امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے ایام کی مناسبت سے آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR   آپ کی تقاریر کے اقتباسات کی روشنی میں قیام عاشورا کے نتائج، خصوصیات اور اہداف کا ایک خاکہ  پیش کر رہی ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباسات میں قیام عاشورا کے نتائج کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔

ذرا سوچو! اگر ہم نہ جاتے تو کیا ہوتا!

روایت میں ہے کہ سانحہ عاشورا کے بعد جب امام سجاد علیہ السلام مدینہ لوٹے... تو ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ اے فرزند رسول! آپ نے دیکھا کہ آپ گئے تو کیا ہوا؟!...کارواں لوٹا ہے تو صرف ایک مرد امام سجاد علیہ السلام اس کارواں میں ہیں۔ عورتوں نے اسیری کی مصیبت اٹھائی، رنج و غم برداشت کیا۔ آقا حسین نہیں ہیں، علی اکبر نہیں ہیں، یہاں تک کہ شیر خوار بھی اب قافلے میں نہیں ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اس شخص کے جواب میں فرمایا: ذرا سوچو کہ اگر ہم نہ جاتے تو کیا ہوتا؟! بے شک اگر ہم نہ جاتے تو یہ جسم زندہ بچ جاتے لیکن حقیقت نابود ہو جاتی، روح مٹ جاتی، ضمیر پامال ہو جاتے۔ پوری تاریخ میں عقل و منطق کی مذمت ہوتی۔ اسلام کا نام تک نہ بچتا۔  18 مارچ 2002

قتل کر دئے جانے کا مطلب شکست کھا جانا نہیں ہے۔ جنگ میں شکست اس کی ہوتی ہے جو اپنا ہدف پورا کرنے میں ناکام ہو جائے۔ ضروری نہیں ہے کہ جو قتل کر دیا گیا اس کو شکست ہو گئی۔ 1 جولائی 1992

کیونکہ امام حسین علیہ السلام کے دشمنوں کا مقصد یہ  تھا کہ اسلام کو اور نبوت کی یادگاروں کو روئے زمین سے مٹا دیں۔ انھیں شکست ہوئی کیونکہ یہ ہدف پورا نہیں ہوا۔ 1 جولائی 1992

-1 قیام عاشورا کے کوتاہ مدتی نتائج

امام حسین علیہ السلام کوتاہ مدت میں بھی فتحیاب ہوئے۔ کوتاہ مدتی فتح یہ تھی کہ اس قیام نے، اس مظلومانہ شہادت اور اس عظیم ہستی کے اہل خانہ کی اسیری نے بنی امیہ کے نظام حکومت کی چولیں ہلا دیں۔ اس سانحے کے بعد دنیائے اسلام میں، مدینہ میں اور مکہ میں پے در پے کئی واقعات رونما ہوئے اور آخرکار آل ابو سفیان کا سلسلہ حکومت مٹ گیا۔ تین چار سال کے اندر آل ابی سفیان کا سلسلہ پوری طرح زمیں بوس ہوکر ختم ہو گیا۔ 1 جولائی 1992

قیام عاشورا کے بعد بنی امیہ کا سلسلہ حکومت بھی ختم ہوا اور امام حسین علیہ السلام کی تحریک نے عوام الناس کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اب ذمہ داری سے منہ چرانے کے بجائے فرض شناسی کا جذبہ اور ظلم کی مخالفت کی جرئت عام ہو گئی۔ امام حسین کی تحریک کے بعد ظالم حکمرانوں کے خلاف پے در پے بغاوتیں ہونے لگیں۔ یہ اس بڑی تبدیلی کا نتیجہ تھا۔

کون سوچ سکتا تھا کہ اس وقت کے یزیدی ظلم و فساد کے خلاف قیام کرنا چاہئے؟ ایسے حالات میں عظیم حسینی تحریک رونما ہوئی جس نے دشمن کا بھی مقابلہ کیا اور عام مسلمانوں کے درمیان تباہی پھیلانے والے فساد کو آرام سے تحمل کر لینے والی راحت طلبی سے بھی مقابلہ کیا۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ یعنی امام حسین نے وہ قدم اٹھایا جس نے لوگوں کے ضمیروں کو بیدار کیا۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یکے بعد دیگرے اسلامی بغاوتیں شروع ہو گئیں۔۔۔۔حسین ابن علی علیہ السلام نے  وہ کارنامہ انجام دیا کہ طاغوتی حکومتوں کے تمام ادوار میں ایسے افراد سامنے آتے رہے جو صدر اسلام سے کافی دور ہونے کے باوجود ظلم و فساد سے محاذ آرائی کے مضبوط ارادے کے حامل تھے۔ قوموں کے اندر ایسے افراد مسلسل پیدا ہوتے رہے۔ ان قیاموں کو کس نے وجود عطا کیا؟ حسین ابن علی علیہ السلام نے۔ اگر امام حسین قیام نہ کرتے تو تساہلی اور ذمہ داریوں سے بھاگنے کی عادت کی جگہ فرض شناسی اور ظلم سے پیکار کا جذبہ لے پاتا؟ امام حسین کے قیام سے پہلے تک تو خواص بھی کوئی قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھے، لیکن امام حسین علیہ السلام کے قیام کے بعد یہ جذبہ بیدار ہو گیا؟ 2 ستمبر 1992

-2 قیام عاشورا کے دراز مدتی نتائج

کوتاہ مدتی ثمرات کے ساتھ ہی قیام عاشورا کے کچھ غیر معمولی اور بنیادی نتائج بھی نکلے جنہیں رہبر انقلاب اسلامی امام حسین کے قیام کے دراز مدتی نتائج کا نام دیتے ہیں:

دراز مدت میں بھی امام حسین علیہ السلام فتحیاب ہوئے۔ آپ تاریخ اسلام پر نظر ڈالئے اور غور کیجئے کہ دنیا میں دین کو کتنا فروغ ملا! اسلام کی جڑیں کتنی گہری ہوئيں! کس طرح اسلامی اقوام میں بیداری پھیلی اور پروان چڑھی!  اسلامی علوم کو پیشرفت حاصل ہوئی، اسلامی فقہ کو پیشرفت حاصل ہوئی اور صدیاں گزر جانے کے بعد آج پرچم اسلام دنیا کے بلند ترین مقامات پر لہرا رہا ہے۔ کیا یزید اور یزیدی خاندان کو یہ پسند تھا کہ اسلام اس طرح روز بروز فروغ پائے؟ وہ تو اسلام کی جڑ ہی کاٹ دینے کے در پے تھے۔ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کا نام و نشان مٹا دینا چاہتے تھے۔ لیکن جو ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ 1 جولائی 1992

قیام عاشورا کا سب سے اہم نتیجہ اور ثمرہ اسلام کی حفاظت و بقا ہے:

دین کی بنیاد اور جڑ عاشورا پر ٹکی ہوئی ہے اور اسی کی برکت سے دین باقی ہے۔ اگر حسین ابن علی علیہ السلام کی وہ عظیم قربانی نہ ہوتی جس نے تاریخ کے ضمیر کو پوری طرح بیدار کر دیا تو پہلی صدی ہجری یا دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سال کے اندر ہی اسلام کی بساط لپیٹ دی گئی ہوتی۔ 16 جون 1993

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسین علیہ السلام کے بچپن میں فرمایا تھا: "حسینُ مِنّی وَ أنا مِن حسین" یہ قول امام حسین کے قیام کے بعد عملی شکل میں نظر آیا۔ نبوی تحریک اور حسینی قیام ایک ہی مرکز والے دائرے کی مانند ہیں۔ ان کی سمت ایک ہے۔ یہیں اس قول کا مفہوم واضح ہوتا ہے؛ «حسین مِنّی وَ أنا مِن حسین» 14 دسمبر 1996

آخری نکتہ:

آخری نکتہ یہ کہ عاشقانہ طرز فکر اور عاشقانہ نظر کے بغیر کربلا کے واقعات کو سمجھ پانا ممکن نہیں ہے۔ عاشقانہ نظر سے دیکھنا ہوگا تب سمجھ میں آئے گا کہ حسین ابن علی نے تقریبا ایک شب اور نصف روز کی اس مدت میں یا ایک شب و روز کے اندر عصر تاسوعا سے لیکر عصر عاشور تک کی مدت میں کیا کارنامہ انجام دیا، کیا عظمت پیدا کر دی! یہی وجہ ہے کہ یہ واقعہ دنیا میں لا زوال ہو گیا اور تا ابد باقی رہے گا۔ 8 مئی 1998