بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم

والحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین

برادران عزیز خواہران گرامی، محترم کمانڈر حضرات، مقدس دفاع کی یادگاریں، مجاہدین، پرجوش نوجوان، ملت ایران کی فضیلتوں کے نمونے آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں، ملت ایران کو آپ کی قدر کرنا چاہئے، آپ میں سے ان نوجوانوں کی بھی قدر کرنا چاہئے جنھوں نے اس وادی میں قدم رکھا اور اپنے دلوں کو حقائق سے روشناس کیا اور ان کہنہ مشق اور تجربہ کار سینیئر افراد کی بھی قدر کرنا چاہئے جنھوں نے ان میدانوں کو سر کیا، بڑے عظیم کارنامے انجام دئے اور آج بھی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اکثر و بیشتر شہادت کے انتظار میں اپنے لمحات بسر کر رہے ہیں۔ یہ فرزندان ملت ہیں، ملت ایران کو چاہئے ان کی قدر کرے، ملک کے حکام اور عہدیداران کو چاہئے کہ ان کی قدر کریں اور ان باتوں کی اہمیت کو سمجھیں۔

سب سے پہلے تو میں  'راہیان نور' مشن کے ذمہ داروں اور کارکنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے بارے میں جناب جنرل باقری صاحب نے بتایا کہ ان میں اہم عہدیداران، عمائدین اور ذمہ دار افراد شامل ہیں۔ میں آپ سب کا شکرگزار ہوں۔ یہ بڑا عظیم کام ہے، بڑا اہم کام ہے اور بڑا اثرانگیز عمل ہے۔

ایک نکتہ یہ ہے کہ ہمیں باعظمت ایام کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ کسی بھی ملک اور کسی بھی قوم کا عظیم دن وہ ہوتا ہے جس میں عوام کے ذریعے اور عوام کے ہاتھوں کوئی عظیم الہی واقعہ رونما ہوتا ہے۔ ذَکِّرهُم بِاَیّامِ ‌الله؛ (۲) اللہ تعالی نے قرآن کریم میں پیغمبر اکرم کو یہ حکم دیا ہے کہ لوگوں کو ایام اللہ کی یاد دلاؤ! ایام اللہ وہی  تاریخ ساز ایام ہیں۔ آٹھ سالہ مقدس دفاع بلکہ ان آٹھ برسوں کے تمام ایام در حقیقت ایام اللہ کا جز ہیں۔ ان واقعات کو ہرگز فراموش نہیں ہونے دینا چاہئے۔ ہمیں یہ تعلیم قرآن سے ملی ہے۔ قرآن میں بار بار یاد دلایا گیا ہے؛  وَ اذکُر فِی‌ الکِتٰبِ ابراهیم؛(۳)  وَ اذکُر فِی ‌الکِتٰبِ موسیٰ؛(۴)  وَ اذکُر فِی ‌الکِتٰبِ اِدریس؛(۵)  وَ اذکُر فِی ‌الکِتٰبِ مَریَم؛(۶) لہذا ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ قرآن ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ان حقائق کو  ہمیشہ یاد رکھیں اور انھیں بار بار دہراتے رہیں۔ آپ ذرا غور کیجئے کہ حضرت موسی کا قصہ، حضرت ابراہیم کی روداد اور دیگر واقعات قرآن میں کتنی دفعہ دہرائے گئے ہیں، بار بار انھیں یاد دلایا گيا ہے۔ تاکہ انھیں فراموش ہونے سے بچایا جائے۔ البتہ ہم اس سلسلے میں کچھ کوششوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں، مجھے جناب جنرل باقری صاحب سے بڑی امیدیں ہیں اور ان پر مجھے بڑا اعتماد ہے، انھوں نے بتایا کہ یہ کام وہ یا تو انجام دے چکے ہیں یا باقی بچے کام انجام دے رہے ہیں۔

یہ کام دو طرح کے ہوتے ہیں، ان میں کچھ کام تنظیمی اور ادارہ جاتی ہیں۔ یعنی ہم کوئی ادارہ قائم کر دیتے ہیں یا کوئي تنظیم بنا دیتے ہیں۔ یہ اچھا کام ہے۔ مگر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو اجرائی ہوتے ہیں، عملی ہوتے ہیں، اجرائی کاموں کے لئے صرف ادارہ قائم کر دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ دئمی طور پر اس کی نگرانی کرنی ہوتی ہے، اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کام آگے بڑھ رہا ہے یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر کام آگے بڑھ رہا ہے تو صحیح سمت میں بڑھ رہا ہے یا نہیں، اس میں انحراف تو پیدا نہیں ہو گیا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس میں ارتقائی کیفیت پیدا ہنا چاہئے، یعنی یکسانیت نہیں ہونا چاہئے۔ یہ جو روایت ہے؛ «مَن ساوی یَومَاهُ وَ هُوَ مَغبون»،(۷) وہ اس پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ اگر ہمارا آج کا کام گزرے ہوئے کل جتنا ہی رہا ہے تو یقینا ہم دھوکا کھا گئے ہین۔ آج ہمیں پیشرفت کل کی نسبت ایک قدم زیادہ ہونا چاہئے، گزرے ہوئے کل سے بہتر ہونا چاہئے۔ یہ جو میں گوناگوں شعبوں کے عہدیداران سے، دفاعی شعبے کے عہدیداران سے، حکومتی شعبے کے عہدیداران سے، عدلیہ کے عہدیداران سے بار بار تاکید کرتا رہتا ہوں کہ آپ اپنی پشت پر موجود انسانوں کی صفوں میں اس آخری صف پر بھی نظر رکھئے، نگرانی کرتے رہئے، توجہ رکھئے تو اس کی یہی وجہ ہے۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ کام مسلسل جاری رہنا چاہئے۔ اس لئے کہ  اگر ہم نے کوئی کام شروع کیا لیکن بعد میں کام کے دوران ہم بھول گئے کہ ہمارے ذمے یہ کام ہے یا ہم نے اس کے انجام دینے کا حکم دے رکھا ہے یا یہ کہ ہمیں فلاں کام انجام دینا ہے تو پھر وہ کام سرے سے بھول ہی جاتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کام کو انسان بھولا نہیں ہے، کام چل رہا ہے، لیکن اس کی سمت غلط ہے۔ ہم نے ایسی بھی مثالیں دیکھی ہیں کہ کام بہت اچھا شروع ہوا، لیکن کچھ آگے بڑھنے کے بعد اس میں کجی پیدا ہو گئی اور اپنی منزل سے منحرف ہو گیا۔ جب کجی پیدا ہوتی ہے کہ شروع میں انسان کو محسوس نہیں ہوتا، کیونکہ یہ کجی بہت خفیف سی  ہوتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے کام آگے بڑھتا ہے، اصلی سمت سے اس کا فیصلہ بڑھتا جاتا ہے۔ بعض کام ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں انحراف بھی نہیں پیدا ہوتا، لیکن یکسانیت سی ہو جاتی ہے، آج دیکھئے تو وہی پانچ سال پہلے والی حالت نظر آتی ہے، دس سال پہلے والی کیفیت نظر آتی ہے، بیس سال قبل والی صورت حال ہی نظر آتی ہے، کوئی ارتقاء نظر نہیں آتا۔ ارتقاء کے لئے صرف اعداد و شمار بیان کر دینا اور تقریریں کر دینا کارساز نہیں ہوتا بلکہ اس طرح عمل ہونا چاہئے کہ اس کا نتیجہ زمین پر نظر آئے، ہمیں دکھائی دے کہ کیا کام انجام دیا جا رہا ہے۔ اس مشن میں شامل افراد سے میری گزارش یہ ہے کہ اس بات کا بڑا خیال رکھیں کہ یہ عمل بڑا عظیم ہے، میں ابھی اس کے بارے میں اختصار سے کچھ باتیں عرض کروں گا۔

برادران عزیز اور خواہران گرامی! آپ دیکھئے کہ ہر ملک کا ایک سرمایہ ہوتا ہے۔ بعض کے پاس ماحولیاتی سرمایہ ہے، بعض کے پاس جغرافیائی سرمایہ ہے، بعض کے پاس زیر زمین ذخائر ہیں، بعض ملکوں کے پاس افرادی قوت کا سرمایہ ہے، ماہر اور ذی فہم افرادی قوت کا سرمایہ ہے، بعض ملکوں کے پاس تیل ہے، بعض کے پاس عقل ہے لیکن پیسہ نہیں ہے، بعض کے پاس اس کے برخلاف پیسہ ہے لیکن عقل نہیں ہے۔ دنیا میں اس طرح کی قومیں ہیں۔ کوئی بھی ملک ہو اس کا جو سرمایہ ہے وہاں کے عوام کو چاہئے کہ اس کی حفاظت کریں۔ ہمارے پاس ایسی بہت سی خوبیاں ہیں، ہمارے یہاں قدرتی وسائل کی نعمتیں کثرت سے ہیں، البتہ ان کی تفصیلات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے، ہمارے پاس زمینیں ہیں، زیر زمین ذخائر ہیں، زمین کے اوپر بھی ہمارے پاس قدرتی وسائل ہیں، افرادی قوت ہے، فہم و شعور کی توانائی ہے، یہ سب کچھ ہمارے پاس ہے لیکن ہماری ایک عظیم ثروت ہے ثقافتی سرمایہ۔ ہمارے پاس ثقافتی سرمایہ موجود ہے۔ ثقافتی سرمایہ کیا چیز ہے؟ مثال کے طور پر جہاد کی جانب رجحان اور جہاد کا عقیدہ ایک ثقافتی سرمایہ ہے۔ یعنی جب آپ ایران کے عوام کے درمیان گھومیں گے، لوگوں کے بیچ جائیں گے تو کچھ معدودے چند افراد کو چھوڑ کر بقیہ لوگوں میں آپ کو دین کے راستے پر چلنے کا جذبہ نظر آئے گا۔ البتہ اس جذبے کی گہرائی میں فرق ہے، کہیں بہت زیادہ اور کہیں قدرے کم ہے۔ ایک شخص کے اس جذبے کی گہرائی بس اتنی ہے کہ جب ٹی وی کے کیمرے کے سامنے آتا ہے وطن عزیز کی حمایت میں، انقلاب کی امنگوں کی حمایت میں اور اسلام کی حمایت میں نعرے لگاتا ہے۔ بہت اچھی بات ہے یہ جذبہ موجود ہے۔ کسی شخص کے اندر اس سے زیادہ جذبہ ہوتا ہے۔ کسی کے اندر یہ جذبہ اتنا گہرا ہوتا ہے کہ ہو اپنی جان بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ یہ مجاہدت پسندی اور یہ مجاہدت کے راستے پر چلنے کا جذبہ، یہ مجاہدت کا عقیدہ، در حقیقت ثقافتی سرمایہ ہے۔ ہمارے ملک میں یہ سرمایہ موجود ہے، بہت سے ملکوں میں اس کا فقدان ہے۔

انقلاب سے پہلے جب ہمارے مجاہدین اس زمانے کے مارکسی مجاہدین سے کہیں ملتے تھے تو اجتماعی بحثوں میں بھی اور دو افراد کی بحثوں میں بھی، جیل میں بھی اور جیل کے باہر بھی، میں ہمیشہ اپنے مجاہدین سے یہ بات کہتا تھا کہ ہمارے اور ان کے درمیان فرق یہ ہے کہ ہمارے پاس اللہ ہے اور ان کے پاس خدا نہیں ہے۔ ان کی حالت پر مجھے رونا آتا ہے۔ جیل کی کوٹھری میں، ایذاؤں کا سامنا کرتے وقت، حد درجہ دشوار حالات میں ہمارے پاس ایک پناہ تھی، ہمارے ساتھ خدا تھا جس کی پناہ میں ہم چلے جاتے تھے، اس سے مدد مانگتے تھے، اگر ارادہ پروردگار کا تقاضا ہماری مدد کرنا نہ ہوتا تب بھی ہمیں اس بات کا تو اطمینان رہتا تھا کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ ہم اس کی خاطر ایذائیں برداشت کر رہے ہیں۔ مگر اس مارکسسٹ شخص کے پاس تو یہ سہارا نہیں تھا۔ میں یہی کہتا تھا کہ یہ شخص جو اللہ کو نہیں مانتا، وہ جب تک جذبہ ہے، جوش و خروش ہے، احساسات و جذبات ہیں، آگے بڑھے گا، جست لگائے گا، مگر جیسے ہی یہ جوش اور یہ احساسات و جذبات کمزور پڑے اور وہ اپنی حالت پر غور کرے گا تو اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ عبث ہی ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ وہ اپنے آپ سے یہی سوال کیا کرے گا کہ کیا میں اس لئے قتل کر دیا جاؤں کہ دوسرے کو زندگی مل جائے؟! میں قتل کر دیا جاؤں  کہ فلاں شخص کو دولت مل جائے اور وہ آرام کی زندگی بسر کرے؟! ایمان کی خصوصیت یہی ہے کہ انسان کے اندر جہاد کے جذبے کو اور جدوجہد کے رجحان کو زندہ رکھتا ہے۔ یہ خود اپنے آپ میں ایک ثقافتی سرمایہ ہے، عظیم ثقافتی دولت ہے۔ یہ تو رہی ایک بات۔

توسیع پسند طاقت کے سامنے مزاحمت کا جذبہ بھی ایک ثقافتی سرمایہ ہے۔ یہ یقین کہ اگر ہم استقامت کا مظاہرہ کریں گے تو سرانجام دشمن پر غلبہ حاصل کر لیں گے، ایک ثقافتی قدر اور ثقافتی سرمایہ ہے۔ اگر ہم شمار کریں تو اپنے ثقافتی سرمایوں کی ایک طولانی فہرست تیار کر سکتے ہیں۔ یہ سرمایہ ہمارا ہے، ہمارے پاس ہے، اس سے  ہمیں توانائی ملتی ہے، اگر ہم اسے زندہ رکھیں، یا جو ثقافتی قدریں فراموش ہو گئی ہیں انھیں دوبارہ زندہ کریں اور اپنی زندگی میں لائيں، جیسا کہ انقلاب کی تحریک کے دوران ہوا اور فراموش شدہ قدریں دربارہ زندگی میں رائج ہو گئیں، تو ایسی صورت میں ہم بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھئے کہ اس تیس چالیس سال کی مدت میں ہمارے ملک میں کتنے عظیم کام انجام پائے ہیں۔ آپ نوجوانوں نے انقلاب سے قبل کا دور، طاغوتی حکومت کا دور نہیں دیکھا ہے۔ ہم نے وہ زمانہ دیکھا ہے۔ اگر کوئی اس زمانے میں کہتا کہ  ایران میں ایک ایسا انقلاب آ سکتا ہے جس کے نتیجے میں ملک پر دین کی حکمرانی ہو جائے اور امام خمینی جیسی شخصیت کے ہاتھ میں تمام امور سونپے جا سکتے ہیں تو بلا شبہ ایک عام سوجھ بوجھ رکھنے والا انسان یہی کہتا کہ یہ ناممکن ہے، محال ہے۔ اس میں کسی کو کوئی شک ہی نہیں تھا، یعنی حالات ایسے تھے، مگر یہی نا ممکن چیز ممکن ہو گئی۔

مسلط کردہ جنگ بھی اسی زمرے میں آتی ہے، مقدس دفاع کا قضیہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ میں یہاں حاشئے کہ طور پر ایک بات عرض کرتا چلوں کہ آٹھ سالہ جنگ اس لئے ہوئی کہ دشمن کو یہ محسوس ہوا کہ ہمارے اندر کمزوریاں ہیں۔ اگر دشمن بعثی حکومت اور اسے جنگ کی ترغیب دلانے والے پوری طرح مطمئن نہ ہوتے کہ چند دن کے اندر وہ تہران پہنچ جائیں گے تو یہ جنگ نہ  ہوتی۔ اس وقت ان کا تصور یہی تھا۔ وہ ہمیں کمزور سمجھ رہے تھے۔ آپ کی کمزوری محسوس کرکے دشمن کو آپ پر حملہ کر دینے کی ترغیب ملتی ہے، یہ ایک کلیہ ہے۔ اگر آپ دشمن کو اپنے اوپر حملہ کرنے سے باز رکھنا چاہتے ہیں تو یہ کوشش کیجئے کہ آپ کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم جھوٹ بولیں اور اعلان کریں کہ ہم بہت طاقتور ہیں، بلکہ ہمیں بس اتنا کرنا چاہئے کہ اپنی قوت کو نمایاں رکھیں۔ ہماری کامیابیاں بہت زیادہ ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی ان کامیابیوں کو منظر عام پر لائیں۔ اقتصادی شعبے میں بھی اور ثقافتی شعبے میں بھی ہمیں یہ کرنا چاہئے۔

در پیش اقتصادی مسائل کے سلسلے میں ہمارے بعض عہدیداران سے یہی غلطی ہوئی کہ انھوں نے اقتصادی میدان میں کمزوریوں کی بات کی۔ اس وقت ہمیں اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔ دشمن نے دیکھا کہ یہی وہ میدان ہے جس کی مدد سے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے، چنانچہ اس نے اسی شعبے پر اپنا کام تیز کر دیا۔ یہاں تک کہ ایک عہدیدار سے جب انٹرویو میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ فلاں جگہ جو فوجی مشقیں کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ایرانیوں سے مذاکرات بھی انجام دے رہے ہیں تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ان فوجی مشقوں سے ایرانیوں کو غصہ آئے اور اقتصادی مذاکرات متاثر ہو جائیں؟! اس سوال پر وہ بغیر ہچکچائے اور بغیر شرمائے جواب دیتا ہے کہ جی نہیں، ان مشقوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا، ایرانیوں کو ان مذاکرات کی اتنی شدید احتیاج ہے کہ ہمارے اقتصادی مذاکرات پر ان فوجی مشقوں کا کوئی اثر نہیں پڑںے والا ہے!! تو دشمن کے سامنے آپ کبھی کمزوری ظاہر نہ کیجئے!

جنگ کے زمانے میں دشمن کو ہماری کمزوری نظر آئی تو اس نے حملہ کر دیا۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ واقعی ہم اس وقت کمزور تھے یا نہیں؟ تو حقیقت یہی ہے کہ ہم کمزور تھے، ہماری مسلح فورسز پراگندگی کا شکار تھیں، انتشار اور آشفتگی کا ماحول تھا، منظم مینجمنٹ نہیں تھا، ہمارے بہت سے دفاعی وسائل بیکار ہو چکے تھے، بہت سے وسائل کے طریقہ استعمال سے ہم نابلد تھے۔ جنگ کے ایک دو سال گزر جانے کے بعد ہمیں اپنے گوداموں میں موجود بہت سی چیزوں کے بارے میں پتہ چلا کہ ہمارے پاس یہ چیزیں موجود ہیں اور ہم انھیں استعمال کر سکتے ہیں۔ جنگ کا ہمارے پاس تجربہ نہیں تھا۔ طاغوتی شاہی دور میں بس نمائش کے طور پر کچھ حملے ہوئے تھے؛ عراق سے کچھ فوجی ایران کے اندر داخل ہوئے، جواب میں ایرانی فورسز نے انھیں پیچھے دھکیلا اور عراق کی سرحد میں کچھ کلومیٹر تک داخل ہو گئیں، بس اسی حد تک ٹکراؤ ہوا تھا۔ ہمیں جنگ کا تجربہ نہیں تھا۔ ہمارے پاس جنگ کا جو تجربہ تھا وہ دوسری عالمی جنگ کے دور کا تھا۔ اس زمانے میں طاغوتی حکمراں نے اپنے کمانڈر سے پوچھا کہ ہماری مسلح فورسز کس حد تک دشمن فوج کا سامنا کر سکتی ہیں، اس نے جواب دیا تھا کہ جناب دو گھنٹے مزاحمت کر سکتی ہیں۔ یہ سن کر شاہ کا موڈ خراب ہو گیا۔ رضاخان کا زمانہ تھا، اس پر کڑواہٹ طاری ہو گئی۔ بعد میں لوگوں نے اس کمانڈر سے کہا کہ بہتر تھا کہ کسی اور طرح سے یہی بات کہتے کہ شاہ کا موڈ اتنا خراب نہ ہوتا، بہتر الفاظ میں یہی بات کہہ سکتے تھے۔ کمانڈر نے کہا کہ میں نے دو گھنٹا کہا تو یہی مبالغہ آرائی کرکے کہا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں دس منٹ سے زیادہ مزاحمت کی توانائی نہیں ہے! تو ہمارے جنگی تجربات کا یہ عالم تھا۔

جنگ کا آغاز ان حالات میں ہوا۔ چنانچہ آپ دیکھئے کہ بالکل ابتدائی مراحل میں دشمن شہر اہواز کے دس بارہ کلومیٹر فاصلے تک آن پہنچا۔ یعنی دشمن کے مارٹر گولے اہواز کے نواحی علاقوں پر گرنے لگے تھے۔ یہ نوبت آ گئی تھی۔ دزفول کے علاقے میں دشمن فورسز نادری پول کو عبور کر چکی تھیں اور دریائے دزفول کے اس طرف آن پہنچی تھیں۔ یعنی دزفول اور اہواز اسی طرح صوبہ خوزستان کے دیگر شہر پر خطرہ مڈلانے لگا تھا۔ دشمن پہلے حملے میں اس طرح آگے بڑھا، ہماری یہ حالت تھی۔

اس کے بعد ہمارے عظیم قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز پر، جو در حقیقت ایک معجزہ روزگار تھے، جو عظیم آیات الہیہ میں سے ایک تھے، وہ واقعی عظیم آیت پروردگار تھے، مسلمان فورسز کو اور ہماری انقلابی فورسز کو ایک نئی توانائی ملی، انھوں نے اپنے دستیاب وسائل کو استعمال کیا، انھوں نے اپنی اس توانائیو کو استعمال کیا جو ان کے اندر نہفتہ تھی اور انھیں اس کا علم نہیں تھا۔ یہ قوت صرف جنگ کرنے کی قوت اور میدان جنگ میں اتر جانے کی شجاعت تک محدود نہیں تھی، یہ تو اس قوت کا صرف ایک رخ تھا، اس میں مینیجمنٹ کی توانائی، تنظیمی مہارات، جدت عملی کی توانائی بھی شامل تھی۔ چنانچہ جنگ کا نقشہ بھی بدل گیا۔ جنگ کا آغاز 1980 میں ہوا اور وہ نقصانات ہوئے جن کا میں نے ذکر کیا لیکن 1982 میں فتح المبین آپریشن کے نتیجے میں دشمن فوج کے کئی ہزار فوجی ہمارے جوانوں کے ہاتھوں قیدی بنا لئے گئے۔ آپ تبدیلی کی اس سرعت کو دیکھئے! ڈیڑھ سال کہ عرصے میں ہماری مومن اور انقلابی فورسز نے اتنی پیشرفت کر لی کہ اہواز کے قریب تک پسپائی اور دزفول کی قریب تک پسپائی فتح المبین آپریشن جیسی عظیم اقدامی کامیابی میں تبدیل ہو گئی اور اس کے نتیجے میں دشمن کے تقریبا دس بارہ ہزار فوجی ہمارے قیدی بن گئے۔ واقعی مسلط کردہ جنگ کے ایام اور مقدس دفاع کے ایام، ایام اللہ کا جز ہیں۔ اس کی ہمیشہ حفاظت کرنا چاہئے، یہ عظیم سرمایہ ہے۔

جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ جنگ کا نام زبان پر نہیں لانا چاہئے اور اگر کبھی زبان پر جنگ کا نام آئے تو مذمت کے ساتھ آئے ہو غلطی کر رہے ہیں۔ جنگی اصطلاحات اور نتائج کا جائزہ لینے کے لئے اجلاس منعقد کرتے ہیں اور اسی اجلاس میں جنگ کے خلاف اشعار پڑھتے ہیں! یہ غلطی ہے۔ یہ ان لوگوں کی مانند ہیں جو کسی قوم کے حد درجہ نفیس مخطوطات کو بے نظیر خطی نسخوں کو آگ میں ڈال دیتے ہیں اور نابود کر دیتے ہیں، ان لوگوں کی مانند ہیں جو ایک ملک کا تیل زمین سے نکال کر سمندر میں بہا دینا چاہتے ہیں۔ وہ قومی ثرورت کو اس ثروت کو جو تاریخ کی تعمیر کر سکتی ہے، ملک کے مستقبل کو سنوار سکتی ہے، جس کا ذکر «وَ ذَکِّرهُم بِایّامِ الله» [۸] کے زمرے میں آتا ہے، تباہ کر دینا چاہتے ہیں۔ جنگ کے خلاف فلمیں بناتے ہیں، کتابیں لکھتے ہیں، اس طرف سے بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ یہ لوگ دو الگ الگ قضیوں میں خلط ملط کرتے ہیں۔ ایک قضیہ یہ ہے کہ جنگ اپنے آپ میں ایک اچھی چیز ہے یا بری شئے ہے؟ ظاہر ہے جنگ ایک تشدد آمیز چیز ہے، جنگ میں قتل و غارت ہوتی ہے، تباہی ہوتی ہے، لوگ زخمی ہوتے ہیں، یہ تو بالکل واضح چیز ہے۔ ایک قضیہ یہ ہے۔ ایک اور قضیہ یہ ہے کہ کسی قوم پر باہر سے حملہ ہوتا ہے، اب اگر یہ قوم اپنی توانائیوں کو بروئے کار نہیں لاتی اور دشمن کے مقابلے میں ثابت قدمی  سے ڈٹ نہیں جاتی ہے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس قضیئے کو اس پہلے قضیئے سے جوڑ دیتے ہیں۔ مقدس دفاع ایک حیاتی عمل تھا، ایک ملت کو سانس لینے کا حق عطا کرنے والا عمل تھا، یہ نہ ہوتا تو ہم سانس نہ لے پاتے، مر جاتے، تو اس سرمائے کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ اس طرح آٹھ سالہ مقدس دفاع کی یادیں ہمارے لئے عظیم قومی سرمایہ ہیں۔ یہ یادیں اتنی زیادہ، گوناگوں، با معنی اور گویا ہیں کہ کوئی بھی فصیح و بلیغ زبان، اس حقیر کی زبان قاصر کا تو ذکر ہی چھوڑئے، اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان سب کو الفاظ میں بیان کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ کو رکے تیس سال کا عرصہ گزر رہا ہے، مگر آج بھی جب کوئی کتاب لکھی جاتی ہے اور یہ حقیر جو ان تمام امور کے متن میں حاضر تھا اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہے، جب اس کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کتاب میں بے شمار نئی اطلاعات ملتی ہیں۔ اس کے ذریعے افراد کو، شخصیات کو، نئی باتوں اور حکمتوں کو سمجھنے اور پہچاننے کا موقع ملتا ہے۔ جو بات جناب عالی نے میرے حوالے سے نقل کی ہے وہ میری بات نہیں ہے، یہ ہمدان کے ایک جانباز (9) کی زبان سے نکلی ہوئی بات ہے کہ اگر خاردار تار سے گزرنا چاہتے ہو تو پہلے اپنے نفس کے خاردار تار سے تمہیں گزرنا ہوگا (10)۔ جب ہم اپنے آپ میں الجھے رہیں گے تو پھر کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔ یہ سبق ہمیں ان سے ملا ہے۔ یہ تعلیم ہمیں اس بیس سالہ یا پچیس سالہ نوجوان سے ملی ہے، ہمیں یہ درس ان سے ملا ہے، یہ عظیم ثروت ہے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس ثروت سے استفادہ کریں تو اس کی ٹیکنالوجی سے آپ کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ راہیان نور (آٹھ سالہ جنگ کے میدانوں کے روحانی اور سبق آموز سفر پر جانے والے کارواں) ایک ٹیکنالوجی ہیں۔ اس عظیم سرمائے سے استفادے کی یہ ٹیکنالوجی ہے۔ ہمارے پاس سونے کا یہ جو عظیم ذخیرہ ہے، اسے ہم چاہیں تو یوں ہی پڑا رہنے دیں، دیگر معدنیات کی طرح جنھیں ہم پروسیسنگ کے مرحلے سے گزارے بغیر خام مال کی شکل میں بیچتے ہیں، اس سونے کو بھی ہم اگر چاہیں تو یونہی جانے دیں، اور اگر چاہیں تو ٹیکنالوجی کی مدد سے، اسے گوناگوں مصنوعات کی شکل میں ڈھال سکتے ہیں۔ تو یہ راہیان نور (سے موسوم کارواں) ایک ٹیکنالوجی سے عبارت ہیں۔ یہ بہت عظیم عمل ہے۔ اس کی بہت قدر کرنا چاہئے۔ راہیان نور کا یہ سلسلہ بہت اہم اور باعظمت ہے۔ آپ اس عمل کو بحسن و خوبی انجام دینے کی کوشش کیجئے۔

بحمد اللہ اب تک جو کچھ ہوا بہت اچھا ہے لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ تسلسل سے آگے بڑھتے رہنا اور عمل کو جاری رکھنا ہی کافی نہیں ہے۔ تسلسل کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں پے در پے جدت عملی کا بھی مظاہرہ کیا جائے۔ ہر سال گزشتہ سال سے زیادہ فوائد و ثمرات حاصل ہوں۔ آج ہمارا سامنا ایسے دشمنوں سے ہے جو ہمارے خلاف اپنے پیشرفتہ ترین وسائل اور بے پناہ رقم استعمال کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس ممکن ہے کہ اتنا  پیسہ نہ ہو یا ہمارے پاس اتنا اسلحہ نہ ہو، ظاہر ہے ان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے پاس بھی ایک چیز ایسی ہے جو ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ چیز ہے ہماری ثقافت، ہمارا ایمان، ہماری کارآمد اور ممتاز افرادی قوت۔ ہمارے پاس یہ چیزیں ہیں۔ ہمیں انھیں بروئے کار لانا چاہئے۔ کون استعمال کرے؟ ملک کے سارے عمائدین استعمال کریں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ راہیان نور سے موسوم کارواں مقدس دفاع کے برسوں کی لا متناہی معدنیات سے استفادے کی ٹیکنالوجی کا درجہ رکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے ملک کو چاہئے کہ اس کا استعمال کرے اور اس کی قدر و قیمت کو سمجھے۔ ہماری کتابوں میں اس کا ذکر آئے، ہمارے فن و ہنر کے شعبے میں اسے منعکس کیا جائے، ہائی اسکول کی تعلیم میں، پرائمری ایجوکیشن میں، ہماری یونیورسٹیوں میں اسے جگہ دی جائے۔ یہاں یونیورسٹیوں کے عہدیداران اور حکومتی اداروں کے حکام بھی تشریف فرما ہیں، انھیں چاہئے کہ اس کام کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر انجام دیں۔ صرف یہ نہیں کہ کسی گوش میں ایک سینٹر کھول دیا اور جس کا دل چاہے، جو طالب علم دلچسپی رکھتا ہو جائے اور جاکر اپنا نام لکھوا دے اور اس کارواں میں شامل ہو جائے، اس سے آگے بڑھ کر کچھ اور بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے ایک خزانے کے طور پر دیکھا جانا چاہئے، اسے حد درجہ منفعت بخش معدن کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے۔ کام کرنے کی ضرورت ہے، غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

جو لوگ راہیان نور کاروانوں کی شکل میں سفر کرنے کے بعد واپس آتے ہیں، ان کے اندر ضرور کچھ تبدیلی ہونا چاہئے، مقدس دفاع کے عظیم واقعے سے ان کا ایک رشتہ قائم ہونا چاہئے، اٹوٹ بندھن پیدا ہونا چاہئے، ان کے اندر نئی معرفت پیدا ہونا چاہئے، انھیں کچھ نئی اطلاعات حاصل ہونا چاہئے۔ میری نظر میں ان برسوں کے دوران اس سلسلے میں ہماری کارکردگی میں نقص رہا، ہم نے کم کام کیا۔ کتابیں تو بہت سی لکھی گئیں، کچھ فلمیں بھی بنیں۔ یہ سب اچھی چیزیں ہیں۔ جو کچھ انجام پایا بہت اچھا اور باارزش ہے، لیکن جو ہونا چاہئے اس کے مقابلے میں میرے خیال میں اب تک کا کام کم ہے۔ یہ کتابیں جو ہم پڑھتے ہیں اور کافی فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے، بہت اچھی ہیں، لیکن ان کا دائرہ بہت محدود ہے۔ ان کی اثرانگیزی کا دائرہ بہت محدود ہے۔ مثال کے طور پر بتایا جاتا ہے کہ فلاں کتاب خوب فروخت ہوئی اور اس کے پانچ لاکھ یا چھے لاکھ نسخے شائع ہوئے۔ مگر اتنے بڑے ملک میں کسی  کتاب کے چھے لاکھ نسخے شائع ہوتے ہیں تو اگر ہم مان لیں کہ ایک نسخے کو دس لوگ پڑھتے ہیں تب بھی اس کتاب کے پڑھنے والے پچاس لاکھ سالھ لاکھ ہی تو ہوں گے۔ اگر ہماری آٹھ کروڑ کی آبادی میں پچاس لاکھ افراد کسی کتاب کو پڑھتے ہیں تو اور اس کی اطلاعات اور معرفتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں تو کیا یہ کافی ہے؟ اس کی ترویج کرنے کی ضرورت ہے۔ کتاب کی بھی  ترویج کی جائے، مفاہیم کی بھی تشہیر کی جائے، اسے آرٹ کی زبان میں بھی پیش کیا جائے، جو بہترین کتب ہوں انھیں نصاب کا حصہ بنایا جائے، یونیورسٹیوں میں بھی مقدس دفاع سے متعلق ایک مستقل باب ہونا چاہئے۔ اس قضیئے کو اتنا آسانی سے ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے۔ مقدس دفاع کے زمانے کا ہر سپاہی جو اس وقت زندہ ہے ایک عظیم یادگار ہے، مقدس دفاع کی ان یادگاروں کی قدر کرنا چاہئے، مقدس دفاع کے ان سرداروں کی قدر کرنا چاہئے۔ خود انھیں بھی چاہئے کہ اپنی قدر و قیمت کو سمجھیں، اپنی حفاظت کریں اور اپنے ان اقدار کو زندہ رکھیں۔ استقامت کے ذریعے اس راستے کو جاری رکھا جا سکتا ہے اور اس ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اگر مقدس دفاع کے تعلق سے ہم نے کوئی ثقافتی کام کیا ہے، کوئی نیا کلچر ایجاد کیا ہے تو یہ کلچر ملک کو مالدار بنا دے گا، ہماری افرادی قوت کو مستحکم اور غنی بنا دے گا، دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں انھیں طاقتور بنا دے گا۔ اگر ہمیں معیشت کے لئے توانائی کی ضرورت ہے تو اس کے لئے بھی ہمارا طاقتور ہونا ضروری ہے، اگر ثقافت اور علم کے لئے ہماری توانائی چاہئے تو ہمارا مستحکم ہونا ضروری ہے، ملکی انتظام و انصرام کے لئے اگر ہمیں اچھے افراد کی ضرورت ہے تو ہمارا مستحکم ہونا ضروری ہے۔ ثقافت انسانوں کو مستحکم بناتی ہے اور طاقتور انسان افراد پیدا کرتی ہے۔ اگر ہم اس موضوع سے کما حقہ استفادہ کر سکے تو ملک کا کلچر مستحکم ہو جائے گا۔ یہ ثقافت آفرینی ہے۔ اقتصادی میدان کی طرح ثقافتی میدان میں بھی اگر پیداوار کا سلسلہ جاری نہیں ہے تو ہمیں امپورٹ کی ضرورت پیش آئے گی۔ بالکل اقتصادی امور کی طرح ہے، اگر آپ ملک کے اندر مصنوعات کی پیداوار نہیں کر رہے ہیں تو امپورٹ کی چیزیں آکر قومی پیداوار کی جگہ لے لیں گی۔ جب امپورٹ کی چیزیں آ جاتی ہیں اور قومی پیداوار کی جگہ لے لیتی ہیں تو پھر نوبت یہ آ جاتی ہے کہ قومی پیداوار ہو بھی تو وہ ہمیں اپنے پیر پر نہیں کھڑا کر سکتی، اس وقت ہماری ایک بڑی مشکل یہی ہے۔ مختلف شعبوں میں بے پناہ امپورٹ جو غالبا کسی حد تک تو بے حساب کتاب بھی ہے، اس کے مقابلے میں ہماری داخلی پیداوار بالکل ناقص ہے۔ ثقافت کے میدان میں بھی یہی ہوتا ہے۔ اگر آپ کی ثقافتی پیداوار کا سلسلہ جاری نہیں ہے تو ثقافتی درآمدات خواہ وہ رسمی و سرکاری راستے سے آ رہی ہوں یا اسمگلنگ کے ذریعے غیر قانونی طریقے سے آ رہی ہوں ملک کے اندر جاگزین ہو جائیں گی۔ اس وقت ثقافتی درآمدات بہت زیادہ ہیں۔ میرے پاس اس سلسلے میں بہت زیادہ اطلاعات ہیں اور میں گاہے بگاہے عہدیداران کو متنبہ بھی کرتا رہتا ہوں۔ بعض توجہ بھی دے رہے ہیں، ان شاء اللہ بقیہ بھی توجہ دیں گے۔

دشمن منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ انھیں اداروں میں جنھیں وہ تھنک ٹینک کہتے ہیں، بیٹھ کر وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں اور سازشیں رچتے ہیں کہ کس طرح ملت ایران کی ثقافت میں اپنی جڑیں پھیلائی جائیں، کس طرح نوجوانوں کو بدلا جائے۔ ان کی آرزو یہی ہے، ان کا دل چاہتا ہے کہ آپ نوجوان جو آج امام خمینی کے عشق میں، انقلاب کے عشق میں اور دینی، اسلامی و انقلابی اقدار کے عشق کی فضا میں سانس لے رہے ہیں، ان تمام اقدار سے عاری ہو جائیں، خالی ہو جائیں اور مغربی کلچر اور مغربی طرز فکر سے وابستہ ہوکر ملک کے تعلق سے، اپنے آپ کے تعلق سے اور مستقبل کے  تعلق سے بالکل بے اثر عناصر میں تبدیل ہو جائیں! یہ ان کی آرزو ہے۔ اس کے لئے وہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں، اس ہدف کے لئے کام کر رہے ہیں، سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ یہ سیکورٹی میدان کی سرگرمیوں اور سازشوں سے الگ سرگرمیاں ہیں، فوجی اقدامات کی دھمکیوں سے الگ فعالیت ہے جو میری نظر میں زیادہ خطرناک ہے۔ اگر دشمن کی جانب سے کوئی فوجی کارروائی ہوتی ہے تو عوام میں ایک نیا جوش و جذبہ بھر جاتا ہے، دشمن کے مقابلے میں عوام کا استحکام اور بڑھ جاتا ہے۔ یہ فوجی کارروائی کا نتیجہ ہے۔ مگر جب ثقافتی یلغار ہوتی ہے تو اس کے برعکس صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ اگر دشمن ثقافتی حملہ کرنے میں کامیاب ہو جائے تو انسان کا جوش و جذبہ ختم ہو جاتا ہے، فیصلہ کرنے کی توانائی کھو دیتا ہے، ارادوں کو کمزور کر دیتا ہے، ملک کو اس کے اپنے نوجوانوں سے محروم کر دیتا ہے، موثر اور کارساز فورسز کو ناکارہ بنا دیتا ہے، یہ ہے  ثقافتی یلغار کا اثر۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ ثقافتی پیداوار کو فروغ دیجئے۔ ثقافتی پیداوار کے میدان میں ایک اہم چیز یہی ہے جس کا تعلق آپ سے ہے، راہیان نور کاروانوں سے ہے جو واقعی بہت اچھی شروعات ہے، یہ سنت حسنہ ہے جس کی بنیاد پاسداران انقلاب فورس اور دیگر شعبوں نے رکھی، اس کا آغاز کیا، یہ بہت اچھی بات ہے۔ بہرحال ہمیں امید ہے کہ یہ کام بہترین انداز میں انجام پائے گا۔

ساتھ ہی اس پر بھی توجہ دیجئے کہ ان کاروانوں مین جو رپورٹر جاتے ہیں اور جو لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ اپنی رپورٹوں میں انھیں کیا بیان کرنا ہے۔ یہ رپورٹنگ اس رپورٹنگ سے الگ ہے جو مثال کے طور پر تاریخی عمارتوں کے بارے میں ہوتی ہے اور جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ غیر ملکی سیاح اسے دیکھنے کے لئے آئیں۔ یہ بالکل الگ چیز ہے، یہاں وہ انداز نہیں ہونا چاہئے۔ وہاں کسی انداز کی رپورٹنگ مطلوب ہے اور یہاں الگ انداز کی رپورٹنگ کی ضرورت ہے۔ اس قضیئے میں رپورٹنگ کے مشمولات تشریح، معرفت، حقائق، نمایاں نکات، مقدس دفاع کے بارے میں اہم پہلوؤں اور مقدس دفاع کے اقدار پر استوار ہونے چاہئیں۔ یہاں اس انداز کی ضرورت ہے۔ البتہ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ مبالغہ آرائی کیجئے۔ میں مبالغہ آرائی وغیرہ کی حمایت نہیں کرتا، بلکہ اس کے بالکل برعکس آٹھ سالہ جنگ میں ہم نے بڑے کامیاب فوجی آپریشن کئے اور کچھ حملے ناکام بھی رہے۔ مثال کے طور پر رمضان آپریشن میں، کربلا چار آپریشن میں، ناکام حملے بھی تھے اور کامیاب حملے بھی تھے۔ یا مثال کے طور پر والفجر آپریشن میں ہمارے جوان دریائے اروندرود اس طرف جا پہنچے، تاہم کامیاب حملے بھی ایسے تھے جن میں بے پناہ دشواریاں پیش آئیں۔ سارے انسان ایک جیسے نہیں ہوتے، دشواریاں بھی بہت زیادہ تھیں، کچھ بیچ راستے سے ہی لوٹ جاتے تھے، بعض اپنے فیصلے پر پچھتانے لگتے تھے، کچھ افراد آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے، بعض افراد ایسے بھی تھے جو فرائض پر عمل کرنے کے بارے میں سوچنے سے زیادہ اس فکر میں تھے کہ ہمارے بارے میں لوگ کیا باتیں کریں گے، یہ سب بھی تھا، یہ چیزیں اگر بیان کی جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان تمام افراد کے درمیان وہ خالص انسان، وہ عزیز شہدا اور عالی قدر ہستیوں نے اپنی درخشندگی، اپنی بلندی اور آپنی رفعت کا لوہا منوایا۔ بنابریں ہمیں کوئی مبالغہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، غلط بیانی کی کوئی احتیاج نہیں ہے، اس انداز سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کسی اور ہی طرح کے انسان تھے۔ جی نہیں، وہ بھی ہم میں سے تھے، لیکن انھیں نے صحیح راستے کی ہم سے بہتر شناخت تھی، وہ زندگی کو ہم سے زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے تھے، ان کا اقبال بلند تھا، زیادہ توسل کرتے تھے تو اللہ تعالی نے بھی ان پر عنایت فرمائی اور انھیں اپنے لطف و فضل کے چشمے سے سیراب کیا۔

ملک کی یہ جو مغربی جغرافیائی پٹی ہے جس میں پانچ صوبے خوزستان، ایلام، کرمان شاہ، کردستان اور مغربی آذربائیجان شامل ہیں، ان میں ہر صوبے کا ایک الگ مسئلہ ہے، ایک الگ اہمیت ہے، ایک الگ مقام ہے، وہاں کے عوام سے محبت سے پیش آنا چاہئے، ان صوبوں کے عوام نے بہت مدد کی، یہ تمام علاقے ایسے ہیں کہ  اگر مقامی افراد کی مدد و اعانت نہ ہوتی تو امور کی انجام دہی ممکن نہ ہو پاتی، عوامی حمایت و پشتپناہی کی وجہ سے ہمارے مجاہدین اپنا مشن پورا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ میں مختصر وقت کے لئے محاذ جنگ پر جب موجود تھا تو میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ عوام کس طرح مدد کر رہے تھے، عوام کس طرح حمایت کرتے تھے۔ عوام مجاہدین کا کس طرح خیال رکھتے تھے اور اسی کے نتیجے میں مجاہدین وہ عظیم کارنامے انجام دینے میں کامیاب ہوتے تھے۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے، آپ کی مدد فرمائے، آپ کے اس عمل میں برکت دے اور اس کی برکتیں زمانہ حال و مستقبل میں پورے ملک کے شامل حال ہوں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں مسلح فورسز کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد حسین باقری نے اپنی رپورٹ پیش کی اور جناب صادق آہنگران نے مقدس دفاع کے شہدا کے بارے میں دلنشیں اشعار پیش کئے۔

۲) سوره‌ ابراهیم، آیت نمبر ۵ کا ایک حصہ «...انھیں ایام خدا کی یاد دہانی کراؤ...»

۳) سوره‌ مریم، آیت نمبر ۴۱ کا ایک حصہ؛ « اور اس کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو...»

۴) سوره‌ مریم، آيت نمبر ۵۱ کا ایک حصہ؛ « اور اس کتاب میں موسی کو یاد کرو...»

۵) سوره‌ مریم، آیت نمبر ۵۶ کا ایک حصہ؛ « اور اس کتاب میں ادریس کو یاد کرو ...»

۶) سوره‌ مریم، آیت نمبر ۱۶ کا ایک حصہ؛ «اور اس کتاب میں مریم کو یاد کرو ...»

۷) امالی صدوق، صفحہ ۶۶٨ (قدرے فرق کے ساتھ)

۸) سوره‌ ابراهیم، آیت نمبر ۵ کا ایک حصہ

۹) کتاب 'وقتی مهتاب گم شد' علی خوش‌ لفظ کی ڈائری ؛ ہمدانی مجاہد سے مراد شهید چیت ‌سازیان ہیں۔

۱۰) رہبر انقلاب اور حاضرین گریہ کرنے لگے۔