زیر سرویس 2: 

انتخابات

ہمارے ملک میں حقیقی معنی میں انتخابات انجام پاتے ہیں۔ بہت سے نام نہاد جمہوری ممالک میں انتخابات اس طرح نہیں ہوتے بلکہ وہاں انتخابات دولتمندوں اور طاقتور حلقوں کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ چیز کہ کوئي امیدوار عوام کے درمیان سے اٹھے اور کسی طاقتور حلقے کی پشت پناہی کے بغیر عوام کے سامنے اپنی بات رکھے اور ووٹ ...

سانحہ ہفتم تیر

اٹھائيس جون سن انیس سو اکیاسی کو تہران میں ایران کے اسلامی نظام کی تاریخ کا بڑا اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ یہ ایرانی ہجری شمی سال کے چوتھے مہینے تیر کی سات تاریخ تھی۔ اس دن دہشت گرد گروہ ایم کے او نے ایک دہشت گردانہ حملے میں ایران کی عدلیہ کے سربراہ شہید بہشتی سمیت انتہائی اہم افراد کو شہید کر دیا۔ اس ...

اسلامی جمہوریت

ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نظام میں اسلام پسندی عوام پسندی سے الگ نہیں ہے۔ اسلامی نظام میں عوام پسندی اسلام کی جڑوں میں پیوست ہے۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس میں عوام کو نظر انداز کیا جائے۔ اس انتخاب میں عوام کے حق کی بنیاد و اساس خود اسلام ہے۔ لہذا ہماری جمہوریت جسے...

ولایت اور ولی فقیہ

اختصار سے بیان کیا جائے تو ولایت سے مراد یہ ہے کہ اسلام، نماز، روزہ، زکات، ذاتی اعمال اور عبادات ہی کا نام نہیں ہے۔ اسلام ایک سیاسی نظام بھی رکھتا ہے جس کے تحت اسلامی قوانین کے تناظر میں حکومت کی تشکیل کا نظریہ موجود ہے۔ اسلام حکومت کو ولایت کا نام دیتا ہے اور جو شخص حکومت کا سربراہ ہے اسے والی، ولی...

نظارت و نگرانی

فہرست نظارت و نگرانی      نظارت کی اہمیت     نگرانی کا معیار مجریہ، مقننہ، عدلیہ اور نظارت     نظارت اور مجریہ     نظارت اور مقننہ     نظارت اور عدلیہقائد انقلاب اور نظارت      ماہرین کی کونسل کی نظارتی روش  شورائے نگہبان یعنی نگراں کونسل کے نظارتی فرائض      اہلیت و صلاحیت کی نگرانی     انتخابات کی نظارتعمومی نظارت     امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، عمومی نظارت    حکام کی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر    اخبارات و جرائد کا نظارتی کردار    اخبارات و جرائد کی نظارتالہی نظارت   نظارت و نگرانی نظارت کی اہمیت ما تحت عملے پر نظارت رکھنا بہت اہم ہے۔ میں تاکید کر رہا ہوں کہ اعلی عہدہ داران اور دائریکٹر حضرات ما تحت عملے پر نظارت و نگرانی کو خاص اہمیت دیں۔ آپ کی کھلی نگاہیں جب آپ کے دائرہ کار میں دوڑتی رہیں گی تب ہی کام کے صحیح طور پر آگے بڑھتے رہنے کی ضمانت حاصل ہو سکے گی۔ انسانی عملے مشینوں کی طرح نہیں ہوتے کہ ایک بٹن دبا دیا اور مشین خود بخود کام کرنے لگی۔ انسانوں کے عملے میں ارادہ ہوتا ہے، فکر و نظر ہوتی ہے، ذوق اور رجحان ہوتا ہے، اچھی اور بری خواہشیں ہوتی ہیں۔ جو فیصلہ آپ نے کیا ہے اور جس کا انتظام کیا ہے اور جو کام آپ کے ما تحت عملے میں انجام پانا ہے، ممکن ہے اس میں کسی جگہ پر پہنچنے کے بعد انہی ارادوں، نقطہ نگاہ، ذوق یا خواہشوں کی شکل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ جیسے بہتے ہوئے پانی کے سامنے کوئی پتھر آ جائے یا پانی کے ہلکے بہاؤ کے سامنے ریت آ جائے تو بہاؤ مڑ جائے گا۔ اب اس رکاوٹ کو دور کرنا ہوگا اور ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب نظارت ہو۔ معلوم ہوا نظارت بہت اہم ہے۔ ٹاپ نگرانی کا معیار نظارت و نگرانی کے سلسلے میں قانون اور معینہ معیار ملحوظ رکھا جانا چاہئے، ذاتی ذوق اور رجحان نہیں۔ آپ ہرگز ذاتی ذوق کے مطابق آگے نہ بڑھئے۔ اس انداز سے کام کیجئے کہ اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے سامنے جواب دے سکیں۔ قوانین پر عمل آوری کے سلسلے میں کوئی رو رعایت نہ کیجئے۔ اخلاقی پہلوؤں پر توجہ دینا چاہئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ذاتی امور کو بنیادی مسائل میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر سیاسی مسائل کو انقلابی ہونے یا انقلاب مخالف ہونے جیسے موقف سے چسپاں نہیں کرنا چاہئے۔ دوستی اور دشمنی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کبھی کسی کو ایک شخص پسند ہوتا ہے اور دوسرا نا پسند۔ ایسے میں بہت محتاط رہنا چاہئے کہ یہ چیز کسی بھی سطح پر آپ کو متاثر نہ کر دے۔ آپ بغیر تحقیق کے کسی پر بھی الزام نہ لگائیے۔ ظاہری طور پر انتہائی ابتدائی علامتیں دیکھ کر کسی کو مجرم قرار نہیں دینا چاہئے۔ ٹاپ مجریہ، مقننہ، عدلیہ اور نظارت نظارت اور مجریہ یہ بیوروکریسی اور یہ انتظامیہ جو ناگزیر سسٹم ہے، اگر اس کی نگرانی نہ کی جائے تو بہت خطرناک چیز میں تبدیل ہو جائے گی۔ نگرانی آپ کو بآسانی آپ کے اہداف تک پہنچا سکتی ہے۔ اگر مجریہ کا سسٹم آپ کے ہاتھ میں نہ ہو تو آپ کوئی ہدف حاصل نہیں کر سکتے، لیکن یہ سسٹم اگر چاہ لے تو آپ کو اس ہدف تک ہرگز پہنچنے نہ دے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ اس کی تشکیل اور پورے سسٹم پر ‏آپ کی نظارت کیسی ہے۔ اگر آپ نے اس پر بھرپور نگرانی رکھی تو یہ آپ کے اختیار میں رہے گا لیکن اگر آپ نے غفلت برتی تو پھر آپ خود اس کے دام میں اسیر ہو جائیں گے۔ پھر آپ کتنے ہی طاقتور ہوں، اس سے نمٹ نہیں پائیں گے۔  میں یہ نہیں کہتا کہ صرف بہترین افراد کا ہی انتخاب کریں۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک معیار معین کرکے اپنے عملے کے ایک، دو یا دس ہزار افراد کو اول سے لیکر آخر تک اسی معیار پر پرکھا جائے؟! یہ کہاں ممکن ہے؟! مان لیجئے آپ نے اسی معیار پر سب کو تولا، لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ سب ہمیشہ اچھے ہی رہیں۔ کیونکہ کیا اچھے انسانوں کو وسوسے منحرف نہیں کر دیتے؟! بنابریں سب سے قابل اعتماد چیز یہ ہے کہ آپ نظارت اور نگرانی کے لئے وقت دیجئے۔  اگر ایک اچھا ڈائریکٹر اپنا وقت تقسیم کرنا چاہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسے اپنا آدھا وقت اپنے ما تحت سسٹم کی نظارت پر اور باقی نصف وقت دیگر کاموں مثلا غور و فکر کرنے، منصوبہ سازی کرنے، احکامات صادر کرنے، میٹنگیں کرنے وغیرہ میں صرف کرنا چاہئے۔ ما تحت سسٹم پر نظارت کا مطلب ہے کہ آپ ہمیشہ موجود رہئے۔ البتہ وزراء کے کاموں پر صدر مملکت کی نظارت وزراء کی اپنے کاموں میں آزادی و خود مختاری سے متصادم نہ ہونے پائے۔ وزراء کے قانونی فرائض ہوتے ہیں، وہ پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر چکے ہوتے ہیں تو وہ خود مختار ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وزراء کے سلسلے میں بھی نظارت لازمی ہے۔ ان کی آزادی عمل اپنی جگہ باقی ہے لیکن صدر کی جانب سے ان کی مکمل نگرانی کی جانی چاہئے۔ ٹاپ نظارت اور مقننہ ایسے قوانین وضع کرنا جو حکومت کو امور کا انتظام صحیح طور پر چلانے پر مامور اور ساتھ ہی اس پر قادر کریں اور پھر ان پر صحیح طریقے سے عملدرآمد کئے جانے کی نگرانی کرنا پارلیمنٹ کا اولیں فریضہ ہے۔ یہ فریضہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے درمیان تعاون اور ہم خیالی اور ساتھ ہی پارلیمنٹ کی جانب سے انتظامیہ کی حمایت کا متقاضی ہے۔ (در حقیقت) قانون سازی اور سرکاری حکام کی کارکردگی کی نگرانی مقننہ کا فریضہ ہے اور (اسلامی جمہوریہ ایران) کے آئین کی رو سے پارلیمنٹ، حکومت کی نگراں ہے۔ اگر مجریہ کسی مقام پر کجی کا شکار ہو جائے اور غلط سمت میں آگے بڑھنے لگے، یا خدا نخواستہ (اختیارات کا) غلط استعمال ہونے لگے یا کوئی بد عنوانی ہو جائے تو ایسے میں بد عنوانی اور انحراف کا سد باب کرنے والا مرکز(پارلیمنٹ ہی ہے)۔  پارلیمنٹ، خدمت گزار حکومت بالخصوص صدر کے ساتھ تعاون کرنے کے ساتھ ہی نگراں کے فرائض بھی انجام دیتی ہے، اس کی ایک مثال یہی احتساب کا ادارہ ہے۔ احتساب کا ادارہ بہت اہم وسیلہ ہے۔ عظیم قومی بجٹ انتظامیہ کو ملتا ہے۔ یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ یہ بجٹ کیسے خرچ کیا گيا۔ کاموں کی درستی یا نادرستی کا تعین کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے پاس یہ اہم وسیلہ ہے۔ اس کی جانب سے غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ نگرانی کے وسائل سے استفادے کے سلسلے میں زیر نگرانی اجرائی شعبوں سے رابطہ بھی قانونی ہونا چاہئے۔ بعض رابطے نا درست ہوتے ہیں وہ آپ کے لئے نقصان دہ ہیں۔ یہ فرض کرنا محال نہیں کہ بعض زیر نگرانی اداروں کے ساتھ نادرست رابطے ہوں۔ اس سے نگرانی مختل ہوکر رہ جائے گی اور اس کی قوت تاثیر ختم ہوکر رہ جائے گی۔ آئین سے پارلیمنٹ کو جو وسیع توانائی ملی ہے اس کے اختیار سے نکل جائے گی، پھر پالیمنٹ بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔  پارلیمنٹ کی جانب سے نگرانی بہت ضروری ہے، خواہ ادارہ احتساب جیسے وسائل کے ذریعے یا یہ کہ اراکین پارلیمنٹ بذات خود (نگرانی کریں) اور مثلا انتباہ، سوال کر لینا یا اس جیسے دیگر نگرانی کے اختیارات جو پارلیمنٹ کے پاس ہیں، یہ وسائل بہت اہم ہیں۔ ہاں یہ وسائل دو طاقتوں کے ما بین ٹکراؤ کا سبب نہ بن جائیں۔ قانون ساز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون سے ملک کی ترقی کی راہ ہموار اور تعمیری عمل کی رفتار تیز ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ اپنے نگرانی کے فرائض میں کوئی کوتاہی کرے۔ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ حکومت کے اعلی عہدہ داروں پر اپنے اعتماد کے لئے، ان کی فرض شناسی، تدین، افادیت، مہارت، نظام اور عوام سے وفاداری کو معیار قرار دے اور ان کی کارکردگی پر قانونی نگرانی کے سلسلے میں سنجیدگی سے کام کرے۔ یہ رابطہ اتنا صحتمند ہونا چاہئے کہ حکومت پارلیمنٹ کو بڑے کاموں کے سلسلے میں مشکل کشا تصور کرے اور اپنے دشوار فرائض کی انجام دہی میں اس (پارلیمنٹ) کی حکمت و دوراندیشی سے استفادہ کرے۔ ٹاپ نظارت اور عدلیہ عدلیہ کو چاہئے کہ قانون کی نگرانی کا خیر مقدم کرے۔ قانون، نگرانی کا ایک ذریعہ ہے۔ قانون خود عدلیہ کے اندر رکھا گیا ایک ایسا عنصر ہے جو عدلیہ پر نظارت کے لئے بہت اہم اور موثر ہے۔ معیار، قانون ہونا چاہئے اور قوانین کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے، کسی کو مستثنی نہیں کیا جانا چاہئے۔ قانون کے دائرے کو کسی بھی وجہ سے کم نہیں کیا جانا چاہئے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ نگرانی اور نظارت کا استقبال کرے۔ ہر طرح کی نظارت، ہر اظہار خیال اور حتی منصفانہ تنقید کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ مالی امور ہوں یا غیر مالی امور، جس کا حساب کتاب صاف ہے اسے احتساب کا کیا خوف؟ متعلقہ اداروں مثلا احتساب کے ادارے اور دیگر نگراں اداروے اسی طرح عدلیہ کے دائرے سے باہر کے افراد مثلا یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مرکز کے اہل نظر حضرات اور ملک کے قانون داں اپنی رائے ظاہر کریں، اپنی تجاویز پیش کریں، تنقیدیں کریں، اس سے عدلیہ کو تقویت ملے گی۔ اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔ بحمد اللہ عدلیہ بڑے اچھے ستونوں پر استوار ہے، اس کی بنیادیں بڑی اچھی اور اسلامی جمہوری نظام کے مقدس اصولوں سے ماخوذ ہیں اور ان کا تکیہ گاہ اسلامی احکام ہیں۔ یہ مستحکم ادارہ ہے اسے کسی سے کوئی خوف نہیں ہے۔ اس کی جتنی زیادہ نظارت اور نگرانی کی جائے اور اس کے سامنے جتنے زیادہ قانونی چیلنج موجود ہوں اس کے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس طرح اس میں اور پختگی آئے گی۔   ٹاپ قائد انقلاب اور نظارت کوئی بھی نظارت سے بالاتر نہیں ہے۔ قائد انقلاب بھی اس سے مستثنی نہیں تو قائد انقلاب سے وابستہ اداروں کے مستثنی ہونے کا کیا سوال ہے؟ سب کی نگرانی کی جانی چاہئے۔ ان لوگوں پر نظارت جو حکومت کر رہے ہیں، کیونکہ فطری طور پر حکومت قدرت اور دولت کے اجتماع سے عبارت ہے۔ یعنی قومی خزانہ اور سماجی و سیاسی اختیارات حکام کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، تاکہ وہ ایمانداری سے کام کریں۔ (چیزوں کا) غلط استعمال نہ کریں، ان کا نفس سرکشی پر آمادہ نہ ہو جائے، یہ لازمی اور واجب ہے۔ اس کا ہونا ضروری ہے۔ قائد انقلاب سے وابستہ اور قائد انقلاب سے الگ اداروں والی تقسیم درست نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ آئین کی رو سے مجریہ، عدلیہ اور مقننہ تینوں، قائد انقلاب کے زیر نظر ادارے ہیں۔ اسی طرح دیگر ادارے بھی ہیں۔ قائد انقلاب کے زیر نظر ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ قائد انقلاب کسی ادارے کا انتظام سنبھالتا ہے۔ خیر جو بھی ہو، سب کی نظارت ضروری ہے۔ تمام حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو چاہئے کہ احتساب سے ہرگز نہ گھرائیں۔ مشہور کہاوت ہے:  آن را کہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک است  اپنا حساب کتاب صاف رکھیں تاکہ احتساب سے انہیں کوئی گھراہٹ نہ ہو۔ تو ایسا نہیں ہے کہ جو ادارے قائد انقلاب سے وابستہ ہیں وہ نظارت سے مستثنی ہیں۔ نظارت کا عمل پوری سنجیدگی سے انجام دیا جانا چاہئے۔ یہ میرا نظریہ ہے جسے میں ماہرین کی کونسل کے اراکین اور دیگر افراد کے سامنے بارہا بیان کر چکا ہوں۔ میں نظارت کو پسند کرتا ہوں اور اگر کوئی کسی جگہ نظارت سے بھاگتا ہے تو مجھے اس سے شدید شکایت ہے۔ میری اپنی جتنی زیادہ نظارت کی جائے مجھے اتنی ہی خوشی ہوگی۔ یعنی نظارت مجھے بار محسوس نہیں ہوتی۔ بنابریں میں اس بات سے خوش ہوں گا کہ نظارت کی جائے۔ البتہ اگر کوئی نظارت کر رہا ہے اور اسے کچھ معلوم ہے تو اسے چاہئے کہ ماہرین کی کونسل کو اس سے با خبر کرے، وہ یقینا اس سے استفادہ کرے گی۔   ٹاپ ماہرین کی کونسل کی نظارتی روش ماہرین کی کونسل کا سب سے اہم کام قائد انقلاب کا انتخاب اور دوسرے مرحلے میں قائد انقلاب پر نظر رکھنا ہے، تاکہ اس کا اندازہ رہے کہ اس کی صلاحیت و اہلیت باقی ہے یا نہیں؟ اس کا علم، اس کا تقوی، اس کی انتظامی صلاحیت، اس کا فہم و ادراک اور اس کا خلوص و صداقت برقرار ہے اور (یہ صفتیں) معیار سے نیچے تو نہیں آئی ہیں۔ اسے اس کی نظارت کرنا ہے۔ یہ ماہرین کی کونسل کا سب سے اہم کام ہے۔ ملک میں کوئی دوسرا ادارہ نہیں ہو جو اس اہم کام کو انجام دے اور جسے اس کی اجازت ہو یا جس پر اس کی ذمہ داری ہو۔  ماہرین کی کونسل کی ایک تحقیقاتی ٹیم ہے۔ قائد انقلاب کے کاموں پر نظر رکھنے کی ذمہ دار یہی تحقیقاتی ٹیم ہے۔ اس ٹیم کا کام سال میں ایک بار نہیں ہوتا، اس کا کام جاری رہتا ہے اور قائد انقلاب کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے قائد انقلاب کے کام خفیہ نہیں ہوتے کیونکہ قائد انقلاب کے فرائض اور ذمہ داریاں معین اور واضح ہیں۔ یہ ٹیم آتی ہے تحقیق اور سوال و جواب کرتی ہے۔ یہ ٹیم ماہرین کی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کرتی ہے۔ ماہرین کی کونسل کے اراکین اپنے ایک دو دنوں کے اجلاسوں میں کافی بحث کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک اعلامئے پر اکتفا کر لیتے ہوں۔ اس میں بڑی بحثیں ہوتی ہیں اور مختلف خیالات سامنے آتے ہیں۔ تو یہ لوگ اپنا کام انجام دیتے رہتے ہیں۔ اس اہم ادارے کا سال میں دو اجلاس کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ پہلے ماہرین کی کونسل کا ایک سالانہ اجلاس ہوتا تھا لیکن پچھلے کچھ سالوں سے ہر سال دو اجلاس منعقد ہو رہے ہیں۔ (نظارت کے لئے) ماہرین کی کونسل کے علاوہ خود عوام بھی ہیں۔   ٹاپ شورائے نگہبان یعنی نگراں کونسل کے نظارتی فرائض اہلیت و صلاحیت کی نگرانی اہلیت و صلاحیت کی نگرانی ایک قانونی چیز ہے۔ نگراں کونسل کی نظارت قانون کے مطابق اور آئین سے ہم آہنگ ہے۔ اس کی بنیادیں اور جڑیں آئین میں موجود ہیں۔ یہ نظارت عام شہریوں کے لئے نہیں ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی نا مناسب، ضرررساں اور برا آدمی اس حساس مرکز میں داخل نہ ہونے پائے۔ یہ نظارت صرف پارلیمنٹ سے مختص نہیں ہے، صدر کے سلسلے میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہ نظارت اس لئے ہے کہ پارلیمنٹ، صدارت یا دیگر عہدوں پر جن کے سلسلے میں یہ نظارت رکھی گئی ہے مثلا ماہرین کی کونسل یا دیگر اداروں جیسے حساس مقامات پر ایسے افراد نہ پہنچنے پائیں جو ملک کے قوانین کی رو سے اس کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اہلیت کی نگرانی ایک اچھی چیز ہے، اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ جو لوگ تنقید اور اعتراض کرتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ نگراں کونسل کی موافقت یا عدم موافقت سیاسی رجحان اور نقطہ نگاہ پر مبنی ہوتی ہے، لیکن یہ خیال درست نہیں، نگراں کونسل کے عہدہ داروں نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے۔ میں نے بھی نزدیک سے ان کی کارکردگی پر نظر رکھی ہے اور مجھے کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔ اب یہ ممکن ہے کہ کبھی کوئی کسی چیز کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکے، یہ الگ بات ہے لیکن (کام کی) بنیاد، قانونی بنیاد ہے۔ ٹاپ انتخابات کی نظارت انتخابات کی نظارت بہت اہم چیز ہے کیونکہ انتخابات کی صحتمندی سے پارلیمنٹ صحتمند ہوگی۔ پارلیمنٹ کی صحتمندی، قوانین اور ملک میں کاموں کی بنیادوں کی صحت مندی کا پیش خیمہ ہوگی۔ کوئی بھی اجرائی ادارہ، خواہ کتنا ہی کارآمد کیوں نہ ہو، اگر اس کو سونپے جانے والے قوانین صحیح، درست اور واضح نہ ہوں تو اس میں بہرحال انحراف ہو سکتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کی صحت مندی اس میں آئین کی پابندی اور اسلامی پہلو کی پاسبانی پر موقوف ہے اور یہ چیز نگراں کونسل کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے۔ نظام کی صحت مندی کا دارومدار اس پر ہے کہ قوانین درست ہوں اور ان میں اسلام کو ملحوظ رکھا گیا ہو، چنانچہ اگر خدانخواستہ پارلیمنٹ اگر اسلام سے مطابقت رکھنے والے قوانین وضع نہ کر سکے اور اس کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو بلا شبہ حکومت اور انتظامیہ پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ بنابریں نظام کی سلامتی کا دارومدار پارلیمنٹ کی سلامتی پر ہے۔ صحتمند، طاقتور، فعال اور مومن و اصول و ضوابط کے پابند اراکین والی پارلیمنٹ (ملک کے) نظام کی صحیح طور پر قانونی پشت پناہی کر سکے گی۔ نگراں کونسل بڑا قابل اعتماد ادارہ ہے جو انقلاب نے ملک کے نظام کو بخشا ہے۔ ہم نظام کی صحتمندی کی بابت مطمئن رہیں، اس کے لئے سب سے اہم، سب سے زیادہ فعال، سب سے زیادہ موثر اور نمایاں ادارہ نگراں کونسل ہے۔ نگراں کونسل انتخابات کے سلسلے میں امانتدار نگراں ہے۔  ٹاپ عمومی نظارت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، عمومی نظارت (نظارت کا) جو پہلو سب سے پہلے مرحلے میں عوام سے متعلق ہے سماجی امور میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ انفرادی امور کے سلسلے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے تقوی پر سب سے زیادہ تاکید فرمائی ہے، لیکن سماجی امور کے سلسلے میں عوام کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے زیادہ سنجیدہ، زندہ اور حوصلہ انگیز کوئی اور حکم نہ دیا گيا ہوگا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک عمومی فریضہ ہے۔ امر بالمعروف یعنی لوگوں کو نیک کاموں کی دعوت دینا اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو برے کاموں سے روکنا۔ امر اور نہی زبان سے انجام دی جاتی ہے لیکن زبان سے بھی پہلے قلب کا مرحلہ ہوتا ہے، اگر یہ مرحلہ پورا ہوا ہے تو زبان سے انجام پانے والا امر بالمعروف مکمل ہوگا۔ جب آپ اسلامی نظام کی مدد کی غرض سے لوگوں کو نیک کاموں کا حکم دیں گے مثلا فقراء کے ساتھ نیکی، صدقہ دینے، رازوں کی حفاظت، محبت، تعاون، کارہائے نیک، تواضع، حلم، صبر وغیرہ کے بارے میں آپ بات کریں اور کہیں کہ یہ کام کیجئے تو اگر اس نیک کام سے آپ کے دل کو بھی لگاؤ اور انسیت ہے تو آپ کا یہ حکم صادقانہ ہوگا۔ جب کسی کو برائیوں سے روکتے ہیں، مثلا ظلم کرنے، زیادتی کرنے، دوسروں (کے حقوق) پر تجاوز کرنے، عوام کے مال کو بے دردی سے خرچ کرنے، لوگوں کی ناموس کے سلسلے میں دست درازی کرنے، غیبت، جھوٹ، چغلی، سازش، اسلامی نظام کے خلاف سرگرمیاں انجام دینے اور اسلام کے دشمنوں کے ساتھ تعاون کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ کام نہ کیجئے تو اگر ان کاموں سے آپ کا دل بیزار ہوگا تو آپ کی یہ نہی صادقانہ ہوگی اور آپ خود بھی اس امر و نہی کے مطابق عمل کریں گے۔ لیکن اگر خدانخواستہ آپ کا دل آپ کی زبان کے ہمراہ نہ ہوا تو آپ اس انسان لعن اللہ الآمرین بالمعروف التارکین لہ کا مصداق بن جائیں گے۔ جو شخص دوسروں کو تو نیک عمل کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا، لوگوں کو تو برائیوں سے روکتا ہے لیکن خود ان کا مرتکب ہو رہا ہے، ایسا شخص اللہ تعالی کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے اور اس کا انجام بہت خطرناک ہوگا۔  اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے معنی اور ان کی حدود، عام لوگوں کے لئے واضح اور آشکارا ہو جائیں تو معلوم ہوگا کہ سماجی روابط کے سلسلے میں یہ سب سے زیادہ کارآمد، کارساز، شیریں اور جدید طریقہ ہے۔ یہ در حقیقت تعاون سے عبارت ہے، یہ عام نگرانی ہے۔ یہ اچھائیوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ برائیوں اور شر پر قابو پانے میں مددگار ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں گناہ کو ہمیشہ گناہ تصور کیا جائے۔ یہ چیز انتہائی خطرناک ہے کہ کوئی وقت ایسا آئے جس میں معاشرے میں گناہ کو نیکی کے طور پر متعارف کرایا جائے اور اچھے کام کو برا کہا جانے لگے اور پوری ثقافت ہی تبدیل ہو جائے۔ اگر معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر رائج ہو تو گناہ کو عوام ہمیشہ گناہ ہی تصور کریں گے، اسے نیک اور ثواب کا کام نہیں سمجھیں گے۔ عوام کے خلاف سب سے بڑی سازش یہ ہے کہ ایسی باتیں اور کام رائج کر دئے جائیں جن سے اچھے کام، جن کا دین نے حکم دیا ہے اور جن میں ان کی بھلائی ہے، لوگوں کی نظر میں برے بن جائیں اور برے کاموں کو اچھا قرار دے دیا جائے۔ یہ بہت ہی خطرناک چیز ہے۔  بنابریں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سب سے پہلا فائدہ تو یہی ہے کہ اچھائی اور برائی کو اچھائی اور برائی ہی سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف جب معاشرے میں گناہ عام ہو جائے اور عوام کو گناہوں کی عادت پڑ جائے تو جو شخص معاشرے کا ذمہ دار ہے اور عوام کو خیر و نیکی کی سمت لے جانا چاہتا ہے اس کا کام بہت مشکل ہو جاتا ہے، وہ ناکام ہو جائے گا، یا پھر آسانی سے اپنا کام نہیں کر پائے گا، یہ کام کرنے کے لئے اسے بہت کچھ صرف کرنا پڑے گا۔ ارشاد ہوتاہے لتامرن بالمعروف و لتنھون عن المنکر او لیسلطن اللہ علیکم شرارکم فیدعوا خیارکم فلا یستجاب لھم اپنے درمیان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر رائج کیجئے اور اس کے پابند رہئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالی آپ پر شر پسندوں، مفسدوں اور (دوسروں کے) آلہ کاروں کو مسلط کر دے گا۔ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ ہو اور معاشرے میں چوری، غیر قانونی کام، بد عنوانی اور خیانت رائج ہو جائے اور (یہ صورت حال) رفتہ رفتہ معاشرے کی ثقافت کا حصہ بن جائے تو نابکار افراد کے بر سراقتدار آنے کی راہیں کھل جائيں گی۔  ٹاپ حکام کی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر   امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعدد میدان ہیں جن میں سب سے اہم حکام کا میدان ہے۔ یعنی عام لوگ حکام کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں۔ عوام حکام سے اچھے کام کا مطالبہ کریں، درخواست اور التماس کی صورت میں نہیں بلکہ تحکمانہ انداز میں۔ یہ بہت اہم میدان ہے، یہ فقط اسی میدان تک محدود نہیں بلکہ دوسرے بھی میدان ہیں۔  سارے شعبوں میں نہی عن المنکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلا توانائی رکھنے والے افراد جو کام اپنے ہاتھ میں لیتے اور انجام دیتے ہیں اس میں قومی ذخائر کا جو غلط استعمال ہوتا ہے، یعنی ملکی امور میں یہی اقربا پرستی، امپورٹ کے معاملے میں، کمپنیوں کے سلسلے میں، پیداواری ذخائر سے استفادے کے سلسلے میں حکام جو اقربا پرستی کرتے ہیں۔ ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ دو تاجر آپس میں تعاون اور دوستی کی بنیاد پر کام کرتے ہیں، یہ الگ چیز ہے، اس کا حکم بھی الگ ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص سرکاری عہدے پر ہے اور جس کے پاس اختیارات ہیں کسی شخص سے خاص قسم کے تعلقات قائم کرتا ہے۔ یہ چیز ممنوع اور حرام ہے اور اس سے ان تمام لوگوں کو روکا گیا ہے جو ان باتوں کو سمجھتے ہیں۔ ہر ادارے میں ہر شخص پر وہ ماتحت ہو یا افسر (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) واجب ہے۔ اس طرح موقع پرست افراد کو روکا جا سکتا ہے۔ ٹاپ اخبارات و جرائد کا نظارتی کردار اسلامی جمہوری نظام ایک عوامی نظام ہے۔ عوامی نظام یعنی یہ کہ اس کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل میں عوام کا کردار ہے، یہ عوام کو بے خبر نہیں رکھ سکتا، اسے عوام کو با خبر رکھنا ہے، انہیں تجزئے اور تبصرے کا موقع فراہم کرنا ہے، انہیں ضروری و مفید اطلاعات و معلومات مہیا کرانا ہے۔ ایسے نظام میں اطلاعات پانی اور ہوا کی مانند حیاتی درجہ رکھتی ہیں، ہمارا نظام اسی انداز کا ہے۔ عوام جتنے زیادہ باخبر ہوں گے اسلامی نظام کو اتنا ہی زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ بنابریں یہ نظام عوام کو واقف اور باخبر رکھنے کا متقاضی ہے۔  ہمارے معاشرے کے افراد کو چاہئے کہ مختلف سیاسی و سماجی میدانوں میں وارد ہوکر باریک بینی سے جائزہ لیں اور مناسب رہنمائی اور ہدایات کے ذریعے سب کو فرائض کی بابت آگاہ کریں۔ بے شک عوام اور حکام کے درمیان میڈیا بالخصوص اخبارات، رابطے کی وسیع کڑی ہے۔ اخبارات و جرائد کو چاہئے کہ عوام کو بر وقت مناسب اطلاعات فراہم کرنے کے کوشش کریں۔ ہمارے اخبارات و جرائد کو چاہئے کہ عوام کی اقدار، حقیقی شناخت اور آرزوؤں پر توجہ دیں۔ اخبارات و جرائد معرفت بخش اقدامات کے ذریعے عوام کو بھی ان کے فرائض سے روشناس کرا سکتے ہیں اور حکام کو بھی ان کی سنگین ذمہ داریوں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ اگر کہیں معاملہ اس کے الٹ ہو تو یہی اخبارات و جرائد اختلافی باتوں کو ہوا دیکر اور غلط فہمی اور تفرقہ و انتشار پیدا کرکے عوام اور حکام دونوں کو ان کے بنیادی فرائض سے غافل کر سکتے ہیں۔  میں اخبارات و جرائد کو بہت ضروری اور لازمی مانتا ہوں، ایرانی معاشرے اور ہر اس سماج کے لئے جو اچھی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ اخبارات و جرائد کے لئے میری نظر میں تین اہم ذمہ داریاں ہیں۔ تنقید و نظارت کی ذمہ داری، شفاف اور درست اطلاعات کی فراہمی کی ذمہ داری اور معاشرے میں تبادلہ خیال کروانے کی ذمہ داری۔ میرا ماننا ہے کہ آزادی قلم و بیان، اخبارات و جرائد اور عوام کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئین کے صریحی قوانین میں سے ہے۔ میرا نظریہ ہے اگر معاشرہ آزاد ذرائع ابلاغ اور آزاد و با فہم قلم سے محروم ہو جائے تو دوسری بہت سی چیزوں سے بھی محروم ہو جائے گا۔ آزاد اخبارات کا وجود قوم کے بلوغ فکری کی علامت اور در حقیقت فکری پیشرفت کی بنیاد ہے۔ یعنی ایک طرف قوم کی آزادی و فکری بلوغ سے اخبارات و جرائد کو وجود ملتا ہے اور دوسری طرف اخبارات و جرائد قوم کی فکری پیشرفت و بلندی میں مددگار ہوتے ہیں۔ البتہ اس اصول کے ساتھ ہی میری نظر میں کچھ دوسرے اصول بھی ضروری ہیں جو اخبارات و جرائد اور قلم کی آزادی کے نام پر نظر انداز نہ ہونے پائیں۔ فن تو یہ ہے کہ انسان آزادی سے بھی بہرہ مند ہو، حقیقت کا بھی ادراک رکھے اور ساتھ ہی عیوب سے بھی اپنا دامن بچائے رہے۔ ایسی روش اختیار کرنی چاہئے۔ ٹاپ اخبارات و جرائد کی نظارت اخبارات و جرائد کی نظارت ایک لازمی امر اور فریضہ ہے۔ یہ آئين، اخبارات کے قانون اور عام قانون کا تقاضا بھی ہے۔ نظارت نہ ہو تو اخبارات سے متوقع قومی مفادات و مطالبات کی تکمیل نہیں ہو سکے گی۔ بعض افراد سمجھتے ہیں کہ رائے عامہ ایک آزاد اور بے قید و بند علاقہ ہے جہاں جو جی چاہے کیا جائے۔ رائے عامہ تجربہ گاہ کا مینڈک نہیں کہ جس کا جو جی چاہے اس کے ساتھ کرے۔ غلط تجزیوں، افواہوں اور تہمت و دروغگوئی کا سہارا لیکر عوام کے جذبات، عقائد اور مقدسات پر ضرب لگائی جائے۔ یہ تو درست نہیں ہے۔ بنابریں نظارت لازمی ہے، تاکہ ان چیزوں سے بچا جا سکے۔ یہ ایک فریضہ ہے۔  ٹاپ الہی نظارت ہمیں چاہئے کہ اپنے تمام فیصلوں اور اقدامات میں آخرت کو دخیل کریں اور اسے بنیادی کردار دیں۔ بعض لوگ، عوامی نظارت اور اس کا تو خیال رکھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ لیکن الہی نظارت اور اس چیز کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جس پر ہمارے مستقبل و انجام کا انحصار ہے۔ ہم عمر کے ہر موڑ پر وجود و عدم کے دہانے پر ہوتے ہیں موت کے دوسری طرف الہی محاسبہ اور حساب کتاب کرنے والے باریک بینوں کے مواخذے کا سامنا ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہئے۔ زندگی، ابدیت اور حقیقی انجام تو ہم ہی سے متعلق ہے۔ اس کو اہمیت دیں۔ چار دن کے لئے ہم آئے ہیں، ہمیں اس جگہ کو آباد کرنا چاہئے، جو بات کہیں، جو دستخط کریں، جو مشورہ دیں، جو فیصلہ کریں، جو برطرفی اور تقرری کریں اس میں آخرت، خوشنودی پروردگار اور محاسبہ آخرت کو مد نظر رکھیں۔  بعض کا خیال ہے کہ دولت و ثروت کی ماہیت و حقیقت ہی شر پر مبنی ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ قدرت و دولت زندگی کے دیگر عطیات کی مانند زینت کا درجہ رکھتی ہے۔ (زینۃ الحیاۃ الدنیا) ہم اس طاقت کو استعمال کس طرح کر رہے ہیں؟ اگر صحیح استعمال کیا تو یہ (شر نہیں) خیر ہے، اگر ہم نے اس سے عوام کی خدمت کی تو یہ خیر ہے، اگر ہم نے اسے اخلاقیات و روحانیت کی ترویج اور انسانوں کی فلاح و نجات کے لئے استعمال کیا تو یہ خیر ہے لیکن اگر ہم نے ذاتی مفادات کے لئے، خواہشات کے لئے اور درندوں کی طرح کبھی اس پر تو کبھی کسی اور پر جھپٹ پڑنے کے لئے استعمال کیا تو یہی (سرمایہ) شر میں تبدیل ہو جائے گا اور اس کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی اس کا شر بھی اتنا ہی زیادہ بڑھ جائے گا۔ نظام کے حکام اللہ تعالی کو ہر آن حاضر و ناظر جانیں۔ قیامت کے دن ہونے والے الہی محاسبے کو سنجیدگی سے لیں۔ محاسبہ الہی بر حق ہے۔ معمولی سے معمولی کام، لمحے بھر کی کوتاہی اور غفلت سب ہمارے نامہ اعمال میں محفوظ ہو جاتی ہے اور باقی رہتی ہے۔ ان میں ایک ایک کا حساب لیا جائے گا۔ اسی طرح آپ فرائض کی انجام دہی میں جو سختیاں برداشت کر رہے ہیں اس کا بھی ایک اک لمحہ آپ کے نامہ اعمال میں محفوظ ہوگا۔ اپنے کام کے سلسلے میں آپ جو فکر مند ہوتے ہیں، جو سعی و کوشش کرتے ہیں، آپ کے اعصاب اور اہل خانہ پر جو دباؤ پڑتا ہے، اللہ تعالی کی راہ میں کوئی کام انجام دینے کے لئے، وہ سب اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی غفلت، کوتاہی، یا بے توجہی ہو گئی یا عوام اور نظام کے مفادات پر آپ نے اپنے بعض ذاتی یا جماعتی مفادات کے باعث توجہ نہ دی تو یہ سب اللہ تعالی کے پاس محفوظ رہے گا اور اللہ تعالی اس بارے میں ہم سے سوال کرے گا۔ ٹاپ

شورائے نگہبان یا نگراں کونسل

پہلا باب: شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا مقام شورائے نگہبان یا نگراں کونسل ایک مقدس ادارہشورائے نگہبان، عوام کا امین ادارہشورائے نگہبان عوامی اعتماد کا مرکزشورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام کی ضامنشورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ کے شرعی اور قانونی سرحدوں کی پاسباںشورائے نگہبان کی توہین نا قابل برداشتآئینی انقلاب کے صف اول کے علماء اور شورائے نگہبان کا فرقعوام کے ووٹوں کی حفاظتقائد انقلاب، انتخابات میں بد عنوانی کا سد بابصحیح انتخابات کی خصوصیات دوسرا باب: شورائے نگہبان کی نگرانی کی اہمیت انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں شورائے نگہبان کی نظارت کی اہمیتنا اہل افراد کے لئے سد راہ شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا سنجیدہ اقدامشورائے نگہبان کی آئین پر نگرانی اسلامی نظام کے ستونوں پر دشمن کا حملہ تیسرا باب: انتخابات کی نگرانی انتخابی مبصرین کے انتخاب کی شرائط انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار افرادانتخابات کے اجرائی عہدہ دار و ناظر اور قانون کی پابندی چوتھا باب: اہلیت کی تشخیص اہلیت کی تشخیص، شورائے نگہبان کا فریضہشورائے نگہبان کی توثیق، انتخابی امیدوار کی اہلیت کا ثبوتاہلیت کا جائزہ ایک بین الاقوامی اصولشورائے نگہبان، منتخب ہونے کے حق کا جائزہ لیتی ہےمسترد ہو جانے والے افراد پر تہمت سے گریز پانچواں باب: وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان کا دفاع قانون کے مطابق عملشورائے نگہبان اور وزارت داخلہ پر قائد انقلاب کا اعتماد شورائے نگہبان پہلا باب: شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا مقام شورائے نگہبان یا نگراں کونسل ایک مقدس ادارہ شورائے نگہبان ایک مقدس ادارہ ہے کیونکہ اس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے۔ اس ادارے میں ان افراد کو رکھا جاتا ہے جو عادل اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوتے ہیں۔ کیا کسی ایک شخص کے درجہ اجتہاد پر فائز ہونے اور اس کے عادل ہونے کے لئے ولی فقیہ کی گواہی کافی نہیں ہے؟ جب ولی فقیہ نے کسی کو اس ادارے میں قرار دیا ہے تو وہ شخص عادل اور درجہ اجتہاد پر فائز ہے۔ ٹاپ شورائے نگہبان، عوام کا امین ادارہ شورائے نگہبان یا نگراں کونسل اپنی گفتگو، اقدام اور عمل میں امین و بھروسہ مند ہے۔ سب کو چاہئے کہ اس ادارے کو امین کی حیثیت سے دیکھیں۔ جب کوئی جج فیصلہ سناتا ہے تو ممکن ہے اس وقت کسی شخص کے دل میں کوئی اعتراض ہو اور وہ اعتراض بھی بجا ہو لیکن جج کا فیصلہ ایک امین کا فیصلہ مانا جائے گا اور اس پر سب کو اعتماد کرنا چاہئے۔ شورائے نگہبان کا بھی یہی عالم ہے۔ قوانین اور اجرائی امور میں اس ادارے پر عوام کا اعتماد اور بھروسہ ہونا چاہئے اور بحمد اللہ انہیں بھروسہ ہے۔ کسی کو بھی اس ادارے کے مقام و منزلت میں کمی کرنے کی غرض سے اس پر سوالیہ نشان نہیں لگانا چاہئے۔ اس مقام و منزلت کی معرفت اور عمل کے ساتھ قائد انقلاب نگراں کونسل کی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی بات کہتا ہے اور اس کے سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ کرتا ہے۔ ٹاپ شورائے نگہبان عوامی اعتماد کا مرکز نگراں کونسل جس طرح حقیقی معنی میں عمومی اعتماد کا ذریعہ بنی ہے اسے اس اعتماد کا مظہر بھی ہونا چاہئے۔ انتخابات میں الگ الگ نظریات اور مکاتب فکر کے افراد کی شرکت جنتی زیادہ ہوگی اسلامی جمہوری نظام کے لئے یہ اتنی ہی اچھی بات ہوگی اور خود نگراں کونسل کے لئے بھی یہ اچھی چیز ہے۔ ایسا انتظام اور عمل ہونا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کی شرکت کی راہ ہموار ہو۔ کسی بھی نظرئے کے افراد کو خواہ وہ کسی ایک ہی شہر تک محدود کیوں نہ ہوں یہ محسوس نہیں ہونا چاہئے کہ انتخابات میں ان کی شمولیت نہیں ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ ہر جگہ ہر شخص کو یہ محسوس ہو کہ وہ اپنے پسندیدہ اور مرضی کے شخص کا ازادانہ انتخاب کر سکتا ہے۔ یعنی اس سلسلے میں شورائے نگہبان کا عمل ایسا ہو کہ وہ عوام کے اعتماد کا مظہر بن جائے۔ ٹاپ شورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام کی ضامن اسلامی جمہوریہ ایران کا استحکام اس کی اسلامی شناخت پر منحصر ہے اور شورائے نگہبان اس چیز کی ضامن ہے۔ اگر شورائے نگہبان نہ ہوتی تو رفتہ رفتہ نظام کی ماہیت اور اس کے ستونوں میں تغیر پیدا ہوتا۔ شورائے نگہبان کے لئے بس یہی افتخار بھی کافی ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد کے برسوں میں اس کا سارا ہم و غم یہ رہا کہ اسلام اور آئین سے مطابقت کے لحاظ سے نظام کے پیکر میں کوئی نقص نہ پیدا ہونے پائے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے جسے اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین نے اس نظام کی حقانیت کی ضمانت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اگر شورائے نگہبان نہ ہو یا کمزور پڑ جائے یا اپنا کام انجام نہ دے تو اس نظام کی اسلامی روش اور حرکت پر سوالہ نشان لگ جائے گا۔ کیونکہ نظام قوانین کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے، اگر قوانین اسلامی ہوئے تو ایران کا نظام بھی اسلامی رہے گا۔ کون سا ادارہ یہ طے کرے گا کہ قوانین اسلامی ہیں یا نہیں ہیں؟ ظاہر ہے شورائے نگہبان۔ اسلامی جمہوری نظام میں شورائے نگہبان بقیہ اداروں کی مانند نہیں ہے کہ کہا جائے کہ مختلف ادارے ہیں جن میں بعض بہت اہم ہیں اور بعض کی اہمیت اتنی نہیں ہے اور یہ بھی انہی میں سے ایک ادارہ ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ شورائے نگہبان اسلامی نظام کے آئين جیسی چیزوں کا درجہ رکھتی ہے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے کہ جس نے درست عمل کیا تو اس نطام کے دین سے منحرف ہونے کا کوئی اندیشہ پیدا نہ ہوگا۔ ٹاپ شورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ کے شرعی اور قانونی سرحدوں کی پاسباں شورائے نگہبان اسلامی نظام کو دین و اسلام اور دوسرے درجے میں آئین کے دائرے سے باہر جانے سے محفوظ رکھتی ہے۔ آئين اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ در حقیقت نظام کے اعصاب کا اصلی مرکز ہے، معیار و کسوٹی ہے۔ شورائے نگہبان کا کام یہ ہے کہ وہ ملک کے اداروں کو آئین سے منحرف نہیں ہونے دیتی۔ آئین کے بر خلاف قانون کی منظوری اور عملدرآمد کا سد باب کرتی ہے۔ اتنے اہم ادارے کی ہیبت و وقار اور عزت و حرمت کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ ٹاپ شورائے نگہبان کی توہین نا قابل برداشت اگر کچھ لوگ شورائے نگہبان کو برا بھلا کہتے ہیں تو در حقیقت انہوں نے قانون شکنی کی ہے۔ قائد انقلاب خاموش تماشائی بن کر یہ نہیں دیکھ سکتا کہ اسلامی جمہوری نظام کے رسمی ترین، اطمینان بخش ترین اور معتمد ترین ادارے کی کوئی شخص اس لئے توہین کرے کہ وہ بجا یا بے جا طور پر خشمگیں ہے۔ اگر شورائے نگہبان کے سلسلے میں بد کلامی کی تکرار ہوئی تو قائد انقلاب اپنے فرائض کے پیش نظر اسے تحمل نہیں کرے گا۔ اگر ملک کے ان قانونی اداروں میں سے کسی ایک پر چند افراد حملے کریں تو قائد انقلاب کا فریضہ ہے کہ اس قانونی ادارے کا دفاع کرے۔ ٹاپ آئینی انقلاب کے صف اول کے علماء اور شورائے نگہبان کا فرق اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں شورائے نگہبان کا کردار آئینی انقلاب کے صف اول کے علماء سے زیادہ اہم ہے۔ صف اول کے علماء ان مذہبی رہنماؤں کو کہا جاتا تھا جن کا ذکر آئینی انقلاب کے بعد کے آئین میں کیا گیا تھا اور آئین کی رو سے یہ ضروری تھا کہ پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے سارے قوانین صف اول کے علماء کی توثیق کے لئے بھیجے جائيں اور اگر یہ علما ان قوانین کو اسلام کے خلاف پائیں تو قانون کو کالعدم قرار دے دیں۔ صف اول کے علما کا ایک تو آئین کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کا کام صرف شرعی امور تک محدود تھا، دوسرے یہ کہ آج جو لوگ شورائے نگہبان میں ہیں انہیں ملک کے مسائل، انقلاب کے مسائل اور انقلاب کی راہ میں موجود تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے بارے میں ان افراد سے زیادہ واقفیت ہے جو اس زمانے میں صف اول کے علماء کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ہماری خوش قسمتی یہ رہی کہ انقلاب میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ جیسی با بصیرت، با حکمت اور پختہ ارادے کی حامل شخصیت موجود تھی جس نے شورائے نگہبان کے ساتھ صف اول کے علماء جیسا سلوک نہیں ہونے دیا۔ Top عوام کے ووٹوں کی حفاظت عوام کے ووٹوں کی حفاظت و صیانت ہونا چاہئے۔ وزارت داخلہ کے متعلقہ حکام بھی اور شورائے نگہبان کے مبصرین بھی بہت محتاط رہیں اور ایک اک ووٹ کی حفاظت و نگہداشت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ البتہ قائد انقلاب کو اپنے حکام پر پورا اعتماد ہے لیکن انہیں بہت زیادہ محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام کے ووٹ ان کے ہاتھ میں الہی امانت کی مانند ہیں۔ ٹاپ قائد انقلاب، انتخابات میں بد عنوانی کا سد باب بھلا یہ بھی ممکن ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابات میں کوئی یہ جرئت کرے کہ عوام کے ووٹوں سے چھیڑ چھاڑ کرے؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شورائے نگہبان ایک عادل، محتاط اور ہوشیار نگراں ادارہ ہے انتخابات کے سلسلے میں، وہ کسی بد عنوانی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ دوسری بات یہ کہ وزارت داخلہ بھی ایک ووٹ بھی ادھر ادھر نہیں ہونے دیتی۔ یہ (انتخابات کے متعلقہ حکام) مسلمان، انقلابی، دیندار اور معتمد علیہ افراد ہیں۔ انہیں پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ ملا ہے۔ بفرض محال اگر کسی گوشے میں کوئی چھوٹی سی گڑبڑی ہوئی بھی ہے تو اس کا انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گی۔ قائد انقلاب کی طرف سے بھی پوری چوکسی اور احتیاط برتی جاتی ہے کہ کوئی بھی انتخابات میں بد عنوانی کی جرئت نہ کرے۔ یہ شریعت کے بھی خلاف ہے اور سیاسی و سماجی اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ٹاپ صحیح انتخابات کی خصوصیات انتخابات کی صحت کا علم پولنگ اور ووٹوں کی شمارش کے وقت نہیں ہوتا۔ صحیح انتخابات کا تقاضا یہ ہے کہ انتخابات سے قبل صحتمند فضا قائم کی جائے۔ ایسی فضا جس میں عوام کو فیصلہ کرنے اور درست انتخاب کرنے کا بھرپور موقع ملے۔ عوام کو یہ موقع ضرور ملنا چاہئے کہ وہ انتخاب کریں اور فیصلہ کریں۔ جو عمل بھی فضا کو غیر صحتمند بنا دے اور ہر وہ تشہیراتی روش اور اقدام جو عوام کی قدرت انتخاب کو متاثر اور کمزور بناتا ہو وہ انتخابات کو کمزور کرنے والا اقدام ہے۔ اس نکتے پر انتخابات سے قبل توجہ دی جانی چاہئے۔ جو انتخابی کیمپین چلائی جاتی ہے، جو اقدامات کئے جاتے ہیں، بالخصوص ذرائع ابلاغ عامہ جو کام کرتے ہیں افراد کم متعارف کرانے کے سلسلے میں یا ان کی شبیہ خراب کرنے کے سلسلے میں یا عوام کی برین واشنگ کے طور پر جو اقدامات انتخابات سے قبل انجام دئے جاتے ہیں اور جن سے لوگوں کا ذہن خاص سمت میں موڑا جاتا ہے، انتخابات سے قبل ایسی صورت حال نہیں پیدا کی جانی چاہئے کہ رائے دہندگان ذہنی طور پر الجھ کر رہ جائیں اور جو فیصلہ کریں وہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ نہ ہو بلکہ جب انہیں ہوش آئے تو محسوس ہو کہ نہیں انہوں نے مناسب فیصلہ نہیں کیا۔ اگر انتخاباتی کیمپین میں شامل افراد یا ان کی تشہیراتی مہم اور ذرائع ابلاغ عامہ کی کارکردگی اس طرح کی صورت حال پر منتج ہو جس میں عوام کی انتخاب کی قدرت و توانائی ختم ہوکر رہ جائے تو اس سے انتخابات کا اعتبار مجروح ہوگا۔ شورائے نگہبان کو اس طرح کی صورت حال کو روکنے کیلئے مناسب انتظام رکھنا چاہئے۔ ٹاپ دوسرا باب: شورائے نگہبان کی نگرانی کی اہمیت انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں شورائے نگہبان کی نظارت کی اہمیت اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کو کام سونپنے کا مطلب ہے، اس کام کو زیادہ سے زیادہ معتبر اور لائق اعتماد بنانا۔ کسی بھی دیگر (ادارے) کو اگر انتخابات کی ذمہ داری سونپی گئی ہوتی تو ممکن تھا کہ شائد کچھ لوگوں کے ذہنوں میں کچھ سوال پیدا ہوتے۔ یعنی ملک میں سرکاری اداروں میں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں تھا کہ انتخابات پر جس کی نظارت و نگرانی عوام اور حکام کی نظر میں اتنی معتبر ہوتی جتنی کہ شورائے نگہبان کی نظارت و نگرانی قابل اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے کہ بنیادی طور پر اس کی ساخت اور اس کا ڈھانچہ بجائے خود صرف ایسے افراد کو قبول کر سکتا ہو جن کا تقوا و ایمان بلند درجے پر ہو۔ اس کے علاوہ بھی شورائے نگہبان کے فقہا اور ممتاز دینی رہمنا قوم کے امام (خمینی رہ) کی جانب سے منصوب کردہ افراد ہیں۔ چونکہ یہ درجہ اجتہاد پر فائز عادل و متقی افراد ہیں لہذا ان کا ہر عمل عوام کی نظر میں اطمینان بخش ہے۔ بنابریں یہ کام بنحو احسن انجام دینے والا ادارہ شورائے نگہبان ہی ہے۔ معلوم ہوا کہ آئین میں انتخابات کی نظارت و نگرانی کی ذمہ داری شورائے نگہبان کے سپرد کئے جانے کا فیصلہ بڑی پختہ فکر کا نتیجہ تھا اور آئین نے بیدار قلوب اور با بصیرت اذہان اور انقلابی و مجاہد علماء کے درمیان سے ایک ایسے ادارے (کے اراکین) کو مامور کیا۔ انتخابات کے امور پر شورائے نگہبان کی نگرانی کے بعد انتخابات کے سلسلے میں کوئی مسئلہ اور مشکل پیش نہیں آنا چاہئے۔ یہ سنگین ذمہ داری شورائے نگہبان کے دوش پر رکھی گئی ہے اور اس کے سپرد کی گئی ہے۔ تمام تر سیاسی تحفظات اور مکاتب فکر کی مصلحتوں سے یہ مصلحت بالاتر ہے کہ انتخابات صحیح طور پر عوامی رائے اور مرضی کا آئینہ ہوں۔ ٹاپ نا اہل افراد کے لئے سد راہ جو نمائندے پارلیمنٹ میں آتے ہیں، ان کا صالح اور اہل ہونا ضروری ہے۔ وہ علم و معرفت و صلاحیت کے کس درجے پر ہو اس کا تعین آئين میں کیا گيا ہے۔ عوام کو اپنے مفادات اور فلاح و بہبود کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ شورائے نگہبان ایک معتمد علیہ ادارے کی حیثیت سے اس عمل میں ہر قسم کے خلل کو دور کرنے کے لئے موجود ہے۔ اگر کوئی بد عنوان ہے، مالی بد عنوانی یا دیگر اخلاقی، عقیدتی اور سیاسی بد عنوانی میں کوئی ملوث ہے، یا پھر کوئی فتنہ پرور ہے، نظام کو کمزور کر سکتا ہے، اداروں کی افادیت کو متاثر کر سکتا ہے تو در حقیقت ایسے شخص کو پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا جانا چاہئے وہ اس فورم کا اہل نہیں ہے۔ جن افراد کی رفتار و گفتار اس کی غماز ہے کہ وہ کسی بھی جذبے کے تحت، سیاسی جذبے یا ذاتی جذبے اور مخصوص خصلت کی بنا پر نظام کے مد مقابل کھڑا ہو سکتا ہے ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا جانا چاہئے۔ اس چیز پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر میدان سیاست میں وارد ہونے کے راستوں پر نظر رکھی جانی چاہئے کیونکہ میدان سیاست در حقیقت ملک کے انتظامی امور اور نظم و نسق کے میدان میں اترنے کا مقدمہ ہے۔ ملک کا سارا انتظام ایک شخص کے ہاتھ میں دینا ہے لہذا اس میدان میں داخل ہونے کے راستوں کی نگہبانی و نگرانی ضروری ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جو شخص آ رہا ہے کون ہے؟ کچھ معیار رکھے گئے ہیں اور کچھ لوگوں کا تعین کیا گیا ہے جو اس معیار پر پرکھیں۔ اس کا اہتمام آئین نے کیا ہے۔ خوش قسمتی سے ایران جوان ملک ہے(جوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے) لہذا ملک کے اس جوان چہرے کا تقاضا یہ ہے کہ پوری مجریہ میں جوش و خروش اور نشاط و شادابی نظر آئے۔ دیکھئے اور غور کیجئے کہ کون شخص حقیقت میں انقلاب اور دین کا حامی اور غریب و امیر کے ما بین تفریق اور فاصلے کا مخالف ہے۔ کس شخص میں اہلیت اور جوش و جذبہ عمل ہے، ایسے شخص کو تلاش کیجئے۔ ٹاپ شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا سنجیدہ اقدام اگر شورائے نگہبان انتخابی امور پر نظارت کے تحت قوانین کے مطابق ایک نتیجے پر پہنچ جائے تو اسے چاہئے کہ سنجیدگی سے اقدام کرے۔ کوئی بھی چیز قانونی اقدام کی راہ میں حائل نہ ہونے پائے۔ تمام امور بالخصوص ایسے معاملات میں جن سے عوام کے جذبات و احساسات اور افکار و نظریات وابستہ ہیں سنجیدہ اور ٹھوس اقدام ضروری ہے۔ ٹاپ شورائے نگہبان کی آئین پر نگرانی نظارت و نگرانی کے امور میں معیار، قانون اور ضابطہ ہونا چاہئے، ذاتی نظریہ اور موقف نہیں۔ شورائے نگہبان میں ہرگز ذاتی نظریات کو دخیل نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص خود ہی اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کرے کہ فلاں شخص پارلیمنٹ کے لئے مفید ہے اور اگر یہ پارلیمنٹ میں نہ آیا تو اس سے پارلیمنٹ کا نقصان ہوگا، اور پھر اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر اسی ذاتی رائے کے مطابق فیصلہ کر لیا جائے۔ نگراں کونسل کے اراکین کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں بھی اور اس کے بندوں کے سامنے بھی جواب دہ ہو سکیں۔ اگر شورائے نگہبان سے سوال کیا جائے کہ کس وجہ سے فلاں امیدوار کو نااہل قرار دیا گیا ہے تو کونسل جواب دے سکے کہ پالنے والے! میں قانون اور ضابطے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور تھا۔ قانون کا یہی تقاضا تھا اور میں نے اسی بنا پر اس شخص کو نااہل قرار دے دیا یا یہ کہ اصول و قانون کے مطابق میں نے اس شخص کی اہلیت کی توثیق کی۔ یہ نہیں کہ میری یہی تشخیص تھی اور میری یہی رائے تھی۔ میں نے فلاں شخص کو مضر دیکھا اور فلاں کو مفید پایا۔ یہ چیزیں قابل قبول نہیں ہیں۔ اسے نہ اللہ تعالی قبول کرے گا نہ بندگان خدا۔ قانون کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے اور کسی بھی چیز کو قانون پر عمل آوری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے۔ ٹاپ اسلامی نظام کے ستونوں پر دشمن کا حملہ دشمن کو یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ جو چاہے کر گزرے۔ دشمن ذہنوں کو متاثر کرتا ہے پھر نطام کی بنیادوں میں نفوذ پیدا کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرتا ہے۔ شورائے نگہبان کی مثال لے لیجئے۔ اس وقت شورائے نگہبان یا نگراں کونسل پر بڑے حملے ہو رہے ہیں۔ مقصد شورائے نگہبان کو کمزور کرنا اور اسلام مخالف، خمینی مخالف اور نظام مخالف عناصر کو قانون ساز اداروں میں پہنچوانا ہے۔ اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ شورائے نگہبان ہے۔ وہ اس خیال میں ہیں کہ اس کا بھی وہی انجام کر دیں گے جو علمائے طراز اول کے نام سے معروف علما کونسل کا کیا تھا۔ وہ شورائے نگہبان کے سلسلے میں اپنے عزائم ہرگز پورے نہیں کر سکیں گے اور یہ چیز کبھی نہیں ہو سکے گی۔ دشمن کے سیاسی، دفاعی اور نفسیاتی جنگ کے منصوبہ ساز اس خیال میں ہیں کہ اگر ان کی یہ سازش کامیاب ہو جائے تو دوسرے مرحلے میں پارلمینٹ میں نفوذ پیدا کیا جا سکتا ہے اور پارلیمنٹ میں نفوذ حکومت اور نظام کے دیگر ستونوں میں نفوذ کی راہ ہموار کرے گا۔ وہ اس طرح وارد میدان ہونا چاہتے ہیں۔ ٹاپ تیسرا باب: انتخابات کی نگرانی انتخابی مبصرین کے انتخاب کی شرائط انتخابی مبصرین اور ناظروں کے انتخاب میں بہت توجہ اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ اس سلسلے میں جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ اسلامی اصول و ضوابط کی پابندی ہے۔ بدیہی بات ہے کہ اس نہایت اہم عمل کی نگرانی کرنے والے شخص کا باہوش اور با فہم ہونا ضروری ہے۔ اس کا باخبر ہونا ضروری ہے کہ دھوکہ نہ کھائے، غلطی نہ کرے، تاہم سب سے اہم عنصر اس کی دینداری و ایمانداری ہے۔ دینداری انسان کو بڑی غلطیوں سے بچاتی ہے، اسے لغزش سے محفوظ رکھتی ہے۔ ٹاپ انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار افراد اسلامی جمہوریہ کا انتخابی قانون خوش قسمتی سے بہت اچھا ہے۔ آئین میں بھی انتخابات پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ اجرائی عہدہ دار بھی ہے اور ناظر بھی۔ یعنی ناظر، اجرائی عہدہ دار سے الگ ہے۔ دونوں الگ الگ ہیں۔ انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار وزارت داخلہ ہے جبکہ نظارت کے فرائض شورائے نگہبان انجام دیتی ہے۔ یعنی ذمہ داریوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے اور اس پر دو زاویوں سے نظر ڈالی گئی ہے۔ حکومت اور وزارت داخلہ جو انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار ہے، عوام کی معتمد علیہ ہے اس پر مختلف اداروں کو اعتماد ہے۔ حکومت اور وزارت داخلہ قابل اعتماد ہیں لیکن غلطی کے امکان کو حد اقل سطح تک پہنچانے کے لئے شورائے نگہبان کو نگرانی کے فرائض سونپے گئے ہیں۔ شورائے نگہبان عادل اور مجتہد افراد پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں قائد انقلاب کی جانب سے منصوب کیا جاتا ہے۔ اگر وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان دونوں اپنے اپنے فرائض بخوبی انجام دیں، ہر ایک ادارہ انتخابات میں اپنا کردار پوری شجاعت اور توانائی کے ساتھ انجام دے تو ایران کے انتخابات میں کسی بھی طرح کے شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی۔ ٹاپ انتخابات کے اجرائی عہدہ دار و ناظر اور قانون کی پابندی بعض لوگ قانونی اداروں کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں۔ سرکاری محکمے منجملہ وزارت داخلہ جو انتخابات کا انعقاد کرواتی ہے اور شورائے نگہبان جو انتخابات کی نگرانی کے فرائض انجام دیتی ہے، ہر ایک کے اپنے فرائض اور اصول و ضوابط ہیں۔ کچھ لوگ اس بات پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔ اگر خود ان کے درمیان کسی مسئلے میں اختلاف رائے ہو تو انہیں آپس میں اسے دور کرنا ہوتا ہے۔ بعض افراد تنازعہ کھڑا کرنے کے عادی ہوتے ہیں، کبھی کسی شخص پر تو کبھی کسی دوسرے شخص پر، کبھی کسی عملے پر تو کبھی کسی اور عملے پر ایسے الزام عائد کرتے ہیں جو اسلامی ملک کے عہدہ دار کے شایان شان نہیں ہے۔ عوام کو چاہئے کہ انتخابات کے اجرائی عہدہ داروں اور ناظروں دونوں کو ایک نگاہ سے دیکھیں۔ انتخابات کے اجرائی عہدہ دار اور ناظر دونوں ہی قانون پر اپنی عمل آوری کا ثبوت دیں۔ معیار قانون ہے، لوگوں کی ذاتی رائے نہیں۔ جو قانون پارلیمنٹ میں منظور ہوا اور جس کی نگراں کونسل نے توثیق بھی کر دی ہے وہ سب کے لئے معتبر اور حجت ہے۔ اس کے لئے بھی جو اس قانون کو پسند کرے اور اس کے لئے بھی جو اس قانون کو پسند نہ کرتا ہو۔ قانون جب تک ہے سب کو اس پر عمل کرنا ہے۔ ٹاپ چوتھا باب: اہلیت کی تشخیص اہلیت کی تشخیص، شورائے نگہبان کا فریضہ شورائے نگہبان کی ذمہ داری یہ ہے کہ آئین سے ماخوذ معیاروں اور ضوابط کی بنا پر شرطیں پوری ہونے کا جائزہ لے اور اس فریضے کو سنبھالے۔ پارلمینٹ کے اراکین اور صدارتی انتخابات کے امیدواروں کے لئے کچھ شرطیں رکھی گئی ہیں اور شورائے نگہبان کا فریضہ یہ چیک کرنا ہے کہ امیدوار میں شرطیں پوری ہیں یا نہیں۔ کسی امیدوار کو مسترد کر دینے کے لئے اہلیت کا ثابت نہ ہونا کافی ہے، نا اہلی ثابت ہونا ضروری نہیں۔ بعض افراد جو مختلف عنوان سے بحث و جدل کرتے ہیں وہ عبث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شورائے نگہبان کا دارومدار عقل و منطق پر ہے۔ یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ جو بھی انتخابات میں شرکت کرنا چاہتا ہے اس کے لئے یہ شرطیں ضروری ہیں۔ شورائے نگہبان کا فریضہ اسی چیز کو چیک کرنے کا ہے کہ یہ شرطیں واقعی موجود ہیں یا نہیں۔ یعنی یہ بھی با قاعدہ شرط ہے کہ شورائے نگہبان کے لئے یہ واضح ہو کہ ساری شرطیں موجود ہیں یا نہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ کہیں کہ بعض افراد کے ساتھ ناانصافی ہو جاتی ہے۔ اگر کینڈیڈیٹ کے اندر صلاحیت ہے اور وہ انتخابات میں شرکت کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی صلاحیت شورائے نگہبان کے لئے بھی ثابت ہو جائے تو اسے چاہئے کہ نگراں کونسل کے لئے اس کی سہولت فرائم کرے، اپنا ریکارڈ اور اگر اس کے حق میں کچھ شواہد ہیں تو وہ شورائے نگہبان کو ارسال کرے۔ یعنی اپنی اہلیت ثابت کرنے کی راہ ہموار کرے۔ البتہ متعلقہ اداروں کو بھی مدد کرنا چاہئے۔ شورائے نگہبان کا کام اہلیت کا جائزہ لینے کا ہے۔ اگر شورائے نگہبان کی نظر میں اہلیت ثابت نہ ہو سکی تو وہ امیدوار کو مسترد کر سکتی ہے خواہ اس کا نا اہل ہونا ثابت نہ بھی ہوا ہو۔ ٹاپ شورائے نگہبان کی توثیق، انتخابی امیدوار کی اہلیت کا ثبوت جن لوگوں کے نام انتخابی امیدوار کے طور پر پیش کر دئے گئے ہیں در حقیقت ان کی اہلیت کو تسلیم کر لیا گيا ہے۔ ان کے نام کا اعلان ان کی اہلیت کی توثیق ہے۔ ادارے بہت محتاط رہیں کہ یہ توثیق بے توجہی کے ساتھ اور غلط انداز سے نہ کر دی جائے۔ کیونکہ یہ در حقیقت عوام سے جھوٹ بولنے کے مترادف ہوگا۔ اہلیت رکھنے والے شخص کو مسترد کرنا اور نا اہل کی توثیق کرنا دونوں ہی غلط کام اور قانون شکنی ہے۔ ادارے بہت محتاط رہیں کہ ان سے یہ قانون شکنی نہ ہونے پائے تاکہ جب انتخابات کا دن آئے تو لوگ دیکھیں، غور کریں اور جو شخص ان کی نظر میں سب سے زیادہ اہلیت و صلاحیت کا حامل ہے پوری آگاہی کے ساتھ اس کا انتخاب کریں۔ ٹاپ اہلیت کا جائزہ ایک بین الاقوامی اصول اہلیت کا جائزہ لینا اور صلاحیت کو چیک کرنا ایک عالمی روش اور اصول ہے۔ یہ صرف ایران اور ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی سے مختص نہیں ہے۔ جہاں بھی کسی کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے کہ کسی بڑے کام کے لئے کسی شحص کو مامور کرے وہ اس شخص کے بارے میں تحقیق ضرور کرتا ہے کہ اس میں صلاحیت ہے یا نہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کی ذمہ داری ہے یا کسی اور ادارے کی ذمہ داری۔ تو یہ ایک معمول کی روش ہے جس پر دنیا کے ہر ملک میں عمل کیا جاتا ہے اور تمام عقلمند انسان ایسا کرتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک شخص کو کوئی عہدہ دینے کے لئے پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے پیش کیا جائے تو پارلیمنٹ بغیر تحقیق اور جائزے کے اسے اعتماد کا ووٹ تو نہیں دے گی۔ تحقیق کرے گی، تجزیہ کرے گی، مطالعہ کرے گی تاکہ یہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ اس شخص میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر اسے وہ شخص پسند نہ آیا تو اسے مسترد کر سکتی ہے۔ مسترد کرنے پر پارلیمنٹ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ پارلیمنٹ کی نظر میں اس کی اہلیت ثابت نہیں ہو سکی اور اس نے اسے مسترد کر دیا۔ بالکل یہی چیز پارلیمنٹ کے اراکین کے سلسلے میں صادق آتی ہے۔ بنابریں یہ (جائزے کی) روش ایک معمول کی روش ہے جسے عوام بھی تسلیم کرتے ہیں اور آئین نے اس روش کی تائید کی ہے۔ ٹاپ شورائے نگہبان، منتخب ہونے کے حق کا جائزہ لیتی ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ منتخب ہونے کے شہری حق کو کسی سے سلب نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن منتخب ہونے کا شہری حق روزگار، نوکری، شہر میں رہائش، سڑکوں پر چلنے، گاڑی خریدنے وغیرہ جیسے شہری حق کے مثل نہیں ہے۔ یہ ایسا شہری حق ہے جس کے لئے کچھ اور صلاحیتیں بھی لازمی ہیں جن کے موجود ہونے کی بابت مطمئن ہونا ضروری ہے۔ ان صلاحیتوں کا جائزہ صرف شورائے نگہبان نہیں لیتی۔ وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان دونوں مل کر ان صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ صلاحیتوں کے جائزے کے سلسلے میں سب سے بہتر خود عوام ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری عوام کی ہے۔ جب انہیں کسی کی صلاحیت کے بارے میں اندازہ ہوجائے تو ایک دوسرے کو اس کے بارے میں بتائیں، اس شخص کے لئے راہ ہموار کریں تاکہ یہ اہل اور با صلاحیت شخص آگے جا سکے۔ ٹاپ مسترد ہو جانے والے افراد پر تہمت سے گریز اسلامی جمہوری نظام میں قائد انقلاب کو انتخابات کے کام انجام دینے والے اداروں پر پورا اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان قائد انقلاب اسلامی کا معتمد علیہ ادارہ ہے۔ وزارت داخلہ قائد انقلاب اسلامی کا معتمد علیہ ادارہ ہے۔ سب محنت کر رہے ہیں، مشقتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی ہے ان کے سلسلے میں شورائے نگہبان نے قانون اور ضوابط کے مطابق عمل کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ بے لیاقت انسان ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جس شخص کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی ہے اس کے بارے میں ملک میں کہیں بھی کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ الزام تراشی کرے، یہ کہے کہ ضرور آپ کا کوئی سنگین مسئلہ ہے، آپ نے کوئی جرم کیا ہے، کوئی قانون شکنی کی ہے، بد عنوانی کا ارتکاب کیا ہے۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ قانونی طور پر کچھ ضابطے رکھے گئے ہیں اور شورائے نگہبان ان قانونی ضوابط کے مطابق کچھ لوگوں کو اس فہرست میں رکھتی ہے جن کی اہلیت کی توثیق کی گئی ہے اور کچھ کو اس فہرست میں جگہ نہیں دیتی۔ جن ناموں کو جگہ نہیں ملی ہے وہ در حقیقت قانونی ضوابط پر پورے نہیں اترے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں بہت سے صالح اور نیک لوگ ہوں۔ البتہ ان (مسترد ہونے والے) لوگوں میں کچھ ناخلف قسم کے انسان بھی ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ نہ ہوں، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ جس کی بھی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی اس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ خائن شخص ہے، نہیں ہرگز نہیں۔ ٹاپ پانچواں باب: وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان کا دفاع قانون کے مطابق عمل اسلامی جمہوریہ ایران کے قائد انقلاب اسلامی کی جانب سے وزارت داخلہ کا بھی دفاع کیا جاتا ہے اور شورائے نگہبان کا بھی دفاع کیا جاتا ہے۔ دونوں اسلامی جمہوری نظام کے فعال ادارے ہیں اور ہر ایک کے اپنے فرائض ہیں۔ وزارت داخلہ کو چاہئے کہ باریک بینی کےساتھ قانون کے مطابق عمل کرے اور عوام کے ووٹوں میں کوئی بے ایمانی نہ ہونے دے۔ جہاں تک اس کے بس میں ہے عوام کے ووٹ جمع کرے اور پھر پوری امانت داری اور احتیاط کے ساتھ ووٹوں کی گنتی کرے تاکہ نتیجہ معلوم ہو سکے۔ شورائے نگہبان بھی پوری ایمانداری کے ساتھ اس بات پر نظر رکھے کہ انتخابات میں کوئی بد عنوانی تو نہیں ہوئی۔ یہ عوام کا حق ہے کہ شورائے نگہبان اس قوم کے بدخواہوں کو مقننہ میں داخل ہونے سے روکے۔ شورائے نگہبان کو عوام کے اس حق کا پاس و لحاظ رکھنا ہے۔ اسے یہ خیال رکھنا ہے کہ اس قوم کے بدخواہ، اس انقلاب کے بدخواہ، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بدخواہ ملک کے منتخب ادروں میں داخل نہ ہونے پائیں۔ ٹاپ شورائے نگہبان اور وزارت داخلہ پر قائد انقلاب کا اعتماد وزارت داخلہ بڑی محنت کرتی ہے، شورائے نگہبان بھی بڑی محنت کرتی ہے اور دونوں پر قائد انقلاب کو اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان پر بھی مکمل اعتماد ہے اور وزارت داخلہ پربھی۔ یہ ادارے واقعی بنحو احسن اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔ بنابریں اگر کسی امتحان میں کچھ لوگ کامیاب اور کچھ ناکام ہو جاتے ہیں یا کسی کو اکثریت حاصل ہوتی اور دوسرا اکثریت حاصل نہیں کر پاتا تو یہ نہ ہو کہ کچھ انتخابی حلقوں میں کچھ فتہ پرور قسم کے افراد لوگوں کو اشتعال دلائیں کہ فلاں شخص کی اہلیت کی توثیق کیوں نہیں ہوئی۔ معترض افراد کو اپنے حکام پر اعتماد رکھنا چاہئے۔ عہدہ دار معتمد علیہ ہیں، انہوں نے یقینا کوئی وجہ دیکھی ہے جس کی بنا پر اہلیت کی توثیق نہیں کی۔ اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو تحریری طور پر حکام سے شکایت کرے۔ یہ نہیں کہ کچھ لوگ دھرنے پر بیٹھ جائیں، یہ تو فتنہ پرور عناصر کی اشتعال انگیزی ہے۔ فتنہ پرور سامراج سے وابستہ وہ عناصر ہیں جو حالات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسا کام کر دیں کہ انتخابات پرامن طریقے سے منعقد نہ ہونے پائیں۔ ایسے میں ان سے بعید نہیں ہے کہ کچھ لوگوں کو ورغلائیں۔ ٹاپ

عدلیہ

عدلیہ کا فسلفہ وجودی جج، عدلیہ کا محور عدلیہ کی نگرانی عدلیہ کے فرائض    قیام عدل و انصاف      انصاف کی ضرورت      انصاف کی بنیاد      انصاف کی ضمانت       انصاف کا دائرہ          ملکی سطح پر انصاف         عالمی سطح پر انصاف   بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات   مجرمین کے خلاف کاروائی   معاشرے میں عدلیہ قانون کی ضامن عدلیہ سے شاکی افرادمجرم کا دفاع!معاشرے میں عدالتی سکیورٹی کی ضرورت    سوشل سکیورٹی   اقتصادی سکیورٹی   اخلاقی تحفظ و سلامتی عدلیہ عدلیہ کا فسلفہ وجودی عدلیہ کا فلسفہ وجودی یہ ہے کہ معاشرے میں انسان مطمئن ہوکر زندگی بسر کرے۔ انہیں یہ یقین ہو کہ اگر کسی نے ان کے ساتھ نا انصافی کی تو ایک ایسا ادارہ موجود ہے جو اس مسئلے میں مداخلت کرے گا۔ لوگوں کو یہ اطمینان رہے کہ اگر طاقتور ترین شخص حتی حکومت نے اگر کسی کا حق نظر انداز کیا ہے یا خدا نخواستہ حق مارا ہے تو عدلیہ شجاعانہ انداز میں اسے اس کا حق دلائے گی۔ اگر عدلیہ معاشرے میں یہ احساس اور تاثر قائم کر لے گئی تب تو وہ کامیاب ہے۔ اگر معاشرے میں یہ اطمینان پیدا ہو گیا تو کوئی بھی افواہ اور دشمنوں کے ذریعے بنائی جانے والی فضا اور ماحول ناکام و بے اثر رہے گا۔ کیونکہ عوام عملی میدان میں عدلیہ کے وجود کا مشاہدہ کریں گے اور انہیں بے باک و شجاع و فرض شناس جج صاحبان نظر آئیں گے جو کسی بھی دھونس اور دھمکی میں نہیں آتے۔ اگر لوگوں نے دیکھا کے جج کسی بھی دھونس اور دھمکی پر توجہ دئے بغیر اپنا کام بخوبی انجام دے رہا ہے تو افواہوں اور الزام تراشی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ ٹاپ جج، عدلیہ کا محور عدلیہ کا محور جج ہوتا ہے جبکہ بقیہ امور اور ذیلی ادارے جج کے کام میں مدد کے لئے ہیں۔ عدالت کے اندر اور فیصلہ سنائے جانے کے عمل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ الثمرۃ تنبا عن الشجرۃ یعنی یہ بتاتا ہے کہ اس صف اور اس محاذ کے پیچھے صورت حال کیسی ہے۔ جس دن سارے جج شجاع بن جائیں اور عدلیہ کے مختلف شعبے خدا کو حاضر و ناظر جان کر اپنے فرائض بخوبی انجام دینے لگیں، آنکھیں کھلی رکھ کر فیصلے کرنے لگيں اس دن انہیں اپنے اوپر فخر کرنے کا حق ہے۔ کیونکہ اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃ دشوار حالات میں کسی عظیم اور انقلابی عمل کے لئے صبر و ضبط سے کام لینا صلوات و رحمت الہی کا مقدمہ ہوتا ہے۔ بنابریں انہیں اپنے اوپر فخر کرنے کا پورا حق ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کا عمل کرام الکاتبین کے زیر نظر ہے۔ انسان کے اعمال کی تمام تر تفصیلات کو بہترین انداز میں محفوظ رکھنے والے اللہ تعالی کی جانب سے مامور فرشتے اس کے نگراں ہیں۔ اس جذبے اور خیال کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔ ٹاپ عدلیہ کی نگرانی عدلیہ کو چاہئے کہ قانون کی نگرانی کا خیر مقدم کرے۔ قانون، نگرانی کا ایک ذریعہ ہے۔ قانون خود عدلیہ کے اندر رکھا گیا ایک ایسا عنصر ہے جو عدلیہ پر نظارت کے لئے بہت اہم اور موثر ہے۔ معیار، قانون ہونا چاہئے اور قوانین کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے، کسی کو مستثنی نہیں کیا جانا چاہئے۔ قانون کے دائرے کو کسی بھی وجہ سے کم نہیں کیا جانا چاہئے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ نگرانی اور نظارت کا استقبال کرے۔ ہر طرح کی نظارت، ہر اظہار خیال اور حتی منصفانہ تنقید کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ مالی امور ہوں یا غیر مالی امور، جس کا حساب کتاب صاف ہے اسے احتساب کا کیا خوف؟ متعلقہ اداروں مثلا احتساب کے ادارے اور دیگر نگراں اداروے اسی طرح عدلیہ کے دائرے سے باہر کے افراد مثلا یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مرکز کے اہل نظر حضرات اور ملک کے قانون داں اپنی رائے ظاہر کریں، اپنی تجاویز پیش کریں، تنقیدیں کریں، اس سے عدلیہ کو تقویت ملے گی۔ اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔ بحمد اللہ عدلیہ بڑے اچھے ستونوں پر استوار ہے، اس کی بنیادیں بڑی اچھی اور اسلامی جمہوری نظام کے مقدس اصولوں سے ماخوذ ہیں اور ان کا تکیہ گاہ اسلامی احکام ہیں۔ یہ مستحکم ادارہ ہے اسے کسی سے کوئی خوف نہیں ہے۔ اس کی جتنی زیادہ نظارت اور نگرانی کی جائے اور اس کے سامنے جتنے زیادہ قانونی چیلنج موجود ہوں اس کے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس طرح اس میں اور پختگی آئے گی۔ ٹاپ عدلیہ کے فرائض اسلامی نظام ہی نہیں ہر نظام کو ایک ایسی عدلیہ کی ضرورت و احتیاج ہوتی ہے جو طاقتور بھی ہو اور معتمد علیہ بھی۔ یہ دونوں بنیادی شرطیں ایک ساتھ ضروری ہیں۔ معتمد علیہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اختیارات محدود کر دے۔ عدلیہ قانون کی حفاظت کے لئے ہے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کا ایک ستون عدلیہ ہے۔ عدلیہ وہ ادارہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے عظیم مقاصد کا بہت بڑا حصہ جس کی کارکردگی سے وابستہ اور اس پر موقوف ہے۔ عدل و انصاف کا مسئلہ، حقوق کے حصول کا مسئلہ، قانون کی بالادستی کا مسئلہ، تسلط پسندوں، جارحوں اور موقع پرست عناصر کے سامنے مزاحمت و استقامت، عوام کی زندگی میں احساس طمانیت و تحفظ پیدا کرنا وہ چیزیں ہیں جن کی اہمیت اسلامی جمہوری نظام میں ہرگز کم نہیں ہو سکتی اور یہ وہ فرائض ہیں جن کا تعلق عدلیہ سے ہے۔ عدلیہ ان کے لئے ذمہ دار ہیں۔ آئین میں اس محکمے کے لئے جو ذمہ داریاں معین کی گئی ہیں وہ مختلف پہلوؤں سے بڑی اہم اور اطمینان بخش ہیں۔ جو فرائض عدلیہ کے لئے رکھے گئے ہیں، اس محکمے کے عہدہ داروں کے لئے آئین اور دیگر متعلقہ قوانین میں اسلامی اصولوں کے مطابق جو شرطیں بیان کی گئی ہیں ان سب کا نصب العین یہ ہے کہ یہ محکمہ بخوبی اپنے فرائض کی انجام دہی کرے۔ ٹاپ قیام عدل و انصاف عدل و انصاف کی شجاعانہ پاسبانی عدلیہ کا بنیادی فریضہ ہے۔ عمل کی روح یہی ہے۔ قانون پر عمل درآمد ہر کسی کے لئے ضروری ہے اور قوانین سے انحراف جرم ہے جس پر نظر رکھنے کا کام عدلیہ کرتی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کے قوانین کا مجموعہ ایک نقطہ کمال پر مرکوز ہونا چاہئے اور وہ ہے عدل و انصاف۔ بالعدل قامت السموات و الارض ٹاپ انصاف کی ضرورت فان فی العدل سعۃ و من ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق عدل میں کشادگی اور وسعت ہے ہر شخص کے لئے، حتی اس فرد کے لئے بھی جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے، اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا گيا ہے تو اگر اس شخص کو جس کے خلاف یہ فیصلہ گیا ہے اس میں سختی محسوس ہو تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ظلم کو معیار قرار دیا گیا تو فیصلہ اور زیادہ سخت اور ناقابل تحمل ہوگا کیونکہ ممکن ہے کہ ظالمانہ عدالت میں اسے ایک کامیابی مل جائے لیکن زندگی کے دوسرے سیکڑوں مراحل میں نا انصافی کا خطرہ اس کے گریبان گیر ہوگا۔ انصاف کیا جانا چاہئے اور دولت، طاقت، بیوروکریسی، اشرافیہ کچھ بھی عدل پر حاوی نہیں ہونا چاہئے۔ اگر عدالت کے اختیارات سے عدل و انصاف کو نقصان پہنچے تو یہ بہت خطرناک ہے۔ عدلیہ کی برتری کو اس انداز سے یقینی بنایا جانا چاہئے کہ اس سے قیام عدل و انصاف میں مدد ملے کیونکہ عدل ہی معیار و اصول ہے۔ ایسا نہیں سوچنا چاہئے کہ جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے اس کے سلسلے میں عدل و انصاف بس یہ ہے کہ اسے جیل میں ڈال دیا جائے اور پھر مدت پوری ہو جانے کے بعد اسے رہا کر دیا جائے، یہ تو انصاف کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جیل اس کے لئے ایسی جگہ نہ بنے جہاں وہ اور زیادہ منحرف ہو جائے، اس کی شخصیت تباہ ہو کر رہ جائے اور اس کا خاندان بد بختی کی زندگی بسر کرے۔ ٹاپ انصاف کی بنیاد دنیا و خلقت کے نظام میں انصاف کا کردار بڑا بنیادی و حیاتی ہے۔ خلقت کا مزاج انصاف پر استوار ہے۔ اگر کوئی سماجی نظام اسی مزاج اور خلقت کے الہی قانون کی سمت گامزن ہے تو وہ کامیاب اور زندہ جاوید بن جائے گا۔ انسان اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب وہ قدرت کے قوانین اور سنت الہی کے مطابق خود کو ڈھال لے جو ناقابل تغیر ہے۔ بنابریں عالم خلقت میں انصاف ایک فطری اور بنیادی عنصر ہے۔ ٹاپ انصاف کی ضمانت انصاف کی ضمانت دینے والا محکمہ عدلیہ کا محکمہ ہے۔ سارے اداروں کو چاہئے کہ انصاف قائم کرنے کی کوشش کریں اور اس کے ساتھ ہی اگر محکموں نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی کوتاہی کی ہے تو بغیر کسی رو رعایت کے اس قانون شکنی کا تعین کرنے اور قانون شکن شخص کو اس کے جرم کی سزا دینے والا طاقتور ادارہ عدلیہ ہے۔ بنابریں اگر عدلیہ کا وجود نہ ہو یا اس کے پاس اختیارات اور طاقت نہ ہو یا ہمت و شجاعت نہ ہو یا کام کرنا اس کے لئے ممکن نہ ہو یا خدانخواستہ کمزوریوں کا شکار ہو جائے تو معاشرے میں انصاف کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہے گی۔ یہیں سے عدلیہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ معاشرے میں عدل و انصاف کا شجاعانہ دفاع عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ ٹاپ انصاف کا دائرہ ملکی سطح پر انصاف کبھی تو کسی نجی تنازعے کا فیصلہ کیا جاتا ہے مثلا پیسے کا تنازعہ، چند مربع میٹر زمین کا جھگڑا، مار پیٹ کا معاملہ وغیرہ۔ لیکن کبھی انصاف ‎زیادہ اہم مسئلے میں نافذ کیا جاتا ہے جس کا تعلق عوام کی زندگی، حقوق اور تقدیر سے ہوتا ہے۔ کبھی کوئی بڑا مالی مسئلہ ہے۔ کچھ لوگوں نے عوام اور فقرا کے سرمائے کی جانب دست درازی کی ہے۔ مثال کے طور پر کسی گاؤں یا شہر میں ایک رقم خرچ کرکے سڑک یا کارخانے کی تعمیر کی جا سکتی ہے جس سے ہزاروں افراد یا ہزاروں خاندانوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ان کے لئے کھیت اور روزگار کے مواقع مہیا ہو سکتے ہیں لیکن کوئی بے ایمان شخص آکر اس پیسے کو ہڑپ لے جس سے یہ سارے کام ہو سکتے تھے۔ ساری رقم لیکر اپنی طمع کو تسکین دینے کی کوشش کرے تو یہ جرم اس سے بہت بڑا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو طمانچہ مار دے البتہ یہ بھی جرم ہے اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اسلام تو ارش الخدش یعنی ناخون سے کسی دوسرے کے جسم پر خراش ڈال دینے کو بھی نظر انداز نہیں کرتا تاہم جرائم مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ بعض جرائم وہ ہوتے ہیں جن کی اہمیت بیحد زیادہ ہوتی ہے۔ جب آپ اس شخص سے نمٹنا چاہتے ہیں جس نے کمال بے رحمی اور بے شرمی سے بیت المال یا عوام کی رقم ہڑپ لی ہے تو اس کے لئے عدالتی شجاعت و اقتدار کی ضرورت ہوگی۔ اگر عدلیہ کے وقار و اعتبار کو ٹھیس پہنچتی ہے تو یہ عوام کی زندگی کے نظام پر لگنے والی بہت کاری ضرب ہوگی۔ اسے بھیانک جرم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی یہ ضرب خود عدلیہ کے اندر سے لگے اور کبھی باہر سے وار ہو۔ ٹاپ عالمی سطح پر انصاف خود مختاری و خود اعتمادی کے زیور سے آراستہ اسلامی جمہوری نظام آج عالمی سامراجی نظام کی تسلط پسندی کے خلاف سینہ سپر ہے۔ آج ملت فلسطین کا حق پامال کرنے کے لئے امریکا، اس کے ہمنوا اور دنیا بھر کے صیہونی اور صف اول کے سرمایہ دار اپنی تمام سیاسی و تشہیراتی توانائی کو بروئے کار لاکر چند ملین فلسطینیوں کا گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں، انہیں عالمی معاملات سے یکسر نابود کر دینا چاہتے ہیں۔ جہاں بھی وہ کامیاب ہوئے ہیں انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا ہے اور حکومتوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے لیکن جب ایران کی باری آتی ہے تو ان کی تلوار کند ہو جاتی ہے۔ انہیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کے مخالف ہیں اور اپنے راستے کی اس رکاوٹ کو ختم کر دینے کے در پے ہیں۔ اگر سامراج اپنے مذموم و خباثت آمیز عزائم کے تحت مالی، سیاسی اور تشہیراتی وسائل کے ذریعے ملک کے اندر اپنا کوئی ٹھکانہ بنانے میں کامیاب ہو جائے اور کچھ فریب خوردہ عناصر کو ان کے اپنے ملک کے مفادات کے خلاف استعمال کر لے جائے اور وہ دشمن کی مرضی کے مطابق عمل کریں تو یہ جرم مالی جرم سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ملت ایران کے حق میں ہونے والی اس بے انصافی کا راستہ کون روکے؟ اس کے لئے شجاعت و ارادے اور قوت و طاقت کی ضرورت ہے۔ ٹاپ بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات آئین کی رو سے عدلیہ کی ایک ذمہ داری بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات کرنا ہے۔ پیشگی یا احتیاطی تدابیر کے اپنے خاص وسائل ہوتے ہیں، مناسب ادارے ہوتے ہیں۔ سکیورٹی کے اداروں، انٹلیجنس اداروں وغیرہ کی مدد سے احتیاطی تدابیر کی جا سکتی ہیں۔ اگر کسی اسلامی ملک میں کوئی بد عنوان شخص، کوئی حریص و چالاک شخص اگر عمومی دولت کو جس پر تمام طبقات کا حق ہے ہڑپ لے جبکہ معاشرے میں بہت سے غریب و نادار لوگ موجود بھی ہیں تو اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس سے نمٹنا چاہئے۔ واضح ہے کہ اس حرکت پر عدلیہ، مجریہ اور مقننہ تینوں محکموں کی جانب سے رد عمل آئے گا یہ ادارے خاموش نہیں بیٹھيں گے۔ ٹاپ مجرمین کے خلاف کاروائی ہر جگہ عدلیہ کا کام یہ ہے کہ قانون کے مطابق مجرم کے خلاف اقدام کرے۔ جس نے بھی حد سے تجاوز کیا ہے اسے قانون کے مطابق دوبارہ اس کی حد کے اندر بھیجے۔ اس سب کا اسلامی نظام کی ساخت، صحیح زندگی اور اسلامی جمہوریہ کے اہداف کی تکمیل میں بڑا اہم کردار ہے۔ قانون شکن قانون داں سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جنہیں قانون سے بخوبی واقفیت ہے جو قانون کے پیچ و خم سے باخبر ہیں، وہ قانون شکنی کرتے ہیں تو معلوم بھی نہیں ہو پاتا کہ قانون شکنی کہاں پر ہوئی ہے لیکن یہ چیز اسلامی نظام اور امام زمانہ علیہ السلام کے انتظار کے جذبے سے مکمل طور پر ناسازگار ہے۔ حکومتی اداروں اور دیگر محکموں میں بد عنوانی کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ حکومت کے اندر بد عنوانی کو روکنے کے لئے سب سے پہلے خود سرکاری حکام، وزرا اور اعلی عہدہ داروں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہئے، وہ اپنے عملے میں ہرگز بد عنوانی نہ ہونے دیں۔ اگر وہ مقابلہ کا ارادہ رکھتے ہوں اور سنجیدگی سے مقابلہ کریں تو دوسرے کسی بھی ادارے اور شخص سے بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ خیال ضرور رہے کہ ان کا اپنا دامن بے داغ ہو۔ جو شخص خود بد عنوانی میں غرق ہے وہ بد عنوانی کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ حکام کو چاہئے کہ پوری احتیاط اور مستعدی کے ساتھ اس برائی سے نمٹیں۔ اگر خدانخواستہ حکام نے اپنے اداروں میں بد عنوانی سے نمٹنے میں کوتاہی کی تو پھر عدلیہ کا وارد عمل ہونا ناگزیر ہو جائے گا۔ عدلیہ کو چاہئے کہ کسی بھی امتیاز و تفریق کے بغیر جہاں کہیں بھی قانون کی خلاف ورزی نظر آئے اس کا مقابلہ کرے۔ ٹاپ معاشرے میں عدلیہ قانون کی ضامن قانون کی بالادستی کی ضمانت کیسے ممکن ہے؟ اس ضمانت کا واحد راستہ ہے عدلیہ۔ عدلیہ نظام کا طاقتور بازو ہے۔ جو جارح اور قانون شکن کا گریبان پکڑ کر اسے اس کی حدود یاد دلاتا ہے تاکہ بقیہ افراد قانون کے زیر سایہ زندگی بسر کر سکیں۔ بنابریں عدلیہ کی طاقت اور اس کا اختیار ایک بنیادی چیز ہے۔ تاہم یہ طاقت و اختیارات ایسے ہوں کہ اس سے عوام کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔ جہاں کہیں بھی عدالت ہے اور اس سے لو گ، خواہ بہت کم تعداد میں، رجوع کرتے ہیں، اس عدالت کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ عوام کی معتمد علیہ ہو۔ سب کو یہ یقین و اطمینان حاصل ہو جائے کہ عدلیہ کی یہ یونٹ جو یہاں موجود ہے قانون اور انصاف کے مطابق ہی فیصلہ کرتی ہے۔ ٹاپ عدلیہ سے شاکی افراد اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیشہ کچھ افراد عدلیہ سے ناراض رہتے ہیں۔ و ان یکن لھم الحق یاتوا الیہ مذعنین قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ جن معاملات میں فیصلے پیغمبر سے کرواتے ہیں اگر ان میں فیصلہ ان کے حق میں ہو تو قبول کرتے ہیں اور اگر فیصلہ دوسرے فریق کے حق میں ہو تو اعتراض کرتے ہیں، کچھ سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ چیز ہمیشہ دیکھنے میں آتی ہے۔ لیکن معاشرے میں اگر عدلیہ پوری سنجیدگی کے ساتھ قانون اور اپنے فرائض پر عمل کرتی ہے، کسی سے کوئی رو رعایت نہیں کرتی، قانون شکنی سے سختی سے نمٹتی ہے اور خاص طور پر اگر قانون شکن کا تعلق خود عدلیہ کے شعبے سے ہو تو اور زیادہ سختی سے پیش آتی ہے، اس عدلیہ کو دیکھ کر عوام مطمئن رہتے ہیں۔ یہ ہدف حاصل کرنا چاہئے، اس منزل تک رسائی حاصل کرنا چاہئے۔ البتہ اس کے لئے بڑی تدبیروں کی ضرورت ہے۔ سارے امور واضح اور معین ہوں، عدلیہ کے اعلی عہدہ داروں کے لئے ہر لمحے کی اطلاعات حاصل کرنے کا چست و درست انتظام ہو، عدلیہ کی کارکردگی پر مکمل نظارت۔ سب سے بڑھ کر عدلیہ کی کارکردگی کا طے شدہ منصوبے اور نظام کے تحت انجام پانا ہے۔ ٹاپ مجرم کا دفاع! ہر فیصلے کے کچھ حامی اور کچھ مخالف ہوتے ہیں۔ فیصلے سے ناراض افراد دو طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں جو کچھ سماجی اصول و ضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔ یعنی اگرچہ فیصلے سے ناخوش ہیں لیکن یہ نہیں کرتے کہ جج کو پھاڑ کھانے کو دوڑیں۔ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو کسی اصول و ضابطے پر توجہ نہیں دیتے۔ جج جس نے شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے اور جو لائق قدردانی ہے اس پر حملہ کر دیتے ہیں اور مجرم کا دفاع کرتے ہیں جس کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔ مجرم کا دفاع جرم ہے۔ جس مجرم کو قانون کی رو سے سزا مل چکی ہے اس کا دفاع در حقیقت قانون کو چیلنج کرنے سے عبارت ہے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ جج کو آزادانہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اسے کسی کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے۔ کسی ایک شخص کے ٹیلی فون اور حکم پر فیصلہ نہیں کیا جاتا، فیصلہ علم، دلیل اور ضمیر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ جج پر مختلف انداز سے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اخبار کی سرخیوں کے ذریعے، سیاسی حربے اختیار کرکے اور منفی ماحول تیار کرکے۔ جج کو چاہئے کہ وہ ہرگز ان چیزوں سے متاثر نہ ہو، عدالتی سسٹم اور محترم جج صاحبان کو ہرگز ان افراد کے غیر منطقی حربوں کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے جو عدلیہ کے خلاف ماحول بنا کر اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف خود ان افراد کو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ غیر قانونی کام کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کچھ غیر قانونی کاموں کو ملک کے حکام ممکن ہے نظر انداز کر دیں لیکن اس صورت میں نہیں جب اسی کو وتیرہ بنا لیا جائے۔ ٹاپ معاشرے میں عدالتی سکیورٹی کی ضرورت عدالت کی سکیورٹی کا مسئلہ یعنی جب لوگ عدالت کے دروازے پر دستک دیں تو انہیں احساس تحفظ ہو، یہ بہت اہم ہے۔ اس کے لئے عدلیہ کی اندرونی سطح پر حساس، باریک بیں اور متجسس نظروں کی ضرورت ہے۔ اگر عدالتی سکیورٹی کو یقینی بنا لیا جائے تو سیاسی، سماجی، اقتصادی، اخلاقی و ثقافتی سکیورٹی کی بھی ضمانت مل جائے گی۔ جو لوگ اسلامی جمہوریہ کے دشمن ہیں آج اپنی دشمنی نکالنے کا بہترین راستہ انہوں نے یہ تلاش کر لیا ہے کہ ملک کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ دشمن کئی سال سے اخلاقی و ثقافتی سلامتی پر حملے کر رہا تھا اس کے علاوہ سیاسی سلامتی کے سلسلے میں بھی دشمن کی کوشش یہ ہے کہ نظام کے دراز مدتی سیاسی عمل کو درہم برہم کر دیں۔ اس سب کے ساتھ ہی دشمن نے سماجی اور شہری سلامتی کے لئے بھی مسائل و مشکلات کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بحمد اللہ ایران ان ممالک میں ہے جہاں سماجی و شہری سلامتی کی صورت حال بڑی اچھی ہے۔ ٹاپ سوشل سکیورٹی عوام کو سلامتی و تحفظ مہیا کرنے کی ذمہ داری کا ایک بڑا حصہ عدلیہ سے متعلق ہے۔ خواہ وہ سماجی سلامتی ہو، اقتصادی سلامتی ہو، اخلاقی سلامتی ہو یا عزت و وقار کی سلامتی ہو۔ یہ بات درست ہے کہ اجرائی ادارے ان امور میں کسی نہ کسی طرح عدلیہ کے شریک کار ہیں۔ مثال کے طور پر سماجی سکیورٹی میں محکمہ پولیس عدلیہ کا شریک کار ہے اور دونوں کو مل کر سکیورٹی مہیا کرانا ہے، یہاں پر عدلیہ کا کردار کیا ہے؟ عدلیہ کا کردار یہ ہے کہ جارح شخص کے ساتھ عدلیہ اس انداز سے پیش آئے کہ سب کو عبرت مل جائے۔ ٹاپ اقتصادی سکیورٹی اقتصادی سکیورٹی کے ذمہ دار افراد غالبا اجرائی اور انتظامی اداروں میں ہوتے ہیں مثلا وزارت خزانہ، مالیاتی ادارے اور بینک وغیرہ، یہ ذمہ دار ہیں لیکن عدلیہ کی بھی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر ان اداروں کی کارکردگی اور عوام کے ساتھ ان کے لین دین میں کوئی اقتصادی بد عنوانی ہو جائے تو عدلیہ کو اس سے اس طرح نمٹنا چاہئے کہ ان افراد کو سبق مل جائے جو عدلیہ کو بد عنوانی سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ بذات خود اقتصادی سکیورٹی کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اقتصادی بد عنوانی کا مقابلہ اقتصادی سکیورٹی کے درہم برہم ہو جانے کا باعث ہوگا لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اقتصادی بد عنوانی کے خلاف کاروائی سے بد عنوانی سے پاک افراد یعنی عوام کی اکثریت کے لئے اقتصادی سکیورٹی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اقتصادی بد عنوانی میں ملوث افراد کی تعداد بہت کم ہے ان سے بہت سختی سے نمٹا جانا چاہئے تاکہ عوام کی اکثریت اور اقتصادی میدان میں سرگرم عمل افراد کو تحفظ کا احساس ہو اور ان کو محسوس ہو کہ جو راستہ انہوں نے منتخب کیا ہے وہی درست راستہ ہے۔ ٹاپ اخلاقی تحفظ و سلامتی اسلامی معاشرے میں لوگوں کی عزت و آبرو ایسے افراد کے ہاتھ کا کھلونا نہ بننے پائے جو کسی طرح کا احساس ذمہ داری نہیں رکھتے۔ اداروں کو چاہئے کہ اس سلسلے میں اقدام کریں۔ لوگوں کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کرنا ان کے خلاف الزام تراشی، عہدہ دار ہو یا عام انسان اس پر بے بنیاد سوالیہ نشان لگانا، ان کے خلاف افواہیں پھیلانا، اسلامی احکام کے سراسر منافی ہے۔ اسلامی شریعت کے خلاف ہے، اسلامی روش کے بر عکس ہے۔ فرض کیجئے کہ کسی شخص پر مالی بد عنوانی کا الزام لگایا گيا تاکہ وہ آکر خود کو بے گناہ ثابت کرے۔ اس میں اس کا بڑا وقت صرف ہو جائے گا۔ اسلامی معاشرے میں یہ چیزیں بہت اہم ہیں اور ان پر توجہ دینا چاہئے۔ عدلیہ اس سلسلے میں اور معاشرے میں یہ سکیوٹی قائم کرنے کے سلسلے میں بہت اہم کردار کی مالک ہے۔ ٹاپ

اسلامی انقلاب کی فتح و کامرانی کے ایام سے وابستہ یادیں

اسلامی انقلاب کی فتح و کامرانی کے ایام سے وابستہ یادیں؛ ان دنوں ہماری یہ حالت تھی کہ ہم مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ اس زمانے میں ہم تو تمام سرگرمیوں میں شریک تھے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہم انقلابی کونسل کے بھی رکن تھے لہذا دائمی طور پر ہر معاملے میں موجود رہتے تھے۔ لیکن پھر بھی ہم سب پر حیرانی کی کیفیت طا...

ادیان الہی کی نظر آس و امید کی نظر ہے

ہمیں انتظار کرنا ہے۔ بشریت کے کارواں کے سفر کے اختتام کے بارے میں ادیان الہی کی نظر آس و امید کی نظر ہے۔ ‏واقعی امام زمانہ کا انتظار، ان سے قلبی وابستگی قائم کرنا، آپ کے آنے کا انتظار امید کا دریچہ ہے اسلامی معاشرے کے ‏لئے۔ ہم فرج کے انتظار میں ہیں تو خود یہ انتظار ایک فرج ہے، گشائش ہے، امید کی کرن ...

نشانے پر نوجوانوں کا ایمان ہے، عقیدہ ہے

آج سب سے زیادہ دشمنی اس خالص اسلام کے سلسلے میں برتی جا رہی ہے جو اسلامی حکومت اور اسلامی جمہوریہ کی بنیاد ہے۔ اس وقت ہر جگہ اور خصوصا اسلامی جمہوریہ کے اندر ایمان اور اسلامی عقیدے کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر آپ سوشل میڈیا سے سروکار رکھتے ہیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ میرا اشارہ کس طرف...