بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین.

مجاہد اور نیک نام صوبے بوشہر سے تعلق رکھنے والے اپنے عزیز بھائیوں اور دوستوں کو خوش آمدید کہتا ہوں! جیسا کہ حضرات نے ذکر کیا، محترم امام جمعہ نے بھی، محترم گورنر نے بھی اور سپاہ پاسداران کے کمانڈر نے بھی، صوبہ بو شہر فوجی افتخارات سے آراستہ ہے۔ حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ یہ بڑا حساس علاقہ ہے۔ اس علاقے میں استعمار کی برسوں جاری رہنے والی موجودگی سے ایران کو دشمنوں کی جانب سے لاحق خطرات بھی بسا اوقات بوشہر پر ہی مرکوز رہتے تھے۔ جس وقت ملک کے مشرقی علاقوں میں ایرانی فوجیں جنگ میں مصروف تھیں اور دشمن کے قبضے میں چلے جانے والے بعض علاقوں کو واپس لینے کی کوشش کر رہی تھیں، اس وقت انگریزوں نے پیغام دیا کہ اگر آپ نے یہاں کارروائی کی تو ہم بو شہر میں اپنے فوجی اتار دیں گے۔ ان لوگوں نے بوشہر کی خاطر جنگ روک دی۔ یعنی بو شہر کو ہمیشہ اس طرح کے حملوں کا خطرہ لاحق رہا اور ہمیشہ بو شہر نے پوری طاقت سے مزاحمت کی ہے جس کا ذکر محترم امام جمعہ جناب بو شہری کی بہت اچھی اور جامع گفتگو میں تھا۔ میں چاہوں گا کہ آپ نے جو باتیں بیان کی ہیں وہ شائع ہوں تاکہ سب کو اس کا علم ہو سکے، سب سمجھیں، یہ بہت اچھی چیزیں ہیں۔

بو شہر میں علما کی قیادت بھی بالکل مسلمہ حقیقت ہے۔ آقا سید عبد اللہ بلادی مرحوم بہت موثر افراد میں سے تھے۔ ان کے علاوہ رئیس علی دلواری مرحوم کی شان و منزلت تو بالکل واضح اور آشکارا ہے۔ اس علاقے کے بقیہ شہدا بھی ایسے ہی ہیں۔ انھیں شہید نادر مہدوی کے بارے میں جن کا نام آپ حضرات نے کئی بار یہاں ذکر کیا، ان موضوعات سے باخبر ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ اگر ان کا تعلق کمیونسٹوں سے ہوتا تو وہ 'چی گویرا' ہوتے۔  یعنی ایک  بین الاقوامی جنگجو کی حیثیت سے پہچانے جاتے۔ اس کم سن نوجوان کی یہ شخصیت تھی۔ خلیج فارس کے علاقے میں ان کی موجودگی، امریکیوں سے ان کا تصادم پھر گرفتاری، ایذارسانی اور شہادت۔ یعنی بو شہر میں اس پایہ کی شخصیات ہیں۔ یا یہی ابو تراب عاشوری شہید جن کا ذکر جناب (2) نے کیا کہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل سے قبل شہید کر دئے گئے۔ وہ جد و جہد کے دور میں شہید ہوئے۔ یعنی انقلابی تحریک وہاں اس قدر گہرائی کے ساتھ تھی اور سرگرمیاں اتنی وسیع اور موثر تھیں کہ شہید عاشوری جیسے محترم عالم دین وہاں اسی جدوجہد کے دوران شہید کر دئے جاتے ہیں۔ یہ بہت اچھی علامتیں ہیں۔ یہ انقلابی ادراک میں ایک گہرائی اور اسلام کی جہادی فکر کے ادراک کی گہرائی کی نشانی ہے جو اس علاقے میں موجود تھا۔ اس سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے۔ یعنی بالکل واضح ہے کہ اس علاقے میں جہاد، جدوجہد، اسلام کے دفاع اور وطن عزیز کے دفاع کے سلسلے میں صرف سطحی جذبات نہیں ہیں بلکہ ایک عمیق ادراک ہے۔ کیونکہ یہ چیز مسلسل ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوئی اور ممتاز و نمایاں افراد کے ذریعے بڑے کام انجام پائے۔

میں نے ان شہیدوں میں سے دو تین کا نام یہاں نوٹ کیا ہے۔ مثال کے طور پر یہی شہید صادق گنجی ہیں جن کے بارے میں ابھی تذکرہ ہوا، وہ لاہور میں شہید کر دئے گئے۔ یہ واقعی بڑی نمایاں شخصیات ہیں۔ یعنی ثقافتی میدان میں، عسکری میدان میں اور دیگر گوناگوں شعبوں میں ایسی نمایاں شخصیات موجود رہی ہیں۔ یہ سرمایہ ہے۔ میں سفارشات کے طور پر جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جن اقدامات کے بارے میں بتایا گیا، جیسے اسٹیچو بنانا، مجسمہ بنانا، نشستیں، ادارے وغیرہ قائم کرنا، یہ سب اچھے کام ہیں۔ لیکن کچھ ایسا کیجئے کہ ان شہیدوں کی یاد، ان افراد کی یاد، ان شخصیتوں کا تذکرہ آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں پائیدار ہو جائے۔ آپ غور کیجئے کہ مثلا رئیس علی دلواری جیسا عظیم انسان، یہ کوئی معمولی شخصیت نہیں ہے، لیکن ہمارے نوجوانوں میں کتنے فیصدی افراد ان کو جانتے ہیں؟ کتنے فیصدی افراد نے ان کا نام سنا ہے؟ ایک جانباز، مجاہد اور ملکی سرحدوں کا دفاع کرنے والی شخصیت جو اس وقت کے سخت ترین حالات میں بھی، اپنی اور اپنے ساتھیوں کی تنگ دستی کے باوجود، اس بہادری سے جنگ کرتی ہے، دشمن کو  تھکا مارتی ہے، واقعی رئیس علی دلواری نے انگریزوں کو تھکا مارا تھا، اور آخر کار کچھ اپنوں کی خیانت کی وجہ سے شہید ہو جاتے ہیں تو کیا یہ کوئی خاص بات نہیں کہ ہم ایسی شخصیت کو بھی نہیں پہچانتے؟ کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ جیسے ہی ملک میں کہیں رئیس علی دلواری کا نام لیں فورا اس علاقے کے لوگ متوجہ ہو جائیں یہ کون شخص تھا، اسے پہچانیں؟ آج یہ صورت حال نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کسی ملک کے فٹبال کھلاڑی کا نام آتا ہے تو بچوں کو معلوم ہوتا ہے، مگر وہ رئیس علی دلواری کو نہیں پہچانتے۔ نادر مہدوی کا نام تو انھوں نے کبھی سنا بھی نہیں ہوگا، کوئی اطلاع نہیں ہے۔ کچھ ایسا کرنا چاہئے کہ یہ نام زندہ ہو جائیں۔ یہ نمونہ عمل ہیں۔

مثال کے طور پر بچوں کے کتابچوں پر، کاپیوں پر، کتابوں کی جلد پر،  درسی کتب میں، لباسوں پر ان کی تصویریں چھپیں، ان کی خصوصیات کے بارے میں لکھا جائے، ان کے نام پرنٹ ہوں۔ یہ صرف آپ کی بات نہیں ہے۔ آپ بھی یہ کام کیجئے لیکن ہر جگہ ملک کے تشہیراتی اداروں، خاص طور پر حساس اور اہم مراکز میں تشہیراتی اداروں کو کوشش کرنا چاہئے کہ میدان جہاد کی عظیم ہستیوں کو نمایاں طور پر پیش کرکے جہاد کی فکر کو عام کیا جائے، اس میں گہرائی پیدا کی جائے۔ تو یہ کام بڑا اہم ہے۔

ہمیں اس انداز سے کام کرنا چاہئے کہ عوام میں یہ احساس پیدا ہو کہ ان کے نقش قدم پر چلنا نجات کا ذریعہ ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ وہ ملک جس کے پاس تیل ہے، معدنیات ہیں، گوناگوں وسائل ہیں، اہم جغرافیائی محل وقوع ہے، آب و ہوا کا تنوع ہے، جیسے آٹھ کروڑ کی آبادی والا ہمارا ملک ہے، جس پر بڑی طاقتوں کی حریصانہ نگاہ لگی رہتی ہے، اگر وہ اپنا دفاع نہ کر سکے، اگر جہاد نہ کر سکے، اگر اپنی توانائیوں کا مظاہرہ نہ کر سکے، اگر خود اپنے امور سنبھال نہ سکے تو اس کی عزت اور اس کی ساکھ خاک میں مل جائے گی، کچل دی جائے گی۔ ہمیں یہ جذبہ سب کے اندر عام کرنا چاہئے تاکہ جہاد کا راستہ، استقامت کا راستہ، مزاحمت کا راستہ ہی آنے والی نسلوں کا یقینی راستہ بن جائے۔ جس طرح ہم قرآن کریم میں سورہ حمد میں ہر روز بار بار پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں: «اٍّهدِنَا الصِّراطَ المُستَقیم صِراطَ الَّذینَ اَنعَمتَ عَلَیهِم» (۳) یہ «اَنعَمتَ عَلَیهِم»  یہی شہدا ہیں۔ اس کا ایک اہم مصداق شہدا ہیں۔ «اُولئکَ مَعَ الَّذینَ اَنعمَ اللهُ عَلَیهِم مِنَ النَّبِیّینَ وَ الصِّدّیقینَ وَ الشُّهَداءِ وَ الصٰلِحین» (۴) ہیں۔ یہ سب «اَنعَمتَ عَلَیهِم»  کے زمرے میں شامل ہیں۔

البتہ «اَنعَمتَ عَلَیهِم» بھی دو طرح کے ہیں۔ ایک تو ایسے «اَنعَمتَ عَلَیهِم» ہیں جو نعمت ملنے کے بعد ناشکری کرتے ہیں، کفران نعمت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جیسے بنی اسرائیل۔ بنی اسرائیل بھی «اَنعَمتَ عَلَیهِم» کے زمرے میں تھے لیکن انھوں نے ناشکری کی اور نتیجے میں «غَضِبَ اللهُ عَلَیهِم» (۵) میں مبتلا ہو گئے۔ کچھ دوسرے لوگ ہیں جو«اَنعَمتَ عَلَیهِم» کے زمرے میں ہیں مگر ساتھ ہی «غَیرِ المَغضوبِ عَلَیهِم وَ لَا الضّالّین‌» (۶) بھی ان کی صفت ہے۔ نہ ان پر غضب پروردگار ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔ ہمارے شہدا اسی جماعت میں شامل ہیں۔ کیونکہ شہید تو اس دنیا سے جا چکا ہے۔ تو ہمیں ان کے راستے پر چلنا چاہئے۔ ہمیں سیکھنا چاہئے اور اس سے استفادہ کرنا چاہئے اور اسے آئندہ نسلوں کو منتقل کرنا چاہئے۔

اللہ آپ کو توفیقات دے، کامیاب کرے۔ بڑی اچھی نشست رہی۔ ان شاء اللہ یہ نئے مشن کی شروعات ثابت ہوگی، ذمہ داری یہیں پر ختم نہیں ہوگی۔ ان شاء اللہ آپ نماز جمعہ میں بوشہر کے عوام کو ہمارا سلام کہئے۔

و السّلام علیکم و ‌رحمة الله

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو اجتماعی ملاقات کی صورت میں انجام پائی صوبہ بو شہر میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور بوشہر کے امام جمعہ آیت‌ الله غلام علی صفایی‌ بوشہری، بو شہر کے گورنر عبد الکریم گراوند، بو شہر میں سپاہ پاسداران کے کمانڈر اور سیمینار کے کنوینر جنرل علی رزمجو نے رپورٹیں پیش کیں۔ یہ سیمینار اس ملاقات کے دو دن بعد منعقد ہونے والا ہے۔

۲) جنرل علی رزمجو

۳) سوره‌ حمد، آیت نمبر ۶  اور آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ؛ «ہمیں راہ راست کی ہدایت فرما، ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے نعمت نازل فرمائی ہے۔  ...»

۴) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۶۹ کا ایک حصہ «...ان لوگوں کے زمرے میں ہوگا جنہیں اللہ نے عزت دی ہے (یعنی) پیغمبروں، صدیقین اور شہدا و صالحین کے ساتھ..»

۵) منجملہ سورہ فتح، آیت نمبر ۶؛ «... اللہ ان پر غضبناک ہوا ...»

۶) سوره‌ حمد، آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ «... وہی لوگ جو غضب کا شکار ہوئے نہ ہی وہ گمراہ ہیں۔