زیر سرویس 2: 

عدل و انصاف

انسانی حقائق اور ماہیت، زمانہ بدلنے سے تبدیل نہیں ہوتی۔ ابتدائے تاریخ سے اب تک عدل و انصاف انسانوں کے لئے پسندیدہ چیز رہی ہے اور انہیں ہمیشہ اس کی ضرورت پڑی ہے۔ عدل و انصاف کسی ایک گروہ، ملک اور قوم کی خواہش و حاجت نہیں۔ یہ پوری تاریخ انسانیت میں تمام انسانوں کی فطری و تاریخی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی کی...

فن و ہنر

فن و ہنرفن و ہنر خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، الہی عطیہ ہے۔ حالانکہ فن اپنے طرز اظہار میں نمایاں ہوتا ہے لیکن فن کی حقیقت یہی نہیں ہے بلکہ اظہار سے قبل بھی ایک فنکارانہ احساس و ادراک ہوتا ہے جو در حقیقت سب سے بنیادی شئ ہے۔ جب ایک حقیقت، لطافت اور خوبصورتی کا ادراک ہو جاتا ہے تب ایک فنکار اس ادراک کے...

سامراج و استكبار

پہلا باب: استکبار کا مفہوم استكبار کا قرآنی مفہوماسلامی انقلاب کے لغت میں استکبار کا مفہوماستکباری طاقتیںسامراج و استکبار کا مظہراستکبار و سامراج کی بنیاداستکبار اور سامراج کی روشسامراج و استکبار کا منصوبہ استکبار کے حربے    میڈیا اور تشہیرات   مذاکرات کی تجویز   شکوک و شبہات اور ناامیدی پھیلانا   تفرقہ انگیزی   عظیم مشرق وسطی کا منصوبہ   ماہرانہ سازشیں   درباری علماء کا استعمال   ثقافتی وسائل و حربے سامراج کی کمزوریاں دوسرا باب: سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت سامراج کے خلاف جد و جہد کے اسباب و علل    قومی اسباب علل   دینی اسباب عللسامراج سے جہاد اکبراستکبار مردہ باد کے نعرے کا مفہوماستکبار کے خلاف جد و جہد کے نعرے کی حفاظت سامراج سے جنگ کے طریقے اور راستے       اسلام کی سمت واپسی      تعلیم و تربیت      قومی اتحاد      اسلامی یکجہتی      حکومتوں کی جانب سے اپنی قوموں کی حمایت سامراج کے عناد کی وجوہات       اسلام سے سامراج کے عناد کے اسباب و علل      ملت ایران سے سامراج کی دشمنی کے اسباب و علل      ایران کے اسلامی انقلاب سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات      اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات سامراج کا آخری ہدف سامراج و استكبار پہلا باب: استکبار کا مفہوم استكبار کا قرآنی مفہوم استکبار کا مفہوم ایک قرآنی مفہوم ہے۔ بنابریں ایسا نہیں ہے کہ یہ اصطلاح اسلامی انقلاب کے لغت میں یونہی شامل ہو گئی ہو۔ استکبار کا مفہوم مسلمانوں، مومنین، اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی جانب سے استکبار کے خلاف جد و جہد کا متقاضی ہے اور وہ بھی مخصوص مواقع اور مصلحتوں کے تحت ہی نہیں بلکہ یہ مقابلہ آرائی دائمی ہے۔ یہ انقلاب کی ماہیت کا حصہ ہے۔ جب تک انقلاب ہے یہ مقابلہ بھی رہے گا۔ قرآن میں استکبار کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی عنصر یا شخص، گروہ یا جماعت خود کو حق وصداقت سے بالاتر تصور کرے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے بلکہ خود کو، اپنی قوت و طاقت کو حق و حقیقت کا معیار قرار دے! قرآن نے انسانوں کی جس تاریخ پر روشنی ڈالی ہے اس کی پہلی استکباری طاقت ابلیس ہے۔ ابی و استکبر وہ پہلا استکباری عنصر ہے۔ البتہ استکبار کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ استکبار تکبر سے مختلف چیز ہے۔ شائد یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تکبر سے قلبی و نفسانی صفت کا عندیہ ملتا ہے، یعنی کوئی انسان خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا اور قرار دیتا ہو جبکہ استکبار کا زیادہ تعلق تکبر کے عملی پہلو سے ہے۔ یعنی جو شخص متکبر ہے اور خود کو دوسروں سے بالاتر سمجھتا ہے، عملی طور پر بھی دوسروں کے ساتھ اس کا برتاؤ اور سلوک ایسا ہوتا ہے کہ تکبر کے آثار بالکل نمایاں ہوتے ہیں۔ دوسروں کی تحقیر کرتا ہے، توہین کرتا ہے، دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرتا ہے اور دوسروں کے فیصلے خود کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ٹاپ اسلامی انقلاب کے لغت میں استکبار کا مفہوم ایران کے اسلامی انقلاب کی زبان میں استکبار ان چند بڑی طاقتوں کے گروہ کو کہا جاتا ہے جو اپنی سیاسی، فوجی، سائنسی اور اقتصادی توانائیوں کے سہارے اور انسان کے سلسلے میں اپنے امتیازی نقطہ نگاہ کے ساتھ بڑے انسانی مجموعے پر جس میں ممالک، قومیں اور حکومتیں شامل ہیں استبدادی اور تحقیر آمیز تسلط قائم کرکے اپنے مفادات کے مطابق ان پر دباؤ ڈالتا ہے اور ان کا استحصال کرتا ہے۔ ان کے کاموں میں مداخلت اور ان کی دولت و ثروت پر تجاوز کرتا ہےـ حکومتوں پر رعب جماتا ہے اور قوموں پر ظلم و ستم کرتا ہے اور ان کی ثقافت و روایات اور آداب و اطوار کا مذاق اڑاتا ہے۔ ٹاپ استکباری طاقتیں استکباری طاقتیں وہ ہیں جن کی دولت و طاقت کے تسلط میں دنیا کا بہت بڑا حصہ ہے۔ عالمی صیہونی نیٹ ورک، امریکا کی غنڈہ حکومت، وہ مالیاتی ادارے جو اس ظالمانہ عالمی نظام کی بنیاد اور پشتپناہ ہیں۔ ان سب کا شمار استکباری طاقتوں میں کیا جاتا ہے۔ ٹاپ سامراج و استکبار کا مظہر آج دنیا میں اپنی تمام تر نفرت انگیزی کے ساتھ سامراج و استکبار کا مظہر امریکا ہے، یہ کسی ایک نسل، ایک قوم اور ایک ملک سے دشمنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر قوم کا اپنا تشخص اور وقار ہوتا ہے اور وہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی بیرونی طاقت، فریب سے یا زبردستی اس کے وقار کو نابود کر دے۔ ہر قوم کی اپنی دولت و ثروت ہوتی ہے، وہ ہرگز برداشت نہیں کرے گی کہ کوئی دشمن اسے لوٹ لے جائے۔ دشمن، یعنی وہی عالمی تسلط پسندی اور سامراج کا مرکز جس کا سب سے بڑا اور حقیقی نمونہ امریکا ہے۔ البتہ جب ہم کہتے ہیں امریکا تو اس سے مراد امریکی عوام نہیں ہوتے۔ امریکی عوام تو دنیا کی دیگر قوموں کی مانند ہیں، ان میں بھی کچھ اچھائیاں تو کچھ برائیاں ہیں۔ ملت ایران کی ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اسلامی انقلاب کا خطاب امریکا کے حکمرانوں سے ہے جن کی پالیسیوں کی ایک اہم ترین بنیاد دنیا پر تسلط قائم کرنے کا نظریہ ہے۔ امریکی تسلط سے ہماری مراد امریکی حکومت اور اس کا تسلط ہے۔ ٹاپ استکبار و سامراج کی بنیاد سامراج و استکبار کی بنیاد ظلم و جور و عدوان پر رکھی گئی ہے۔ امریکی حکومت جو سامراج و استکبار کا عفریت سمجھی جاتی ہے آج سامراج کے لحاظ سے دنیا کی بدترین حکومت ہے۔ اس حکومت نے آج اپنا وتیرہ بنا لیا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی ملک اور حکومت اس کے مفادات کی چوکی داری کرنے کو تیار نہ ہو اسے ختم کر دیا جائے۔ کیا اس سے بھی بد تر سامراج و استکبار ہو سکتا ہے؟! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ اپنے گھر میں میرے کچھ مفادات ہیں جس کی میں حفاظت کر رہا ہوں تو مجھ سے کوئی بھڑنے کی کوشش نہ کرے۔ ٹھیک ہے، یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ جناب ایک شخص کسی دوسرے شخص کے گھر میں جبرا داخل ہو جائے یا اس کے دروازے پر جاکر اسے پریشان کرے، اس کا جینا دوبھر کر دے اور جب صاحب خانہ سوال کرے کہ کیوں میرا سکون و چین چھین لیا ہے تو جواب دے کہ تم نے میرے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کام میں میرے مفادات ہیں اور چونکہ تم نے ان کا خیال نہیں رکھا بنابریں میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟! آج عالمی سطح پر امریکا کا یہی رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ٹاپ استکبار اور سامراج کی روش سامراج و استکبار کی روش جبر، طاقت کے غلط استعمال اور قتل و غارت کی روش ہے۔ بنابریں وہ دہشت گردی کا سب سے بڑا موجد ہے۔ آج دہشت گردی سے مقابلے کے نام پر امریکی دوسرے ملکوں میں گھس رہے ہیں اور اسی بہانے قوموں کو بیحد پریشان کر رہے ہیں، ان پر بمباری کرتے ہیں، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو نابود کر رہے ہیں۔ ان کے پاس جواز یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں! دہشت گردی کہتے کسے ہیں؟ کیا دہشت گردی یہی نہیں ہے کہ کوئی اپنے اہداف کے حصول کے لئے غیر قانونی طریقے سے طاقت کا استعمال کرے؟ آج امریکا عراق، افغانستان اور پاکستان میں جو کچھ کر رہا ہے کیا وہ من و عن یہی چیز نہی ہے؟! ٹاپ سامراج و استکبار کا منصوبہ ملت ایران کے خلاف عالمی سامراج کا منصوبہ تین پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ اول نفسیاتی جنگ، دوسرے اقتصادی جنگ اور تیسرے ایران کی سائنسی ترقی و قدرت کا سد باب کرنا۔ ملت ایران سے سامراج کی دشمنی انہی تین باتوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ نفسیاتی جنگ کیا ہے؟ اس جنگ کا مقصد مرعوب کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ ملت (ایران) تو مرعوب ہونے سے رہی۔ حکام اور سیاسی شخصیات کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں، جو لوگ حرص و طمع میں پڑ سکتے ہیں ان پر یہ حربہ آزمانا چاہتے ہیں، عمومی ارادے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، عوام کے اپنے معاشرے کے بارے میں صحیح ادراک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، نفسیاتی جنگ کے یہ مقاصد ہیں۔ اقتصادی جنگ بھی ایک اور (حربہ) ہے۔ وہ قوم کو معاشی لحاظ سے بحران سے دوچار کر دینا چاہتے ہیں۔ دھمکی دیتے ہیں کہ پابندیاں لگا دیں گے۔ لیکن پابندیوں سے ایران پر ضرب نہیں لگائی جا سکتی۔ کیا اب تک یہ پابندیاں نہیں رہی ہیں؟ ملت ایران پابندیوں کی حالت میں ایٹمی ٹکنالوجی، سائنسی ترقی اور وسیع پیمانے پر ملک کی تعمیر و پیشرفت کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ تو پابندیاں بعض حالات میں ملت ایران کے لئے مفید بھی واقع ہوئی ہیں۔ اس لحاظ سے کہ یہ پابندیاں ایرانیوں کے زیادہ بلند ہمتی اور تندہی سے کام کرنے کا موجب بنی ہیں۔ سائنسی ترقی کا سد باب؛ اس کی اہم ترین مثال یہ ایٹمی مسئلہ ہے۔ بیانوں، سیاسی مذاکرات وغیرہ میں کہتے ہیں کہ مغربی ممالک ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے متفق نہیں ہیں۔ کوئی بات نہیں متفق نہ رہیں۔ کیا ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کرنے کے لئے ایران نے کسی سے اجازت طلب کی تھی؟ کیا دوسروں کی اجازت سے ملت ایران اس وادی میں اتری تھی کہ کہا جا رہا ہے کہ ہم متفق نہیں ہے؟ نہ رہئے متفق؟ ملت ایران متفق ہے اور یہ ٹکنالوجی حاصل کرنے کے لئے کمربستہ۔ اس وقت امریکا، دنیا میں فتنہ و فساد کے منصوبہ ساز صیہونی اور دیگر سامراجی طاقتیں اس سلسلے میں بھی بہت حساس ہو گئی ہیں کہ دنیا میں انقلابی نظام کا حامل کوئی بھی ملک سائنسی میدان میں ترقی نہ کرنے پائے۔ یہ حساسیت اسلامی انقلاب کے سلسلے میں دوبالا ہے۔ یہ حساسیت کسی اور انقلاب کے سلسلے میں نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہوگی۔ ٹاپ استکبار کے حربے میڈیا اور تشہیرات عالمی سامراج کا ایک اہم حربہ میڈیا ہے۔ دنیا میں میڈیا کی طاقت بہت زیادہ ہے۔ میڈیا اپنے مالکان کے لئے دنیا میں بہت بڑے بڑے کام انجام دیتا ہے۔ نیوز ایجنسیاں ہوں، ریڈیو نشریات ہوں، ٹی وی چینل ہوں یا اخبارات، جتنے بھی اہم ذرائع ابلاغ عامہ ہیں ان کا تعلق سرمایہ دارو‎ں سے ہے یعنی عالمی سامراج کے بنیادی ستونوں سے۔ جو کچھ بھی دنیا میں نشر اور شائع کیا جاتا ہے وہ انہی (سرمایہ داروں) کے مفادات کے دائرے میں ہوتا ہے۔ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو وہ جہاں کہیں بھی آباد ہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عالمی سامراج، نیوز ایجنسیوں، اخبارات و جرائد، نشریات اور سیاستدانوں کے بیانوں کے ذریعے جو پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اسے اس قاعدے پر پرکھیں اور نتیجہ اخذ کریں کہ پورا سامراجی نظام اور اس کا سرپرست امریکا اس وقت سب کے سب اسلامی نظام، ایران اور ملت ایران کی غلط تصویر پیش کرنے پر تل گیا ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ٹاپ مذاکرات کی تجویز کہتے ہیں کہ ہم اسلامی جمہوریہ سے روابط برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے۔ وہ صحتمند رابطہ چاہتے ہی نہیں۔ ایسا رابطہ چاہتے ہیں جس میں وہ اپنی مرضی مسلط کر سکیں۔ وہ سامراجی رابطہ چاہتے ہیں۔ پست اور تنزل پذیر حکومتوں کے ساتھ امریکا کا جو رابطہ ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو سامراج کے سرغنہ امریکا سے مذاکرات کرنا چاہئے، وہ یا تو سادہ لوحی میں پڑے ہوئے ہیں یا بہت زیادہ مرعوب ہیں۔ سامراج اپنی حقیقی طاقت اور توانائی سے زیادہ اپنی ہیبت اور رعب و دبدبے کی روٹی کھا رہا ہے بلکہ سامراج تو دھونس دھمکی، رعب و دبدبے اور خوف و ہراس پھیلانے کے اپنے حربوں پر ہی زندہ ہے۔ ٹاپ شکوک و شبہات اور ناامیدی پھیلانا دشمن، عوام کی نظر میں ان کے مستقبل کو تاریک اور مایوس کن ظاہر کرتے ہیں۔ اگر آپ دیکھیں کہ بعض افراد اقتصادی صورت حال اور ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوس کن باتیں کر رہے ہیں تو جان لیجئے کہ یہ باتیں در حقیقت سامراجی طاقتوں کی ہیں۔ دشمن کا ایک تشہیراتی حربہ یہ ہے کہ لوگوں کو ذہنوں کو مستقبل کے تعلق سے شکوک و شبہات میں مبتلا کر دے۔ افسوس کہ بعض سادہ لوح افراد یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بجائے تعاون کرنے، مسائل کو آسان بنانے اور عوام کے سامنے صحیح تصویر پیش کرنے کے ساری چیزوں پر شکوک و شبہات کا پردہ ڈال دیتے ہیں تاکہ عوام کو تشویش و بدگمانی سے دوچار کر دیں۔ جب بھی اچھی انتظامی صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں گی تو ترقی یقینی ہے تو پھر ایک قوم کی ترقی کے بارے میں کیوں شک کیا جائے؟ جو لوگ اظہار خیال کریں تو محتاط رہیں کہ کہیں دشمن اور سامراج کی مرضی کی باتیں نہ کرنے لگیں۔ دشمن یہی چاہتا ہے اور اس کی یہی خواہش ہے کہ عوام اپنی سعی و کوشش اور ترقی کے سلسلے میں بے یقینی کا شکار ہو جائیں۔ ٹاپ تفرقہ انگیزی جہاں بھی مومنین اور اللہ تعالی کے نیک بندوں میں اتحاد ہے وہاں وحدانیت اور خدا ترسی بھی ہے۔ جہاں مومنین اور بندگان خدا کے درمیان اختلاف ہے وہاں بلا شبہ شیطان اور دشمن خدا کا غلبہ ہے۔ جہاں بھی آپ کو اختلافات نظر آئیں وہاں آپ غور کیجئے تو آپ کو آسانی سے شیطان کا عمل دخل نظر آ جائے گا۔ بنابریں تمام اختلافات کے پس پردہ انسانوں کی انانیت، جاہ طلبی اور خود غرضی ہے یا کوئی باہری شیطان یعنی دشمن عناصر، سامراج اور ظالم و ستگمر طاقتیں کارفرما ہیں۔ اس وقت تفرقے کی آگ بھڑکانے سے گریز کرنا چاہئے۔ ہر کسی کو اپنے عقائد کا پابند رہنے اور اس پر دلیلیں قائم کرنے کا حق ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مختلف مذاہب کے ترجمان منبر پر بیٹھیں تو استدلال نہ کریں اور اپنا عقیدہ ثابت کرنے سے گریز کریں۔ نہیں ایسا نہیں ہے، استدلال قائم کریں ثابت کریں۔ لیکن عقیدہ کو ثابت کرنا ایک الگ چیز ہے اور دوسرے فریق کی دشمنی پر اتر آنا اور سامراج کی آواز میں آواز ملا کر اپنی ساری طاقت و توانائی مسلمانوں کی داخلی جنگ میں جھونک دینا ایک الگ چیز ہے۔ مسلمانوں کے ما بین مسلکی اختلافات کے سلسلے میں نئی بات یہ سامنے آئی کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اس نئی فکر کے پورے عالم اسلام میں پھیل جانے کے بعد عالمی سامراج نے اس ہمہ گیر اسلامی لہر کو روکنے کے لئے یہ حربہ اختیار کیا کہ ایک طرف ایران کے اسلامی انقلاب کو ایک شیعہ تحریک یعنی عام اسلامی تحریک کے بجائے ایک مخصوص فرقے کی تحریک کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کی اور دوسری جانب شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی وسیع پیمانے پر کوشش کی۔ اس شیطانی مکر و حیلے کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران نے شروع سے ہی اتحاد بین المسلمین پر بے حد زور دیا اور اس فتنہ پروری کو بے اثر بنانے کی کوشش کی۔ ٹاپ عظیم مشرق وسطی کا منصوبہ عظیم مشرق وسطی کا امریکی منصوبہ در حقیقت اس علاقے میں موجود تمام مفادات ایک جگہ جمع کرکے اسے امریکی سامراج کی جاہ پسندانہ شیطانی آنت میں انڈیل لینے کی کوشش ہے۔ وہ اپنے موجودہ تسلط اور اثر و نفوذ سے مطمئن نہیں ہے۔ اسے مطلق غلبہ پسند ہے۔ پوری دنیا پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کا خواہاں ہے۔ منجملہ اس علاقے پر جو قدرتی دولت اور افرادی قوت سے مالامال ایک حساس اور اہم علاقہ ہے۔ عالمی سامراج اور سامراجی طاقتوں نے شروع سے اب تک صیہونی حکومت کو علاقے کی عرب اور پھر تمام اسلامی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے اور دھونس جمانے کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا۔ اسے محفوظ رکھا ہے اور ان کا منصوبہ یہ ہے کہ اس زہر آلود خنجر کو عالم اسلام کے سینے میں پیوست رکھیں۔ آج اس تربیت یافتہ کتے کی زنجیر شیطان بزرگ کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مذموم ترین شکل میں عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہمسایہ ملکوں پر مسلسل جارحیت، کھلے عام دہشت گردانہ کاروائیاں اور اغوا کی وارداتیں، اور ایٹمی اور دیگر ہتھیاروں کا حصول یہ ساری چیزیں صیہونی انجام دیں تو قابل قبول ہیں جبکہ ان ہتھیاروں میں سے کوئی ایک بھی اگر دنیا کی کسی ایسی حکومت کو حاصل ہو جائے جو امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں کی حاشیہ بردار نہیں ہے تو اس پر قیامت مچ جائے۔ ٹاپ ماہرانہ سازشیں عالمی سامراج کے پاس عالم اسلام کے لئے خاص مفکرین اور ماہرین موجود ہیں جو سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور مختلف قوموں، نظریوں، جذبوں اور مسلکوں کے بارے میں رپورٹیں تیار کرتے ہیں، اپنے تحقیقاتی، ثقافتی، سیاسی اور جاسوسی کے مراکز کے آرکائيو میں موجود سابقہ رپورٹوں کا نئے سرے سے جائزہ لیتے ہیں اور نئی تحقیقات انجام دیتے ہیں۔ اسرائیل میں اگر ایران میں اسلام اور تشیع کی شناخت کے عنوان سے سمینار منعقد کیا جاتا ہے تو وہ اسی تناظر میں ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف مقامات پر مغربی ملکوں، سرمایہ داروں اور سامراج کی جانب سے تحقیقاتی سمینار اور نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اسلام کا جائزہ لینے کے لئے نئی نئی تجاویز متعارف کرائی جاتی ہیں۔ سامراج امور کو اپنی مطلوبہ سمت و جہت میں رکھنے کے لئے بہت غور فکر سے کام لیتا ہے۔ اس کی حرکت پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ عالمی امور کو سمت و رخ دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ خود کو محفوظ رکھ سکے کیونکہ اسے علم ہے کہ اگر اس نے سوجھ بوجھ اور دور اندیشی سے کام نہ لیا، اگر اس کے پاس صحیح اعداد و شمار موجود نہ رہے تو اس پر ضرب لگ سکتی ہے۔ چنانچہ ممتاز ترین فکری حلقے سامراج کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ ٹاپ درباری علماء کا استعمال جن معاشروں میں علماء کو راستے سے ہٹانا ممکن نہ ہوا وہاں یہ کوشش کی گئی کہ علماء کو بد عنوان اور جابر حکومتوں اور درباروں سے جوڑ دیا جائے۔ دربار سے وابستہ علماء جن کی ہمارے عزیز امام (خمینی رہ) کے بیانوں میں بڑی مذمت کی گئی ہے، اسلام اور مسلمانوں کے حق میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے زمانے کی ایک معروف شخصیت سے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے اپنی گردن کو ستمگروں کے لئے چکی کے پاٹ کا محور بنا دیا ہے تاکہ وہ آپ کی گردن کے محور پر اپنے مظالم کی چکی چلائیں اور آپ کے سہارے لوگوں پر ظلم کریں۔ جو عالم دین فاسد و ظالم حکومتوں کے مظالم کی توجیہ کرے وہ ان حکومتوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جو عالم دین سامراج کے اہداف کے مطابق عمل کرے، اس کے بد ترین اور پست ترین ہمنواؤں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ وہ حق کی ظاہری صورت کا سہارا لیکر باطل کی ترویج کر رہا ہے۔ ٹاپ ثقافتی وسائل و حربے اس وقت ایک فکری و ثقافتی و سیاسی جنگ جاری ہے۔ جو شخص اس میدان جنگ کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہو جائے اور حقائق کو سمجھنے پر قادر ہو وہ میدان پر ایک نظر ڈال کر بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت دشمن ثقافتی حربوں کے ذریعے بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے۔ بکے ہوئے قلم اور دل و ضمیر اور دین و ایمان کا سودا کر لینے والے روشن خیال حضرات کی تعداد کم نہیں ہے جو ملک کے باہر اچھی بڑی تعداد میں اور ملک کے اندر اکا دکا، سامراج کے مقاصد کے لئے طاقت فرسائی اور طبع آزمائی کرنے کے تیار ہیں اور کر رہے ہیں۔ ٹاپ سامراج کی کمزوریاں اس وقت دنیا میں ایک تضاد دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملت ایران مسلمان قوموں، علاقائی قوموں، ایشیائی قوموں، افریقی قوموں، لاطینی امریکا کی قوموں اور مشرق وسطی کی قوموں کی نظر میں ایک شجاع، حق و انصاف کی پاسباں اور جبر و استبداد کی مخالف قوم ہے، ملت ایران کو ان خصوصیات کے ساتھ پہچانا گیا ہے۔ وہ ملت ایران کی تعریف و ستائش کرتی ہیں لیکن یہی ملت ایران اور یہی اسلامی جمہوری نظام جو قوموں کے لئے قابل تعریف و ستائش ہے، تسلط پسند طاقتوں کی نظر مین انسانی حقوق کی پامالی کے لئے مورد الزام قرار پایا ہے۔ اس پر عالمی امن و سکون ختم کر دینے کا الزام ہے۔ اس پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام ہے۔ یہ تو صاف صاف تضاد ہے۔ قوموں کی نظر اور بڑی طاقتوں کی خواہش کا تضاد۔ یہ تضاد عالمی استبدادی و تسلط پسندانہ نظام کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ روز بروز یہ طاقتیں قوموں سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اس طرح مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں مسلسل بڑھنے والی خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ سامراج کی تشہیراتی مہم کچھ ہی عرصے تک حقائق کی پردہ پوشی کر سکتی ہے، ہمیشہ تو حقائق کو چھپائے رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ قوموں میں دن بدن بیداری بڑھ رہی ہے۔ ملت ایران کا صدر ایشیائی ملکوں، افریقی ملکوں اور لاطینی امریکا کے ملکوں کا دورہ کرتا ہے تو عوام اس کے حق میں نعرے لگاتے ہیں، اس کی حمایت میں جلوس نکالتے ہیں جبکہ امریکی صدر اگر لاطینی امریکا کے ملکوں یعنی واشنگٹن کا آنگن کہے جانے والے ممالک کا سفر کرتا ہے تو عوام اس کی آمد کی مناسبت سے امریکی پرچم کو نذر آتش کرتے ہیں۔ یہ لبرل ڈیموکریسی کے ستونوں کے متزلزل ہونے کی علامت ہے جس کا پرچم مغربی ممالک اور سب سے بڑھ کر امریکا نے بلند کر رکھا ہے۔ ان کی خواہشات اور عوامی مطالبات و مشاہدات میں تضاد دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ وہ دم تو جمہوریت، انسانی حقوق، عالمی سلامتی اور دہشت گردی سے جنگ کا بھرتے ہیں لیکن ان کا شر پسندانہ باطن ان کی عسکریت پسندی کی غمازی کرتا ہے، ان کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی کی چغلی کرتا ہے، دنیا کے توانائی کے ذخائر کے سلسلے میں ان کی حرص و طمع کا پتہ دیتا ہے۔ یہ چیزیں دنیا کی قومیں دیکھ رہی ہیں۔ روز بروز دنیا میں قوموں کی نظر میں لبرل ڈیموکریسی اور امریکا کہ جو لبرل ڈیموکریسی کا علمبردار سمجھا جاتا ہے، عزت و آبرو ختم ہوتی جا رہی ہے جبکہ اس کے برخلاف ایران اسلامی کا وقار بڑھ رہا ہے۔ ایک دن وہ تھا جب عالمی سامراج کے عمائدین یہ سمجھنے لگے تھے کہ اسلام تو ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے دنیا میں شہوت پرستی کی جو وبا پھیلا دی تھی اس سے اس غلط فہمی میں پڑ گئے تھے کہ مسلم قوموں میں اسلامی تعلیمات، اسلامی جذبات، اسلامی غیرت و حمیت، اسلامی تقوا و پرہیزگاری اور اسلامی خیالات سب مٹ گئے، بعد میں انہیں اندازہ ہوا کہ یہ ان کی بھول تھی۔ سب سے پہلے تو عظیم مملکت ایران اور اس با شرف قوم کے ذریعے اسلامی اقتدار کا پرچم بلند کئے جانے اور دوسرے مرحلے میں پورے عالم اسلام میں اسلامی بیداری کی لہر پھیل جانے سے وہ مبہوت ہوکر رہ گئے۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ اسلام بڑی درخشاں اور اٹل حقیقت ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔ اب عالم اسلام اور مسلمان قوموں کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے۔ آپ غور کیجئے کہ خود ان کے پاس جو اپنی اطلاعات ہیں وہ بھی یہی بتاتی ہیں کہ اسلامی ملکوں میں امریکا، صیہونزم، عالمی سامراج کے ان کے عمائدین کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ٹاپ دوسرا باب: سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت سامراج، آج جس کا مظہر امریکی حکومت ہے، اس سے مقابلہ بھی اس انقلاب کا لازمی جز اور اس قوم کی اہم اور دلی خواہش ہے۔ اگر یہ قوم سامراج سے مقابلہ ترک کر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اغیار کی مداخلت، ان کے ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی اور انقلاب سے قبل کی ان کی دھونس اور دھمکی کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ سامراج سے جنگ اور اس کی مخالفت کے سلسلے میں یہی تاثر اور یہی نظریہ قوم کی ہر فرد کا ہے۔ ٹاپ سامراج کے خلاف جد و جہد کے اسباب و علل قومی اسباب علل ایرانی عوام نے سامراج کے خلاف کیوں جنگ کی؟ اس نکتے پر آپ خاص توجہ دیجئے۔ سامراجی روح و خصلت کے سلسلے میں سب سے پہلا تاثر اور خیال جو کسی قوم کے ذہن میں ابھرتا ہے وہ دینی تاثر اور خیال نہیں بلکہ قومی حمیت کا احساس اور جذبہ ہوتا ہے، اپنی شناخت اور تشخص کا احساس اور جذبہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جب سامراج جب کسی ملک میں در آتا ہے اور اس ملک پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے تو اس ملک کی قومی شناخت کی نفی پر تل جاتا ہے۔ اس ملک کے ذخائر کو لوٹتا ہے، اس ملک کے سیاسی امور میں مداخلت بھی کرتا ہے لیکن یہ سب کچھ در حقیقت اس قوم کی شناخت اور تشخص کی نفی کی فروعات ہیں۔ جب سامراج وارد ہوتا ہے تو پہلے ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ہم آپ کی شناخت اور تشخص کی نفی کرنا چاہتے ہیں، وہ مختلف بہانوں سے داخل ہوتا ہے۔ جب اسے اندر آنے کا موقع مل جاتا ہے تو جو چیز اس کا سب سے اہم نشانہ ہوتی ہے وہ قوم کی شناخت ہے۔ یعنی ثقافت، دینی عقائد، ارادہ، خود مختاری، حکومت، معیشت اور اس قوم کی ہر چیز کو چھین کر اپنے قبضے میں کر لیتا ہے۔ جیسا کہ انقلاب سے قبل ایران میں تھا۔ اس حقیقت کا احساس قوموں کو سامراج کے خلاف بر انگیختہ کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قومیں دیندار نہیں ہیں جو مسلمان بھی نہیں ہیں آج حتی الوسع امریکا کے مقابلے میں ڈٹ جاتی ہیں۔ البتہ یہ اب ہے، ماضی میں نہیں تھا۔ اس وقت تو کوئي امریکا کے سامنے سر اٹھانے کی جرئت نہیں کرتا تھا۔ یہ سلسلہ ملت ایران نے شروع کیا ہے۔ ٹاپ دینی اسباب علل سامراج کے خلاف ملت ایران کی جنگ کی دینی وجہ بھی ہے۔ قرآن میں استکبار، مستکبر اور اس کے بالمقابل استضعاف اور مستضعف کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جب ملت ایران اس جذبے کے ساتھ امریکا اور اس سے وابستہ بد عنوان نظام کے خلاف کھڑی ہوئی تو اس کے پیچھے عظیم دینی جذبہ اور ایمان و عقیدہ کارفرما تھا اور اسی چیز نے اس قوم کو کامیابی عطا کی۔ اس وقت دشمنان اسلام سے جنگ کا پرچم مکتب اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کے پیروکاروں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس عظیم و شجاع قوم کے ہاتھوں میں ہے جو اللہ تعالی کے علاوہ کسی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتی۔ آج ملت ایران کا یہ عالم ہے۔ اس وقت استکبار سے وابستہ عناصر اور مہرے نیز وہ طاقتیں جو دنیا میں قوموں، حکومتوں، شخصیات، مفکرین اور دانشوروں کے لئے خوفناک عفریب بنی ہوئی ہیں ملت ایران کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت و ارزش نہیں ہے۔ ٹاپ سامراج سے جہاد اکبر استکبار اور استکباری شیاطین کے خلاف سب سے بڑی جنگ یہ ہے کہ انسان ان کی مرضی و خواہش کے سامنے ہرگز سر تسلیم خم نہ کرے۔ اس وقت ملت ایران یہ جہاد کر رہی ہے اور یہ وہ راستہ ہے جو امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ہمارے لئے وا کیا، ملت ایران اسی راہ پر چلی ، بحمد اللہ آج عز و وقار کی بلندیوں پر ہے، آج بھی یہ قوم اسی راستے پر گامزن ہے۔ ٹاپ استکبار مردہ باد کے نعرے کا مفہوم ایرانی قوم جو استکبار مردہ باد کا نعرہ لگاتی ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ملت ایران ہر غیر مسلم ملک اور اس ملک کی حکومت کو للکار کر اس سے لڑنا چاہتی ہے جس کے مسلمان ہونے کو وہ تسلیم نہیں کرتی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے! اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے لئے جو چیز اہم ہے وہ ظلم، سرکشی و طغیانی اور ستمگر طاقتوں کے خلاف جنگ ہے۔ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین و اخرجوکم من دیارکم و ظاھروا علی اخراجکم ان تولوھم یہ ہے اصلی مسئلہ۔ جو لوگ حق و انصاف کی مخالفت پر اتر آتے ہیں اور ظلم و ستم کی تائید کرنے لگتے ہیں، ظالمانہ عمل میں مدد کرتے ہیں۔ ٹاپ استکبار کے خلاف جد و جہد کے نعرے کی حفاظت ملت ایران کو چاہئے کہ سامراج کے خلاف جد و جہد کو اپنے لئے پرچم اور مشعل راہ کے طور پر محفوظ رکھے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر اس لہراتے پرچم کی حفاظت نہ کی گئی اور نعرہ پھیکا اور کمزور پڑ گیا تو قوم اپنا راستہ گنوا دے گی۔ چونکہ اس دشمن کی دشمنی آشکارا ہے اور اہل نظر سے پوشیدہ بھی نہیں ہے، یہ کھلا ہوا دشمن اپنی دشمنی کے آشکارا ہونے کے باوجود فریب دہی کے کچھ حربے استعمال کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر فریب کھانے والی قوموں اور غلط فہمی کا شکار ہونے والی حکومتوں سے غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ دشمن کی روش کو صحیح طور پر پہچان نہیں پاتیں۔ اگر دشمن کی روش کی شناخت نہ ہو اور اس دشمن کی جانب سے غفلت برتی جائے جو ایک انقلابی قوم کی نابودی کے در پے ہے تو ظاہر ہے وہ قوم اسی راستے پر چل پڑے گی جو دشمن کا پسندیدہ راستہ ہے یعنی نابودی کی راہ، ویرانی کی راہ اور بد عنوانی کی راہ۔ ٹاپ سامراج سے جنگ کے طریقے اور راستے اسلام کی سمت واپسی مسلم قوموں کی تمام ناکامیوں اور رنج و غم کا علاج اسلام کی سمت واپسی اور اسلامی نظام کے دائرے میں اور اسلامی احکام کے زیر سایہ زندگی بسر کرنا ہے۔ یہ وہ اکسیر ہے جو مسلمانوں کو ان کے عز و وقار، قدرت و توانائی اور رفاہ و تحفظ کی نعمت لوٹا سکتی ہے اور اس تلخ و ذلت آمیز انجام و مستقبل کو دگرگوں کر سکتی ہے جو سامراجی طاقتوں نے امت مسلمہ کی تقدیر میں لکھ دینے کی تیاری کی ہے۔ سامراج اور اس سے وابستہ تشہیراتی نیٹ ورک، اپنے پیروں پر کھڑے ہو چکے مسلمانوں کی امید و نشاط کو مایوسی و یاس میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے اس سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا کہ ملت ایران کے مشکل کشا اسلامی انقلاب کو ناکام ظاہر کریں اور یہ باور کرائیں کہ ایران مشکلات و دشواریوں سے دوچار ہو جانے کے بعد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حقیقی اسلام اور امام خمینی قدس سرہ کی روش سے کنارہ کشی پر مجبور ہو گیا۔ ٹاپ تعلیم و تربیت ثقافت و تعلیم و تربیت کا مسئلہ اسلامی جمہوری نظام میں اولیں مسئلہ ہے۔ دراز مدت میں کوئي بھی چیز تعلیم و تربیت جتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ ایرانی معاشرے میں تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ در حقیقت کفر و ظلم و عالمی سامراج اور دنیا کے سیاسی شیطانوں کی غنڈہ گردی کے خلاف جد و جہد کا محاذ یہی اسکول اور مدرسے اور تعلیم و تربیت و ثقافت کا محاذ ہے۔ جو طلبہ ملک کے تعلیمی اداروں کے سپرد کئے گئے ہیں اس قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ تعلیم و تربیت، استاد اور ثقافتی و تعلیمی محاذ کی قدر کیجئے۔ ٹاپ قومی اتحاد جو شخص سامراج کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کو طمانچہ رسید کرنا چاہتا ہے، بندگان خدا کے دل جیتنا اور دشمنان خدا کو رنجیدہ و مایوس کرنا چاہتا ہے اسے یہ کوشش کرنا چاہئے کہ قوم اور نظام کے حکام کے درمیان رابطہ روز بروز زیادہ مستحکم ہو۔ جو بھی اس کے بر عکس عمل کرے وہ در حقیقت سامراج کی پسندیدہ سمت میں بڑھ رہا ہے۔ ٹاپ اسلامی یکجہتی دنیا کا کون سا گوشہ ہے جہاں مسلمان طویل عرصے سے عالمی سامراج اور عالمی تسلط پسندانہ سسٹم کے باعث نقصان نہیں اٹھا رہے ہیں اور دباؤ کا سامنا نہیں کر رہے ہیں؟! ایسے میں کیا چارہ ہے سوائے مسلمانوں کی استقامت و مزاحمت کے، سوائے مسلمانوں کے باہمی عہد و پیمان کے، سوائے مسلمانوں کے اتحاد کے، سوائے اسلامی معاشروں کی بیداری کے، سوائے پوری دنیا میں اسلام کی عظیم صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لانے کے؟ ٹاپ حکومتوں کی جانب سے اپنی قوموں کی حمایت اسلامی مملکتوں کے سربراہوں کے اختیار میں بہت بڑی طاقت ہے اور وہ طاقت ہے مسلم قوموں کی۔ اس نا قابل تسخیر قوت کی مدد سے اسلامی حکومتیں سامراج کے اسلام مخالف محاذ کے سرغنہ امریکا جیسے سپر پاؤر کا مقابلہ کر سکتی ہیں، اپنی قوموں اور دیگر مظلوم مسلم اقوام کے حقوق کا دفاع کر سکتی ہیں۔ اسلام ایک قوم کی زندگی کو سنوارنے کی بہترین ضمانت بن سکتا ہے۔ اس کے سائے میں قومیں مکمل آزادی و خود مختاری سے بہرہ مند ہو سکتی ہیں، اس سے محظوظ ہو سکتی ہیں اور اس ہدف کے حصول کے لئے مسلمان نشین ملکوں کے عوام کا جذبہ ایمانی بہترین سہارا و کمک ہے۔ امریکا اور سامراج کے دیگر عمائدین مسلم ممالک کے سربراہوں کے دماغ میں اسلام کے تعلق سے جو خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مسلم حکومتوں سے یہ امید ہے کہ وہ اس سے متاثر ہونے کے بجائے اس الہی آئین کو قوموں کے نجات دہندہ اور مسلم قوموں یعنی امت مسلمہ کے ان اجزاء کے رشتے اور رابطے کی حیثیت سے دیکھیں اور اس کے سہارے اپنی طاقت و توانائی اور عز و وقار میں اضافہ کریں۔ یہ بذات خود قوموں کو اپنی سمت متوجہ کرنے اور ان کی حمایت و مدد کا بڑا موثر ذریعہ ہے۔ جس حکومت کو اپنی قوم کی حمایت حاصل ہو وہ کسی سے خوفزدہ نہ ہونے میں حق بجانب ہے۔ ٹاپ سامراج کے عناد کی وجوہات اسلام سے سامراج کے عناد کے اسباب و علل اس وقت اسلام اور سامراج کے مابین جو تنازعہ ہے وہ کس بات پر ہے؟ آج سامراج، اسلام کے مقابل کھڑا ہے۔ چنانچہ یہ بات خود انہوں نے (یعنی سامراجی عناصر نے) صریحی طور پر کہی ہے۔ امریکی صدر نے بے ساختہ صلیبی جنگ کی بات کی۔ سامراج کے تشہیراتی مہرے تواتر کے ساتھ مختلف موذیانہ طریقوں سے دنیا بھر میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، فلمیں بنا رہے ہیں، کمپیوٹر گیمز بنا رہے ہیں، مقالے لکھ رہے ہیں، سب کچھ اسلام کے خلاف۔ وہ کیوں اسلام کے مخالف ہیں؟! یہ بہت اہم سوال ہے۔ وہ خود اپنی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اسلام کے مخالف ہیں کیونکہ اسلام جنگ، قتل و غارتگری اور نفرتوں کی تعلیم دیتا ہے۔ عالمی رائے عامہ کے درمیان اس طرح آشکارا طور پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ بہتان باندھ رہے ہیں۔ اس وقت تو دنیا میں نفرتیں پھیلانے کا کام سامراج کر رہا ہے۔ دنیا میں جنگ کی آگ امریکی بھڑکا رہے ہیں۔ قوموں اور ملکوں کے حقوق پر حملے اور دست درازی کرنے والے وہی لوگ ہیں۔ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے اپنے فوجی لاتے ہیں اور کبھی کسی ملک پر تو کبھی کسی اور ملک پر حملے کرتے ہیں، اس سرحد اور اس قوم کے خلاف جارحیت کرتے ہیں۔ آپ گزشتہ سو سالہ تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو یہی پائیں گے کہ بیشترین جنگیں مغرب والوں نے شروع کی ہیں۔ دنیا کی دونوں عالمی جنگیں یورپیوں نے شروع کیں۔ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں بے شمار جنگیں امریکی اقتدار پر قابض حکومتوں نے لڑی ہیں۔ وہی ہیں جو قوموں کے درمیان نفرتیں پھیلاتی ہیں۔ اسلام ان تہمتوں سے مبرا ہے۔ جھگڑا اس بات کا نہیں ہے ، وہ جھوٹ بولتے ہیں، تنازعہ اس بات کا ہے کہ اسلام قوموں کو خود مختاری و آزادی کی دعوت دیتا ہے، مسلمان قوموں کو ان کی عزت نفس کی یاد دلاتا ہے، مسلمان قوموں کو یہ درس دیتا ہے کہ اپنے حقوق کو پہچانیں، ان حقوق کے حصول کی کوشش کریں اور ان پر تجاوز کرنے والوں کا مقابلہ کریں۔ سامراج اس استقامت، اس دفاع اور اس واقفیت و آگاہی کا مخالف ہے۔ اسلام اور سامراج کا تنازعہ اسی بات پر ہے۔ ٹاپ ملت ایران سے سامراج کی دشمنی کے اسباب و علل ایران اسلامی، امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کا ایران، اسلامی انقلاب والا ایران، مسلمانوں کی عظیم عالمی تحریک اور بیداری کا محور و مرکز ہے۔ اسی لئے دشمنیوں کا ہدف بھی بنا ہوا ہے۔ یہ چیز ملت ایران کے لئے غم و اندوہ نہیں بلکہ خوشی کا باعث ہے۔ اس سے ایران وحشت زدہ نہیں بلکہ زیادہ پرامید ہوا ہے۔ کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملت ایران بہت طاقتور ہے اور سامراج اور ڈاکوؤں اور غارتگروں کے مفادات کے لئے بدستور خطرہ بنی ہوئی ہے۔ سامراج کی دشمنی کو دیکھ کر ملت ایران کو اور بھی یقین ہو جاتا ہے کہ اس نے انقلاب کو آگے لے جانے اور ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے جس راہ کا انتخاب کیا ہے وہ بالکل صحیح، کامیاب اور درست ہے۔ اگر انسانیت کے دشمنوں کے مفادات کے خلاف اور ملک و انقلاب کی مصلحتوں کی تکمیل کے لئے اپنی مہم میں اس قوم نے غلط راستے کا انتخاب کیا ہوتا تو اتنی دشمنیاں برداشت نہ کرنا پڑتیں۔ ٹاپ ایران کے اسلامی انقلاب سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات کیا وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کا پیغام ہے اور قلوب اس کی سمت مائل اور قدم اس کے مقررہ اہداف کی راہ میں گامزن ہیں سامراج پیچ و تاب کھا رہا ہے؟ ان دشمنیوں کی وجوہات اس طرح ہیں؛ سب سے پہلی وجہ تو دین کا سیاست اور سماجی زندگی سے جدا نہ کیا جانا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے عملی طور پر ثابت کر دیا اور دکھا دیا کہ دین انسانوں کی زندگی میں دخیل ہے۔ مقدس دین اسلام اس لئے نہیں آیا کہ لوگوں کو عبادت خانوں کا گوشہ نشیں بنا دے بلکہ انسانی زندگی، سیاست کا میدان، عظیم سیاسی، سماجی اور اقتصادی امور مقدس اسلامی احکام کی قلمرو کے اندر آتے ہیں۔ دوسری وجہ بڑی طاقتوں کی خواہش و مرضی کو در خور اعتناء قرار نہ دینا ہے۔ امریکا اور دیگر سامراجی طاقتوں کی نظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ عالمی امور میں وہ امریکا اور اس کے ہمنواؤں کے نظریات اور منشا کے زیر اثر نہیں ہے۔ اس کی ایک واضح مثال مسئلہ فلسطین ہے۔ انہوں نے عرب اور بہت سے اسلامی ملکوں پر شدید دباؤ ڈالا کہ مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کر دیں، افسوس کہ بعض حکومتیں اس دباؤ کے آگے جھک بھی گئیں اور انہوں نے یہ مطالبہ مان لیا لیکن اسلامی جمہوریہ نے ایک بالکل واضح جملے میں اپنی بات بیان کر دی جسے دنیا کے تمام انصاف پسند افراد تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جملہ یہ ہے کہ فلسطین، فلسطینی عوام کا ہے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی تیسری وجہ یہ موقف ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کی بساط لپیٹی جانی چاہئے، یہودی فلسطین میں آباد رہ سکتے ہیں لیکن فلسطین میں حکومت کا حق ملت فلسطین کا ہے وہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جسے چاہیں منتخب کرے۔ چوتھی وجہ ایران کی جانب سے ایسے تمام افراد کی سیاسی و اخلاقی حمایت ہے جو اسلام کی بالادستی قائم کرنے کی راہ میں سعی و کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی جو کوئی بھی اسلام کی شان و شوکت کے لئے قیام کرتا ہے ایران اس کی سیاسی و اخلاقی حمایت کرتا ہے۔ مسلمان قوموں کی یہ حمایت دشمن کو خشمگیں کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ سے سامراجی دشمنوں کی دشمنی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مسلم اقوام پر مغربی ثقافت مسلط کئے جانے کا مخالف ہے۔ مغربی ثقافت ایسی ہے کہ اس میں جہاں خوبیاں ہیں وہیں بہت سے نقائص و عیوب بھی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ثقافتی تعلقات اور لین دین کا قائل ہے۔ ملت ایران جیسی قوم او دیگر مسلم اقوام دنیا کی ثقافتوں کو دیکھیں، ان کا جائزہ لیں اور ان ثقافتوں کے ان نکات کو اختیار بھی کریں جو ان کے لئے ضروری اور مفید ہوں اور ان باتوں کو جو مفید نہیں ہیں مسترد کر دیں۔ عالمی استکبار، اسلام و انقلاب سے دلی کینہ رکھتا ہے اور جب تک قوم اپنے اصولوں اور اپنے دین و مذہب سے دستبردار نہیں ہو جاتی اس وقت تک عالمی استکبار کی ابرو کا بل نہیں جاتا۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ : ولن ترضی عنک الیھود و لا النصاری حتی تتبع ملتھم بنابریں سامراج کے بغض و کینے کی وجہ (اسلامی انقلاب کی) حریت پسندی ، لا شرقی و لا غربی کا نعرہ اور اسلام پر عمل آوری ہے۔ سامراج کا کینہ ختم ہونے والا نہیں ہے لیکن اس کینے کے باوجود ملت ایران اللہ تعالی کے لطف و کرم سے پر امید ہے کہ انشاء اللہ جملہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں اپنے الہی اہداف کو حاصل کرے گی اور دشمن کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی۔ ٹاپ اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات عوام کے ایمان کی مستحکم بنیادوں پر اسلامی نطام کی تعمیر کے بعد اس (سامراج) کے لئے بہت بڑا چیلنج معرض وجود میں آ گیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ فطری طور پر یہ نظام دنیا کے سامراجی نظام کے آکٹوپس سے ٹکرانے والا تھا۔ اس ٹکراؤ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکا، برطانیہ یا کسی اور ملک سے جنگ کے لئے جائے بلکہ جب حساس جغرافیائی محل وقوع اور قدیم تہذیب و ثقافت کا مالک کوئی اسلامی ملک ابھر کر سامنے آتا ہے، کوئی نیا خیال اور نئی فکر پیش کرتا ہے اور پھر اس کی تقویت کے لئے جی جان سے کوشش کرتا ہے اور اس کی کامیابی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں تو فطری سی بات ہے کہ سامراج کو اس پورے علاقے میں اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کے اس زمانے کے سامراجی نظام یعنی ایک طرف لبرل سرمایہ دارانہ نظام اور دوسری طرف نام نہاد سوشیلسٹ الحادی آمریت کا نظام، اسلامی جمہوریہ ایران سے الجھ پڑے۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ ان دونوں نظاموں میں نوے فیصدی امور میں اختلافات تھے لیکن (اسلامی انقلاب کی) اس شمع فروزاں کو خاموش کرنے اور اس پودے کو اکھاڑ پھینکنے کی بات پر یہ دونوں متحد ہو گئے! ٹاپ سامراج کا آخری ہدف اس وقت امریکا اور عالمی سامراج کا سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ انقلاب کو، اسلامی جمہوریہ کو اور ملت ایران کو کسی صورت پسپا کر دیا جائے۔ وہ اعلان کر دے کہ اپنے موقف اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے موقف سے برگشتہ ہو گئی ہے۔ سامراج کی ساری سعی و کوشش یہی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ امام (خمینی رہ) کے پیغام نے مسلم قوموں کو بیدار کر دیا ہے۔ آپ دنیا کی مختلف اقوام بالخصوص مسلمان قوموں کو دیکھئے! غور کیجئے کہ وہ کس طرح امام (خمینی رہ) کے پیغام سے متاثر ہوئی ہیں؟! سامراج کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ قوموں کو اسی صورت میں ساکت و خاموش رکھا جا سکتا ہے جب انہیں صحیح راستے سے منحرف کرکے اسی جگہ پر پہنچا دیا جائے جہاں سے انہوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ یہ قوموں دیکھیں کہ اسلامی ایران، امام خمینی کا ایران اپنے راستے سے برگشتہ ہو گیا ہے تاکہ سب کے سب مایوس ہو جائیں اور اپنی راہ چھوڑ کر واپس لوٹ جائیں۔ سامراج اس چیز کو سمجھ گیا ہے اور وہ اس کے لئے بھرپور کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ سامراج اپنے تمام وسائل و امکانات کو بروئے کار لاکر اسلامی جمہوریہ کو مٹا دینے کی منصوبہ بندی میں لگا ہوا ہے۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ واقعی یہ سامراج کا آخری ہدف ہے۔ البتہ وہ سیاستداں ہیں اور بخیال خود ایک اک زینہ طے کر رہے ہیں۔ پہلا زینہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو اس کی امنگوں سے جدا کر دیں۔ دوسرا قدم یہ ہوگا کہ اسلامی جمہوریہ کو اس کے محبوں سے محروم کر دیں، تیسرا قدم یہ ہے کہ حکومت اور حکام کو عوامی طبقات سے دور کر دیں اور دونوں کے درمیان شگاف ایجاد کریں۔ چوتھا قدم یہ ہے کہ اوباش اور شر پسند عناصر کو لائیں، جرائم پیشہ افراد کا سہارا لیں اور ان کی مدد سے اپنا ہدف پورا کریں۔ اگر اسلامی جمہوریہ کے حکام سے غفلت، سستی اور بے توجہی ہوئی تو کوتاہ مدت میں ہی یہ چاروں قدم اٹھائیں جائيں گے لیکن اگر حکام ہوشیار و بیدار رہے اور غفلت کا شکار نہ ہوئے تو صدیاں گزر جائیں گی لیکن پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکا ہوگا۔ ٹاپ

عالمی یوم قدس

عالمی یوم قدس نزدیک آکر دنیا کے غیور مسلمانوں کو مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع و حمایت کی سنگین ذمہ داری کی، پہلے سے زیادہ تاکید کے ساتھ، یاد دہانی کراتا ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس دن کا اعلان کرکے انسانی ضمیروں کی سطح پر مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا اور صیہونی حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو (ایک نقطے) پر مرکوز کر دیا، نتیجے میں ہم ہر سال مسلمانوں میں اس دن (یوم قدس) کی وسیع پذیرائی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

انسانی حقوق

پہلا باب: اسلام میں انسانی حقوقاسلام میں انسانی حقوق کا معیاراسلامی نظام میں انسانی حقوق کی بنیاداسلام، انسانی حقوق کا ضامناسلامی انسانی حقوق میں عورت کا مقام   اسلام میں عورتوں کے سیاسی حقوق   معاشرے میں عورت کا کردار   خاندان میں عورت پر ظلم   عورتوں کا بنیادی مسئلہ   عورت اور مرد کے حقوق کا توازن...

فلسطین

پہلا باب: فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی تاریخفلسطین پر قبضے کی روش:برعکس حقیقت:فلسطین پر قبضے کے تین مراحل:دوسرا باب: فلسطین کی اہمیتمسئلہ فلسطین کی اہمیت:بیت المقدس کی اہمیت:فلسطین کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف:مسئلہ فلسطین اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ:تیسرا باب: فلسطین کی حمایتامت مسلمہ م...

اقتصادی تعمیر و ترقی

پہلا باب:اقتصادی تعمیر و ترقی اقتصادی ترقی میں کامیابی کی شرطاسلام اور اقتصادی ترقیترقی کا علاقائی نمونہاقتصادی ترقی کے لئے ہموار ثقافتی زمین کی ضرورتاسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہتعمیر و ترقی کا اشتیاق و خوفتمام طبقات کا فریضہتعمیر و ترقی میں خود اعتمادی کی اہمیتتعمیر و آبادکاری کے دور کے اقتصادی مسائلتعمیر نو اور آبادکاری کے دور کی آفتیں دوسرا باب: اقتصادی ترقی کے بنیادی عناصر و عوامل کام کام کی کیفیتاسلامی ثقافت میں کام کی قدر و قیمتاقتصادی ترقی میں کام اور عمل کا مقام و مرتبہ محنت کش طبقہ محنت کش کا تقدسمحنت کش طبقے کے سلسلے میں نظام کا فرضمعاشرے میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمتسرمایہ دارانہ، اشتراکی اور اسلامی نظاموں میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمت خواتین تعمیر و آبادکاری کے دوران خواتین کا کردارعورتوں کی اقتصادی سرگرمیاںاسلامی شریعت کے زاویہ نگاہ سے عورتوں کی اقتصادی سرگرمیاں کفایت شعاری اقتصادی ترقی میں کفایت شعاری کی اہمیت روحانیت و معنویت اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانیت و معنویت کی ضرورت نظم و ضبط مالیاتی و اقتصادی نظم و ضبط تیل تیل کے کنؤں کو بند کر دیا جائےقومی معیشت کے تیل کی آمدنی پر عدم انحصار کی ضرورت منصوبہ بندی اقتصادی منصوبہ بندیوں میں کم آمدنی والے طبقے پر توجہ صحیح انتظام اقتصادی ترقی میں پر خلوص انتظامی کردار کی ضرورت خود اعتمادی تعمیر و آبادکاری میں خود اعتمادی کی اہمیت اصلاح اقتصادی ترقی میں اصلاح کی ضرورت صنعت اقتصادی ترقی میں صنعت کا کردار قومی اتحاد قومی اتحاد و یکجہتی، اقتصادی ترقی کی لازمی شرط اقتصادی تعمیر و ترقی پہلا باب:اقتصادی تعمیر و ترقی اقتصادی ترقی میں کامیابی کی شرط اسلامی جمہوریہ ملک کی تعمیر و ترقی اور ایران کو استبدادی دور کی پسماندگیوں سے نجات دلانے کے دعوے کے ساتھ کام کر رہا ہے اور اس وقت سائنسی، اقتصادی اور صنعتی ترقی کی راہ میں اٹھایا جانے والا ہر قدم اور جدید کاری کی ہر کوشش مقدس اسلامی جمہوری نظام کی حقانیت کا ثبوت اور اس دعوے کے صحیح ہونے کی دلیل ہے لیکن ملک کی تعمیر و ترقی اور اقتصادی پیشرفت کی راہ میں اٹھایا جانے والا ہر قدم اسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوگا جب وہ اسلامی اصولوں اور دینی طرز فکر پر استوار اور اسلامی انقلاب کے نعروں، اقدار اور امنگوں کی تقویت پر مرکوز ہو۔ اس صورت میں تعمیر و ترقی کی تحریک حقیقی اور ضمانت شدہ تحریک ہوگی اور ملک کو ترقی کے فریب میں مالیاتی و سیاسی و اخلاقی تنزلی اور انحصار کی کھائی میں نہیں لے جائے گی۔ ٹاپ اسلام اور اقتصادی ترقی اسلام قوموں کو خود مختاری اور آزادی عطا کرتا ہے۔ ان کی ذاتی زندگی میں انہیں آمروں، استبدادی طاقتوں اور کج فکری سے آزادی عطا کرتا ہے اور سامراج کے سیاسی دباؤ اور اقتصادی طاقت کے کمند سے بھی نجات دلاتا ہے۔ اسلامی قوموں کو سماجی انصاف پر مبنی رفاہ و اقتصادی آسودگی عطا کرتا ہے۔ وہ اقتصادی ترقی جو عوامی طبقات کے فاصلے کو بڑھائے اسلام کو پسند نہیں ہے۔ اقتصادی ترقی کا جو نسخہ آج مغربی ممالک پوری دنیا کے عوام کے لئے پیش کر رہے ہیں، جس سے کچھ طبقے تو عیش و عشرت میں پہنچ جاتے ہیں اور اقتصادی رونق میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ معاشرے کے کچھ دوسرے طبقے زیادہ غربت و افلاس اور دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں وہ اسلام کو پسند نہیں ہے۔ انصاف اور اخوت کے جذبے کے ساتھ اقتصادی خوشحالی اسلام کے زیر سایہ حاصل ہوتی ہے۔ ٹاپ ترقی کا علاقائی نمونہ اسلامی جمہوریہ میں ترقی کا نمونہ، عوام کے ایمان و عقیدے، ثقافتی و تاریخی حالات اور میراث کے تقاضے کے مطابق ایک مکمل مقامی اور ملت ایران سے مختص نمونہ ہے۔ کسی کی بھی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ عالمی بینک کی، نہ آئی ایم ایف کی، نہ کسی بائیں بازو کے ملک کی، نہ دائیں بازوں کے ملک کی کیونکہ ہر جگہ کے اپنے مخصوص تقاضے ہوتے ہیں۔ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے اور (دوسروں کے) مسلط کردہ اور اکثر و بیشتر منسوخ شدہ نمونوں کی تقلید کرنے میں بہت فرق ہے۔ ٹاپ اقتصادی ترقی کے لئے ہموار ثقافتی زمین کی ضرورت معاشرے میں حقیقی معنی میں اقتصادی ترقی کے لئے ثقافتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ جب تک محقق اور علمی کاوشوں میں مصروف انسان کے اندر اپنے کام سے لگاؤ اور فرض شناسی کا جذبہ اس انداز سے پیدا نہ ہوگا جو صحتمند ثقافت میں پایا جاتا ہے تو اس محقق کا وجود بے فائدہ رہے گا۔ مشکلات و مسائل کے حل کے دو معیار، جذبہ عمل اور سماجی نظم و ضبط ہیں۔ سماجی نظم و ضبط یعنی تمام امور میں منظم رہنا۔ جن لوگوں سے عوام رجوع کرتے ہیں وہ رجوع کرنے والے لوگوں سے اپنے برتاؤ میں نظم و ضبط کا خیال رکھیں اور جن لوگوں نے کچھ کاموں کی ذمہ داری قبول کی ہے وہ ان کاموں کی انجام دہی میں نظم و ضبط کے پابند رہیں۔ ان چیزوں سے ملک اور قوم میں شادابی آئے گی اور کام آگے بڑھیں گے۔ ٹاپ اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ عالمی سامراج اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ شائد ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرے جس میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف سرگرم عمل یہ درجنوں ریڈیو اور ٹی وی نشریات یہ بات نہ دہرائیں کہ اسلامی جمہوریہ کی معیشت بحران میں اور زوال و تباہی و نابودی کے دہانے پر ہے۔ ہاں کیوں نہیں، بالکل بحران میں ہے لیکن صرف انہی کے لئے، ایران کے عوام کے لئے تو ایران کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ جارحوں اور ان افراد کے لئے جو ایران کے وسائل سے استفادہ کرنے کی فکر میں بیٹھے ہیں یقینا ایرانی معیشت بحرانی ہے۔ ایرانی عوام کے لئے بھلا کیا بحران ہو سکتا ہے؟ وہ تو اپنے اس ملک کی تعمیر و ترقی کے کاموں میں مصروف ہیں جو ملک سلطنتی دور میں، وہ پہلوی سلطنت کا دور رہا ہو یا قاجاریہ دور، دنیا کے دیگر ملکوں کے سامنے اتنا کہنے کی جرئت نہیں رکھتا تھا کہ ہم بھی موجود ہیں، ہم بھی کچھ تیار کر سکتے ہیں ہم بھی اقدام کر سکتے ہیں، جو تیسرے اور چھوتھے درجے کا پوری طرح منحصر ملک تھا اور جس کے عمائدین بڑی طاقتوں کبھی برطانیہ تو کبھی امریکا اور کبھی روس کے دست نگر ہونے پر فخر کرتے تھے! ٹاپ تعمیر و ترقی کا اشتیاق و خوف ملت ایران اپنے ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی کا جتنا اشتیاق رکھتی ہے دشمن اس سے اتنے ہی ہراساں اور خشمگیں ہوتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ آباد اور مادی و روحانی رفاہ و فلاح سے مالامال معاشرے کی تعمیر میں ملت ایران کی کامیابی دوسری قوموں کے لئے اس عظیم ملت کی راہ اختیار کرنے کی ترغیب ثابت ہوگی اور اس کا مطلب ہوگا دنیا کی سامراجی طاقتوں کے مفادات اور مقاصد پر خط بطلان کھینچ دینا۔ یہیں سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف سامراج کی سازشوں کا طولانی قصہ شروع ہوتا ہے۔ جنگ مسلط کرنا، اقتصادی محاصرہ، سامراج، رجعت پسندی اور صیہونزم سے وابستہ عالمی ذرائع ابلاغ میں دائمی جھوٹے پرچار، انقلاب مخالف عناصر، بائیں بازو یا دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر اور روسیاہ منافقین اور انہی جیسے افراد کی حمایت یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ انقلابی ملت ایران کو تابناک مستقبل تک رسائی سے روک دیا جائے۔ ٹاپ تمام طبقات کا فریضہ اگر ایران ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے، رفاہ و اقتصادی رونق، ہمہ گیر پیشرفت، سیاسی عزت، سوشل سیکورٹی، روزگار کی سیکورٹی، سائنسی و تحقیقاتی ترقی اسی طرح روحانیت و معنویت سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے تو دو چیزوں کو مد نظر رکھے۔ ان دو چیزوں کا خیال رکھنا تمام طبقات کا فرض ہے بالخصوص آگاہ طبقات کا۔ دوکاندار، کسان، صنعت کار، مزدور، طالب علم، استاد، علمی شخصیات اور دینی رہنما ان دونوں چیزوں پر توجہ دیں: ایک یہ ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں سب کے سب ایک ساتھ مل کر کوشش کریں اور دوسرے یہ کہ خودسازی کی بھی کوشش کریں۔  و توبوا الی اللہ جمیعا ایھا المؤمنون لعلکم تفلحون  فلاح و نجات کا دار و مدار اس پر ہے کہ سارے لوگ اللہ تعالی کی جانب توجہ، خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری اور توسل کو نورانی راستے کے عنوان سے اپنائیں۔ دونوں میں کوئی ایک کافی نہیں ہے۔ ٹاپ تعمیر و ترقی میں خود اعتمادی کی اہمیت ملک کے حکام اور اعلی عہدہ داروں کی خود اعتمادی ایران کے انقلاب کی اقدار کا حصہ ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ملک کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی۔ ملک کے مختلف شعبوں میں سرگرم عمل عہدہ داروں میں اس خود اعتمادی اور اس نظرئے کی تقویت ہونا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ، ملت ایران اور اسی سرزمین کے لوگ ملک کو ضرورت اور خواہش کے مطابق بلند ترین مقام پر پہنچانے پر قادر ہیں۔ ممکن ہے کہ کبھی بعض عہدہ داروں اور ان لوگوں کی توجہ جو مختلف شعبوں میں مصروف کار ہیں، اقتصادی شعبے میں یا ثقافتی اور دیگر شعبوں میں، ان تجزیوں کی جانب مبذول ہو جو کسی دانشور اور مصنف کے نام سے کسی تحقیقاتی جریدے میں شائع ہوتے ہیں۔ (ممکن ہے کہ) یہ تجزیہ لوگوں کی نظروں کو اس طرح اپنی سمت مبذول کر لے کہ ان کی خود اعتمادی ختم ہو جائے اور ذہنوں کو اس پروگرام کی جانب سے غافل کر دے جو ملک کے زمینی حقائق کی بنیاد پر تیار کیا گيا ہے۔  یہ کوشش ہونا چاہئے کہ اسکولی طلبہ کے اندر اسکول پہنچنے کے وقت سے اسی طرح یونیورسٹی کے طلبہ اور ان لوگوں میں جو نئے نئے وارد میدان ہوئے ہیں جذبہ خود اعتمادی کو اور اس فکر کو تقویت پہنچے کہ ملک کے مسائل کے سلسلے میں وہ اپنے ادراک، جذبات اور تجزیوں کی بنیاد پر ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ فلاں غیر ملکی تجزیہ نگار اور اخبار نویس نے لکھ دیا کہ ایران کو ترقی اور اقتصادی مسائل سے نجات کے لئے فلاں راستے پر چلنا چاہئے تو اسی کو وحی منزل مان لیا جائے۔ جہاں تک علمی و سائنسی نظریات کی بات ہے تو وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اور جس کی زبان سے بھی نکلیں قابل توجہ ہیں لیکن یہ نہیں کہ انہیں آنکھیں بند کرکے قبول کر لیا جائے بلکہ ان کا تجزیہ کرنے کے بعد یعنی انسان ایک بات کو لے اس کا ملک کے گوناگوں حالات کی روشنی میں جائزہ لے اور کے بعد اس پر عمل درآمد کرے۔ ٹاپ تعمیر و آبادکاری کے دور کے اقتصادی مسائل تعمیر و آبادکاری کے دور میں کچھ اقتصادی مشکلات کا سامنے آنا فطری ہے۔ ہر جگہ یہی ہوتا ہے۔ افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے، بہت سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے حکومتی سطح پر دگنا کوشش ہونا چاہئے۔ افراط زر کا مسئلہ کسی طرح حل کیا جانا چاہئے۔ ملکی کرنسی کی قدر کو مناسب تدبیروں اور بلا وقفہ کوششوں سے استحکام بخشنا چاہئے۔ البتہ یہ بنیادی قسم کے کام دراز مدت میں اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ البتہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ غافل ہوکر بیٹھ رہا جائے اور کم مدتی اور میانہ مدتی طریقوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ یہی ملکی کرنسی کی قدر ملک کے بہت سے مسائل کے حل کی کنجی ہے۔ نچلے عوامی طبقات کی قوت خرید میں کمی اور زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں ان کی عاجزی اسی مسئلے کا نتیجہ ہے۔ ٹاپ تعمیر نو اور آبادکاری کے دور کی آفتیں چونکہ تعمیر نو اور آبادکاری کا دور کاموں میں کئی گنا اضافے، ثروت جمع کر لینے، اقتصادی سرگرمیوں میں وسعت لانے کا دور اور ایسا وقت ہے جس میں اگر کوئی اقتصادی سرگرمیاں کرنا چاہے تو اس کے لئے راستہ کھلا ہوا ہوتا ہے بنابریں ان حالات میں جو دنیا پرست لوگ ہیں جن کے دل دنیا کی رنگینیوں میں غرق ہیں جو لوگ اپنے ذاتی مفادات کو ملک و قوم اور انقلاب کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں ان کے لئے زراندوزی، دولت جمع کرنے، اسے غلط طریقے سے استعمال کرنے اور عیش و عشرت کی جانب بڑھنے کے لئے راستہ کھلا ہوتا ہے۔ تعمیر نو اور آبادکاری کا دور ملک کو بنانے سنورانے اور قوم کو ترقی کی منزلوں پر پہنچانے کا دور ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ دور معمولی لوگوں میں زراندوزی ، ذخیرہ اندوزی، تصنع، تعیش پرستی اور اقتصادی استحصال کی خو پیدا ہو جانے کا دور بھی ہوتا ہے لہذا ہر ایک کو بہت زیادہ محتاط رہنا چاہئے، عوام کو بھی اور حکام کو بھی۔ ٹاپ دوسرا باب: اقتصادی ترقی کے بنیادی عناصر و عوامل Kazi کام کی کیفیت مزدوروں کو یہ موقع ملنا چاہئے کہ وہ نظام کی خدمت اور قوم کی اقتصادی پیشرفت میں اپنا کردار ادا کریں اور بہترین انداز میں معیاری مصنوعات تیار کریں۔ رسول اسلام سے منقول ہے کہ   رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنھ  یعنی رحمت خدا ہو اس شخص پر جو کاموں کو بنحو احسن انجام دے۔ مزدور اپنے کام بہترین شکل میں انجام دیں اور یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ خواہ سرکاری یا غیر سرکاری ٹھیکیدار مزدوروں کی کد و کاوش کا احساس کرے یا نہ کرے انہیں مناسب محنتانہ دے یا نہ دے ان کے کام پیش خدا محفوظ ہیں۔ البتہ طریقہ تو یہی ہے کہ مزدوروں کی محنت کا احساس کرکے انہیں مناسب محنتانہ دیا جائے۔ کام کی بنحو احسن انجام دہی اللہ تعالی کو مطلوب ہے۔ ٹاپ اسلامی ثقافت میں کام کی قدر و قیمت قرآنی و اسلامی نقطہ نگاہ سے محنت و مشقت اور کام کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ اگرچہ کام صرف کارخانے، کھیت اور دیگر مقامات تک ہی محدود نہیں ہے تاہم جس عمل صالح پر قرآن میں اتنی زیادہ تاکید کی گئی ہے ان کاموں پر بھی اس کا اطلاق یقینا ہوتا ہے۔ یعنی جب کام کرنے والا احساس ذمہ داری کے ساتھ کام انجام دیتا ہے، جذبہ عمل کے ساتھ کام کرتا ہے، سنجیدگی و تندہی کے ساتھ عمل کرتا ہے، خلاقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے اور کام کرتے وقت ایک کنبے کے آذوقے کی فراہمی کی نیت ذہن میں رکھتا ہے تو یہی عمل صالح بن جاتا ہے۔   الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات  یہ عمل صالح کا مصداق بن جاتا ہے۔ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ انسان کام کر رہا ہے کیونکہ اس کی زندگی اسی کام سے وابستہ ہے اور یہی کام عمل صالح کا مصداق بھی بن جائے جسے قرآن میں ایمان کے ہمراہ قرار دیا گيا ہے۔   آمنوا و عملوا الصالحات ٹاپ اقتصادی ترقی میں کام اور عمل کا مقام و مرتبہ اقتصادی ترقی میں کام کی ترغیب دلائی جانی چائے۔ کام کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ یوں تو سرمایہ کاری کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا لیکن سرمایہ کاری کام کا ایک ستون ہے، اس کی بنیاد اور اساس مزدور کی محنت ہے۔ کام میں اگر لگاؤ، مہارت، لگن اور دشواریوں کے تحمل کرنے کا جذبہ نہ ہو تو اس سے ملک کو نجات کے ساحل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اس کیفیت والے کام کے بغیر ملک وہاں تک نہیں پہنچ سکتا جہاں اسے پہنچنا ہے۔  ملت ایران آج اقتصادی خود انحصاری کی کوششوں میں مصروف ہے۔ تیل پر ملک کے انحصار کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس کوشش میں ہے کہ ملک کی معیشت کو ایسی ڈگر پر ڈال دیا جائے کہ (عالمی منڈیوں میں) تیل کی قیمت کی گراوٹ کا ملک کے اندر (منفی) اثر نہ پڑے۔ یہ کام کیسے ہوگا؟ ملت ایران اگر خود کو تیل سے بے نیاز کرنا چاہتی ہے تو کام اور کام کے نقطہ نگاہ پر توجہ دئے بغیر یہ چیز ممکن نہیں ہوگی۔ ٹاپ محنت کش محنت کش کا تقدس عرف عام میں محنت کش کے لفظ کا ایک تقدس ہونا چاہئے۔ محنت کش کا ایک تقدس ہوتا ہے۔ محنت کش وہ انسان ہے جو اس لئے کام کر رہا ہے کہ قوم اور ملک خود مختاری کی نعمت سے بہرہ مند ہو۔ یہ خیال تمام لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھ جانا چاہئے۔ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ محنت کش کی کتنی اہمیت ہے۔ محنت کش طبقے کا ملک میں بہت اہم کردار ہے۔ پیداوار کا اصلی بوجھ محنت کش طبقے کے دوش پر ہے۔ یہ محنت کش کا عنوان ان تمام افراد پر صادق آتا ہے جو ملک کی ترقی، ملکی پیداوار میں اضافے اور ملک میں کام کی صورت حال کی بہتری کے لئے محنت و مشقت کر رہے ہیں۔  اسلامی معاشرے میں اسلامی عہدہ داران کام اور محنت کشوں کے بارے میں بڑے احترام سے بات کرتے ہیں یہ محض لفاظی اور تکلفات نہیں ہیں۔ دنیا میں یقینا ایسے لوگ مل جائیں گے جو بیان بازی کی حد تک مزدوروں سے بڑی ہمدردی ظاہر کرتے ہیں لیکن اس شخص میں جو لوگوں میں مقبولیت بڑھانے کے لئے نعرے دیتا ہے اور اس شخص میں جو کام کو حقیقت میں عمل صالح کا درجہ دیتا اور اسے مقدس سمجھتا ہے بہت فرق ہے۔ یہی آخر الذکر اسلام کا نقطہ نگاہ ہے۔ یعنی محنت کش (کام کے وقت) عبادت کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس کا کام عبادت ہے۔ ٹاپ محنت کش طبقے کے سلسلے میں نظام کا فرض یقینا اسلامی جمہوری نظام کا ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ محنت کش طبقے کو، جو ملک کی پیداوار اور معیشت کا پہیہ گھمانے میں سب سے بڑا کردار ادا کر رہا ہے، اس کے انسانی و اسلامی حقوق سے بہرہ مند کرے۔ محنت کشوں کی زندگی میں مادی و معنوی لحاظ سے بہتری آئے۔ مناسب قوانین کے اجراء اور روزگار کے نئے نئے مواقع ایجاد ہونے کے بعد ایرانی معاشرے میں غربت باقی نہیں رہنا چاہئے۔ مزدور جو معاشرے کے مستضعف طبقے میں شامل ہیں معاشی ترقیاتی منصوبوں میں انہیں ترجیح دی جانی چاہئے۔ اگر محنت کشوں کی ضروریات پوری ہوں تو کام زیادہ بہتر طریقے سے انجام پائے گا۔ ٹاپ معاشرے میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمت ملک کی خود مختاری کام پر موقوف ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک اور کوئی بھی قوم کام کے سلسلے میں بے توجہی، بیکاری اور تعیش پسندی کے ساتھ کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتی۔ ممکن ہے کہ کسی ایک شعبے سے آمدنی ہو رہی ہو اور بظاہر عیش کے ساتھ زندگی گزر رہی ہو، غیر ملکی اشیاء معاشرے میں اٹی پڑی ہوں لیکن (معاشرہ) خود مختاری سے محروم ہوگا۔ خود مختاری کی نعمت سے مالامال قوم کے وقار کا دار و مدار کام پر ہی ہوتا ہے۔ یہ ہے کام کی قدر و قیمت۔ اسلامی نظام اس نقطہ نگاہ سے محنت کش طبقے کو دیکھتا ہے اور اسی نقطہ نگاہ کے تحت محنت کشوں کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کو ثواب کا کام سمجھتا ہے۔ جس نے بھی کسی مزدور کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اس نے بالکل صحیح عمل انجام دیا ہے کیونکہ (ایسا کرکے) اس نے اپنی قوم اور اپنے ملک کی خود مختاری کے ایک اہم عامل اور عنصر کا احترام کیا ہے۔ کام کی اتنی زیادہ اہمیت ہے۔ ٹاپ سرمایہ دارانہ، اشتراکی اور اسلامی نظاموں میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمت سرمایہ دارانہ نظام والے ملکوں میں مزدور محض ایک وسیلہ ہوتا ہے، کام کروانے والے کی خدمت کا ایک ذریعہ۔ محنت کش طبقے کی حمایت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے نابود شدہ اشتراکی مکتب فکر میں امپلائر اور محنت کشوں کے ما بین جنگ اور ٹکراؤ کی کیفیت ہوتی تھی۔ یہ (اشتراکی) نظام اسی جنگ کی روٹی کھاتے تھے اور خود کو محنت کش طبقے کا حامی و طرفدار کہتے تھے۔ اس زمانے میں سابق سویت یونین کے نام نہاد اشتراکی نظام میں وہی سرمایہ داری کی بساط بچھی ہوئی تھی، وہی اسراف ہو رہا تھا، وہی گوناگوں مالی بد عنوانیاں تھیں البتہ مزدور اور محنت کش طبقے کی حمایت و دفاع کے نام پر۔ ان کی روش ٹکراؤ اور تنازعے کی روش تھی۔ اسلام، اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ ان دونوں میں سے کسی بھی روش سے متفق نہیں ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ امپلائر اور کام کے مواقع ایجاد کرنے والوں کا وجود ایک بازو ہے تو افرادی قوت دوسرا بازو۔ ان دونوں کا وجود اور باہمی تعاون ضروری ہے۔ حکومت کی ذمہ داری، تعاون کے لئے ان دونوں کے درمیان عدل و انصاف کی ایک لکیر کھینچنا ہے تاکہ کوئی بھی دوسرے کے حقوق پر تجاوز نہ کرے۔ اگر یہ صورت حال ہو تو معاشرہ پوری صحتمندی کے ساتھ حرکت کرے گا۔ نہ اسراف اور فضول خرچی کا چلن ہوگا اور نہ ایک طبقے کی محرومی کو اس طبقے کی (تقدیر اور) ثقافت کا جز تصور کیا جائے گا۔ یہ اسلامی جمہوری نظام کی منطق و روش ہے۔ ٹاپ خواتین تعمیر و آبادکاری کے دوران خواتین کا کردار اسلامی ملک کی تعمیر و آبادکاری کے دور میں، جب قوم اور حکام اس کوشش میں ہیں کہ عظیم مملکت ایران مادی لحاظ سے بھی، سماجی نظم و ضبط کے لحاظ سے بھی اور روحانی و معنوی اعتبار سے بھی حقیقی تعمیر و آبادکاری کی منزلیں طے کرے، سب سے زیادہ انحصار افرادی قوت پر ہے۔ یعنی اگر کوئی ملک حقیقی تعمیر و آبادکاری کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ تکیہ، توجہ اور ارتکاز افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہو تو ہمیں اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت ملک کی عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے بارے میں غلط نقطہ نگاہ اپنایا جائے تو وسیع سطح پر حقیقی تعمیر و آبادکاری ممکن نہیں ہوگی۔ خود خواتین کو بھی عورت کے بارے میں اسلامی نقطہ نگاہ کی پوری واقفیت و آگاہی ہونا چاہئے اور معاشرے کے تمام لوگ اور اسلامی ملک کے تمام مرد بھی یہ سمجیں کہ عورت کے تعلق سے اسلام کا نظریہ، زندگی کے شعبوں میں عورت کے کردار، فعالیت، تعلیمی سرگرمیوں، سماجی، سیاسی اور علمی امور سے متعلق کوششوں، گھر کے اندر اور گھر کے باہر عورت کے کردار کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟  مسلمان مرد کی طرح مسلمان عورت کو بھی یہ حق ہے کہ حالات کے تقاضے کے مطابق جو فرائض اپنے دوش پر دیکھے انہیں پورا کرے اور جو خلا محسوس کرے اسے بھرنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اگر کوئی لڑکی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے یا اقتصادی سرگرمیاں انجام دینا چاہتی ہے اور دیگر علمی موضوعات پر کام کرنا چاہتی یا یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس میں دلچسپی رکھتی ہے، یا سیاسی میدان میں وارد ہونا چاہتی ہے یا نامہ نگار بننا چاہتی ہے تو اس کے لئے دروا‌زے کھلے ہونا چاہئے۔ اسلامی معاشرے میں عفت و پاکیزگی اور مرد و زن کے عدم اختلاط کی شرط کے ساتھ مرد و عورت دونوں کے لئے دروازے کھلے رکھے گئے ہیں۔ اس کا ثبوت اس موضوع کی وہ اسلامی تصنیفات ہیں جو (اس وقت بھی) موجود ہیں۔ تمام اسلامی احکامات میں مرد و زن کو یکساں طور پر سماجی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔  عورتوں کو بھی مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلام کے معاملات اور دنیا میں در پیش مسائل کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے عمل کرنا چاہئے کیونکہ یہ (ان کا) اسلامی فریضہ ہے۔ ٹاپ عورتوں کی اقتصادی سرگرمیاں اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کے لئے سیاسی، اقتصادی اور علمی سرگرمیوں اور محنت و مشقت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی اسلامی نظرئے کو بنیاد قرار دیکر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کرے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کی کوشش کرے یا سیاسی و سماجی کردار سے محروم کرنے کا ارادہ رکھے تو اس نے حکم خدا کے خلاف عمل کیا ہے۔ عورتیں اپنی جسمانی توانائی اور ضرورتوں اور احتیاج کے مطابق سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ وہ اپنی طاقت و توانائی کے مطابق سیاسی، سماجی اور اقتصادی سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ البتہ چونکہ جسمانی لحاظ سے مرد کے مقابلے میں عورت نازک ہوتی ہے اس لئے اس کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ عورت پر بھاری کام مسلط کرنا اس کے حق میں نا انصافی ہے۔ اسلام اس کا مشورہ نہیں دیتا، البتہ (واضح طور پر) منع بھی نہیں کرتا۔ ہاں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلاۃ و السلام سے (اس سلسلے میں) ایک روایت منقول ہے :   المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ  یعنی عورت پھول ہے قھرمان نہیں۔ قہرمان آبرومند خادم کو کہتے ہیں۔ (مولا) فرماتے ہیں کہ آپ کے گھروں میں عورتیں لطیف پھول کی مانند ہیں ان سے بہت توجہ اور نرمی کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ عورت آپ کی خادمہ نہیں ہے کہ آپ بھاری اور محنت کے کام اس کے ذمے کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ ٹاپ اسلامی شریعت کے زاویہ نگاہ سے عورتوں کی اقتصادی سرگرمیاں سماجی سرگرمیوں کے میدان میں جس میں اقتصادی سرگرمیاں، سیاسی سرگرمیاں، علمی سرگرمیاں، تعلیمی سرگرمیاں، تدریسی سرگرمیاں، راہ خدا میں جد و جہد، سب شامل ہیں، زندگی کے ان تمام میدانوں میں اسلام کے نقطہ نگاہ سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام کی نظر میں انسانی معاشرے سے متعلق تمام سرگرمیوں اور جملہ کارہائے زندگی میں عورت اور مرد کو (فعالیت کی) یکساں اجازت دی گئی ہے۔ البتہ کچھ کام ہیں جو عورتوں کے لئے نہیں ہیں کیونکہ ان کی جسمانی ساخت کے مطابق نہیں ہیں، بعض کام ہیں جو مردوں کے لئے نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کے مزاج اور جسمانی ساخت سے میل نہیں کھاتے۔ اس چیز کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ عورت سماجی سرگرمیوں کے میدان میں موجود رہ سکتی ہے یا نہیں۔ کام کی تقسیم وسائل، شوق و جذبے اور کام کے تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر عورت کو دلچسپی ہے تو وہ گوناگوں سماجی سرگرمیاں اور معاشرے سے متعلق کام انجام دے سکتی ہے۔  اب کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دیکر عورت کو اقصادی اور سماجی سرگرمیوں سے روک دے تو یہ غلط ہے۔ اسلام نے ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے۔ دوسری طرف اسلام نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ عورت کو طاقت فرسا کاموں، دشوار اقتصادی، سیاسی یا سماجی امور کی انجام دہی پر مجبور کیا جائے۔ یہ جو بعض افراد کہتے ہیں کہ عورت ہر حال میں کام کرے اور پیسہ کمائے، غلط ہے۔ یہ چیز خلاف شریعت تو نہیں لیکن اسلام ان چیزوں کی سفارش بھی نہیں کرتا۔ اسلام کا نقطہ نگاہ اعتدال پسندانہ نقطہ نگاہ ہے۔ یعنی اگر عورت کے پاس فرصت اور وقت ہے، بچے کی پرورش رکاوٹ نہیں بن رہی ہے اور اس میں جسمانی طاقت و توانائی اور شوق و جذبہ بھی ہے اور وہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی میدان میں وارد ہونا چاہتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کہ اسے مجبور کیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ وہ ہر صورت میں کام کرے اور روزانہ فلاں مقدار میں پیسہ کمائے تاکہ اس کی آمدنی سے گھر کے خرچ کا ایک حصہ پورا ہو تو یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسلام نے عورتوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا ہے۔ اس چیز کو عورت کے ساتھ ایک طرح کی زیادتی قرار دیتا ہے۔ اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ علمی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں عورت کے ساتھ کوئی اجبار و اکراہ نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کے سد راہ بننا چاہئے۔ اگر خواتین سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ البتہ علمی سرگرمیاں بہت بہتر ہیں اور انہیں دیگر سرگرمیوں پر ترجیح حاصل ہے۔ ٹاپ کفایت شعاری اقتصادی ترقی میں کفایت شعاری کی اہمیت کفایت شعاری کا مطلب خرچ نہ کرنا نہیں ہے۔ کفایت شعاری کا مطلب صحیح خرچ کرنا، بجا خرچ کرنا، سامان ضائع نہ کرنا، استعمال کو کارآمد اور ثمر بخش بنانا ہے۔ مال اور معیشت میں اسراف یہ ہے کہ انسان مال خرچ کرے اور اس کا کوئی فائدہ اور نتیجہ بھی نہ ہو۔ بے مقصد خرچ کرنا در حقیقت مال کو ضائع کرنا ہے۔ معاشرے میں پیداوار اور خرچ کے ما بین مناسب تناسب ہونا چاہئے۔ تناسب پیداوار کے حق میں ہونا چاہئے یعنی معاشرے کی پیداوار معاشرے کے خرچ سے زیادہ ہونا چاہئے۔ معاشرہ ملک کی پیداوار سے استفادہ کرے اور جو بچ جائے اسے ملک کی تعمیر و ترقی میں صرف کیا جائے۔ قرآن کریم کی آیتوں میں متعدد مقامات پر معاشی امور میں اسراف سے گریز پر زور دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد یہی ہے۔ اسراف سے اقتصادیات کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور ثقافت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اگر معاشرہ اسراف کی بیماری سے دوچار ہو جاتا ہے تو ثقافتی لحاظ سے بھی اس پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بنابریں کفایت شعاری اور اسراف سے پرہیز کا مسئلہ صرف اقتصادی مسئلہ نہیں بلکہ اقتصادی مسئلہ کے ساتھ ساتھ سماجی مسئلہ بھی ہے اور ثقافتی مسئلہ بھی ہے۔ اس سے ملک کے مستقبل کے لئے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ٹاپ روحانیت و معنویت اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانیت و معنویت کی ضرورت اسلامی انقلاب آیا تاکہ ملت ایران کو حیات طیبہ کا تحفہ پیش کرے۔ حیات طیبہ یعنی وہ چیز جس کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے فلنحیینھ حیاۃ طیبۃ اس انقلاب کا یہ نصب العین اور ثمرہ ہے۔ حیات طیبہ یعنی یہ کہ معاشرہ مادی اور روز مرہ کی زندگی کے لحاظ سے رفاہ و آسائش، تحفظ و سلامتی، علم و دانش، سیاسی وقار، اقتصادی خود مختاری، مالیاتی چہل پہل اور اقتصادی رونق سے بہرہ مند رہے اور معنوی و روحانی لحاظ سے بھی با ایمان، خدا شناس اور پرہیزگار انسان جو اعلی الہی اقدار و اخلاقیات سے آراستہ ہوں اس میں زندگی بسر کریں۔ یہی حیات طیبہ ہے۔  دنیا میں بعض جگہوں پر اقتصادی چہل پہل اور مادی رفاہ و آسائش تو کسی حد تک نظر آتی ہے لیکن روحانیت ناپید ہوتی ہے۔ جب معاشرے میں روحانیت نہ ہو تو اقتصادی آسودگی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سے نہ تفریق ختم ہوتی ہے، نہ سماجی انصاف قائم ہوتا ہے، نہ بھکمری مٹتی ہے اور نہ بد عنوانی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ صرف اقتصادی چہل پہل ہی تو ملک کا سب کچھ نہیں ہے۔  آپ امریکی قوم کو دیکھئے! اقتصادی سرگرمیوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کی پیداوار بہت زیادہ ہے، ان کی علمی و سائنسی ترقی بہت زیادہ ہے، ان کے کارخانے (باقاعدگی سے) سے کام کر رہے ہیں۔ پوری دنیا کو اپنی مصنوعات صادر کر رہے ہیں اور ملک کی آمدنی بڑی اچھی ہے۔ لیکن یہ قوم اس اقتصادی ترقی سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ کیوں؟ کیونکہ اس ملک میں روحانیت ہے نہ سلامتی، نتیجے میں خود کشی اور نوجوانوں کی گمراہی اور بے راہروی بہت زیادہ ہے۔ بچے بارہ تیرہ سال کی عمر سے قتل کرنا سیکھ جاتے ہیں، خاندان بکھرتے جا رہے ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنے لئے تکیہ گاہ تصور نہیں کر سکتے۔ نہ عورت کو اس پر اطمینان ہوتا ہے کہ اس کا شوہر ہے اور نہ شوہر کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ اس کی بیوی موجود ہے! خاندان والی بات ہی نہیں ہے۔  آج خود امریکی کہتے ہیں، ان کے جرائد لکھتے ہیں، روشن فکر افراد اور سیاستداں حضرات کہتے ہیں کہ امریکی معاشرے میں روحانیت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہاں دین و ایمان نہیں ہے۔ اقتصادی آسودگی کسی حد تک ہے لیکن یہ اقتصادی رفاہ و آسودگی بھی ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ اس ملک کی آمدنی بنیادی طور پر ایک مخصوص گروہ کے پاس جاتی ہے بقیہ افراد کو اس میں سے کچھ نہیں ملتا۔  یہ اس معاشرے کا حال ہے جس کے پاس مادیت ہے لیکن معنویت و روحانیت نہیں ہے۔ اسلام ایسا معاشرہ تشکیل نہیں دینا چاہتا۔ اسلام چاہتا ہے کہ مادیت بھی ہو اور معنویت بھی، پیسہ و رفاہ بھی ہو اور دین و ایمان بھی، معاشرے میں اقتصادی ترقی و پیشرفت بھی ہو اور اخلاقی و روحانی ارتقاء بھی ہو۔ یہ ہے اسلام کی حیات طیبہ۔ ٹاپ نظم و ضبط مالیاتی و اقتصادی نظم و ضبط مالی نظم و ضبط یعنی زیادہ روی اور اسراف کا مقابلہ۔ چیزوں کے استعمال اور پیسے کے خرچ میں زیادہ روی، فضول خرچی اور اسراف بالکل اچھی بات نہیں ہے۔ یہ جود و سخاوت ہے نہ کرم و عطا، یہ محض اقتصادی بد نظمی ہے۔ جو لوگ بلا وجہ خرچ کرتے ہیں، زیادہ خرچ کرتے ہیں، چیزوں کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں، اقتصادی وسائل کے لحاظ سے معاشرے کی حالت کا خیال نہیں رکھتے وہ مالی و اقتصادی نقطہ نگاہ سے بد نظم لوگ ہیں۔ ذاتی سرمائے اور حلال راستے سے کمائے گئے پیسے کا بھی بے تحاشہ خرچ نظم و ضبط کے منافی ہے۔ جو لوگ سرکاری مال اس طرح استعمال کرتے ہیں وہ تو اور بھی بدتر ہیں۔ حکام عوامی سرمائے کو ایسی جگہ خرچ کرنے سے شدت سے اجتناب کریں جو ترجیحات میں شامل نہیں ہے، ممکن ہے وہاں ضرورت ہو لیکن وہ ترجیحات میں شامل نہ ہو۔ جب ترجیحی ضرورت اور غیر ترجیحی ضرورت کا معاملہ ہو تو اجتناب کریں۔ جہاں ضرورت اور احتیاج نہیں ہے وہاں کی تو خیر بات ہی اور ہے۔ اس جگہ بھی جہاں ضرورت و احتیاج ہے لیکن کسی دوسری جگہ اس سے زیادہ ضرورت ہے تب بھی وہاں پیسہ خرچ نہ کیا جائے بلکہ یہ پیسہ وہاں لگایا جائے جہاں زیادہ ضرورت ہے۔ ٹاپ تیل تیل کے کنؤں کو بند کر دیا جائے میری سب سے بڑی آرزوی، جو ممکن ہے کہ اتنی جلدی پوری نہ ہو سکے، یہ ہے کہ ایران تیل کے کنؤوں کو بند کر دے اور تیل سے ہٹ کر دیگر مصنوعات اور پیداوار پر اپنی معیشت کی بنیاد رکھے۔ یعنی یہ فرض کر لیا جائے کہ ایران کے پاس تیل نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ یہ کام چند برسوں میں اور اتنی جلدی انجام نہ پا سکے کیونکہ ایران میں بد عنوان اور پٹھو پہلوی حکومت کے دور میں دشمنوں نے بے حد تباہی مچائی ہے اور ملت اور ملک کو اس طرح تیل پر منحصر کر دیا ہے کہ یہ کام آسانی سے انجام نہیں پا سکے گا۔ تاہم کبھی نہ کبھی یہ کام ضرور انجام دیا جانا چاہئے اور وہ ایسا دن ہوگا جب ملت ایران اپنا سرمایہ مفت میں ان لوگوں کو دینے کے بجائے جو خباثت آمیز انداز میں ملکوں کے سرمائے استعمال کر رہے ہیں، اپنے ذاتی وسائل کی بنیاد پر اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہوگی۔  افسوس کہ یہ کام اس وقت ممکن نہیں ہے۔ اس وقت تیل پیدا کرنے والے بعض ممالک کی خیانتوں اور عالمی لٹیروں کے ساتھ ان کی سازباز کا نتیجہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ تیل ان ممالک کے لئے جو تیل پیدا کرتے ہیں نفع بخش اور سیاسی و اقتصادی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہو، (تیل کے صارف) ممالک کا حربہ بنا ہوا ہے! بالکل اس سامان کی مانند جس کی کوئی مانگ اور ضرورت باقی نہ گئی ہو! جبکہ تیل ایسی چیز ہے کہ اگر آج اس کی فروخت بند کر دی جائے تو دنیا میں روشنی، حرارت اور صنعتی حرکت رک جائے گی۔ آج کی صنعتی تہذیب کی بنیاد مشینیں ہیں۔ اگر تیل نہ ہو تو یہ مشینیں ٹھپ پڑ جائیں گی۔ تیل کی اہمیت اتنی زیادہ ہے۔ ٹاپ قومی معیشت کے تیل کی آمدنی پر عدم انحصار کی ضرورت ایرانی قوم اور معیشت کو تیل سے الگ ہونا چاہئے۔ کیونکہ بد قسمتی سے آج دنیا میں تیل، لٹیری، پوری دنیا کو ہڑپ لینے کی خواہشمند اور سامراجیوں سے وابستہ کمپنیوں کی سیاست کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ در حقیقت تیل انہی کی مٹھی میں ہے۔ جب چاہتی ہیں تیل کی قیمت کم کر دیتی ہیں، اس کی پیداوار میں کمی یا زیادتی کر دیتی ہیں۔ تیل تو ان ملکوں کی دولت ہے جو اس کے ذخائر کے مالک ہیں لیکن اس کی پالیسیاں دوسروں کے ہاتھوں میں ہیں۔  تیل سے بے نیاز معیشت پر تکیہ ایک، دو سال اور پانچ سال میں ممکن نہیں ہے۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اور وقت گزرنے کے ساتھ ممکن ہوگی۔ ملک کے حکام امور مملکت کو چلانے کے لئے، مختلف کاموں کی انجام دہی کے لئے، امپورٹ اور سروسز کے لئے، تعلیم و تربیت اور کرنٹ بجٹ کے لئے، تیل فروخت کرنے پر مجبور نہ ہوں جو ملت ایران کا سرمایہ ہے۔ اس کے بدلے گیہوں اور دودھ کا پا‎ؤڈر امپورٹ کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ یہ درست نہیں ہے۔ یہ خشت کج ہے جو پہلوی حکومت میں ( معروف شعر کی جانب اشارہ ہے: خشت اول چون نہد معمار کج، تا ثریا می رود دیوار کج) رکھی گئی ہے۔ پہلوی سلطنت نے جو دسیوں خیانت آمیز کام کئے ان میں ایک یہ ہے کہ اس نے ملک کی معیشت کو تیل پر منحصر کر دیا۔ اس صورت حال کو آسانی سے بدلا نہیں جا سکتا۔ ٹاپ منصوبہ بندی اقتصادی منصوبہ بندیوں میں کم آمدنی والے طبقے پر توجہ حکومت کے اقتصادی منصوبوں میں جو نقص بڑی آسانی سے نظروں میں آ جاتا ہے یہ ہے کہ تیاروں کے آغاز سے حکومت کے مطلوبہ نتائج کے حصول تک کے درمیانی وقفے میں معاشرے کے کمزور طبقے کو بڑی دشواریاں تحمل کرنا پڑ جاتی ہیں۔ یہ چیز صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ حکومت کی اقتصادی پالسیوں کے بارآور ہونے اور مانگ اور پیداوار میں توازن قائم ہونے تک، وہ وقت آنے تک جب سارے لوگ پیداوار سے صحیح طور پر استفادہ کر سکیں ممکن ہے کچھ فاصلہ ہو۔ اس فاصلے میں یہ (کمزور) طبقے سختیاں برداشت کرتے ہیں۔ ٹاپ صحیح انتظام اقتصادی ترقی میں پر خلوص انتظامی کردار کی ضرورت ایران معقول اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل کرنے پر قادر ہے۔ یہ جو بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ کام نہیں ہو پائے گا، پیشرفت ممکن نہیں ہے، مسائل کو حل کرنا ممکن نہیں ہے، یہ غلط نظریہ اور خود اعتمادی کی کمی ہے۔ ہمدرد و کارآمد انتظامی سسٹم، فرض شناسی اور انسانی صلاحیتوں اور استعداد کے استعمال سے بند دروازوں کو کھولا جا سکتا ہے۔ جہاں بھی فرض شناس، مومن اور ہمدرد انتظامی عہدہ دار تھے اور انہوں نے عوام اور اسلامی نظام کے تعلق سے اپنے فرائض، اپنی عقل و تدبیر اور ایمان و اخلاص کے مطابق کام کیا وہاں اسلامی نظام کو کامیابیاں ملیں۔ ایران بعض پیچیدہ ترین صنعتوں کے میدان میں بھی کہ ایک وقت ایسا تھا جب ملک کے صنعت کار اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے، اپنی انتظامی صلاحیتوں اور درست اقدامات کی بنا پر مطلوبہ مقام پر پہنچ چکا ہے۔ بہت سے حریف، دشمن اور اغیار اس حقیقت کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔ لیکن بہرحال کبھی نہ کبھی تو انہیں یقین آئے گا، چونکہ وہ اس کے اثرات گوشہ و کنار میں دیکھ رہے ہیں۔ دفاعی صنعت کے میدان میں ایران کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے؟! (مسلط کردہ) جنگ کے زمانے میں ایران معمولی ترین فوجی ساز و سامان تیار کرنے میں مشکلات سے دوچار تھا لیکن آج بہت سے انتہائی پیچیدہ ساز و سامان بھی، جو بہت سے ایسے ممالک کے پاس بھی نہیں ہیں جن کے پاس اس صنعت کا ایران سے زیادہ تجربہ ہے، انہی فرض شناس جوانوں اور با اخلاص انتظامی عہدہ داروں نے دفاعی صنعت کے شعبے میں تیار کر لیا ہے۔ صنعتی توانائی و استعداد کو محدود نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی ایک جگہ پر صلاحیت و توانائی ہے تو اسے پوری صنعت میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ دیگر پیداواری شعبوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ ملک میں درجنوں ڈیم بنائے جا چکے ہیں۔ انقلاب کے اوائل میں ایک ڈیم میں رساؤ تھا۔ اس وقت بعض افراد جمع ہوئے اور انہوں نے یہ فیصلہ سنایا کہ جن انجینئروں نے اس ڈیم کی تعمیر کی ہے انہیں فلاں یورپی ملک سے بلایا جائے اور ان سے کہا جائے کہ اس رساؤ کو روکیں۔ لیکن با ایمان و فرض شناس جوانوں نے اور ایران کے جذبہ ہمدردی سے سرشار انہی انتظامی عہدہ داروں نے ان چند برسوں میں درجنوں ڈیم تعمیر کر ڈالے۔ بنابریں امور کی باگڈور فرض شناس اور جذبہ ہمدردی سے سرشار منتظمین کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے۔ بلند ہمتی، فرض شناسی، ایمان، اسلامی نظام پر عقیدہ اور الہی محاسبے کا خوف منتظمین کے اندر ضروری ہے تاکہ یہ کام انجام پا سکیں۔ ٹاپ خود اعتمادی تعمیر و آبادکاری میں خود اعتمادی کی اہمیت ملک کے حکام اور انتظامی امور کے ذمہ داروں میں خود اعتمادی کا موضوع ایران کے انقلاب کی بنیادی اقدار میں شامل ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ملک کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں متزلزل ہو سکتی ہیں۔ ملک کے مختلف شعبوں میں مصروف کار عہدہ داروں کے اندر خود اعتمادی کے جذبے اور اس خیال کو تقویت پہنچائی جانی چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ، ملت ایران اور اس ملک کے افراد اسے بلندیوں کے نقطہ کمال پر پہنچانے پر قادر ہیں۔ علاقے کے سب سے بڑے ڈیم کو، جو کرخہ ڈیم ہے، سپاہ پاسداران انقلاب کے جوانوں نے تعمیر کیا ہے۔ اس سے چند سال قبل جب کرخہ ڈیم کی تعمیر ہو رہی تھی میں نے جاکر اس کا معاینہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ ڈیم کے روبرو پہاڑ کے اوپر جلی حروف میں، جو کئی کلومیٹر کے فاصلے سے پڑھا جا سکتا تھا، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا یہ جملہ لکھا ہوا تھا ہم انجام دے سکتے ہیں جی ہاں بالکل کر سکتے ہیں۔ ٹاپ اصلاح اقتصادی ترقی میں اصلاح کی ضرورت اصلاح ایک لازمی اور ضروری حقیقت ہے، ملک میں اسے انجام دیا جانا چاہئے۔ اصلاح تو ایران کے نظام کی دینی و انقلابی ماہیت و تشخص کا جز ہے۔ اگر بدلتے حالات کے ساتھ اصلاح انجام نہ دی جائے تو نظام تباہ ہو جائے گا، غلط راستے پر چل پڑے گا۔ اصلاح ایک فریضہ ہے۔ خود اصلاح ایک لازمی عمل ہے جو انجام پانا چاہئے۔ اگر اصلاحات نہ ہوں تو دولت کی تقسیم غیر منصفانہ انداز میں انجام پاتی ہے، غربت پھیلتی ہے، زندگی دشوار ہو جاتی ہے، ملک کے ذخائر کا صحیح استعمال نہیں ہو پاتا، بڑے دماغ فرار ہونے لگتے ہیں اور جو دماغ باقی رہ جاتے ہیں ان سے بھرپور استفادہ نہیں کیا جاتا۔ لیکن اگر اصلاحات ہوں تو یہ آفتیں، یہ نقصانات اور ایسی ہی دیگر درجنوں مصیبتیں پیش نہیں آتیں۔ ٹاپ صنعت اقتصادی ترقی میں صنعت کا کردار ملکی معیشت کی ترقی کا ہراول دستہ صنعتی شعبہ ہوتا ہے۔ صنعتی شعبے کو بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ، انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر، عوامی سرمائے کے لئے میدان کھول کر اور راستہ صاف کرکے، تاکہ عوام صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کر سکیں، صنعتی شعبے کو آگے بڑھانا چاہئے۔ متعلقہ حکام کے سسٹم میں مالیاتی و اقتصادی بد عنوانی ملکی معیشت کے پیکر میں سرایت کر جاتی ہے لہذا اس کا سد باب کر دیا جانا چاہئے۔ سد باب کی اس کوشش کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ یہ چیز اچھے سرمایہ کاروں کے اطمینان خاطر اور احساس تحفظ کا وسیلہ و ذریعہ ہے۔ سرمایہ کار غلط فائدہ تو اٹھانے کی فکر میں رہتا نہیں وہ نفع کمانا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو بھی سرمایہ کاری کرتا ہے نفع حاصل کرنے کے لئے سرمایہ کاری کرتا ہے اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے، یہ نفع جائز ہے۔ جائز اور ناجائز فائدے و منافع کے درمیان فرق واضح ہونا چاہئے۔ ناجائز فائدے اور منافع کا سد باب کیا جانا چاہئے جو بنیادی طور پر فرائض کے سلسلے میں بے توجہی، ہمدردی کے جذبہ سے دوری اور گوناگوں لغزشوں کا نتیجہ ہوتا ہے، اسمگلنگ کا صحیح معنی میں مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ ٹاپ قومی اتحاد قومی اتحاد و یکجہتی، اقتصادی ترقی کی لازمی شرط اگر کوئی قوم اتحاد و یکجہتی کے ساتھ معاشی میدان میں قدم رکھتی ہے تو یقینی طور پر پیشرفت کرتی ہے۔ اسے جنگ در پیش ہو اور وہ میدان میں اترے تو وہاں بھی اس کی فتح ہوتی ہے۔ قومی اتحاد کے ذریعے قومی وقار کی بہتر طور پر حفاظت کی جا سکتی ہے۔ کوئی بھی قوم ہو وہ قومی اتحاد کے زیر سایہ اپنے تمام اہم مقاصد اور بلند اہداف کی تکمیل کر سکتی ہے۔ اختلاف، تفرقہ و انتشار، دلوں کی آپس میں ایک دوسرے سے دوری و جدائی، حلقوں، جماعتوں، گروہوں، افراد اور شخصیات کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر دینا، اس سے کوئی بھی خدمت نہیں کی جا سکتی، اس سے کوئی بھی مدد نہیں مل سکتی۔ ٹاپ

اقتصادی خود انحصاری، معاشی پابندیوں کا مقابلہ

پہلا باب: اقتصادی خود انحصاریاقتصادی خود انحصاری کا مفہوممعاشی خود انحصاری کی اہمیتاقتصادی خود انحصاری کے مقدماتاقتصادی خود انحصاری میں ثقافتی سرمایہ کاری کے اثراتاقتصادی خود انحصاری کی شرطیںاقتصادی تسلط و اجارہ داریسیاسی و ثقافتی خود مختاری میں پائیدار معیشت کا کرداردوسرا باب: اقتصادی پابندی و محاص...

اسلامی اور مغربی ثقافتوں میں عورت کا مقام

عورت کے ساتھ اسلام اور اسلامی جمہوری نظام کا سلوک مودبانہ اور محترمانہ ہے، خیر اندیشانہ، دانشمندانہ اور توقیر آمیز ہے۔ یہ مرد و زن دونوں کے حق میں ہے۔ اسلام مرد و زن دونوں کے سلسلے میں اسی طرح تمام مخلوقات کے تعلق سے حقیقت پسندانہ اور حقیقی و بنیادی ضرورتوں اور مزاج و فطرت سے ہم آہنگ انداز اختیار کرتا ہے۔ یعنی کسی سے بھی قوت و توانائی سے زیادہ اور اس کو عطا کردہ وسائل سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں رکھتا۔ عورت کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ کو سمجھنے کے لئے اس کا تین زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اول: ایک انسان ہونے کی حیثیت سے روحانی و معنوی کمالات کی راہ میں اس کا کردار؛ اس زاویے سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تاریخ میں جس طرح بہت سے با عظمت مرد گزرے ہیں، بہت سی عظیم اور نمایاں کردار کی حامل خواتین بھی گزری ہیں۔ دوم: سماجی، سیاسی، علمی اور معاشی سرگرمیاں؛ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کے لئے علمی، اقتصادی اور سیاسی فعالیت اور سرگرمیوں کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دے کر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کے در پے ہے یا سیاسی و سماجی امور سے لا تعلق رکھنے پر مصر ہے تو وہ در حقیقت حکم خدا کے خلاف عمل کر رہا ہے۔ عورتیں، جہاں تک ان کی ضروریات و احتیاج کا تقاضا ہو اور جسمانی توانائی جس حد تک اجازت دے، سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ جتنا ممکن ہو وہ سیاسی و معاشی و سماجی امور انجام دیں، شریعت اسلامی میں اس کی ہرگز مناہی نہیں ہے۔ البتہ چونکہ جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورت مرد سے نازک ہوتی ہے لہذا اس کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ عورت پر طاقت فرسا کام مسلط کر دینا اس کے ساتھ زیادتی ہے، اسلام اس کا مشورہ ہرگز نہیں دیتا۔ البتہ اس نے (عورت کو ) روکا بھی نہیں ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں: المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ یعنی عورت پھول کی مانند ہے قہرمان نہیں۔ قہرمان یعنی با عزت پیش کار اور خدمت گار۔ آپ مردوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: عورتیں تمہارے گھروں میں گل لطیف کی مانند ہیں ان کے ساتھ بڑی ظرافت اور توجہ سے پیش آؤ۔ عورت آپ کی خادمہ اور پیش کار نہیں ہے کہ آپ سخت اور طاقت فرسا کام اس کے سر مڑھ دیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔

معاشرے میں عورت کا کردار اور حقوق

عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کھ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیا ہے؟ عورت کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جو بلند انسانوں کی پرورش کرکے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہوگا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیسی ہونا چاہئے۔ عورت کو خاندان اور کنبے کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے، ویسے کنبہ تو مرد اور عورت دونوں سے مل کے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں لیکن گھر کی فضا کی طمانیت اور آشیانے کا چین و سکون عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔ عورت کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تب معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح کمال کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟