بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم

والحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین و صحبه المنتجبین.

یوم بعثت پیغمبر کی عید سعید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو جو یہاں تشریف فرما ہیں، اسی طرح تمام مہمانوں کو، اسلامی ملکوں کے سفرا کو اور عظیم ملت ایران کو۔

عید بعثت پیغمبر کی اہمیت یہاں سے پتہ چلتی ہے کہ اس بعثت کے نتیجے میں اللہ اور مخلوقات کے درمیان ایک نئے انداز کا جو رابطہ پیدا ہوا اور انسانی معاشروں اور انسانوں کی تبدیلی کا جو ایک نیا لائحہ عمل تیار ہوا وہ زندہ ہے۔ یہ بعثت، یہ لائحہ عمل، یہ تبدیلی تمام ادوار میں، تمام حالات میں، دنیا کے ہر خطے میں یہ توانائی رکھتی ہے کہ انسانوں کی زندگی کو اسی طرح نیکی، فلاح و خوش بختی میں بدل دے جس طرح آج حالات بالکل دگرگوں ہیں۔ یہیں سے بعثت کی اہمیت کا اندازہ  ہوتا ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں؛ جب پیغمبر اکرم مبعوث بہ رسات ہوئے اور اللہ تعالی نے نبی اکرم کو بھیجا تو اس وقت دنیا تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی؛ وَ الدُّنیا کاسِفَةُ النّورِ ظاهِرَةُ الغُرور (۲) عالم بشریت تاریکی میں تھا، دھوکے اور فریب سے بھرا ہوا تھا۔ فریب نفس میں تھا، انسان خود کو ایک ایسی حالت میں تصور کر رہا تھا کہ حقیقت میں وہ حالت نہیں تھی۔ دنیا کی یہ حالت تھی۔ قرآن کے مطابق وحی الہی کا فلسفہ بھی یہی ہے؛ لِیُخرِجَکُم مِنَ الظُّلُماتِ اِلَى النُّور (۳) تاکہ بشریت کو ظلمتوں سے باہر نکالے اور نور کی وادی میں پہنچائے۔

 اس دور کی ظلمات کو تاریخ میں کافی حد تک بیان کیا گيا ہے۔ جزیرۃ العرب، مکہ اور گرد و پیش کے علاقوں میں پھیلی خرافاتوں، جہالتوں، بے رحمی، تشدد پسندی، ناانصافی، ظلم و استبداد، پست زندگی، بھکمری کو بھی اور اس زمانے کی مہذب دنیا میں پھیلی تاریکیوں کو بھی۔ اگر آپ غور کریں تو اس زمانے کی دو بڑی تہذیبوں یعنی ایران اور روم میں بھی ظلمت و تاریکی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ان دونوں سلطنتوں میں بھی خرافاتیں تھیں، ظلمتیں تھیں، کمزوروں کے خلاف تفریق تھی، نا انصافی تھی، بے رحمی  تھی۔ ایران میں وہ بادشاہ جو انصاف کے لئے بڑی شہرت رکھتا ہے، یعنی یہی نوشیرواں جو عادل کے لقب سے معروف ہے، ایک ہی دن میں کئی  ہزار انسانوں کو اس وجہ سے کہ ان کا دین الگ ہے، موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ کئی ہزار لوگوں کو ایک ہی دن میں مار ڈالتا ہے۔ یہ صرف ایک نمونہ ہے۔ سلطنت روم میں دیکھئے تو معروف بادشاہ نرون اپنی ماں کو قتل کر دیتا ہے، بیوی کو قتل کر دیتا ہے، شہر کو آگ لگا دیتا ہے۔ اس طرح کے حالات تھے؛ وَ الدُّنیا کاسِفَةُ النّورِ ظاهِرَةُ الغُرور. تو یہ ظلمت و تاریکی صرف جزیرہ عرب تک محدود نہیں تھی۔ ساری دنیا میں یہی حالات تھے اور ایسے حالات میں اسلام کا سورج طلوع ہوا۔

اسلام کی دعوت نور کی دعوت تھی، یعنی علم کی دعوت تھی، انصاف کی دعوت تھی، محبت کی دعوت تھی، اتحاد کی دعوت تھی، انصاف کی دعوت تھی، انسانی سماجوں کے لئے یہ سب درخشندگی ہے اور نور ہے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ دعوت اور یہ پیغام صرف زبان اور کاغذ تک محدود نہ رہے۔ آج اگر آپ اقوام متحدہ کے دستاویزات یا بعض سامراجی ملکوں کے دستاویزات پر نظر ڈالئے تو وہ ان میٹھی میٹھی باتوں سے اٹے پڑے ہوں گے۔ آپ انسانی حقوق کے اعلامئے کو یا دیگر دستاویزات کو اگر دیکھئے تو یہی اچھی اچھی باتیں ان میں نظر آئیں گی، مگر عملی میدان میں اس کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

اسلام کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ پیغمبر اکرم نے روز اول جو بیان کیا، مکہ میں دشواریوں سے بھرے ان تیرہ برسوں کے دوران آیات قرآنی کے ذریعے انسانوں کو جو تعلیمات دی گئیں انھیں بعد میں عملی جامہ پہنایا گيا، زمینی سطح پر اسے انجام دیکر دکھایا گيا، ان تعلیمات پر عمل ہوا۔ پیغمبر اکرم نے اس انصاف کو، اس محبت کو، اس عدل کو، ظلم کے مقابلے میں اس استقامت کو اور کفر کے مقابلے میں ثابت قدمی کو عملی طور  پر متعارف کرایا۔ علم کی دعوت، معرفت کی وادی کی سمت رہنمائی، یہ ضوابط، یہ بنیادیں جو مدینے میں دس سالہ حکومت کے دوران تعمیر کی گئیں، ایک صدی اور دو صدی گزرنے کے بعد سب سے بڑے انسانی تمدن کا سرمایہ اور بنیاد قرار پائیں۔ بے شک اس کے بہت سے پہلوؤں کو ملحوظ نہیں رکھا گيا۔ مثال کے طور پر انصاف و مساوات کے اصول کی پابندی نہیں کی گئی، مگر علم، معرفت، توانائیوں کو استعمال میں لانا، انسانی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا، جس کا آغاز اسلامی حکومت کی تشکیل کے بعد روز اول سے ہو گيا تھا، اس میں ایسی پیشرفت ہوئی کہ ایک یا دو صدی کا عرصہ گزرتے گزرتے سب سے بڑے انسانی تمدن کی عمارت انھیں بنیادوں پر کھڑی ہو گئی، جس سے ساری دنیا کو فائدہ پہنچا اور ساری انسانیت نے اس کا فیض اٹھایا۔ یہ ہے بعثت کی حقیقت۔

آج ہمیں بعثت کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے بعثت کا صحیح تعارف ضروری ہے، پہلے مرحلے میں دنیا کی رائے عامہ کو بعثت کے معنی و مفہوم سے روشناس کرایا جانا چاہئے، یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے بعد جس میں حکومت نبوی کی ایک پرتو نظر آئی اور وہی ایک پرتو عظیم تبدیلی اور عظیم تحریک کا باعث بنی جو بحمد اللہ جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی، بشریت کے دشمن، یعنی صرف دشمنان اسلام نہیں بلکہ انسانی معاشروں کے دشمن اس سوچ میں پڑ گئے کہ جو چیز اس نئی بیداری اور تحرک کی بنیاد ہے اور جس کے لئے دنیا کے وسیع حصے میں سازگار حالات موجود ہیں، اس کا سد باب کیا جائے، وہ کیا چیز ہے؟ وہ اسلام ہے۔ آج دشمن اسلام کے خلاف لڑ رہا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ اسلام انسانی معاشروں کے ارتقاء کی بنیاد فراہم کرتا ہے، انسانوں کو متحرک کر دیتا ہے، صلاحیتوں کو نشونما کا موقع فراہم کرتا ہے، بیک وقت روحانی و مادی پہلوؤں پر استوار تمدن کی تشکیل کرتا ہے۔ اس لئے کہ اسلام آج کی دنیا کے ظالم تمدن کی جارحیت کا سد باب کر سکتا ہے۔ اسی لئے وہ اسلام کے خلاف بر سر پیکار ہیں، گوناگوں انداز سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ اسلام کے نام پر دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔ یہ ایک سازش ہے۔ اس طرح اسلامی ممالک کو جنگ و جدل اور آپسی اختلاف و دشمنی کی آگ میں جھونک دینا ایک سازش ہے۔ آج اس دشمنی و عناد کے تار امریکہ اور صیہونیت سے جڑے ہوئے ہیں۔ فلسطین میں خبیث و غاصب صیہونی حکومت اور اس کے پس پشت امریکہ کی ظالم و مستکبر حکومت اسلام کے خلاف محاذ آرا ہیں۔ البتہ اس وقت دیگر خطوں کی نسبت اسلامی جمہوریہ سے ان کی جنگ زیادہ شدید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام میں اسلام زیادہ نمایاں ہے، زیادہ عملی شکل میں نظر آتا ہے اور یہاں اس کے عمل، اقدام اور اجرا کے امکانات فراہم ہیں۔ وہ اس لئے مخالفت پر تلے ہوئے ہیں کہ اسلام نے ان کی توسیع پسندی پر روک لگا دی ہے۔ اسلام، استکبار کی پیش قدمی کے عمل میں رکاوٹ بن گیا ہے۔ تو در حقیقت وہ اسلام کے دشمن ہیں۔

ہم مسلمانوں کو سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہئے کہ غیر مسلموں کے تعلق سے ہمارا ایک فریضہ یہ ہے کہ اسلام کا تعارف کروائیں۔ ایک فریضہ خود ہمارے باطن کے تعلق سے بھی ہے یعنی ہمیں خود بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی استکباری طاقتوں اور دنیا کی استبدادی قوتوں کی طرف سے اسلام کی دشمنی کی وجہ کیا ہے؟ یہ ہمیں سمجھنا ہوگا۔ آج اسلامی حکومتوں کو اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے کہ اگر امریکہ کسی ایک اسلامی حکومت کا ساتھ دے رہا ہے اور دوسری اسلامی حکومت سے بر سر پیکار ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ یہ دونوں اسلامی حکومتیں آپس میں متحد ہو جائیں، یہ دونوں آپس میں ایک نہ ہونے پائیں، یہ دونوں اپنے مشترکہ مفادات پر توجہ مرکوز نہ کرنے پائیں۔ اس کا ہدف یہ ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اس علاقے میں امریکہ تفرقہ انگیزی کی اس اسٹریٹیجی میں کامیاب رہا ہے، یہ بہت افسوس کا مقام ہے۔ بعض حکومتوں کے کندھے پر امریکیوں کا ہاتھ اس لئے ہے کہ وہ انھیں لوٹنا چاہتے ہیں۔ لوٹنے کا عمل آسان بنانے کے لئے وہ دشمن تراشتے ہیں۔ کبھی اسلامی جمہوریہ کو، کبھی ایران کو، کبھی تشیع کو دشمن کی حیثیت سے پیش کر دیتے ہیں، تاکہ ان حکومتوں کو لوٹ سکیں۔ آج ان طاقتوں کی قیادت امریکہ کر رہا ہے یہی پالیسی ہے۔ یہ بات ہر ایک کو سمجھنا چاہئے، اسے ہم سب کو محسوس کرنا چاہئے اور اس کے خلاف ہمیں ڈٹ جانا چاہئے۔ اس  کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا مطلب ہے اسلامی ملکوں میں آپس میں اتحاد اور ہم آہنگی قائم کرنا۔

اس وقت ہمارے علاقے کو بڑی مشکلات در پیش ہیں۔ یمن، بحرین، شام، عراق ہر ایک کسی نہ کسی مشکل میں گرفتار ہے۔ جب ہم ان مشکلات کی بنیادی وجہ ڈھونڈتے ہیں تو ہمیں استکبار کی ریشہ دوانیاں نظر آتی ہیں۔ امریکہ کی خفیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں اور صیہونزم کی طرف سے یہ سارے اقدامات انجام دئے جا رہے ہیں، سازش ہو رہی ہے کہ مسلمانوں کی طاقت آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف صرف ہو۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

بحمد اللہ اس راہ میں اسلامی جمہوریہ کا عزم و ارادہ بالکل پختہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے اندر اس تعلق سے ٹھوس اور واضح عزم موجود ہے۔ صرف حکومتی عہدیداران کی سطح پر نہیں، بلکہ عوامی سطح پر بھی۔ اسلامی جمہوریہ میں استعماری طاقتوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہو جانے والے عوام ہیں، ہمارے نوجوان ہیں، ہمارے انقلابی عوام ہیں، ہمارے مومن عوام ہیں جو استکباری طاقتوں کے مد مقابل ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ جس قوم اور جس ملک کے بھی لوگ متحد  ہوں گے، ایک سمت میں آگے بڑھیں گے اور دشمن کے مقابلے میں ایک آواز ہوکر کھڑے ہو جائیں گے، وہاں دشمن کوئی جارحیت نہیں کر سکتا، دشمن ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ اسلامی جمہوریہ کی شجاعت اور استقامت اسی اتحاد و یکجہتی کی برکت سے ہے، میدان عمل میں عوام کی دائمی موجودگی کا نتیجہ ہے۔ ہمارے عوام میدان عمل میں موجودگی کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔

انتخابات کا ذکر ہوا۔ انتخابات میدان عمل میں عوام کی موجودگی کا ایک اہم مظہر اور آئینہ ہے۔ ہمارے عوام انتخابات کو فریضہ سمجھتے ہیں اور بالکل بجا طور پر ایسا سمجھتے ہیں۔ یہ واقعی ایک فریضہ ہے۔ حق بھی ہے اور فریضہ بھی ہے۔ انتخابات اسلامی جمہوریہ کے لئے کثیر المقاصد ذریعہ ہے۔ انتخابات سے سربراہ مملکت اور دیگر اجرائی عہدیداروں کے تعین کے عوام کے حق اور ان کی  توانائی کا احیاء بھی ہوتا ہے، عوام کو یہ قوت حاصل ہوتی ہے کہ خود انتخاب کریں، ساتھ ہی انتخابات ملک و قوم کے خلاف کسی بھی جارحیت سے دشمن کو باز رکھتے ہیں۔ انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت ملک کو تحفظ عطا کرتی ہے اور دشمن کے جارحانہ عزائم کا سد باب کر دیتی ہے۔ بھرپور شرکت کا پیغام یہ ہوتا ہے کہ یہ قوم متحد ہوکر ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے۔ دشمن جب یہ صورت حال دیکھتا ہے تو اس کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے اور اس کے پاس جارحیت کی ہمت نہیں رہتی۔

البتہ یہ بات سب اچھی طرح سمجھ لیں، ویسے یقینا آپ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام کے دشمن جہاں بھی ممکن ہو وار کرنے کے لئے اپنی پوری توانائی استعمال کرتے ہیں، اب تک تو یہی ہوا ہے۔ امریکی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والی الگ الگ ٹیموں کے درمیان اس سلسلے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سے پہلے جو ٹیم اقتدار میں تھی وہ بھی مستقل دھمکیاں دیتی رہتی تھی اور اس وقت جو ٹیم ہے وہ بھی دھمکیاں دیتی رہتی ہے۔ کوئی فرق نہیں ہے۔ ملت ایران، مملکت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے تعلق سے خباثت آلود نیت اور عزائم رکھنے کے اعتبار سے وہ سب یکساں ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی طرح اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے خلاف جارحیت کی طاقت نہیں رکھتے اور ملت ایران کے خلاف ان کی ہر کارروائی خود ان کے لئے زیاں بار ثابت ہوگی، ملت ایران کی جوابی کارروائی بہت دنداں شکن ہوگی، اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

اللہ تعالی نے ہماری قوم پر کرم فرمایا ہے، عوام کو آگاہی عطا فرمائی ہے، راستے کو واضح کر دیا ہے، وسیع تجربات کا ذخیرہ ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ تقریبا چالیس سال کے اس عرصے میں ہمیشہ دشمنی جاری رہی، دشمن کے خباثت آلود عزائم ہمیشہ نظر آتے رہے ہیں، ان سے جو بھی ہو سکتا تھا انھوں نے کیا، مگر ہمیشہ ملت ایران بہ کوری چشم دشمنان تاحال پیشرفت کی شاہراہ پر رواں دواں رہی ہے۔ آئندہ بھی ہم پیشرفت کے راستے پر گامزن رہیں گے۔ ہم مزید ترقی کریں گے۔ دشمن کی منشاء کے برخلاف ان شاء اللہ ہم بفضل پروردگار اور اللہ کی نصرت و مدد سے ماضی سے بہتر حالات میں پہنچیں گے۔ یہ پیشرفت ملت ایران کے ایمان کی وجہ سے مل رہی ہے، ہماری قوم کی استقامت کی وجہ سے حاصل ہو رہی ہے۔ دشمن کے مد مقابل اور اپنے اس سفر میں آپ اپنے ایمان کی حفاظت کیجئے، اپنے اتحاد کی حفاظت کیجئے، میدان عمل میں اپنی دائمی موجودگی کو اسی طرح قائم رکھئے، اپنے اس پختہ اور راسخ عزم کو اسی طرح قائم رکھئے۔ دشمن کی دشمنی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اس پر مایوسی طاری نہیں ہو جاتی، آپ کچھ ایسا کیجئے کہ دشمن مایوس ہو جائے۔

صدارتی انتخابات کے تمام امیدواروں کی خدمت میں میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ، البتہ یہ بات میں بارہا کہہ چکا ہو، آپ فیصلہ کر لیجئے! آپ عوام سے بھی کہہ دیجئے، اپنی انتخابی مہم میں بھی ضرور کہئے اور وعدہ بھی کیجئے کہ ملکی امور کی پیشرفت کے لئے، اقتصادی ترقی کے لئے اور مشکلات کے ازالے کے لئے آپ بیرون ملک کے آسرے پر نہیں رہیں گے، خود اپنی قوم سے آس لگائیں گے۔ ہماری توانائیاں بہت زیادہ ہیں، ہماری صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں، ان توانائیوں پر توجہ، ان توانائیوں کا استعمال اور ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے مدبرانہ اور خردمندانہ منصوبہ بندی وطن عزیز کو داخلی استحکام اور مقتدرانہ پوزیشن تک پہنچا سکتی ہے اور یہی چیز دشمن کو مایوس کر سکتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ان شاء اللہ وطن عزیز، عوام اور اسلامی نظام کو تحفظ عطا کر سکتی ہے۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ  اللہ تعالی کرم فرمائے اور فضل پروردگار کی برکتیں شہدا کی ارواح طیبہ اور امام خمینی کی روح مطہرہ پر نازل ہوں اور ہدایت الہیہ اور نصرت خداوندی سے یہ قوم بہرہ مند رہے اور اللہ کا لطف و کرم اس ملت کے شامل حال رہے۔

والسّلام علیکم و رحمة الله

 

 

۱)  اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے کچھ نکات بیان کئے۔

۲) نهج ‌البلاغه، خطبه  نمبر ۸۹

۳)  منجملہ سورہ احزاب آیت نمبر 43 کا ایک حصہ؛  «... تاکہ تمہیں تاریکی سے روشنی میں لائے...»