ویڈیو لنک کے ذریعے ملٹری آفیسرز یونیورسٹیوں کی پاسنگ آوٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے کہا کہ ملکی سلامتی کے تحفظ کے علاوہ بھی مسلح افوج کے کاندھوں پر اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 12 اکتوبر 2020 کے اپنے اس خطاب میں مسلح افواج کی ٹریننگ یونیورسٹیوں میں حصول علم کو قابل فخر اور اہم قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان مسلح افواج کا حصہ بن کر ملکی سلامتی کا تحفظ کرتے ہیں جو کسی بھی ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دفاعی قوت قومی اقتدار اعلی کا اہم ستون ہے۔ اگر قوموں کے پاس دفاعی قوت نہ ہو تو امریکہ اور بعض دیگر ممالک جو ملکوں اور قوموں کے خلاف جارحیت کے عادی ہیں انھیں چین سے نہیں رہنے دیں گے اور ان کی ہر چیز پر حملہ کریں گے۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین. السّلام علی الحسین و علی علیّ بن الحسین و علی اولاد الحسین و علی اصحاب الحسین.
مسلح فورسز کی یونیورسٹیوں کے تجربات کا لین دین اور باہمی تعاون اچھی خبر اور نئے مواقع کی ایجاد
سب سے پہلے تو میں مبارکباد پیش کرتا ہوں مسلح فورسز کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی بابت اپنے شجاع اور تجربہ کار عزیز نوجوانوں کو بھی اور اس یونیورسٹی میں نئے داخلے لینے والے اور ان افتخار آمیز مراحل کو طے کرنے کے لئے خود کو آمادہ کرنے والے نوجوانوں کو بھی۔ مسلح فورسز کے چیف آف اسٹاف محترم کمانڈر، مسلح فورسز کی یونیورسٹیوں کے کمانڈروں کی مختصر اور مفید رپورٹوں اسی طرح تقریب کے محترم ناظم کی شائستہ نظامت اور فصاحت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایک وقت پر اور ایک جگہ پر مسلح فورسز کی تمام یونیورسٹیوں کی اس تقریب کا انعقاد اپنے آپ میں ایک خوش خبری بھی ہے کہ اس سے مسلح فورسز کی یونیورسٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے، باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ان کا یہ رابطہ ان یونیورسٹیوں کے لئے سودمند ہے۔ اس اجتماع کے لئے جو جگہ چنی گئی ہے وہ بھی درخشاں ریکارڈ کی حامل امام علی یونیورسٹی ہے۔ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ آٹھ سالہ جنگ کے اوائل میں اسی یونیورسٹی کے کچھ کیڈٹس اہواز گئے، سوسنگرد گئے اور جنگ میں مصروف ہو گئے۔ وہ ہنوز طالب علم تھے لیکن طالب علمی کے دور سے ہی انھوں نے اپنا جہاد شروع کر دیا۔
سلامتی کسی بھی ملک کے لئے نہایت کلیدی سرمایہ اور حیاتی فیکٹر
میرے عزیزو! کسی بھی کام کو جو چیزیں اہم بناتی ہیں ان میں سے ایک اس کام کا مقصد ہے۔ اگر ہم کاموں کی اہمیت کو پرکھنا چاہیں تو ان کاموں کے اہداف کو دیکھنا ہوگا۔ اگر یہ پیمانہ درست ہے اور واقعی یہ بالکل درست ہے، تو ڈیفنس یونیورسٹیوں میں، مسلح فورسز کے اداروں سے وابستہ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنا بہت عظیم اور بہت قیمتی عمل ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہمارے نوجوان مسلح فورسز میں بھرتی ہوتے ہیں جو ملک کی سلامتی کو تحفظ عطا کرتی ہیں اور کسی بھی ملک کے لئے سلامتی بہت قیمتی اور اساسی شئے اور حیاتی فیکٹر ہے۔ کیونکہ اگر سلامتی نہ ہو تو ملک کے سارے اہم امور مشکلات میں پڑ جاتے ہیں۔ رفاہی امور، عدل و انصاف کے امور، علم پروری اور دیگر تمام اہم چیزیں سب۔ لہذا ان یونیورسٹیوں میں داخلہ بہت اہم موقع فراہم کرتا ہے، یہ بڑا عظیم عمل ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے اور فارغ التحصیل ہونے کے نتیجے میں آپ ان شاء اللہ ایک بے حد اہم کام کے لئے آمادہ ہوں گے اور وہ ہے ملک و ملت کی سلامتی کی حفاظت۔
مختلف میدانوں میں مسلح فورسز کی طرف سے قوم کی خدمات
بے شک سلامتی کے تحفظ کے ساتھ ہی دوسرے بھی اہم کام ہیں جن کی ذمہ داری مسلح فورسز کے دوش پر ہے۔ ہماری مسلح فورسز کے لئے ان میں سب سے عظیم کام قوم کی خدمت انجام دینا ہے۔ فوج، پاسداران انقلاب فورس، پولیس فورس اور رضاکار فورس نے گزشتہ برسوں میں اور خاص طور پر اس حالیہ زمانے میں ملت ایران کی گوناگوں خدمات انجام دی ہیں۔ انفراسٹرکچر سے مربوط خدمات جیسے ڈیم، سڑکوں اور ریفائنریوں وغیر کی تعمیر، اسی طرح طبی و معالجاتی میدان کی خدمات، پولیو ویکسینیشن کے میدان کی خدمات مسلح فورسز کے ذریعے انجام پانے والے عظیم کام ہیں۔ اس وقت کورونا وائرس کی وبا کے سلسلے میں بھی واقعی مسلح فورسز پوری طرح میدان میں سرگرم عمل ہیں اور ضروری کام اور خدمات انجام دے رہی ہیں۔ معیشتی امداد کے میدان میں بھی مسلح فورسز کے ذریعے بہت اچھی خدمات انجام پا رہی ہیں۔ البتہ ان خدمات کی وہ پبلسٹی نہیں کرتیں، تشہیر نہیں کرتیں لیکن بہت اچھے کام انجام دے رہی ہیں جن کی ہمیں اطلاع ہے۔ اسی طرح ہمدلی کی تحریک اور مومنانہ امداد کے مشن میں بھی گزشتہ مہینوں کے دوران مسلح فورسز نے اہم رول ادا کیا۔ سیلاب، زلزلہ وغیرہ جیسی قدرتی آفات کے مواقع پر بھی مسلح فورسز کا کردار بہت نمایاں ہے۔ 2019 میں آنے والے سیلاب کے وقت اور اس سے پہلے کرمان شاہ کے زلزلے کے موقع پر واقعی انہوں نے بہت اہم خدمات انجام دی ہیں۔ لہذا ہماری مسلح فورسز بحمد اللہ بہت باوقار، با عظمت اور اہم ہیں۔ اس کا ہر کوئی مشاہدہ کر سکتا ہے۔
قومی اقتدار اعلی کے تین ستون دفاعی توانائی، اقتصادی استحکام اور ثقافتی قوت
میرے عزیزو! دفاعی قوت قومی اقتدار اعلی کا ایک ستون ہے۔ اگر ہم قومی اقتدار اعلی کے تین بنیادی ستون تصور کریں تو ان میں ایک ستون اقتصادی استحکام و ثبات بھی ہے جو بہت اہم ہے، ایک ستون ثقافتی توانائی اور مضبوطی ہے۔ یہ بھی بہت بنیادی چیز ہے۔ اسی طرح دفاعی قوت بھی ہے۔ کسی بھی ملک کے لئے دفاعی قوت کی بڑی اہمیت ہے۔ قومی اقتدار اعلی کے لئے یہ بہت اہم چیز ہے۔ اگر قوموں کے پاس دفاعی قوت نہ ہو تو دوسرے ملکوں کے خلاف جارحیت، استحصال، دخل اندازی اور حملے کی خو رکھنے والے جن کے نمونے آج آپ دنیا میں دیکھ رہے ہیں، امریکہ اور بعض دیگر ممالک دوسروں کو چین سے نہیں رہنے دیں گے۔ اگر کسی ملک کے پاس دفاعی قوت نہ ہو تو دوسری طاقتیں اسے سکون سے نہیں رہنے دیں گی۔ اس کی ہر چیز پر حملہ کریں گی۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض ممالک کے خلاف کیسی کیسی جارحیت ہو رہی ہے؟!
قوت و اقتدار کی منطقی اور عقلی بنیادیں
اسلامی جمہوریہ میں اقتدار کی بنیاد ایک منطقی اور عقلی بنیاد ہے۔ یعنی ہم احساسات و جذبات اور توہمات کی بنیاد پر اقتدار کی فکر میں نہیں رہتے بلکہ قومی اقتدار اعلی کے سلسلے میں ہمارے تخمینے منطقی بنیادوں پر استوار ہیں۔ باریک بینی سے طے پانے والے اندازوں پر استوار ہیں۔ دفاعی قوت کا دائرہ اور سطح، مسلح فورسز کا طول و عرض، مسلح فورسز کے درمیان ذمہ داریوں کی تقسیم، گوناگوں دفاعی وسائل کا تعین سب کچھ منطقی اور درست اندازوں کی بنیاد پر انجام پاتا ہے۔ سب کچھ منطقی و عقلی بنیادوں پر استوار ہے، سب کچھ عقلی تقاضوں کے مطابق ہے۔ اگر ہم اپنی دفاعی توانائی کے بارے میں عقل و منطق کی بنیاد پر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ ہم لاحق خطرات کا حقیقی تخمینہ بھی رکھیں۔ دشمن کبھی اچانک حملے کے لئے خطرات کو پوشیدہ رکھتے ہیں اور بعض اوقات دنیا کی اقوام کے اندر خوف و ہراس پھیلانے کے ارادے سے خطرات کو دس گنا بڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ یہ آخر الذکر روش سپر پاور استعمال کرتے ہیں۔ اپنے خطرات کو، اپنی طاقت کو دس گنا بڑھا کر بیان کرتے ہیں کہ دوسروں کو ہتھیار ڈال دینے پر مجبور کر دیں۔ اگر کوئی قوم، کوئی ملک، اس کی مسلح فورسز اور ان فورسز کے عہدیداران اور عمائدین خطرات کی صحیح سطح اور اس کے دائرے کو بالکل درستگی کے ساتھ سمجھ لیں اور دوسری طرف اپنی توانائیوں، قوت اور استعداد کو بھی حقیقت پسندی کے ساتھ سمجھ لیں اور اسے آمادہ بھی کر لیں، منظم کر لیں، تیار کر لیں -وَ اَعِدّوا لَهُم مَااستَطَعتُم (2) جہاں تک ممکن ہو آمادہ ہو جائے، اپنے وسائل کو تیار کر لے اور دشمن کے خطرات کی شدت کو بخوبی سمجھ لے تو اس سے بلا شبہ قومی مفادات کو تحفظ ملے گا، قومی تشخص کی حفاظت ہوگی۔ اگر ان درست اندازوں اور تخمینوں کی بنیاد پر حاصل ہونے والی دفاعی قوت کسی قوم کے پاس ہو تو عہدیداران کے اندر ایک اطمینان ہوگا، عوام کے اندر سکون کی کیفیت ہوگی اور وہ بے فکری کے ساتھ ان بنیادی کاموں میں مصروف ہو جائیں گے جو ایک ملک کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ تو دفاعی قوت کی یہ اہمیت ہے۔
عقل پسندی، صحیح تخمینہ الگ چیز ہے اور دشمن سے ڈر جانا اور میدان چھوڑ دینا الگ شئے ہے
ہم نے عرض کیا کہ عقلمندی کا مطلب ہے صحیح تخمینہ و اندازہ، صحیح اور درست حساب کتاب اور تخمینے کا صحیح نظام۔ یہ معقولیت ہے۔ کچھ لوگ جب عقل اور خرد پسندی کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد ہوتی ہے ڈرنا اور خوفزدہ ہو جانا۔ جب وہ کہتے ہیں کہ عقل سے کام لیجئے تو ان کی مراد ہوتی ہے کہ ڈرئے۔ یعنی خاموش ہوکر بیٹھ جائيے، یعنی دشمن کے سامنے میدان چھوڑ کر بھاگ جائیے۔ نہیں، یہ درست نہیں ہے۔ بزدلوں کو معقولیت اور عقل پسندی کی بات کرنے کا حق نہیں ہے۔ ڈر جانا، بھاگ جانا، میدان چھوڑ دینا عقل پسندی نہیں ہے، اس کا نام وہی خوف، فرار وغیرہ ہی ہے۔ عقل پسندی کا مطلب ہے صحیح تخمینہ اور ادراک۔ البتہ دشمن تو عقل پسندی کے انھیں غلط معانی کو عام کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کچھ لوگ کبھی کبھی نادانستگی میں دشمن کی بات دہرانے لگتے ہیں۔
یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ ہماری میزائل قوت کے خلاف، ہمارے دفاعی نیٹ ورک کے خلاف ریشہ دوانیاں ہو رہی ہیں، منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، ہماری علاقائی توانائیوں کے خلاف جو نہایت اہمیت کی حامل ہیں اور ہماری دفاعی قوت کے لئے بڑی حساس پوزیشن رکھتی ہیں، مسلسل پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، ان کے خلاف زہریلا پرچار کیا جاتا ہے، امریکیوں کی یہ ہرزہ سرائی جو آپ مسلسل سن رہے ہیں، واقعی یہ اوباش اور ہرزہ سرائی کرنے والے ہیں جو منہ میں جو آتا ہے بے سوچے سمجھے، نتائج پر غور کئے بغیر کہہ دیتے ہیں، جہاں بھی جاتے ہیں بیٹھ کر اسلامی جمہوریہ کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں، ان ساری چیزوں کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بنیادی وسائل بڑے درست اور دقیق اندازوں کی بنیاد پر تیار ہوئے ہیں اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ دشمن کا یہ سارا منفی پروپیگنڈا اس میدان میں اس کی پسماندگی اور اس کے خوف کا نتیجہ ہے۔ تو ہمیں تخمینے اور پیشگی جائزے کے اپنے سسٹم کو اسی طرح محفوظ رکھنا ہے، اس میں کوئی رخنہ نہیں پڑنا چاہئے۔ اگر اس سسٹم میں کوئی خلل پڑ گیا تو ہمارے بہت سارے وسائل ضائع ہو جائیں گے اور ہمارے بہترین حالات خراب صورت حال میں تبدیل ہو جائیں گے۔
یہ صرف مسلح فورسز، دفاعی ادارے اور دفاعی توانائی سے مختص نہیں ہے کہ سب کچھ عقل و خرد کے تقاضوں کے مطابق انجام پاتا ہے۔ نہیں، بلکہ ایک ملک اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ کا نظم و نسق چلانے کے لئے تمام کلیدی مسائل میں اگر ہم چاہتے ہیں کہ سب کچھ بنحو احسن انجام پائے، ظاہر ہے اسلام نے عقل و تعقل اور تفکر پر اتنی تاکید کی ہے، تو ہمیں عقل و منطق کے تقاضوں کی بنیاد پر کام کرنا ہوگا۔ ہم ظلم کے خلاف اپنے پیکار کو بھی عقل و منطق کے تقاضوں کے مطابق انجام دیتے ہیں، مساوات کے لئے جدوجہد بھی عقلی تقاضوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ ہماری سماجی جدو جہد بھی عقل و منطق اور صحیح تخمینوں کی بنیاد پر استوار ہونا چاہئے۔ فروعی چیزوں میں ہمیں نہیں الجھنا چاہئے۔ اصلی اور فروعی امور میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔
معیشتی و اقتصادی مشکلات کو حل کرنا پوری طرح ممکن
البتہ ہم نے عرض کیا کہ قومی اقتدار اعلی کا ایک ستون دفاعی قوت ہے، ایک اور اہم ستون اقتصادی امور اقتصادی ثبات و استحکام ہے، اسی طرح ایک اور ستون ثقافتی امور ہیں۔ ثقافتی امور کے سلسلے میں جب مثلا ثقافتی یلغار کی بات ہوتی ہے تو ہم نے دیکھا کہ دشمن بے بس ہوکر رہ گیا۔ ثقافتی یلغار کے خلاف جدوجہد کے نعرے کے خلاف دشمن اپنے وسیع پروپیگنڈے کے ساتھ میدان میں اترا۔ یعنی جب دشمن کو یہ اندازہ ہوا کہ آپ بیدار ہیں، ثقافتی یلغار کو سمجھتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ اس یلغار کا مقابلہ کرنا ہے تو وہ خوفزدہ ہو گیا۔ اقتصادی امور کے سلسلے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ البتہ اقتصادی میدان میں اس وقت دباؤ ہے۔ اس وقت اقتصادی میدان میں ہمیں مشکلات کا سامنا ہے، عوام کی معیشت مشکلات سے روبرو ہے تا ہم یہ ساری مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔ میں یہ نہیں مانتا کہ متعلقہ عہدیداران محنت نہیں کر رہے ہیں۔ کیوں نہیں، بہت محنت سے کام ہو رہا ہے۔ بعض شعبوں میں واقعی بہت اچھا کام ہوا ہے۔ البتہ بعض شعبوں میں انتظامی توانائی میں خامیاں ہیں۔ یہ میں مانتا ہوں کہ ہمارے بعض اقتصادی شعبوں میں مینیجمنٹ کمزور ہے۔ بہت اچھے بل منظور ہوئے ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے یہ بات یہاں اس لئے ذکر کر دی کہ دفاعی قوت کے ساتھ ساتھ جو ہمارا بہت اہم شعبہ ہے، اقتصادی مسائل کا بھی ذکر ہو انھیں فراموش نہ کیا جائے اور ان تمام امور پر جامع نظر رہے۔ مینیجمنٹ بہت قوی ہونا چاہئے، فعال ہونا چاہئے، تھکن کا احساس نہیں ہونا چاہئے۔ جہاں بھی ہمیں ایسے عہدیداران نظر آتے ہیں جو تھکاوٹ کو قریب نہیں آنے دیتے، ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں اور جوش و جذبے سے کام کرتے ہیں وہاں کام بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے بر عکس جہاں بھی دائمی طور پر اور لازمی مقدار میں فعالیت اور کام نہ ہو وہاں یقینا مشکلات پیش آتی ہیں۔
پیداوار کے مسئلے پر بھرپور توجہ، قومی کرنسی کی قدر میں گراوٹ پر روک اور خامیوں کا ازالہ
ہم نے گزشتہ تین سال کے اندر بار بار اقتصادی مسائل کے ان تین بنیادی علاجوں پر تاکید کی ہے۔ علاج یہ ہے کہ ہم پوری توجہ پیداوار کے شعبے پر مرکوز کریں، قومی کرنسی کی قدر میں بار بار ہونے والی گراوٹ کو روکیں اور خامیوں کا ازالہ کریں۔ کچھ خامیاں ہیں جو ملک میں انجام پانے والے بڑے اہم کاموں کے راستے میں بھی بسا اوقات رکاوٹ پیدا کر دیتی ہیں اور ان کے نتائج سامنے نہیں آ پاتے۔ بھرپور کوشش ہونا چاہئے، شب و روز کام ہونا چاہئے، پیہم کام ہونا چاہئے، ان شاء اللہ حالات تبدیل ہوں گے۔
امریکہ کی خبیثانہ پابندیوں کے مقابلے میں استقامت
البتہ امریکہ کی خباثتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ امریکہ کی یہ خبیثانہ پابندیاں حقیقی معنی میں مجرمانہ اقدام ہیں۔ بہرحال ہم تو مزاحمت کریں گے، ہم استقامت کا مظاہرہ کریں گے اور ان شاء اللہ امریکہ کا شدید ترین دباؤ اس کی شدید ترین بدنامی پر منتج ہوگا۔ ہم توفیق خداوندی سے یہ کام کریں گے اور اسے پچھتانے پر مجبور کر دیں گے، لیکن وہ مجرمانہ اقدامات کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ مجرمانہ عمل ہے۔ امریکہ کے صدر خوشی مناتے ہیں کہ: "ہاں ہم نے شدید ترین اقتصادی دباؤ اور حد درجہ سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں اور ایران کی اقتصادیات کو تعطل سے دوچار کر دیا ہے۔" پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مجرمانہ عمل ہے اور صرف آپ جیسے پست افراد ہی جرائم پر فخر کر سکتے ہیں، یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔ آپ ایک قوم کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں! یہ رہی پہلی بات۔ دوسری بات یہ کہ خود آپ کی حالت بہت خراب ہے۔ امریکہ آج ہزاروں ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کے ساتھ، کروڑوں بے گھر، بھکمری کے شکار اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کے ساتھ، یہ خود ان کے اعداد و شمار ہیں، اچھی اقتصادی حالت میں نہیں مانا جا سکتا۔ اس کی اقتصادی حالت روز بروز زیادہ خراب ہوتی گئی، اس کا قرضہ بڑھتا گیا۔ یہ دوسری بات ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ جیسے ہرزہ سرائی کرنے والے، ذلیل، غدار اور مجرم امریکی عہدیداروں کی آرزو کے برخلاف ہم قوت ایمان اور قومی عزم کی طاقت سے مشکلات پر غلبہ حاصل کریں گے اور حالات کو ان شاء اللہ سنبھال لیں گے۔
پابندیوں کو ملکی معیشت کو مستحکم بنانے کے لئے استعمال کیا جائے گا
ان پابندیوں کو ہم اپنی اقتصادیات کو مستحکم بنانے کے لئے استعمال کریں گے۔ یعنی ان شاء اللہ انھیں پابندیوں کے نتیجے میں ہماری معیشت مستحکم ہوگی اور حقیقی معنی میں ہم ملک کے اندر استقامتی معیشت تیار کر لیں گے۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور پھر دہراتا ہوں تاکہ اقتصادی و غیر اقتصادی تمام شعبوں میں سرگرم افراد بخوبی سمجھ لیں کہ تمام مشکلات کا حل ملک کے اندر موجود ہے۔ ہماری بہت سی مشکلات کی جڑ تو بیرون ملک ہے لیکن اس کا حل ملک کے اندر ہی ہے۔ کوئی بھی مشکلات کا حال بیرون ملک تلاش کرنے نہ جائے۔ بیرونی ممالک سے ہمیں کسی خیر اور منفعت کی امید نہیں رکھنا چاہئے۔ حل ملک کے اندر ہے، حل داخلی تدابیر میں مضمر ہے، علاج داخلی کوششوں پر منحصر ہے۔ حل ملکی مسائل اور علاقائی مسائل کے بارے میں داخلی سطح پر درست تخمینے اور تجزئے نیز توانائیوں کے صحیح استعمال پر منحصر ہے۔ پختہ عزم و ارادے کے ساتھ ہم مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں اور امریکی قوم پر مسلط غنڈوں اور اوباشوں کی گیڈر بھبکیوں پر کسی کو توجہ نہیں دینا چاہئے۔
مسلح فورسز کے لئے چند سفارشات:
-1 جدید خطرات کی پیش بینی اور ان سے نمٹنے کے لئے منصوبہ بندی
واپس آتے ہیں مسلح فورسز کے موضوع کی جانب۔ میں چند سفارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ایک سفارش تو یونیورسٹیوں سے متعلق ہے۔ ایک تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ممالک کو، ہمارے ملک اور دیگر ممالک کو در پیش خطرات مسلسل تبدیل ہو رہے ہیں۔ آج جو عسکری خطرہ در پیش ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ بیس سال پہلے بھی عسکری خطرہ رہا ہو۔ جدید عسکری خطرات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ خطرات اپنی ماہیت بدلتے رہتے ہیں۔ تواتر کے ساتھ اپنی شکل بدلتے خطرات سے نمٹنے کے لئے ہماری ڈیفنس یونیورسٹیوں کے پاس منصوبہ ہونا چاہئے۔ یونیورسٹیں کے تحقیقاتی مراکز میں اس پر توجہ دینا چاہئے۔ اس سے نمٹنے کا پروگرام تیار کیا جانا چاہئے۔ اس کے علاوہ بالکل نئے قسم کے خطرات کا بھی پیشگی اندازہ لگائیں۔ مثال کے طور پر آج سائیبر اسپیس کے میدان میں جو خطرات در پیش ہیں دس سال پہلے اس شکل میں موجود نہیں تھے۔ ممکن ہے کہ آئندہ دس سال بعد اسی طرح کے کچھ بالکل نئے خطرات پیدا ہو جائیں۔ تو ہمارے اہل فکر افراد بیٹھیں اور اجتماعی خرد کا استعمال کریں اور ہماری یونیورسٹیوں کے تحقیقاتی مراکز ان خطرات کی پیش بینی کریں۔ ہماری یونیورسٹیوں کی فعالیت کا اہم حصہ اسی پر مرکوز ہونا چاہئے، اس میدان میں یونیورسٹیوں کے پاس ٹھوس نظریات ہونے چاہئے۔
-2 اگلا نکتہ یہ ہے کہ ہماری مسلح فورسز نے مقدس دفاع کے دوران اسی طرح مقدس دفاع کے بعد کے ادوار میں بڑے قیمتی تجربات حاصل کئے ہیں۔ یعنی واقعی آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران میدان جنگ میں جو بعض دفاعی ٹیکٹکس استعمال کی گئیں دنیا میں ان کی نظیر نہیں ہے۔ ہمارے بہت سے فوجی آپریشنوں میں غیر معمولی تجربات حاصل ہوئے ہیں۔ ثامن الائمہ آپریشن سے لیکر فتح المبین، بیت المقدس، خیبر، و الفجر 8، کربلا 5 وغیر جیسے فوجی آپریشنوں تک ان سب میں بڑے کامیاب کارنامے انجام پائے۔ جو فوجی آپریشن کامیاب نہیں ہو سکے جیسے کربلا 4 اور رمضان آپریشن وغیرہ ان میں بھی بڑے قیمتی تجربات ہمیں حاصل ہوئے۔ ہمیں ان تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے۔ آج یونیورسٹیوں میں ان تجربات کا تذکرہ معمول بن چکا ہے، اسے بیان کیا جاتا ہے جو بہت اچھی بات ہے، لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے ان تجربات کو نظریات میں اور دفاعی اسٹریٹیجی میں تبدیل کرکے ان کی تدریس ہونا چاہئے، ان پر تحقیق ہونا چاہئے، ان کے بارے میں تحقیقاتی کام ہونا چاہئے اور انھیں اپ ڈیٹ کیا جانا چاہئے، دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ان میں تبدیلی کرنا چاہئے تاکہ ہم ان شاء اللہ ان سے استفادہ کر سکیں۔ یہ بڑا قیمتی سرمایہ ہے۔ ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے، اس کی توسیع اور تکمیل ہونا چاہئے۔
-3 نوجوانوں کے اخلاقیات اور روحانی تربیت پر خاص توجہ کی ضرورت
ایک اور اہم مسئلہ اخلاقیات کا ہے۔ البتہ جو رپورٹیں یہاں آپ نے پیش کیں اور اس سے پہلے مختلف جگہوں سے مجھے جو رپورٹیں ملیں ان کے مطابق دینی، ایمانی، اعتقادی اور اخلاقی رجحان کے اعتبار سے یونیورسٹیوں میں بہت اچھا کام ہو رہا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس سے زیادہ اخلاقیات پر توجہ دی جائے۔ ہماری یونیورسٹیوں کو چاہئے کہ اس موضوع کو اور بھی اہمیت دیں۔ ہمیں اپنے عزیز نوجوانوں کے نفس کو درخشاں بنانا چاہئے۔ یہ جو نوجوان یہاں ہیں یہ ہمارے عزیز فرزند ہیں۔ ان کی روحیں پاکیزہ اور نفس پاک و سالم ہیں۔ یہ نوجوان ہمارے عوام اور ہمارے معاشرے کے بہترین افراد شمار ہوتے ہیں ۔ جہاں تک ممکن ہو ہم ان کی روح و ضمیر کو سنوارنے کے وسائل فراہم کریں۔ ان کی روحانی تعمیر کا راستہ تقوی ہے، اخلاص عمل ہے، شجاعت ہے، تواضع ہے، فرض شناسی ہے، اسلامی نظام، اسلام اور انقلاب سے کئے گئے عہد کی پابندی ہے۔ یہ روحانی تعمیر کے ذرائع ہیں اور یہ نہایت ضروری چیزیں ہیں۔ البتہ یہ چیزیں صرف مسلح فورسز کے جوانوں سے مختص نہیں ہیں۔ ملک کے تمام نوجوانوں اور ان میں سب سے بڑھ کر انقلابی نوجوانوں اور ان نوجوانوں کے لئے یہ ضروری ہے جو خود کو انقلاب، دینداری اور تقوی کے راستے پر چلنے والا مانتے ہیں، یقینا ایسا ہے بھی۔ انھیں ان التزامات کا خیال رکھنا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ ہمارا نوجوان اگر کسی عہدے پر پہنچ گیا ہے تو اس کی نظر اس سے بڑا عہدہ حاصل کرنے پر لگی رہے یا مال جمع کرنے کی فکر میں پڑ جائے۔ نوجوان کو خلوص سے کام کرنا چاہئے۔ بالکل مقدس دفاع کے زمانے کی مانند۔ اس دور میں واقعی ایسا ہی تھا۔ بہت سے افراد آئے اور انھوں نے اس میدان میں قربانیاں دیں، اخلاص اور جذبہ ایثار کے ذریعے وہ مشن کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد بھی مختلف میدانوں میں یہ سلسلہ قائم رہا۔ دنیوی کامیابیوں کے پیچھے بھاگنے سے کام خراب ہو جاتا ہے۔ اگر ایسے افراد کام انجام دے رہے ہیں جن کا نصب العین دنیوی کامیابیاں، دولت کا حصول، عہدہ و پوزیشن تک رسائی ہے تو اس طرح کام نہیں ہوتا۔ بڑا کام مجاہدت اور اخلاص کے ذریعے بنحو احسن انجام پاتا ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کرنے کے لئے لازمی ضوابط کا تعین
میں آخری بات جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ کورونا سے متعلق ہے۔ میں اپنی تمام تقاریر میں یہ پابندی کرتا ہوں کہ اس مسئلے کا ذکر ضرور ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں ایک بار پھر صحت عامہ اور میڈیکل شعبے کے عہدیداروں کا، عزیز معالجین، نرسوں اور ان تمام افراد کا جو اس میدان میں مصروف خدمت ہیں تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس تیسری لہر میں جو کافی خطرناک بھی ہے، انسان جب اس بیماری میں مبتلا ہونے اور اس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کو دیکھتا ہے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ طبی شعبے میں سرگرم افراد کی قدردانی ہونی چاہئے۔ کیونکہ یہ لوگ واقعی قربانی دے رہے ہیں اور بڑی محنت کر رہے ہیں۔ آج میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو پروٹوکول معین کئے جائیں ان پر عمل لازمی ہو۔ میں یہ بات ایک عرصے سے محترم عہدیداران سے، صدر محترم اور دیگر عہدیداران سے کہہ رہا ہوں کہ ضوابط کی پابندی کو لازمی قرار دیں۔ کچھ شعبے ہیں جہاں بعض سرگرمیوں پر روک لگنا چاہئے، بعض سفر پر روک لگنا چاہئے۔ آپ نے دیکھا کہ ہمارے دیندار اور مومن عوام نے اربعین کے موقع پر سرحد کی طرف جانے سے اجتناب کیا، نہیں گئے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ انسداد کورونا قومی کمیشن نے عزاداری کے سلسلے میں پروٹوکول معین کئے تو دیندار افراد نے اس کی مکمل پابندی کی۔ اب دوسرے شعبوں میں بھی یہی پروٹوکول نافذ کیا جائے اور اسے لازمی بنایا جائے۔ سفر پر بھی کنٹرول ہونا چاہئے۔ بعض سفر ایسے ہیں جن سے بیماری پھیل رہی ہے اور ان احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا ہے تو یہ افسوس کی بات ہے۔ سب قول اور عمل کی سطح پر بہت خیال رکھیں تاکہ اس بیماری سے ہمیں نجات ملے اور قوم ان شاء اللہ اس بیماری اور بڑے امتحان سے نجات حاصل کرے۔
آپ سب کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، آپ کے لئے دعا کروں گا۔ امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو، عہدیداران کو بھی، عزیز نوجوانوں کو بھی اور فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کو بھی روز افزوں توفیقات سے نوازے گا۔
والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته
۱) اس پروگرام کی ابتدا میں مسلح فورسز کے جنرل اسٹاف کے چیف جنرل محمد باقری، امام حسین ڈیفنس یونیورسٹی کے کمانڈر جنرل نعمان غلامی، امام علی ڈیفنس یونیورسٹی کے کمانڈر جنرل علی اوجاقی، امین پولیس اکیڈمی کے کمانڈر جنرل لطف علی بختیاری نے رپورٹیں پیش کیں۔
2) سوره انفال، آیت نمبر ۶۰ کا ایک حصہ