بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم

والحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

عزیز بھائیو اور بہنو! کام اور محنت سے وابستہ صنف، محنت کش طبقہ، چنندہ محنت کش افراد، سرمایہ کار، متعلقہ حکومتی عہدیداران! آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس سال سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کا یوم ولادت یوم محنت کشاں سے متصل ہے۔ اسے ہمیں فال نیک سمجھنا چاہئے، ان شاء اللہ ہم صحیح راستے کی تلاش اور صحیح راستے پر گامزن ہونے کے لئے سید الشہدا کی پاکیزہ روح سے کسب فیض کریں گے اور در پیش مشکلات کو حل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ میں کام اور محنت کش طبق کے بارے میں، اسی طرح اس اہم موضوع کے ذیلی موضوعات کے بارے میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہوں گا اور چند جملے بعض دیگر متعلقہ مسائل کے بارے میں جو ہماری اور آپ کی دلچسپی کے امور ہیں، عرض کروں گا۔

خوش قسمتی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام سے ہماری قوم کا عشق و محبت بالکل نمایاں ہے، آپ کے یوم ولادت با سعات کے موقع پر بھی اور اسی طرح آپ کے یوم شہادت اور چہلم کے موقع پر بھی لوگ حقیقتا سید الشہدا کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ  ہمارے لئے بہت بڑا افتخار ہے۔ یہ محبت اور یہ معرفت ہماری قوم کے لئے ایک بڑا افتخار ہے۔

یوم محنت کشاں کے موقع پر محنت کش طبقے کے مسائل پر بھی غور کیا جانا چاہئے یعنی خود محنت کش طبقے کے موضوع پر توجہ دینا ضروری ہے اور ساتھ ہی روزگار کے مسئلے کا جائزہ لینا بھی بہت ضروری ہے جس کا ایک پہلو محنت کش طبقے سے متعلق ہے۔ اس لئے کہ روزگار کا مسئلہ وطن عزیز کے سامنے بہت اہم مسائل میں سے ایک ہے جسے حل کیا جانا چاہئے۔

اگر محنت کش طبقے کی بات کی جائے تو اس طبقے کی اہمیت کے بارے میں سب نے بارہا الگ الگ انداز سے بہت کچھ بیان کیا ہے۔ اگر کوئی ملک پیشرفتہ معیشت کا مالک بننا چاہتا ہے، اگر خود کفیل معیشت کا مالک بننا چاہتا ہے، حقیقی معنی میں اقتصادی ترقی چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ محنت کش طبقے کو اہمیت دے، اس لئے کہ محنت کش طبقہ ملک کے اندر کام اور پیداواری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ہم نے قومی پیداوار کے مسئلے کو حالیہ عرصے میں پرچم کی طرح بلند کر رکھا ہے اور ہم بار بار اس پر تاکید کر رہے ہیں تو اس کا ایک بڑا حصہ محنت کش طبقے سے مربوط ہے۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ ہمارا محنت کش طبقہ ان حقوق اور مراعات سے بہرہ مند ہو جو اس کے شایان شان ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم داخلی پیداوار پر خاص توجہ دیں۔ اگر معاشرے کے اندر محنت کش طبقہ روزگار میں مصروف ہو گيا اور ان لوازمات اور تقاضوں کو ملحوظ رکھا گيا جن کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں اور اس وقت بھی اختصار کے ساتھ کچھ چیزیں بیان کروں گا، تو ملکی معیشت کی حالت میں بہبودی پیدا ہوگی۔ ہماری اقتصادی مشکلات ایسی نہیں ہیں جو حل نہ ہو سکیں، کوئی ایسی مشکل در پیش نہیں ہے جس کا حل موجود نہ ہو، کوئی ایسی گرہ نہیں ہے جسے وا کرنا ممکن نہ ہو۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ صحیح راستہ تلاش کیا جائے، اس کے بعد ہم ہمت و حوصلے سے کام کریں، محنت کریں، اسی طرح عہدیداران بھی محنت کریں۔

اس مسئلے میں ایک بنیادی اور کلیدی کام ملک کے محنت کش طبقے پر توجہ دینا اور اس کا خیال رکھنا ہے، اس طرح سے کہ محنت کش طبقہ محسوس کرے کہ اسے عزت دی جا رہی ہے، اس کا احترام کیا جا رہا ہے، اسے محسوس ہو کہ اس کی قدردانی ہو رہی ہے، اس کے تعاون کی قدردانی ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو کام سے ہونے والی تھکن، کام کے تعلق سے بے رغبتی، کام سے بے اعتنائی جیسی مشکلات خود بخود ختم ہو جائیں گی اور سارے کام بنحو احسن انجام پائیں گے۔ اس کے لازمی تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم کام کرنے اور جفاکشی کے کلچر کی ترویج کریں، محنت کرنے کی اہمیت کو عام کریں۔ بے شک ایسے افراد بھی ہیں جو کام کا شوق رکھتے ہیں لیکن انھیں روزگار نہیں مل پاتا، مگر ایسے افراد بھی ہیں جنھیں بے کار پڑے رہنا برا نہیں لگتا! تو ہمیں کام کرنے اور محنت و مشقت کا کلچر عام کرنا چاہئے، سماج میں کام کی اہمیت اور کام کی قدر و قیمت کی  ترویج کرنا چاہئے۔ ایسا ماحول بنے کہ عوام کی نگاہ میں کام کو اس کا صحیح مقام حاصل ہو، اس کو مناسب جگہ ملے۔ یہ ضروری عمل ہے۔ کام کرنا اپنے آپ میں اہمیت کا حامل ہے، وہ کام کیا ہو؟ یہ سوال دوسرے  نمبر پر آتا ہے۔ یہ کہ ہم کہیں کہ ہمیں یہ کام نہیں کرنا ہے وہ کام چاہئے! یہ مسئلہ دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ پہلا مسئلہ کام اور محنت سے دلچسپی اور لگاؤ کا ہے۔ معاشرے میں اس کی  ترویج ہونا چاہئے اور اسے اقدار میں شامل کیا جانا چاہئے۔ جب محنت کش طبقے کا کوئی شخص کہے کہ میرا  تعلق اس طبقے سے ہے تو فخریہ یہ بات کہے، اسے کسی حقارت کا احساس نہ ہو۔ امر واقعہ بھی یہی ہے۔ اگر ہم ساری دنیا کی ثروت ایک جگہ پر جمع کر دیں، ساری دنیا کا پیسہ ایک جگہ جمع کر دیں، مگر محنت کش طبقہ موجود نہ ہو تو بے سود ہے۔ محنت کش طبقہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اور پیداواری شعبے کا مرکزی ستون ہے۔ البتہ میں نے بارہا کہا ہے کہ ہر صنف کا ایک حصہ ہے۔ سرمایہ کار، عہدیداران، مزدور اور ملازمت پیشہ افراد اسی طرح حکومتی عہدیداران سب کا الگ الگ فریضہ ہے۔ جب یہ سارے لوگ آپس میں تعاون کرتے ہیں تو کام بہترین اور خوبصورت انداز میں اور مکمل طریقے سے انجام پاتا ہے۔ یہ بالکل بدیہی چیز ہے۔ تو سب کو آپس میں تعاون کرنا چاہئے۔ تاہم محنت کش طبقے کے رول کو ملک میں کام، روزگار اور سرگرمیوں کے محور کے طور پر دیکھنا چاہئے، اسے قدروں کے طور پر متعارف کرایا جانا چاہئے جو سربلندی کا باعث قرار پائے۔ اگر کسی شخص سے، مثلا کسی نوجوان سے پوچھا جائے کہ تمہارے والد کیا کرتے ہیں؟ تو وہ فخریہ کہے کہ مزدوری کرتے ہیں۔ جس طرح وہ فخر سے کہتا ہے کہ دائریکٹر ہیں۔ یہ بہت اہم قدم ہوگا۔ روزگار کی گیرنٹی بھی لازمی ہے۔ اس مسئلے کا تعلق حکومتی عہدیداران سے ہے۔ مزدوروں کے روزگار کی گیرنٹی بہت ضروری ہے۔ محنت کش طبقے کو مناسبت معیشتی حالات فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ جو چیزیں وزیر محترم نے بیان فرمائیں ان پر مو بہ مو عمل ہونا چاہئے۔ ان ساری چیزوں کے لئے کام کیا جانا چاہئے۔ اقدام عمل میں آنا چاہئے۔ سب کو ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے تاکہ یہ حقائق عملی شکل اختیار کر سکیں۔ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے، مالکان کی بھی ذمہ داری ہے، محنت کش طبقے کی بھی ذمہ داری ہے، صنعت کار کی بھی ذمہ داری ہے۔ ہر ایک کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ اگر یہ ذمہ داریاں پوری جائیں تو کام درست طریقے سے انجام پائے گا۔

جو باتیں میں عرض کر رہا ہوں یہ نصیحت اور موعظہ نہیں ہے۔ ہم کوئی نصیحت اور موعظہ نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ یہ باتیں اور یہ بیان اس لئے ہے کہ عمومی سطح پر ذہن سازی ہو، ایک عمومی مطالبہ پیدا ہو اور سب ان مقاصد کی تکمیل کا مطالبہ کریں۔ یہ جو سال کے لئے کسی نام کا انتخاب کیا جاتا ہے، 'استقامتی معیشت' کی اصطلاح جو بار بار دہرائی جاتی ہے، اس لئے ہے کہ یہ عمومی مطالبہ دلوں میں، زبانوں پر اور عمل میں نمایاں طور پر نظر آنے لگے، سب اس سمت میں بڑھیں۔ جب کوئی چیز عمومی مطالبہ اور عمومی بحث بن جاتی ہے تو یقینا وہ عملی جامہ بھی پہنتی ہے، یعنی عہدیداران بھی پھر اسی سمت میں کام کرنے لگتے ہیں۔

یہاں ایک اہم نکتہ اور بھی ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ واقعی اسلامی جمہوری نظام کو اس سلسلے میں سماج کے محنت کش طبقے کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ آپ جانتے ہیں کہ محنت کش طبقہ سیاسی و سماجی میدانوں میں بڑے اہم کردار ادا کرتا ہے، ساری دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ کسی کارخانے یا کسی شعبے میں مزدوروں کی ہڑتال سے سیاسی اور اقتصادی شعبوں پر گہری ضرب لگتی ہے۔ جب یہ انقلاب کامیاب ہوا تو روز اول سے ہی دشمنوں نے کوشش کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اس حربے کو استعمال کریں۔ شروع ہی سے یہ کوشش کی کہ مزدور طبقے کو اسلامی جمہوری نظام پر منفی سیاسی اثرات مرتب کرنے کے لئے استعمال کریں۔ مگر محنت کش طبقے نے ہمیشہ اسلامی جمہوری نظام کی طرفداری کی، اسلامی نظام کی حمایت کی اور اسلامی نظام کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ تقریبا چالیس سال کی اس مدت میں ہمارے محنت کش طبقے نے اسلامی نظام کے دشمنوں کو بہت زبردست طمانچہ مارا ہے! لہذا اسلامی جمہوریہ اور تمام عہدیداران کو چاہئے کہ محنت کش طبقے کے شکر گزار ہوں۔ آئندہ بھی اس طبقے کا یہی طریقہ کار رہے گا۔ ہمارا محنت کش طبقہ دیندار طبقہ ہے، دشمن کی لاکھ کوششوں کے باوجود یہ طبقہ اپنے اسلامی و دینی فرائض کے مطابق ہی عمل کرتا ہے، آگے بڑھتا ہے، نتیجتا وہ اسلامی نظام کے ساتھ، اسلامی نظام کے لئے اور اسلامی نظام کی خدمت میں مستعدی سے کھڑا ہے۔ سبھی کو اس کی قدر کرنا چاہئے۔

میں روزگار کے مسئلے پر بھی گفتگو کرنا چاہوں گا۔ روزگار کا مسئلہ محنت کش طبقے سے وسیع تر موضوع ہے۔ روزگار کا مسئلہ ملک کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت انتخابات کا زمانہ ہے چنانچہ چند جملے ابھی انتخابات کے تعلق سے بھی عرض کروں گا۔ آئندہ حکومت میں جو بھی ذمہ دار، سربراہ مملکت، حکومت کا سربراہ یا اقتصادی امور کا ذمہ دار ہو، روز اول سے روزگار کے مسئلے پر جی جان سے لگ جائے۔ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جن میں انسان تاخیر کا کوئی جواز  پیش کرے۔ روز اول سے ہی روزگار کے مسئلے پر کام شروع کر دیں۔  اگر ملک کے اندر ہمارے حکام روزگار کی مشکل کو مناسب طریقے سے حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو سماجی برائیاں بھی کم ہوں گی، نوجوانوں کی گوناگوں مشکلات بھی کم ہوں گی، بہت سے مسائل جو اس وقت در پیش ہیں اور جو بے روزگاری اور بیکاری کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں وہ بھی کم ہو جائیں گے۔ ہم منشیات کی روک تھام کے لئے، منشیات کی اسمگلنگ کے سد باب کے لئے اور اسی قسم کی دیگر چیزوں پر بہت کچھ صرف کرتے ہیں، ان مسائل کا ایک بڑا حصہ بے روزگاری اور بیکاری کا نتیجہ ہے۔ روزگار کا مسئلہ بہت اہم ہے، پہلی ترجیح ہے۔

ہم نے یہ بھی عرض کیا کہ قومی پیداوار اور روزگار میں براہ راست رابطہ ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے اندر روزگار کے مواقع پیدا ہوں تو ہمیں قومی پروڈکشن پر جس میں صنعتی پیداوار، زرعی پیداوار، سروسیز پروڈکش سب شامل ہیں، خاص توجہ دینا ہوگی۔ ان تمام پہلوؤں پر توجہ دی جائے اور سب کے لئے منصوبہ بندی کی جائے۔ ان چیزوں میں تاخیر ہرگز جائز نہیں ہے۔ متعلقہ عہدیداران، جو بھی ان شعبوں کی ذمہ داری سنبھالے، پہلی فرصت میں اس مسئلے پر توجہ دی جائے۔ یہ امور اسلامی نظام کے ترجیحی امور ہیں۔

انتخابات کے بارے میں دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ بحمد اللہ ملک کی فضا میں انتخابات کی حرارت بڑھتی جا رہی ہے، یہ بہت اہم اور ضروری بھی ہے۔ اس سے بے توجہی نہیں برتنا چاہئے۔ انتخابات کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ مجھے ایک بات عوام سے کہنی ہے، ایک بات عہدیداران سے کہنی ہے اور ایک بات انتخابی امیدواروں سے کہنی ہے۔ البتہ بیشتر باتیں مجھے عوام سے کہنا ہیں۔ ہمارے عزیز عوام سمجھ لیں کہ مختلف میدانوں میں ان کی شراکت اور موجودگی بہت فیصلہ کن ہوتی ہے۔ کس سلسلے میں فیصلہ کن ہوتی ہے؟ قومی سلامتی کے سلسلے میں فیصلہ کن ہوتی ہے۔ اگر عوام میدان میں موجود رہے تو ملک کی سلامتی بھی قائم رہے گی۔ یہ جو آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ یہ پست، ڈھیٹ اور غنڈہ صفت دشمن اسلامی جمہوریہ کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنے سے اجتناب کر رہا ہے تو یہ عوام کی موجودگی اور شراکت کی وجہ سے ہے۔ دشمن ڈرتے ہیں۔ واقعی دشمن ڈرتے ہیں۔ یہ تجزیہ اور اندازہ نہیں ہے، یہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کے شواہد اور ثبوت مسلمہ ہیں۔ جب پوری قوم میدان میں آ جاتی ہے تو دشمن جو اس نظام سے جنگ کا ارادہ رکھتا ہے پسپائی پر مجبور ہو جاتا ہے، جارحیت کا خیال دل سے نکال دیتا ہے۔ جب بھی قوم اور نظام کے درمیان فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے اور عوام میدان چھوڑ کر ہٹ جاتے ہیں، تب دشمن جو چاہے کر گزرتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کا کام مشکل نہیں رہ جاتا، دشمن جس طرح چاہے اپنا کام انجام دیتا ہے۔ چنانچہ دنیا کے مختلف حصوں میں انھوں نے یہی کیا ہے۔ اسلامی مملکت ایران میں دشمن کچھ بھی نہیں کر پایا عوام کی دائمی موجودگی کی وجہ سے (2)، عوام کی موجودگی کی وجہ سے دشمن جارحیت نہیں کر پایا۔ ہم کبھی کبھی سنتے ہیں اور ماضی میں بھی سن چکے ہیں کہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ؛ ہم نے آکر عہدہ سنبھالا تو ملک پر مڈلانے والے جنگ کے خطرے کو دور کر دیا۔ بالکل نہیں، یہ باتیں درست نہیں ہیں۔ مجھ سے سنئے! ان برسوں کے دوران وطن عزیز کے خلاف دشمن کی جارحیت کے خطرات کو جس چیز نے دور رکھا ہے وہ عوام کی دائمی شراکت اور موجودگی ہے۔

یہ موجودگی اور یہ شراکت کس طرح ظاہر کی جاتی ہے؟ اس موجودگی کا سب سے اہم مظہر اور آئینہ انتخابات ہیں۔ میں عوام سے یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میں نہیں کہتا کہ آپ فلاں کو ووٹ دیجئے اور فلاں کو ووٹ نہ دیجئے۔ میں یہ بات عوام سے ہرگز نہیں کہوں گا۔ مگر عوام سے یہ ضرور عرض کروں گا اور اصرار کے ساتھ کہوں گا کہ پولنگ مراکز پر ضرور جائیے اور ووٹ ڈالئے، جسے بھی مناسب سمجھئے اسے ووٹ دیجئے۔ جو بھی ملک سے محبت کرتا ہے، جو بھی اسلامی نظام سے لگاؤ رکھتا ہے، جو بھی قومی سلامتی کو پسند کرتا ہے، وہ انتخابات کے لئے ضرور نکلے، پولنگ مراکز تک جائے۔ یہ چیز دشمن کی شیطنتوں کا سد باب کرتی ہے!

جن لوگوں سے ملک کے عوام ناراض ہیں، وہ بڑی طاقتوں کے سامنے خود کو عوام کا ہمدرد ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ اس کا کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ عوام کا ہم سے رشتہ ہے، اسلامی نظام سے رشتہ ہے، عوام اسلامی نظام سے قلبی لگاؤ رکھتے ہیں، عوام نے تقریبا اس چالیس سالہ مدت میں اس نظام کا ساتھ دیتے ہوئے سختیاں برداشت کی ہیں، دشوار راستوں کو طے کیا ہے، اسلامی جمہوری نظام کی حیاتی مدد کی ہے۔ آج جو پیشرفت نظر آ رہی ہے، آج اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس جو قوت و طاقت ہے، علاقے میں جو اثر و نفوذ ہے وہ عوام کی شراکت اور تعاون سے ممکن ہوا ہے، عوام کی مدد سے پیدا ہوا ہے۔

آپ دیکھئے کہ جب کوئی جوان شہید ہوتا ہے، تو میں نے غور کیا ہے کہ وہ کسی بھی علاقے کا ہو یا کسی بھی شہر کا ہو، ملک کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھتا ہو، عوام بڑے والہانہ انداز میں پیش آتے ہیں اور اس طرح سے حمایت کرتے ہیں کہ انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی نظام کی سمت اور موقف عوام کی نظر میں پسندیدہ ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ اسلامی جمہوری نظام ان کے وقار کے لئے کوشاں ہے، ان کے امن و استحکام کے لئے محنت کر رہا ہے، ان کی ترقی کے لئے محنت سے کام کر رہا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام نے اس ملک کو دشمن کی دست برد سے باہر پہنچا دیا ہے۔ یہ کو‏ئی معمولی کامیابی نہیں ہے، یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔ آپ دیکھئے کہ تیل کی دولت سے مالامال ممالک کے تیل، آمدنی اور سرمائے کے اختیارات اغیار کے ہاتھوں میں ہیں، ان ملکوں کی حکومتیں اغیار کے لئے دروازے کھول دیتی ہیں تاکہ مزید کچھ عرصہ ایوان اقتدار میں باقی رہ سکیں، اقتدار کی لذت اٹھائیں، طاغوتی شاہی دور میں ہمارے ملک کا بھی یہی حال تھا۔ کئی ہزار امریکی اس ملک میں اس قوم سے پیسہ بھی وصولتے تھے اور حکم بھی چلاتے تھے، اس ملک کے نچلی سطح کے حکام سے لیکر اعلی سطحی حکام تک سب پر ان کا حکم چلتا تھا۔ دوسرے ملکوں میں آج یہی صورت حال ہے۔ اسلامی جمہوری نظام تشکیل پایا تو دشمن کے ہاتھ کاٹ دئے گئے، دشمن نے اس ملک پر جو محدودیتیں مسلط کر رکھی تھیں انھیں دور کر دیا اور ملک کو متحرک کیا گيا۔ آج ایران تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے، ایک با وقار ملک ہے، ایک طاقتور ملک بن چکا ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ عوام کو اس کا علم ہے اسی لئے وہ اس نظام کے ساتھ ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلامی جمہوری نظام کے لئے عوام کی وفاداری کا مظہر پولنگ مراکز پر عوام کی زبردست موجودگی ہے، انتخابات کے سلسلے میں ہمارا موقف اسی پہلو پر استوار ہے۔

عوام کی خدمت میں جو دوسرے چند نکات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ اس طرح ہیں کہ عوام انتخابات کے مسئلے کو سرسری نظر سے نہ دیکھیں، ان کے بارے میں غور کریں، فکر کریں۔ جب ہم خاص منطقی انداز میں سوچیں گے اور ایک انتخاب کریں گے اور اسی انتخاب کی بنیاد پر اپنا ووٹ دیں گے تو اللہ کی بارگاہ میں ان کا عذر قابل قبول ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انتخاب کرنے میں ہم سے غلطی ہو جائے، مگر پھر بھی اللہ کی بارگاہ میں ہمارا عذر قابول قبول ہوگا۔ لیکن اگر ہم نے غور نہیں کیا، فکر و تدبر سے کام نہیں لیا، بغیر سوچے سمجھے اقدام کیا تو اللہ کی بارگاہ میں جوابدہ بھی ہونا پڑے گا اور خود اپنے ضمیر کے سامنے بھی ہمیں جوابدہ ہونا پڑے گا، بعد میں ہم خود پچھتائیں گے کہ ہم نے اس سلسلے میں غور و فکر کے ساتھ کام کیوں نہیں کیا؟! یعنی ہم خود اپنی ملامت کریں گے۔ لیکن اگر آپ نے تدبر کیا، تحقیق کی، مشاورت کی اور ایک سوچ بن جانے کے بعد اس کی بنیاد پر انتخاب کیا تو اللہ تعالی آپ سے راضی ہوگا کیونکہ آپ نے اپنے حصے کا کام انجام دیا ہے، آپ کا ضمیر بھی مطمئن ہوگا۔ آپ یہی سوچیں گے کہ میں نے اپنا فریضہ پورا کیا، اب اگر بالفرض مجھ سے غلطی ہوئی ہے، میں نے غلط انتخاب کر لیا ہے تو غلطی ہو جانا فطری بات ہے، میں نے اپنی ذمہ داری کے مطابق عمل کیا۔ تو یہ بھی ایک نکتہ تھا جو میں نے عوام کی خدمت میں عرض کر دیا۔

ایک بات مجھے محترم امیدواروں سے کہنی ہے؛ اس وقت چھے محترم امیدوار میدان میں ہیں۔ میں محترم امیدواروں سے پہلی چیز یہی کہوں گا کہ اپنی نیتوں کو خالص بنائیے۔ آپ کی نیت اقتدار حاصل کرنا نہیں عوام کی خدمت کرنا ہو! اگر کوئی شخص عوام کی خدمت کی نیت سے اور خاص طور پر کمزور طبقات کی خدمت کے لئے اس مقابلے میں اتر رہا ہے تو اس کا ہر اقدام، ہر بیان، ہر جملہ نیک عمل قرار پائے گا اور اللہ کی بارگاہ سے اسے اجر ملے گا۔ تو اس نیت کے ساتھ میدان میں اترئے، خدمت کی نیت سے آئیے۔ یہ پہلی بات ہے۔

دوسری بات یہ کہنی ہے کہ آپ نعروں کا انتخاب اس طرح کیجئے کہ سب کو معلوم ہو جائے کہ آپ ملک کے کمزور طبقات کی پشت پناہی کرنا چاہتے ہیں۔ مشکلات میں گھرے ہوئے طبقات کی مشکلیں آپ دور کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک پیکر واحد کی مانند ہیں۔ سماج انسانی پیکر کی مانند ہوتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کس جگہ پر کمزوری ہے، اس پیکر کے کس حصے میں خون کی گردش نہیں ہے، کس حصے کو زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، ہمیں اس پر خاص توجہ دینا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جسم کے بقیہ حصوں کو نظرانداز کر دیں۔ نظر انداز نہ کریں لیکن اس خاص حصے کو ترجیح دیں۔ مختلف حکومتوں کے ادوار میں مختلف حکام کے سلسلے میں بعض اوقات میرے سخت اعتراضات ہوتے تھے، البتہ یہ اعتراضات میں عام طور پر عوام کے سامنے اور رائے عامہ کے سامنے بیان نہیں کرتا۔ اس لئے کہ تنازعات اور تلخیوں کو عوام پسند نہیں کرتے۔ عوام میں بیان کرنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔ تاہم بعض اوقات بعض حکام سے گفتگو میں تلخی بھی پیدا ہوئی۔ ایک چیز جس کے بارے میں بہت زیادہ تلخی ہو جاتی ہے یہی ہے کہ ترجیحات کو ملحوظ کیوں نہیں رکھا جاتا۔ ترجیحات کیا ہیں؟ ملک کے اندر مختلف شعبے ہیں، اقتصادی شعبہ ہے، ثقافتی شعبہ ہے، گوناگوں سیاسی شعبے ہیں، علمی شعبے اور دیگر شعبے ہیں۔ ہر شعبے کی کچھ ترجیحات ہیں، جنھیں ملحوظ رکھا جانا چاہئے، جن پر کام ہونا چاہئے، اسے پہلے انجام دیا جانا چاہئے۔ آج جو امیدوار میدان میں ہیں، فیصلہ کر لیں اور اللہ تعالی اور اپنے درمیان ایک میثاق قبول کر لیں کہ اگر عوام کی طرف سے منتخب ہوئے، اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ترجیحات کو ملحوظ رکھیں گے۔ جس شعبے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اس پر زیادہ توجہ دیں گے اور اسی بنیاد پر اپنے منصوبے تیار کریں گے۔

یہ بات سب جان لیں، محترم امیدوار جو جانتے ہیں کہ جب تک ہم جہادی انداز میں اور انقلابی انداز میں کام نہیں کریں گے اس ملک کے حالات میں بہتری نہیں  پیدا کر سکتے۔ ہر شعبے میں ایک مجاہد کی طرح کمر ہمت کسنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوا تو امور آگے بڑھیں گے، اگر ایسا ہوا تو بند دروازے بھی کھل جائیں گے، وا  ہو جائیں گے۔ یعنی مجاہدانہ اور انقلابی انداز میں ہمیں معیاری کام بہت وسیع پیمانے پر انجام دینا ہے۔ انقلابی انداز میں کام کرنے کا کیا مطلب ہے؟ بعض لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں انقلابی انداز میں تو اس کا مطلب ہے بد نظمی کے ساتھ کام انجام دینا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ انقلابی انداز میں کام کرنے کی شرط ہی یہ ہے کہ ڈسپلن کا خیال رکھا جائے۔ انقلابی انداز سے کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم فروعی کاموں، دکھاوے کے اقدامات اور زرق و برق امور میں نہ الجھیں۔ انقلابی انداز سے کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی کام کا لائسنس لینے کا عمل مختصر بنائیں۔ دیندار اور مخلص سرمایہ کار ابھی حال ہی میں آکر ہم سے ملے اور انھوں نے بتایا کہ ایک چھوٹی سی چیز کا اجازت نامہ حاصل کرنے کیلئے، میں اس چیز کا نام لیکر تفصیلات کی طرف نہیں جانا چاہتا، بیس یا پچیس جگہوں سے منظوری لینی پڑتی ہے۔ یہ غیر انقلابی انداز کا کام ہے۔ انقلابی انداز سے کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ضوابط طے کرتے ہیں وہ ان رکاوٹوں کو دور کریں، راستے کو مختصر کریں، شارٹ کٹ راستے عوام کے سامنے، خدمت کا ارادہ رکھنے والوں کے سامنے اور سرمایہ کاروں کے سامنے رکھیں۔ یہ ضروری کام ہیں۔ حکام کو چاہئے کہ کمر ہمت کسیں اور حقیقت میں کام کریں۔

میں ایک بات اور بھی ان حکومتی عہدیداران سے عرض کرنا چاہوں گا جن کے دوش پر انتخاباتی امور کی ذمہ داریاں ہیں؛ خواہ وہ وزارت داخلہ میں ہوں، نگراں کونسل میں ہوں، یا نشریاتی ادارے اور دیگر جگہوں پر تشہیراتی شعبے سے وابستہ ہوں، یا  وہ حکام جو رائے دہی کے دن مصروف عمل ہوں گے، عوام کی امانت کی حفاظت کریں۔ عوام کے ووٹ، عوام کی شراکت، در حقیقت ان کی امانت ہے۔ اس امانت کی بڑی احتیاط کے ساتھ حفاظت کریں، اسے محفوظ رکھیں تا کہ خدانخواستہ کوئی اس امانت کے سلسلے میں دست درازی نہ کر سکے۔ قانون کی پوری باریکی کے ساتھ پابندی کریں۔ قانون پر عمل آوری کی بات ہو تو ہرگز کوئی تکلف اور کوئی مروت نہ کریں۔ قانون قانون ہے، قانون سب کے لئے ہے۔ اس سلسلے میں کوئی بھی مستثنی نہیں ہے۔ قانون پر عمل کریں تاکہ ایک صحیح، پسندیدہ اور اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق کام انجام پائے۔ میں نے بار بار کہا ہے اور ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ عوام کے ووٹ حق الناس ہے۔ اگر کسی نے اس سے تعرض کیا تو اس نے در حقیقت حق الناس سے تعرض کیا ہے اور حق الناس سے تعرض کا معاملہ بے حد دشوار ہے۔

پالنے والے محمد و آل محمد کا واسطہ ہم جو کچھ بیان کر رہے ہیں اور جو کچھ بیان کریں گے اس پر قادر بنا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روح مطہرہ کو اور شہدا کی ارواح طیبہ کو ہم سے راضی و خوشنود فرما، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قلب مقدس کو ہم سے خوشنود فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کے موقع پر اور یوم محنت کشاں کی مناسبت سے انجام  پائی وزیر محنت و سماجی امور علی ربیعی نے رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے تقریر کی۔

۲) حاضرین پرجوش انداز میں نعرے لگانے لگے؛ «ای رهبر آزاده آماده‌ایم آماده» (اے آزاد منش رہبر ہم آمادہ ہیں آمادہ ہیں) اس کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ٹھہر جائیے، ان شاء اللہ یہ آمادگی ہمیشہ اور ہر جگہ موجود رہے، اس وقت آپ میرے معروضات سن لیجئے۔