اس موقع پر انھوں نے اپنے خطاب میں عمان میں ہونے والی بات چیت کو وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک بتایا اور زور دے کر کہا کہ ملک کے مسائل کو اس بات چیت سے نہیں جوڑا جانا چاہیے اور جو غلطی جے سی پی او اے (ایٹمی معاہدے) میں ہوئي تھی اور ملک کی ہر چیز کو مذاکرات میں پیشرفت پر منحصر کر دیا گيا تھا، اسے دوہرایا نہیں جانا چاہیے کیونکہ ملک شرط کی حالت میں آ جاتا ہے اور سرمایہ گزاری سمیت ہر چیز مذاکرات کے نتائج واضح ہونے تک تعطل کا شکار ہو جاتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صنعت، معیشت، تعمیرات، ثقافت اور بڑے منصوبوں پر عمل درآمد سمیت تمام میدانوں میں ملک کی سرگرمیاں جاری رہنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان میں سے کسی بھی مسئلے کا عمان میں ہونے والی بات چیت سے کوئي تعلق نہیں ہے۔
انھوں نے اس بات چیت کے سلسلے میں حد سے زیادہ خوش فہمی اور بدگمانی سے پرہیز کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائي قدموں میں بات چیت کے سلسلے میں ملک کے فیصلے پر اچھا کام ہوا ہے اور اس کے بعد بھی بہت احتیاط سے آگے بڑھنا چاہیے اور ساتھ ہی ہمارے لیے بھی اور فریق مقابل کے لیے بھی ریڈ لائنز پوری طرح سے واضح ہیں۔
آيت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ممکن ہے کہ بات چیت نتیجے تک پہنچے اور ممکن ہے کہ نتیجے تک نہ پہنچے، ہم بھی اس بات چیت کے سلسلے میں نہ تو بہت خوش فہمی میں مبتلا ہے اور نہ ہی بہت بدگمان ہیں، البتہ فریق مقابل کے سلسلے میں ہمیں بہت بدگمانی ہے تاہم ہمیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے۔
انھوں نے غزہ کے اسپتالوں، رپورٹروں، ایمبولینسوں، اسپتالوں، بچوں اور عورتوں پر حملے کے سلسلے میں شر پسند صیہونی گینگ کے عدیم المثال جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان جرائم کے لیے غیر معمولی درندگی کی ضرورت ہے جو غاصب شر پسند گينگ میں پائي جاتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے معاشی و سیاسی میدانوں میں اور ضرورت پڑنے پر آپریشنل سطح پر عالم اسلام کے ہماہنگ اقدام کو ایک سنجیدہ ضرورت بتایا اور کہا کہ البتہ خداوند عالم ان ظالموں کو تازیانے لگائے گا تاہم یہ چیز حکومتوں اور اقوام کی سنگین ذمہ داریوں کو کم نہیں کرتی۔
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں پروڈکشن میں سرمایہ کاری کو پابندیوں سے مقابلے کی بہترین راہ بتایا اور کہا کہ پابندیوں کو ختم کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن پابندیوں کو ناکام بنانا ہمارے ہاتھ میں ہے اور اس کے لیے بے شمار راستے اور مناسب ملکی صلاحیتیں پائي جاتی ہیں اور اگر یہ ہدف عملی جامہ پہن لیتا ہے تو ملک، پابندیوں کے مقابلے میں محفوظ ہو جائے گا۔
آيت اللہ خامنہ ای نے ہمسایہ ممالک، ایشیا کی بڑی اقتصادی طاقتوں، افریقی ممالک اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں فروغ جاری رکھنے کو اہم بتایا اور اس پر کام جاری رکھنے پر تاکید کی۔ انھوں نے اسی طرح دیگر ممالک کے سربراہان ممالک سے، صدر مملکت کے رابطوں اور وزارت خارجہ کے کاموں کو بہت اچھا اور مؤثر بتایا۔