بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.
آپ کو عید مبارک ہو! ان شاء اللہ آپ خود بھی اور آپ کے اہل خانہ، ان پاک نیتوں سے بہترین استفادہ کریں اور جو کچھ جناب ڈاکٹر عارف نے جو تجربہ کار ہیں، واقعی تجربہ رکھتے ہیں، کہا ہے اور بیان کیا ہے، اس پر آپ عمل کریں۔
میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کے اہل خانہ کو، آپ کی شریک حیات کو عید کی مبارکباد پیش کروں اور ان کا شکریہ ادا کروں اور مجھے یقین ہے کہ اگر شریک زندگی ان کاموں میں جو آپ حکام، وزرا، اراکین پارلیمان، معاونین، مشیر حضرات اور مختلف شعبوں کے سربراہان، انجام دیتے ہیں، آپ کے ساتھ ہو، ہم فکر ہو اور ہمدل ہو تو کاموں میں زیادہ اچھی پیشرفت ہوگی۔ اس کا کچھ تعلق آپ کے طرزعمل اور سلوک سے بھی ہے۔
بعض حکام اتنے ذوق و شوق کے ساتھ اپنے کام اور ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مصروف ہوتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے بیوی بچے بھی ہیں، ان کے تئيں بھی ان کے فرائض ہیں، ان کا گھر ہے، انہیں دن اور رات کا کھانا گھر والوں کے ساتھ کھانا چاہئے، بالکل بھول جاتے ہیں۔ اس کو فراموش نہ کریں!
جناب ڈاکٹرعارف کی تقریر کے بارے میں، میں ایک بات عرض کروں گا کہ آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کی پارلیمنٹ اور مٹنگوں میں پیروی کریں۔ بہت اچھا ہے، جو کہا گیا ہے، وہ بہت اچھا ہے لیکن ملک میں ایک کمی ہے جو اہم ہے۔ ہمارے پاس قانون کی کمی نہیں ہے، اصول و ضوابط کی کمی نہیں ہے، اچھے منصوبوں کی بھی کمی نہيں ہے، ہمارے پاس منصوبے بہت اچھے ہیں، سوچا گيا، کہا گیا، پاس کیا گيا۔ جس چیز کی کمی ہے وہ پیروی ہے۔ پیروی کریں۔
بعض اعدادوشمار جو انھوں نے دیے ہیں، ان سے انسان فکر میں ڈوب جاتا ہے۔ فرض کریں پیٹرول کے استعمال کے جو اعداد وشمار انہوں نے دیے ہیں، شاید کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس کے دوگنا ہیں جتنا اس ملک میں استعمال ہونا چاہئے۔ یہ مسئلہ حل ہونا چاہئے۔ یہ قابل حل ہے۔ ملک میں پیٹرول کا روزآنہ کا استعمال، 80 ملین، 75 ملین (لیٹر) اور اس سے کم سطح تک بھی پہنچ چکا ہے۔ انھوں نے ایک سو ساٹھ (ملین لیٹر) سے کچھ اوپر کا ذکر کیا ہے! اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے، پیروی کی ضرورت ہے۔
اسکولوں سے متعلق مسائل، تعلیمی مساوات کے امور، کمزور اور غریب طبقات کے امور، ان سب کو دیکھنے اور ان کی پیروی کی ضرورت ہے۔ میری درخواست ہے کہ اس کی پیروی کریں۔ میٹنگ بہت اچھی چیز ہے، فیصلہ کرنا بھی اچھا ہے، ذمہ دار عہدیداروں اور افسران کا جذبہ اور ذوق و شوق بہت اچھا ہے، یہ لازمی اور مبارک امر ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ آپ حاکم ہیں، آپ کے اندر ذوق وشوق بھی ہے، دلچسپی بھی ہے، آپ اپنے بعد والے کو حکم بھی دیتے ہیں، وہ ممکنہ طور پر اپنے ماتحت کو حکم دیتا ہے لیکن یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتے بڑھتے کمزور ہو جاتا ہے اور بعض اوقات اس حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔
ایک بہت ضروری کام، بچت ہے۔ میں نے اس سال کے سلوگن وغیرہ کے حوالے سے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں، جنہیں بیان کروں گا لیکن بچت کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ بجلی کے استعمال میں اور توانائی کے استعمال میں بچت اہم ہے۔ سب سے زیادہ خود سرکاری اداروں کو بچت کرنا چاہئے۔ کیونکہ سب سے بڑی صارف خود حکومت ہے، سرکاری ادارے ہیں۔ سب سے زیادہ پیٹرول حکومت استعمال کرتی ہے۔ سب سے زیادہ بجلی بھی حکومت استعمال کرتی ہے۔ اسی طرح باقی چیزیں بھی ہیں۔ بچت کی عادت ڈالیں۔ شیخ سعدی کے بقول:
چو دخلت نیست خرج آہستہ ترکن کہ میگویند ملّاحان سرودی
اگر باران بہ کوہستان نبارد بہ سالی دجلہ گردد خشک رودی (2)
یہ بات ہے۔ پارلیمنٹ کے بعض آذری زبان لوگوں کے لئے
" شط اگر الماسا بغدادا الماز"(3) بہرحال پیروی سنجیدگی کے ساتھ ہونی چاہئے۔ یہ پہلا مسئلہ ہے۔
میں نے یہاں نوٹ کیا ہے کہ اقتصادی مسائل میں مشترکہ دستورالعمل سے سال کے سلوگن کے عملی شکل اختیار کرنے میں مدد کریں۔ یعنی یہ کہ "پیداوار کے لئے سرمایہ کاری" سلوگن ہو اور سبھی اس کام کو اپنا فریضہ سمجھیں، اس سے ملک کو نجات دلانے میں مدد ملے گی۔
ہمارے سامنے سرمایہ کاری کی مشکل ہے۔ پیسے جو کم وبیش عوام کے پاس ہیں، کام یہ ہے کہ آپ، مرکزی بینک، وزارت خزانہ اور بعض دیگر ادارے، اس پیسے کو سرمایہ کاری پر اور پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری پر لگانے کی ہدایت کریں۔ اس کی پیروی کریں۔ یہ بہت اہم ہے۔ البتہ خود عوام کے لئے بھی، اس کے لئے بھی جو سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، فخر کی بات ہے کہ جو پیسے اس کے پاس ہیں، انہیں وہ ملکی پیشرفت اور ملک کے حالات بہتر کرنے پر لگائے۔ عوام کو اس افتخار سے آگاہ کریں تاکہ وہ یہ افتخار حاصل کر سکیں۔
لیکن اصل کام حکومت کا ہے۔ حکومت عام معنی میں، یعنی مجموعی طور پراقتدار، اس میں عدلیہ کا بھی کردار ہے، پارلیمنٹ کا بھی کردار ہے، مختلف وزارت خانوں کا کردار ہے۔ یہ کام ہونا چاہئے، انجام پانا چاہئے۔
سرمایہ کاری کی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ چند سال قبل، یہاں اسی حسینيہ میں جلسہ تھا، میں نے بیرونی سرمایہ کاری کے موضوع پر گفتگو کی تھی(4) ایک تجربہ کار، پختہ اور باتجربہ دوست، خدا ان پر رحمت کرے، انتقال کر چکے ہیں، کھڑے ہوئے اور انھوں نے کہا کہ بیرونی سرمایہ کاری اندرونی سرمایہ کاری کے ذیل میں ہوتی ہے۔ آپ یہاں شوروم تیار کریں جس سے ظاہر ہو کہ ملکی سرمایہ کار، سرمایہ کاری پر تیار، مائل، راغب اور مشتاق ہے، تاکہ بیرونی سرمایہ کار اس کو دیکھے تو اس کے اندر بھی شوق پیدا ہو اور وہ یہ سوچے گا کہ یہاں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ آپ اندرونی سرمایہ کاری کی رکاوٹیں دور کریں۔ یہ پابندی کو ناکام بنانے کا ایک بہترین راستہ ہے۔
میں نے بارہا کہا ہے کہ پابندیوں کا دو علاج ہے۔ ایک پابندیاں اٹھا لینا، جو ہمارے اختیار میں نہیں ہے، فریق مقابل کے اختیار میں ہے، اور ایک پابندیوں کو بے اثر کر دینا۔ یہ ہمارے اختیار میں ہے۔ پابندیوں کو ناکام بنانے کی راہیں تلاش کریں۔ راستے بہت ہیں اور واقعی پابندیاں بے اثر کی جا سکتی ہیں۔ بلکہ اگر ملک کی اندرونی گنجائشوں اور صلاحیتوں سے اچھی طرح استفاد کیا جائے تو ملک کو ایسا بنایا جا سکتا ہے کہ پابندیوں سے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اگر اس پر پابندیاں لگیں تو خود ہی ان سے باہر نکل سکے۔ یعنی ملک کے اندر موجود گنجائشوں میں یہ توانائی موجود ہے۔
تجارتی روابط میں توسیع کے مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا۔ یہ ان باتوں میں سے ہے جن کی میں تاکید کرتا ہوں۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کو ترجیح دیں، وہ ممالک جو ایشیا میں اقتصادی بلاک کی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے چین، جیسے روس، جیسے ہندوستان، یہ اقتصادی بلاک ہیں۔ ان کے ساتھ اقتصادی روابط بڑھائيں۔ البتہ جانتا ہوں کہ ان میں سے بعض کام سخت ہیں، لیکن سخت کام بھی کافی کوششوں اور اچھی تدبیر سے کیا جا سکتا ہے۔ بنابریں پڑوسیوں کے ساتھ روابط کا مسئلہ اہم ہے۔ ان امور میں بیچ والے بہت موثر ہوتے ہیں۔ یعنی یہ میانہ سطح کے عہدیداران جو کوئی سامان کسی ایک جگہ سے لانے کے عادی ہیں۔
میرے دور صدارت میں ایک افریقی ملک کے سربراہ نے جس کے دورے پر ہم گئے تھے اور وہ ملک زراعت اور مویشیوں کی پرورش کا بہت اچھا مرکز تھا، اس نے مجھ سے کہا کہ ہمارے یہاں کا گوشت بہت اچھا ہوتا ہے، یورپ والے یہاں آتے ہیں، ہم سے گوشت خریدتے ہیں، یہ 80 کے عشرے کی بات ہے، اس وقت گوشت حکومت درآمد کرتی تھی، اس نے کہا کہ آپ یورپ سے گوشت درآمد کرتے ہیں، یورپ والے وہی گوشت جو ہم سے خریدتے ہیں، دوگنی قیمت پر آپ کو دیتے ہیں! میں نے واپس آکر حکام سے کہا کہ اس مسئلے کو دیکھیے۔ نہیں دیکھا۔ زبانی استقبال کیا لیکن عمل نہیں کیا۔
پڑوسیوں سے تجارت کا مسئلہ، اقتصادی بلاکوں سے، مختلف ملکوں سے، خود افریقا سے جس کا میں نے نام لیا، بہت اچھا ہے۔ ہمارے صدر محترم نے (5) عید کے موقع پر ان ملکوں کے سربراہوں سے جو رابطہ برقرار کیا، یہ بہت اچھی بات ہے۔ اس طرح کی باتوں سے راستے کھلتے ہیں۔ وزارت خارجہ کی مجموعی سرگرمیاں بھی، یہ دورے، یہ رفت وآمد ، یہ سرگرمیاں بہت خوب ہیں۔
چند جملے عمان میں ہونے والی گفتگو کے بارے میں (6) عرض کروں گا۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گفتگو، وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک ہے۔ یعنی وزارت خارجہ دسیوں کام کر رہی ہے اور انہیں میں سے ایک یہ عمان کی گفتگو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو ابھی حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ کوشش کریں کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں۔ یہ میری تاکید ہے۔ جو غلطی جامع ایٹمی معاہدے میں کی، اس کی تکرار نہ کریں۔ اس وقت ہم نے ہر چیز مذاکرات میں پیشرفت پر منحصر کر دی تھی۔ یعنی ملک کو مشروط حالت میں پہنچا دیا۔ جب ملک مذاکرات سے مشروط ہو جائے تو سرمایہ کار، سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ یہ بات ظاہر ہے۔ کہتا ہے کہ دیکھیں کہ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
یہ مذاکرات بھی جملہ امور میں سے ایک ہے۔ ایک بات ہے، ان بہت سے کاموں میں سے ایک ہے جو وزارت خارجہ انجام دے رہی ہے۔ ملک کو مختلف شعبوں میں اپنا کام کرنا چاہئے۔ صنعت میں، زراعت میں، مختلف اور گوناگوں خدمات کے شعبوں میں، ثقافت کے شعبے میں، تعمیراتی شعبوں میں، خاص موضوعات میں جن کی خاص تعریف کی گئی ہے، جیسے یہی جنوب مشرق کے مسائل ہیں۔ ان پرسنجیدگی سے کام کریں۔ ان مذاکرات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے جو عمان میں شروع ہوئے ہیں۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔
اسی کے ساتھ، ہمیں نہ مذاکرات کے تعلق سے نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں رہنا چاہئے، اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان رہنا چاہئے۔ بہرحال یہ بھی ایک کام ہے، ایک اقدام ہے، ایک فیصلہ کیا گیا ہے اس پر عمل کیا جا رہا ہے اور ابتدائی مرحلے میں بہت اچھی طرح عمل ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی پوری دقت نظر کے ساتھ عمل کیا جائے، ممنوعہ خطوط (ریڈ لائنیں) فریق مقابل کے لئے بھی واضح ہیں اور ہمارے لئے بھی۔ مذاکرات اچھی طرح انجام دیے جائيں۔ ممکن ہے کہ نتیجہ خیز ہوں اور ممکن ہے کہ نتیجہ بخش نہ ہوں۔ ہم نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان ہیں۔ البتہ فریق مقابل سے بہت بدگمان ہیں، فریق مقابل ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، ہم فریق مقابل کو پہچانتے ہیں۔ لیکن اپنی توانائیوں پر ہمیں پورا اعتماد ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم بہت سے امور انجام دے سکتے ہیں، اچھے طریقوں سے بھی واقف ہیں۔
ساتویں پروگرام کا مسئلہ بھی اہم ہے جو اب تاخیر سے، بالآخر اس سال شروع ہو رہا ہے۔ کوشش کی جائے کہ اس منصوبے کے آغاز کی ابتدا میں چھٹے پروگرام کی طرح نہ ہو۔ یعنی چھٹے پروگرام کے بعض حصے شروع میں ہی غلط راستے پر ڈال دیے گئے۔ کوشش کریں کہ ساتویں پروگرام میں انحراف نہ آنے پائے۔ یہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ ہے۔ وہ کام ہے جو ملک کے لئے ضروری ہے۔ یہ نظام کی کلّی پالیسیوں پر استوار ہے اور مجموعی طور پر بہت اچھا منصوبہ ہے۔ بہرحال یہ ایک قانون ہے، اس پر عمل ہونا چاہئے، لیکن توجہ رہے کہ اپنے بنیادی اصولوں کے ساتھ صحیح طریقے سے اس پر عمل کیا جائے، انحراف نہ ہو۔
چند جملے غزہ کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔ غزہ کے مسئلے میں واقعی یہ تخریبکار گروہ جو فلسطین پر مسلط ہے، اس نے تخریب کاری کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ واقعی انتہا ہو چکی ہے۔ مجھے یاد نہیں ہے، مجھے معلوم نہيں ہے کہ کہیں بھی، اس طرح دانستہ، خاص مقصد کے ساتھ، مظلومین کو، بچوں کو، بیماروں کو، نامہ نگاروں کو، اسپتالوں کو اور ایمبولنسوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ یعنی واقعی یہ بہت عجیب بات ہے، اس کے لئے غیر معمولی سنگدلی کی ضرورت ہے جو اس گینگ میں، اس خبیث گروہ میں موجود ہے!
میری نظر میں، اسلامی دنیا کو اقدام کرنا چاہئے، کچھ کرنا چاہئے۔ اقتصادی، سیاسی اور ضرورت پڑنے پر آپریشنل لحاظ سے اچھی ہم آہنگی کے ساتھ عالم اسلام کو اجتماعی طور پر اس مسئلے پر فکر اور کام کرنا چاہئے۔ البتہ انہیں خدا کے عذاب کا منتظر رہنا چاہئے۔ یعنی اس طرح کے ظلم پر خدا کا عذاب سخت ہوگا۔ اس میں شک نہیں ہے۔ لیکن یہ خدا کا جواب عوام کے فریضے کو، ہمارے فریضے کو اور حکومتوں کے فریضے کو کم نہیں کرتا۔ ہمیں بھی اپنے فریضے پرعمل کرنا چاہئے۔
امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم سبھی مسلم اقوام، امت اسلامیہ، ملت عزیز ایران اور آپ حکام کی عاقبت اچھی کرے، آپ کے کام آسان کرے، خدا ہم سے اور ہمارے کام سے راضی ہو، ان شاء اللہ ۔ خدا کو ہمیشہ اور ہر جگہ یاد رکھیں۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ اس ملاقات میں جو نئے ہجری شمسی سال کے آغاز کی مناسبت سے انجام پائي، پہلے نائب صدر اول جناب ڈاکٹر محمد رضا عارف نے کچھ باتیں بیان کیں
2۔ گلستان سعدی، ساتواں باب
3۔ اگر دریا نہ ہو تو بغداد بھی نہیں رہے گا۔
4۔ 01-07-2001 کو ملک کے تاجروں، صنعتکاروں اور مختلف پیداواری شعبوں سے وابستہ افراد کے اجتماع سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
5۔ جناب ڈاکٹر مسعود پزشکیان
6۔ ایران کے ایٹمی موضوع پر اور پابندیوں کے خاتمے کے لئے، ایران امریکا مذاکرات کی طرف اشارہ ۔ اس گفتگو کا پہلا دور، 12 اپریل 2025 کو عمان میں انجام پایا۔