بسم‌ الله ا‌لرّحمن ‌الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و علی صحبه المنتجبین و علی من تابعهم باحسان الی یوم الدّین.

سرور کائنات، کل عالم وجود کے سردار مخلوقات، پیغمبر ختمی مرتبت حضرت محمد بن عبد اللہ اسی طرح فرزند رسول اور روئے زمین پر حجت خدا حضرت ابو عبد اللہ الصادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم سب کو، تمام مسلمین کو اور دنیا کے تمام روشن فکر افراد کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان نعمتوں کی قدر و قیمت کو پہچانیں اور ان عظمتوں کا ادراک کریں، انھیں سمجھیں اور یہ کوشش کریں کہ عالم وجود کے ان ستونوں نے جو صراط مستقیم ہمیں دکھایا ہے اس پر گامزن ہوں۔ 
پیغمبر اکرمۖ کی ذات مقدس کی وجودی اہمیت اس قدر ہے کہ اللہ تعالی نے بشریت کو یہ نعمت عطا فرمائی تو ساتھ ہی ساتھ احسان جتاتے ہوئے فرمایا؛ لَقَد مَنَّ اللّهُ عَلَی المُؤمِنینَ اِذ بَعَثَ فیهِم رَسولًا مِن اَنفُسِهِم.(2) امام زین العابدین علیہ الصلاۃ و السلام صحیفہ سجادیہ میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں فرماتے ہیں؛ اَلحَمدُ لِلّهِ الَّذی مَنَّ عَلَینا بِمُحَمَّدٍ نَبیِّه دونَ الاُمَمِ الماضیَة وَ القُرونِ السّالِفَة.(3) بشریت کو یہ عظیم عطیہ دیکر اللہ تعالی نے احسان فرمایا ہے، یہ نکتہ قرآن کریم اور ائمہ معصومین کے فرامین میں بڑی صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے جو بڑی با عظمت بات ہے۔ «رَحمَةً لِلعٰلَمین» (4) پیغمبر اکرم کی یہ توصیف اللہ تعالی نے فرمائی ہے۔ صرف «لِفِرقَةٍ مِنَ البَشَر» (بشر کی ایک جماعت کے لئے) یا «لِجَمعٍ مِنَ العالَمین» (عالمین میں کچھ لوگوں کے لئے) نہیں کہا، رَحمَةً لِلعٰلَمین؛ فرمایا، سب کے لئے رحمت ہیں۔ پیغمبر اکرم اللہ تعالی کی جانب سے جو پیغام لائے ہیں وہ بشریت کو عطا کر رہے ہیں، یہ بصیرت، یہ صراط مستقیم انھوں نے تمام انسانوں کو دیا ہے۔ 
البتہ ایسے صاحبان قدرت اور صاحبان زور و زر بھی ہیں جو نہیں چاہتے کہ رحمت الہیہ کے اس دسترخوان سے عوام الناس مستفیض ہوں۔ وہ بڑی سختی کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں اور اس ملکوتی عمل کا سد باب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالی فرماتا ہے؛ یٰاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّهَ وَ لا تُطِعِ الکٰفِرینَ وَ المُنٰفِقین‌ (5) ان کے پیچھے نہ جاؤ، محتاط رہو، دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے؛ یٰاَیُّهَا النَّبِیُّ جٰهِدِ الکُفّارَ وَ المُنٰفِقینَ وَ اغلُظ عَلَیْهِم‌ (6) اے پیغمبر کفار و منافقین سے جہاد کرو۔ فرمایا ہے «جاهِد» یہ نہیں فرمایا؛ «قاتِل»؛ «قاتِلِ الکُفّارَ وَ المُنافِقین» کیونکہ قتال ہمیشہ ضروری نہیں ہوتا لیکن جہاد ہمیشہ جاری رہنا چاہئے۔ 
کبھی جہاد سیاسی ہوتا ہے، کبھی جہاد ثقافتی ہوتا ہے، کبھی جہاد نرم جنگ کی شکل میں ہوتا ہے، کبھی جہاد مسلحانہ جنگ کی صورت میں ہوتا ہے، کبھی جہاد ہتھیاروں سے کیا جاتا ہے، کبھی جہاد علم کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ سب جہاد کی قسمیں ہیں لیکن ان تمام روشوں میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جہاد دشمن کے خلاف کیا جا رہا ہے، بشریت کے دشمن کے خلاف یہ جہاد کیا جاتا ہے، یہ جہاد ان دشمنوں کے خلاف کیا جاتا ہے جو اپنی طاقت اور دولت کی مدد سے اپنے آپ کو اور اپنی خواہشات کو تمام بشریت پر مسلط کر دینا چاہتے ہیں۔ ایسے دشمنوں سے مفاہمت بے معنی ہے۔ اِتَّقِ اللّهَ وَ لا تُطِعِ الکٰفِرینَ وَ المُنٰفِقین.
پیغمبر کے بارے میں اور پیغمبر اکرم کے ذریعے دی جانے والی تعلیمات کے بارے میں، جدید اسلامی معاشرے کی تعمیر کے بارے میں قدم قدم پر پیغمبر اکرم کو ہدایات دینے والی قرآن کی آیات کریمہ بہت زیادہ ہیں۔ ہماری سفارش خود اپنے لئے، اپنے نوجوانوں کے لئے، دینی مبلغین کے لئے اور ان افراد کے لئے جو رائے عامہ تشکیل دینے میں موثر ہیں، یہی ہے کہ ان تمام آیات سے رجوع کریں، قرآن کریم میں ان مفاہیم کا جائزہ لیں، یہ ایک مجموعہ ہے، یہ ایک کامل مجموعہ ہے۔ ہمارے ساتھ مشکل یہی ہے کہ ہم پیغمبر اکرم کو مخاطب قرار دیکر جو الہی تعلیمات دی گئی ہیں اور پیغمبر اکرم کی جو توصیف اللہ تعالی نے فرمائی ہے اس سے غافل رہتے ہیں۔ اگر یہ کامل مجموعہ ہماری نظروں کے سامنے رہے تو وہی صائب روش اور وہی صراط مستقیم جسے پیغمبر اکرمۖ نے اپنایا، ہمارے سامنے نمایاں ہو جائے گا۔ اِنَّکَ عَلیٰ صِراطٍ مُستَقیم (7) اس صراط مستقیم کو ہمیں تلاش کرنا ہوگا۔
چونکہ اس نشست میں ہمارے وطن عزیز سے اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے برادران و خواہران گرامی، وحدت اسلامی کانفرنس (8) کے معزز مہمان، اسلامی ملکوں کے محترم سفرا جن کا تعلق مختلف اسلامی مسلکوں، تشیع، تسنن، گوناگوں مکاتب فکر سے ہے، تشریف فرما ہیں، لہذا میں اس نشست میں جو بات عرض کرنا مناسب اور ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ بردران عزیز! خواہران گرامی! آج دنیائے اسلام بڑی سخت آزمائشوں میں مبتلا ہے اور ان مشکلات کی راہ حل اسلامی اتحاد ہے۔ اتحاد، امداد باہمی، ایک دوسرے سے تعاون، فکری و مسلکی اختلافات سے آگے بڑھ جانا۔ آج عالم اسلام کے بارے میں استکبار اور استعمار کی سوچ یہ ہے کہ دنیائے اسلام کو جہاں تک ممکن ہو اتحاد سے محروم رکھا جائے۔ مسلمانوں کا اتحاد ان طاقتوں کے لئے ایک خطرہ ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمان، بے پناہ وسائل کے مالک اتنے سارے اسلامی ممالک، یہ غیر معمولی افرادی قوت، اگر یہ عظیم مجموعہ متحد ہو جائے اور اتحاد کے ساتھ اسلامی اہداف کی جانب بڑھنے لگے تو دنیا کی طاقتیں رجز خوانی نہیں کر پائیں گی۔ امریکا دیگر ملکوں، حکومتوں اور قوموں پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر پائے گا، خبیث صیہونی نیٹ ورک گوناگوں حکومتوں اور طاقتوں کو اپنے پنجہ اقتدار میں نہیں جکڑ پائے گا اور انھیں اپنے مقصد اور ہدف کے تحت استعمال نہیں کر پائے گا۔ اگر مسلمان متحد ہو جائیں تو یہ حالات ہوں گے۔
اگر مسلمان متحد رہیں تو فلسطین کی حالت یہ نہیں رہے گی جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ آج فلسطین کی حالت بہت سخت ہے۔ غزہ کی حالت دگرگوں ہیں، غرب اردن کی حالت بھی الگ اعتبار سے خراب ہے۔ ملت فلسطین آج روزانہ کی بنیاد پر سختیاں برداشت کر رہی ہے۔ دشمن چاہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین ہمارے ذہنوں سے مٹ جائے، بالکل بھلا دیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مغربی ایشیا کا علاقہ، یہی علاقہ جس میں ہمارے ممالک شامل ہیں اور جو غیر معمولی اسٹریٹیجک اہمیت رکھتا ہے، یعنی جغرافیائی اعتبار سے بھی، قدرتی وسائل کے اعتبار سے بھی اور آبی گزرگاہوں کے اعتبار سے بھی یہ بے حد حساس علاقہ ہے، یہ اپنے مسائل میں بری طرح الجھا رہے۔ مسلمان ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے نظر آئیں، ایک عرب دوسرے عرب کے سامنے کھڑا ہو اور ایک دوسرے پر حملہ کریں، ایک دوسرے کو نابود کریں، تاکہ مسلمان ممالک کی افواج، خاص طور پر صیہونیوں کے پڑوس میں واقع ملکوں کی افواج روز بروز کمزور ہوتی جائیں، یہ ان کا اہم ہدف ہے۔ 
اس وقت اس خطے میں دو ارادے ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ ایک ارادہ اتحاد کا ارادہ ہے اور دوسرا تفرقہ و اختلاف کا ارادہ ہے۔ اتحاد کا ارادہ مومنین کا ہے۔ بااخلاص گلوں سے مسلمانوں کے اتحاد و انسجام کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور مسلمانوں کو اشتراکات کی بنیاد پر متحد ہو جانے کی دعوت دیتی ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے اور یہ اتحاد قائم ہو جائے تو مسلمانوں کی آج جو حالت زار ہے وہ ایسی نہیں رہے گی، مسلمانوں کو وقار حاصل ہوگا۔ آج آپ غور کیجئے کہ ایشیا کے مشرقی ترین علاقوں سے لیکر جہاں میانمار میں مسلم کشی ہو رہی ہے، مغربی افریقا کے نائیجیریا جیسے ممالک تک ہر جگہ مسلمان قتل کئے جا رہے ہیں۔ کہیں وہ بودھ مذہب کے لوگوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں، کہیں بوکو حرام اور داعش جیسی تنظیموں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو اس آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔ 'برٹش شیعہ' اور 'امریکی سنی' یکساں ہیں۔ یہ سب چاقو کی دو دھاروں کی مانند ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کریں، یہ تفرقہ کے ارادے کی آواز ہے جو شیطانی آواز ہے۔ اتحاد کا پیغام یہ ہے کہ سب لوگ اختلافات سے آگے بڑھ جائیں اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں اور مل کر کام کریں۔
اگر آج آپ استکباری قوتوں اور قوموں کی ابلاغیاتی فضا پر قابض قوتوں کے بیانوں پر غور کریں تو پائیں گے کہ ان میں تفرقے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ قدیم زمانے سے انگریزوں کی سیاست کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ بانٹوں اور راج کرو کی سیاست ہے، تفرقہ پھیلا کر مالک بن جاؤ، جب برطانیہ کی طاقت اپنے اوج پر تھی تو یہ اس کی پالیسی تھی، آج یہی پالیسی موجودہ دور کی طاقتوں نے اپنا رکھی ہے۔ خواہ وہ امریکا ہو یا خود برطانیہ جس نے حال میں پھر اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ برطانیہ ہمارے علاقے میں ہمیشہ شر انگیزی کا سرچشمہ رہا ہے، ہمیشہ قوموں کی بدبختی کی وجہ بنتا رہا ہے، اس علاقے میں قوموں کی زندگی کو جو نقصان اس نے پہنچایا ہے، دنیا کے کسی دوسرے علاقے میں کسی بڑی طاقت سے قوموں کو شاید اتنا نقصان نہ پہنچا ہو۔ بر صغیر ھند میں جو آج ہندوستان، بنگلادیش اور پاکستان پر مشتمل ہے، الگ انداز سے نقصان پہنچایا، لوگوں پر سختیاں برتیں۔ افغانستان میں الگ انداز سے، ایران میں الگ انداز سے، عراق کے علاقے میں ایک الگ طریقے سے، فلسطین میں تو خیر وہ خباثت آلود اور شوم حرکت کر گزرے اور مسلمانوں کو، پوری ایک ملت کو انھوں نے آوارہ وطن کر دیا، لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا۔ کئی ہزار سال سے تسلیم شدہ ایک تاریخی ملک جس کا نام فلسطین ہے، برطانیہ کی سیاست کی نذر ہو گیا۔ اس علاقے میں دو ہزار سال یا دو ہزار سال سے کچھ کم تقریبا اٹھارہ سو سال سے لیکر ادھر برطانیہ نے جو کچھ کیا ہے وہ خالص شرانگیزی اور فتنہ و فساد تھا۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد وہ برطانوی عہدیدار (9) یہاں آکر اپنے بیان میں کہتی ہے کہ ایران علاقے کے لئے خطرہ ہے۔ علاقے کے لئے خطرہ ایران ہے؟ کوئی انتہائی بے شرم آدمی ہوگا تبھی علاقے کے لئے ایک طویل عرصے تک بدبختی اور خطرات و مشکلات پیدا کرنے کے بعد آکر ہمارے مظلوم وطن عزیز پر اس طرح الزام عائد کرے گا۔ یہ انگریز اسی قماش کے افراد ہیں۔
جب سے اس علاقے میں اسلامی بیداری کے آثار نمایاں ہوئے ہیں، اس وقت سے تفرقہ انگیزی کی کوششیں بھی تیز ہو گئی ہیں۔ انگریز تفرقے کو قوموں پر مسلط ہو جانے کا موثر حربہ سمجھتے رہے ہیں۔ جیسے ہی محسوس ہوا کہ علاقے میں نئی باتیں، نئے اسلامی افکار، قوموں کی استقامت، قوموں کی انگڑائی و بیداری نظر آنے لگی ہے، دشمنوں نے تفرقہ انگیزی کی کوششیں بھی تیز کر دی ہیں۔ جب ایران میں اسلامی نظام اپنے پیروں پر کھڑا ہو گيا، جس نے پرچم اسلام لہرایا، جس نے قرآن اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور فخریہ اعلان کر دیا کہ ہم اسلام پر عمل کریں گے، جس کے پاس طاقت بھی تھی، سیاست بھی تھی، وسائل بھی تھے، فوج اور مسلح فورسز بھی تھیں، جس کے پاس یہ سب کچھ تھا اور اس نے ان سب کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور روز بروز ان وسائل میں نیا اضافہ ہونے لگا تو تفرقہ انگیزی کی یہ کوششیں بہت تیز ہو گئیں۔ دشمنوں نے اس اسلامی تحریک اور اسلامی وقار کا مقابلہ کرنے کے لئے اختلافات کی آگ بھڑکانے کی اپنی کوششیں تیز کر دیں۔ اسلام ان کے لئے خطرہ تھا۔ جو اسلام قوموں کو بیدار کرے وہ ان کے لئے خطرہ ہے۔ اگر اسلام ہے لیکن اس کے پاس نہ حکومت ہے، نہ فوج ہے، نہ سیاسی ادارہ ہے، نہ پیسہ ہے، نہ عظیم مجاہد قوم ہے، تو یہ ایک الگ صورت حال ہے جبکہ اسلام کے پاس یہ تمام وسائل ہوں تو بالکل الگ صورت حال ہوتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے پاس وسیع سرزمین، مجاہد قوم، جوش و جذبے سے بھری ہوئي مومن اور نوجوان افرادی قوت، زیر زمین ذخائر، دنیا کی اوسط سطح سے زیادہ بلند استعداد اور علم و پیشرفت کی جانب مرکوز پیش قدمی ہے۔ یقینا ایسا ایران ان دشمنوں کی نظر میں ایک خطرہ ہے۔ اس لئے کہ وہ مسلم اقوام کے لئے نمونہ عمل بن جائے گا، اسی وجہ سے وہ اس سے دشمنی کا برتاؤ کر رہے ہیں۔ اگر وہ کبھی نرمی برتنے کا دعوی کریں تو وہ دعوی جھوٹا ہے، ان کے تمام اقدامات کا باطنی پہلو تشدد آمیز ہے۔ ان چیزوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے، انھیں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ جو دشمن اخلاقیات سے اور دین سے بے بہرہ ہے، جس کے پاس انصاف نہیں ہے، جو اپنا ظاہری روپ تو سنوار لیتا ہے لیکن بباطن ایک حقیقی درندہ ہوتا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے قوموں کو ہمیشہ تیار رہنا چاہئے۔ 
ہماری نظر میں آج سب سے اہم تیاری ہے اتحاد بین المسلمین۔ مسلمان اختلافات پیدا کرنے کی طرف سے بہت ہوشیار رہیں، اس سلسلے میں شیعہ اور سنی فرقوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام اسلامی فرقوں کو چاہئے کہ اپنے فکری اختلافات کو بے شمار اشتراکات پر توجہ مرکز کرتے ہوئے، نظر انداز کریں اور ان سے چشم پوشی کریں۔ پیغمبر اکرم کا مقدس وجود، تمام مسلم اقوام کی محبت و عقیدت کا محور و مرکز ہے۔ پیغمبر سے سب محبت کرتے ہیں، یہ نقطہ اجتماع ہے، یہی اصلی مرکز ہے۔ قرآن تمام مسلمانوں کی توجہ اور عقیدت کا محور ہے۔ کعبہ شریف کا بھی یہی عالم ہے، تو مسلمانوں کے اشتراکات کتنے زیادہ ہیں؟! مسلمانوں کو چاہئے کہ ان اشتراکات پر توجہ دیں، علاقے میں دشمنوں کے آلہ کاروں اور استکبار کے مہروں کو پہچانیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ یہ کھلا ہوا دشمن آکر ہم سے کہتا ہے کہ تم لوگ آپس میں دشمن ہو، فلاں ملک تمہارے لئے خطرہ ہے۔ یعنی تم ان کے دشمن ہو اور وہ تمہارے دشمن ہیں۔ جو اس طرح کی باتیں کر رہا ہے وہ تو دشمن ہے، ظاہر ہے وہ یہی کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس کی باتیں سن رہے ہیں، جو اسلامی شکل و شمائل کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو اسلامی زندگی کہتے ہیں اور اسلام کے نام پر حکومت کر رہے ہیں وہ اس عہدیدار کی بات کیوں قبول کرتے ہیں؟ اس کی بات کی تصدیق کیوں کرتے ہیں؟ آخر علاقے کی بعض حکومتوں کی روش اسلام کے صریحی دشمنون اور امت اسلامیہ کے صریحی دشمنوں کی پیروی کی روش کیوں رہے؟
میں اپنی قوم سے، عزیز ملت ایران سے یہ عرض کروں گا کہ واقعی اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے بعد کے ان برسوں میں، اسی طرح اس جدو جہد کے زمانے میں جو آخرکار اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اور اسلامی انقلاب کی کامیابی پر منتج ہوئی، یہ قوم امتحانوں سے سرخرو ہوکر باہر نکلی ہے، عوام کو چاہئے کہ اس راستے کو جو ہمارے عظیم قائد امام خمینی کا راستہ ہے اور انقلاب کا راستہ ہے، ہرگز ترک نہ کریں، اسی راستے پر گامزن رہیں۔ دنیاوی وقار اور آخرت میں عزت کا یہی راستہ ہے، قرآن و عترت سے تمسک کا راستہ، احکام الہیہ سے تمسک کا راستہ، دشمنوں کے مقابلے میں ثابت قدمی سے ڈٹ جانے کا راستہ، حقیقت کو برملا بیان کرنے میں کسی رواداری اور تکلف میں نہ پڑنے کا راستہ، حقیقت کے دفاع کا راستہ، یہ وہ راستہ ہے کہ جس پر ہماری قوم چلتی رہی، بحمد اللہ اب تک وہ اسی راستے پر رواں دواں رہی ہے، ملک کے عہدیداران کے پیچھے اسی سمت میں گامزن رہی ہے اور اس نے یہ پرافتخار راستہ اب تک طے کیا ہے، اگر قوم اسی راستے پر آئندہ بھی چلتی رہی اور یہ جدوجہد اسی طرح جاری رہی تو اس قوم کی دنیا و آخرت سنور جائے گی اور دنیا کے دوسرے مسلمان بھی اس سے مستفید ہوں گے۔ ہم تمام مسلمان حکومتوں اور مسلم ممالک کو آپس میں ایک دوسرے کی مدد کی دعوت دیتے ہیں اور یہ دعوت سب کے فائدے میں ہے۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ خداوند عالم تمام امت اسلامیہ، تمام اسلامی ممالک اور تمام اسلامی اقوام پر خیر و رحمت و برکت نازل فرمائے اور اس علاقے کو دشمنوں کے شر سے محفوظ بنائے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

۱) رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے تقریر کی۔ 
2) سوره‌ آل عمران، آیت نمبر ۱۶۴ کا ایک حصہ؛ « بے شک اللہ نے مومنین پر احسان فرمایا کہ ان کے لئے خود ان کے درمیان سے ایک پیغمبر مبعوث کیا۔»
3) صحیفه‌ سجّادیّه، دعائے دوّم « ساری ستائش اس اللہ کے لئے جس نے اپنے نبی محمد (کو ہمارا نبی بنا کر) ہم پر احسان کیا جبکہ ماضی کی امتوں پر یہ احسان نہیں کیا،»
4) سوره‌ انبیاء، آیت نمبر ۱۰۷ کا ایک حصہ « عالمین کے لئے رحمت ہیں۔»
5) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۱؛ «اے پیغمبر اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کے حکم کی تعمیل نہ کرو»
6) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۷۳ کا ایک حصہ «اے پیغمبر کفار و منافقین سے جہاد کرو اور ان سے سختی کرو»
7) سوره‌ زخرف، آیت نمبر ۴۳ کا ایک حصہ «...تم راہ راست پر ہو»
8) تہران میں منعقدہ تیسویں وحدت اسلامی کانفرنس جو مورخہ 15 دسمبر 2016 سے 17 دسمبر 2016 تک چلی۔ 
9) برطانوی وزیر اعظم تھیریزا مے کی بحرین میں منعقدہ خلیج فارس تعاون کونسل کی تقریر کی جانب اشارہ ہے۔