بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
آج عزیز دوستوں نے جو پروگرام ترتیب دیا واقعی بڑا شیریں اور پرکشش پروگرام رہا۔ میں یہ پرگرام تیار کرنے اور اس کی زحمتیں برداشت کرنے والے تمام افراد کا بھی اور عہدیداران اور دیگر عزیزوں کا بھی جنہوں نے رپورٹیں پیش کیں شکریہ دا کرتا ہوں۔ بڑی اچھی رپورٹیں تھیں۔ میں تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ یہ رپورٹیں شائع ہونا چاہئیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ صرف ہماری تقریر پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ دوستوں نے، محترم عہدیداروں نے، محنت کش طبقے کے محترم افراد نے اور اجرائی شعبوں کے ذمہ داران نے جو باتیں بیان کی ہیں انھیں بھی نشر کیا جائے اور عوام الناس کے سامنے لایا جائے، تاکہ لوگ اس سے مستفیض ہوں۔ اس کا مستقبل میں روزگار اور وطن عزیز کی مساعی پر یقینا اچھا اثر پڑے گا۔
محنت کش طبقے کی مشکلات کے ازالے پر خاص توجہ
سب سے پہلے تو ہفتہ محنت کشاں کی مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام مزدوروں اور محنت کش افراد کو۔ میں امید کرتا ہوں کہ جو باتیں بیان کی گئیں یا جو اقدامات اس ہفتے میں آئندہ دنوں میں انجام پائیں گے ان سے محنت کش طبقے کی کچھ مشکلات ان شاء اللہ برطرف ہوں گی۔ کیونکہ مشکلات ہیں اور ہمارا ایک بنیادی مسئلہ محنت کش طبقے کی مشکلات کا ازالہ ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میں یہاں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ چند باتیں محنت کش طبقے اور کام کے تعلق سے اور کچھ باتیں 'پیداوار کی تیز رفتار پیشرفت' کے تعلق سے جو اس سال کا ہمارا نعرہ ہے۔
اسلام میں 'کام' کا ایک تو عام مفہوم ہے اور ایک خاص اقتصادی مفہوم ہے
اسلام میں کام کے دو معنی ہیں۔ ایک تو یہی عام جانا پہچانا مفہوم ہے کہ کوئی بھی کام ہو، یعنی اس میں روحانی عمل بھی شامل ہے، دنیوی عمل بھی ہے، اخروی عمل بھی ہے، اقتصادی، فکری، جسمانی، بدنی عمل ہے یعنی کوئی بھی کام۔ اسی طرح خاص اقتصادی مفہوم کا بھی ایک کام ہے، آج دنیا میں کام اور لیبر کا خاص مفہوم زیر بحث ہے۔ اسلام نے ان دونوں مفاہیم کو مد نظر رکھا ہے۔
کام کا جو عام مفہوم و معنی ہے (اس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے) «لَیسَ لِلاِنسانِ اِلّا ما سَعیٰ»،(۲) آج اسی اجلاس کے آغاز میں قرآن کی جس آیت کی تلاوت کی گئی۔ یا امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: العَمَلَ العَمَلَ ثُمَ النِّهایَةَ النِّهایَة (۳) کام، کام، یہ نعرہ ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام یہ نعرہ لگا رہے ہیں: کام، کام۔ اس کے بعد «اَلنِّهایَة» یعنی کام کو انجام تک پہنچانا۔ ہماری ایک مشکل یہ ہے کہ ہم کبھی کام شروع تو کرتے ہیں لیکن وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ آج ملک میں ہمارا ایک مسئلہ، ہماری ایک بڑی مشکل ہمارے ادھورے پروجیکٹ ہیں۔ کام کو انجام تک نہ پہنچانا ہماری ایک خامی ہے۔ یہاں امیر المومنین فرماتے ہیں کہ کام کو انجام تک پہنچانا چاہئے۔ تو یہ کام کا عام مفہوم ہے۔ یہ اس خاص اقتصادی کام کی بات نہیں ہے۔ یہ عملی کام کی بات ہے، دینی کام کی بات ہے، دنیوی کام کی بات ہے، یہ اجتماعی کام کی بات ہے، سیاسی کام کی بات ہے، جہادی کام کی بات ہے۔ اس کام کے دائرے میں ہر طرح کے کام آتے ہیں۔ قرآن میں بھی آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں: «عَمِلُوا الصّالِحٰت» کتنی دفعہ دہرایا گیا ہے: الَّذینَءامَنوا وَعَمِلُوا الصّالِحٰت (۴) وَ عَمِلَ صلِحًا۔ عمل کے بارے میں قرآن میں بار بار بات کی گئی ہے، قرآن میں عمل کی بات مکرر آئی ہے۔
کام کے نتیجے اور ثمر کا مطالبہ، مفت خوری سے اجتناب
یہاں کام کے جس مفہوم پر تاکید کی جا رہی ہے وہ مفت خوری کی ضد ہے۔ یعنی ہماری توجہ اس بات پر ہو کہ ہم مفت میں کوئی چیز حاصل کرنے کی امید میں نہ رہیں، خواہ وہ دینی مسائل اور آخرت کی جزا کی بات ہو یا دنیوی معاملات کی بات ہو، خواہ وہ ملک کے کلیدی مسائل، سیاسی مسائل، سماجی مسائل کا معاملہ ہو ہمیں کام کرنا چاہئے۔ لگن سے کام کرنا چاہئے تب اس کی اجرت کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ مفت خوری اور مفت جوئی غلط ہے۔ تو یہاں اس مفہوم میں عمل پر جو تاکید ہے وہ اسی خاص مفہوم کی وجہ سے ہے۔
جہاں تک کام کے دوسرے مفہوم کا سوال ہے یعنی اقتصادی مفہوم میں جسے کام کہتے ہیں، اسے بھی اسلام نے موضوع بحث بنایا ہے۔ اگر پیغمبر اکرم مزدور کا ہاتھ پکڑ کر اس کا بوسہ لیتے ہیں تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ یا پیغمبر اکرم فرماتے ہیں کہ: «وَ لَکِنَّ اللهَ یُحِبُّ عَبداً اِذا عَمِلَ عَمَلاً اَحکَمَه» (۵) اللہ تعالی اس شخص کو بہت پسند کرتا ہے جو کام انجام دیتا ہے تو پوری مضبوطی اور پختگی کے ساتھ انجام دیتا ہے، احساس ذمہ داری کے ساتھ انجام دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلام میں کام کے دونوں ہی مفاہیم پر گفتگو ہوئی ہے۔ تاہم آج میں اس آخر الذکر مفہوم کے تعلق سے چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔
ملکی اقتصاد کا ہدف دولت کی پیداوار اور عوام الناس کے درمیان اس کی منصفانہ تقسیم
ملکی معیشت کا مقصد کیا ہے؟ معیشت کا مقصد ہے دولت پیدا کرنا اور اس کی منصفانہ تقسیم۔ ایک صحتمند اقتصاد وہ ہوتا ہے جو ملک کے اندر دولت کی پیداوار کر سکے اور عوام الناس کے درمیان اس دولت کی صحیح اور منصفانہ تقسیم کرے۔ ایسا اقتصاد صحتمند اقتصاد کہلاتا ہے۔
ثروت کی پیداوار میں ورک فورس ایک بنیادی فیکر
صحتمند معیشت کے حصول کے دو تین کلیدی ستون ہیں۔ ایک اصلی ستون ہے لیبر۔ ملک کے اندر دولت کی پیدوار کے عمل میں ایک بنیادی فیکٹر لیبر ہے۔ ورک فورس جتنی زیادہ ماہر اور خلاقانہ صلاحیتوں والی ہوگی پروڈکشن بھی اتنا ہی بہتر اور معیاری ہوگا۔ اس لئے ورک فورس کے مسئلے میں ہماری ایک بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی افرادی قوت کی مہارت اور علم کو جہاں تک ممکن ہو ارتقائی مراحل سے گزاریں۔ یہ اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ ہم نے ابھی دیکھا کہ بعض اقتصادی مراکز کی اس نکتے پر پوری توجہ ہے اور ان کی رپورٹوں میں بھی اس کا تذکرہ تھا۔ اقتصادی مراکز کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ افرادی قوت کی مہارت اور صلاحیت کو بڑھائیں اور ارتقا کی طرف لے جائے۔ اس سے بڑے اچھے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
دوسری طرف لیبر کی ذمہ داری ہے کہ زیادہ سے زیادہ مہارت استعمال کرکے، زیادہ سے زیادہ احساس ذمہ داری کے ساتھ، احساس ذمہ داری سے مراد در حقیقت روایت میں مذکور «فَاَحکَمَه» یا «فَاَتقَنَه» ہی ہے۔ کام کو پختگی کے ساتھ اور مضبوطی کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام دے، تساہلی نہ کرے۔ یہ آجر و اجیر کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
پروڈکشن میں اضافے کا انحصار آجر و اجیر کے باہمی تعاون پر ہے
آجر و اجیر کے ما بین حقیقی باہمی تعاون پیداوار اور ایڈڈ ویلیو میں زبردست اضافہ کر سکتا ہے۔ لیبر اور سرمایہ کار کے درمیان مشترکہ تعاون۔ ورک فورس اپنی مہارت اور اپنے احساس ذمہ داری کو بڑھائے، زیادہ توجہ سے کام کرے اور زیادہ احساس ذمہ داری کے ساتھ کام کرے۔ سرمایہ کار کی ذمہ داری ہے کہ اقتصادی مرکز کو حاصل ہونے والی آمدنی میں ورک فورس کا حصہ بڑھائے۔ یہ بہت ضروری چیز ہے۔
میں نے دیکھا کہ کچھ دوستوں کو بعض قوانین کے بارے میں شکایت تھی کہ ورک فورس کی رائے کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ اچھی بات ہے، سارے ضوابط منصفانہ نقطہ نگاہ کے ساتھ تیار کئے جائیں اور اقتصادی مراکز کے ذمہ داران بھی اس پر توجہ دیں۔ ہم نے استقامتی معیشت کی پالیسیوں میں یہی بات کہی ہے۔ یعنی ان دونوں کے باہمی تعاون کی بات کی ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس صورت حال میں یہ دونوں یعنی ورک فورس اور سرمایہ کار مشترکہ طور پر اقتصادی نمو اور اقتصادی پیشرفت کا ستون مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ورک فورس کے سلسلے میں ایک اور نکتہ جس پر ہفتہ محنت کشاں کے موقع پر خاص توجہ دینا چاہئے وہ ورک فورس کے حقوق کی پاسبانی ہے۔ اجیر کے فطری حقوق کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ یعنی منصفانہ تنخواہ، بلا تاخیر منظم ادائیگی، روزگار کا ثبات یعنی روزگار کی سیکورٹی۔ میں نے گزشتہ برسوں میں بھی روزگار کی سیکورٹی پر خاص تاکید کی ہے کہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ بعض دوستوں نے جنہوں نے ابھی گفتگو کی بتایا کہ اس مدت میں کسی بھی لیبر کو انہوں نے نوکری سے نہیں ہٹایا۔ یہ بہت اچھا کام ہے، بہت اچھی روش ہے۔ روزگار کی سیکورٹی۔ بیمے کا مسئلہ، تعلیم کا مسئلہ، رفاہی خدمات کا مسئلہ، طبی و معالجاتی خدمات کا مسئلہ، یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو ورک فورس کے حقوق کا حصہ ہیں اور ان کی ذمہ داری سرمایہ کار کے دوش پر ہے۔ البتہ اگر ورک فورس کے سلسلے میں مزید مراعات دی جائیں جیسے ان کے خاندانی مسائل پر توجہ دی جائے، یا ان کے بیوی بچوں کی تعلیم پر توجہ دی جائے تو یقینا ورک آجر و اجیر کے درمیان اور بہتر رابطہ و رشتہ قائم ہوگا اور یہ بہت اچھا اور مبارک قدم ہے۔
ٹریننگ: صنعتی، زرعی اور اقتصادی مراکز کی ایک اہم ضرورت
میں اس موقع پر یہ یاددہانی بھی کرانا چاہتا ہوں کہ آج کی دنیا میں اگر یہ کہا جائے کہ لمحہ بہ لمحہ ٹیکنالوجی میں تبدیلیاں آ رہی ہیں تو شاید یہ مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔ یعنی بہت تیز رفتاری سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ چونکہ ٹیکنالوجی میں پے در پے تبدیلیاں ہو رہی ہیں تو صنعتی، زرعی اور اقتصادی مراکز کی ایک اہم ضرورت نئی چیزیں مسلسل سیکھنا بھی ہے۔ یہ سیکھنا ٹریننگ کی شکل میں ہو سکتا ہے اور تجربات سے استفادہ کرنے کی شکل میں ہو سکتا ہے۔ بسا اوقات یہ دیکھا گيا ہے کہ تجربہ کار افراد کے تجربات بعد والی نسلوں کو دی جانے والی نئی ٹریننگ سے زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہی کاشت کار خاندان جس نے صوبہ خراسان کے بارے میں رپورٹ دی، یقینا تیسری نسل نے جدید علوم اور اطلاعات سے جو فوائد حاصل کئے ہیں وہ اس منفعت سے زیادہ نہیں ہیں جو اسے اپنے بزرگوں کے تجربات اور دو سابق نسلوں کے تجربات سے حاصل ہوئی ہے۔ تو جدید علوم سے بھی استفادہ کرنا چاہئے اور تجربہ کار افرادی قوت کے تجربات سے بھی استفادہ کرنا چاہئے۔
کام کے معیار کا ارتقاء اور اقتصادی نمو افرادی قوت کے بہترین استعمال سے ممکن ہے
یہاں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگر افرادی قوت کی صلاحیتوں کا استعمال بڑھ جائے تو کام کا معیار بھی بلند ہوگا۔ ہم نے ٹریننگ کی جو بات کہی، اگر اس پر عملدرآمد ہو جائے تو یقینا افرادی قوت کی افادیت میں بھی اضافہ ہوگا، پروڈکٹ کی قیمت یا اس پر آنے والا خرچ بھی کافی کم ہوگا۔ یہ چیز کام کے معیار کو بلند کرے گی۔ جب کام معیاری ہوگا تو رقابت کی توانائی بڑھے گی اور نتیجے میں اقتصادی رونق اور نمو کے لئے خاص طور پر ایکسپورٹ کے میدان میں سازگار حالات پیدا ہوں گے۔
اسلامی جمہوری نظام اور مزدوروں کے درمیان دائمی رشتہ
محنت کش طبقے کے سلسلے میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ورک فورس کا سیاسی میدان پر بھی گہرا اثر رہا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ، یورپ میں بھی، دیگر ممالک میں بھی سیاسی میدان میں محنت کش طبقے کا رول بہت اہم رہا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی محنت کش طبقہ حقیقتا بہت موثر واقع ہوا ہے۔ انقلاب کی کامیابی میں، جیسا کہ ابھی نشست کے آغاز میں ذکر بھی ہوا، محنت کش طبقے نے، تیل کی کمپنیوں اور دوسرے شعبوں کے ورکروں نے حقیقت میں اسلامی انقلاب کی پیشرفت میں موثر رول ادا کیا۔
اس کے بعد اسلامی جمہوریہ کے دور میں بھی اعلی اہداف کی سب سے زیادہ حمایت اور مدد کرنے والا طبقہ محنت کشوں کا طبقہ ہی رہا۔ خواہ وہ مقدس دفاع کا زمانہ ہو یا اس کے بعد کے ادوار ہوں یا دوسرے واقعات رہے ہوں ہمیشہ مزدور طبقہ پیش پیش رہا۔ اس نے محنت کی، اسلامی نظام کے مفاد میں کام کیا اور ہمیشہ اسلامی نظام کی خدمت کرتا رہا۔ تو اسلامی نظام اور محنت کش طبقے کے مابین رابطہ ایک دائمی رابطہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ یہ رابطہ بدستور جاری رہے گا۔ البتہ یہ صورت حال محنت کش طبقے کے افراد کے تعلق سے اسلامی نظام کے عہدیداران کی ذمہ داری اور بڑھا دیتی ہے۔ محنت کش طبقے کے سلسلے میں سب کے فرائض کافی زیادہ ہیں۔ تینوں شعبوں (مجریہ، مقننہ، عدلیہ) کے عہدیداران سے لیکر عوام الناس، سرمایہ کاروں اور صنعتی و زرعی شعبوں کے مالکان تک سب کی ذمہ داری ہے۔
پیداوار کی تیز پیشرفت کے نعرے پر عمل کا بہترین موقع
جہاں تک پیداوار کی تیز رفتار پیش رفت کا موضوع ہے، ہم نے اس سال کو پیداوار کی تیز رفتار پیشرفت کا سال قرار دیا ہے، تو اس وقت ہم اردیبہشت (ہجری شمسی کیلنڈر کے دوسرے مہینے) میں ہیں۔ یہ سال کا ابتدائی دور ہے۔ یعنی اس سال پیداوار کے شعبے میں تیز اچھال کا موقع فراہم ہے، یعنی ہمارے پاس وقت کی کمی نہیں ہے۔ ہمارے پاس اچھا خاصا وقت ہے، دس گیارہ مہینے کا وقت ہے، اس میں مختلف ادارے اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کر سکتے ہیں جو پیداوار کی تیز رفتار پیشرفت کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ چنانچہ میں چند باتیں پیداوار کی تیز رفتار پیشرفت کے سلسلے میں عرض کرنا چاہوں گا۔
معیشت کے لئے پروڈکشن دفاعی سسٹم اور سیکورٹی کی ضمانت ہے
پہلی بات تو یہ ہے کہ پیداوار کے سلسلے میں ہم بہت سی باتیں کر چکے ہیں۔ میں نے بھی بہت کچھ کہا ہے اور ہمدردی رکھنے والے اور لگاؤ رکھنے والے عہدیداران نے بہت کچھ کہا ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پروڈکشن کو بدن کے امیون سسٹم اور دفاعی نظام سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ آجکل ویسے بھی کورونا کا مسئلہ در پیش ہے تو وائرسوں، میکروبوں اور صحت پر حملہ آور ہونے والے جراثیم کے مقابلے کے لئے بدن کے دفاعی نظام کا رول بہت اہم ہو گیا ہے۔ یہی کورونا وائرس بے شک بہت سے افراد کے بدن میں پہنچا لیکن وہ بیمار نہیں پڑے! کیوں؟ اس لئے کہ ان کے بدن میں صحتمند دفاعی سسٹم تھا جس نے بدن کی حفاظت کی اور اسے محفوظ بنایا۔ ملکی معیشت میں اگر ہم اقتصادیات کی مثال انسانی جسم سے دیں تو اقتصاد کا دفاعی نظام اور اقتصاد کو تحفظ عطا کرنے والا نظام 'پروڈکشن' ہے۔ یعنی جو چیز معیشت پر حملہ کرنے والے وائرسوں اور میکروبوں کو ناکارہ کر سکتی ہے اور اقتصاد کی حفاظت کر سکتی ہے وہ ملکی پیداوار ہے۔ اگر ملک میں ہمارے پاس دائمی طور پر اچھی، مناسب، معیاری اور مسلسل نمو پانے والی پیداوار ہو تو معیشت ان وائرسوں کے مقابلے میں جو فطری طور پر پیدا ہوتے رہتے ہیں، یقینا ہماری معیشت بھی گوناگوں قدرتی وائرسوں اور میکروبوں میں مبتلا ہے، اسی طرح ان وائرسوں کے مقابلے میں، جو انسان کے بنائے ہوئے ہیں جیسے یہی پابندیاں اور یہی تیل کی قیمت کا مسئلہ، یہ سارے تغیرات معیشت پر ضرب لگاتے ہیں، ہم کامیابی سے مزاحمت کر سکتے ہیں۔
پیداوار کا اس انداز سے بڑا حیرت انگیز اثر ہوتا ہے، اس کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے اور اس پر توجہ دینا چاہئے۔ اگر ہم ملکی معیشت کے پیکر کے اس دفاعی اور حفاظتی نظام کو مستحکم کر سکیں اور اسے ہر اعتبار سے آمادہ کرنے میں کامیاب ہوں تو یقینا یہ مشکلات، یہ گوناگوں بین الاقوامی جھٹکے، مختلف اقتصادی لرزشیں ملک کو کوئی بڑا اور بنیادی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی۔
معیشت اور عمومی خود اعتمادی میں پروڈکشن کا کلیدی کردار
پروڈکشن ملک میں طاقتور قومی معیشت کھڑی کر سکتا ہے۔ یعنی ایک مضبوط معیشت کی تعمیر میں پروڈکشن کا سب سے کلیدی کردار ہے۔ اس کا ملک کو چلانے میں بڑا حیاتی اور ناقابل انکار رول ہے۔ میرا جو تصور ہے، میرا جو نظریہ ہے اس کے مطابق تو پیداوار صرف اقتصادی موضوع نہیں ہے، بے شک اقتصاد کے لئے پروڈکشن بہت حیاتی چیز ہے۔ ملکی پیداوار معیشت کے لئے، صحتمند اقتصاد کے لئے بڑی حیاتی چیز ہے لیکن صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ پروڈکشن سیاسی اعتبار سے بھی ملک کو خود اعتمادی عطا کرتا ہے، قوم کے اندر عزت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ یہ چیز کسی بھی قوم کے لئے باعث عز و مباہات ہے کہ اس کی ضرورت کی ساری چیزیں ملک کے اندر ہی اور خود اس کے اپنے ہاتھوں سے تیار ہو رہی ہیں۔ اس صورت حال کے بالکل برعکس کہ ضرورت کی ہر چیز دوسروں سے لینے پر مجبور ہو، دوسروں سے التجا کرنے پر مجبور ہو! وہ دوسرے کبھی دیں اور کبھی انکار کر دیں۔ اس کی الگ الگ قسمیں دیں، یعنی کبھی تو اچھی قسم کی چیزیں دیں اور کبھی غیر معیاری مصنوعات بھیج دیں! یہ چیز کہ قوم خود پیداوار کر سکے، اپنی ضرورتیں خود پوری کرے، اس کے اندر خود اعتمادی پیدا کرے گی، اسے وقار کا احساس عطا کرے گی۔ تو آپ دیکھئے کہ پیداوار کا مسئلہ اقتصادی دائرے سے وسیع تر پہلوؤں کا حامل ہے۔ پروڈکشن ملک کے تمام اقتصادی انڈیکیٹرز پر اثر ڈالنے کے علاوہ یعنی پروڈکشن جی ڈی پی کے انڈیکٹرز پر اور روزگار کے مسئلے پر جو بہت اہم مسئلہ ہوتا ہے، مثبت اثر ڈالنے کے ساتھ ہی مصنوعات و خدمات کی فراہمی، رفاہ عامہ اور ایکسپورٹ پر، اسی طرح ایکسپورٹ سے جو فکری و ثقافتی اثرات ہوتے ہیں اس کے سلسلے میں بھی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ ان ساری چیزوں کے ساتھ ساتھ جیسا کہ میں نے عرض کیا پروڈکشن قومی افتخار کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے، معاشرے کے افراد میں خود اعتمادی پیدا کرتا ہے، اسی طرح دوسرے بھی اثرات ہیں۔ تو انسان پروڈکشن کے بارے میں اب اس سے زیادہ اور کیا کہے؟ ملکی پیداوار واقعی ملک کے لئے بہت حیاتی اور کلیدی چیز ہے۔
ہم نے پیداوار کی تیز رفتار پیش رفت کی بات کی؟ تیز پیشرفت کی بات ہم کیوں کر رہے ہیں؟ اس لئے کہ پیداوار کے اعتبار سے ہم پیچھے ہیں۔ دوستوں نے ابھی جن کاموں کے بارے میں بتایا کہ یہ انجام پا چکے ہیں، یہ بہت اہم اور اچھے کام ہیں، لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے، ہمیں پیداوار کو مزید وسعت دینے اور تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے۔ میں ابھی اس سلسلے میں چند نکات ذکر کروں گا۔
ملکی معیشت کے انجن کی حرکت کا انحصار عوامی شراکت پر ہے
پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں پورے یقین سے یہ بات جان لینا چاہئے کہ دنیا کی طاقتور ترین حکومت بھی عوام کی شراکت کے بغیر معاشرے کی معیشت کی گاڑی کو چلا نہیں سکتی۔ عوام کی شراکت کے بغیر کوئی بھی حکومت ملکی معیشت کو سنبھال نہیں سکتی۔ بعض فکری، سیاسی اور اقتصادی نظاموں نے جیسے سوشلسٹ نظرئے کے حامل اسکولوں نے، البتہ ان میں سوشلزم کی ہر نوع شامل نہیں ہے، یہ سوچا کہ حکومتوں کو اقتصادی امور کا ذمہ دار بنا دیں لیکن انھیں شکست ہوئی۔ یہ ممکن نہیں ہے، عوام کی شراکت کے بغیر کوئی بھی حکومت ملکی معیشت کو سنبھال نہیں سکتی، معیشت کو آگے نہیں بڑھا سکتی۔ تو ہمارا ایک اہم ہدف یہ ہونا چاہئے کہ عوام کی صلاحیتیں، عوام کی اختراعی استعداد، عوام کے اندر موجود گوناگوں توانائیاں ملکی معیشت کے میدان میں سرگرم عمل ہو جائیں۔
پیداوار کی تیز پیشرفت کے سلسلے میں حکومت کی ذمہ داریاں:
الف: حمایت کرنا اور رکاوٹوں کا ازالہ
جہاں ایک طرف یہ عوام کی ذمہ داری ہے وہیں اس سلسلے میں حکومت کی بھی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ حکومت سے مراد تینوں شعبے ہیں۔ صرف مجریہ نہیں بلکہ مجریہ کے ساتھ ہی مقننہ اور عدلیہ اسلامی جمہوریہ کے حکومتی نظام کا حصہ ہونے کی حیثیت سے اہم فرائض رکھتی ہیں۔ ان فرائض میں ایک یہ ہے کہ حکومتی نظام پروڈکشن اور سرمایہ کار کی حمایت اور مدد کرے۔ اگر حکومت نے اور ملکی عہدیداران نے اپنی اس ذمہ داری پر عمل نہ کیا تو پیداوار میں تیز پیشرفت ممکن نہیں ہو پائے گی۔
اس بات کا لب لباب ہے حکومتی پشت پناہی۔ اس پشت پناہی کا کیا مطلب ہے؟ ہم جیسے ہی حمایت کی بات کرتے ہیں کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ تصور آ جاتا ہے کہ رقم فراہم کی جائے۔ یہ صحیح ہے کہ کچھ جگہوں پر رقم کی فراہمی کی بھی ضرورت ہے لیکن کچھ جگہوں پر یہ نقصان دہ بھی ہے۔ حمایت سے مراد صرف پیسے کی فراہمی نہیں ہے بلکہ مراد ہے میدان کو ہموار کرنا۔ اگر ہم عوام کو، سرمایہ کار کو، انجینیئر کو، نظریہ پرداز کو، محنت کش طبقے کو ریس کے میدان کا ایتھلیٹ فرض کر لیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اسے سکھانے کی ضرورت نہیں ہے کرنا کیا ہے؟ اس کے اندر خود ہی آگے بڑھنے کا شوق اور جذبہ ہے۔ آپ کی ذمہ داری بس اتنی ہے کہ راستہ کھول دیجئے، رکاوٹیں ہٹا دیجئے، زمین صاف کر دیجئے اور اسے دوڑنے کی اجازت دے دیجئے۔ اگر حکومت یہ کام کر لیتی ہے، جو واقعی بڑا اہم کام ہے، ابھی میں اس کے کچھ نمونے بھی پیش کروں گا، تو اس صورت میں یہ ریس صحیح طور پر انجام پائے گی۔ تو جب ہم حمایت کہتے ہیں تو مراد ہے رکاوٹوں کو ہٹانا۔ رکاوٹیں ہٹانے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے پیچیدہ ضوابط اور قوانین کو ختم کرنا۔ کچھ ضوابط ایسے ہیں جن کا فائدہ کچھ نہیں ہاں نقصان ضرور ہے۔ اس طرح کے ضوابط اور قوانین سرمایہ کار اور اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد کو اپنا کام کرنے سے روکتے ہیں۔
ب و ج: اسمگلنگ کی روک تھام اور بے تحاشا درآمدات پر قدغن
ایک بڑی اہم حمایت ہے اسمگلنگ کا سد باب۔ یعنی اسمگلنگ واقعی ملک کے لئے بہت بڑی مصیبت ہے۔ حقیقی معنی میں اس مصیبت کا سد باب کیا جانا چاہئے۔
ایک ضروری اقدام ہے بے تحاشا درآمدات پر سختی سے روک لگانا۔ درآمدات کے موضوع پر میں نے اتنی زیادہ تاکید کی لیکن پھر بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مختلف طرح کے بہانوں سے کچھ جگہ درآمدات کا سلسلہ جاری ہے۔ لوگ ہمیں خط لکھتے ہیں، شکایت کرتے ہیں۔ کوئی ادارہ کہتا ہے کہ ہم نے فلاں سامان بڑی محنت سے نصف قیمت پر یا ایک تہائی قیمت پر تیار کر لیا، فلاں حکومتی ادارے کو اس سامان کی ضرورت بھی ہے مگر وہ جاکر کسی غیر ملکی کمپنی سے ڈیل کر لیتا ہے اور وہ سامان امپورٹ کرنے لگتا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر یہی چیز کسی اہم معاملے میں ہو رہی ہے تو اس کا نام رکھنا چاہئے جرم اور خیانت۔ البتہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، کبھی غفلت کی وجہ سے بھی ایسا ہو جاتا ہے لیکن کبھی کبھی واقعی مجرمانہ اقدام اور خیانت کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔
د: محکمہ جاتی و مالیاتی بدعنوانی کا مقابلہ
حمایت کی ایک شکل مالی بدعنوانی کے خلاف سخت لڑائی ہے۔ آپ دیکھئے کہ ان اداروں نے آج جو رپورٹ دی، اسی طرح کے دوسرے سیکڑوں ادارے بھی ہیں جو ملک میں بڑی پاکدامنی کے ساتھ اقتصادی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکدامنی کے ساتھ اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے والے یہ ادارے منزل مقصود تک پہنچیں تو اس شخص کے خلاف سخت کارروائی کیجئے جو بدعنوانی، رشوت اور کرپشن کے ذریعے اپنا کام چلا رہا ہے۔ بدعنوانی کے خلاف کارروائی کرنا چاہئے۔ دفتری و محکمہ جاتی بدعنوانی کے خلاف بھی۔ یعنی حکومتی اداروں میں جو اقتصادی مسائل سے مربوط ہیں اگر کوئی شخص کرپشن کرتا ہے تو اس کے خلاف بھی اور اقتصادی سرگرمیوں کے میدان میں بدعنوانی کرنے والے شخص کے خلاف بھی کارروائی ہونا چاہئے۔
ایک اور اہم مسئلہ دفتری خلاف ورزیوں کا سختی سے سد باب ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ان برسوں کے دوران بارہا دیکھنے میں آیا کہ کسی ادارے کا عہدیدار، کسی ادارے کا انچارج بڑی دلچسپی اور دلجمعی سے کوئی کام کرتا ہے، کوئی کام انجام دینا چاہتا ہے لیکن وہ کام انجام نہیں پاتا۔ حکم بھی صادر کر دیا ہے، میٹنگ بھی ہو چکی ہے، اقدام بھی کیا گیا ہے لیکن نتیجہ صفر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیچ میں خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ یہ جو امیر المومنین نے فرمایا: «ثُمَّ النِّهایَةَ النِّهایة» اس کا یہی مفہوم ہے۔ یعنی صرف اتنا کہ آپ کسی ادارے کے سربراہ ہیں اور کام میں دلچسپی رکھتے ہیں کافی نہیں ہے۔ کام پر آخر تک آپ کو نظر رکھنی ہوگی کہ کہیں بیچ میں کوئی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔
ھ، اور ز: مالکیت کے حقوق کی پاسبانی، زیاں بخش تجارت سے اجتناب، ٹیکس عائد یا معاف کرنا
ایک اہم مسئلہ مالکیت کے حقوق کی پاسبانی ہے۔ یہ عدلیہ کا فریضہ ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ اسپیکیولیشن یا جوکھم بھرے لین دین سے اجتناب ہے۔ اس کے لئے قانون کی ضرورت ہے اور یہ مجلس شورائے اسلامی کی ذمہ داری ہے۔ جو قوانین بنا رہے ہیں ان میں اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ قوانین اس طرح کی تاجرانہ سرگرمیوں میں مددگار نہ بنیں اور دوسری طرف صحتمند اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ بعض مواقع پر ٹیکس میں مراعات کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح کچھ مواقع پر ٹیکس لگانا ضروری ہوتا ہے، جیسے بغیر محنت کے حاصل ہو جانے والی دولت۔ میں یہاں یہ سارے موضوعات گنوانا نہیں چاہتا، بہت سے معاملات ہیں اور بہت سے کام ایسے ہیں جن سے بغیر محنت کے بڑی رقم ہاتھ آ جاتی ہے، ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں پر ٹیکس لگانا چاہئے۔ دوسری طرف کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں ٹیکس ختم یا کم کر دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سے اقتصادی معاملات میں اس طرح کی مدد کرنا چاہئے۔ تو ہم نے جو حکومت کی طرف سے حمایت کی بات کہی ہے تو حقیقی حمایت یہی ساری چیزیں ہیں۔
آپ نے مشاہدہ فرمایا کہ اسی کورونا کے قضیئے خوش قسمتی سے حکومت نے عوام کی حمایت کی یعنی میدان کھول دیا۔ اگر حکومت کی طرف سے کہا جاتا کہ کوئی بھی ماسک بنانا چاہتا ہے تو آکر ہم سے لائسنس لے تو یہی چھوٹی سی چیز سبب بنتی کہ ملک مین اس طرح ماسک کا پروڈکشن نہ ہو سکے۔ لیکن میدان کھول دیا اور کہہ دیا کہ جو بھی ماسک بنا سکتا ہے بنائے۔ اداروں نے یہ کام شروع کر دیا، کارخانوں میں یہ کام شروع ہو گیا، اجرائی کمیشن نے یہ کام انجام دیا، مستضعفین فاؤنڈیشن نے اس کا پروڈکشن کیا، لوگوں کے گھروں میں اور مساجد میں اس کا پروڈکشن شروع ہو گيا۔ حالت یہ ہو گئی کہ ملک میں ہمارے پاس مانگ سے زیادہ ماسک موجود ہے جسے ہم دیگر ممالک کو بھی دے سکتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوا کہ حکومت نے راستے کی رکاوٹ ختم کر دی۔ اگر مختلف شعبوں میں اس انداز سے کام ہو تو یقینا کافی مدد ملے گی۔
کاروبار کے ماحول میں آسانی
تیسرا نکتہ کاروبار کے ماحول میں آسانی پیدا کرنا ہے۔ میں نے کاروبار کے ماحول کو آسان بنانے پر کئی دفعہ تاکید بھی کی ہے (۷) یہی ساری چیزیں جو میں نے اس دوسرے حصے میں عرض کی ہیں حمایت کے تعلق سے، ضوابط و قوانین کم کرنے کے تعلق سے یہ در حقیقت 'ایز آف دی بزنس' کاروبار کے ماحول کو آسان بنانے کے مصادیق ہیں۔ میں نے ماہرین کی رپورٹ دیکھی ہے، مجھے اس کے مندرجات سے آگاہ کیا گیا جو وزارت خزانہ کی طرف سے ہمارے دفتر کو بھیجی گئی ہے۔ ماہرین نے جو جائزہ لیا ہے اس کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ اگر اقتصادی امور کے میدان میں دو کام انجام دے دئے جائیں تو کاروبار کے ماحول کی آسانی کے انڈیکیٹر کے اعتبار سے ملک کی پوزیشن چالیس سے پچاس پوائنٹ اوپر پہنچ جائے گی۔ یہ بات وزارت خزانہ کے ماہرین کہہ رہے ہیں۔
ان دونوں کاموں میں پہلا ہے لائسنس جاری کرنے کے لئے 'واحد مرکز' کا تعین۔ میں نے اسی حکومت کے ارکان کے ساتھ اپنی ایک ملاقات میں دو تین سال پہلے کہا، اس وقت مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے، کہ اگر کوئی شخص اقتصادی کام کرنے کے لئے لائسنس حاصل کرنا چاہتا ہے تو میرے خیال سے تیس چالیس جگہ اسے جانا پڑتا ہے تب جاکر کہیں اسے لائسنس مل پاتا ہے۔ نتیجے میں جو کام ایک دن میں ہونا چاہئے اس میں چھے مہینے لگ جاتے ہیں، بسا اوقات تو وہ کام ہو ہی نہیں پاتا۔ تو ان دو بنیادی کاموں میں سے ایک کام یہ ہے کہ لائسنس کے اجراء کا واحد مرکز معین کیا جائے۔ یعنی تمام ادارے ایک جگہ پر موجود ہوں اور اس شخص کو جو لائسنس لینا چاہتا ہے آدھے دن کے اندر لائسنس مل جائے، یہ عمل بہت مختصر ہو جائے اور شخص جاکر اپنا کام شروع کرے۔
دوسرا کام ہے مالیاتی و اقتصادی اختلافات دور کرنے کے لئے تجارتی امور کی کورٹ کی تشکیل۔ یہ کام عدلیہ کا ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ اگر یہ دو کام ہو جائیں تو اقتصادی سرگرمیوں کے سازگار ماحول 'ایز آف دی بزنس' کے اعتبار سے ملک کی پوزیشن چالیس پچاس پوائنٹ اوپر پہنچ جائے گی۔ یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔
بے تحاشا درآمد پر قدغن
چوتھا نکتہ درآمدات کو روکنے سے متعلق ہے جس کی طرف ہم نے پہلے اشارہ کیا۔ البتہ ہم درآمد کے مخالف نہیں ہیں اور اسے سب جانتے ہیں، سمجھتے ہیں، مخالفت سے ہماری مراد اس چیز کی درآمد ہے جس کے جیسی چیز یا تو ملک میں تیار کی جا رہی ہے یا ملک میں اس کی پیداوار کا امکان پایا جاتا ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں، نہ صرف وہ چیزیں جو ملک میں تیار ہو رہی ہیں بلکہ وہ بھی جن کی تیاری کا امکان ہے۔ یعنی ہم درآمد کو روک کر ملک کے اندر سرگرم اور جدت عمل والی افرادی قوت کی مدد کریں کہ وہ یہ کام کرنا شروع کرے۔ اگر یہ کام ہو جائے تو میری نظر میں یہ ان لوگوں کی بہت بڑی مدد ہوگي۔
کبھی کبھی متعلقہ ادارے کچھ بہانوں سے فضول میں درآمدات کا راستہ کھول دیتے ہیں؛ فرض کیجیے کہ مقابلہ آرائي یا کمپٹیشن کا مسئلہ۔ مان لیجیے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اس بات کی کیوں اجازت دی گئي کہ غیر ملکی گاڑیاں اس طرح سے ملک میں آئيں تو کہتے ہیں کہ جناب! کمپٹیشن۔ میں کہتا ہوں کہ جب آپ کمپٹیشن کے ذریعے معیار یا کوالٹی بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ایک دوسرے راستے سے معیار بہتر بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کیجیے۔ ورنہ آپ ملکی پیداوار کو دوہرا نقصان پہنچائيں، صرف اس وجہ سے کہ آپ مثال کے طور کوالٹی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، یہ کسی بھی صورت میں ٹھیک نہیں ہے۔ پیداوار میں تیز رفتاری کا مطلب مقدار کو بھی تیز رفتاری سے بڑھانا ہے اور ساتھ ہی معیار اور کوالٹی کو بھی تیزی سے بہتر بنانا بھی ہے۔ ان میں سے ہر چیز کے الگ الگ راستے ہیں اور انھیں آپ درآمد کے ذریعے پورا نہیں کر پائيں گے۔ البتہ بعض لوگوں کے کچھ دوسرے مقاصد بھی ہیں اور کبھی کبھی تو بے تحاشا درآمد کی وجہ سے حقیقت میں پیداوار کو مٹی میں ملا دیا جاتا ہے اور اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو ہم سے رجوع کرتے ہیں، البتہ ہم انھیں مختلف اداروں کے پاس بھیج دیتے ہیں اور پھر ان کے کام پر نظر رکھتے ہیں کہ وہ ان شاء اللہ پورا ہو جائے۔ بنابریں اگلا نکتہ، درآمد پر روک لگانے کا تھا ان چیزوں کے سلسلے میں جو ملک میں تیار ہو رہی ہیں یا تیار کی جا سکتی ہیں۔
مقدار میں تیز رفتار اضافے اور کوالٹی میں تیز رفتار بہتری کا چولی دامن کا ساتھ
اگلا مسئلہ معیار میں تیز رفتار بہتری کا ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا۔ یہ بھی ایک اہم اصول ہے۔ اگر ہم مقدار تو تیزی سے بڑھائيں لیکن کوالٹی تیزی سے بہتر نہ ہو تو ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے، یعنی اگر کوالٹی کو تیزی سے بہتر نہ بنایا گيا تو ہم داخلی صارف منڈیوں میں بھی پیچھے رہ جائيں گے؛ مطلب یہ ہے کہ ملکی صارف جب یہ دیکھے گا کہ ملک کے اندر بنی ہوئی چیز معیاری نہیں ہے تو فطری طور پر وہ غیر ملکی چیز کی طرف مائل ہوگا۔ جب صارف موجود ہوگا تو لامحالہ اور یقینی طور پر امپورٹر بھی موجود ہوگا اور حکومت بھی اسے شاید ہی روک پائے۔ ہمیں کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ ملکی صارف، کوالٹی کی طرف سے اطمینان رکھے اور یقین کرے کہ چیز معیاری ہے۔ بحمد اللہ آج ہماری بہت سی مصنوعات ایسی ہی ہیں؛ یعنی ہماری صنعتی مصنوعات، جو ملک کے اندر ہی تیار ہوئي ہیں، اب میں شعبوں کا نام نہیں لینا چاہتا لیکن انھیں جانتا اور پہچانتا ہوں، ان کی کوالٹی غیر ملکی مصنوعات سے بہتر ہے بلکہ درآمد شدہ مصنوعات میں کچھ کمیاں ہیں۔ اس بنا پر کوالٹی کو تیزی سے بہتر بنانا بھی بہت اہم ہے۔ اس کا اثر ملکی صارفین پر تو ہے ہی، برآمد کی منڈیوں پر دوہرا اثر ہے، مطلب یہ کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری مصنوعات، ملک کے باہر کمپٹیشن کے میدان میں آئيں تو ہمیں ان کا معیار بہتر بنانا ہوگا، یہ بہت ہی اہم موضوع ہے۔ یہ ایک اور نکتہ تھا۔
کام اور محنت سے امید کی شمعیں جلانے کی ضرورت
اگلا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں ملک میں کام اور محنت کے سلسلے میں امید کو روز بروز بڑھانا ہوگا۔ یہ جو میں عرض کر رہا ہوں کہ یہ پروگرام لوگوں کے لیے نشر ہو، وہ اس وجہ سے ہے کہ کچھ لوگ مسلسل لوگوں کے کانوں میں یہ خطرناک اور نقصان دہ سرگوشی کر رہے ہیں کہ کوئي فائدہ نہیں ہے، ہم نہیں کر سکتے، ممکن ہی نہیں ہے؛ جبکہ ممکن ہے اور ہم بہت سے بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں۔ دیکھیے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب ہم اس کوالٹی کا سیٹیلائٹ کیریئر تیار کر سکتے ہیں جو اتنی رفتار سے یعنی ساڑھے سات ہزار میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے یا دوسرے الفاظ میں ساڑھے سات کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے راستہ طے کر سکتا ہے اور جب ہم اپنے سیٹیلائٹ کو اپنے پیش نظر مدار میں مستقر کر سکتے ہیں تو پھر بہت سے دوسرے کام بھی کر سکتے ہیں۔ وہ جو آج اس سیٹلائٹ کیریئر کو تیار کر سکتا ہے اور اس سیارچے کو خلا میں بھیج سکتا وہ شخص، وہی نیت اور وہی ہاتھ، اگلے کچھ دنوں میں اسی سیٹیلائٹ کو چھتیس ہزار کلو میٹر کے مدار تک پہنچا سکتا ہے جو ہمارے پیش نظر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سیٹلائٹ چھتیس ہزار کلو میٹر کے مدار تک پہنچے، یقینی طور پر ایسا ہوگا، اس کا قطعی امکان پایا جاتا ہے۔
مطلب یہ کہ یہی نیت، یہی لگن اور یہی ہاتھ کہ جو آج سیٹلائٹ کو مثال کے طور پر چار سو یا ساڑھے چار سو کلو میٹر تک پہنچا رہا ہے، یہی لگن اسے کل چھتیس ہزار کلو میٹر تک بھی پہنچا سکتی ہے۔ یعنی جب امید ہو، جب ترقی کا جذبہ ہو، جب توانائی کا احساس ہو تو یہ ہو سکتا، میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ "جناب! آج جو اس بات پر خوشی ظاہر کر رہے ہیں کہ آپ نے سیٹیلائٹ لانچ کر دیا یا کوئي دوسری بات تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک محفوظ ہو گیا، سیٹیلائٹ اور ہتھیار وغیرہ ملک کو محفوظ نہیں بنا سکتے بلکہ اہم مسائل، معاشی ہیں۔" ٹھیک ہے، ان کاموں کو، ان باتوں کو ہم جانتے ہیں، یہ ہمیں معلوم ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم ان سے نابلد ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے: جب ہم فوجی شعبے میں یا فرض کیجیے کہ خلائي سیٹیلائٹ لانچ کرنے کے شعبے میں اتنا بڑا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں تو پھر ہم ایسی گاڑی یا ایسی کار کیوں نہیں بنا سکتے جسے سو کلو میٹر چلنے کے لیے مثال کے طور پر صرف پانچ لیٹر پیٹرول کی ضرورت پڑے؟ ہم صرف ایسی گاڑیوں تک کیوں محدود رہیں جسے مثال کے طور پر فی سو کلو میٹر بارہ، دس یا آٹھ لیٹر پیٹرول کی ضرورت ہو؟ جب ہم میں یہ استعداد ہے، ہم میں جدت طرازی کا یہ جذبہ ہے تو ملک کے تمام شعبوں میں بھی ہوگا؛ صنعتی شعبے میں بھی اور زراعت اور سروسز سمیت تمام دیگر شعبوں میں بھی، ہماری بات یہ ہے۔
آگے رہنے والے شعبوں کو ترجیح دینا
ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پیداوار کی اس تیز رفتاری میں بعض شعبے، آگے رہنے والے شعبے ہیں، انھیں ترجیح دی جانی چاہیے۔ میں نے کچھ شعبوں کو نوٹ کیا ہے: جیسے تیل کا شعبہ، ریفائنری کی گنجائش کی توسیع، جیسے یہی ریفائنری جس کا بندر عباس میں افتتاح ہوا اور اس کے اگلے مراحل بھی ہیں جن سے ملک کو مزید ثروت حاصل ہوگي۔ یا سیراف کا ریفائنری پلانٹ، جس کا ذکر کیا گيا یہ بڑا اہم پلانٹ ہے، اس کے بہت زیادہ اثرات ہوں گے۔ یا پیٹروکیمیکل پروجیکٹس کی تکمیل جن کے بارے میں کہا گيا کہ اگر یہ پروجیکٹس پورے ہو گئے تو، مجھے دی گئي رپورٹ کے مطابق، پچاس ملین ٹن کی مصنوعات پہلے سو ملین ٹن اور پھر ایک سو تیس ملین ٹن تک پہنچ جائيں گي اور قدر کے لحاظ سے ان میں تین گنا اضافہ ہو جائے گا کہ جو بہت اہم بات ہے۔ خاص طور پر ملک کے موجودہ حالات میں اور جب زر مبادلہ کی ضرورت زیادہ ہے، یہ بہت اہم اور گرانقدر چیز ہوگي۔ یا بنیادی ضرورت کی اشیاء میں خود کفیلی کے لیے زرعی پروجیکٹس؛ زرعی شعبے میں ایک کام جو ضرور انجام پانا چاہیے وہ بنیادی ضرورت کی اشیا میں خود کفیل ہونا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی گیہوں کی خریداری کی قیمت زیادہ سستی ہو، البتہ اس وقت تو ایسا نہیں ہے لیکن کبھی ایسا تھا کہ ملک کے لیے گیہوں کی پیداوار کے مقابلے میں باہر سے گیہوں خریدنا زیادہ سستا ہوتا تھا لیکن ایسے حالات میں بھی پیداوار کو ترجیح حاصل ہے جیسا کہ دنیا میں یہی کام کیا جاتا ہے، یعنی کوئي بھی اپنے ملک کو گیہوں کے لیے کسی دوسرے ملک کا محتاج نہیں ہونے دیتا۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ آج یہی امریکا کے خبیث عناصر جنھوں نے کچھ چیزوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اب ہم کسی سے سودا کریں اور فریق مقابل پابندی لگا دے، ایسا ہی کرتے ہیں، آپ کو اپنے ملک کو چلانے میں کوئي مشکل نہیں آنی چاہیے۔ اس لیے بنیادی ضرورت کی چیزیں قطعی طور پر ملک کے اندر پیدا ہونی چاہیے اور ملک کو خود کفیل ہونا چاہیے۔ بحمد اللہ آج ملک میں پانی کا مسئلہ نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب مسلسل کہا جاتا تھا کہ پانی نہیں ہے اور ہمیں پانی کا مسئلہ درپیش ہے، پانی کی مقدار کم ہے، خوش قسمتی سے آج پانی کی مقدار کم نہیں ہے، سوکھی زمینوں کے لحاظ سے بھی اور زرعی زمین کے لحاظ سے بھی۔ بنابریں ہمیں بنیادی ضرورت کی چیزوں کی فکر میں رہنا چاہیے، جیسے گیہوں، جیسے تیل والے بیج، جیسے جڑی بوٹیاں، جیسے چارہ، جیسے آبی جانور؛ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی ملک میں فراہمی کے لیے ہمیں قطعی طور پر کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح زراعت، ماڈرن آب پاشی، پانی کا مینیجمینٹ اور پانی کے ضیاع کو روکنا ایسے شعبے ہیں جو آگے بڑھنے والے شعبے ہیں۔
ایک اور پیشرو یا آگے رہنے والا شعبہ جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، بنیادی ڈھانچے یا انفراسٹرکچر کا شعبہ ہے۔ بحمد اللہ آج ملک انفراسٹرکچر کے لحاظ سے بلاشبہ کافی پیشرفتہ ہے۔ یعنی آج بندرگاہ، سڑک، شاہراہ اور ڈیم وغیرہ جیسے بنیادی ڈھانچوں کے لحاظ سے ہماری پوزیشن کا اسلامی انقلاب سے قبل کی صورتحال سے موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا اور اس شعبے میں پیشرفت غیر معمولی ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں اب بھی ضرورت ہے، اب بھی انفراسٹرکچرز کی ضرورت ہے، جیسے بندرگاہ، جیسے بجلی، جیسے نقل و حمل اور خاص طور پر ریلوے کے ذریعے نقل و حمل بہت ہی زیادہ اہم ہے۔
آگے رہنے والا ایک اور شعبہ، پارٹس کل پرزے بنانے کا شعبہ ہے اور بحمد اللہ آج کی رپورٹوں میں بھی کل پرزے کے کئي شعبے شامل تھے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک بڑی مشین، ایک چھوٹے سے پرزے کی وجہ سے بیکار ہو جاتی ہے اور ہمیں وہ پرزہ بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں مختلف شعبوں میں کل پرزے بنانے کے مسئلے پر کام کرنا چاہیے۔ یہ رپورٹ جو دی جانی چاہیے تھی، میرے خیال میں زیادہ تر گاڑی کے پارٹس تھے لیکن تمام گاڑیوں اور تمام بڑی مشینوں میں پارٹس بنانے کا کام ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔
یا معدنیات و کانکنی کا شعبہ کہ جس میں ہم بہت پیچھے ہیں اور جن شعبوں میں ہمیں ضرور بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ان میں سے ایک معدنیات کا شعبہ ہے۔ یا دواؤں اور ٹیکوں کا شعبہ ہے۔ میں نے سنا ہے کہ بحمد اللہ اس نئے وائرس کے لیے دوا کی تیاری میں بڑے اچھے کام ہوئے ہیں یا ٹیکے کی تیاری کے لیے تحقیقات ہو رہی ہیں۔ اس وقت دنیا پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ فلاں مدت تک، ایک سال تک اور چھے مہینے تک ویکسین بننے کا امکان نہیں ہے، یہ کوئي ضروری نہیں ہے، ہمارے اچھے سائنسداں، ہمارے نوجوان سائنسداں، ہمارے تجربہ کار محققین اسی کورونا وائرس کے ٹیکے اور مختلف ٹیکوں کی تیاری پر کام کریں، بہت ممکن ہے کہ ہم ان لوگوں سے بہت پہلے ویکسین تیار کر لیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ ایک اہم شعبہ، یہ بھی ہے۔
یا لباس، جوتوں اور گھریلو ضروریات کی چیزوں کی تیاری کا شعبہ ہے جو آگے رہنے والے شعبوں میں ہے۔ خوش قسمتی سے اس میدان میں ملک میں بہت زیادہ استعداد ہے لیکن اس کے باوجود کہ ہم کپڑے کے شعبے میں بڑے پرانے زمانے سے آگے رہنے والے ممالک میں شامل تھے اور بڑی اچھی اور بہت زیادہ استعداد بھی رکھتے تھے، جوتوں کے شعبے میں بھی ایسا ہی تھا اور گھریلو ضروریات کی اشیاء کے شعبے میں بھی ان برسوں میں ہم نے بہت زیادہ پیشرفت کی تھی لیکن افسوس کہ اس شعبے میں بھی درآمد کا معاملہ بہت نقصان دہ ہے۔ میرے خیال میں ان شعبوں میں درآمد کو سختی کے ساتھ روکا جانا چاہیے اور اس شعبے پر بھی ایک اہم اور آگے رہنے والے شعبے کے طور پر توجہ دی جانی چاہیے۔ بحمد اللہ ہم دیکھتے ہیں پچھلے ایک دو برسوں میں ہی، جب ہمیں لڑکوں، لڑکیوں اور بچوں کے جیکٹس کی ضرورت پڑ گئي تھی، میں نے کہا کہ بازار سے بالکل نہ خریدیے، انھیں تیار کرنے دیجیے، سینے دیجیے۔ سامان لایا گيا، درزیوں کو بلایا گيا اور کافی تعداد میں جیکیٹ تیار کیے گئے جو یقینی طور پر غیر ملکی جیکٹس سے بہتر تھے، یعنی زیادہ خوبصورت، زیادہ مضبوط اور بہتر۔ تو ملک کے اندر یہ تیار کیا جا رہا ہے، تو جب ہم ملک کے اندر پیداوار کر سکتے ہیں تو باہر سے کیوں درآمد کریں؟ خود میرے پاس دو جیکٹس تھیں کہ جب کبھی ہم کوہ پیمائي کے لیے جاتے تھے تو میں استعمال کرتا تھا، یہ دوسرے ملک کی تھیں اور کسی نے مجھے تحفے میں دی تھیں۔ میں نے وہ کسی کو دے دیں۔ اور کہا کہ اندرون ملک تیار کی گئي جیکٹس لائی جائيں۔
یہیں پر میں یہ بات بھی کہتا چلوں کہ ہماری کپڑے کی ملکی صنعت کافی قدیمی اور پرانی ہے اور بحمد اللہ بہت اچھی ہے لیکن افسوس کہ اس میں یہ بڑا عیب ہے کہ اس پر جھوٹ میں غیر ملکی ٹریڈ مارک لگا دیتے ہیں۔ یہ غلط کام ہے۔ وہی جیکیٹ جس کے بارے میں میں نے بتایا میں نے منگوائی تھی، میں نے دیکھا کہ اس پر ایک ٹیگ لگا ہے کہ یہ کسی دوسرے ملک کی پیداوار ہے، کہ جو جھوٹ تھا، ہم اس کے درزی کو پہچانتے تھے، یہ بھی جانتے تھے کہ اسے کس نے بنایا ہے اور کب بنایا ہے، ہم نے کہا اسے اکھاڑ دیا جائے اور ایسا ہی کیا گيا۔ خیر ملک میں آگے رہنے والا ایک شعبہ، لباس کی پیداوار کا شعبہ ہے۔
تیز رفتار پیداوار کے لیے تخلیقی صلاحیت کے حامل تیار نوجوانوں سے استفادہ
ملک میں پیداواری تحریک بحمد اللہ شروع ہو چکی ہے لیکن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم معمولی کوشش سے کسی مقام پر نہیں پہنچ سکتے، لمبی چھلانگ ضروری ہے، دوہری رفتار سے کام ضروری ہے اور بحمد اللہ ملک میں اس کے لیے راہ ہموار ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل بہت اچھے افراد، کام کے لیے تیار نوجوان، کام کے بھوکے نوجوان ملک میں موجود ہیں، ہم ان سے استفادہ کر سکتے ہیں اور پیداوار کو صحیح معنی میں تیز رفتار بنا سکتے ہیں اور پیداوار میں تیز رفتاری ملک کی معیشت کو زندہ کر دے گی۔
میں ایک بار پھر ان دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے یہاں آنے کی زحمت کی، اس پروگرام کو ترتیب دیا، جن لوگوں نے گفتگو کی اور رپورٹ پیش کی اور اسی طرح ان تمام لوگوں کا بھی شکر گزار ہوں جو معاشی مسائل کے شعبے میں سرگرم ہیں۔ امید ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے میں ہمارے عزیز عوام کی خالص دعاؤں کی برکت سے ان شاء اللہ ملک کی ضرورت کے شعبوں میں اہم اور بنیادی تبدیلیاں آئيں گي۔ کورونا وائرس کے معاملے میں جو صورتحال پیدا ہوئي اور عوام کو ایک جھٹکا لگا، ایک نئی اور غیر معمولی صورتحال وجود میں آئي، یہ چھٹیاں، یہ ضرورتیں، یہ ضرورتوں کی تکمیل، یہ تعاون جو حقیقی معنی میں بہت گرانقدر تھا، امید ہے کہ یہ خود نئے کاموں اور مختلف میدانوں منجملہ معاشی شعبے میں نئي تبدیلیوں کی تمہید ہوگي اور خداوند عالم مدد کرے گا، برکت عطا کرے گا اور دعاؤں کو قبول کرے گا۔ ہم بھی ملک کے مختلف شعبوں کے عہدیداروں، ذمہ داروں اور کام کرنے والوں کے لیے دعاگو ہیں چاہے وہ معاشی شعبوں کے ہوں، ثقافتی شعبوں کے ہوں یا دیگر شعبوں کے ہوں۔ امید ہے کہ خداوند عالم ان سب کو توفیق عطا کرے گا اور ان سب کو اپنے لطف، رحمت اور برکت سے نوازے گا۔ میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور شہدائے عزیز کی پاکیزہ روحوں پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۱) اس پروگرام کے آغاز میں سات پیداواری مراکز سے ویڈیو کانفرنس سے رابطہ ہوا اور عہدیداران اسی طرح کارکنان نے اپنی اپنی بات کہی۔
۲) سوره نجم، آیت نمبر ۳۹ کا ایک حصہ « ... انسان کو اس کی مساعی کے ثمر کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔»
۳) نهج البلاغه، خطبه ۱۷۶
۴) منجملہ سوره مائده، آیت نمبر ۹ کا ایک حصہ
۵) منجملہ سوره بقره، آیت نمبر ۶۲ کا ایک حصہ
۶) امالی صدوق، صفحہ ۳۸۵
۷) منجملہ ملک کے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں سے مورخہ 7 ستمبر 2010 کا خطاب