ملت ایران سے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے فراق کی بائيسویں برسی پر ایران کی قدرداں اور باایمان قوم نے آج امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے روضے کو آپ کے راستے اور مکتب فکر سے ایرانیوں کی گہری عقیدت و وفاداری کی جلوہ گاہ میں تبدیل کر دیا۔ قوم نے اپنے دلی جذبات کا والہانہ اظہار کرکے ایک بار پھر رہبر کبیر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے جانشین برحق آيت اللہ العظمی خامنہ ای سے ہوشیاری و بصیرت اور شجاعت و استقامت کے اپنے میثاق کا اعادہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے روضے پر ملک کے گوشے گوشے اور دنیا بھر سے آنے والے لوگوں کے عظیم الشان نورانی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پیشین گوئی کے عملی جامہ پہننے کی مثال کے طور پر اقوام کی اسلامی بیداری اور اس بیداری کی خصوصیات کا ذکر کیا۔ آپ نے عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے راستے اور مکتب فکر کی پذیرائی اور بھرپور پابندی کو عظیم الشان امام خمینی سے ملت ایران کی حقیقی عقیدت و الفت کی علامت قرار دیا اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے منظم کثیر الجوانب مکتب فکر کی اہم ترین خصوصیات کے طور پر روحانیت، معقولیت اور انصاف کا نام لیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی اس گرانقدر میراث کے تئيں اس جذبہ وفاداری کی برکت سے ملت ایران کو ماضی کے ایام کی طرح آئندہ بھی عزت و پیشرفت اور بلندی و رفعت حاصل ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ہر سال چودہ خرداد (مطابق چار جون) کی تاریخ کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی شیریں یادوں کو دوہرانے کا بہترین موقعہ قرار دیا اور اس سال اس تاریخ کی آمد کے ساتھ ہی مبارک مہینے رجب المرجب کی شروعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سال امام ( خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کی برسی علاقے کی قوموں میں اسلامی بیداری کی شجاعانہ لہر کے ساتھ آئی ہے اور اللہ تعالی کے فضل سے اس خدا رسیدہ انسان کی پیش گوئی کی حقانیت پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کو ملت ایران کا بیش بہا سرمایہ قرار دیا اور فرمایا کہ ایرانی عوام اسی قیمتی سرمائے کی مدد سے گزشتہ بتیس برسوں کے دوران دشوار گزار راستوں سے کامیابی کے ساتھ گزرے ہیں اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے تئیں قوم کے جذبات و احساسات کی امواج کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے ایرانی عوام کی گہری عقیدت انہی قلبی احساسات و جذبات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس تقدیر ساز عقیدت کا مطلب یہ ہے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے راستے اور مکتب فکر کو ملت ایران کی حرکت کے عمومی راستے اور سمت کے طور پر اپنایا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کو عوام اور حکام کے لئے نظریاتی اور عملی مشعل راہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا مکتب فکر متعدد پہلوؤں پر محیط ایک کامل مجموعہ ہے اور ان پہلوؤں پر ایک ساتھ توجہ دینے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے راستے پر چلتے وقت انحراف اور گمراہی سے محفوظ رہا جا سکے۔
قائد انقلاب اسلامی نے روحانیت، معقولیت اور انصاف کو مکتب امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے اہم پہلوؤں سے تعبیر کیا اور رفتار و گفتار میں ان سبھی پہلوؤں پر ایک ساتھ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی توجہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اہل سیر و سلوک، اہل ذکر و مناجات اور اہل خضوع و خشوع انسان تھے اور اللہ تعالی پر ان کے توکل اور امید کی کوئی انتہا نہ تھی لیکن ہمیشہ معقولیت، تدبیر و تدبر اور منطقی اندازے اور تخمینے پر بھی آپ کی توجہ رہتی تھی اور معقولیت و روحانیت کی مانند ہی انصاف و مساوات کو بھی آپ دین و قرآن کی روشنی میں پیش نظر رکھتے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے سیاسی نظام کی بنیاد کے طور پر دینی جمہوریت کے انتخاب کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی بصیرت اور معقولیت پسندی کی نمایاں مثال قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عوام کی آراء کو بنیاد قرار دینا اور قوم کے انتخاب اور شراکت کا سنگ بنیاد رکھنا، وہ بھی ایسے ملک میں جو صدیوں سے آمروں اور استبدادی عناصر کا محکوم رہا ہو، اس حقیقت پر دلیل ہے کہ ملک کا نظم و نسق چلانے کے سلسلے میں معقولیت اور خردمندی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے حیات بحش اور سعادت آفریں مکتب فکر کے بنیادی پہلوؤں میں سے ایک ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دشمنوں کی شناخت اور ان کے مقابلے میں بھرپور استقامت کو بھی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی دانشمندی کا ثبوت قرار دیا اور فرمایا کہ ان افراد کے برخلاف جو بعض مواقع پر دشمن کے سامنے پسپائی اختیار کر لینے کو دانشمندی کا تقاضہ سمجھتے ہیں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) عقل و خرد کی روشنی میں دشمنوں کے مقابلے میں پسپائی اور نرمی کو انہیں پیش قدمی کا موقعہ دینے کے مترادف سمجھتے تھے، اسی لئے آپ نے اپنی پوری بابرکت زندگی میں دشمنوں کا ڈٹ کا مقابلہ کیا۔
عقل و خرد پر تکیہ کرنے کی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی خصوصیت کی ایک اور مثال عوام میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کرنے کی تاکید کا ذکر کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے ذہنوں پر حقارت اور ناتوانی کا احساس مسلط کرنے کی استکباری طاقتوں اور ملک کے اندر قاجاریہ و پہلوی حکومتوں کی مربوط کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ایسی قوم کے اندر خود اعتمادی اور خود انحصاری کا جذبہ بیدار کیا اور ہمارے اندر صلاحیت ہے کے نعرے کو ان کے ذہنوں کی گہرائی تک اتار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں سائنسی، تکنیکی اور صنعتی شعبوں میں ملک کے جواں سال سائنسدانوں کی حیرت انگيز ترقی و پیشرفت کو ملت ایران کے اندر خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کرنے کی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی دانشمندانہ کوششوں کا واضح اور بدیہی نتیجہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے آئین کی تدوین کی روش کو بھی اسلامی جمہوریہ کے معمار کی خردمندی اور روشن فکری کی مثال قرار دیا اور فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے دقیق تخمینوں اور اندازوں کے ذریعے آئین کی تدوین کرنے والوں کے انتخاب کی ذمہ داری بھی عوام کو سونپی اور پھر تدوین شدہ آئین کے سلسلے میں بھی استصواب رائے کرایا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کے مطابق عوام کو مالکان مملکت قرار دیا اور فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اپنی راہ کشا خردمندی پر تکیہ کرتے ہوئے عوام کو یہ تلقین کہ ملک کے مالک خود عوام ہیں نہ کہ ڈکٹیٹر اور استبدادی شاہی حکومتیں جو خود کو ملک کا مالک تصور کرتی تھیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اپنے ان خردمندانہ اقدامات سے ملک کے قانونی، سماجی اور سیاسی شعبوں کی اتنی مضبوطی سے بنیاد رکھی کہ اس پر عالیشان اسلامی تمدن کی عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مکتب امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ایک اور اہم ترین خصوصیت کے طور پر روحانیت کا جائزہ لیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اخلاص عمل کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی مثالی روحانیت کا مظہر قرار دیا اور فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے تحریک کے آغاز سے ہی دینی فریضے کے احساس کی بنیاد پر عمل کیا اور ہمیشہ حکام کو بھی فرائض کی ادائیگی اور اللہ کے لئے کام کرنے کی سفارش کرتے تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اخلاقی اقدار کی پاسداری کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی روحانیت کی نمایاں مثال قرار دیا اور فرمایا کہ گناہ، تہمت، غیبت، سوء ظن، بد گمانی اور غرور جیسی برائيوں سے سخت پرہیز اس روحانیت کا مظہر ہے جس کی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سختی سے پابندی کرتے تھے اور ساتھ ہی عوام اور حکام کو بھی اس کی دعوت دیتے رہتے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ہمیشہ حکام کے گوش گزار کیا کہ خود کوعوام سے بالاتر اور تنقید کے دائرے سے باہر تصور نہ کریں بلکہ ہمیشہ تنقیدیں سننے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے لئے تیار رہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے بعض غلطیوں کی جانب امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے اشارے کو آپ کی روحانی عظمت کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ تمام حکام کے لئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا روحانی سبق یہ ہے کہ خود کو غلطیوں اور خطاؤں سے مبرا تصور نہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی ایک اور خصوصیت کے طور پر انصاف کے موضوع کو بیان کیا اور اس سلسلے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی خاص تاکید اور توجہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ہمیشہ کمزور طبقات کا خیال رکھنے پر تاکید فرمائی اور پا برہنگان (انتہائی غریب لوگ) جیسی اصطلاحوں کی بار بار تکرار کرکے حکام کو رئیسانہ زندگی سے اجتناب اور محروم طبقات کی امداد کی دعوت دیتے تھے، چنانچہ یہ عظیم درس کسی بھی حالت میں فراموش نہیں کئے جانے چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ذاتی تعیش پر حکام کی توجہ اور دولت و ثروت جمع کرنے کی ان کی کوششوں کو بہت بڑی آفت قرار دیا اور فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اس آفت سے مکمل طور پر محفوظ تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ حکام پورے ملک کے عوام سے گہری انسیت اور الفت رکھیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے عوام کے درمیان سے حکام کے انتخاب پر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی خاص تاکید کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) خاندانی تعلقات کو عہدوں کی تفویض کا معیار نہیں مانتے تھے بلکہ قاجاریہ اور پہلوی ادوار میں ایک ہزار خاندانوں کے (تمام ملکی اور پر) تسلط کے بارے میں خاص احتیاط کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیشہ عہدوں کے حصول کے لئے دولت اور ثروت کو ذریعہ قرار دئے جانے کو انتہائی خطرناک روش سمجھتے تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امام حمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی پابندی کو دنیا میں قوم کی عزت و عظمت کی ضمانت قرار دیا اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مختلف پہلوؤں پر بیک وقت جامع نگاہ رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی شخص یا مکتب فکر عقل پسندی کے نام پر اقدار سے عدول کرنے کی کوشش کرے اور دشمن کی سازشوں، منصوبوں اور فریب سے بے خبری کے عالم میں اس کے سامنے ہتھیار ڈال دے تو یہ عمل سراسر انحراف اور خیانت قرار دیا جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے انصاف پسندی اور انقلاب نواز کے نام پر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی اخلاقی اور روحانی خصوصیات سے بے توجہی کو بھی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر سے انحراف قرار دیا اور فرمایا کہ اگر برادران ایمانی اور ان لوگوں کو، جو اسلام اور اسلامی نطام کو بنیادی طور پر قبول کرتے ہیں لیکن فکری لحاظ سے ہم سے عدم اتفاق رکھتے ہیں، ہم توہین اور ایذارسانی کا نشانہ بنائيں تو گویا ہم نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر سے عدول کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اگر انقلابی ہونے کے دعوے کے ساتھ ہم نے عوام کی ایک تعداد کے امن و سکون کو سلب کر لیا ہے تو یہ بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر سے انحراف کا مصداق ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے میں مختلف نظریات اور عقائد کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی کی کوئی کارروائی جرائم کے زمرے میں آتی ہے تو اس پر قانونی کارروائی کرنا متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے تاہم اگر کوئی شخص نطام کا تختہ الٹنے اور دشمن کی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کا گنہگار نہیں ہے لیکن ہمارے سیاسی طرز فکر کا مخالف ہے تو اس کا امن و سکون سلب نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ جیسا کہ قرآن میں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ کسی جماعت کی مخالفت، ناانصافی اور بے تقوائی کا باعث نہیں بننا چاہئے۔ لہذا سب کو ان امور کے سلسلے میں ہوشیار اور محتاط رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کو اہل معنویت و توسل قرار دیا تاہم یہ بھی فرمایا کہ یہ روحانیت و معنویت ہمیشہ انقلابی اور سماجی احساس ذمہ داری سے وابستہ رہی ہے اور اگر کسی نے دین اور روحانیت پر تاکید کرکے نوجوانوں اور عوام کو سیاست سے دور کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ اس سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر اور آپ کے راستے سے عظیم الشان ملت ایران کی مکمل وفاداری اور اقدار کی حفاظت و تقویت کے سلسلے میں قوم کی استقامت اور فرائض کی ادائیگی پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن اس خام خیالی میں تھا کہ اما (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کے ساتھ ہی اسلامی نظام کے سقوط کا عمل شروع ہو جائے گا لیکن امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی تشییع جنازہ میں پوری قوم کی شرکت اور ماہرین کی کونسل کے فیصلے کی عوام کی جانب سے حمایت نے دشمن کو مایوسی اور آئندہ دس برسوں کے لئے منصوبہ بندی کرنے کی فکر میں مبتلا کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے سنہ تیرہ سو اٹھہتر ہجری شمسی ( 1999 عیسوی) یعنی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت کے دس سال بعد رونما ہونے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ عوام نے چودہ جولائی سنہ انیس سو ننانوے عیسوی کو دشمن کی اس سازش پر پانی پھیر دیا جس کے لئے اس نے دس سال تک منصوبہ بندی کی تھی۔ قائد انقلاب اسلامی نے دشمن کی دوسری دس سالہ منصوبہ بندی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اس خیال میں تھے کہ سنہ دو ہزار نو میں کسی حد تک زمین ہموار ہو چکی ہے اور اسلامی نظام کے وفادار عوام کے مطالبات کے پس پردہ وہ اپنی سازش کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں لیکن تہران میں دو تین مہینے کے تلاطم کے بعد عوام یوم قدس اور یوم عاشور کے واقعات سے ان کی اصلی خواہش اور ذہنیت کو سمجھ گئے چنانچہ عوام نے تیس دسمبر کے شجاعانہ اقدام سے فتنے کی آگ کو خاموش کر دیا اور انشاء اللہ ملت ایران آئندہ بھی توفیق الہی کے ساتھ اور ہوشیاری و عزم و ایمان سے کام لیتے ہوئے اپنے نورانی راستے پر رواں دواں رہے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے میدان عمل میں عوام کی موجودگی کو دشمن کی سازشوں کی ناکامی اور ملکی سلامتی کی تقویت کا باعث قرار دیا اور ملک میں انجام پانے والے انتہائی بنیادی کاموں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انشاء اللہ عوام قلیل مدت اور دراز مدت میں ان کاموں کے ثمرات کا مشاہدہ کریں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دنیا میں علمی میدانوں میں ایرانی جوانسال سائنسدانوں کی نمایاں کارکردگی کو عوام اور حکام کی باہمی ہمدلی اور اعتماد کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قوم کی فیصلہ کن شراکت اور عوام و حکام کے درمیان باہمی اعتماد جتنا زیادہ ہوگا امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی امنگوں کی تکمیل اور ملک کی ترقی کا عمل اتنا ہی تیز ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج کے اس خطاب میں علاقے کے تغیرات کا بھی جائز لیا۔ آپ نے شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے ممالک میں پھیلی اسلامی بیداری کو انتہائی اہم اور تاریخ ساز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مصر، تیونس، لیبیا، یمن اور بحرین کے واقعات کا اپنا اپنا تجزیہ ہے لیکن یہ مسلمہ ہے کہ جب قوم بیدار ہو گئي اور اسے اپنی قوت و طاقت کا اندازہ ہو گیا تو پھر کوئی چیز اس کی کامیابی کو روک نہیں سکتی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تسلط پسندانہ نظام، شیطان بزرگ اور خونخوار صیہونیوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ قوموں کی حتمی فتح، جامہ عمل نہ پہن سکے لیکن اگر قومیں بیدار رہیں، قرآن کے صبر و استقامت کے درس پر عمل کریں اور وعدہ الہی پر یقین کامل رکھیں تو ان کی فتح و کامرانی میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق لیبیا کے سلسلے میں مغرب کی پالیسی یہ ہے کہ اسے کمزور اور بے جان ملک میں تبدیل کر دیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ لیبیا تیل کے ذخائر سے مالامال اور یورپ سے ایک قدم کے فاصلے پر واقع انتہائی اہم ملک ہے اور مغرب کی یہ کوشش ہے کہ خانہ جنگی کے ذریعے اس ملک کو انتہائی کمزور کر دیا جائے تاکہ بعد میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس ملک کو اپنے کنٹرول میں کیا جا سکے۔ قائد انقلاب اسلامی نے یمن کی صورت حال کو لیبیا کی مانند قرار دیا اور بحرین کے سلسلے میں فرمایا کہ بحرین کے عوام انتہائی مظلومیت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور مغرب اور اس کے ہمنواؤں کی کوشش یہ ہے کہ بحرینی عوام کی تحریک کو شیعہ تحریک کا نام دیکر اسے فرقہ وارانہ رنگ دیں البتہ پوری تاریخ میں بحرین کے عوام کی اکثریت شیعوں پر مشتمل رہی ہے تاہم بحرین کا مسئلہ شیعہ اور سنی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مظلوم قوم ووٹنگ کرنے اور حکومت کی تشکیل میں کردار ادا کرنے جیسے ابتدائی ترین حقوق کا مطالبہ کر رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ دروغگو اور عیار امریکی، انسانی حقوق اور جمہوریت کی حمایت کے نام پر بحرینی عوام کی سرکوبی میں مصروف ہیں۔ البتہ وہ تو کہتے ہیں کہ سعودی فوج بحرین گئی ہے لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ سعودی عرب امریکہ کے گرین سگنل کے بغیر یہ کام ہرگز نہیں سکتا تھا لہذا بحرین کے قضیئے میں امریکی پوری طرح ذمہ دار ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی ماہیت، عوامی شناخت اور امریکہ اور صیہونیت کی مخالفت کو علاقے کے عوام کی تحریکوں کی تین اہم ترین خصوصیات سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ یہ خصوصیات مصری قوم کے درخشاں انقلاب میں پوری طرح آشکارا ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کو جہاں بھی ان خصوصیات کی حامل تحریک نظر آئے گی وہ اس کی حمایت کرے گا لیکن اگر ہم نے محسوس کیا کہ امریکہ اور صیہونیوں کی تحریک آگے بڑھ رہی ہے تو ہم اس تحریک کا ساتھ نہیں دیں گے کیونکہ ہمیں یقین کامل ہے کہ شیطان بزرگ اور اس کے ہمنوا کبھی بھی قوموں کے مفاد میں کام نہیں کرتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کی قوموں کو مغرب کی سرگرمیوں کی طرف سے ہوشیار رہنے کی سفارش کی اور فرمایا کہ بظاہر دوستانہ نظر آنے والی امریکی امداد، قوموں پر تسلط قائم کرنا کا ذریعہ ہے لہذا علاقے کے عوام اور خاص طور پر قیمتی اسلامی ثقافتی میراث کی مالک مصری قوم کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ کہیں جو دشمن دروازے کے راستے باہر نکال دیا گيا ہے، کسی عقبی دروازے سے دوبارہ در اندازی نہ کر لے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین، غزہ اور رفح گزرگاہ کے سلسلے میں مصری قوم کے تازہ اقدام کو بہت باارزش قرار دیا اور فرمایا کہ اس طرح کے اقدامات کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے یہاں تک کہ بفضل پروردگار مصر کے انقلاب کے اہداف مکمل طور پر پورے ہو جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کی قوموں اور ایرانی قوم کے مابین خلیج پیدا کرنے کی توسیع پسند طاقتوں کی سازشوں کی جانب سے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ مصر سمیت بعض ممالک میں وہابی حلقے عوام کے درمیان بھی اختلاف کی آگ بھڑکانے کے در پے ہیں لہذا بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں فرمایا کہ فلسطین تقسیم ہونے والا نہیں ہے، یہ پوری سرزمین مسلمانوں کی ہے اور بلا شبہ دوبارہ اسلام کی آغوش میں آئے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں امریکیوں کی تجویز کردہ راہ حل کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، اس مسئلے کا واحد حل وہی ہس جس کی نشاندہی اسلامی جمہوریہ ایران نے چند سال قبل کر دی،جس میں فلسطین کے باشندوں کے درمیان استصواب رائے کی بنیاد پر فلسطینی حکومت کی نوعیت کے تعین کی بات کہی گئي ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پوری فلسطینی سرزمین پر فلسطینی قوم کی منتخب کردہ حکومت کی تشکیل کے بعد فلسطینی عوام ان صیہونیوں کے بارے میں فیصلہ کریں گے جو غیر ممالک سے اس سرزمین پر آکر بس گئے ہیں۔