بسم ‌اللّه ‌الرّحمن‌ الرّحیم

والحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمدٍ و آله الطیّبین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسانٍ الی یوم الدین

عزیز بھائیو اور بہنو! خوش آمدید! یہاں آپ اپنے بھائیوں کے درمیان اور اپنے گھر میں ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب کو توفیقات سے نوازے، آپ کی مدد اور رہنمائی فرمائے کہ آپ اس بڑے کام کو جس کی ذمہ داری آپ نے اپنے کندھوں پر لی ہے اختتام تک پہنچائیں۔

اسلامی ملکوں کی پارلیمانی تنظیم کہ جس کی عمر اب چوتھائی صدی کے قریب ہو چکی ہے، خاص مقام و منزلت کی حامل ہے؛ پہلی بات یہ کہ پارلیمانی اسپیکر اور اسلامی ملکوں کی پارلیمانوں کے ارکان کے ذمہ داران، قوموں کے نمائندے ہیں، یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ آپ حکومتوں کی سفارتی مجبوریوں اور محدودیتوں سے آزاد ہیں۔ دنیا میں اپنے عوام، مسلمان اقوام اور مسلم امہ کی ضرورتوں کو آپ زیادہ صراحت کے ساتھ اور زیادہ ٹھوس موقف کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں ضروری ہے کہ اس اہم پوزیشن سے دینی و تاریخی فرائض کی انجام دہی کے لئے بنحو احسن استفادہ کیا جائے۔ مسلم امہ کے تعلق سے ہمارے دوش پر ایک بڑی دینی ذمہ داری ہے، ہم سب پر، ان تمام افراد پر جو دنیائے اسلام کے کسی حصے میں کسی پوزیشن کے مالک ہیں۔ آپ اپنے اعتبار سے اور ہم اپنے اعتبار سے، سب دینی فریضہ رکھتے ہیں۔ یعنی اسلام اور دین کے ہم سے کچھ مطالبات ہیں۔ پہلے ہم انھیں پورا کریں، اس کے علاوہ ہمارا ایک تاریخی فریضہ بھی ہے۔ اس وقت دنیا بڑی اہم تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہی ہے۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ ساری دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ صرف ایشیا میں یا افریقہ میں یا مغربی ایشیا میں نہیں، ساری دنیا میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ تبدیلیوں کے اس عمل میں اپنا رول ادا کرنا چاہئے۔ ایک دور میں دنیائے اسلام نے بڑی سخت چوٹ کھائی۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد دنیائے اسلام کے حصے بخرے ہو گئے اور ایسے افراد جو کوئی لیاقت نہیں رکھتے تھے، جو کسی چیز کے حقدار نہیں تھے، مغربی ایشیا اور شمالی افریقا پر مسلط ہو گئے، بلا وجہ، بلا استحقاق۔ اس کے دراز مدتی عواقب دنیائے اسلام میں باقی رہ گئے اور اس کے نقصانات اٹھانے پڑے۔ ہمیں چاہئے کہ وہی سب کچھ پھر نہ دہرانے دیں، وہی تجربہ پھر دہرائے جانے کا موقع نہ دیں۔

اس اجلاس کے ایجنڈے میں بڑے اہم موضوعات شامل ہیں، ہمیں پروگرام کے بارے میں جو بتایا گیا اس کے مطابق بڑے اہم موضوعات ایجنڈے میں شامل ہیں ان میں سے بعض کی جانب ابھی میں اشارہ کروں گا۔ تاہم کچھ موضوعات نظرانداز ہو گئے ہیں، ان پر بھی توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے۔ یمن کا مسئلہ، بحرین کا قضیہ، یہ بہت اہم مسائل ہیں، امت اسلامیہ کے پیکر پر یہ بڑے گہرے اور تشویشناک زخم ہیں۔ انھیں حل کیا جانا چاہئے۔ البتہ میانمار کا موضوع شامل کیا گیا ہے، کشمیر کا مسئلہ بھی شامل کیا گيا ہے۔ اپنے مسلم بھائیوں اور بہنوں سے میری گزارش یہ ہے کہ دنیائے اسلام کے بنیادی مسائل کے سلسلے میں، دنیائے اسلام کے حیاتی نوعیت کے مسائل کے سلسلے میں دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہیں۔ اگر ہم صراحت اختیار کریں گے تو دنیا میں فکر سازی کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ عالمی رائے عامہ میں اور دنیا کے دانشوروں کی سطح پر رجحان سازی کریں۔ کچھ حقائق موجود ہیں جنھیں سب تک پہنچانے کی ضرورت ہے، دنیا کی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی ضرورت ہے۔ ایسا ہرگز نہ ہونے دیجئے کہ آپ کو نظر انداز کر دیا جائے اور سازش آمیز خاموشی کے ذریعے دنیائے اسلام کے کلیدی مسائل کو مٹا دیا جائے، فروعی اور جھوٹے مسائل پر شور شرابا کرکے دنیائے اسلام کے اساسی مسائل کو عالمی رائے عامہ کی نظروں سے دور کر دیا جائے۔ یہ نہ ہونے دیا جائے کہ مغرب کا یہ خطرناک اور خوفناک تشہیراتی سامراج جو بنیادی طور پر صیہونیوں کے ہاتھ میں ہے، دنیائے اسلام کے کلیدی مسائل کو نظرانداز کر دے۔ میں ابھی ان میں بعض مسائل کی جانب اشارہ کروں گا۔ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک، بلکہ سب سے اہم مسئلہ ہے۔ ملت فلسطین پر کی جانے والی سختیوں کو اور ان کو در پیش مشکلات کو پوری طرح فراموش کر دیا جاتا ہے۔

میری نظر میں مغربی صیہونی تشہیراتی سامراج کو شکست دی جا سکتی ہے، یہ کام انجام دیا جا سکتا ہے، اگر ہم سب کمر ہمت کسیں تو یہ ہو سکتا ہے۔ جس طرح عسکری مقابلہ آرائی میں صیہونیوں کو شکست ہوئی ہے سافٹ جنگ میں بھی انھیں شکست دی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا لبنان میں صیہونی حکومت کو ہزیمت اٹھانی پڑی، پسپائی پر مجبور ہونا پڑا، شکست کے اعتراف پر مجبور ہونا پڑا۔ جبکہ سب یہ سمجھتے تھے کہ یہ رژیم ناقابل شکست ہے۔ 'سافٹ وار' میں بھی صیہونی حکومت اور اس کے آلہ کاروں کو شکست دی جا سکتی ہے۔

کچھ اساسی مسائل ہیں جن کی جانب میں اشارہ کرنا چاہوں گا، البتہ یہ سب موضوعات اجلاس کے ایجنڈے میں بھی شامل ہیں۔ ایک تو مسئلہ فلسطین ہے۔ مسئلہ فلسطین سے ایک لمحے کے لئے بھی غفلت نہیں برتی جانی چاہئے۔ فلسطین کا مسئلہ حد درجہ اہم مسئلہ ہے۔ اس ستر، اسی سال کے اندر فلسطین میں جو کچھ ہوا ہے میری نظر میں پوری تاریخ میں اس کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔ جہاں تک ہمیں علم ہیں، ایسا واقعہ کہیں بھی نہ تو ہمارے اس دور میں، نہ ماضی قریب میں اور نہ ہی تاریخ کے کسی بھی دور میں، مجھے نہیں لگتا کہ رونما ہوا ہو۔ یہ قضیہ کیا ہے؟ قضیہ یہ ہے کہ ایک ملت کے لئے تین واقعات وجود میں لائے گئے۔ سب سے پہلے تو اس ملت کی سرزمین کو غصب کر لیا گیا، قبضے میں لے لیا گیا۔ ظاہر ہے دنیا کے دیگر علاقوں میں اغیار نے کچھ سرزمینوں پر قبضہ کیا ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کی کوئی مثال نہ ہو، لیکن اس غاصبانہ قبضے کے ساتھ ہی اجتماعی بے دخلی بھی انجام دی گئی۔ یعنی فلسطین کے دسیوں لاکھ انسان آج جلاوطنی میں ہیں۔ اپنے گھر بار سے، اپنے خانہ و  کاشانے سے، اپنے شہر و دیار سے بے دخل اور دور کر دئے گئے ہیں۔ انھیں اجازت نہیں ہے کہ وہاں واپس جائیں، یہ دوسرا واقعہ ہے دسیوں لاکھ لوگوں کی اجتماعی طور پر جلا وطنی۔ تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ ان دونوں ہی مصیبتوں کے ساتھ ہی قتل عام بھی ہوا۔ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو اسی دوران قتل کر دیا گیا۔ عورتیں، مرد، بچے شہروں میں، گاؤوں میں اجتماعی طور پر قتل کئے گئے۔ بہت بڑا انسانی المیہ رونما ہوا۔ یہ ہے فلسطین کا قضیہ۔ یعنی یہ پوری ایک ملت کے ساتھ پیش آنے والا قبضے، جلا وطنی اور  قتل عام کا معاملہ ہے، کسی ایک انسان یا کسی چھوٹے سے گروہ کے ساتھ نہیں بلکہ پوری ایک ملت کے ساتھ۔ تاریخ میں اس واقعے کی کوئی مثال نہیں ہے۔ بے شک لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا، کبھی مثال کے طور پر بعض ممالک میں کچھ لوگوں کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں نقل مکانی کرنی پڑی، کچھ لوگوں کو ختم کر دیا گیا، لیکن خود ان کے گھر میں، ان کے ملک میں۔ یہ کہ کسی ملت کو اس کے ملک سے بے دخل کر دیا جائے۔ دسیوں سال سے فلسطینی گروہ در گروہ خود یا ان کے ماں باپ فلسطین سے نکالے گئے ہیں اور وہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں، اس کا کیا مطلب ہے؟ دنیا میں کہیں بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا ہے۔ یہ بالکل غیر معمولی واقعہ ہے، یہ ایسا تاریخی ستم ہے جس کی نظیر نہیں ہے۔ بلا شبہ یہ تاریخی ستم ہے جس کی مثال نہیں ہے اور ہماری ذمہ داری ہے یعنی اسلام میں تمام مسلم مسلکوں کا متفقہ نظریہ ہے کہ ایسے مواقع پر سب میدان میں اتریں، دفاع کریں، جس طرح بھی ممکن ہو دفاع کریں۔ بالآخر یہ کام ہونا چاہئے اور میرا نظریہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے مقابلے میں یہ جدوجہد نتیجہ بخش ثابت ہوگی، اس کا ہمیں یقین ہے۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ 'اب تو کوئی فائدہ نہیں ہے، اب تو سب کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہے' تو ایسا نہیں ہے۔ خواہ دسیوں سال گزر گئے ہوں لیکن یقینا اذن پروردگار سے نتیجہ حاصل ہوگا، چنانچہ اس وقت تک مزاحمت نے پیشرفت کا عمل طے بھی کیا ہے، مزاحمتی عمل کو پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ آپ غور کیجئے کہ ایک زمانے میں یہ لوگ 'نیل سے فرات تک' کا نعرہ لگاتے تھے مگر آج اپنے ہی ارد گرد دیوار تعمیر کر رہے ہیں کہ خود کو وہاں، اس غصبی سرزمین پر محفوظ رکھیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مزاحمت کو پیشرفت حاصل ہوئی ہے اور اس میں آئندہ مزید پیشرفت ہوگی۔ فلسطین ایک مجموعہ ہے، ایک ملک ہے، ایک تاریخ ہے، فلسطین جیسا کہ بارہا کہا جا چکا ہے 'دریا سے سمندر تک' ہے۔ دریائے اردن سے بحیرہ روم تک، یہ فلسطین ہے اور یقینا قدس اس فلسطین کا دار الحکومت ہے۔ اس بنیادی فکر اور اس حقیقت میں کوئی رخنہ ڈال پانا ممکن نہیں ہے۔ یہ کام جو اس وقت امریکیوں نے کیا ہے اور کر رہے ہیں، البتہ اس وقت جو شخص امریکہ کے اقتدار میں ہے یہ قدرے صراحت کے ساتھ کام کر رہا ہے، دوسرے بھی اسی روش پر عمل پیرا تھے۔ اس شخص نے قدس کے سلسلے میں جو پست حرکت کی ہے، اس معاملے میں وہ دوسرے بھی مختلف نہیں تھے، اس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ بلا شبہ ان کے پاس یہ طاقت نہیں ہے کہ یہ کام وہ انجام دے سکیں جس کا انھوں نے اعلان کیا ہے۔ خود ہمارے علاقے میں جو حکومتیں آج امریکہ کی مدد کر رہی ہیں وہ خیانت کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ اس پر سب توجہ رکھیں! یہ کھلی ہوئی غداری ہے کہ کوئی دشمن کے ساتھ، صیہونیوں جیسے دشمن کے ساتھ ساز باز کرے! اپنے مسلم بھائیوں سے عناد برتے مثال کے طور پر جو کام آج سعودی کر رہے ہیں۔ یہ مسلم امہ کے ساتھ اور دنیائے اسلام کے ساتھ مسلمہ خیانت ہے۔ یہ رہی پہلی بات۔

دوسری چیز ہے اسلامی اتحاد کا مسئلہ۔ ہمیں نسلی، علاقائی، لسانی، مسلکی فرق کو آپس میں اختلاف کا باعث نہیں بننے دینا چاہئے۔ ہم نے یہ بات سب سے کہی ہے، آج بھی کہہ رہے ہیں، ہمیشہ کہی ہے، یہاں تک کہ جن لوگوں نے ہم سے صریحی طور پر دشمنی برتی ان سے بھی ہم نے یہی بات کہی ہے۔ ہم نے کہا کہ ہم آپ سے برادرانہ سلوک کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ البتہ کچھ لوگ یہ کام نہیں کر پاتے۔ بعض حکومتوں کے بس میں یہ چیز نہیں ہے۔ لیکن ہمارا نظریہ یہ ہے کہ عالم اسلام اپنی بڑی آبادی کے ذریعے، بے پناہ وسائل کے ذریعے، غیر معمولی اہمیت کے حامل علاقے اور محل وقوع کی مدد سے جو دنیائے اسلام کو افریقا میں بھی، ایشیا میں بھی، مغربی ایشیا میں بھی اور وسطی ایشیا میں بھی حاصل ہے، یقینا آپسی اتحاد سے دنیا میں ایک بڑی طاقت کی تشکیل کر سکتا ہے، موثر واقع ہو سکتا ہے۔ یہ اتحاد ہمیں پیدا کرنا ہے، ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے، ایک دوسرے کے کام آنا ہے، اپنی فورسز کو ایک دوسرے کی مدد کے لئے بھیجیں، یہ معاندانہ اقدامات جو معمول بن گئے ہیں اور اکثر و بیشتر ان میں امریکہ اور صیہونیوں کا ہاتھ ہوتا ہے، وہی ہیں جو اختلافات کی آگ بھڑکاتے ہیں، اس مہم جوئی کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ ہمیں صیہونی حکومت کو یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ اس طرح کی حرکتوں سے اپنے لئے محفوظ گوشہ تیار کرے۔ دنیائے اسلام کے ان دشمنوں کی ایک آرزو یہ ہے کہ دنیائے اسلام کے اندر اختلافات، تنازعات، جنگیں اور خونریزی ہوتی رہے تاکہ صیہونیوں کو محفوظ گوشہ مل جائے۔ ہمیں اس کا سد باب کرنا چاہئے، جہاں تک ممکن ہو یہ نہیں ہونے دینا چاہئے۔

تیسری بات اور تیسرا بہت اہم نکتہ ہے علمی پیشرفت کے لئے سعی و کوشش۔ مغربی دنیا نے علم و دانش کی مدد سے ثروت حاصل کی ہے۔ علم کی مدد سے بین الاقوامی قوت حاصل کی ہے۔ علم و دانش کے میدان میں انھوں نے پیشرفت حاصل کی اور ساری دنیا پر مسلط ہو گئے، لیکن چونکہ ان کے اندر ایمان نہیں تھا، چونکہ ان کے یہاں اعلی ظرفی نہیں تھی لہذا انھوں نے اس علم کو برے انداز میں استعمال کیا۔ یہ علم و دانش ظلم و استحصال، استعمار اور استکبار پر منتج ہوا۔ ہم اس طرح کے کام نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن علمی اعتبار سے ہم پیچھے ہیں۔ دنیائے اسلام کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ اپنے نوجوانوں کو علمی لحاظ سے آگے لے جا سکے، یہ کام ممکن بھی ہے۔ یہاں ہم نے یہ کام انجام دیا ہے۔ علمی اعتبار سے ہم نے خود کو کئی درجہ اوپر پہنچایا ہے۔ ہم نے یہ سارا کام پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے انجام دیا ہے۔ جارح قوتوں کی طرف سے کئی سال سے ہمارے اوپر پابندیاں عائد ہیں۔ پابندیوں کے عالم میں، ان پابندیوں سے ہمیں مدد ملی کہ ہم اپنی توانائیوں کو پروان چڑھائیں، اپنی فکر کریں، اپنے بارے میں سوچیں اور اپنی توانائیوں کو بروئے کار لائیں۔ اس وقت ہم بہت اہم شعبوں میں علم و دانش کی آخری سرحدوں پر کھڑے ہیں، حالانکہ ماضی میں ہم کافی پیچھے تھے۔ میڈیکل سائنس میں، نینو ٹیکنالوجی میں، اسٹیم سیلز کے شعبے میں، نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں اور علم و سائنس کے دیگر شعبوں میں ہمارے نوجوان نمایاں مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، انھوں نے کامیابی سے کام کیا، بڑے کارنامے سرانجام دئے۔ ہمارے ملک میں نوجوان سائنسدانوں کی تعداد آج دنیا کے بہت سے ملکوں بلکہ اکثر ملکوں سے زیادہ ہے۔ بنابریں یہ ممکن ہے۔ اسلامی ممالک میں ایک کام جو ضرور انجام دیا جانا چاہئے وہ علمی پیشرفت کا کام ہے۔ اس میدان میں بھی ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہئے۔ بعض دیگر اسلامی ممالک نے اس میدان میں بہت اچھی پیشرفت حاصل کی ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ 'شیطان اکبر' کے جھوٹے دعوؤں کا پردہ فاش کریں۔ شیطان اکبر امریکا ہے۔ یہ لوگ جھوٹے دعوے کرتے ہیں، ان دعؤوں کو بے نقاب کیا جانا چاہئے۔ انھیں دعؤوں میں سے ایک انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ یہ انسانی حقوق کے دشمن ہیں اور انسانی حقوق کا دم بھرتے نہیں تھکتے، بار بار انسانی حقوق کا ذکر کرتے ہیں اور یہ موضوع اٹھاتے ہیں۔ جبکہ جو اقدامات یہ کر رہے ہیں وہ انسانی حقوق کے برخلاف ہیں۔ اس وقت جو شخص اقتدار میں ہے ان چیزوں کو عریاں طور پر بیان کر رہا ہے۔ اس سے پہلے جو دوسرے لوگ تھے وہ بھی یہی کرتے تھے، تاہم اس ننگے پن کے ساتھ نہیں۔ یہ ذرا زیادہ عریاں طور پر اور آشکارا طور پر بات کرتا ہے۔ افریقا کے خلاف، نسلوں کے خلاف، لاطینی امریکا کے خلاف، سارے عوام کے خلاف، مسلمانوں کے خلاف، ہر چیز کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا ہے۔ یعنی یہ لوگ انسانی حقوق کے خلاف کام کر رہے ہیں لیکن انسانی حقوق کی پاسبانی کا پرچم بھی اٹھائے رہتے ہیں۔ اسے بے نقاب کیا جانا چاہئے۔ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے جسے بے نقاب کیا جانا چاہئے۔ یا دہشت گردی سے جنگ کا موضوع ہے، وہ دہشت گردی سے لڑنے کے دعوے کرتے ہیں۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ وہ خود، دہشت گرد صیہونی حکومت کا دفاع کر رہے ہیں۔ مقبوضہ فلسطین میں صیہونزم کی حکومت ایک دہشت گرد حکومت ہے۔ وہ خود کہتی بھی ہے۔ یعنی اسرائیلی اس بات کا انکار بھی نہیں کرتے کہ وہ دہشت کے ذریعے اپنا کام نکالتے ہیں۔ اسے وہ کہتے ہیں، کبھی صریحی طور  پر بیان کرتے ہیں۔ اس علاقے میں اس حکومت کی حمایت کرنے والوں میں پہلے نمبر پر امریکا ہے۔ بنابریں وہ دہشت گردی کے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے دہشت گردوں کو، یہی داعش تنظیم جو ہمارے علاقے میں بعض ممالک کے لئے بہت بڑی مشکل میں تبدیل ہو گئی تھی، اس داعش کو امریکیوں نے تشکیل دیا۔ اس کا اعتراف خود انھوں نے کیا ہے، اس کا اقرار کیا ہے۔ اسی شخص نے اپنی انتخابی کیمپین میں بارہا سابقہ حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے داعش کی تشکیل کی۔ وہ صحیح کہہ رہا تھا۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ داعش کی تشکیل خود انھوں نے کی۔ ان حالیہ ایام میں بھی جب داعش شام میں آخری سانسیں لے رہی ہے، وہ داعش کی مدد کر رہے ہیں، اس کا دفاع کر رہے ہیں، یہ ابھی حال ہی کی بات ہے، بالکل حالیہ دنوں کی۔ تو دہشت گردی کے حمایتی تو یہ خود ہیں، خود یہی دہشت گردی کا سبب بھی ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پرچم بھی اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے۔ ان چیزوں کو بے نقاب کیا جانا چاہئے۔ دنیا کو ان چیزوں سے باخبر کیا جانا چاہئے۔ میں نے عرض کیا کہ رجحان سازی اور فکر سازی کی ضرورت ہے۔ دنیا کے دانشور طبقے اور دنیا کی را‏‏ئے عامہ پر اثر انداز ہونے کی ضرورت ہے، ان حقائق سے انھیں باخبر کرنے کی ضرورت ہے۔  میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ کے اندر ہم جو موضوعات اٹھاتے ہیں، اپنے بھائیوں سے جن موضوعات کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور جن پر تاکید کرتے ہیں، وہ ایسی چیزیں ہیں جن کا ہم نے خود تجربہ کیا ہے۔ یہ ایسے کام ہیں جنھیں عملی طور پر ہم نے انجام دیا ہے۔ یہ صرف زبان سے ہم نہیں کہہ رہے ہیں۔ اس قسم کی نشستوں میں مسلم بھائیوں کے لئے میری ایک سفارش اور تاکید یہ ہوتی ہے کہ کوئی قرارداد پاس کرکے اپنے کام کو ختم شدہ تصور نہ کریں۔ جب آپ کسی کمیٹی میں بیٹھے، اس اجلاس میں بیٹھے اور ایک اعلامیہ جاری کر دیا تو یہ قضیہ یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا۔ یہ تو کام کا صرف ایک حصہ ہے۔ اس کام کا دوسرا حصہ ہے اس پر آئندہ بھی توجہ دینا اور فیصلوں کو جامہ عمل پہنانے میں مدد کرنا۔ عمل ہونا چاہئے۔ ہمارے خلاف انھوں نے اقتصادی جنگ کی۔ ان کی سمجھ میں آ گيا تھا کہ معیشت کا مسئلہ ہمارے ملک میں بہت اہم ہے۔ وہ برسوں سے ہمارے خلاف اقتصادی جنگ میں مصروف ہیں۔ اسی جنگ کو انھوں نے شدید تر کر دیا۔ آج بھی یہ اقتصادی جنگ جاری ہے۔ پابندیاں عائد کرنا ہمارے خلاف اسی اقتصادی جنگ کا ایک حصہ ہے۔ بحمد اللہ ہم نے شکست نہیں کھائی، ہم نے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ اس مشکل پر قابو پا لیا۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی ہم اس پر غالب رہیں گے اور پابندیوں کو پیشرفت و نمو کا ذریعہ بنا دیں گے۔ ہم دینی جمہوریت کو ارتقاء کا ذریعہ سمجھتے ہیں، پیشرفت کی بنیاد مانتے ہیں ہر طرح کی روحانی اور مادی پیشرفت کا ذریعہ۔ دینی جمہوریت بڑی عظیم چیز ہے جس سے ہم عوام کی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے آج بہرہ مند ہیں۔ نصرت خداوندی سے ملت ایران امریکہ کی سازشوں کو ناکام بنانے میں کامیاب رہی ہے اور آئندہ بھی کامیاب رہے گی۔ ہم آئندہ بھی امریکہ کی سازشوں کو ان شاء اللہ بے اثر بناتے رہیں گے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ یہ جذبہ اسلامی ملکوں کے اندر اور مسلم اقوام کے اندر اس قدر قوی ہو جائے کہ اس پورے عالم اسلام سے مل کر ایک آہنی طمانچہ استکبار کی تمام سازشوں کے خلاف تیار ہو۔ آپ سب کے لئے توفیقات کی دعا کرتا ہوں اور آپ سب کو ایک بار پھر خوش آمدید کہتا ہوں۔

و السّلام‌علیکم ‌و ‌رحمة ‌اللّه ‌و برکاته