بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

اگر وقت گزر نہ گیا ہوتا تو میں چاہتا تھا کہ جن حضرت کا آپ نے نام لیا اور اسی طرح بعض دیگر حضرات جو اس محفل میں موجود ہیں اور میں ان کے ذوق لطیف نیز ان کی پختہ و معنی و مفاہیم سے سرشار شاعری سے واقف ہوں، ان سے استفادہ کرتا۔ لیکن وقت گزرچکا ہے اور انسان جب تھک جائے، آپ تو ابھی جوان ہيں، اتنی جلدی نہیں تھکیں گے لیکن ہماری عمر میں انسان جلدی تھک جاتا ہے، جب تھکا ہو تو شعر سے اس طرح لطف اندوز نہيں ہوتا جس طرح ہونا چاہئے۔   

الحمد للہ، انقلابی اور مذہبی احساس ذمہ داری کی حامل شاعری ترقی کر رہی ہے۔ آج کی رات میرے لئے نوید بخش تھی۔ جو اشعار یہاں پڑھے گئے عموما بہت اچھے اشعار تھے۔ البتہ سبھی اشعار ایک سطح کے نہيں تھے۔ بعض خوب تر تھے اور بعض خوب۔ اشعار پڑھنے کا انداز اور شعری نکات پر توجہ سے پتہ چلتا تھا کہ یہ اشعار ابتدائی نہيں ہیں، بلکہ شاعر کے باطن سے نکلے ہوئے اشعار ہیں اور ان کا سرچشمہ شاعر کا باطن ہے۔

یعنی الحمد اللہ ملک میں تربیت یافتہ شعرا کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ البتہ مجھے رپورٹ دی ہے کہ رواں ایرانی سال میں،  متعلقہ مراکز کی جانب سے انجام پانے والی آزمائش میں انقلابی اور مذہبی احساس ذمہ داری حامل  شاعری کرنے والے شعرا بہت کامیاب رہے ہیں۔ 

شاعری میں فروغ کی یہ لہر بالخصوص نوجوانوں میں، بہت امید بخش ہے۔ شاعری اہم ہے، شاعری ایک بے نظیر آرٹ ہے۔ انواع و اقسام کے ابلاغیاتی ذرائع، شاعری کی قوی ابلاغیاتی حیثیت اور اس کی تاثیر کم نہیں کر سکے۔ شاعری در حقیقت ایک موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔ بنابریں شاعری میں جتنی پیشرفت ہو اور اچھے شعرا کی تعداد جتنی بڑھے، اتنی ہی خوشی کی بات ہے۔  

انجمنیں کافی ہو گئی ہیں جو بہت اچھی بات ہے، ہمیں توقع ہے کہ کیفیت بھی اسی لحاظ سے بہتر ہوگي۔ اس وقت ہمارے  اچھے نوجوان شعرا میں کمیت کو کیفیت پر برتری حاصل ہے۔ لیکن ميں جو استعداد ان میں دیکھ رہا ہوں، اگر محنت کریں اور اچھی پیشرفت کریں تو ان کے اشعار کا معیار بھی بہت اچھا ہو جائے گا۔ ہمارے یہاں معیاری شعرا کی الحمد للہ کمی نہیں ہے۔ یعنی اچھے اور قوی شعرا جن سے ہمیں توقع تھی  کہ اوپر جائيں گے، وہ اوپر گئے ہیں اور الحمد للہ ہمارے شعرا میں انقلابی اور مذہبی احساس ذمہ داری کی حامل شاعری کرنے والے کم نہیں ہیں۔ لیکن میں نے بارہا اور مکرر تاکید کی ہے کہ کوئی بھی چاہے شاعری ہو یا کوئی اور میدان، اپنے اندر ارتقا دیکھ کر اس پر قانع نہ ہو جائے۔ آپ اگر دیکھیں کہ آپ کے اشعار اچھے ہو گئے ہیں، آپ کی توانائی زیادہ ہو گئی اور آپ کا کام ممتاز ہو گیا ہے، تو اس پر قناعت نہ کریں۔ کیونکہ آپ اب بھی حافظ سے دور ہیں، سعدی سے دور ہیں اور نظامی سے کافی فاصلے پر ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا دور سعدی پیدا کر سکتا ہے۔

 یہ بحث بہت طولانی ہے کہ وہ عوامل کیا ہیں جو شاعر کو شاعر بناتے ہیں اور اس کے اندر یہ توانائی پیدا کرتے ہیں کہ الفاظ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہيں اور صحیح ترکیبوں اور اصلاحات سے کام لے۔ اس سلسلے میں، میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ بہرحال یہ دور، شاعروں کی حوصلہ افزائی کا دور ہے۔ اس میں اور اس بات میں کوئی منافات نہیں ہے کہ شاعروں نے ہر دور میں شکوے اور شکایات کی ہیں۔ ہمیشہ یہی رہا ہے۔ ایران میں شاعری شروع ہونے کے بعد سے ہی یعنی ایک ہزار برس سے کچھ اوپر کےعرصے میں شاعروں نے ہمیشہ گلہ کیا۔ آپ ہمارے بڑے شعرا کو دیکھیں، بادشاہوں کے دربار میں اتنی پذیرائی تھی اور اس طرح پیسے لے کر مدح کرتے تھے:

شنیدم کہ از نقرہ زد  دیگدان      ز زر ساخت آلات خوان عنصری (2)

اس کے باوجود وہ گلہ شکوہ کرتے تھے اور ہمیشہ زندگی سے گلہ مند رہتے تھے۔ یہ چیز ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ ختم نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی پریشانیاں اور مسائل ختم نہیں ہوتے۔ البتہ دوسرے نہیں دیکھتے، شاعر انہیں دیکھتا ہے۔ دوسروں میں بیان کرنے والی زبان نہیں ہوتی، شاعر کے پاس یہ زبان ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے۔ اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ لیکن شاعروں کے ساتھ سماجی سلوک، میری مراد مادی مسائل نہیں ہیں، اس حیثیت سے کہ وہ شاعر ہیں، عظیم اہل فن ہیں، ان کا احترام ہوتا ہے۔

ہم نے طاغوتی (شاہی) دور ميں بڑے شعرا کو دیکھا ہے جو واقعی ممتاز شاعر تھے، لیکن کوئی انہیں اہمیت نہیں دیتا تھا۔ مثال کے طور امیری فیروزکوہی بہت بڑے شاعر تھے۔ میری نظر میں اپنے زمانے میں غزل کے بہترین شاعر تھے لیکن کوئی ان پر توجہ نہیں دیتا تھا، لوگ ان سے کوئی سروکار ہی نہیں رکھتے تھے۔ وہ سڑک پر، اسی اپنے گھر کی سڑک پر چلتے تھے، کوئی انہیں سلام تک نہیں کرتا تھا، انہیں کبھی بھی کسی ٹی وی یا ریڈیو پروگرام میں نہیں بلایا گیا۔ البتہ اس زمانے میں اس چیز کا زیادہ رواج بھی نہیں تھا۔ حتی پرنٹ میڈیا میں بھی انہیں اور ان جیسے لوگوں کو نہیں بلایا جاتا تھا۔  صرف یہ ہوتا تھا کہ اگر کسی روزنامہ میں جگہ خالی رہ جاتی تھی تو صفحہ بھرنے کے لئے رھی کی کوئی غزل یا کبھی امیری  یا کسی اور شاعر کی کوئی غزل شائع کر دیا کرتے تھے۔  ان پر کوئی توجہ نہيں دیتا تھا۔ آج شعرا ٹی وی پر، ریڈیو پر مختلف پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔ بنابریں آج سعدی بننے کے لئے ‌فضا ہموار ہے۔ حافظ تک پہنچنے کے لئے ماحول سازگار ہے، نظامی بننے کے لئے بھی زمین ہموار ہے۔ آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر آج ہمارے شعرا نے جو زبان تلاش کی ہے وہ بے نظیر ہے۔ یعنی جو اشعار آپ نے یہاں سنائے، ان کی زبان بے نظیر ہے۔ یہ دور انقلاب کی زبان ہے۔ اس کی تعریف کیا ہے، اس پر کام اور غوروفکر کی ضرورت ہے۔ البتہ بعض لوگوں نے اس سلسلے میں کام کیا ہے لیکن میرے لئے زیادہ واضح اور روشن نہیں ہے، تاہم زبان، نئی ہے۔ نہ سبک خراسانی کی زبان ہے اور نہ ہی جدید سبک عراقی کی غزل کی زبان ہے اور نہ ہی سبک ہندی کی غزلوں کی زبان ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی کچھ باتیں ہیں اور کچھ باتیں بالکل نئی ہیں جو آج کی شاعری سے مخصوص ہیں۔ یہ بذات خود ایک اہم بات ہے جو ہمارے دور میں ایک بڑے  شاعر، بڑے شعرا اور بلند چوٹیاں فرض کی جا سکتی ہیں۔ ان شاء اللہ یہ کام ہونا چاہئے۔

شاعر کا باطن اس کے اشعار پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لئے کہ آپ جو کہتے ہیں وہ آپ کے باطن سے ابلتا ہے۔ آپ کا باطن جتنا پاکیزہ اور صاف ہوگا آپ کی شاعری بھی اتنی ہی پاکیزہ اور زلال ہوگی۔ اس پر ضروری توجہ ہونی چاہئے۔ اس کے نمونے ہم نے دیکھے ہیں، اپنے خاص احساسات و جذبات کے ساتھ شاعری کرنے والوں کے اشعار میں ان کے لطیف ذوق اور احساسات محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ بنابریں جہاں تک ہو سکے، تقوا اور شریعت نیز دینی تعلیمات کی پابندی کریں اور اپنی فکر کو زیادہ بروئے کار لائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ قرآن کریم کے سورہ شعرا کے آخر میں دیکھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ "اِلَّا الَّذینَ آمَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحاتِ وَ ذَکَرُوا اللهَ کَثیرا "(3) "ذَکَرُوا اللهَ کَثیرا" کیوں؟ سبھی کو زیادہ ذکر کرنا چاہئے۔ لیکن  خصوصیت کے ساتھ شاعر کے لئے کہا جاتا ہے کہ "ذَکَرُوا اللهَ کَثیرا" تو ظاہر ہے کہ شاعر کو اس ذکر کثیر کی ضرورت ہے۔ یعنی اس کو ذکر کثیر کرنا چاہئے۔  

 میری ایک سفارش یہ ہے کہ گنجینہ ادب فارسی سے زیادہ سے زيادہ استفادہ کیا جائے۔ ہم نے کہا کہ ہمارا سبک شاعری سعدی کے سبک شاعری سے مختلف ہے، لیکن سعدی کی شاعری، فن وہنر کا ایک عظیم ذخیرہ ہے، اس کے بعد حافظ اور بعض دیگر شعرا بھی اسی طرح ہیں۔ واقعی ان کی نظیر نہیں ملتی۔ ان کی شاعری ، فن شاعری کے لحاظ سے ممتاز ہے۔ ان کی شاعری کے ایک ایک حصے اور ایک ایک ذرے میں ایسے نکات موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ جو کہ ذوق سلیم رکھتے ہیں، آپ نوجوان ہیں، آپ کچھ ایسی باتیں بھی دیکھتے ہیں جو ہم جیسے لوگ نہیں دیکھتے، آپ بہت سی باتوں سے بہت اچھی طرح استفادہ کر سکتے ہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ ان سے مراجعہ کیا جائے۔

 ایک اور نکتہ عاشقانہ شاعری اور عاشقانہ غزل سے متعلق ہے۔ بعض اوقات، میں اس محفل میں دیکھتا ہوں، گزشتہ برسوں میں بھی ایسا ہی تھا، کہ جیسے عاشقانہ غزل جرم ہے یا منفی چیز ہے۔ جی نہیں، بہرحال شاعر کے اندر ایسے احساسات پیدا ہوتے ہیں جو محبت اور عشق کی حکایت کرتے ہیں، اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ بنابریں عاشقانہ شاعری ميں کوئی حرج نہیں ہے۔ اعلی اور مقدس مفاہیم کے لئے کہے جانے والے اشعار کے ساتھ عاشقانہ اشعار بھی کہے جائيں۔ اس میں کوئي حرج نہیں ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ روایتی فارسی شاعری میں عاشقانہ اشعار میں ہمیشہ عفت اور نجابت ملحوظ رہی ہے، لہذا ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ عاشقانہ اشعار ان حدود میں ہی رہیں۔ عاشقانہ شاعری میں بے پردگی، برہنگی اور بے حیائی ٹھیک نہیں ہے۔ طاغوت کے دور میں شاعروں میں کچھ ایسے لوگ تھےجوعمدا یہ کام کرتے تھے۔ ایک بار میں نے ان کے نام لئے ہیں، دوبارہ نہیں لینا چاہتا، لیکن عفت اور نجابت وغیرہ کے پہلوؤں نشانہ بنانے والی باتوں کی طرف کوئی اشارہ کئے بغیر اچھے عاشقانہ اشعار کہے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جس کا ذکر ضروری تھا۔   

 ایک اور مسئلہ مضمون باندھنے کا ہے ۔ البتہ جو اشعار یہاں پڑھے گئے وہ بہت اچھے مضامین کے حامل تھے اور ان اشعار میں نظر آتا ہے کہ نئے مضامین کیسے لائے گئے ہیں اور کس طرح بیان کئے گئے ہیں۔ ایک ہی بات کئی طرح سے کہی جا سکتی ہے۔ آپ اسی بات کو جو آپ سے پہلے سو شعرا کہہ چکے ہیں، نئے انداز میں کہہ سکتے ہیں "یک عمر میتوان سخن از زلف یار گفت" (4) نئی ترکیب اور نئے قالب میں بیان کر سکتے ہیں۔ یہ مضمون سازی ہوگی۔ سبک ہندی کے اشعار میں مضامین ہوتے ہیں۔ ورنہ سبک ہندی کی شاعری میں جو چیزیں ہیں، ایسا نہیں ہے کہ دیگر سبک کے اشعار میں وہ چیزیں نہیں ہیں۔ لیکن اس طرح نہيں ہیں جس طرح سبک ہندی کی شاعری میں انہیں استعمال کیا گیا ہے، سبک ہندی کے مضامین کی طرز پر نہیں ہیں۔

شادم کہ از رقیبان، دامن کشان گذشتی

گو مشت خاک ما ھم برباد رفتہ باشد (5)

 کیا یہ بات کسی نے نہیں کہی ہے؟ کیوں نہیں۔ اس مضمون کے شاید دس اشعار مل سکتے ہیں۔ لیکن یہ تعبیر کہ "دامن کشان گذشتی" مضمون آفرینی ہے۔ البتہ صائب کی شاعری میں یہ غیر معمولی مفاہیم بہت پائے جاتے ہیں۔ صائب کے اشعار اول سے آخر تک اسی طرح ہیں۔ صائب کے  پیرو شعرا جیسے حزیں لاہیجی وغیرہ  میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے اور اس کا اوج بیدل مرحوم کی شاعری میں ہے۔ بیدل کی شاعری بہت سخت ہے اور میری نظر میں یہ لازم بھی نہیں ہے کہ ہم بھی انہیں کی طرح مضمون آفرینی کریں کہ جس کی تشریح اور تفصیل بیان کرنے کی ضرورت ہو۔ البتہ بیدل کا درجہ بہت بلند ہے اور وہ شاعری میں بھی، الفاظ کے انتخاب میں بھی اور معنی و مفاہیم کی آرائش میں بھی کم نظیر ہیں۔ لیکن بہت لازمی نہیں ہے کہ انہیں کی طرح کی شاعری کی جائے۔ لیکن بہرحال مضمون آفرینی ضروری ہے۔ اچھی زبان اور مناسب اصطلاحات سے استفادہ ضروری ہے۔ عامیانہ زبان،  خاص طور نچلی سطح پر رائج بولی سے پرہیز ضروری ہے۔ اگر ان نکات پر توجہ دیں تو شاعری میں بلندی آئے گی۔ اشعار ممتاز ہو جائيں گے۔ میں نے یہاں نوٹ کیا ہے کہ "لطیف اور نازک شاعرانہ احساسات کے ساتھ درس آموز مضامین اور زبان رسا و شیریں" یہ اگر ہوں تو شعر واقعی ممتاز ہو جائے گا۔

ایک اور نکتہ ہمارے زمانے کے مفاہیم کے مسئلے سے متعلق ہے۔ میری نظر میں ذوق و شوق پیدا کرنے والے جتنے ممتاز سماجی مفاہیم اس زمانے میں پائے جاتے ہیں، اتنے بہت کم ادوار میں پائے گئے ہیں۔ آپ ملاحظہ فرمائيں کہ اسی آج ہی کی محفل میں شہید سلیمانی کی بات کی گئی، شہید رئیسی کی بات آئی، شہید سنوار اور شہید نصراللہ کا ذکر بھی ہوا۔ یقینا بہت سے حضار محترم بھی اس کے  منتظر تھے کہ کہا جائے یا شاید کچھ لوگ انہیں کے بارے میں اشعار کہہ رہے ہیں، یقینا یہ بات ہے، اس لئے کہ میں نے جناب ملکیان (6) اور بعض دیگردوستوں سے اس سلسلے میں بہت اچھے اشعار سنے ہیں۔ یہ بہت اہم موضوعات ہیں۔ یہ درحقیقت ان مفاہیم کو زندہ کرنے والے موضوعات ہیں جنہیں ذہن انسانی ميں باقی رہنا چاہئے۔ یہ اس دور کا کام ہے۔ میری نظر ميں یہ بھی ضروری ہے۔ 

اسی طرح شاعری میں توحیدی اور دینی  نیز حکمت آمیز مفاہیم بھی ضروری ہیں۔ میں نے جو ایک دوست کے اشعار کے لئے کہ واقعی حکمت آمیز تھے، تو ایسا ہی ہے۔ بعض تعبیرات اور مفاہیم جو اشعار میں بیان کئے جا رہے ہیں وہ بہت ہی اعلی سطح کے حکمت آمیز مفاہیم ہیں۔ یہ باتیں بہت اہم ہيں۔ ان کی کوشش کرنی چاہئے۔ البتہ اس کے مخاطبین کم ہوں گے کیونکہ سب ان مفاہیم کو نہیں سمجھتے۔       

 گفتم زکجایی تو، تسخر زد وگفتا من

نیمی ام ز ترکستان، نیمی ام زفرغانہ (7)

 یہ بات بہت سے لوگ نہیں سمجھیں گے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ یہ مستی جو وہ بیان کرتا ہے:

ای لولی بربط زن تو مست تری یا من؟

ای پیش چو تو مستی، افسون من افسانہ(8)
 

 اس کو اکثر لوگ نہيں سمجھیں گے کہ اس کا مفہوم کیا ہے، لیکن یہ مفہوم پایا جاتا ہے، اس کے طرفدار بھی ہیں اور اس کو سمجھنے والے بھی ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو ان مضامین کو سمجھتے ہیں۔ اگر کوشش کی جائے تو اس کے اچھے مخاطبین مل سکتے ہیں۔

ٹیلیویژن سے استفادے کی نوعیت کے بارے میں بھی میری ایک رائے ہے۔ البتہ یہ ذاتی رائے ہے اور میں اس سلسلے میں کوئی امر و نہی نہیں کرنا چاہتا۔

اگر ہم ٹی وی پر منظم طور پر، ہفتے وار، ایک گھنٹے کا پروگرام نشر کریں اور اس میں اپنے معیار کے مطابق اچھے اور مطلوبہ شاعر کو لائيں کہ ناظرین اس نوجوان شاعر کو سنیں، اس کے اشعار کو سنیں، اس کے بارے میں بات کریں، بحث کریں، اس سے اس شاعر کی سطح نیچے آئے گی۔ ٹی وی پر شاعر سے استفادہ یہ نہيں ہے۔ اس سے سب استفادہ نہيں کریں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ اس طرح کے پروگرام شاعری کو بازاری کر دیں گے۔ اس اچھے شاعر کو بازاری بنا دیں گے۔ اشعار یقینا ٹی ی اور ریڈیو پر پڑھے جائيں لیکن اچھے اور مخصوص طریقے سے، کوئی اچھی نظم یا قطعہ وغیرہ ایک اچھی تمہید کے ساتھ  ایک اچھا اینکر پڑھے۔ مثال کے طور پر وہ بتائے کہ ایک شاعر ایسا ہے جس کی یہ خصوصات ہیں اور اس نے اس موضوع پر اشعار کہے ہیں، اس کے بعد وہ شاعر پورے احترام کے ساتھ  لاکر وہاں بٹھایا جائے اور وہ اپنے اشعار سنائے۔ یہ بہت اچھا ہوگا۔ لیکن اس طرح کہ جس طرح میں نے ابھی بیان کیا، میری نظر میں شاعری  نیچے آئے گی۔ اصولا اس کے طرفدار بھی زیادہ نہیں ہوں گے۔ یعنی عوام، سبھی لوگ اس طرح کے شاعری کے پروگرام پسند نہیں کرتے۔ بہرحال امید ہے کہ اس سلسلے میں سبھی پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے گا۔  

ایک دوست  نے آج رات کے حوالے سے مجھے ایک مشورہ دیا ہے، بہت اچھے نکتے کی یاد دہانی کرائی ہے اور وہ یہ ہے کہ ماضی میں ہماری شاعری کی جو روایتی کتاب ہوا کرتی تھی، اس میں پہلے توحید کا بیان اور حمد ہوا کرتی تھی۔ «اوّل دفتر به نام ایزد دانا" (9)  حتی مولوی بھی جو خدا کا نام وغیرہ نہیں لیتے ہیں،  وہ بھی در اصل معنوی و ازلی ارتباط کو بیان کرتے ہیں اور وہ ارتباط بھی خدا سے ہے۔ وہ بھی معنویت ہے۔ وہ بھی معرفت ہے (10)۔ میری نظر میں اگر اس کی رعایت کی جائے تو بہت اچھا ہے۔ یعنی آپ اپنے اشعار کا مجموعہ شائع کریں تو شروع میں یہی معرفت کے اشعار ہوں، توحید کے اور حمد کے اشعار ہوں۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو کامیابی عطا فرمائے۔

 والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔

1۔ اس محفل کے شروع میں کچھ شعرا نے اپنے اشعار سنائے

2۔  خاقانی۔ دیوان شاعری، قطعات، اس مطلع کے ساتھ ایک قطعہ کہ

" بہ تعریضی گفتی کہ خاقانیا    چہ خوش داشت نظم روان عنصری"

3۔ سورہ شعرا، آیت نمبر 227 "۔۔۔۔  الّا ان کے جو ایمان لائے، اچھے کام کئے اور خدا کو بہت یاد کرتے ہیں"

4۔ صائب تبریزی، دیوان شاعری، غزلیات۔

یک عمر میتوان سخن از زلف یار گفت

در بند آن مباش کہ مضمون نماندہ است

5۔ حزیں لاہیجی۔ دیوان شاعری، اس مطلع کی غزل کہ

ای وای بر اسیری کز یاد رفتہ باشد

در دام ماندہ باشد ، صیاد رفتہ باشد

6۔ جناب محمد حسین ملکیان

7۔ مولوی، دیوان شمس، غزلیات، اس مطلع کی غزل کہ

من بیخود وتو بیخود ما را کہ برد خانہ

من چند تورا گفتم کم خور دوسہ پیمانہ

  گفتم زکجایی تو؟ تسخر زد وگفت ای جان

نیمی ام ز ترکستان نیمی ام زفرغانہ   

8۔ ایضا

9۔ سعدی، دیوان شاعری، غزلیات، اس مطلع کی غزل کہ

اول دفتر بہ نام ایزد دانا   صانع پروردگار حیّی و توانا

11۔ مولوی، مثنوی، دفتر اول

بشنو این نی چون شکایت میکند      ازجدایی ھا حکایت میکند