امام علی کیڈٹ یونیورسٹی میں خطاب

امام علی کیڈٹ یونیورسٹی میں خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ ایران کے عوام ہر قسم کی جارحیت کا پوری قوت سے جواب دیں گے۔
کرمانشاہ میں شیعہ و سنی علما کے اجتماع سے خطاب

کرمانشاہ میں شیعہ و سنی علما کے اجتماع سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ موجودہ دور میں اسلام کی جانب رجحان کی تیسری لہر اٹھی ہےـ  
یوم مسلح افواج کی مناسبت سے خطاب

یوم مسلح افواج کی مناسبت سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 24 فروردین سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 13 اپریل سنہ 1994 عیسوی کو یوم مسلح افواج کی مناسبت سے اپنے خطاب میں مسلح فورسز کی کلیدی اہمیت اور فرائض پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کو ممتاز خصوصیات و صفات کا مالک قرار دیا۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران سے استکباری محاذ کی دشمنی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے کامیاب ہونے کے بعد ایران کی حکومت اور قوم سے سامراج کی دشمنی شروع ہوگئ جو گذشتہ پندرہ سال سے آج تک جاری ہے۔ یہ لڑائی اس حکومت اور ملت سے ہے جو پورے استحکام کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے اور اپنی جگہ سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گی اور دنیا میں اس کی بات سننے والے بہت ہیں۔ ہمارا دشمن اپنے تمام طمطراق کے ساتھ اب تک اس نظام پر کوئی وار لگانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
عوام کے مختلف طبقات کے ایک اجتماع سے خطاب

عوام کے مختلف طبقات کے ایک اجتماع سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 28 اردیبہشت سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 18 مئی سنہ 1994 عیسوی کو مختلف شہروں کے عوام کے اجتماع سے خطاب میں دعا و مناجات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ماہ ذی الحجۃ کی اہم بابرکت مناسبتوں کا حوالہ دیا اور عید الاضحی اور یوم عرفہ کے رموز پر گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا کہ عرفہ کی اہمیت کو سجمھیں۔ میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے کہ عرفہ اور عرفات کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ دن اور یہ جگہ ایسی ہے جہاں پروردگار کے حضور اپنے گناہوں کے اعترا ف کا موقع ملتا ہے۔ اسلام بندوں کے سامنے گناہ کے اعتراف کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اس نے جو گناہ کیا ہے، اس کو زبان پر لائے اور کسی کے سامنے اس کا اعتراف کرے۔ لیکن ہمیں چاہئے کہ خدا کے حضور، اپنے اور خدا کے درمیان، خدا سے تنہائی میں اپنی خطاؤں، اپنے قصور، اپنی تقصیروں اور اپنے گناہوں کا جو ہماری روسیاہی، بال و پر کے بندھ جانے اور پرواز میں رکاوٹیں پیدا ہو جانے کا باعث ہیں، اعتراف کریں اور توبہ کریں۔ جو لوگ خود کو تمام عیوب اور خطاؤں سے پاک سمجھتے ہیں ان کی اصلاح کبھی نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی قوم اگر چاہے کہ خدا کے سیدھے راستے پر رہے تو اس کو سمجھنا چاہئے کہ اس سے غلطی کہاں ہوئی ہے؟ اس کی خطا کیا ہے؟ اسے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہۓ۔
عید بعثت پر ملک کے حکام سے قائد انقلاب اسلامی کاخطاب

عید بعثت پر ملک کے حکام سے قائد انقلاب اسلامی کاخطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10دی سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 31 دسمبر سنہ 1994 عیسوی کو عید بعثت رسول کے موقع پر ملک کے حکام سے خطاب میں اسلامی دور اور اس سے قبل کے دور جاہلیت کے مابین فرق کو بیان کیا۔ آپ نے بعثت میں مضمر نکات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس تعلق سے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام پر خاص طور پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بنابریں آج میں جو نکتہ بیان کرنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ ہمارے لئے بعثت کا پیغام ایک درس اور تعمیری پیغام ہے۔ یہ صرف ایک سماجی معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک تحریک ہے۔ سب سے زیادہ نظام کے عہدیداروں کو اس تحریک سے وابستہ ہونا چاہئے۔ ہم میں سے ہر ایک کو جو اس نظام میں عہدیدار ہیں، اس تحریک میں آگے ہونا چاہئے۔ البتہ تمام افراد ذمہ دارہیں مگر ہماری خصوصیت یہ ہے کہ جم غفیر کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے اور اس سے ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے یوم ولادت پر خطاب

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے یوم ولادت پر خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 23 آذر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 14 دسمبر سنہ 1994 عیسوی کو نویں امام حضرت محمد تقی علیہ السلام کو یوم ولادت با سعادت پر اپنے خطاب میں عالم اسلام کے اہم مسائل پر روشنی ڈالی۔ آپ نے بوسنیا ہرزےگووینا، فلسطین، چیچنیا اور کشمیر کے حالات کا ذکر کیا اور سامراجی ممالک کی سازشوں اور سرگرمیوں کی نشاندہی فرمائی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں مرجع تقلید کے انتخاب کے مسئلے میں مغربی ممالک کی جانب سے جاری زہریلے پروپیگنڈے کا تجزیہ کیا، آپ نے فرمایا کہ میں نے امریکا میں ایک واقعے کے بارے میں ایک کتاب پڑھی ہے۔ یہ بالکل صحیح اور مستند کتاب ہے۔ یہ کتاب عجیب وغریب اور حیرت انگیز حقائق بیان کرتی ہے کہ کسی عہدے کے حصول کے لئے مختلف گروہوں کے درمیان کس طرح جنگ ہوئی ہے۔ سمجھتے ہیں یہاں بھی اسی طرح کا ماحول ہے۔ مرجعیت بھی اسی طرح ہے۔ نہیں جناب آپ غلط سمجھے ہیں۔ یہاں مرجعیت کے لئے کوئی جنگ نہیں ہے۔ کوئی لڑائی نہیں ہے۔ یہاں ایسی ہستیاں موجود ہیں جو قابلیت اور صلاحیت کے باوجود اپنا نام پیش کرنا پسند نہیں کرتیں۔ اسی طرح تیس چالیس سال گذر جاتے ہیں۔ پھر لوگ ان کی فکر کرتے ہیں، ان کے پاس جاتے ہیں، ان سے اصرار کرتے ہیں، کافی اصرار کے بعد اپنا رسالہ عملیہ چھاپتے ہیں۔
حضرت زینب کے یوم ولادت پر نرسوں کے اجتماع سے خطاب

حضرت زینب کے یوم ولادت پر نرسوں کے اجتماع سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 20 مہر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 12 اکتوبر سنہ 1994 عیسوی کو ثانی زہرا حضرت زینب سلام اللہ علہیا کے یوم ولادت اور نرس ڈے کی مناسبت سے ملک کی نرسوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ نرس کا پیشہ اہم ترین پیشوں اور خدمات میں سے ایک ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں ہر شعبے میں عورتوں کی بھرپور شراکت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہماری خواتین میدان جنگ میں بھی آئیں، تعمیرنو کے میدان میں بھی آئیں، ذہنی قوتیں دکھانے کے میدان میں بھی آئیں اور سب سے زیادہ فعال رہیں۔ جن ہستیوں نے دشمن کے گوناگوں پروپیگنڈوں کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت اور اسقتامت کا مظاہرہ کیا، وہ ہمارے ملک کی خواتیں ہیں۔ ہمارے دشمن اپنے پروپیگنڈوں میں، مختلف تنقیدوں کی شکل میں، رائی کا پہاڑ بناتے ہیں، چھوٹے سے مسئلے کو دس گنا بڑھاکر اس ریڈیو سے اور اس ریڈیو سے بیان کرتے ہیں۔ افسوس کہ خود ہمارے بعض بکے ہوئے قلم جنہیں انقلاب سے خدا واسطے کا بیر ہے، اس جریدے میں اور اس میگزین میں ان باتوں کو لکھتے ہیں۔ بعض پمفلٹ چھاپتے ہیں اور بعض آشکارا جریدوں میں لکھ کے پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو پیسہ دیتے ہیں کہ کسی چیز اور بس کی لائن میں کھڑے ہوکر برا بھلا کہیں۔ یہ پیسہ افواہ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اس ماحول میں ہماری خواتین نے زیادہ استقامت دکھائی ہے۔ الحمد للہ ان مومن خواتین کی تعداد، دشمنوں کی آنکھیں اندھی ہو جائیں، بہت زیادہ ہے۔
سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے خطاب

سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 11 آبان 1373 ہجری شمسی مطابق 2 نومبر سنہ 1994 عیسوی کو سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کے موقعے پر یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے طلبہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کیا۔ ایران میں تیرہ آبان مطابق چار نومبر کا دن سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس مناسبت سے اپنے خطاب میں چار جون کی رونما ہونے والے اہم ترین واقعات پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج میں سامراج کے خلاف جدوجہد کے تعلق سے ایک بات عرض کروں گا تا کہ معلوم ہو جائے کہ مسئلہ کیا ہے؟ ‍قضیے کی بنیاد کیا ہے؟ اس مسئلے کا ماضی میں تسلسل کہاں تک ہے؟ یہ صحیح ہے کہ ان دنوں، یونیورسٹی طلبا نے ایران میں امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضہ کیا تھا۔ مگر آج کی نوجوان نسل، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا جو میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، امیدوں کو باقی رکھا ہوئے ہیں اور ہماری آنکھوں کو روشن کر رہے ہیں، وہ اس قضیے کے ماضی کے بارے میں کیا جاتنے ہیں؟ ان کی معلومات کتنی ہیں؟ خطیبوں، قلمکاروں اور ان لوگوں نے جو اس الہی سیاست کے میدان میں، اپنے دوش پر ذمہ داری اٹھانے کے قائل ہیں، ان لوگوں نے ہماری اس ترقی پذیر نسل کے لئے، جس سے ملک کو ہزاروں کام ہیں، اس مسئلے کی کتنی تشریح کی ہے؟ بنابریں ایک مسئلہ یہ ہے۔ میں آج تھوڑا سا اس بارے میں خاص طور پر ان نوجوانوں کے لئے عرض کروں گا، جو انیس سو اناسی میں یعنی آج سے پندرہ سال قبل بچے تھے اور ہمارے بہت سے اسکولی طلبا اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس مسئلے کے بیان کے بعد آپ کی خدمت میں جو انقلاب اور اس کے ہم جیسے خادمین کے سب سے زیادہ مضبوط اور باقی رہنے والے مخاطبین ہیں، ایک انتہائی بنیادی بات عرض کروں گا۔
کیڈٹ یونیورسٹی کی تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب

کیڈٹ یونیورسٹی کی تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 13 مہر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 5 اکتوبر سنہ 1994 عیسوی کو کیڈٹ یونیورسٹی کی تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے کیڈٹ یونیورسٹیوں کی اہمت اور گراں قدر کارکردگی پر روشنی ڈالی اور کیڈٹس کے اسلامی و قومی فرائض کی تشریح کی۔ آپ نے دفاعی شعبے میں خودانحصاری پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم فوج، سپاہ پاسداران انقلاب، مسلح افواج اور پولیس پر توجہ دیتے ہیں، ان کے امور کو دیکھتے ہیں، وہ اسلامی جمہوری نظام کے باشرف ترین اراکین ہیں۔ مگر ہماری کوشش یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے، اس عظیم فوج کا سرحد کے اس پار کی دنیا سے انحصار کم سے کم کریں۔ لہذا ہماری بیرونی خریداری خلیج فارس کے ساحلی ملکوں سے بہت کم ہے جو ایران کے ایک ضلع کے برابر بھی سربلند اور بڑے نہیں ہیں۔ ان کے ہاں امپورٹڈ ساز و سامان ہم سے بہت زیادہ ہے اور وہ بھی بیکار کی چیزیں خریدتے ہیں۔ کیا جنگی وسائل، ہوائی جہاز اور ٹینک کسی ملک کو بچا سکتے ہیں؟ عزم و ارادے اور انسان ہیں جو اپنے وطن، اپنی اقدار اور قوم کا دفاع کرنے پر قادر ہیں۔ وہ اپنی غلط سیاست اور حکومتوں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے اس عظیم عنصر سے محروم ہیں۔ مسلسل پیسے خرچ کرتے ہیں اسلحے بنانے والے کارخانوں کو دیوالیہ ہونے سے نجات دلاتے ہیں مگر اپنی قوم اور علاقے کے نقصان میں۔ اس کے باوجود ان کی اور ان کے فریبی آقاؤں کی فریاد بلند ہو رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران عسکریت پھیلا رہا ہے۔
حج کمیٹی کے کارکنوں اور عہدیداروں سے خطاب

حج کمیٹی کے کارکنوں اور عہدیداروں سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 31 اردیبہشت سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 20 اپریل سنہ 1994 عیسوی کو حج کمیٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں سے ملاقات میں حج کے رموز پر گفتگو کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خداوندعالم تمام مسلم اقوام میں سے ایک جماعت کو دعوت دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ آؤ ان معین ایام میں ایک دوسرے کے ساتھ رہو۔ ثم افیضوا من حیث افاض الناس سب مل کر چلو۔ مل کر فیض حاصل کرو۔ سب مل کر طواف کرو۔ یہ ہمہ گیر اجتماع کس لئے ہے؟ دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، کیا کرنے کے لئے؟ جمع ہوں اور خاموشی سے ایک دوسرے کی صورت دیکھیں اور چند دنوں کے بعد اپنے اپنے وطن واپس لوٹ جائیں؟ ایک جگہ کیوں جمع ہوتے ہیں؟ اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ اپنے اختلاف بیان کریں؟ اکٹھا ہونے کا مقصد کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ تمام مسلم اقوام کے افراد کا ایک جگہ اور وہ بھی ایک مقدس جگہ پر جمع ہونے کا صرف یہ فائدہ اور مقصد ہو سکتا ہے کہ ایک جگہ جمع ہوں تاکہ امت اسلامیہ کی سرنوشت کے بارے میں اہم فیصلے کریں اور اس مجمع میں امت کی حیثیت سے ایک اچھا قدم اٹھائیں اور تعمیری اور مثبت کام کریں۔ یہ مثبت اور تعمیری کام کس کیفیت کا ہو سکتا ہے؟ اس کیفیت کا کہ ایک زمانے میں مسلم اقوام اتنی ترقی یافتہ ہوں - دعا ہے کہ وہ دن جلد آئے- جب حج میں جمع ہوں اور اس عظیم عوامی اجتماع کے دوران، اقوام کے منتخب افراد کی ہزاروں افراد پر مشتمل اسمبلی تشکیل پائے اور یہ اسمبلی فیصلے کرے اور یہ فیصلے اسی عوامی اجتماع میں مختلف ملکوں سے آنے والے تمام عازمین حج کے ذریعے منظور کئے جائیں اور پھر عمل درآمد کے لئے اقوام اور حکومتوں کے حوالے کئے جائیں۔