رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں قومی، مذہبی اور انقلابی عزت کی تجلی، وقت ضرورت میدان میں موجودگی اور ملک و نظام کی دینی ماہیت کے دفاع کی خاطر جد و جہد کو آذربائیجان کے عوام کی خصوصیات میں شمار کیا اور فرمایا: نو جنوری ۱۹۷۸ کے قیامِ قم کے (دوران شہید ہونے والوں کے) چہلم کے موقع پر تبریز کے عوام بر وقت میدان میں اترے اور ان کا یہ اقدام خدائی برکتوں کا سرچشمہ قرار پایا اور نتیجتا یہ شروع ہونے والا سلسلہ بتدریج ملکی سطح پر عوام کے قیام، طاغوتی حکومت کے زوال اور پھر اسلامی نظام کے قیام تک جاری رہا۔
رہبر انقلاب نے اپنے خطاب میں آئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں عوامی شرکت کو شرعی، قومی، انقلابی اور مدنی فریضہ قرار دیا۔آپ نے انتخابات کے دو اہم رکن یعنی وسیع شرکت اور نیک انتخاب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات ایک عوامی جہاد، ایک نعمت اور ایک امتحان الٰہی ہیں۔ اگر اس میں عوام کی وسیع شرکت ہوجائے تو یہ نظام اسلامی کے لئے باعث عزت و تقویت ہیں اور ساتھ ہی ملک کو دشمن کی سازشوں کے مقابلے محفوظ بنا کر اسکے لئے مزید مستحکم ہونے کی زمین ہموار کریں گے۔آپ نے امید ظاہر کی کہ ایرانی عوام اس امتحان الٰہی کو سربلندی کے ساتھ سر کر لیں گے۔
آپ نے ۲۱ فروری کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو، بروقت موجودگی کے طلبگار مصادیق میں شمار کیا اور فرمایا کہ انتخابات ایک عوامی جہاد ہے جو ملک کی تقویت اور نظام اسلامی کے لئے عزت و آبرو کا باعث ہے اور اس میں عوام کی وسیع شرکت ملک کے لئے برکتوں کی حامل اور ایک عظیم تبدیلی کا پیش خیمہ ہوگی۔
رہبر انقلاب نے اسلامی نظام سے ایرانی عوام بالخصوص نوجوانوں کو جدا کرنے کے لئے دشمن کی جد وجہد اور تشہیراتی مہم کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ دشمن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام رہا ہے اور اس کی بارز مثالیں شہید قاسم سلیمنی کی تشییع جنازہ اور گیارہ فروری کی عظیم ریلیاں ہیں اور پارلیمانی انتخابات ایک بار پھر یہ ثابت کر دیں گے کہ ایرانی عوام نظام اسلامی کے ہمراہ اور اسکے پشت پناہ ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ دوست اور دشمن سبھی کی نگاہیں جمعے کے روز ہونے والے انتخابات پر ٹکی ہوئی ہیں۔آپ نے فرمایا کہ دشمن یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اسکے حد اکثر دباؤ، یورپی ممالک کی وعدہ خلافیوں اور ملک میں موجود اقتصادی مشکلات کا نتیجہ کیا رہا ہے اور اسکے ساتھ ہی دوستوں کو بھی یہ تشویش لاحق ہے کہ جمعے کے روز ہونے والے انتخابات میں ایرانی عوام کی شرکت کیسی ہوگی۔
رہبر انقلاب نے انتخابات کو ناپاک امریکی و صیہونی سازشوں کو ناکام بنانے والا ایک عنصر اور انکے مکر و حیلے کے مقابلے ایک حریف قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن ایران سے تبھی مایوس ہوگا جب ایران مستحکم ہوگا اور مستحکم و قوی ایران کے مصادیق میں ایک قوی پارلیمنٹ کا بھی شمار ہوتا ہے، یعنی ایک ایسی پارلیمنٹ جو لازمی قوانین وضع کرے، حکومتوں کو انکی صحیح جہت کی جانب رہنمائی کرے اور اس طرح ملک کو تحفظ فراہم کرے۔
آپ نے ایک قوی پارلیمنٹ کی تشکیل کے لئے عوام کی حد اکثر شرکت کو ایک لازمی عنصر قرار دیا اور فرمایا کہ ایک پارلیمنٹ کے اثرات و نتائج محض اسکی چار سالہ مدت پر محیط نہیں ہوتے بلکہ ایک قوی اور مستحکم یا پھر کمزور اور اعتماد نفس سے عاری پارلیمنٹ ملک کے لئے طویل المدت اثرات چھوڑ سکتی ہیں۔
رہبر انقلاب نے نیک اور شائستہ افراد کے انتخاب کو ایک قوی اور مستحکم پارلیمنٹ کی تشکیل کے لئے دوسرا لازمی عنصر قرار دیا۔ آپ نے فرمایا مجلس شورائے اسلامی کے لئے ایسے افراد کو چنا جائے جو مومن، دلیر، کارآمد، فرض شناس، ہمتی اور اسلام، انقلاب اور ملک کے وفادار ہوں اور ساتھ ہی دشمنوں کے مقابلے میں سخت اور دنیوی خواہشات کے جال سے آزاد ہوں۔
آپ نے فرمایا کہ عوام اراکین پارلمنٹ کے انتخاب میں بڑی ہوشیاری اور احتیاط سے کام لیں کیوں کہ ہمارے سامنے ایسے افراد کی مثال موجود ہے جو اس وقت امریکہ اور دشمنان ایران کے خدمتگزار بنے ہوئے ہیں۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے پارلیمنٹ میں جوان اور تجربہ کار افراد کی موجودگی پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ مجلس کو تجربہ کار، جوان، ہوشیار، راستے کی شناخت رکھنے والے افراد کا مجموعہ ہونا چاہئے۔جوانوں کو اہمیت دینا اور انکے لئے مواقع کی فراہمی ملک کی اہم ضرورت ہے کیوں کہ ملک کو یہی جوان نسل آگے بڑھاتی ہے تاہم اس کا مطلب تجربہ کار افراد سے چشم پوشی نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران اور انتخابات کے بارے میں امریکی حکام کی ہرزہ سرائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی حکام کی ہرزہ سرائی انتخابات کو متاثر کرنے اور انتخابات سے ایرانی عوام کو مایوس کرنے کے لئے تو ہے ہی، ساتھ ہی وہ ان کی بے بسی اور لاچاری کی بھی علامت ہے اور وہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ امریکی یہ چاہتے تھے کہ علاقے میں گہرا اثر و رسوخ رکھنے والے جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرکے خطے کے حالات پر مسلط ہوجائیں لیکن نتیجہ اس کے برخلاف نکلا اور جس طرح سے بغداد میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے جلوس جنازہ میں شرکت کی، شام میں دسیوں ہزار افراد نے شہید قاسم سلیمانی کی یاد میں ریلیاں نکالیں اور اس کے بعد حلب اور دیگر علاقوں میں جو تیزی کے ساتھ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے وہ سب امریکیوں کے اندازوں کے بالکل برخلاف ہے۔
آپ نے امریکی حکام کی حالیہ ہرزہ سرائی کو انہیں تمام ناکامی کی بھرپائی کے تناظر میں قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے بظاہر مطلوب چہرے کے برخلاف وہاں موجود عمیق سماجی اور اقتصادی مشکلات کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: امریکہ اندرونی طور پر روبزوال ہوتا جا رہا ہے اور اسکی ظاہری ہیبت و جلالت اسے غرق ہونے سے نہیں بچا سکتی۔
آپ نے فرمایا کہ اس وقت امریکہ بائیس ہزار ارب ڈالر کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے اور اس ملک کے سماجی طبقات کے درمیان پایا جانے والا فرق دیگر ممالک سے زیادہ شدید اور وحشتناک ہے۔
آپ نے گزشتہ چالیس برسوں میں ایران کے بالمقابل امریکہ کی مسلسل ناکامیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران کے مقابلے میں امریکہ کی شکست کوئی آج کی بات نہیں ہے بلکہ اُس نے گزشتہ چالیس برسوں کے دوران اپنے تمام تر سیاسی، فوجی، اقتصادی، ثقافتی اور ابلاغیاتی اسلحوں کے استعمال کے علاوہ اسلامی نظام کو سرنگوں کرنے کے لئے ہر ممکن اقدام کیا مگر اسلامی نظام نہ صرف یہ کہ سرنگوں نہیں ہوا بلکہ پہلے کی بنسبت ہزار گونہ مستحکم ہوا جبکہ امریکہ ماضی سے کہیں زیادہ کمزوری اور اضمحلال کا شکار ہوا ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کسی قوم یا نسل کا مخالف نہیں ہے بلکہ وہ سامراج اور انسانی اقدار کے خلاف انجام پانے والے ظلم و ستم اور سرکشی کے خلاف ہے۔
آپ نے امریکہ کو سرکشی اور طغیانی کا اعلیٰ ترین مظہر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ مالداروں اور صیہونی کمپنیوں کے مالکان کے ہاتھوں کا کھلونا ہے اور وہ دنیا میں ایک منفور عنصر سمجھا جاتا ہے۔
رہبر انقلاب نے ایران کے اطراف میں امریکہ کے باوردی دہشتگردوں کی میزبانی کرنے والے ممالک کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے اطراف کے ممالک میں امریکہ کے دسیوں فوجی اڈے موجود ہیں لیکن اگر کوئی اتفاق رونما ہوتا ہے تو پھر وہ اڈے نہ تو امریکہ کے کام آئیں گے اور نہ اُن ممالک کے کہ جو امریکہ کو اپنا پیسہ دے کر اس سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں، کیوں کہ امریکی سامراج اب زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے۔