رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملکی پیشرفت کے تسلسل کی بنیاد اور شرط اللہ پر توکل، استقامت و مزاحمت، مستقبل کے تعلق سے رجائیت پسندی، نوجوانوں خاص طور پر انقلابی نوجوانوں پر اعتماد، عوام الناس کی وحدت و یکجہتی اور خاص طور پر انقلابی فورسز کے درمیان یگانگت، ملکی پیداوار کی حقیقی معنی میں پشت پناہی اور اغیار سے پوری طرح امید منقطع کر لینا ہے۔

اس ملاقات کے آغاز میں رہبر انقلاب اسلامی نے ہفتہ مقدس دفاع کی مناسبت کا ذکر کیا اور اس درخشاں دور سے ملنے والے دروس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کی ترویج اور معاشرے میں انھیں گہرائی تک اتارے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جنگ کے ابتدائی دور میں اور پورے آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران تمام تر مشکلات، کمیوں اور سختیوں کے باوجود اللہ پر امام خمینی کا توکل حیرت انگیز تھا، آج بھی تمام میدانوں میں اسی توکل کی ضرورت ہے۔

امام خامنہ ای نے فرمایا کہ بعض اوقات معاشرے میں کچھ مشکلات کی وجہ سے بعض اکابرین اور معزز افراد بھی سراسیمگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ اللہ پر توکل کرکے محنت و مشقت سے اس مشکل کو حل کیا جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے گزشتہ چالیس سال کے دوران اسلامی نظام پر اللہ تعالی کے لطف خاص کا ذکر کیا اور بار بار سخت موڑ سے اسلامی نظام کے بآسانی گزر جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں وطن عزیز کی مادی و روحانی عزت و اقتدار و اعتبار، کام کے لئے آمادہ انقلابی نوجوانوں کی بڑی تعداد اور ملک کی پیشرفت اور جست جس کا اوائل انقلاب کے زمانے سے کوئی مقابلہ نہیں ہے، یہ تمام کامیابیاں لطف و عنایت خداوندی مرہون منت ہیں، بنابریں اللہ پر توکل کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ مستقبل کے سلسلے میں پرامید رہنا اور نوجوانوں پر اعتماد بھی مقدس دفاع کے زمانے سے ملنے والے اہم سبق ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ نوجوانوں کو میدان میں لانا چاہئے اور ان کے اندر موجود توانائی سے غفلت نہیں برتنا چاہئے، البتہ نوجوانوں کو میدان میں اتارنے کا مطلب غیر نوجوان کو میدان سے خارج کرنا نہیں ہے کیونکہ ہر شخص اپنے تجربے اور کارکردگی کے تناسب سے اپنا خاص مقام رکھتا ہے۔

امام خامنہ ای کے مطابق قومی عزم و ارادہ بھی مقدس دفاع سے ملنے والا اہم سبق ہے۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ عوام کا عزم و ارادہ کمزور کرنے اور انھیں مایوسی میں مبتلا کرنے کے لئے دشمن بڑی محنت کر رہا ہے تو اس کے مد مقابل ہمیں قومی عزم و ارادے کو تقویت پہنچانا چاہئے اور یہ مہم فرمان جاری کرکے انجام نہیں دی جا سکتی بلکہ صحیح استدلال اور صاحب فکر افراد کی عوام کے درمیان بروقت موجودگی اور رائے زنی سے ممکن ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ تمام ملکی امور کی بنیاد اور مختلف میدانوں میں کامیابی کا لازمہ استقامت و مزاحمت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بعض مسائل میں طولانی استقامت کی احتیاج ہوتی ہے، چنانچہ دشمنوں کے محاذ کی وسعت اور ان کی غنڈہ گردی کو دیکھ کر خائف نہیں ہونا چاہئے بلکہ مقدس دفاع کے زمانے کی طرح استقامت و پائيداری سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ 'ہم کر سکتے ہیں'۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دشمن اہم فیصلوں کے مقدمات فراہم کرنے والوں، فیصلے کرنے والوں اور عوام کے فہم و ادراک پر اثر انداز ہوکر ان میں یہ تصور پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ 'آپ نہیں کر سکتے' اور 'یہ ممکن نہیں ہے'۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عوام اور عہدیداران کی توجہ ملک کے حقائق سے ہٹانے اور قومی مفادات کو اپنے اہداف کے مطابق بیان کرنے کی دشمن کی کوششوں کے بالکل برخلاف وطن عزیز کی توانائیاں اور صلاحیتیں ایسی ہیں کہ تمام اقتصادی مشکلات اور معیشتی مسائل کو تدابیر، لگن اور صحیح مشاورت سے حل کیا جا سکتا ہے۔

امام خامنہ ای نے امریکی صدر کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایران امریکہ کے مطالبات پورے کرے تو عوام کی حالت بہتر ہو جائے گی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی اور یورپی عہدیداران اور ذرائع ابلاغ مسلسل یہ باتیں کرکے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ 'آپ کچھ نہیں کر پائیں گے' لیکن ایران کے عوام ان پروپیگنڈوں پر کوئی توجہ نہیں دیں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عوام اور عہدیداران کے اذہان کو ایک اور نکتے سے ہٹانے کی کوشش ہوتی ہے اور وہ ہے انقلاب کے نعروں کا مسئلہ، حال ہی میں بعض یورپی عہدیداران نے کہا کہ ایران کو اب انقلابی نعرے ترک کر دینا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس طرح کی باتیں اس لئے کی جا رہی ہیں کہ امریکہ اور یورپی ممالک انقلاب کے نعروں سے اور اس اسلامی انقلاب نے جو تیسرا راستہ تعمیر کیا اس سے خو‌فزدہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ملکی مسائل و مشکلات کا حل انقلابی راہ اور نعروں پر ثابت قدم رہنا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے جنگ احزاب اور اس جنگ سے مربوط آیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امریکہ اور خبیث یورپ سمیت دشمنوں اور شیاطین کی صف آرائی کو اسلامی جمہوری نظام کی حقانیت کی علامت قرار دیا اور کہا کہ پیشرفت کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ ہی وطن عزیز نے بعض مواقع پر چھلانگ بھی لگائی ہے جس سے دشمن پریشان اور تشویش میں مبتلا ہے، پابندیوں کا اصلی مقصد اس چھلانگ کو روکنا ہے لیکن لطف خداوندی سے مستقبل قریب میں ہم مختلف میدانوں میں بہت اہم جست کا مشاہدہ کریں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں یورپ کے تعلق سے چند اہم نکات بیان کئے۔

امام خامنہ ای کا کہنا تھا کہ امریکہ اور صیہونی حکومت کے علاوہ کسی بھی ملک کے ساتھ مذاکرات اور لین دین کا راستہ بند نہیں ہے، لیکن جن ملکوں نے اسلامی جمہوری نظام سے دشمنی کا پرچم بلند کر رکھا ہے جن میں سر فہرست امریکہ اور یہ چند یورپی ممالک ہیں ان پر ہرگز اعتماد نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ وہ آشکارا ملت ایران سے دشمنی کا برتاؤ کر رہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اسلامی جمہوریہ سے یورپیوں اور امریکہ کی دشمنی کی وجوہات میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یورپی بظاہر تو ثالثی کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں اور لمبی لمبی باتیں بھی کرتے ہیں لیکن یہ ساری باتیں کھوکھلی ہوتی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاہدے کے بعد یورپی ممالک کی کارکردگی، وعدوں کو پورا نہ کرنے اور ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے اور ثانوی پابندیاں عائد کرنے کے بعد یورپ کے طرز عمل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یورپی ممالک نے اپنے مکرر وعدوں کے باوجود عملی طور پر امریکہ کے ذریعے عائد کی گئی پابندیوں کے مطابق کام کیا اور ان پابندیوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا، اسی طرح آئندہ بھی بہت مشکل نظر آتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کے لئے کچھ  کریں، بنابریں یورپ سے ہر امید ختم کر دینی چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آمد و رفت رکھنے اور معاہدے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان سے امید اور ان پر اعتماد ہرگز نہیں رکھنا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے یورپ کے گیارہ وعدوں کا ذکر کیا جن پر یورپی ممالک نے عملدرآمد سے گریز کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جن افراد نے مذاکرات کئے تھے آج وہ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ یورپیوں نے اپنے کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کیا، یہ چیز بہت محکم وجہ ہے کہ ان پر کسی بھی معاملے میں اعتماد نہ کیا جائے!

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ان تمام دشمنیوں کے باوجود حالات کا رخ اسلامی جمہوریہ کے حق میں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج اسلامی جمہوری نظام چالیس سال قبل کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ زیادہ طاقتور بن چکا ہے بلکہ پچھلے دس سال کے مقابلے میں بھی آج کی اس کی قوت زیادہ ہے اور علاقے میں اس کا انقلابی و سیاسی اثر و رسوخ وسیع تر اور انقلاب کی جڑیں عمیق تر ہیں۔

گوناگوں میدانوں میں اسلامی جمہوری نظام کی پیشرفت کا حوالہ دیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بے شک سب کے دوش پر بہت اہم ذمہ داریاں ہیں کیونکہ ثقافتی و اقتصادی میدانوں میں مختلف مشکلات در پیش ہیں اور دشمن بڑی تندہی سے ثقافتی ریشہ دوانیوں اور دراندازی میں مصروف ہے لیکن اگر ملک کے عہدیداران دشمن پر عدم اعتماد کو اپنا طریقہ کار بنائیں تو یقینا سازشوں کا مقابلہ اور انھیں ناکام کیا جا سکتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں امریکہ اور یورپ کی اقتصادی و سماجی صورت حال کا بھی جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی حکومت جو ہماری اصلی دشمن ہے آج دنیا میں سب سے نفرت انگیز حکومت ہے اور یورپی آج خود اپنی کمزوری اور تنزل کا اعتراف کر رہے ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک یورپی رہنما کےخطاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس یورپی رہنما نے صریحی طور پر اور دلائل کے ساتھ مغربی تمدن کے انحطاط کا اعتراف کیا، تاہم ان نا موافق حالات میں بھی وہ اپنی سامراجی خو ترک کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے یورپ کے مشہور ممالک کے قرضوں کے بارے میں بین الاقوامی مراکز کے اعداد و شمار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان ملکوں کی اقتصادی مشکلات کا مسئلہ بہت سنجیدہ ہے اور برطانیہ و فرانس کی سیاسی مشکلات سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں، بنابریں اس صورت حال سے استفادہ کرنا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے آخری حصے میں انقلاب کے با وقار راستے پر سفر جاری رکھنے اور دشمنی پر غلبہ حاصل کرنے کے سلسلے میں چند اہم فرائض کا ذکر کیا۔ اس سلسلے میں اللہ کے وعدے پر اعتماد و اطمینان پہلا نکتہ تھا جس کا ذکر رہبر انقلاب اسلامی نے کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا مقصد معاشرے میں دین خدا کو عملی جامہ پہنانا اور شریعت الہیہ کا نفاذ ہے، بنابریں اللہ تعالی اپنے وعدے کے مطابق ہماری نصرت کرے گا، چنانچہ تاحال اس نے اپنے اس وعدے کو پورا کیا ہے اور بے پناہ مشکلات کے باوجود اسلامی جمہوریہ عزت و وقار کی چوٹی پر موجود ہے اور اسلام کے لئے باعث فخر و مباہات ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے عہدیداران و حکام کو تقوا، صداقت اور مجاہدانہ انداز میں کام کرنے کی سفارش کی اور بدعنوانی کے خلاف سنجیدہ لڑائی کی ذمہ داری کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ کرپشن کے خلاف لڑائی میں علاج سے بہتر پیشگی احتیاط ہے یعنی کرپشن کے راستوں کو بند کرنا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ پیداواری شعبے کی مدد عہدیداران کا فریضہ اور ملکی مشکلات کے حل کی کنجی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر پیداواری شعبے میں رونق آئے گی تو کرنسی کی قدر میں گراوٹ، افراط زر، قوت خرید میں کمی سمیت بہت سی مشکلات حل ہو جائیں گی، البتہ امپورٹ کو بھی کنٹرول کرنا ضروری ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کی دوسری سفارش انقلاب کی وفادار فورسز کو تقویت پہنچانے سے متعلق تھی۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلامی نظام بلا تفریق دین و مسلک تمام عوام کے حقوق کو یکساں نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے قطع نظر کہ کوئی شہری مسلمان ہے یا نہیں، اسلامی نظام کا وفادار ہے یا نہیں، اس کے عمومی حقوق کا خیال رکھا جانا چاہئے، مثال کے طور پر ملک میں بدامنی نہیں ہونا چاہئے اور آزادی و انصاف کی نظر تمام عوام کے لئے یکساں ہونی چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی انقلاب کی وفادار اور ملکی خود مختاری کا عقیدہ رکھنے والی فورسز کی حمایت ضروری ہے، انتہا پسندی اور تندی کا الزام لگا کر ان فورسز کو میدان سے خارج نہیں کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ مومن اور انقلابی فورسز کی حمایت، جو عوام الناس کے بہت بڑے حصے پر مشتمل ہیں ہر جگہ کی جانی چاہئے اور حساس مراکز میں ان کی موجودگی کا راستہ ہموار کیا جانا چاہئے، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو 30 دسمبر 2009 کے قضیئے میں اور اسی طرح 2017 کے واقعے میں بہت بڑے پیمانے پر مہم میں شامل ہوئے اور انھوں نے میدان میں اتر کر دشمن کو ناکام کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے ماہرین اسمبلی کے سربراہ آیت اللہ جنتی نے اسمبلی کی نظریہ پرداز کمیٹیوں کی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی اور ماہرین اسمبلی کے نائب سربراہ آيت اللہ موحدی کرمانی نے اسمبلی کے اجلاس میں ارکان کی جانب سے پیش کئے گئے اہم نکات اور ان مسائل کی رپورٹ پیش کی جن پر ارکان نے تشویش کا اظہار کیا۔