بسم الله الرّحمن الرّحیم

دس بجنے میں بیس منٹ باقی ہیں۔ یعنی مقررہ وقت سے بھی جو ایک طولانی دورانیہ تھا کچھ زیادہ وقت گزر چکا ہے، میری تو خیر بات چھوڑئے، آپ میں سے بعض غالبا کافی تھکے ہوں گے، لہذا آپ کا زیادہ وقت نہیں لیا جا سکتا (2)۔ جی ہاں، یادیں تو یقینا ہیں، لیکن حقیر کی یادوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، یادیں تو آپ مجاہدین کی بڑی بیش قیمتی ہیں۔ میں نے اسی مناسبت سے کچھ نکات نوٹ کئے ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کرنا ہیں۔ اس کے بعد اگر ہمت پڑی تو ممکن ہے کہ کچھ یادیں بھی بیان کر دوں۔

سب سے پہلے تو ان افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اس پرچم کو بلند رکھا۔ واقعی تہہ دل سے ان لوگوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مقدس دفاع کی یادوں کے  تذکرے کی شب، یادوں کو قلمبند کرنے اور اس زمانے کے واقعات کی یادیں تازہ کرنے کے اس مشن کو قائم رکھا ہے۔ میں حقیقت میں ان کا بہت شکر گزار ہوں۔ ان کا یہ عمل بڑا عظیم ہے۔ جو بات جناب سرہنگی (3) صاحب نے کہی وہ بالکل صحیح ہے۔ یہ ایک طرح کی بڑی اہم حد بندی ہے۔

ہمارے پاس کتنی یادیں ہیں؟ کتنے یادگار واقعات ہیں؟ ہمارے کئی لاکھ مجاہدین تھے اور ان میں سے ہر ایک کے پاس یادوں کا ایک ذخیرہ ہے۔ ان میں ہر شخص کے کچھ دوست، اہل خانہ، والدین، بیوی وغیرہ تھے۔ ان افراد میں سے ہر ایک اس مجاہد کے بارے میں یادوں کا ایک صندوقچہ اپنے ذہن میں رکھتا ہے۔ ان میں کچھ صندوقچے بد قسمتی سے ان تیس برسوں میں بغیر کھلے زیر خاک چلے گئے، ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ افسوس! افسوس! جو لوگ اس طرف متوجہ ہوتے ہیں، آج متوجہ ہوتے ہیں یا کل متوجہ ہوئے کہ اپنی یادوں کو قلمبند کریں یا کچھ لوگ اس فکر میں پڑ گئے کہ والد، والدہ یا اہلیہ سے ان یادوں کو معلوم کریں۔ یہ لوگ در حقیقت بڑی قیمتی چیزوں کو ضائع ہونے سے بچا رہے ہیں اور اپنے عمل سے اس خزانے کو ضائع ہونے سے روک رہے ہیں۔ وہ بڑے قیمتی خزانے کا احیا کر رہے ہیں، بے نظیر خزانوں کا احیا کر رہے ہیں۔ یہ سب ملت کے اثاثہ جات ہیں۔ یہ افراد بھی قوم کا سرمایہ تھے، یہی جو بچ گئے ہیں، جنگ کے زخمی افراد یا جنگ میں شرکت کرنے والے دیگر مجاہدین، اسی طرح ان کی یادیں بھی عوام کا سرمایہ ہیں۔

مقدس دفاع کے مختلف پہلو ہیں۔ مقدس دفاع کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ تسلط پسندانہ نظام جس میں ایک تسلط پسند اور دوسرا تسلط کا شکار فریق ہوتا ہے، اس نظام کی حکمرانی کے دور میں دنیا کے اندر طاقت کے توازن کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ اور دیگر مجاہدین نے اس آٹھ سال کی مدت میں اپنے زمانے کی دنیا، اس جنونی دنیا، وحشی دنیا، ظالم دنیا، روحانیت سے بے خبر دنیا اور انصاف سے بے بہرہ دنیا میں اس تصویر کو وجود عطا کیا اور ثبت کیا۔ آپ نے اپنے عمل سے کس طرح یہ تصویر کھینچ دی؟ اس طرح سے کہ آپ کا مقابلہ ایسے فریق سے ہوا کہ ہم تو خاردار تار بھی نہیں حاصل کر سکتے تھے۔ مجھے اس کی اطلاع ہے، یہی حالات تھے۔ ہم خاردار تار لانا چاہتے تھے لیکن ایک طرف تو وہ فروخت کرنے والا ہمیں فروخت نہیں کر رہا تھا اور وہ ملک بھی تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں تھا جہاں سے گزر کر یہ تار ہم تک پہنچنے والا تھا، ہمیں اس کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ ایک طرف ہم تھے اور دوسری جانب وہ فریق تھا جس کے پاس اس وقت کے جدید ترین وسائل بھاری مقدار میں موجود تھے۔ اہواز ڈویژن 92 کے پاس ٹینکوں کی تعداد بیس سے بھی کم  تھی! یعنی در حقیقت ضروری تعداد کا ساتواں یا آٹھواں حصہ۔ حالانکہ ایک بٹالین کے پاس چالیس سے زیادہ ٹینک ہوتے تھے۔ جو ڈویژن ہم نے دیکھی تھی، یعنی جو بریگیڈ ہم نے اہواز میں تعینات دیکھی تھی اس کے پاس بیس سے بھی کم ٹینک تھے۔ فریق مقابل کی حالت یہ تھی کہ اگر سڑک پر اس کا کوئی ٹینک تباہ ہو جاتا تو فورا بلڈوزر بھیج کر اس ٹینک کو سڑک کے کنارے ڈال دیتا تھا کہ راستہ کھل جائے۔ یعنی اسے ٹینکوں کی کوئی فکر ہی نہیں تھی۔ اس کا جو دل چاہتا تھا اسے حاصل کر لیتا تھا۔ زمینی فوج کی ضرورت کے وسائل، فضائیہ کی ضرورت کے وسائل، بحریہ کی ضرورت کے وسائل، گوناگوں اقسام کے جنگی وسائل۔ حتی اسے کیمیکل ہتھیار استعمال کرنے کی بھی اجازت تھی۔ آپ ذرا دیکھئے کہ کیمیکل ہتھیار استعمال کرنے کے الزام کے سلسلے میں یورپی ممالک اور امریکہ آج دنیا میں کس طرح ہنگامہ مچا رہے ہیں؟! کس ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟! اس زمانے میں صدام حکومت کو کیمیکل ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی! وہ بھی صرف محاذ جنگ پر نہیں بلکہ شہروں پر ہونے والے حملوں میں بھی! سردشت آج بھی اس کے عواقب سے دوچار ہے۔ سردشت کے اطراف کے علاقے آج بھی کیمیکل ہتھیاروں کے اثرات میں مبتلا ہیں۔ آپ دیکھئے کہ اس وقت دنیا کی یہ حالت تھی! اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا کے کیا حالات تھے؟ دنیا کی محاذ بندی کیسی تھی؟! دنیا میں طاقت کا توازن کیسا تھا؟! اس جنگ نے، مقدس دفاع نے، اس آٹھ سال کی مدت نے، مجاہدین کی قربانیوں کو درج کیا۔

یہی ملک فرانس، یہی جرمنی اور بقیہ ممالک تھے جو مدد کر رہے تھے، کچھ دوسرے بھی تھے وہ اپنی جگہ پر، اس زمانے کا سویت یونین بھی ایک طرف سے یہی کر رہا تھا۔ ان سب کے علاوہ ہم اقتصادی محاصرے میں ہونے کے ساتھ ہی ساتھ، سیاسی محاصرے میں ہونے کے علاوہ، شدید تشہیراتی محاصرے میں بھی تھے۔ یعنی ہماری بات واقعی کہیں نہیں پہنچ پاتی تھی۔ دنیا کے ذرائع ابلاغ پر صیہونیوں کا قبضہ تھا، میڈیا ان کی مٹھی میں تھا اور وہ دشمن تھے۔ یعنی صرف صدام کے حامی نہیں تھے بلکہ اسلامی نظام کے دشمن بھی تھے۔ جو بھی ممکن تھا وہ ہمارے خلاف بیان کرتے تھے اور ہماری آواز کہیں نہیں پہنچ پاتی تھی۔ ہماری یہ حالت تھی۔

میرا سوال یہ ہے کہ جرمنی اور فرانس کے عوام کو یہ بات کیوں نہ بتائی جائے کہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران ان کی حکومتوں نے اس ملت کے ساتھ جس کا نام ملت ایران ہے کیا سلوک کیا تھا؟ انہیں کیوں نہ معلوم ہو؟ اس وقت انھیں علم نہیں ہے اور یہ ہماری کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ سامراجی نظام کو رسوا کرنے والی واضح اور شفاف تصویر جو ہم نے تیار کی ہے آج وہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے کیوں نہیں ہے؟ یہ ہماری کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ ہمیں اس میدان میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں اپنی ادبیات میں، اپنی فلموں میں، اپنے ڈراموں میں، ٹی وی پروگرموں میں، اپنی صحافت میں، سوشل میڈیا پر مقدس دفاع کے بارے میں بہت سے کام کرنے ہیں جو ہم نے اب تک نہیں کئے ہیں۔ جہاں بھی ہم نے یہ کام کیا اور احساس ذمہ داری کے ساتھ کیا، خواہ اس کی مقدار اور اس کا حجم مطلوبہ مقدار اور حجم کی نسبت بہت محدود ہی کیوں نہ رہا ہو، اس کا اثر ہوا ہے۔ جناب حاتمی کیا صاحب کی یہی فلم (4) جو حال ہی میں ریلیز ہوئی شام میں یا دوسری جگہوں پر ہر جگہ اس کو پذیرائی ملی۔ اسے یورپ میں کیوں نہ دکھایا جائے؟ ایشیائی ملکوں میں کیوں نہ دکھایا جائے؟ انڈونیشیا، ملیشیا، پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں کو کیوں نہ معلوم ہو کہ اس علاقے میں کیا ہوا ہے اور ہمارا سابقہ کس سے تھا؟ یہ تو حالیہ واقعات کی بات ہے۔ مقدس دفاع کے واقعات و تغیرات کی گہرائی اور اہمیت اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔

مغربی ملکوں کے فلمی میلوں میں کبھی کبھی ایرانی فلمیں دکھاتے ہیں، ایسی فلمیں جو مقدس دفاع یا اسلامی انقلاب کے موضوع پر بننے والی فلموں کے مقابلے میں فنی اعتبار سے بہت نچلی سطح کی ہیں۔ ان فلموں کو لے جاکر بڑے اہتمام سے دکھایا جاتا ہے جبکہ وہ مقدس دفاع کی ایک بھی فلم نہیں دکھاتے، کیوں؟ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ڈرتے ہیں۔ ڈرتے ہیں کہ حقائق کو بے نقاب کرنے والی یہ تصویر دنیا کے لوگوں کے سامنے نہ آ جائے اور عالمی رائے عامہ کو متاثر نہ کر دے! وہ ڈرتے ہیں۔ تو یہ بڑا کارگر ہتھیار ہے۔ ہمارے پاس یہ بہت اہم ذریعہ ہے۔ ہم اسے استعمال کیوں نہیں کرتے؟

ہمیں خود کام شروع کرنا چاہئے۔ اپنے چیمپیئنوں کے لئے ہمیں فلمیں بنانا چاہئے۔ ہمارے پاس چیمپیئن موجود ہیں۔ شہید ہمت چیمپیئن ہیں، شہید باکری چیمپیئن ہیں، شہید خرازی چیمپیئن ہیں، ہمارے کمانڈر اور سربراہان چیپیئن ہیں۔ بعض ہستیاں جو بقید حیات ہیں وہ بھی چیمپیئن ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو زندہ بچ گئے، اخلاص اور مجاہدانہ جذبے کے اعتبار سے ان لوگوں سے کمتر ہیں جو رخصت ہو گئے۔ ہرگز نہیں، اللہ تعالی نے سرمائے کے طور پر انھیں باقی رکھا ہے۔ اللہ کو ابھی ان سے کام لینا ہے۔ ان میں بہت سے افراد اس طرح کے ہیں۔ ان چہروں کا تعارف کرایا جانا چاہئے۔ دنیا ان چہروں سے روشناس ہو، ان کی عظمت کو سمجھے اور جانے!

اچھی تصانیف کے ترجمے کی ایک مہم شروع کی جائے۔ اچھی کتب کے ترجمے کی مہم۔ خوش قسمتی سے اچھی تصانیف کی کمی نہیں ہے۔ میں جتنا وقت ملتا ہے اور یہ کتابیں دستیاب ہوتی ہیں، میرا دل چاہتا ہے کہ مطالعہ کروں اور میں مطالعہ کرتا ہوں۔ بڑی اچھی کتابیں ضبط تحریر میں لائی گئی ہیں۔ واقعی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ترجمہ کیا جائے جو اب تک لکھی جا چکی ہیں۔ ترجمے کی ایک مہم شروع ہونا چاہئے۔ بیرونی دنیا کی کتابوں کا ترجمہ کرنے کے بجائے اپنی کتب کا ترجمہ کرکے بیرون ملک بھیجنے کی مہم۔ جو کچھ ہے اس سے دنیا کو روشناس کرانے کے لئے۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ آبادان میں کیا ہوا تھا، خرم شہر میں کیا ہوا تھا، جنگوں میں کیا ہوا تھا، ہمارے گاؤوں میں کیا ہوا تھا؟ کرمان شاہ کی اس خاتون (5) فرنگیس کے جو حالات زندگی لکھے گئے، میں نے اس کتاب پر ایک حاشیہ لگایا ہے۔ اس حاشئے میں میں نے لکھا کہ واقعی ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہمارے جنگی علاقوں کے گاؤوں میں کیا واقعات رونما ہوئے؟!

میں نے بارہا کہا ہے کہ یہ مرقع بہت پرکشش ہے لیکن ہم نے اسے دور سے دیکھا ہے۔ جب انسان اس مرقع کے قریب جاتا ہے اور اس کی باریکیوں کو دیکھتا ہے تو اور بھی حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔ یہ واقعات جو قلمبند ہوئے ہیں دنیا کے لوگوں کو ان سے باخبر کیجئے۔ عربی زبان میں ترجمہ، انگریزی زبان میں ترجمہ، فرانسیسی زبان میں ترجمہ، اردو زبان میں ترجمہ، دنیا کی اہم زبانوں میں ترجمہ کیا جائے۔  سیکڑوں ملین لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس علاقے میں کیا ہوا، ہم کیا کہتے ہیں، ملت ایران کا کیا موقف ہے؟ اس طرح ملت ایران کا تعارف ہوگا۔ کتاب کے ترجمے کی مہم، اچھی فلمیں بیرون ملک بھیجنے کے مہم، ہدایت کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ادارہ ثقافت و روابط کی ذمہ داری ہے۔ قومی نشریاتی ادارے کی ذمہ داری ہے۔ وزارت خارجہ کی ذمہ داری ہے۔ دیگر گوناگوں اداروں کی ذمہ داری ہے۔

اگر آج آپ جنگ کی یادوں کے اس سرمائے کو جمع کرنے اور اس میں اضافہ کرنے پر توجہ نہ دیں گے تو دشمن میدان مار لے جائے گا۔ یہ ایک خطرہ ہے، میں آپ کو متوجہ کر رہا ہوں۔ جنگ کے حالات آپ خود بیان کیجئے جو جنگ میں شامل رہ چکے ہیں۔ اگر آپ نے جنگ کے حالات بیان نہ کئے تو آپ کا دشمن اس جنگ کا قصہ سنائے گا اور اس طرح سنائے گا جو اس کی مرضی ہوگی۔ دشمن کچھ خامیوں کی مدد لیتے ہیں۔ کوئی بھی فوجی یا غیر فوجی کارروائی ہو اس میں خامیاں ہو سکتی ہیں، یقینا ہوتی ہیں۔ دشمن انھیں خامیوں کا فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق تصویر پیش کرتا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں اچھی طرح اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔ بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مقدس دفاع کی تصویر کشی کرتے وقت اس دفاع کے پیغام کی عظمت نمایاں ہونا چاہئے۔ اس پورے مقدس دفاع کے اندر روح واحد، زبان واحد اور پیغام واحد ہے۔ اسے منعکس کیا جانا چاہئے۔ وہ پیغام اور وہ روح ہے ایمان، ایثار، شیدائیت، مجاہدت۔ یہ اس ملت کے ناقابل تسخیر ہونے کا پیغام ہے جس کے بچے بھی نوجوانوں اور بڑوں کی طرح، بوڑھوں کی طرح شوق و اشتیاق کے ساتھ میدان جنگ میں جاتے ہیں اور اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتے ہیں۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ جس زمانے میں مادی دنیا کے عام نوجوان گوناگوں شکلوں میں اپنے وجود میں پائے جانے والے ہیجان کی تسکین کرتے تھے ہمارے سولہ سال اور سترہ سال کے بچے میدان جنگ میں جاتے تھے اور نوخیز عمر کے ہیجان کو جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے تسکین دیتے تھے۔ یہ بہت اہم چیزیں ہیں۔ ان کی بڑی قدر و قیمت ہے۔

البتہ جنگ ایک دشوار مرحلہ ہوتا ہے، ایک تلخ چیز ہوتی ہے۔ یہاں بعض احباب نے اشارہ بھی کیا کہ جنگ بہت تلخ ہوتی ہے۔ جی ہاں، لیکن اسی تلخ واقعے سے قرآن نشاط، عظمت اور مسرت کا پیغام بھی باہر نکالتا ہے۔ آپ دیکھئے کہ قتل ہونا، دنیا سے چلا جانا، ساری دنیا کے لوگوں کی نظر میں، یعنی اکثریت کی نگاہ میں ایک فقدان ہے، محرومی ہے، لیکن قرآن کیا کہتا ہے؟ قرآن کہتا ہے: وَیَستَبشِرونَ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا‌ هُم یَحزَنون (6) قتل ہو جانے سے، موت سے، اس دنیا سے کوچ کر جانے سے، زندگی سے محروم ہو جانے سے ایک مسرت کا پیغام باہر نکالتا ہے، خوشی کا پیغام باہر نکالتا ہے، بشارت کا پیغام باہر نکالتا ہے: وَیَستَبشِرونَ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا‌ هُم یَحزَنون.

میرے عزیزو! میرے پیارے بھائیو اور بہنو! آپ یاد رکھئے کہ اگر آج شہیدوں کا پیغام ہماری سماعتوں میں اتر جائے تو خوف و حزن کو ہم سے دور کر دے گا۔ جو لوگ خوف میں مبتلا ہیں، جو لوگ محزون ہیں وہ اس پیغام کو حاصل نہیں کر پاتے، اس پیغام کو سن نہیں پاتے۔ ورنہ اگر ہم شہیدوں کی آواز سنیں تو شہیدوں کی آواز کی برکت سے ہمارا خوف و حزن ختم ہو جائے گا۔ یہ چیز ہمارے خوف و حزن کو ختم کر دے گی اور ہمیں نشاط و شجاعت اور جرئت اقدام عطا کرے گی۔

آپ پوری سنجیدگی سے یہ کام کیجئے۔ آرٹ کا شعبہ، وزارت ہدایت اور دیگر تمام ادارے اس پر کام کریں۔ میں نے بعض اداروں کو دیکھا ہے کہ مختلف شہروں میں انھوں نے کام شروع کر دیا ہے۔ حال ہی میں میں نے قزوین کی ایک کتاب پڑھی، مشہد کی ایک کتاب پڑھی، شاہین شہر کی ایک کتاب پڑھی جناب بلوری کی تحریر تھی۔ سارے لوگ، نوجوان، جذبہ رکھنے والے افراد، اہل دل حضرات مختلف میدانوں میں اس ملک کے مختلف علاقوں میں اس میدان میں کام کر سکتے ہیں اور کام کر رہے ہیں، اسی کام کا حجم آپ سو گنا  تک  بڑھا دیجئے۔ میں سو گنا کہہ رہا تو یہ مبالغہ نہیں ہے میں عام طور پر مبالغہ کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ حقیقی معنی میں آج جو کچھ ہو رہا ہے جنگ کی ادبیات کے بارے میں، مقدس دفاع کی ادبیات کے بارے میں یا مقدس دفاع سے متعلق آرٹ کے میدان میں اسے سو گنا تک بڑھانا چاہئے، تب ہم اس میدان میں کامیابی کو محسوس کر سکیں گے۔

ان شاء اللہ اس طرح ہم استکبار کے وسیع منصوبے کو ناکام بنا سکیں گے۔ روز اول سے سامراج کا منصوبہ یہ تھا کہ اس دنیا میں جس میں سارے مادہ پرست، مادیت کی غلاظت میں ڈوبے سارے افراد، صیہونی اور دوسرے تمام لوگ ایک دوسرے سے متحد ہو گئے تھے، ایک خالص مادہ پرست دنیا انھوں نے بنا لی تھی جو روز بروز روحانیت و دینداری سے دور ہوتی جا رہی تھی، ان کی کوشش تھی کہ ایک روحانی سرزمین میں روئیدہ ہونے والے پودے کو جو روحانیت کی بشارت دینے والا تھا اکھاڑ پھینکیں، اس کا قلع قمع کر دیں، اس کی بیخ کنی کر دیں، ساری استکباری طاقتیں اس پر متحد تھیں۔ شروع میں انھیں محسوس ہوتا تھا کہ یہ آسان کام ہے۔ صدام کو انھوں نے اسی امید کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پر حملہ کرنے کے لئے اکسایا تھا۔ مگر انھیں منہ کی کھانی پڑی، انھیں طمانچہ پڑا، پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئيں۔ مگر وہ اب بھی کوشش کر رہی ہیں۔ ہم اپنی بلند ہمتی سے، جذبہ توکل سے، فضل پروردگار پر اپنے اعتماد سے ان منصوبوں کو ناکام کر سکتے ہیں اور اب تک ہم ناکام بناتے بھی رہے ہیں، آئندہ بھی ہم انھیں ناکام بناتے رہیں گے۔ اس کا ایک راستہ یہ ہے کہ آپ مقدس دفاع کے امور کو زندہ رکھئے۔

دس بج کر پانچ منٹ ہو چکے ہیں۔ اب کون سا یادگار واقعہ بیان کروں؟ اوائل جنگ کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ جب جنگ شروع ہوئی، بالکل شروعاتی گھنٹے میں میں ایئرپورٹ کے قریب تھا۔ وہاں ایک کارخانے میں مجھے تقریر کرنا تھی۔ ہم وہاں کمرے میں بیٹھے تقریر کے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ کمرے کے اندر سے ایئرپورٹ نظر آ رہا تھا۔ ایک کھڑکی تھی۔ میں نے دیکھا کہ شور شرابا شروع ہو گیا اور پھر دیکھا کہ کئی طیارے آکر اترے۔ پہلے تو سمجھ میں نہیں آیا کہ ماجرا کیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حملہ ہو گیا ہے اور مہر آباد ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا ہے۔ میں اس اجتماع میں گیا جو کارخانے کے ملازمین نے منعقد کیا تھا۔ وہ میری تقریر کا انتظار کر رہے تھے۔ میں نے چند منٹ تقریر کی، چار پانچ منٹ تقریر کی ہوگی اس کے بعد میں نے کہا کہ مجھے ضروری کام ہے اس لئے جانا ہے، ہمارے اوپر حملہ ہو گیا ہے۔

میں مشترکہ کمانڈ میں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں سب موجود ہیں۔ شہید رجائی مرحوم، شہید بہشتی، بنی صدر صاحب تھے۔ سبھی موجود تھے۔ ہم وہاں گئے اور گفتگو میں مصروف ہو گئے کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ یہ کہا گیا، غالبا میری ہی تجویز تھی کہ پہلے ہمیں عوام سے بات کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ عوام کو معلوم نہیں ہے کہ کیا ہوا ہے۔ ہمیں ابھی پوری طرح حالات کا علم نہیں تھا کہ کتنے شہروں پر حملہ کیا ہے۔ بس اتنا معلوم تھا کہ تہران کے علاوہ دوسرے شہروں پر بھی حملہ کیا ہے۔ میں نے تجویز دی کہ ہمیں ایک بیان جاری کرنا چاہئے۔ یہ دوپہر دو  تین بجے کی بات ہوگی امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا پیغام جاری ہونے سے پہلے۔ مجھ سے کہا گیا کہ تم خود ہی جاکر بیان تیار کر لو۔ میں ایک گوشے میں چلا گیا اور ایک بیان لکھ لیا۔ پھر ریڈیو نشریات والے لوگ آئے اور وہ بیان میری آواز میں نشر ہوا، شاید قومی نشریاتی ادارے کے آرکائیو میں وہ موجود بھی ہوگا۔ بہرحال ہم کچھ دن یہاں تھے، چار پانچ دن یا پانچ چھے دن تقریبا یہی کوئی مدت تھی۔ میں گھر بھی نہیں جاتا تھا، کبھی ایک گھنٹے دو گھنٹے کے لئے جاتا تھا باقی شب و روز ہم وہیں موجود تھے۔

دزفول اور اہواز جیسی جگہوں سے اسی مرکز کو فون آتے تھے اور لوگ کہتے تھے کہ ہمارے پاس چیزوں کی قلت ہے۔ فورسز کی کمی ہے، اسلحہ اور گولہ بارود کی کمی ہے، وسائل کی کمی ہے۔ افرادی قوت کی قلت کا مسئلہ آیا تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں ایسا کروں کہ دزفول چلا جاؤں اور وہاں جاکر ایک پمفلیٹ تیار کروں اور اسے ہر جگہ پھیلا دوں اور اس میں درخواست کروں کہ نوجوان آگے آئيں۔ یہ بات میرے ذہن میں آئی۔ ظاہر ہے اس کے لئے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے اجازت لینا ضروری تھا۔ ان کی اجازت کے بغیر تو میں نہیں جا سکتا تھا۔ میں جماران گیا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ شاید امام (خمینی) مخالفت کریں۔ کیونکہ آپ ہمارے سفر وغیرہ جیسے پروگراموں کی مخالفت کرتے تھے، بڑے شک و تردد کے ساتھ ایسے کسی کام کی اجازت دیتے تھے۔ الحاج احمد آقا مرحوم کو میں نے بتا دیا کہ میں امام (خمینی) سے یہ کہنا چاہتا ہوں، یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے محاذ پر جانے کی اجازت دے دیں تاکہ میں دزفول چلا جاؤں، تو آپ مدد کیجئے کہ امام (خمینی) مجھے اجازت دے دیں۔ الحاج احمد آقا نے یہ بات مان لی، انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ہم کمرے میں داخل ہوئے۔ میں نے دیکھا کہ کمرے کے اندر چند افراد موجود ہیں۔ مرحوم چمران بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے امام (خمینی) سے کہا کہ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر میں جنگی علاقے میں جاتا ہوں تو میرے وجود کا اثر زیادہ ہوگا یہاں رکے رہنے کے مقابلے میں، تو آپ اجازت دے دیجئے تاکہ میں چلا جاؤں۔ امام نے بلا تامل کہا؛ ہاں، ہاں، آپ جائیے! یعنی میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ امام (خمینی) منع کر دیں گے مگر میرے اس تصور کے بالکل برخلاف آپ نے بلا تامل فرمایا کہ ہاں ہاں، آپ جائیے! جب مجھ سے کہا کہ آپ جائیے تو میں بہت خوش ہو گیا۔ مرحوم چمران نے کہا؛ آقا! مجھے بھی جانے کی اجازت دے دیجئے۔ امام (خمینی) نے کہا کہ آپ بھی جائیے! پھر میں نے جناب چمران کی جانب مڑ کر کہا: تو اب اٹھو، انتظار کس بات کا ہے؟ اٹھو چلتے ہیں! ہم باہر آئے۔ دوپہر سے پہلے کا وقت تھا۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ اسی وقت روانہ ہو جائیں لیکن انھوں نے کہا کہ نہیں، شام تک رکتے ہیں۔ میں تو اکیلا تھا، میں کسی کے ساتھ نہیں جانا چاہتا تھا، میں اکیلا جانا چاہ رہا تھا، لیکن مرحوم چمران کے ساتھ کچھ لوگ تھے۔ بعد میں جب ہم گئے تو میں نے دیکھا کہ ساٹھ ستر لوگ ان کے ساتھ تھے۔ یہ لوگ آکر مشق کر چکے تھے، ان کے ساتھ کام کر چکے تھے، وہ ان لوگوں کو اپنے ساتھ لانا چاہ رہے تھے اس لئے ان سب کو جمع کرنا ضروری تھا۔ مجھ سے کہا کہ شام تک رکو، ہم لوگ دزفول کے بجائے اہواز جائیں گے۔ اہواز دزفول سے بہتر رہے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ ظاہر ہے وہ ہم سے زیادہ تجربہ کار تھے، ماہر تھے، میں نے یہ بات مان لی۔ میں گھر آيا اور اہل خانہ سے خدا حافظی کی۔ ہمارے ساتھ چھے سات محافظ بھی تھے۔ میں نے محافظوں سے کہا کہ آپ لوگوں کی چھٹی ہے میں میدان جنگ میں جا رہا ہوں، وہاں محافظ ساتھ رکھنا بے معنی ہے۔ وہ سب رونے لگے کہ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کی باتیں کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ نہیں، میں آپ لوگوں کو ساتھ نہیں لے جاؤں گا۔ انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے محافظ کی حیثیت سے نہیں ساتھی کی حیثیت سے ہمیں اپنے ساتھ آنے دیجئے۔ ہم بھی محاذ پر جانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس حیثیت سے لے چلئے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ وہ سب میرے ساتھ اس علاقے میں آئے اور آخر تک ساتھ رہے۔

شام کے وقت مرحوم چمران کے ساتھ ہم سب روانہ ہو گئے۔ ایک سی 130 طیارے میں سوار ہوئے اور اہواز کی طرف نکل گئے۔ اہواز پر تاریکی کا سایہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ بعض لوگوں نے جنگی علاقوں کے بارے میں جو ناول اور افسانے لکھے ہیں، میں نے جنگی علاقے کو، یعنی اہواز کو جنگ کے ان ابتدائی دنوں میں ہی بالکل قریب سے دیکھا ہے اور کچھ عرصہ وہاں رہ چکا ہوں، انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ پوری طرح خلاف حقیقت ہے۔ یعنی یہ غیر انقلابی ناول نگار حضرات جو جنگ کے بارے میں کوئی تحریر تیار کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، انھوں نے اہواز کے بارے میں جو لکھا ہے وہ خلاف حقیقت ہے۔ اسی طرح دوسری جگہوں کے بارے میں بھی جو لکھا ہے وہ بھی ایسا ہی ہے۔ ایک نے تو تہران کے بارے میں لکھا ہے، وہ بھی حقیقت سے پرے ہے۔ یعنی انھوں نے صحیح عکاسی کی کوشش نہیں کی ہے۔ ہمارے اپنے قلمکاروں کو، ہمارے اپنے ناول نگاروں کو اس میدان میں اترنا چاہئے اور ان چیزوں کو لکھنا چاہئے۔ اگر ہم نہ لکھ سکے تو دوسرے کسی اور انداز سے لکھیں گے۔

الغرض یہ کہ اہواز بالکل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسی تاریکی میں ہم ڈویژن 92 کی چھاونی میں پہنچے، ہم وہاں رکے اس کے بعد ہم گورنریٹ میں چلے گئے اور وہاں ہمارا قیام رہا۔ پہلی شب جب ہم پہنچے تو مرحوم چمران نے اپنے ان افراد کو جمع کیا اور کہا کہ ہم آپریشن کے لئے جائیں گے۔ ہم نے پوچھا کہ کیسا آپریشن؟ انھوں نے کہا کہ ہم ٹینک کے شکار پر جائیں گے۔ میرے پاس ایک کلاشنکوف تھی، میری اپنی تھی، ذاتی کلاشنکوف تھی جو میرے ساتھ تھی، میں نے کہا کہ میں بھی آؤں ؟ انھوں نے کہا کہ ہاں، کیا حرج ہے، آپ بھی آئيے۔ میں نے عمامہ، عبا اور قبا اتار کر رکھ دی اور ہمیں فوجیوں کی وہ منحوس چوڑے گلے والی ایک وردی دے دی گئی۔ میں نے اسے پہن لیا اور رات کے وقت ان کے ساتھ میں بھی چلا گیا۔ حالانکہ نہ تو میں نے مناسب فوجی ٹریننگ لی تھی، نہ مناسب ہتھیار میرے پاس تھا۔ یعنی کوئی بھی ٹینک کا شکار کرنے کے لئے کلاشنکوف کے ساتھ نہیں جاتا تھا۔ البتہ ان لوگوں کے پاس بھی آر پی جی وغیرہ جیسے ہتھیار نہیں تھے، ان کے پاس بھی اسی طرح کے ہتھیار تھے۔ ہم گئے، کوئی ٹینک بھی شکار نہیں کیا اور واپس آ گئے۔ (7)

 

و السّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں بعض حاضرین نے مقدس دفاع سے متعلق اپنی یادوں کا تذکرہ کیا۔

۲) بعض حاضرین نے درخواست کی کہ رہبر انقلاب اسلامی بھی مقدس دفاع سے متعلق اپنی کچھ یادیں بیان کریں۔

۳)  ادارہ اسلامی تبلیغات کے استقامتی آرٹ کے ادبی شعبے کے سربراہ

4) بہ وقت شام

5) 'فرنگیس'  محترمہ فرنگیس حیدرپور کی سرگزشت، بہ قلم مہناز فتاحی

6) سوره آل‌ عمران، آیت نمبر۱۷۰ کا ایک حصہ «...ان لوگوں کو جو ان کے راستے پر چلتے ہیں اور ہنوز ان سے ملحق نہیں ہوئے، خوش خبری دیتے ہیں کہ نہ تو ان کے لئے  کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین و حزین ہیں۔

7) رہبر انقلاب اور حاضرین ہنس پڑے