بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

پیارے بھائیو اور عزیز بہنو! آپ سب کا خیرمقدم ہے۔ ملک کے محترم اساتذہ اور تعلیمی شعبے کے عہدیداران سے ہماری اس سالانہ ملاقات کا مقصد اساتذہ کے لیے اپنی محبت اور احترام کا اظہار کرنا ہے۔ یعنی میں چاہتا ہوں کہ اس نشست کے ذریعے اور یہاں جو کچھ کہا جائے گا، اس کے وسیلے سے میں معلمین کے طبقے کے لیے اپنی شکرگزاری اور عقیدت کا اظہار کروں۔ البتہ یہ ملاقات ایک موقع بھی ہے کہ تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ اہم مسائل پر بات ہو۔ الحمد للہ وزیر محترم نے میرے خیال میں تعلیمی نظام کے سب سے اہم مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ ہمیں اس بات کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ موجودہ دور حکومت میں، خاص طور پر محترم صدر جمہوریہ (2) تعلیم و تربیت کے معاملات پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ ہم تعلیم پر جتنا بھی سرمایہ لگائیں، درحقیقت یہ ایک سرمایہ کاری ہے، خرچ نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کئی گنا منافع کے لیے زمین ہموار کی جائے۔ خوش قسمتی سے محترم صدر بھی یہی سوچ رکھتے ہیں۔ وزیر محترم بھی تعلیمی شعبے کے ممتاز منتظمین میں سے ہیں اور وہ تعلیمی مسائل سے پوری طرح واقف ہیں۔ یہ سب مواقع ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا۔ 

جیسا کہ انہوں نے بیان فرمایا، کچھ کام شروع ہو چکے ہیں اور کچھ کام شروع ہونے والے ہیں۔ میری تاکید اور میری سفارش یہ ہے کہ "فالو اپ" کو اپنا بنیادی اصول بنائیں۔ میں ہمیشہ ملک کے حکام اور ذمہ داران کو یہی مشورہ دیتا ہوں۔ بہت سے عہدیدار یہاں آتے ہیں، اچھی باتیں کرتے ہیں، عمدہ تجاویز پیش کرتے ہیں، لیکن ان باتوں کا کوئی عملی نتیجہ نظر نہیں آتا۔ آپ فالو اپ کریں کہ تعلیم و تربیت سے متعلق یہ اچھے خیالات، یہ درست اور دقیق نظریات یکے بعد دیگرے نافذ ہوں اور عملی شکل اختیار کریں۔ 

البتہ ہم تعلیم و تربیت کے شعبے میں فوری نتائج کے خواہشمند نہیں ہیں۔ تعلیمی شعبے کا مزاج ہی یہ نہیں ہے۔ لیکن ہمارے اقدامات اور ہمارے طریقہ کار سے یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ 

میں اساتذہ کے بارے میں دو تین نکات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں نے تعلیم و تربیت کے بنیادی مسائل پر بھی کچھ نکات تحریر کیے ہیں جو میں پیش کروں گا۔ 

ٹیچروں کے سلسلے میں پہلی بات یہ کہ ملک کے تمام اداروں کا فرض ہے کہ وہ استاد کی عزت کریں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، نہ ہی محض رسمی بات ہے۔ یہ چیز ملکی سطح پر ماحول سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ استاد کا احترام ضروری ہے۔ اب یہ احترام مالی ومعاشی معاونت جیسی چیزوں سے لے کر عوامی رائے کی تشکیل تک ہر سطح پر ہونا چاہیے۔ یعنی ہمیں عوامی سوچ کو اس طرح ڈھالنا چاہیے کہ استاد عوام کی نظر میں ایک پرکشش، با نشاط اور پسندیدہ شخصیت قرار پائے۔ ایسا ہو کہ اگر کسی شخص سے، کسی نوجوان سے پیشوں کی فہرست دکھا کر دریافت کیا جائے کو کون سا پیشہ انتخاب کرو گے؟ تو وہ معلم کے پیشے کو آخری نمبر پر نہ رکھے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے۔ جب مدرس کے  پیشے میں کشش نہیں ہوتی تو ملازمت کے خواہشمند افراد معلم کے پیشے کی طرف راغب ہی نہیں ہوتے، سوائے مجبوری کے۔ ہمیں اس رجحان کو بدلنا ہے۔ استاد کی عزت اور اس کی شبیہ کو اس طرح اجاگر کرنا ہے کہ عوام کی نظر میں یہ پیشہ انتہائی پرکشش نظر آئے۔ لوگ استاد کو ایک متحرک، محنتی، خوش مزاج، کامیاب، قابل فخر اور باعزت شخصیت کے طور پر دیکھیں۔ 

یقیناً اس کے لیے منصوبہ بندی درکار ہے۔ محض تقریروں اور انتباہات سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ متعلقہ ماہرین کو بیٹھ کر اس پر کام کرنا ہوگا۔ اس کے لیے میڈیا اور فن کے میدان میں کام کرنا ہوگا۔ فلمیں بنانی ہوں گی، کتابیں لکھنی ہوں گی۔ جیسے ہم کسی شہید پر کتاب لکھتے ہیں تو پڑھنے والا کتاب پڑھ کر اس شہید کی عظمت کا قائل ہو جاتا ہے، اسی طرح استاد کے کردار پر بھی مثلاً ناول کی شکل میں کتابیں لکھی جائیں کہ پڑھنے والا استاد سے محبت کرنے لگے۔ اینیمیشن، فلمیں، ڈرامے، اور اس نوعیت کے دیگر میڈیا پروجیکٹس سرکاری اداروں، قومی نشریاتی ادارے، آرٹ سے وابستہ اداروں اور وزارت ثقافت و اسلامی ہدایت کی ذمہ داری ہیں۔ یہ کام ہونے چاہیے۔ اور اس کی نگرانی کون کرے؟ تعلیم و تربیت کا ادارہ۔ تعلیم کے شعبے کی اہم ذمہ داریوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اس معاملے کو آگے بڑھائے۔ مقصد یہ ہو کہ استاد کی شبیہ کو اس کے حقیقی مرتبے کے مطابق اجاگر کیا جائے۔ یہ تھی پہلی بات۔ 

اگر ہم یہ کام درست طریقے سے انجام دے سکیں تو پہلی چیز یہ ہے کہ خود وہ استاد جو کلاس میں تدریس میں مصروف ہے، احساسِ عزت و افتخار سے سرشار ہوگا۔ اب اسے کبھی تھکن یا مایوسی کا احساس نہیں ہوگا۔ 

دوسرے یہ کہ، جیسا کہ ہم نے کہا، وہ ہونہار نوجوان جو کیریئر کے انتخاب کی فکر میں ہے، اس کے ذہن میں سب سے پہلے جو پیشے آئیں گے ان میں معلمی بھی شامل ہوگی۔ اس طرح، باصلاحیت افراد تدریس کے شعبے کی طرف راغب ہوں گے اور اساتذہ کے معیار کار میں اضافہ ہوگا۔ یہ تھا استاد کے بارے میں ایک اہم نکتہ۔ 

دوسرا نکتہ خود استاد کا اس پیشے اور کام کی اہمیت کے تعلق سے احساس و ادراک ہے جس میں وہ مشغول ہے۔ اب میں آپ پیارے اساتذہ کرام اور ملک بھر کے معزز اساتذہ سے مخاطب ہوں۔ استاد کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وہ کلاس میں صرف نصابی کتاب ہی نہیں پڑھا رہا ہوتا ہے۔ استاد اپنے شاگرد پر جانے-انجانے اپنی گوناگوں روشوں کے ذریعے اثر انداز ہوتا ہے۔ آپ اپنے اخلاق سے، اپنے رویے سے، کلاس میں موجودگی کے انداز سے، طلباء کے ساتھ پیش آنے کے طریقے سے، پڑھانے کے معیار سے، اپنی خاکساری یا تکبر سے، اپنی سرگرمی و محنت یا سستی و بے رغبتی سے - ہر لحاظ سے اپنے شاگرد پر اثر ڈالتے ہیں اور وہ متاثر ہوتا ہے۔ 

نوجوان کی شخصیت سازی میں سب سے اہم اور موثر عوامل میں سے ایک استاد ہے۔ جس طرح ماں اثر انداز ہوتی ہے، باپ اثر انداز ہوتا ہے، اسی طرح ایک خاص دور میں بعض اوقات اور بعض حالات میں استاد ماں باپ سے بھی زیادہ طالب علم  پر اثر ڈالتا ہے۔ تو اس ادراک اور اس احساس کے ساتھ کلاس میں جائیے۔ جان لیجیے کہ آپ اپنے سامعین پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ یہی فطری طور پر آپ کو اپنے رویے، اپنی گفتگو اور اپنے عمل میں احتیاط پر مجبور کر دے گا۔ یہ ایک اور اہم نکتہ تھا۔ 

معلم کے متعلق ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ 'فرہنگیان یونیورسٹی' (ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی) اور معلم کی تربیت کے مراکز کا معاملہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ وزیر محترم نے اس بارے میں کچھ تفصیلات پیش کی ہیں، تاہم مجھے بھی اس یونیورسٹی کے بعض مسائل کا کچھ علم ہے۔ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی بہت اہم ادارہ ہے. پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ادارہ تعلیم و تربیت ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ بعض حلقوں میں یہ بات اٹھائی گئی کہ اسے کسی دوسری یونیورسٹی سے منسلک کر دیا جائے، لیکن یہ کوئی مناسب اقدام نہیں ہوگا۔ یہ ادارہ تعلیم و تربیت کا ہے اور اسی کے زیر انتظام رہنا چاہیے۔

ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی دراصل ان ہی افراد کی تربیت گاہ ہے جو معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ شہید رئیسی (رحمۃ اللہ علیہ) کے دور میں اساتذہ کے انتخاب کے لیے کچھ معیارات اور ضوابط مقرر کیے گئے تھے؛ ان معیارات کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اس یونیورسٹی میں کام کا معیار ایسا ہونا چاہیے کہ یہاں مطلوبہ اور اعلیٰ درجے کے معلم تیار ہو سکیں اور ایسا عملی طور پر انجام پائے۔ لہٰذا یہ ادارہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ یونیورسٹی علمی، اخلاقی اور عملی اعتبار سے ممتاز اساتذہ کا مسکن اور ان کی آمد و رفت کا مرکز ہونا چاہیے؛ نمایاں علمی شخصیات، اخلاقی و فکری اور ثقافتی صلاحیتوں کے مالک افراد کا یہاں آنا جانا لازمی ہے۔ یہ ادارہ نہایت اہم مقام رکھتا ہے۔ میں نے برسوں تک اس یونیورسٹی کی اہمیت پر زور دیا ہے، آج بھی اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ اس ادارے کو کمزور نہ ہونے دیا جائے۔ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی کے نظام و ضوابط کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ خیر، معلم کے حوالے سے یہ چند باتیں تھیں۔ 

تعلیم و تربیت کے مسائل کے حوالے سے میں نے کچھ نکات نوٹ کیے ہیں۔ البتہ، کہنے اور توجہ دلانے کے قابل باتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، لیکن میں نے یہاں چند اہم نکات درج کیے ہیں جو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ 

پہلا نکتہ یہ کہ تعلیم و تربیت ایک حکومتی ادارہ ہے۔ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو کم از کم ایک خاص سطح تک—مثلاً ہائی اسکول تک، علم، ہنر، پیشہ ورانہ مہارت، معارف اور ایمان سے آراستہ کرے۔ یہ اس کا فریضہ ہے۔ اگرچہ بعض حلقوں میں، بلکہ خود تعلیم و تربیت کے ادارے کے اندر بھی—جیسا کہ مجھے یاد ہے—یہ بات سنائی دیتی ہے کہ اس کے بعض شعبوں کو دیگر اداروں کے حوالے کر دیا جائے، گویا تعلیم و تربیت میں ملوک الطوائفی کا ماحول پیدا ہو جائے۔ یہ بات سراسر بے معنی ہے۔ نئی نسل کی فکری و ثقافتی تربیت کا تعلق حکومت سے ہے، یہ اس کا فرض بھی ہے اور حق بھی۔ یہ کام حکومتوں کو ہی کرنا چاہیے۔ وہی اصولوں، اقدار اور بنیادی ضابطوں کے مطابق نظامِ تعلیم کو استوار کرکے ملک کے نوجوانوں کی رہنمائی کریں۔ یہ کہ ہم اپنے ذاتی رجحانات یا خیالات کو مسلط کریں، درست نہیں۔ گزشتہ برسوں میں کئی اعلیٰ سطح کے ذمہ داران میرے پاس آئے اور اصرار کرتے رہے—ان کی دلیل یہ تھی کہ تعلیم و تربیت کا بجٹ بہت زیادہ ہے جو حکومت پر بوجھ بن رہا ہے۔ حالانکہ تعلیم و تربیت حکومت کا افتخار ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جتنا ہو سکے، تعلیم پر خرچ کرے اور اس پر فخر محسوس کرے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ تعلیم کا بجٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم اسے حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر کر دیں؟ انہوں نے مجھ پر زور ڈالا کہ میں اس کی حمایت کروں، لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔ اگر تعلیم و تربیت کے فیصلہ ساز حلقوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس قسم کے خیالات رکھتے ہیں، تو انہیں اپنا نظریہ ضرور بدلنا چاہیے۔ تعلیم و تربیت حکومت کی ملکیت ہے، اس کے زیرِ انتظام ہے اور اس کی کنجی حکومت کے پاس ہونی چاہیے۔ یہ حکومت کا فرض ہے، وہ جوابدہ بھی ہو، اور یہ اس کا اعزاز بھی ہے کہ وہ ملک میں ایک بہترین نظامِ تعلیم قائم کرے اور اسے ترقی دے۔ یہ تھا پہلا اہم نکتہ۔ 

دوسرا نکتہ تعلیم و تربیت کے نظام کے بارے میں ہے۔ میرے عزیز ساتھیو! لاکھوں کی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں چھ سال سے اٹھارہ سال تک تعلیم و تربیت کے نظام سے وابستہ رہتے ہیں، اس کے زیر سایہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر یہ نئی نسل، یہ کروڑوں پر مشتمل عظیم آبادی صحیح طریقے سے پروان نہ چڑھ سکی تو ہم خدا کے حضور اور آنے والی نسلوں کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ تعلیم و تربیت کا نظام ایسا ہونا چاہیے کہ واقعی انہیں علمی لحاظ سے مفید علم اور ثقافتی و اخلاقی و ایمانی تربیت سے آراستہ کر سکے۔

ویسے یہاں ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا، حضرات نے اسے ترتیب دیا تھا، اجلاس میں آنے سے پہلے میں نے اس پر نظر ڈالی تو خوشی ہوئی کہ تعلیمی نظام کی بعض ضروری باتوں پر توجہ دی گئی ہے۔ اس معاملے کو بڑی سنجیدگی سے آگے بڑھانا چاہیے۔ موجودہ اور پرانا تعلیمی نظام در پیش تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ ساتویں پانچ سالہ منصوبے میں حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک تعلیم و تربیت کا نیا تنظیمی نظام تیار کرنا ہے۔ یہ ذمہ داریوں میں شامل ہے جس پر کچھ کام ہو چکا ہے اور کچھ کام جاری بھی ہے۔ اس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلیمی نظام کو اپنی منفرد اور جامع ساخت کی ضرورت ہے۔ یہ مناسب شکل، یہ درکار وضع، یہ ضروری ڈھانچہ جو یقیناً تبدیلی پر مبنی ہو اور موجودہ ضروریات کے مطابق ہو، اسے بہترین طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچائیے۔

بے شک تبدیلی کی دستاویزِ کا ترمیم شدہ نسخہ — جیسا کہ میں نے سنا ہے — اس وقت زیرِ غور ہے اور اس پر کام ہو رہا ہے، یہ اچھی بات ہے۔ لیکن نہ صرف اس دستاویز کو حقیقی معنوں میں درست کیا جائے، بلکہ تبدیلی کے اس دستاویز کے لائحہ عمل کو بھی— جو شہید صدر رئیسی کی حکومت کے دوران شروع ہوا تھا، جس کے سلسلے میں کچھ انتباہات بھی دئے گئے تھے، جس پر عمل کیا گیا تھا، کام ہوا تھا — ادھورا مت چھوڑیں، اسے بيچ میں مت چھوڑیں۔ اس میں ماہرانہ عمل درکار ہے، اس میں فرض شناسی کی ضرورت ہے۔ یعنی جو لوگ تعلیم و تربیت کے مناسب نظام کو مرتب کر رہے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے تو ماہر ہوں، تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتے ہوں، اسے پہچانتے ہوں؛ دوسرے وہ فرض شناس ہوں؛ دین کے پابند ہوں، ملک کی خودمختاری کے پابند۔ یہ نیا نظام ہمارے نوجوانوں اور بچوں کو عالم، باایمان، ایران دوست، محنتی، مستقبل کے لیے پرامید بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس سے یہ نتیجہ ملنا چاہئے۔

درسی کتابوں کے بارے میں بھی ایک اہم بات ہے۔ درحقیقت، استاد اور درسی کتاب یہ دو عناصر مل کر تعلیم و تربیت کی اساس اور بنیاد ہیں۔ درسی کتاب کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ میں نے بارہا—خواہ عام اجتماعات میں جہاں اساتذہ اور تعلیمی ماہرین موجود ہوتے ہیں، یا پھر سابقہ تعلیمی حکام کے ساتھ خصوصی نشستوں میں—درسی کتابوں کے حوالے سے سفارش کی ہے، تاکید کی ہے۔ کچھ کام بھی ہوا ہے، مثلاً کسی مسلم صاحب علم کا نام کتاب میں شامل کر دیا گیا، یا جاسوسی کے اڈے (تہران میں امریکی سفارت خانہ جو جاسوسی کے مرکز میں تبدیل ہو گیا  تھا۔) سے ملنے والے دستاویزات کے چند ورق—جن کی طرف ہم نے توجہ دلائی تھی—کتابوں میں ڈال دیے گئے۔ لیکن یہ سب کافی نہیں ہے! یہ ضروری تو ہے، مگر بس اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ درسی کتاب کو طالب علم کی تربیت کرنی چاہیے، اسے پروان چڑھانا چاہیے۔ 

پہلی بات یہ کہ کتاب پرکشش ہونی چاہیے۔ آج اگر آپ پرائمری ہو یا سیکنڈری، کسی بھی طالب علم سے ملیں، تو آپ دیکھیں گے کہ درسی کتاب اس کے لیے کوئی پرکشش چیز نہیں ہے۔ مواد دلچسپ ہونا چاہیے—یعنی علم کے گہرے اور پیچیدہ موضوعات کو بھی شیریں اور پرکشش زبان میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہونا چاہئے۔ ہماری پوری زندگی درس و تدریس، سننے اور سکھانے میں گزری ہے—ہم جانتے ہیں کہ مشکل سے مشکل علمی مباحث کو بھی سادہ، پرلطف اور سامع کے ذوق کے مطابق بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو تھی مواد کی بات۔ 

دوسری بات ہے کتاب کی ظاہری شکل و صورت۔ کتاب کا ڈیزائن، اس کی ظاہری شکل، یہ سب ذوق و تخلیق، خوبصورتی اور جمالیات کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ فی الوقت ایسا نہیں ہے۔ آج ہماری درسی کتابوں کی شکل و صورت میں کوئی کشش نہیں۔ لہٰذا، درسی کتابوں کا  مسئلہ بھی اہم ہے۔  جو لوگ درسی کتابیں تیار کرتے ہیں، جو ادارہ ان کے مواد کو مرتب کرتا ہے، اس کے اراکین میں سو فیصد دینی ایمان، سیاسی بصیرت اور اسلام و انقلاب کے اصولوں، بنیادوں اور اقدار کے ساتھ پختہ وابستگی ہونی چاہیے۔ ایسے ہی افراد کو کتابوں کی ترتیب و تالیف کی ذمہ داری سونپی جائے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ 

دو تین نکات مزید ہیں، البتہ میں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ فنی اور پیشہ ورانہ سبجیکٹس کے بارے میں ہیں، جو ہماری مستقل تاکید کا مرکز رہے ہیں، ابھی بتایا گیا کہ ان سبجیکٹس میں داخلے کی شرح 50 فیصد تک لے جانے کا ارادہ ہے۔ یہ اچھی بات ہے، لیکن آپ کو ان فنی شعبوں اور ان طلباء پر مزید توجہ دینی چاہیے جو فنی مہارتیں سیکھ رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں، اور جلدی سے روزگار کے بازار میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ نوجوان نہ صرف روزگار کے لیے زیادہ موزوں ہوتے ہیں بلکہ بے روزگاری کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ایک مسئلہ تعلیمی انصاف کا بھی ہے۔ الحمد للہ، ملکی عہدیداران کے ہاں تعلیمی انصاف کی اصطلاح کثرت سے استعمال ہوتی ہے، اور میں خود بھی تعلیمی انصاف کا پوری طرح قائل ہوں۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ تعلیمی انصاف کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل طلباء کو نظر انداز کر دیں۔ بعض لوگ تعلیمی انصاف کا غلط مفہوم نکال لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، 'سمپاد' (3) جیسے ادارے ملک کی ضرورت ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ ہونہار طلباء کو ڈھونڈیں، ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان کی رہنمائی کریں تاکہ وہ ارتقائی سفر طے کر سکیں۔ کچھ طلباء کم وقت میں زیادہ علم حاصل کر سکتے ہیں، ایسے طلباء کو نظر انداز کر دینا، انہیں عام دھارے میں نہیں چھوڑا جا سکتا اور یہ ہرگز تعلیمی انصاف کے خلاف نہیں ہے۔ انصاف کا مطلب ہے ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا۔ یہ انصاف کا مطلب ہے۔ جو طالب علم زیادہ سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسے زیادہ تعلیم دینا ہی انصاف ہے۔ اگر آپ زیادہ استعداد رکھنے والے کو کم تعلیم دے رہے ہیں، تو یہ انصاف کے خلاف ہے۔

آخری بات الگ تربیتی ڈائریکٹر کے معاملے کے بارے میں ہے جو ہمارا ہمیشگی موقف اور مسلسل اصرار رہا ہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ بعض لوگوں نے غفلت اور لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الگ تربیتی ڈائریکٹر کے معاملے کو نظرانداز کر دیا، ختم کر دیا، اور اس کی طرف توجہ نہ دی۔ انہوں نے اس سلسلے میں غلط دلائل بھی پیش کیے جو مسترد کر دیے گئے۔ خوش قسمتی سے آج میں نے دیکھا کہ محترم وزیر نے تربیتی امور اور تربیتی ادارے جیسے مسائل پر کچھ وضاحتیں کی ہیں۔ ان شاء اللہ اس معاملے کو آگے بڑھایا جائے اور اسے بہترین طریقے سے انجام دیا جائے۔ یہ تو تھی تعلیم و تربیت کے بارے میں بات۔

چند الفاظ ان سیاسی باتوں کے بارے میں بھی عرض کر دوں جو ان دنوں علاقائی اور بین الاقوامی فضا میں اٹھائی گئی ہیں۔ ان میں سے بعض باتیں جو امریکی صدر کے اس خطے کے دورے کے دوران کہی گئیں، وہ اتنی پست سطح کی ہیں کہ وہ جواب دینے کے لائق ہی نہیں ہیں۔ یہ باتیں کہنے والے کے لیے بھی شرمندگی کا باعث ہیں اور امریکی قوم کے لیے بھی رسوائی کا سبب ہیں۔ ہمیں ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ البتہ ایک دو جملوں پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔

ٹرمپ نے کہا کہ وہ طاقت کو امن کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ انہوں نے اور دیگر امریکی حکام نے، امریکی حکومتوں نے طاقت کا استعمال غزہ کے قتل عام کے لئے، ہر ممکن جگہ جنگ بھڑکانے اور اپنے ایجنٹوں کی حمایت کے لیے کیا ہے۔ کب انہوں نے طاقت کو امن قائم کرنے کے لیے استعمال کیا؟ ہاں، طاقت کو امن اور سلامتی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے تو ہم دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں کہ ہم ان شاء اللہ اپنی طاقت اور ملک کی قوت میں روز بروز اضافہ کریں گے۔ لیکن انہوں نے یہ کام نہیں کیا۔ انہوں نے طاقت کا استعمال صیہونی حکومت کو دس ٹن کے بم دینے کے لیے کیا، جو غزہ کے بچوں، اسپتالوں اور لبنان سمیت ہر جگہ عام لوگوں کے گھروں پر برسائے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔

امریکی صدر عرب ممالک کو ایک ایسا ماڈل پیش کرتے ہیں جو خود اُن کے اپنے الفاظ میں، ایسا ہے کہ اس میں یہ ممالک امریکہ کے بغیر دس دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے یہی تو کہا تھا۔ انہوں نے یہی تو کہا تھا کہ اگر امریکہ نہ ہو تو یہ اپنا وجود دس دن تک بھی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ امریکہ ہی انہیں سنبھالے ہوئے ہے۔ اب بھی اپنے معاملات، اپنے رویے اور اپنی تجاویز میں وہ ان ممالک پر یہی نمونہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ یہ امریکہ کے بغیر زندہ نہ رہ سکیں۔ یقیناً یہ نمونہ ناکام ہو چکا ہے۔ خطے کے عوام کی کوششوں سے امریکہ کو اس علاقے سے نکلنا ہوگا، اور وہ نکلے گا بھی۔

بلاشبہ اس خطے میں فساد، جنگ اور اختلاف کی جڑ صیہونی حکومت ہے۔ صیہونی حکومت جو اس علاقے کا ایک خطرناک اور مہلک سرطان ہے، ضرور اکھاڑ پھینکی جانی چاہئے، اور ایسا ہوگا بھی۔

اسلامی جمہوریہ کے اپنے واضح اصول ہیں، ایک مخصوص نظام اقدار ہے۔ ہمارے اردگرد جو بھی اتار چڑھاؤ آئے، ہم نے انہی اصولوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ملک کو آگے بڑھایا ہے۔ آج کا ایران تیس سال، چالیس سال یا پچاس سال پہلے والا ایران نہیں ہے۔ آج خدا کے فضل و کرم سے، دشمنوں کی آنکھوں میں خاک ڈالتے ہوئے، دوسروں کی مخالفت کے باوجود، ایران پیشرفت حاصل کر چکا ہے اور ان شاء اللہ اس سے کئی گنا زیادہ پیشرفت حاصل کرے گا، اور یہ سب دیکھیں گے۔ ہمارے نوجوان اسے بخوبی دیکھیں گے اور ان شاء اللہ مطلوبہ آئیڈیل اسلامی ایران کی تعمیر میں پورے طور پر حصہ لیں گے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌الله و‌ برکاتہ

1- اس ملاقات کے آغاز میں وزیر تعلیم و تربیت جناب علی رضا کاظمی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

2- ڈاکٹر مسعود پزشکیان

3- غیر معمولی اور درخشاں استعداد کو پروان چڑھانے پر مامور قومی ادارہ۔