رہبر انقلاب اسلامی نے 3 جون 2020 کی صبح ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والے اپنے اس خطاب میں فرمایا کہ امام خمینی کی اس فکری و اقدامی خصوصیت سے سبق لیکر ہمیں تمام میدانوں بال‍خصوص ان میدانوں میں جہاں کند روی یا پسماندگی ہے، تیز رفتار تبدیلی کے لئے تندہی سے کام کرنا ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

 

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمّد و آلہ الطیبین الطّاھرین المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

آج امام خمینی کی برسی کا پروگرام، پہلے سے الگ اور معمول ہٹ کر منعقد ہو رہا ہے۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ پروگرام کیسے منعقد ہو رہا ہے، جو بات اہم اور بنیادی نوعیت کی ہے وہ یہ ہے کہ امام خمینی کے بارے میں گفتگو کی جائے جس کی ہمیں اپنے ملک کے آج اور کل کے لیے ضرورت ہے۔ امام خمینی اعلی اللہ مقامہ اپنی ظاہری وفات اور ظاہری دوری کے برسوں بعد بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں اور انھیں زندہ رہنا چاہیے تاکہ ہم ان کی موجودگي، ان کی معنویت، ان کے افکار اور ان کی ہدایت سے بہرہ مند ہوتے رہیں اور فائدہ حاصل کرتے رہیں۔

تغیر آفرینی اور تغیر انگيزی، امام خمینی کی سب سے نمایاں خصوصیت

میں آج امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بڑی اہم خصوصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں، البتہ ان کی ذات متعدد نمایاں پہلوؤں اور خصوصیات کی حامل تھی لیکن جس خصوصیت کے بارے میں آج میں بات کرنا چاہتا ہوں وہ ان کی سب سے نمایاں اور سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک ہے اور وہ ان کا تغیر آفرینی اور تغیر انگيزی کا جذبہ ہے۔ امام خمینی کی ذات میں تغیر پسندی بھی تھی اور تغیر آفرینی بھی۔ تبدیلی لانے کے سلسلے میں ان کا کردار صرف ایک استاد اور معلم کا نہیں تھا بلکہ مہم میں شامل ایک کمانڈر کا کردار تھا اور حقیقی معنی میں ایک قائد کا کردار تھا۔ انھوں نے اپنے دور میں اور اپنے زمانے میں متعدد میدانوں میں اور مختلف شعبوں میں بڑی بڑی گوناگوں تبدیلیاں پیدا کیں، جن میں سے کچھ کے بارے میں آج میں اجمالی گفتگو کروں گا۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تغیر پسندی کا جذبہ ان کے وجود میں کافی پہلے سے تھا۔ یہ ایسی چیز نہیں تھی جو ساٹھ کے عشرے کے اوائل میں اسلامی تحریک کے آغاز پر ان کے وجود میں پیدا ہوئي ہو، نہیں وہ نوجوانی کے زمانے سے ایک تغیر پسند انسان تھے۔ اس کا ثبوت ان کی جوانی یعنی عمر کے تیسرے عشرے میں لکھی گئي تحریر ہے جو انھوں نے مرحوم وزیری یزدی کی ڈائری میں لکھی تھی اور مرحوم وزیری نے امام خمینی کے ہاتھ کی لکھی ہوئي وہ تحریر مجھے دکھائي بھی تھی، بعد میں وہ شائع بھی ہوئي اور بہت سے لوگوں تک پہنچی۔ اس تحریر میں امام خمینی نے اس آیت کریمہ کا ذکر کیا ہے جو لوگوں کو اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتی ہے۔( قُل اِنَّما اَعِظُکُم بِواحِدۃٍ اَن تَقوموا لِلّہِ مَثنىٰ وَ فُرادىٰ) (1) ان کے اندر اس طرح کا جذبہ تھا۔ انھوں نے اس جذبے پر عمل کیا اور جیسا کہ میں نے اشارہ کیا، تبدیلیاں پیدا کر دیں۔ تبدیلی کے مسئلے میں انھوں نے صرف زبانی احکامات جاری نہیں کیے بلکہ عملی طور پر میدان میں اترے۔ یہ تغیر آفرینی قم میں نوجوان طلباء کے ایک گروہ کی روحانی تغیر آفرینی سے لے کر، جس کی تفصیل میں بیان کروں گا، ایرانی قوم میں عمومی طور ایک وسیع تغیر آفرینی تک ہمہ گیر فضا پر محیط تھی۔

لوگوں میں روحانی و معنوی تغیر و انقلاب

وہ جو قم کی بات تھی وہ ان کے درس اخلاق سے عبارت ہے۔ امام خمینی تحریک شروع ہونے سے دسیوں برس قبل فقہ، اصول فقہ اور فلسفہ و عرفان کے درس کے علاوہ برسوں تک درس اخلاق دیتے رہے تھے۔ البتہ جب میں قم پہنچا تو اس درس کو بند ہوئے برسوں گزر چکے تھے لیکن جو لوگ اس درس اخلاق میں شامل ہوئے تھے وہ بتاتے تھے کہ امام خمینی ہفتے میں ایک بار مدرسۂ فیضیہ میں درس اخلاق دیا کرتے تھے جس میں زیادہ تر نوجوان طلباء شریک ہوتے تھے۔ جب وہ بات کرتے تھے تو پوری نشست متغیر ہو جاتی تھی، وہ دلوں کو متغیر کر دیتے تھے، يہ چیز میں نے بھی فقہ اور اصول فقہ کے دروس میں دیکھی تھی۔ مطلب یہ کہ وہ فقہ اور اصول فقہ کے اپنے دروس میں بھی جب کسی مناسبت سے اخلاقیات کی باتیں کرتے تھے تو طلباء زار و قطار رونے لگتے تھے، ان کی باتیں اتنی موثر ہوا کرتی تھیں اور روح میں انقلاب بپا کر دیتی تھیں۔ یہ پیغمبروں کی روش ہے، سبھی پیغمبروں نے اپنی تحریک افراد کی روح کے اندر انقلاب بپا کر کے شروع کی۔ یہ جو امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "لیستادوھم میثاق فطرتہ و یذکروھم منسی نعمتہ ... و یثیروا لھم دفائن العقول" (2) اس کا یہی مطلب ہے۔ "یستادوھم میثاق فطرتہ" یعنی وہ انسان کی اس خفتہ و نہفتہ سرشت کو بیدار کر دیتے تھے اور اسے انسانوں کو متحرک بنانے اور انھیں ہدایت عطا کرنے کے لیے ترغیب دلاتے تھے۔ امام خمینی نے یہاں سے اس طرح یہ کام شروع کیا۔ میں پوری قطعیت سے تو یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ امام خمینی یہ نشستیں اس لیے منعقد کرتے تھے کہ آگے چل کر یہ ایک بڑی سیاسی تحریک پر منتج ہوں، لیکن جو چیز مسلمہ ہے وہ یہ ہے کہ درس اخلاق کے توسط سے انسانی سرشت اور اس کی معنوی و فطری جبلتوں کو متحرک کرنا اور وعظ و نصیحت کے ذریعے دلوں کو آمادہ کرنا، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روش تھی۔ انھوں نے کام یہاں سے شروع کیا تھا جو ایک قوم میں وسیع سطح پر تغیر تک پہنچا۔ چاہے تحریک کے دوران کی بات ہو، جس میں اس تغیر کے بعض نمونوں کا میں ذکر کروں گا، یا انقلاب کی کامیابی کے بعد کی بات ہو، انھوں نے حقیقی معنی میں ایرانی قوم میں تبدیلی پیدا کی۔

توجہ دیجیے کہ اس تغیر میں ان کا مقصود، ایرانی قوم تھی۔ امام خمینی کی تحریک شروع ہونے سے پہلے بھی ایران میں کچھ جد و جہد کی گئي تھی، ایران میں سیاسی جد و جہد موجود تھی، دسیوں سال سے مختلف گروہ جد و جہد کر رہے تھے لیکن ان کے کام زیادہ سے زیادہ مثال کے طور پر کچھ طلباء تک محدود تھے، فرض کیجیے کہ یہ لوگ سو طلباء یا ڈیڑھ سو طلباء پر اثر انداز ہو سکتے تھے، کسی پروگرام میں انھیں شامل کر سکتے تھے لیکن امام خمینی کی تحریک ایک محدود گروہ یا ایک محدود اجتماع یا ایک معین پیشے تک محدود نہیں تھی بلکہ پوری ایرانی قوم پر محیط تھی۔ قوم، ایک بحر اعظم کی طرح ہے اور بحر اعظم میں طوفان لانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک سوئمنگ پول کو متلاطم کیا جا سکتا ہے لیکن کسی سمندر کو متلاطم کرنا، ایک بہت عظیم کام ہے۔ قوم ایک بحر اعظم ہے اور امام خمینی نے یہ کام کیا، بہت ساری تبدیلیاں پیدا کیں۔

قوم کو بے حسی اور خود سپردگی کی حالت سے نکال کر پرعزم اور صاحب فکر بنا دیا

ایک دوسرا تغیر، قوم کی بے حسی اور خود سپردگی کی حالت میں تبدیلی کا تھا۔ ہماری نوجوانی کے زمانے میں، اس زمانے میں جب ہمیں یاد ہے کہ یہ تحریک شروع ہوئي، ایرانی قوم ایک ایسی قوم تھی جسے اپنے مستقبل کے بنیادی مسائل سے کوئي سروکار نہیں تھا۔ لوگ بے بسی میں تھے، بے حس تھے، اپنی ذاتی زندگي کے سلسلے میں بھی (کوئي ارادہ نہیں رکھتے تھے)۔ اس وقت جو میدان میں اترنا، متحرک رہنا، مطالبہ کرنا اور وہ بھی بڑی اور اہم چیزوں کا مطالبہ کرنا ہماری قوم کی خو بن چکی ہے، یہ سب اس وقت ہماری قوم میں بالکل بھی نہیں تھا۔ یہ کام امام خمینی نے کیا، بے حس اور گھٹنے ٹیکنے والی قوم کو مطالبہ کرنے والی قوم میں بدل دیا۔ ان کی ان حرارت آفریں اور جوش پیدا کرنے والی تقاریراور جوشیلے بیانوں نے اس قوم کو اس طرح سے ہلا کر رکھ دیا کہ یہ قوم، اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والی قوم میں تبدیل ہو گئی۔ اس کے نمونے سن انیس سو باسٹھ کے واقعات میں دیکھے جا سکتے ہیں، جو اس تحریک کے آغاز کا سال تھا۔ اس کے نمونے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والے عظیم الشان عوامی اجتماعات ہیں جو آگے چل کر پندرہ خرداد (پانچ جون) کے واقعے پر منتج ہوئے۔ پندرہ خرداد کو (شاہ کی حکومت) وحشیانہ قتل عام کے ذریعے بھی اس تحریک کو روک نہ سکی۔ اس کے بعد بھی مختلف مواقع پر عوامی اجتماعات ہوتے رہے، یہاں تک کہ تحریک کامیاب ہو گئي۔ یہ ایک بہت ہی عجیب تبدیلی تھی جو امام خمینی نے پیدا کی۔

لوگوں کے طرز فکر میں تبدیلی اور قومی عزت و خود اعتمادی پیدا کرنا

ایک دوسری تبدیلی، اپنے اور اپنے سماج کے سلسلے میں لوگوں کے طرز فکر میں تبدیلی تھی۔ ایرانی قوم اپنے سلسلے میں ایک حقارت آمیز سوچ رکھتی تھی، یعنی یہ سوچ کبھی کسی کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتی تھی کہ ایرانی قوم دنیا کی طاقتوں اور بڑی طاقتوں کے ارادے کو ناکام بنا سکتی ہے۔ صرف عالمی طاقتوں کے ارادے کی ہی بات نہیں ہے بلکہ ملکی طاقتوں کے ارادے یہاں تک کہ کسی عہدیدار کے ارادے یا پولیس اور سیکورٹی کے ادارے کے خلاف کچھ کرنے کی سوچ لوگوں کے ذہن میں آتی ہی نہیں تھی۔ وہ یہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ تلخ اور خطرناک ارادے رکھنے والوں پر غلبہ حاصل کریں۔ وہ اپنے سلسلے میں حقارت کا احساس رکھتے تھے، توانائي محسوس نہیں کرتے تھے۔ امام خمینی نے اسے عزت کے احساس اور خود اعتمادی کے احساس میں بدل دیا۔ انھوں نے لوگوں کو اس طرز فکر سے نکال دیا جس میں وہ ایک ظالم و آمر حکومت کو ایک فطری چیز سمجھتے تھے۔ اس وقت ہم لوگوں کا تصور گویا یہی تھا کہ بھئي آخر کسی کو تو ملک کا حاکم ہونا ہی ہے اور اسی کا ارادہ غالب رہے گا۔ لوگ اسے ایک معمول اور فطری بات سمجھتے تھے۔ امام خمینی نے اس طرح کی سوچ رکھنے والوں کو ان انسانوں میں تبدیل کر دیا جو حکومت کی نوعیت کو خود معین کرتے ہیں۔ انقلاب میں لوگوں کے نعروں میں سب سے پہلے اسلامی نظام، اسلامی حکومت اور پھر اسلامی جمہوریہ کا نعرہ تھا۔ لوگ خود تعین کرنے والے تھے، مطالبہ کرنے والے تھے۔ اس کے بعد مختلف انتخابات میں خود حکومت کرنے والے شخص اور حکومت کے مختلف شعبوں میں اہم عہدے رکھنے والے افراد کا تعین لوگوں نے کیا۔ دوسرے الفاظ میں اپنے کو حقیر سمجھنے کی لوگوں کی جو حالت تھی وہ پوری طرح بدل گئي اور قومی وقار اور خود اعتمادی میں تبدیل ہو گئي۔

عوامی مطالبات کی نوعیت میں تبدیلی

ایک اور تبدیلی عوام کے بنیادی مطالبات میں تبدیلی تھی، یعنی فرض کیجیے کہ اگر اس وقت عوام کا ایک گروہ حکومت سے یا اس وقت کے صاحبان اقتدار سے کوئي مطالبہ کرتا بھی تھا تو مثال کے طور پر وہ یہ ہوتا تھا کہ اس گلی کو پکّا کر دیا جائے یا یہ سڑک اس طرح سے بنائي جائے؛ مطالبات اس طرح کے ہوا کرتے تھے۔ امام خمینی نے اسے خودمختاری و آزادی کے مطالبے میں تبدیل کر دیا یعنی عظیم اہداف میں۔ یا "نہ شرقی، نہ غربی" کا نعرہ۔ عوام کے مطالبات میں ایسی تبدیلی آئي کہ وہ اس طرح کی حقیر، چھوٹی، مقامی اور محدود چیزوں سے ہٹ کر بنیادی، عظیم، انسانی اور عالمی امور میں تبدیل ہو گئے۔

دین کے سلسلے میں لوگوں کے افکار میں تبدیلی

ایک دوسری تبدیلی جو امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے پیدا کی، وہ دین کے سلسلے میں پائے جانے والے افکار میں تبدیلی تھی۔ لوگ دین کو صرف اپنے ذاتی، عبادتی یا زیادہ سے زیادہ انفرادی حالات کے لیے ایک وسیلہ سمجھتے تھے، صرف نماز روزہ یا فرض کیجیے کہ خمس و زکات اور نکاح و طلاق کے مسائل تک دین کو محدود سمجھتے تھے۔ دین بس اسی حد تک تھا، وہ دین اور دین کی ذمہ داری کو صرف انھیں چیزوں تک محدود مانتے تھے۔ امام خمینی نے دین کی صحیح تعریف پیش کی جو نظام کی تیاری، تمدن سازی، معاشرے کی تشکیل، صحیح انسان کی تیاری اور اسی طرح کے دیگر امور سے عبارت تھی۔ دین کے سلسلے میں لوگوں کی رائے پوری طرح سے بدل گئي۔

مستقبل اور نئے اسلامی تمدن کی تشکیل کے افکار میں تبدیلی

ایک اور تبدیلی مستقبل کے بارے میں افکار میں تبدیلی تھی۔ ان دنوں، جب تحریک شروع ہوئي اور امام خمینی میدان میں آ گئے تھے، بعض افراد، گروہوں اور جماعتوں کی طرف سے جو نعرے لگائے جا رہے تھے، بہت محدود اور چھوٹے بھی تھے اور لوگوں کو ان میں مستقبل بھی نظر نہیں آتا تھا، یعنی لوگوں کی آنکھوں کے سامنے کوئي افق یا مستقبل نہیں تھا، اسے امام خمینی نے نئے اسلامی تمدن کی تشکیل میں تبدیل کر دیا۔ آپ اگر آج ایرانی قوم کو دیکھیں تو یہ امام خمینی کا مبارک ہاتھ ہے جس نے یہ حالت پیدا کی ہے۔ لوگ، نئے اسلامی تمدن کی تشکیل کی کوشش کر رہے ہیں، عظیم اسلامی اتحاد کو معرض وجود میں لانا چاہتے ہیں، امت اسلامی کی تشکیل چاہتے ہیں۔ عام لوگوں اور رائے عامہ کی نظر یہی ہے۔

دین کے بنیادی عملی نظریات میں تبدیلی اور نظام کی تشکیل میں فقہ کی شمولیت

ایک زیادہ پیشہ ورانہ شعبے میں اہم تبدیلی اس کے بنیادی عملی نظریات میں تبدیلی ہوتی ہے، امام یہ تبدیلی بھی لانے میں کامیاب رہے۔ یہ زیادہ پیشہ ورانہ ہے اور حوزۂ علمیہ یا اعلی دینی تعلیمی مراکز اور ان لوگوں سے متعلق ہے جن کا سروکار فقہ، اصول فقہ اور اسی طرح کے علوم سے رہتا ہے۔ امام خمینی نے فقہ کو نظام کی تشکیل کے میدان میں داخل کر دیا جبکہ فقہ اس طرح کے مسائل سے دور تھی۔ البتہ ولایت فقیہ کا مسئلہ ایک ہزار سال سے فقہاء کے درمیان موجود تھا اور پیش ہوتا رہا تھا لیکن چونکہ یہ امید نہیں تھی کہ کسی فقیہ کی ولایت عملی جامہ پہن سکتی ہے اس لیے کبھی بھی اس مسئلے کی تفصیلات کو پیش نہیں کیا جاتا تھا۔ امام خمینی نے اسے بنیادی اور فقہی مسائل میں داخل کر دیا۔ انھوں نے اسے نجف کے حوزۂ علمیہ میں پیش کیا اور اس کے بارے میں بحث کی، بڑی علمی، معتبر اور ٹھوس بحث جو ان مسائل میں صاحب رائے افراد کے لیے پوری طرح سے قابل توجہ تھی۔ اسی طرح سے مصلحت نظام کا مسئلہ، یعنی عمومی مفادات یا قومی مفادات کا مسئلہ ہے جسے امام خمینی نے فقہ میں پیش کیا۔ انھوں نے فقہ و اصول کے مشہور مسئلے "تزاحم" اور "اہم و مہم" کو، جو اس سے پہلے تک ذاتی اور چھوٹے مسائل میں استعمال ہوا کرتے تھے، عمومی میدان میں داخل کر دیا اور اب ملک چلانے کے میدان میں نظام کی مصلحت اور "اہم و مہم" کے مسائل پیش ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ انھوں نے فقہ میں یہ چیزیں داخل کر دیں جس سے فقہ کو ایک بہت بڑا موقع مل گیا اور گوناگوں مسائل میں تصرف کے لیے اس کا ہاتھ کھل گيا۔ میرے خیال میں دینی تعلیمی مراکز کو اس کی بہت زیادہ قدر کرنی چاہیے، اس سے استفادہ کرنا چاہیے، اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ البتہ امام خمینی نے اس فقہی میدان میں جو یہ کام کیا وہ پوری طرح سے قانونی دائرے میں رہ کر کیا، ان کے بقول فقہ ایک گوہر گراں بہا ہے یعنی فقہ میں کوئي بدعت نہیں ہے۔ یہ، فقہاء کے اختیار میں موجود فقہ کے رائج معیارات سے ایک صحیح استفادہ ہے۔

فقہ کے سلسلے میں جدت پسندانہ نظریے کے ساتھ ہی خالصانہ بندگی پر اصرار

دین اور دینی مسائل کے سلسلے میں پائے جانے والے نظریات میں تبدیلی کا ایک اور نمونہ، مسائل کے سلسلے میں جدت پسندانہ نظر رکھنے کے باوجود تعبّد یا اللہ کی بے چوں چرا اطاعت پر تاکید تھی۔ مطلب یہ کہ امام خمینی ایک جدت پسند فقیہ اور ایک جدت پسند عالم دین تھے۔ وہ مسائل کو جدت پسندی کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن اسی کے ساتھ اللہ کی خالص اطاعت کے سخت پابند تھے۔ اس زمانے میں ایسے علمائے دین تھے جو روشن فکری کے مسائل میں ید طولی رکھتے تھے، باتیں کرتے تھے، بحث کرتے تھے، یہ لوگ عالم دین اور دین شناس بھی تھے لیکن بعض حالات کے زیر اثر تعبدی مسائل کے اتنے پابند نہیں تھے، ذاتی طور پر عمل کرنے میں تو پوری طرح سے پابند تھے لیکن اپنے تبلیغی امور میں تعبد پر بہت زیادہ زور نہیں دیتے تھے۔ امام خمینی آئے اور انھوں نے فقہی مسائل، اسلامی مسائل، دینی مسائل اور اسی طرح کے دیگر مسائل کے سلسلے میں اپنے جدت پسندانہ نظریات کے ساتھ ہی تعبد کے مسئلے پر بھی پوری تاکید کی۔ احکام میں بھی تعبد اور دینی پروگراموں میں بھی تعبد، مثال کے طور پر مجالس عزاداری اور عزاداری کے پروگراموں وغیرہ پر انھوں نے جو تاکید کی ہے ان سب سے ان کے عظیم تعبد کی نشاندہی ہوتی ہے۔

نوجوان نسل اور اس پر اعتماد کے سلسلے میں نظریات میں تبدیلی

ایک دوسرا میدان جس میں امام خمینی نے تبدیلی پیدا کی، نوجوان نسل کے بارے میں پائی جانے والی سوچ تھی۔ انھوں نے نوجوانوں کی سوچ اور ان کے کام پر اعتماد کیا، یہ حقیقی معنی میں ایک تبدیلی تھی۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیے کہ جب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی تشکیل ہوئي تو انھوں نے بیس سال سے زیادہ کے کچھ نوجوانوں کو اس کی سربراہی کے لیے قبول کیا، یہ وہ نوجوان تھے جن کی عمریں زیادہ سے زیادہ تیس سال کی تھیں، یہ لوگ سپاہ پاسداران کے سربراہان تھے، کمانڈر تھے، کمانڈر انچیف تھے، یہ سب وہ نوجوان تھے جنھیں بڑے بڑے کام تفویض کیے گئے تھے۔ دوسرے میدانوں میں بھی ایسا ہی تھا۔ قضاوت کے امور میں اور دوسری جگہوں پر بھی وہ ان نوجوانوں پر، جنھیں وہ تسلیم کرتے تھے، بہت زیادہ اعتماد کرتے تھے۔ وہ انھیں کام سونپتے تھے اور نوجوان کی سوچ اور نوجوان کے عمل پر بھروسہ کرتے تھے۔

غیر نوجوان فورسز پر اعتماد کے ساتھ ہی نوجوانوں کو ترجیح

امام خمینی غیر نوجوانوں کی صلاحیتوں اور گنجائشوں کی نفی نہیں کرتے تھے۔ آج جب ہم نوجوانوں کو ترجیح دینے کی زیادہ بات کرتے ہیں تو بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ضعیف لوگوں کو پوری طرح میدان سے باہر نکال دیا جائے؛ نہیں! امام خمینی کی رائے بالکل ایسی نہیں تھی۔ وہ نظام کے لیے ذخیرے کے طور پر اور ثروت کے طور پر نوجوانوں پر بھروسہ کرتے تھے لیکن اسی کے ساتھ وہ غیر نوجوانوں پر بھی اتنا ہی اعتماد کرتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھیے کہ انھوں نے اسی وقت جب مجھے تہران کے امام جمعہ کے طور پر منصوب کیا تھا، جبکہ میں اس وقت اتنا بوڑھا بھی نہیں تھا، اسی وقت، اسّی سالہ مرحوم شہید اشرفی (1) کو کرمانشاہ کا امام جمعہ منصوب کیا تھا یا مرحوم دستغیب (2) کو یا دیگر شہدائے محراب کو منصوب کیا تھا۔ یہ سبھی تقریبا ساٹھ اور ستّر کی عمر والے لوگ تھے۔ یا مسلح افواج میں، سپاہ میں نوجوانوں کو رکھتے تھے۔ فوج میں شہید فلاحی (3) یا پھر مرحوم ظہیر نژاد (4)، یہ لوگ ساٹھ یا اس سے زیادہ کی عمر کے تھے۔ امام خمینی نے ان لوگوں سے کام لیا۔ ایسا نہیں تھا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ نوجوانوں پر بھروسہ کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر نوجوان فورس کو پوری طرح میدان سے باہر کر دیا جائے۔ اسی طرح امام خمینی نے مرحوم عسگر اولادی (5) کو امدادی کمیٹی میں اس وقت رکھا جب وہ بہت جوان نہیں تھے۔

تو جب ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ نوجوانوں پر بھروسہ کرتے تھے، اور آج ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ نوجوانوں پر اعتماد کیا جانا چاہیے اور ملک کی ترقی و پیشرفت میں نوجوان فورس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جس کے بارے میں آگے چل کر گفتگو کروں گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ملک کے لیے ایک ذخیرہ ہے، ایک ثروت ہے جس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے؛ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باتجربہ اور غیر نوجوان لوگوں سے، جو خود بھی ایک ثروت ہیں، استفادہ نہ کیا جائے۔

عالمی طاقتوں اور بڑی طاقتوں کے بارے میں سوچ میں تبدیلی اور ان کے قابل شکست ہونے پر یقین

تو امام خمینی نے یہ تبدیلیاں پیدا کیں لیکن انھوں نے ایک دوسری بڑی اہم تبدیلی بھی پیدا کی جو شاید ان میں سے بعض تبدیلیوں سے زیادہ اہم تھی اور وہ تھی عالمی طاقتوں اور سپر طاقتوں کے سلسلے میں پائی جانے والی سوچ میں تبدیلی۔ اس وقت کوئي یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ امریکا کے موقف کے خلاف کوئي بات کہی جا سکتی ہے یا اس کی مرضی کے خلاف کوئي کام کیا جا سکتا ہے لیکن امام خمینی نے وہ کام کیا کہ خود امریکی سربراہان مملکت نے کہا کہ خمینی نے ہمیں ذلیل کر دیا، واقعی ایسا ہی تھا۔ امام خمینی، ان کے ساتھیوں اور ان نوجوانوں نے جو ان کے اشارے پر کام کرتے تھے، حقیقی معنی میں بڑی طاقتوں کو ذلیل و خوار کر دیا، ان کے ارادوں کو توڑ دیا اور انھیں میدان سے باہر کر دیا۔ امام خمینی نے یہ دکھا دیا کہ بڑی طاقتوں کو شکست دی جا سکتی ہے اور مستقبل نے یہی چیز دکھائي، آپ نے دیکھا کہ سابق سوویت یونین کا انجام وہی ہوا، اور یہ آج کا امریکا ہے اور یہ امریکا کے حالات ہیں جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ کبھی بھی اس چیز کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ امام خمینی نے پہلے دن سے عوام کے دلوں میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ انھیں شکست دی جا سکتی ہے، چوٹ پہنچائي جا سکتی ہے۔

ان تمام تغیرات کے سلسلے میں امام خمینی کی الہی و توحیدی سوچ

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام تبدیلیوں کو وجود عطا کیا اور حقیقی معنی میں وہ ان تغیرات کے امام تھے لیکن وہ ان سب کو خدا کا کام سمجھتے تھے۔ وہ ان چیزوں کو خود سے منسوب نہیں کرتے تھے بلکہ انھیں خدا کا کام سمجھتے تھے۔ نوجوانوں میں انھوں نے جو روحانی تبدیلی پیدا کی تھی، جس کے بارے میں صحیفۂ امام (کے نام سے شائع ہونے والی کتاب) میں بھی کچھ باتیں موجود ہیں، آپ ملاحظہ کیجیے۔ وہ بار بار اپنے بیانوں میں اس بات کی طرف توجہ دیتے ہیں اور تعجب کا اظہار کرتے ہیں، ان کے لیے باعث تعجب ہے، خود امام خمینی نے یہ کام کیا تھا، اس میں صرف انھیں کا ہاتھ تھا لیکن وہ اسے خدا کا کام کہتے تھے۔ حقیقت میں بھی یہی ہے کہ یہ سب خدا کا کام ہے،  لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ ہر چیز اور ہر طاقت اللہ کی جانب سے ہے۔ امام خمینی حقیقت میں اس آیت پر پوری طرح سے ایمان رکھتے تھے کہ "ما رمیت اذ رمیت (8)۔  وہ نوجوانوں کے اس کام اور نوجوانوں میں تبدیلی کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ وہ اس کام پر بہت حیرت زدہ تھے۔ ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ نوجوانوں کے جذبات اور احساسات میں جو تبدیلی آئي ہے وہ طاغوتی حکومت پر غلبے سے بھی بڑی ہے کیونکہ طاغوتی حکومت پر غلبہ، طاغوت پر غلبہ تھا، نوجوانوں میں جو یہ تبدیلی آئي ہے، یہ شیطان پر غلبہ ہے اور شیطان، طاغوت سے بڑھ کر ہے۔ وہ ان باتوں کو اس طرح سے دیکھتے تھے اور اس معنی میں تعجب کرتے تھے۔ تو یہ بات اس مسئلے کے بارے میں تھی جسے میں نے عرض کیا۔

تبدیلی اور نمو ہر زندہ معاشرے کی ضرورت

تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امام، تبدیلی و تغیر کے امام تھے۔ ہم جو یہ بحث کرتے ہیں تو صرف اس مقصد سے نہیں کہ امام کی شخصیت کے بارے میں ہمیں مزید کچھ معلومات مل جائیں، ویسے یہ بھی اپنی جگہ پر بہت اہم ہے، ہمارا مقصد ہے سبق حاصل کرنا۔ ہمیں امام سے سبق لینا چاہئے۔ ہر زندہ اور متحرک سماج کو تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں آج مختلف شعبوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ البتہ یہ بھی عرض کر دوں کہ امام کی رحلت کے بعد انقلاب اور وطن عزیز نے تبدیلی اور اصلاحاتی روش کو ترک نہیں کیا۔ یعنی ملت بحمد اللہ امام خمینی کی اصلاحاتی روش پر گامزن رہنے میں کامیاب رہی، آگے بڑھتی رہی۔ ہم نے متعدد میدانوں میں حقیقی معنی میں تبدیلی پیدا کی اور ماضی کی نسبت زیادہ توانا ہوئے اور بعض میدانوں میں ہمارے اندر ماضی سے زیادہ جوش و جذبہ بیدار ہوا۔ یہ سب کچھ ہوا۔ علم و دانش کے میدان میں آنے والی یہ تبدیلی بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔

اس زمانے میں علمی اعتبار سے ہم ایسی حالت میں تھے جو ہرگز قابل اعتنا اور قابل ذکر نہیں تھی۔ آج دنیا میں علم و سائنس کے میدان میں تیز پیشرفت اور کاوشوں کے اعتبار سے ہماری ایک شناخت ہے۔ یا دفاعی توانائی کے میدان میں، آج ہماری دفاعی توانائی در حقیقت 'ڈیٹرینس' کی منزل تک پہنچ چکی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ کوئی ملک اس مقام تک پہنچ جائے۔ یا سیاست کے میدان میں دنیا میں وطن عزیز کی پروقار شناخت ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ نے دنیا میں اپنی طاقتور اور پروقار شناخت قائم کی ہے۔ یہ سب وہ تبدیلیاں ہیں جو رونما ہوئیں اور قابل توجہ ہیں۔

اس تیس سال میں ملک کا سفر، تبدیلی کا سفر جس کا آغاز امام نے کیا تھا رکا نہیں بلکہ جاری رہا۔ بعض میدانوں میں تبدیلی کا انفراسٹرکچر تیار ہو گیا مگر فعالیت کا آغاز نہیں ہو سکا، ہدف عملی شکل اختیار نہیں کر پایا۔ یہ سب ہوا ہے مگر اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کچھ میدانوں میں ہم تبدیلی نہیں لا سکے، کچھ بڑے اہم میدانوں میں تبدیلی نہیں ہو پائی، کچھ میدانوں میں پسماندگی رہی، یہ بہت افسوس ناک، ناپسندیدہ اور غیر قابل قبول ہے، یہ انقلاب کے مزاج کے بھی خلاف ہے۔ انقلاب کے زندہ رہنے کا انحصار اس پر ہے کہ پے در پے جدت آتی رہے، تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں، پیشرفت جاری رہے۔ تبدیلی کا مطلب ہے واضح طور پر برتر مرحلے میں پہنچنا۔ یعنی مختلف میدانوں میں ایک جست اور کوئی بڑا اقدام۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ بعض میدانوں میں ہمارے پاس اس کی توانائی نہیں تھی۔

معاشروں کی پیشرفت اور پسماندگی کا دارومدار انسانوں کے ارادے اور کارکردگی پر ہے

انقلاب کی ضد ہے رجعت پسندی۔ دنیا کے بہت سے انقلابات رجعت پسندی کا شکار ہو گئے۔ یعنی انقلاب کے آغاز کو پانچ سال، دس سال یا پندرہ سال گزرنے کے بعد بے توجہی کی وجہ سے وہ لوگ رجعت پسندی اور پسماندگی میں مبتلا ہو گئے۔ یہ رجعت پسندی انقلاب کی ضد ہے۔ دونوں ہی چیزوں یعنی انقلاب کی  پیشرفت اور انقلاب کی رجعت پسندانہ پسپائی کا انحصار انسانوں کے ارادے پر ہے۔ انسانوں نے اگر درستگی کے ساتھ عمل کیا تو انقلاب صحیح انداز میں آگے بڑھے گا اور اگر خراب کارکردگی رہی تو وہ پسماندگی کا شکار ہو جائے گا۔ قرآن میں بھی ان دونوں چیزوں کا ذکر موجود ہے۔ سورہ مبارکہ رعد میں اللہ ارشاد فرماتا ہے: إِنَّ اللَّهَ لا یُغَیِّرُ ما بِقَومٍ حَتّىٰ یُغَیِّروا ما بِأَنفُسِهِم (9) بعد والی آیت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آیت اس مثبت رخ کو بیان کر رہی ہے۔ یعنی جب آپ اپنے اندر تعمیری تبدیلیاں پیدا کریں گے تو اللہ تعالی بھی آپ کے لئے سازگار واقعات و حقائق کی تخلیق فرمائے گا۔ دوسری آیت سورہ انفال کی ہے: ذٰلِکَ بِأَنَّ اللَّهَ لَم یَکُ مُغَیِّرًا نِعمَةً أَنعَمَها عَلىٰ قَومٍ حَتّىٰ یُغَیِّروا ما بِأَنفُسِهِم (10) یہ منفی رخ ہے، پسماندگی کا پہلو ہے۔ یعنی اگر اللہ نے کسی قوم کو کوئی نعمت دی اور اس قوم نے درست انداز میں اقدام نہیں کیا، صحیح انداز میں عمل نہیں کیا تو اللہ تعالی یہ نعمت اس سے سلب کر لیتا ہے۔ آپ دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں: اللَّهُمَّ اغفِر لِیَ الذُّنوبَ الَّتی تُغَیِّرُ النِّعَم‌ (11) یہ نعمت کا بدل جانا، یعنی نعمت کا سلب ہو جانا ارادے کا نتیجہ ہے۔ ہمیں بہت توجہ سے نگرانی رکھنی چاہئے تھی اور آئندہ بھی رکھنی چاہئے کہ اس حالت میں مبتلا نہ ہوں۔

نظام کے اندر یہ رجحان موجود رہا۔ امام کی رحلت کے بعد بھی تغیرات و اصلاحات کی مہم جاری رہی، لیکن جس مقدار میں تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ ہماری نظر میں کافی نہیں ہیں۔ اس کے شواہد موجود ہیں کہ ملک کے گوناگوں تمدنی شعبوں میں، نظام کے تمدنی میدانوں میں تبدیلیاں لانے پر ہم قادر ہیں۔ البتہ اس میں کچھ اہم نکات ہیں۔ یعنی مجھے خود سے، اپنے نوجوانوں سے، اپنے عوام سے اور دانشوروں سے یہ توقع ہے کہ گوناگوں شعبوں میں ضرورت کے مطابق تبدیلی لانے کی فکر میں لگے رہیں۔

تبدیلی کا رجحان؛ مسلسل بہتری کی چاہت اور رجعت پسندی سے اجتناب

وہ شعبے جن میں تبدیلی لانا ضروری ہے، کیا ہیں؟ اس کے لئے الگ سے ایک بحث کی ضرورت ہے۔ میں بعد میں اشارتا اس کا ذکر کروں گا۔ لیکن تبدیلی میں کچھ بنیادی نکات ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ حقیقی معنی میں اور صحیح معنی میں تبدیلی آئے تو کچھ نکات پر توجہ رکھنا لازمی ہے۔ تبدیلی کے رجحان کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اعتراض کریں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حالات کی بہبودی کی چاہت دائمی طور پر موجود رہے۔ یہ ہے اصلاح پسندی۔ یعنی دستیاب چیزوں اور حالات پر اکتفا نہ کرنا، یہ چیز بڑی تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ موجودہ حالت پر اعتراض تبدیلی کی وجہ قرار پائے لیکن ہمیشہ ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بیشتر مسائل میں تبدیلی کا یہ مفہوم ہے کہ ہم دستیاب وسائل اور حاصل ہو چکے اہداف پر اکتفا نہ کریں بلکہ ایک قدم بالاتر اور اگلے مرحلے میں جانے کی کوشش کریں۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ لازمی طور پر ہمیں کہیں شکست کا احساس ہوا ہو تب ہم اصلاحات کے لئے آگے بڑھے ہیں۔ بعض اوقات شکست کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔ میں اس بحث سے کیا نتیجہ اخذ کرنا چاہتا ہوں؟ میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ جہاں جہاں ہم نے مثبت تبدیلیاں پیدا کی ہیں، مثال کے طور پر علم و دانش کے شعبے میں، تو ان کے سلسلے میں بھی کوئی یہ نہ کہے کہ ہم نے تبدیلی پیدا کر دی اب کسی اور تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ نہیں، ہمیں موجودہ صورت حال پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں مزید تبدیلیوں کی کوشش کرنا چاہئے، اسے ضروری سمجھنا چاہئے اور اس کے لئے کوشاں رہنا چاہئے۔ اس میدان میں بھی جہاں ہم تبدیلیاں لائے ہیں، اسی طرح دوسرے میدانوں میں بھی جہاں ہمیں کامیابیاں ملی ہیں۔ تو تبدیلی کا مطلب ہے رفتار بڑھانا، تیز رفتاری سے آگے بڑھنا، جست لگانا، رجعت پسندی سے اجتناب، غلط طور پر مشہور ہو جانے والی چیزوں پر اصرار کرنے سے اجتناب۔ تبدیلی کا یہ مطلب ہے۔ جہاں کوئی اعتراض نہیں ہو رہا ہے وہاں بھی اس مفہوم کا اطلاق ہوتا ہے۔ تو ایک اہم نکتہ یہ ہے۔

مضبوط فکری بنیاد، صحیح تبدیلی کی لازمی شرط

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ صحیح تبدیلی کے لئے مضبوط فکری بنیاد ضروری ہے۔ یعنی مستحکم فکری بنیاد سے خالی اقدام کو تبدیلی نہیں مانا جا سکتا۔ بعض ہلکے اور سطحی اقدامات کو آپ بنیادی تبدیلیوں میں شمار نہیں کر سکتے۔ تبدیلی کے لئے مستحکم فکری بنیاد ضروری ہے۔ مثال کے طور پر آج جن چیزوں میں ضرور تبدیلی کی جانی چاہئے ان میں ایک عدل و انصاف کا شعبہ ہے۔ مساوات کے میدان میں ہمیں تبدیلی لانا ہے اور یہ عمل اس مستحکم فکری بنیاد پر استوار ہونا چاہئے کہ عدل و انصاف کے میدان میں ہمارا پختہ نظریہ کیا ہے؟ اس کے بعد ہم اس بنیاد پر تبدیلی کے لئے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یعنی یہ فکری بنیاد لازمی چیزوں میں ہے جو ہمارا روحانی سرمایہ بھی ہے۔ یعنی ہمیں اس میدان میں اپنے روحانی سرمائے کو استعمال کرنا چاہئے جو عبارت ہے اسلامی احکامات، اسلامی ضوابط، قرآنی آیات اور اہل بیت علیہم السلام کے فرمودات سے۔ ہمیں اس سرمائے سے استفادہ کرنا چاہئے اور اس کی بنیاد پر تبدیلی لانا چاہئے۔

امام نے بھی تبدیلیوں کے میدان میں جو بھی اقدامات انجام دئے سب اسی اسلامی روش اور اسلام کے معرفتی اصولوں پر استوار تھے۔ امام نے اسی دائرے میں رہتے ہوئے عمل کیا۔ اگر ایسا مستحکم فکری ذخیرہ موجود نہ ہو تو انسان کے ذریعے لائی جانے والی تبدیلی غلط ہوگی، انسان غلط قدم اٹھا سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ استقلال کا فقدان ہوگا یعنی ایسی تبدیلی میں ثبات نہیں رہے گا۔ کبھی کبھی کچھ لوگوں کی یاد آتی ہے۔ ہمارے انقلاب میں بھی کچھ لوگ تھے جو انقلابی تھے، انقلاب کے چاہنے والے تھے لیکن چونکہ ان کی فکری بنیادیں مستحکم نہیں تھیں، ان کے ایمان کی بنیادیں محکم اور مضبوط نہیں تھیں، محکم عقلی دلائل اور مستحکم استدلال پر استوار نہیں تھیں اس لئے جب تھوڑا وقت گزرا اور نوجوانی کا دور ختم ہو گیا تو وہ انھیں ڈھانچوں میں تبدیل ہو گئے جن کے خلاف یہ انقلاب رونما ہوا تھا۔ یعنی انقلاب نے کچھ ڈھانچوں اور فرسودہ افکار اور کج فکری کو راستے سے ہٹایا۔ بعض نوجوان جو کل تک انقلابی تھے، زندگی کے گوناگوں مراحل سے روبرو ہوئے اور نوجوانی کے ادوار سے گزرے تو وہ انھیں ڈھانچوں کی مانند ہو گئے یا بعینہ انھیں ڈھانچوں میں بدل گئے۔ انھیں ڈھانچوں جیسے بن گئے۔ امیری فیروزکوہی مرحوم کا ایک شعر ہے؛

شباب عمر به دانش گذشت و شیب به جهل - کتاب عمر مرا فصل و باب، پیش و پس است (12)

واقعی بعض افراد کی یہی حالت ہے۔

فکر و سوچ کا استحالہ اور حقیقی تشخص سے دوری کو تبدیلی نہیں کہتے

ایک نکتہ اور بھی بہت اہم ہے، وہ یہ ہے کہ فکری استحالے کو تبدیلی نہیں کہنا چاہئے۔ پہلوی حکومت سے تھوڑا پہلے اور جس کی شدت پہلوی دور میں زیادہ تھی، ایک چیز جدیدیت کے نام سے ملک میں آئی۔ اسے ملت ایران کی زندگی میں بڑی تبدیلی گردانا جاتا تھا۔ یہ تبدیلی نہیں تھی۔ یہ ملت ایران کا استحالہ تھا۔ ملت ایران سے اس کا تشخص چھیننے کا عمل تھا۔ یعنی در حقیقت اس جدت پسندی میں ملت ایران نے اپنا دینی تشخص، اپنا ملی تشخص اپنی قدیمی تاریخی شناخت گنوا دی۔ یہ ایسی جدت پسندی تھی کہ جس کے تحت پہلوی حکومت کے دور میں کسی حد تک خود رضاخان کے ذریعے اور کافی حد تک رضاخان کے زمانے کے طلسم شدہ اور مغرب زدہ نام نہاد روشن فکروں کے افکار و نظریات کی وجہ سے جو رضاخان کو آمادہ کرتے تھے، سمت دکھاتے تھے، مدد کرتے تھے، اس کے کاموں کی توجیہ پیش کرتے تھے، در حقیقت ملت ایران کی شناخت سلب کر لی گئی۔ یعنی ملت ایران اپنے اس اصلی تشخص سے خارج ہو گئی۔ یہ استحالہ ہے، یہ تبدیلی نہیں ہے۔ تبدیلی تو آگے بڑھنے کا نام ہے، یہ تو پیچھے کی سمت لوٹ جانا تھا۔ ملتیں اگر اپنا تشخص گنوا دیتی ہیں، اگر اپنا روحانی سرمایہ کھو دیتی ہیں یہ تو در حقیقت ان کی تمدنی موت سمجھی جائے گی۔ یہ تمدنی موت ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ یعنی علمی بحث کے میدان میں، سماجی بحث کے میدان میں، یونیورسٹیوں کی بحث کے میدان میں یہ نوبت آ گئی تھی کہ کسی بھی مغربی مفکر کی بات کو قول فیصل شمار کیا جاتا تھا۔ جب بحث کرتے تھے تو کہتے تھے کہ "فلاں مغربی دانشور نے ایسا کہا ہے۔" جب یہ جملہ کوئی کہہ دیتا تھا تو پھر بحث وہیں ختم ہو جاتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تفکر اور تدبر کا راستہ بند کر رہے ہیں۔ جب تقلید شروع ہو گئی، جب دوسروں کے نظریات کی تقلید کا سلسلہ شروع ہو گیا اور حالت یہ ہو گئی کہ انسان بشریات کے کسی موضوع میں مغربی مفکر کی رائے سے آگے جاکر کچھ کہنے کی ہمت نہ کر سکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تفکر کا عمل ترک کر دینا چاہئے، استنباط کو خیرباد کہہ دینا چاہئے، صرف تقلید کرنا چاہئے۔ یہ انبیاء کی تعلیمات کے عین مخالف ہے: «یُثیروا لَهُم دَفائِنَ العُقول‌» (13) عقل کے دفینوں کو، فکری دفینوں کو انسانوں کے اندر متحرک کرنا، متلاطم کرنا اور سامنے لانا۔ یہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ ایک نکتہ یہ بھی ہے۔

تبدیلی کے عمل میں صبر و تحمل اور قابل اعتماد رہنما کی ضرورت

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ تبدیلی لازمی طور پر یکبارگی پیش آنے والا واقعہ نہیں ہے۔ کبھی کبھی تبدیلی تدریجی طور پر انجام پاتی ہے۔ بے صبری نہیں دکھانا چاہئے۔ اگر ہدف درست ہو، صحیح ٹارگٹ چنا گیا ہو اور حقیقی معنی میں پیش قدمی کا عمل شروع ہو جائے تو اگر تبدیلی کی منزل تک رسائی میں کچھ وقت لگے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس راستے کو طے کرنا ہے، تحرک انجام دینا ہے۔ بے صبری نہیں دکھانا چاہئے۔ یہ سوچنا درست نہیں ہے کہ دفعتا ایک بڑی دگرگونی ہو جائے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔

اغیار کی مہربانی سے اقتدار پانے والی حکومتوں نے جو جدت پسندی پیش کی اس کی خرابی یہی تھی کہ کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں تھا۔ ایک خامی یہ بھی تھی۔ جو تبدیلی تدریجی طور پر انجام پانی ہے اس میں ایک قابل اعتماد رہنما کا ہونا بھی ضروری ہے۔ معتمد اور قابل اعتماد رہنماؤں کا ہونا ضروری ہے جو تبدیلی کے عمل کی قیادت کریں، ورنہ اگر کوئی رہنمائی کرنے والا نہ ہو تو وہی حالت ہوگی جو ان ایام میں تھی۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے۔

سطحی اور جلدبازی میں انجام دئے جانے والے کاموں سے اجتناب

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ سطحی اور معمولی اقدامات کو بنیادی تبدیلی نہیں سمجھنا چاہئے۔ بعض سطحی کام، جو جلدبازی میں بخوبی سوچے سمجھے بغیر انجام دے دئے جاتے ہیں انھیں تبدیلی نہیں کہا جا سکتا۔ کبھی اندرونی ہیجان کی تسکین کے لئے کوئی کام انجام دیا جاتا ہے جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ تبدیلی گہرائی سے انجام دیا جانے والا عمل ہے، ایک بنیادی کام ہے جو انجام پاتا ہے۔ بے شک رفتار کی بھی اہمیت ہے لیکن تیز رفتاری اور جلدبازی میں فرق ہے۔ تو یہ چند نکات تبدیلی کے تعلق سے ہیں جن کو ہمیں پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ملت ایران، خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کو اس کی فکر میں رہنا چاہئے اور ان نکات کو مد نظر رکھنا چاہئے۔

سماج میں تبدیلی کی ضرورت کی فہرست اور کچھ نمونے

سوال یہ ہے کہ تبدیلی کن میدانوں میں ضروری ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اس موضوع پر تفصیلی بحث درکار ہے جس میں یہ طے کیا جانا چاہئے کہ کن میدانوں میں ہمیں نقائص کا سامنا ہے اور کہاں ہمیں حقیقی معنی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ تاہم بطور مثال ایک فہرست پیش کی جا سکتی ہے اور کچھ نمونے گنوائے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اقتصادی میدان میں تبدیلی کا یہ مطلب ہے کہ ہم ملکی معیشت کا تیل پر انحصار ختم کریں۔ یعنی تیل کی آمدنی سے بے نیاز معیشت بنائیں۔ یہ حقیقی معنی میں بنیادی تبدیلی ہوگی۔ یا مثال کے طور پر حکومتی بجٹ کی تخصیص کے وقت حکومت اور پارلیمنٹ اس انداز سے بجٹ تیار کریں کہ حقیقی معنی میں وہ مسئلے، موضوع اور کارکردگی کے محور پر تقسیم ہو۔ دوسرے الفاظ میں آپریشنل بجٹ ہو۔ ویسے دعوی تو یہی کیا جاتا ہے۔ حکومتیں عام طور پر دعوی کرتی ہیں کہ بجٹ کی تخصیص آپریشنل اور کارکردگی پر استوار ہے، لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ ملکی بجٹ کی اگر صحیح انداز میں تخصیص کی جائے تو اقتصادی میدان میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوگی۔ یا مثال کے طور پر تعلیم و تربیت کے میدان میں، ہمارے تعلیمی شعبے میں واقعی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ تعلیمی میدان میں حقیقی تبدیلی یہ ہے کہ ہم یونیورسٹی کی سطح پر، کالج اور اسکول کی سطح پر بلکہ پرائمری اسکول کی سطح پر عمیق تعلیم دیں، عمیق اور کارآمد تعلیم دیں، رٹوانے کی روش سے اجتناب کریں۔ دروس اور بحثیں مفاد اور نتائج پر مرکوز ہوں۔

ہمارے اسکولوں میں اور ہماری یونیورسٹیوں میں کچھ دروس ایسے پڑھائے جاتے ہیں جن کا پڑھنے والے کے لئے عمر کے آخر تک کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ اس میدان میں کوئی مہارت حاصل نہیں ہوگی، اس میدان میں اس کو ملنے والی اطلاعات بھی کوئی خاص کارآمد اطلاعات نہیں ہیں۔ جنرل نالج کی طرح کچھ چیزیں یاد کر لیتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور وقت بھی صرف ہوتا ہے۔ یعنی تعلیم کے میدان میں اگر آپ واقعی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو تبدیلی یہ ہے کہ درس مفادات پر مرکوز ہو، اس میں گہرائی ہو، کارساز ہو۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کے لئے جو اصلاحاتی پروگرام تیار کیا گیا ہے(14) اگر اسے نافذ کر دیا گيا اور اس پر عمل ہوا تو ان میں سے بعض ضرورتیں پوری ہو جائیں گی۔

یا سماجی مسائل کے میدان میں، مثلا انصاف کی فراہمی کا مسئلہ ہے۔ یا نشے جیسی مشکلات کے بنیادی حل کا مسئلہ ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب سماجی برائیاں ہیں، انھیں ہم کو حل کرنا ہے۔  یعنی کنبے اور خاندان کے مسائل میں واقعی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ آج مصدقہ رپورٹیں ہمیں بتا رہی ہیں کہ ملک کی آبادی تیزی سے بڑھاپے کی سمت جا رہی ہے۔ یہ بڑی دہشت ناک خبر ہے، بہت بری خبر ہے۔ یہ ان چیزوں میں ہے کہ جس کے عواقب ایسے وقت نمودار ہوں گے جب ان کے تدارک کا کوئی راستہ نہیں بچا ہوگا۔ ان چیزوں کو حقیقی تبدیلی کے ذریعے انجام دیا جا سکتا ہے۔ ان میدانوں میں تبدیلی آنا چاہئے۔

تبدیلی کی شرط دشمنی اور مخالفتوں سے نہ گھبرانا

تبدیلی لانے کی اہم شرط ہے دشمن اور دشمنیوں سے ہراساں نہ ہونا۔ اللہ تعالی اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے: «وَ تَخشَى النّاسَ وَاللهُ أَحَقُّ أَن تَخشاهُ» (15) لوگوں سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ لوگوں کی چہ میگوئیوں سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ ہر مثبت اقدام اور اہم کام کے ممکن ہے کہ کچھ لوگ مخالف ہوں۔ مخالف ظاہر ہے مخالفت کرے گا۔ آج سوشل میڈیا کا دور آ گيا ہے تو مخالفتوں کی نوعیت بھی ٹکراؤ والی، شدید اور تکلیف دہ ہو گئی ہے۔ اگر کوئي صحیح، پختہ اور نپی تلی مہم چلائی جا رہی ہے تو ان چیزوں پر توجہ نہیں دینا چاہئے۔ بیرونی دشمن پر اعتنا نہیں کرنا چاہئے۔ ملک کے اندر اصلاحات کے لئے جو بھی کام انجام دیا جاتا ہے اس کے خلاف دشمنوں کا ایک وسیع محاذ موجود ہے جو بیٹھ کر ہمیشہ یہ سوچا کرتا ہے کہ اپنا وار کیسے کرے۔ عسکری سطح پر بھی اور فکری و تشہیراتی سطح پر بھی۔ فکری و تشہیراتی سطح پر ضرب یہی ہے کہ ملک میں کلیدی، منطقی اور درست فیصلوں پر وہ حملہ کرتے ہیں، اسے نابود کر دینے اور ختم کر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ آگے بڑھنا چاہئے۔ میری نظر میں اس کا طریقہ یہ ہے کہ نوجوان فورس موجود ہو کیونکہ جو لیت و لعل میں نہیں پڑتی، جو نہیں ڈرتی، بے خوفی کے ساتھ کام کرتی ہے اور آگے بڑھتی ہے وہ نوجوان فورس ہے۔ البتہ نوجوان فورس کی شراکت اسی شکل میں ہو جو میں عرض کر چکا ہوں۔ یعنی نوجوانوں کی فکر سے نوجوانوں کے جوش و جذبے سے اور ان کے اندر اقدام، جرئت اور آگے بڑھنے کا جو جذبہ ہوتا ہے اس سے استفادہ کیا جائے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیر جوان انسانی سرمائے کی نفی کر دی جائے۔ بلکہ یہ شرط ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔

اللہ پر اعتماد کے نتیجے میں مخالف طاقتوں کا زوال اور تنزل

خوش قسمتی یہ ہے کہ جب ملک اللہ پر اعتماد کرتا ہے تو نتیجہ یہی ہوتا ہے جو آج آپ دیکھ رہے ہیں۔ دشمن محاذ کا ایک حصہ سوویت یونین پر مشتمل تھا جس کا شیرازہ بکھر گیا، اس محاذ کا دوسرا حصہ امریکہ پر مشتمل ہے اور آج آپ امریکہ کی آشفتہ حالی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ آج جو کچھ امریکہ کے شہروں میں اور ریاستوں میں نظر آ رہا ہے وہ ایسے حقائق کا ظہور ہے جنہیں ہمیشہ پوشیدہ رکھا جاتا تھا۔ یہ نئی چیزیں نہیں ہیں۔ یہ حقائق کا ظہور ہے۔ حوض کی تہہ میں جمع کیچڑ کبھی سطح پر نظر آنے لگتا ہے، یہ وہی حالت ہے۔ یہ چیز کہ مثلا ایک پولیس اہلکار بڑے سکون سے ایک سیاہ فام کے گلے پر اپنا گھٹنا رکھ دیتا ہے اور اتنی دیر تک دبائے رکھتا ہے کہ وہ ہلاک ہو جاتا ہے، وہ التجائیں کر رہا ہے، مدد مانگ رہا ہے اور یہ بڑے سکون سے اس کا گلا دبائے ہوئے ہے، کچھ دوسرے پولیس اہلکار کھڑے ہوکر تماشا دیکھ رہے ہیں، کوئی کچھ نہیں کرتا، یہ ایسی چیز نہیں ہے جو اس وقت اچانک پیدا ہو گئی ہے۔ امریکیوں کی سرشت یہی ہے۔ امریکیوں نے اب تک ساری دنیا کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ افغانستان کے ساتھ انھوں نے یہی کیا، عراق کے ساتھ یہی کیا، شام کے ساتھ یہی کیا، دنیا کے بہت سے ممالک کے ساتھ، کافی پہلے ویتنام کے ساتھ انھوں نے یہی کیا ہے۔ یہی امریکیوں کا طریقہ ہے، یہی امریکی حکومت کا مزاج ہے جو آج اس شکل میں نظر آ رہا ہے۔ یہ جو عوام آج نعرے لگا رہے ہیں: "ہمیں سانس لینے دو" یا "ہم سانس نہیں لے پا رہے ہیں" آج مختلف ریاستوں میں، مختلف شہروں میں ہونے والے وسیع مظاہروں میں امریکی عوام کا یہی نعرہ ہے، یہ در حقیقت ان قوموں کے دل کی آواز بھی ہے جہاں امریکہ ظالمانہ انداز میں وارد ہوا اور ستم ڈھائے ہیں۔

امریکی حکومت کی رسوائی اور ملت امریکہ کی شرمندگی

توفیق خداوندی سے، لطف الہی سے امریکی خود اپنے روئے کی وجہ سے رسوا ہوئے۔ کورونا کے قضیئے میں ان کے انتظامی اقدامات ایسے تھے کہ ساری دنیا میں وہ ذلیل ہوئے اور یہ رسوائی اب بھی جاری ہے۔ حالانکہ دوسرے بہت سے ملکوں سے کافی دیر میں وہ اس بیماری میں مبتلا ہوئے، وہ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کر سکتے تھے اور ضروری تیاریاں انجام دے سکتے تھے، مگر انتظامی سطح پر موجود کمزوریوں کی وجہ سے دیگر ممالک کے مقابلے میں ان کا جانی نقصان کئی گنا زیادہ ہے، ان کے مسائل بھی اسی طرح زیادہ ہیں۔ وہ سنبھال نہیں پائے اور نہ سنبھال پائیں گے۔ اس کی وجہ امریکہ کے حکمراں نظام میں موجود بدعنوانی کی خصوصیات ہیں۔ یہ عوامی امور کو سنبھالنے کا ان کا طریقہ ہے اور یہ عوام کے ساتھ ان کا برتاؤ ہے! ان کی زبان بھی بہت لمبی ہے۔ انسانوں کو قتل کرتے ہیں، آشکارا اور صریحی جرائم کرکے اپنی حقیقت دکھاتے ہیں، معافی بھی نہیں مانگتے اور ساتھ ہی زبان بھی بہت لمبی ہے! کہتے ہیں: "انسانی حقوق"! وہ سیاہ فام شخص جو وہاں قتل کر دیا گیا شاید انسان نہیں تھا اور اس کے کوئی حقوق بھی نہیں تھے۔ یہ حالت ہے!

بہرحال میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اس وقت پھر دہراتا ہوں کہ میرے خیال میں امریکہ کے عوام کو اپنی حکومتوں کی وجہ سے ذلت اور شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ واقعی یہ بالکل بجا ہے کہ امریکی قوم اس وقت امریکہ میں بر سر اقتدار حکومت پر شرمندگی کا احساس کرے۔ وہ لوگ بھی جو ہمارے ملک میں ہیں یعنی وہ ایرانی جو ہمارے ملک میں ہیں یا وہ ایرانی جو ملک سے باہر ہیں اور جن کا کام ہی امریکہ کی حمایت کرنا، دفاع کرنا اور اس کی خرابیوں کو چھپانا ہے، وہ بھی میرے خیال میں اب اس وقت پیش آنے والی حالت کے بعد سر نہیں اٹھا پائیں گے۔

دعا کرتا ہوں کہ خداوند عالم دنیا کے واقعات و تغیرات کو ملت ایران کے مفاد کے رخ پر موڑ دے اور اسلامی جمہوریہ کی قوت  و طاقت میں  روز افزوں اضافہ کرے۔ ہمارے عزیز امام کی روح مطہرہ کو، ہمارے عزیز شہیدوں اور ہمارے حالیہ عزیز شہید، شہید سلیمانی کو ان شاء اللہ اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرمائے۔

و السّلام علیکم و ‌رحمة الله

1 سورۂ مبارکہ سبا، آیت 46 کا ایک حصہ

2  نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 1

3 شہید آیۃ اللہ عطاءاللہ اشرفی‌اصفہانی، پانچویں شہید محراب

4 شہید آیۃ اللہ سیّدعبد الحسین دستغیب، تیسرے شہید محراب

5 مرحوم شہید بریگیڈیر ولی‌اللہ فلّاحی، بنی‌صدر کے بعد چیف آف اسٹاف کے عہدے پر منصوب ہوئے۔

6 مرحوم بريگيڈیر قاسم علی ظہیرنژاد، سن 1979 سے فوج کے کمانڈر کی ذمہ داری سنبھالی۔

7  حبیب‌اللہ عسگراولادی

8 سورۂ مبارکہ انفال، آیت 17 کا ایک حصہ۔ ترجمہ: (اے رسول!) جب آپ نے ان کی جانب کنکریاں پھینکیں تو آپ نے نہیں پھینکیں

9 سورہ رعد آیت نمبر 11 کا ایک حصہ: «...در حقیقت اللہ تعالی کسی بھی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود کو تبدیل نہیں کرتی۔...»

10 سوره‌ انفال، آیت نمبر 53 کا ایک حصہ«یہ سزا اس لئے ہے کہ اللہ تعالی کسی بھی قوم کو عطا کی جانے والی نعمت میں تبدیلی نہیں کرتا سوائے اس کے کہ وہ اپنے اندرونی حالات کو تبدیل کر دے۔..»

11  مصباح ‌المتهجّد، جلد۲، صفحہ ۸۴۴

12 غزلیّات، غزل نمبر ۹۱

13) نهج‌ البلاغه، خطبه ۱نمبر

14) تعلیم و تربیت کی اصلاحاتی دستاویز

15  سوره‌ احزاب، آیت نمبر 37 کا ایک حصہ «...لوگوں سے ڈرتے تھے جبکہ سزاوار یہ  تھا کہ اللہ سے ڈرو۔...»