور اس کے برعکس جو کچھ کمزور لوگ سمجھتے ہیں، وہ کمزور نہیں ہے۔ یعنی کچھ سیاستدان جو امریکی وعدوں کی میز پر بیٹھے تھے اور جب میز ان کے سامنے سے ہٹا دی گئی تو انہیں لگا کہ ان کے ہاتھ خالی ہیں۔ ہاں، ان کے ہاتھ خالی ہیں اور ہمارے ہاتھ خالی نہیں ہیں۔ ہم طاقتور ہیں۔ ہمارے پاس ہتھیار ہیں، میزائل ہیں، ہم مزاحمت کے راستے پر ہیں، ہمارے پاس اسلام ہے، دین ہے، مستقبل ہے، امید ہے اور فلسطین ان شاء اللہ آزاد ہو گا، قدس آزاد ہو گا اور لبنان اور فلسطین کے مجاہدین کے حوالے کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ قدس آزاد ہو گا اور قدس اور فلسطین کی آزادی کے پہلے رہنما ولی فقیہ، یعنی امام خامنہ ای (دام ظلہ) ہوں گے۔ یہی وہ مستقبل ہے جو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے واضح اور شفاف طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تجربے نے ہمیں یہ سکھایا ہے؛ واقعات نے ہمیں یہ دکھایا ہے۔
الحمدللہ ہم آج طاقتور ہیں، فلسطینی قوم طاقتور ہے، خطے میں مزاحمت طاقتور ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی دہاڑ کارگر ہو سکتی ہیں، تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ دہاڑیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ وہ چلے جائیں گے؛ ٹرمپ سے پہلے، امریکہ میں درجنوں صدور آئے اور چلے گئے اور مزاحمت باقی رہی۔ ان شاء اللہ خطے میں مزاحمت — حزب اللہ سے لے کر فلسطین اور خطے میں پھیلی مزاحمت — باقی رہے گی؛ کیونکہ ایک طرف تو اس مزاحمت کی پشت پر ایک عظیم طاقت ہے، ایمان ہے، اور دوسری طرف یہ مزاحمت تاریخ کی ایک اصل فکر پر اور اسلامی جمہوریہ کی طاقت پر بھروسہ کرتی ہے۔
ایک وقت تھا جب صیہونی مجرم جب چاہتے، لبنان کی سرزمین میں داخل ہو جاتے تھے۔ 1982 میں وہ بیروت تک آ گئے تھے اور بہت سے مظالم کیے تھے؛ اس کے بعد بھی وہ اس علاقے پر قابض رہے اور بہت سے قتل عام کیے تھے؛ انہوں نے جنوبی لبنان میں سیف زون بھی بنایا تھا جو سالوں تک قائم رہا۔ حزب اللہ کی مزاحمت نے اسی نقطہ نظر کے ساتھ — اپنے جہادی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے — صیہونیوں کا مقابلہ کیا اور انہیں لبنان کی سرزمین سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ آج، صورتحال کیا ہے؟ کیا اسرائیلی دوبارہ لبنان کی سرزمین میں داخل ہو سکتے ہیں اور لبنانی عوام کو خاک و خون میں نہلا سکتے ہیں؟ حزب اللہ کی مزاحمت نے لبنان، لبنانی عوام اور عالم اسلام کے لیے کیا اعتماد حاصل کیا ہے اور آپ اس مزاحمت کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟
میں امام خامنہ ای (دام ظلہ) کے ایک قول سے آپ کے سوال کا جواب دوں گا۔ سنہ 2000 کی فتح کے بعد، حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل، سید حسن نصراللہ نے سید القائد کو بتایا کہ کیا ہوا تھا۔ انہوں نے میدانی صورتحال اور واقعات کی وضاحت کی، سید القائد مسکرائے اور کہا کہ "میں آپ کی باتوں سے یہ سمجھا ہوں کہ صیہونی، اسلامی مزاحمت کے قدموں تلے آ گئے ہیں۔" درحقیقت، یہی ہوا تھا۔ آج صیہونی لبنان کے اسلامی مجاہدین کے قدموں تلے ہیں اور وہ کچھ نہیں کر سکتے اور نہ ہی کر پائیں گے۔
اسرائیلی فریق، پچاس سالوں سے، عرب ممالک اور عرب قوموں، بشمول جنوبی لبنان، کی سرحدوں پر ایک اسٹریٹجک تشویش قائم رکھتا ہے۔ ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے سیکھا اور سمجھا کہ جنوبی لبنان ہمیشہ اسرائیل کے خطرے میں ہے، کیونکہ ہمارے خاندان اور معاشرے کے افراد ہمیشہ اسرائیل کے خطرات کے سائے میں پریشان اور مضطرب رہتے تھے۔ تاہم، آج حالات بدل گئے ہیں۔ آج آپ جنوبی لبنان جائیں؛ جنوبی لبنان پرسکون، طاقتور اور بہادر ہے۔ جنوبی لبنان میں تشویش اور اضطراب کہاں دیکھا جاتا ہے؟ الجلیل الاعلی، کریات شمونہ اور حیفا کے رہائشی اس بات سے ڈرتے ہیں کہ میزائل وہاں اسرائیلیوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ تل ابیب اور یافا بھی پریشان اور مضطرب ہیں۔ اسرائیلی فوجی، اسرائیلی افسر، اسرائیلی رہنما اور یہاں تک کہ سیاستدان بھی دفاعی منصوبوں کی بات کرتے ہیں۔ ان منصوبوں کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے صیہونیوں کو اطمینان دلانا۔ اللہ کی ایک نعمت یہ تھی کہ انہوں نے 2018 میں ایک فوجی مشق کی اور پھر کہا کہ یہ مشق کامیاب نہیں تھی، کیونکہ صیہونی بستیاں اب بھی خوف اور تشویش میں ہیں۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ "اسٹریٹجک تشویش" کا تصور اسرائیلی فوجیوں، سیاستدانوں اور صحافیوں کے لیے ایک ثقافت بن گیا ہے۔ آج، سید حسن نصراللہ کے خطابات — جو اکثر صیہونی عوام سنتے ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں — اسی منظر کی عکاسی کرتے ہیں۔ پہلے، عرب اسرائیلیوں کے خطابات سنتے تھے کہ پتہ چلے کہ ان کا مستقبل کیا ہے، لیکن آج یہ سید حسن نصراللہ کے الفاظ ہیں جو مستقبل کی راہ متعین کر رہے ہیں؛ یہ سید القائد کی رہنمائی، اسلامی جمہوریہ کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کی رہنمائی، اور سپاہ پاسداران انقلاب کی رہنمائی ہے جو مستقبل کا تعین کر رہی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیلی، سید القائد کے خطابات، سپاہ پاسداران انقلاب، ایران اور اس کی ترجیحات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ لہٰذا، ہر چیز مکمل طور پر الٹ گئی ہے۔ آج ہم نے بڑی اسٹریٹجک فتوحات حاصل کی ہیں، اور اسی لیے مزاحمت کا مستقبل روشن اور بڑی کامیابیوں سے بھرپور ہو گا۔ ہاں، اگر قربانیاں اور جانفشانیاں نہ ہوتیں، تو یہ فتوحات ممکن نہ ہوتیں۔
ہم ہمیشہ سیّد الشہداء ابا عبداللہ الحسین (علیہ السلام) کے راستے پر چلنے کے لیے پرعزم رہے ہیں۔ آج ہمارا معاشرہ ایک کربلائی معاشرہ بن چکا ہے۔ آج لبنان میں ہمارے سامنے ایک کربلائی معاشرہ ہے، ایک حسینی معاشرہ ہے۔ اللہ کا سلام ہو سیّد الشہداء (علیہ السلام) پر! لبنان میں مرد، خواتین اور نوجوان مزاحمت کے راستے پر ہیں، کیونکہ وہ عشقِ مزاحمت کے ساتھ پرورش پاتے ہیں۔ ہماری بیٹیاں، ہمارے بیٹے، ہمارے مرد، ہماری خواتین، ہماری ثقافت، ہمارے اسکول، ہمارے مدارس، ہمارے علماء، ہمارا میڈیا، الحمدللہ، سب مزاحمت سے وابستہ ہیں اور ہر کوئی مزاحمت کے راستے میں جانفشانی کے لیے تیار ہے۔ جو کچھ ہم نے شام میں دیکھا، وہ بالکل واضح تھا۔ شام ایک بڑا تجربہ تھا جس نے مزاحمتی محاذ کی عظمت کو دکھایا۔ فکری، عقلی، دینی، فقہی اور اخلاقی سطح پر، مزاحمت میں اقدار کا ایک مجموعہ وجود میں آیا جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کی فکر اور امام خامنہ ای (دام ظلہ) کی مسلسل اور براہِ راست رہنمائی نے ہمارے اندر پیدا کیا ہے۔ لہٰذا، ہم ایک بے مقصد اور بے راہ مزاحمت کو نہیں دیکھ رہے ہیں؛ جو مزاحمت موجود ہے، وہ صرف ایک عام فوجی مزاحمت نہیں ہے؛ ہم اپنے سامنے ایک کربلائی، ولائی اور مہدوی مزاحمتی دیکھ رہے ہیں جو مزاحمتی فکر پر یقین رکھتی ہے۔ اس تجربے کی بنیاد پر، مزاحمتی سرگرمیاں مختلف شکلیں اختیار کر سکتی ہیں؛ جیسے کہ لبنان سے خطرے کو دور کرنا یا ان شاء اللہ قدس کو آزاد کرانا۔ مزاحمت چاہتی ہے کہ تمام عرب اور اسلامی قومیں ظالم حکمرانوں اور امریکی جبر کے جابرانہ تسلط سے آزاد ہوں۔
ہمیں یقین ہے کہ مزاحمتی محاذ اور یہ تحریک جو عالمِ اسلام اور عرب دنیا میں پھیل چکی ہے، امام خامنہ ای (دام ظلہ) کی قیادت میں اپنے راستے پر گامزن رہے گی اور اپنی کامیابیوں کو انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے حوالے کرے گی۔ یا صاحب الزمان! کیا یہ کافی ہے؟ ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ خطے میں مزاحمتی سرگرمیوں کے ذریعے حاصل کی گئی ناقص کامیابیوں کو قبول فرمائیں۔ یا صاحب الزمان! جو شخص مزاحمت کی قیادت کر رہا ہے، وہ آپ کا نائب ہے؛ وہ ولی فقیہ ہے؛ کیا یہ کافی ہے یا ہمیں مزید کامیابیاں پیش کرنی چاہئیں؟ ہم آپ کی مبارک آمد کے لیے حالات کو سازگار بنانے کی خاطر مزید قربانیاں دینے پر تیار ہیں۔ صاحب الزمان (علیہ السلام) کا ظہور اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور وہی جانتا ہے کہ یہ کب ہو گا۔ ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ان کے ظہور کو قریب فرمائے۔
1) سورہ آل عمران آیت 144: اور حضرت محمد (ص) نہیں ہیں مگر پیغمبر جن سے پہلے تمام پیغمبر گزر چکے ہیں تو کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو تم الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پلٹ جاؤگے ....
2) تہران کی نماز جمعہ کے خطبے 19 جون 2009