رہبر انقلاب اسلامی نے اس حدیث کی روشنی میں عہدیداران کو سفارش کی کہ مایوسی اور تساہلی کو اپنے سے دور کریں اور یاد رکھیں کہ اسلامی انقلاب آگے بڑھے گا۔
KHAMENEI.IR نے اس درس کے کچھ حصوں کا ویڈیو اور متن نشر کیا ہے۔
بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة اللَّه علی اعدائهم اجمعین.
عَن اَبی قَتادَةَ، قالَ اَبو عَبدِ اللَّهِ عَلَیهِ السَّلامُ: لَیسَ لِحاقِنٍ رَأیٌ، وَ لا لِمَلولٍ صَدیقٌ، وَ لا لِحَسودٍ غِنًى، وَ لَیسَ بِحازِمٍ مَن لَم یَنظُر فِی العَواقِبِ، وَ النَّظَرُ فِی العَواقِبِ تَفتَحُ القُلوبِ.(۱)
لَیسَ لِحاقِنٍ رَأی
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «حاقِن» یعنی وہ شخص جو پیشاب وغیرہ کی شدت سے سخت دباؤ میں ہے، اس کی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ اسی لئے نماز میں مکروہ ہے کہ انسان اس طرح کے دباؤ میں ہو اور نماز پڑھے، اس لئے کہ انسان کے حواس ایسی صورت میں اپنی جگہ نہیں ہوتے۔ یہ حدیث کا آغاز ہے۔
اس کے بعد ارشاد فرماتے ہیں: وَ لَا لِمَلولٍ صَدیق
تساہلی پسند شخص دوست اور رفیق سے محروم رہتا ہے۔ جو ہمیشہ تھکے ہوئے اور افسردہ ہیں، کسی چیز کا حوصلہ جن میں نہیں ہے وہ دوست اور ساتھی نہیں بنا پاتے۔ اگر آپ کوئی اجتماعی کام کرنا چاہتے ہیں، جماعت کی شکل میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، مقابلے میں شرکت کرنا چاہتے ہیں، آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ اپنے اندر جوش و خروش پیدا کریں۔ ہم جو نشاط اور جوش و جذبے کی بات ہمیشہ کرتے ہیں، اپنی گفتگو اور تقاریر میں بار بار اس کا ذکر کرتے ہیں تو کچھ لوگ نشاط کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ناچ گانا، میوزک کا کوئی پروگرام یا اس طرح کی کوئی اور طربیہ نشست جمائی جائے، ٹھیئیٹر میں یا ٹی وی پر اس طرح کا کوئی پروگرام لگائیں تو لوگوں کو نشاط حاصل ہوگی! نشاط اور جوش و خروش کا یہ مطلب نہیں ہے۔ نشاط کا مطلب ہے کام کرنے کا حوصلہ، کام کا جذبہ، متحرک ہونا، آگے بڑھنے، کام کرنے اور سرگرمیاں انجام دینے کے لئے انسان کے دل کا آمادہ ہونا۔ تھکا ہوا، ملول اور افسردہ نہ ہو۔ نشاط کا یہ مطلب ہے۔ اگر انسان ایسا ہو تو اسے رفقائے کار ملیں گے، دوسرے افراد آکر اس کے گرد جمع ہو جائیں گے اور آپ اپنا کام آگے لے جا سکیں گے۔ خاص طور پر آپ نوجوانوں کو اس کی بہت ضرورت ہے۔
اس کے بعد فرمایا: وَ لا لِحَسودٍ غِنًى
جو انسان حسد کرتا ہے وہ کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ حاسد شخص کا مزاج ہی یہی ہے۔ چونکہ دوسروں کو حاصل نعمتوں پر اسے حسد ہے اور اللہ نے فطری طور پر حسد میں ایک اثر قرار دیا ہے، اس لئے وہ شخص ہمیشہ پیچھے رہ جاتا ہے۔
وَ لَیسَ بِحازِمٍ مَن لَم یَنظُر فِی العَواقِب
حازم یعنی عقلمند انسان، ذی فہم انسان، وہ شخص جو پختگی کے ساتھ کام انجام دیتا ہے۔ 'حزم' لفظ میں یہ سارے معانی موجود ہیں۔ اس کا مطلب مضبوطی سے کام کرنا ہے، اس رسی کو حزام کہتے ہیں جس سے مضبوطی سے کچھ باندھا جاتا ہے، اونٹ کی پشت کے اوپر سے لاکر اس کے پیٹ کے نیچے باندھی جانے والی رسی اور جوتوں کے فیتے کو بھی حزام کہتے ہیں۔ یہ عقلمندی، خرد اور خردمندی کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، یہ سارے مفاہیم لفظ حزم کے اندر پائے جاتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے؛ جو شخص اپنے کام کے انجام کے بارے میں پہلے ہی نہیں غور کر لیتا وہ حازم یعنی پختگی اور مضبوطی سے کام کرنے والا نہیں ہے۔ آپ دیکھئے کہ اس میں ایک سبق ہے ہم سب کے لئے، خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو ہم میں یا آپ میں کسی عہدے پر فائز ہیں۔ کسی جگہ فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ ہیں یا خود فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ کوئی کام ہے جو کسی انسان کو پسند ہے، وہ انجام دینا چاہتا ہے، اس میں فائدہ بھی ہے، لیکن اس نے اس کے انجام پر غور نہیں کیا ہے، انجام کے بارے میں سوچے بغیر اس نے کام شروع کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر گرمی کے موسم میں انسان اپنے گھر کے صحن میں داخل ہوتا ہے، اب تو صحن بہت کم ہوتے ہیں، جب گھروں میں صحن ہوا کرتے تھے تب ہم یہ مثال دیتے تھے اور سب کو بات سمجھ میں آ جاتی تھی، صحن کے بیچ میں صاف پانی کا حوض ہوتا تھا۔ بہت گرمی لگ رہی ہے، پسینہ بھی ہوا ہے، انسان فورا پیراہن اتارتا ہے اور پانی میں داخل ہو جاتا ہے، یہ کوئی برا کام ہے؟ نہیں، لیکن آپ پانی میں اترے اور اس سے لہر پیدا ہوئی جو حوض کی دیوار پر رکھے ہوئے شیشے کے گلاس سے ٹکرائی اور گلاس نیچے گر کر ٹوٹ گیا۔ اگر آپ نے پہلے ہی اس پہلو پر غور کر لیا ہوتا تو پانی میں کسی اور انداز سے اترتے۔ انجام پر غور نہیں کیا، اپنے عمل کے نتیجے پر غور نہیں کیا اور پانی میں کود پڑے تو نتیجہ یہ نکلا۔ جو شخص اپنے عمل کے انجام کے بارے میں نہ سوچے وہ حازم نہیں ہے۔
مثال کے طور پر جب آپ کسی مقابلے میں شامل ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ فریق مقابل آپ کے کس داؤ کے جواب میں کیا چال چلے گا؟ اس پر پہلے ہی غور کر لیجئے۔ آپ کے جواب میں فریق مقابل جو چال چلے گا آپ پہلے سے اس کے لئے خود کو آمادہ کر لیجئے اس کے بعد اپنا داؤ شروع کیجئے۔ یہ ہے عاقبت اندیشی۔ یہ سب سبق ہے۔ یہ صرف شخصی معاملات کا سبق نہیں ہے، ملکی مسائل کے سلسلے میں بھی یہ بہت اہم سبق ہے۔ ملکی انتظامات کے لئے بھی سبق ہے، اعلی انتظامی امور کے لئے بھی سبق ہے۔ البتہ خاندان اور ذاتی امور میں بھی یہ روش بہت مفید ہے۔ اخلاقی تعلیمات ایسی ہی ہوتی ہیں۔
وَ النَّظَرُ فِی العَواقِبِ تَفتَحُ القُلوب
یعنی اگر ہم اپنے کام کے انجام کے بارے میں غور کر لیں تو اس سے دل مطمئن ہو جاتا ہے، انسان کے فکری دریچے کھلتے ہیں، روحانی دریچے کھلتے ہیں۔ اگر ہم اپنے عمل کے انجام کے بارے میں پہلے ہی سوچ لیں تو ہم گناہ نہیں کریں گے، فسق و فجور میں مبتلا نہیں ہوں گے، اگر ہم اپنے کاموں کے انجام کے بارے میں سوچ لیں تو ہم سے وہ لغزشیں نہیں ہوں گی جو عام طور پر ہم سے ہو جاتی ہیں۔ ذاتی مسائل میں بھی یہ فائدہ ہوگا اور بڑے مسائل میں بھی یہ فائدہ ہوگا، ملک کی سطح کے بڑے مسائل میں بھی یہ فائدہ ہوگا۔ اگر یہ ہو گیا تو ہم امید و اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
تمام عہدیداران کے لئے جو مجریہ میں، عدلیہ کے اندر یا دیگر شعبوں میں کسی انتظامی عہدے پر فائز ہیں میری سفارش یہ ہے کہ افسردگی اور تساہلی کی کیفیت اپنے سے دور کریں، اپنے سے مایوسی دور کریں اور یاد رکھیں کہ کام آگے بڑھ رہا ہے، انقلاب پیش قدمی کر رہا ہے، آپ نے دیکھا کہ گیارہ فروری کو اس ملک میں کیا عظیم کارنامہ انجام پایا۔ ظاہر ہے یہ انقلاب ہے، انقلاب آگے بڑھ رہا ہے، مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے۔ اس ملت اور بزرگوار امام کی تحریک کو چالیس سال گزر چکے ہیں، اب تک تو ساری چیزیں فراموش کر دی جانی چاہئے تھیں، لیکن انقلاب کے سلسلے میں عوام کا طرز عمل ایسا ہے گویا یہ انقلاب ابھی کل ہی آیا ہو! اس طرح سڑکوں پر نکلتے ہیں، مختلف جگہوں کے بارے میں مجھے جو رپورٹ ملی اس کے مطابق تہران میں میدان آزادی کی طرف جانے والی سڑکوں پر مجمع اتنا تھا کہ آگے جانا مشکل ہو گیا تھا۔ دوسرے شہروں میں بھی یہی صورت حال تھی۔ گزشتہ تمام برسوں کی نسبت اس سال مجمع زیادہ تھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ دشمن کی دھمکیاں زیادہ تھیں۔ عوام نے اپنی ذمہ داری اور اپنے فریضے کو محسوس کیا۔ تو کام آگے بڑھ رہا ہے۔ مایوسی وغیرہ جیسی چیزیں تمام عہدیداران، اعلی عہدیداران بھی، اوسط درجے کے عہدیداران بھی اور نچلے درجے کے عہدیداران بھی کنارے رکھ دیں! یہ تو رہی ایک بات۔
دوسری چیز ہے عاقبت اندیشی۔ جو کام انجام دینا چاہتے ہیں، غور کر لیں کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ جو فیصلہ آپ کرنا چاہتے ہیں، جس کام کو آپ منظوری دینا یا مسترد کرنا چاہ رہے ہیں دیکھ لیجئے کہ اس کا انجام کیا ہوگا، اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ آپ کے اس اقدام کے جواب میں دشمن کیا قدم اٹھائے گا اور اس صورت میں آپ کیا کر سکیں گے؟ اس پر غور کر لیجئے! اس کے بعد آپ اللہ کے لئے خلوص کے ساتھ عمل کیجئے۔
۱) امالی طوسی، مجلس یازدہم، صفحہ ۳۰۱؛ «امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو انسان پیشاب کے دباؤ میں ہے اس کی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ جس انسان کے پاس حوصلہ اور برداشت نہیں ہے اس کا کوئی دوست نہیں ہوتا، حاسد انسان کبھی بے نیاز نہیں ہو پاتا، جو ناعاقبت اندیش ہو وہ عقلمند اور پختگی سے کام کرنے والا نہیں ہے، کاموں کے انجام کے بارے میں پہلے ہی سوچ لینے سے انسانوں کی فکر و روح کے دریچے کھل جاتے ہیں۔»