یہ وصیت، مریم ابودقہ کا اپنے اکلوتے بیٹے کے نام آخری پیغام ہے۔ مریم، وہی ماں جس نے یہ الفاظ لکھے ہیں، اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ وہ کچھ ہی دن پہلے پوری دنیا کی نظروں کے سامنے اور صیہونیوں کے جرائم کے بارے میں ٹی وی کے لائیو پروگرام کے دوران خان یونس کے ناصر میڈیکل کمپلیکس کے ایمرجنسی وارڈ کی چھت پر بمباری میں شہید ہو گئیں۔ ان کا کیمرہ ان کے ساتھ تھا، ان کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں تھا اور وہ صرف سچائی ریکارڈ کر رہی تھیں؛ ایسی سچائی جسے دنیا دیکھنا نہیں چاہتی، لیکن وہ خاموش نہیں رہ سکتی تھیں۔
مریم کی زندگی اسی دن سے جنگ اور تباہی سے جڑ گئی تھی جس دن وہ صحافی بنیں۔ سن 2020 سے، ان کا ہر دن تباہ شدہ گلیوں اور زخمیوں سے بھرے ہسپتالوں کے درمیان گزرتا تھا۔ وہ نہ ڈیسک پر بیٹھنے والی صحافی تھیں اور نہ وہ جو محفوظ فاصلے سے خبریں ریکارڈ کرنے والی تھیں، وہ لوگوں کے درمیان رہتی تھیں، دھوئیں اور ملبے کے درمیان، ان کہانیوں کے مرکز میں جنھیں چھاپنے کی شاید کسی بھی اخبار میں ہمت نہیں تھی۔ مریم کا انسٹا گرام پیج ان تصویروں سے بھرا ہوا تھا جو زندگی اور جنگ کو ایک ساتھ ریکارڈ کرتی تھیں؛ ایک بچہ جو کھنڈروں میں اپنی مشق کی کتاب ہاتھ میں لیے کھڑا تھا، ایک عورت جو روٹی کی قطار میں کھڑی تھی، ایک ایمبولنس جو گرد بھری گلیوں میں تیزی سے دوڑ رہی تھی اور وہ شہداء جو آسمان کی طرف جا رہے تھے۔ ان کی پوسٹس نہ صرف تصویریں بلکہ تباہی کے درمیان مزاحمت اور امید کی دستاویز تھیں۔ کیمرے سے ان کی ہر نظر، ہر تصویر اور ہر ویڈیو ان لوگوں کی آواز تھی جو فراموشی کی آگ میں چھپ گئے تھے۔
انھوں نے اپنے بیٹے غیث کو متحدہ عرب امارات بھیج دیا تاکہ وہ محفوظ رہے لیکن خود غزہ میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہر دن، بُلیٹ پروف جیکٹ پہنے، کیمرہ ہاتھ میں لے کر، دھماکوں اور دھوئیں کے درمیان گھومتی رہتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ کسی بھی لمحے ان کی جان جا سکتی ہے لیکن وہ ہمیشہ کہتی تھیں: "کیمرہ میرا ہتھیار ہے۔" اور پیر کو اسی ہتھیار نے ان کی زندگی کے آخری لمحات کو ریکارڈ کیا۔ اس نسل کشی کے دوران، انھوں نے دربدری، بھوک، انسانی کہانیوں، صیہونی فوج کے زمینی حملوں اور فضائی بمباری کی کوریج کی اور ساتھ ہی جنگ کی ویڈیوز بھی ریکارڈ کیں۔ مریم نے جنگ میں اپنا گھر اور پیشہ ورانہ سامان کھو دیا لیکن وہ جنگ کے واقعات اور انسانی داستانوں کو ریکارڈ کرنے سے کبھی دستبردار نہیں ہوئیں۔
مریم لگاتار کام کرتی رہتیں، رات دن میدان میں رہتیں۔ "میں نے میڈیا کوریج میں ان کی بے مثال توانائی خود دیکھی۔ وہ ہر کونے میں، ہر خبری واقعے میں موجود رہیں۔"یہ بات فلسطینی صحافیوں کی یونین کے نائب صدر تحسین الاسطل نے کہی۔ جنگ کے دوران، مریم کی والدہ شدید بیمار ہو گئیں لیکن غزہ میں ان کا علاج نہ ہو سکا اور وہ ہسپتال میں شہید ہو گئیں۔ یہ صدمہ مریم کے لیے بہت جانکاہ تھا، لیکن پھر بھی انھوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ ان کی زندگی کے سب سے دردناک لمحات میں سے ایک وہ تھا جب انھیں اپنے ساتھی صحافیوں کی لاشوں کی تصویریں لینی پڑیں جو جنگ میں شہید ہو گئے تھے۔ ہر کھوئے ہوئے ساتھی کے ساتھ، وہ اپنے آپ سے پوچھتیں: "کیا میں بھی ان کی طرح شکار بن جاؤں گی یا اس قتل عام سے بچ نکلوں گی؟"
مریم جب صبح جاگتیں تو ان کا پہلا کام ہوتا کیمرہ اٹھانا۔ ان کا ہر لمحہ، سچائی کو ریکارڈ کرنے اور اپنی حفاظت کرنے کے دوران، ملبے اور دھماکوں کی آوازوں کے درمیان گزرتا۔ ہر تصویر، ہر پوسٹ اور ہر ویڈیو ان کے ہم وطنوں کی زندگی کی ایک یادگار روداد تھی، ایسی رودادیں کہ وہ کبھی کبھی اپنے انسٹا گرام کے کیپشن میں خود لکھتی تھیں: "امید ہی وہ واحد چیز ہے جو ہمیں زندہ رکھ سکتی ہے" یا "ہر وہ تصویر جو میں لیتی ہوں، ایک ایسی سچائی کی گواہی ہے جسے دنیا نہیں دیکھنا چاہتی۔"
مریم ہر روز دیکھتی رہیں کہ ان کے ساتھی ایک ایک کرکے شہید ہو رہے ہیں لیکن انھوں نے کام نہیں چھوڑا۔ وہ جانتی تھیں کہ صحافی ہونے کا مطلب ہے فراموشی کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا، ان لمحات کو ریکارڈ کرنا جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے یا نہیں دیکھنا چاہتے۔ غزہ میں نسل کشی کے آغاز سے اب تک 246 صحافی شہید ہو چکے ہیں جن میں اچھی خاصی تعداد خاتون صحافیوں کی ہے، شیرین ابوعاقلہ جیسی بہادر خواتین جنھوں نے اس سے پہلے سچائی کو ریکارڈ کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ مریم اس صف میں کھڑی رہیں اور اسی راستے کو جاری رکھا، یہاں تک کہ ناصر ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کی چھت پر، لگاتار دو دھماکوں کے درمیان، شہید ہو گئیں۔
غزہ میں، ہسپتال، جنھیں پناہ گاہ ہونا چاہیے، صحافیوں کے ٹھکانوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ الجزیرہ کی نامہ نگار ہند کہتی ہیں: "ہم بجلی اور انٹرنیٹ کے بغیر دو سالہ جنگ میں ہیں۔ فلسطینی نامہ نگاروں نے ہسپتالوں کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا ہے تاکہ وہ مسلسل رپورٹیں دیتے رہیں؛ زخمیوں، بھوک اور بے جان لاشوں کے بارے میں۔" مریم اس لگاتار کوشش کا حصہ تھیں۔ صیہونی حکومت نے بار بار ہسپتالوں اور میڈیا مراکز کو نشانہ بنایا ہے اور ان دعؤوں کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جن کی بنیاد پر وہ نامہ نگاروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ جنیوا کنونشنز کے مطابق، نامہ نگار غیر فوجی ہیں اور انہیں نشانہ بنانا جنگی جرم ہے۔ البتہ جنگی جرائم اس حکومت کے لیے روزمرہ کا معمول ہے جس نے 62 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے جن میں سے نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں، اور جس کے خلاف دنیا نے کوئی مناسب ردعمل نہیں دکھایا ہے۔
امام خامنہ ای نے صہیونی حکومت کے ان جرائم کے بارے میں کہا ہے کہ "جو جرائم آج صہیونی حکومت کے سرغنہ کر رہے ہیں، میرے خیال میں تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔"عصر جدید کی جنگوں میں کبھی بھی اتنے صحافی اور نامہ نگار نہیں مارے گئے اور اسی طرح ان جنگوں میں کبھی بھی اس طرح ہسپتالوں اور طبی مراکز کو بمباری کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ مریم ابودقہ ایک ایسی صحافی تھیں جو ہسپتال پر ہوئی بمباری میں شہید ہوئیں اور یہی ایک جملہ غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کی حقیقت کو بہترین طریقے سے واضح کرتا ہے۔
مریم شہید ہو گئیں لیکن ان کی آواز اب بھی زندہ ہے۔ ان کی تصویروں میں، ان کی ویڈیوز میں، ان کی انسٹاگرام پوسٹس میں جو انھوں نے جنگ کے بارے میں شائع کی تھیں، ہر تصویر میں، بہادری اور استقامت کا ایک لمحہ، اب بھی زندہ ہے۔ انھوں نے کھنڈروں کے درمیان زندگی کی داستان سنائی اور شہادت سے سات دن پہلے اپنی آخری تحریر میں، ہم سب کے لیے ایک یادگار جملہ چھوڑ گئیں:
"ہم اس زندگی میں راہگیر ہیں، بادل کی طرح گزر جاتے ہیں اور اپنے اعمال کے سوا ہمارا اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔"
تحریر: مائدہ زمان فشمی؛ صحافی اور محقق