آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج سہ پہر کے وقت فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں دسیوں ہزار زائرین اور روضے کےمجاوروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ تیس برسوں کے دوران اسلامی نظام کے اہم ترین کارناموں اور ثمرات کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے اسلامی انقلاب کے تیسرے عشرے کے آخری سال میں ملک کے لئے خلاقیت و پیش رفت کی اہمیت و ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے چوتھے عشرے میں داخل ہونے کے لئے ملک کو پیش رفت اور عدل و انصاف کی ضرورت ہے اور عدل و انصاف کے زیر سایہ حاصل ہونے والی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ذمہ دار افراد مختلف شعبوں میں اپنے طرز عمل میں خلاقیت کو اولین ترجیح قرار دیں اور عوام کی بھرپور حمایت کے سہارے ان تمام منصوبوں اور کاموں کو جو بہت پہلے یا حالیہ برسوں میں شروع کئے گئے ہیں، نئے سال میں مکمل اور بار آور بنائیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال کو خلاقیت و پیش رفت کے سال سے موسوم کرنے کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی شکل میں سامنے آنے والی ایرانی قوم کی عظیم خلاقیت کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے، دنیا میں برسوں سے جاری اس تقسیم اور گروہ بندی پر خط بطلان کھینچ دیا گيا جس نے ممالک کو تسلط پسند اور تسلط کا نشانہ بننے والوں میں تقسیم کر دیا تھا، اسلامی جمہوری نظام نے دو ٹوک انداز میں اعلان کر دیا کہ وہ تسلط اور سامراج کا مخالف ہے اور سامراجیت کو اپنے لئے غیر قابل قبول سمجھتا ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ تقریبا تیس سال کے عرصے میں اسلامی جمہوری نظام نے اپنے تاریخی اور ٹھوس موقف کے ذریعے تسلط پسند طاقتوں کا مقابلہ کیا ہے جس کے نتیجے میں مشرق وسطی کے حالات میں مقامی اقوام کے مفاد اور سامراجی طاقتوں کے ضرر میں بڑی اہم تبدیلی آئی۔ آپ نے فرمایا کہ مشرق وسطی جو کبھی سامراجی عناصر اور امریکی حکام کی زور آزمائی اور قدرت کے مظاہرے کا اکھاڑا ہوا کرتا تھا آج امریکا کی ناکامیوں اور شکست کا مظہر بن گیا ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گزشتہ برسوں کے دوران مختلف سازشوں اور دباؤ کے مقابلے میں ایران کی دانشور اور عظیم قوم کی حمایت سے اسلامی جمہوری نظام کی استقامت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان تیس برسوں میں مسلط کردہ جنگ، اقتصادی پابندیاں، نفسیاتی جنگ، تشہیراتی مہم سمیت جو کچھ ممکن ہوا دشمن نے کیا تاہم اسلامی نظام نے ان سب کا مقابلہ اور اپنی طاقت و قوت میں روز افزوں اضافہ کیا اور آج اسلامی انقلاب کے پیغام کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ہی اس کی جڑیں گہرائیوں تک پیوست ہو چکی ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب سے خطے کی اقوام کی دلچسپی اور لگاؤ اسی طرح دنیا کی بہت سی قوموں کے نزدیک اسلامی انقلاب کے خاص مقام اور ملت ایران پر مرکوز قوموں کی تحسین آمیز نگاہوں کو دنیا میں اسلامی انقلاب کا پیغام، عام ہو جانے کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ سائنسی، تکنیکی اور سماجی میدانوں میں ملک کی پیش رفت و ترقی اور اسی طرح حکومتوں کی جانب سے عوام کی عظیم خدمت، گہرائیوں تک اسلامی انقلاب کے پیغام کی رسائی کا نتیجہ ہے۔
آپ نے گزشتہ تیس برسوں میں اسلامی انقلاب کی مسلسل پیش رفت کو اپنی صلاحیتوں اور حوصلے اسی طرح نوجوانوں پر ایرانی قوم کے اعتماد اور دشمنوں کے مقابلے میں عوام کی استقامت کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ ایران کا اسلامی جمہوری نظام اپنی با برکت حیات کے چوتھے عشرے میں داخل ہونے کو ہے اور چوتھے عشرے میں قدم رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ تمام نقائص دور کئے جائيں اور تاریخی پسماندگی کی تلافی اور طے شدہ اہداف تک رسائی کے لئے معمول سے زیادہ سرعت کے ساتھ پیش قدمی کی جائے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی نظام کی حیات کے چوتھے عشرے میں عدل و انصاف اور پیش رفت کو دو اہم ترین معیار قرار دیا اور فرمایا کہ بغیر پیش رفت کا انصاف فقر و غربت میں مساوات پر منتج ہوگا اور بغیر عدل کی ترقی بھی پسندیدہ نہیں ہوگی کیونکہ سماج کی ترقی و بہبود کے ساتھ ہی طبقات کے درمیان فاصلہ کم ہونا ضروری ہے اور کام کی صلاحیت رکھنے والے تمام افراد کو مساوی مواقع ملنا لازمی ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ سرمائے کی پیداوار، بھرپور استفادے، قومی عزم و قوت ارادی، قومی اتحاد و یکجہتی، سائنسی و تکنیکی کامیابی و کامرانی، اخلاقیات و معنویات، طبقاتی فاصلے میں کمی، رفاہ عامہ کے امور، سماجی نظم و نسق، کام کے تئیں احساس ذمہ داری، اخلاقی سلامتی، آگاہی و شعور سیاسی، اور قومی خود اعتمادی کے سلسلے میں قوم مجریہ، مقننہ اور عدلیہ سے مسلسل پیش رفت کا مطالبہ کرے۔ ان شعبوں میں پیش رفت عدل و انصاف کے زیر سایہ ہی ممکن ہے۔
آپ نے طبقاتی فاصلے کم ہونے کی صورت میں اقتصادی ترقی کے نا ممکن ہونے پر مبنی بعض نظریات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان امور میں مغربی نسخے کو واحد حل کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ان خلاقیت اور نئے نظریات و خیالات سے استفادہ کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید فرمائي کہ پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری اور پیداوار کی مقدار میں اضافے کے لئے حالات سازگار ہیں، سرمایہ داروں کی جانب سے پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری اور معاشرے میں دولت کی مقدار میں اضافہ عبادت کی مانند ہے۔ معاشرے میں اسے پہلے سے زیادہ رائج کرنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی ملک کا انتظام بھی اس انداز میں چلنا چاہئے کہ مختلف طبقے اس سرمایہ کاری سے بہرہ مند ہوں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دشمنوں کی سازشوں اور دباؤ کے باوجود ایران کو حاصل ہونے والی پیش رفت و ترقی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کے دشمن یعنی یہی شیطانی صیہونی نیٹ ورک اور امریکا کی سامراجی حکومت اب تک شکست کھاتے رہے ہیں، رای عامہ میں یہ الگ تھلگ پڑے ہیں اور ان کے نعروں میں کوئي دم نہیں رہ گیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انسانی حقوق کی پاسداری کے امریکی دعوے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے عالم میں کہ جب امریکی حکومت خود اپنے اعلان شدہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چھے برسوں میں اس ملک کے بتیس ملین افراد سے باز پرس کر چکی ہے اور ان کی ٹیلی فونی گفتگو سن رہی ہے ، دوسری طرف اس ملک کا صدر ایذا رسانی مخالف قانون پر عملدرآمد کا مخالف ہے، یہ حکومت کس منہ سے انسانی حقوق کی حمایت و پاسداری کے دعوے کرتی ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دنیا کے مختلف علاقوں اور سب سے بڑھ کر یورپ میں امریکا کے دو سو سے زائد خفیہ قیدخانوں کی موجودگي کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یورپی ممالک جو انسانی حقوق کا دم بھرنے کا کوئي بہانہ اور موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، ان جیلوں کے بارے میں جو انسانی حقوق کے سراسر منافی ہیں خاموش کیوں ہیں؟ آپ نے مزید فرمایا کہ یورپی جو ہولوکاسٹ کے سلسلے میں ہر سوال اور تجسس پر ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں، پیغمبر اسلامی کی شان میں ہونے والی گستاخی پر کیوں اعتراض نہیں کرتے بلکہ الٹے خود بھی (گستاخانہ اقدام میں) شریک ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بعض یورپی حکومتوں کو امریکی اور صیہونی حکومت کے سلسلے میں پائي جانے والی نفرت سے عبرت لینا چاہئے۔ آپ نے کہا کہ انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ تمام حکومتیں اور قومیں امریکا اور اس پر مسلط صیہونیوں کی زور زبردستی کے سامنے ڈٹ جائیں۔ اس سلسلے میں ایرانی قوم سب سے نمایاں اور سب سے زیادہ شجاع و بہادر واقع ہوئي ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے جمہوریت کے سلسلے میں امریکہ اور مغربی حکومتوں کےبڑے بڑے دعوؤں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان دعوؤں کی قلعی کھل چکی ہے، کیونکہ دنیا میں جہاں بھی عوامی رای ان کے منشا کے خلاف ہو عوامی رای کو پامال کر دیا جاتا ہے جس کی واضح مثال فلسطین میں حکومت حماس ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام کے خلاف بعض عبث اور فرومایہ بیانوں کو مغربی حکومتوں کے نعروں کے بے بنیاد ہونے کی دلیل و ثبوت قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوری نظام جو دنیا کی وسیع و کم نظیر جمہوریت کا حامل ہے پابندیوں اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ ایرانی قوم کو اس قسم کی دھونس اور دھمکیوں کی ذرہ برار پروا نہیں ہے کیونکہ وہ استقامت اور شجاعت کے ساتھ بڑی کامیابیوں تک پہنچی ہے اور اس کی طاقت اپنی ذاتی طاقت ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اسی طرح پیغمبر اسلامی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پاکیزگی و صداقت، ایمان و شجاعت اور امانت داری کا عظیم مظہر قرار دیا اور فرمایا کہ دور جاہلیت کی مانند اس وقت بھی پیغمبر اسلام سے دشمنی اور بغض و عناد کی وجہ آپ کے پیغام توحید و عدل و حریت سے دشمنی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پیغمبر اسلامی کی شان میں گستاخی کرنے والے عناصرے خوف و دہشت او بزدلی کے نتیجے میں اس قسم کی نازیبا حرکتیں کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اسلام نے سامراجی طاقتوں کو بری طرح ہراساں کر رکھا ہے، انہوں نے پیغمبر اسلام کی توہین کرنا شروع کر دیا ہے البتہ اس سازش میں بھی انہیں ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑے گا۔
آپ نے اسی طرح فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی کاوشوں اور عظیم خدمات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج عالم اسلام کو ماضی سے بڑھ کر اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے۔ آپ نے بارہ ربیع الاول سے شروع ہوکر سترہ ربیع الاول تک جاری رہنے والے ہفتہ اتحاد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہفتہ اتحاد اور اسلامی جمہوریہ ایران کا پیغام مسلم فرقوں کے مشترکہ عقائد کو سامنے لانا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ امریکہ اور صیہونی، شیعہ سنی سبھی مسلمانوں کے دشمن ہیں اس کی مثال لبنان کی تنظیم حزب اللہ اور فلسطین کی حماس و جہاد اسلامی تنظیموں سے امریکہ کی دشمنی ہے، بنابریں امت مسلمہ بالحصوص اہم شخصیات کو چاہئے کہ اس نکتے پر توجہ دیں اور مسلمانوں کے اتحاد کے لئے کوشاں اور تفرقہ پیدا کرنے والے اسباب سے گریزاں رہیں۔