قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظام سے ان چند سامراجی طاقتوں کی دشمنی کی اصلی وجہ خود اس نظام کا وجود ہے تاہم وہ ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ ملت ایران کی مخالفت کی وجہ صرف ایٹمی مسئلہ اور انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکا، صیہونزم، برطانیہ اور دیگر استکباری حکومتوں کے انسانی حقوق کے سلسلے میں سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے ان کی اس دروغگوئی کو کوئی بھی باور نہیں کرتا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ ملت ایران کے اسلامی انقلاب نے اس اہم ترین ملک کو استکباری طاقتوں کے چنگل سے آزاد کرا لیا اور عالم اسلام کی سطح پر جوش و جذبے اور روز افزوں بیداری کا باعث بنا۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن اسلامی جمہوریہ پر ضرب لگا کر دوسروں کو درس عبرت دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ایسے کسی نمونہ عمل کا رخ نہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق اسلامی نظام کو اس وقت در پیش چیلنجوں میں کسی نئی بات کا نہ ہونا بھی ایک حقیقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب خلیج فارس میں ایران کے جہازوں پر حملے ہوتے تھے اور ہماری جیٹیوں اور صنعتی مراکز پر دشمن بمباری کرتا تھا لیکن آج اسلامی نظام کے دشمن ایران کے قریب پھٹکنے کی بھی جرئت نہیں کرتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے گوناگوں شعبوں بالخصوص سامراجی طاقتوں کی اجارہ داری والی پیچیدہ ٹکنالوجیوں کے شعبوں میں پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود اسلامی نظام کی بلا وقفہ پیشرفت کو بھی اہم ترین حقیقت قرار دیا۔ آپ نے خطرات کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اسلامی نطام کی طاقت اور خود اعتمادی میں اضافے کو بھی ناقابل انکار حقیقت کا نام دیا اور فرمایا کہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اسلامی نظام کے خلاف امریکا اور صیہونزم کی قیادت میں قائم ہونے والا محاذ ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ کمزور پڑ چکا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقے کے انقلابوں اور تغیرات کے بعد صیہونی حکومت میں پیدا ہونے والا ضعف، تینتیس روزہ جنگ لبنان اور بائیس روزہ جنگ غزہ میں صیہونی حکومت کی شکست، عراق میں امریکا کا انجام، افغانستان میں امریکا کی لا ینحل مشکلات اور مشرق وسطی سے متعلق اسٹریٹیجی میں امریکا کی شدید ناکامی دشمن محاذ کی روز افزوں کمزوری کی عینی مثالیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے مخالف مغربی ممالک میں پھیلے بحران کو بھی ناقابل انکار حقیقت قرار دیا اور فرمایا کہ یورپی یونین اور یورو زون کے اندر اقتصادی بحران کے گہرے خطرات، متعدد یورپی ملکوں میں عدم استحکام، کئی یورپی حکومتوں کا سقوط، امریکا میں سرسام آور بجٹ خسارہ اور ننانوے فیصدی آبادی کی تحریک کا آغاز بہت اہم واقعات ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ مغربی ممالک کی اقتصادی مشکلات اور ہمارے ملک کے اقتصادی مسائل میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک کی مشکلات کوہ پیمائی کرنے والی اس ٹیم کی مشکلات سے مشابہ ہیں جو پہاڑ کی بلند چوٹی پر پہنچنے کے لئے مشکلات اور مشقتوں سے دوچار ہے تاہم اس کی پیش قدمی کا عمل جاری ہے جبکہ مغرب کی اقتصادی مشکلات اس گاڑی کی مشکلات جیسی ہیں جو برف کے طوفان میں محصور ہوکر رہ گئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مشرق وسطی اور شمالی افریقا کے علاقے کے تغیرات کو بھی عینی حقیقت قرار دیا اور فرمایا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی نظام کی طاقت اور صلاحیتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ آپ نے ملک کے اندر تیل، گیس اور معدنیات کے عظیم ذخائر کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ افرادی قوت، ساڑھے سات کروڑ کی آبادی بالخصوص تعلیم یافتہ اور جوش و جذبے سے سرشار نوجوان نسل بھی ملک کی اہم حقیقت اور بڑی بنیادی قوت ہے جسے پیشرفت و ترقی کے اہم ترین عوامل میں شمار کیا جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق کسی بھی توجیہ اور بہانے کی بنیاد پر ایران کی پسپائی اور اس کے موقف میں پیدا ہونے والی نرمی دشمنوں کو مزید گستاخ بنا دے گی۔ آپ نے اس ضمن میں کئی مثالوں کا ذکر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جس زمانے میں ہمارے حکام کی زبان میں مغرب اور امریکا کی خوش آمد گوئی اور تملق کا تاثر پیدا ہوا ایک شخص نے جو خود شرپسندی کا پیکر تھا اسلامی جمہوریہ ایران کو محور شرارت قرار دینے کی گستاخی کر بیٹھا۔ آپ نے اس دور کا بھی حوالہ دیا جس میں ایٹمی شعبے میں قدرے پسپائی کی گئی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ اس دور میں مغربی حکومتوں کی ہمراہی اور اپنے موقف سے ہماری پسپائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی حکومتیں اس طرح سر پر مسلط ہونے لگیں کہ مجھے خود آگے آنا پڑا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مغربی حکومتیں اس وقت اتنی گستاخ ہو گئی تھیں کہ ہمارے حکام صرف تین سنٹری فیوج مشینوں پر اکتفا کرنے پر تیار تھے لیکن وہ اس کی بھی اجازت نہیں دے رہی تھیں اور آج یہ عالم ہے کہ ملک میں گیارہ ہزار سنٹری فیوج مشینیں کام کر رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر پسپائی کا یہ سلسلہ جاری رہتا تو ملک میں ایٹمی پیشرفت اور علمی ایجادات و ترقی کا دور دور تک پتہ نہ ہوتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے مدبرانہ استقامت کی صورت میں پابندیوں کے بے اثر ہو جانے کو بھی ایک حقیقت قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی نظام کے خلاف موجودہ اقتصادی دباؤ ایک ایسے عبوری دور اور گزرگاہ کی مانند ہے جس سے ملک بالآخر باہر نکل جائے گا کیونکہ طویل مدت تک اس صورت حال کا جاری رہنا مغرب کے بھی فائدے میں نہیں ہے۔ آپ کے بقول اسلامی جمہوریہ پر دباؤ کا فائدہ صرف امریکا اور صیہونیوں کو پہنچے گا۔ آپ نے فرمایا کہ دیگر ممالک جو اس مسئلے میں شامل ہوئے ہیں انہوں نے یا تو دباؤ میں آکر یا پھر (امریکا کو) خوش کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے اور یہ حالات زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران پر عائد تیل کی پابندیوں سے بیس ممالک کے استثناء اور بعض مغربی ممالک کے ان پابندیوں کو نظر انداز کر دینے کا ذکر کیا اور اسے موجودہ حالات کے تسلسل کے ناممکن ہونے کی دلیل قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ پر توکل، خطرات کا سامنے کرنے کے لئے ہمت و حوصلے میں اضافہ، تدبیر اور سوجھ بوجھ اور استقامت کے اس راستے پر بدستور گامزن رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے چیلنجوں کے مقابلے میں توانائیوں اور صلاحیتوں کے مدبرانہ و ہوشمندانہ استعمال کو بدر و خیبر کے حالات کے مماثل قرار دیا اور فرمایا کہ ملکی مسائل کو اس نقطہ نگاہ سے اور امنگوں اور حقائق کی حوصلہ بخش باہمی ترکیب کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے معیشت کو ملک کے لئے انتہائی اہم مسئلہ قرار دیا اور فرمایا کہ موجودہ حالات میں اقتصادی مشکلات پیدا کرنے کی دشمن کی کوششوں کا مقصد قومی نمو اور رفاہ و آسائش پر ضرب لگانا اور اسلامی نظام سے عوام کو بیزار کرنے کے لئے ان کی مشکلات بڑھانا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کئی سال پہلے ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ دشمن کی سازشیں وطن عزیز کی معیشت پر مرکوز ہو گئی ہیں، اسی بنا پر گزشتہ برسوں کے لئے معیار صرف کی اصلاح، بلندی ہمتی دوگنا کام، اقتصادی جہاد، قومی پیداوار اور ایرانی کام اور سرمائے کی حمایت جیسے نعروں کو ایک اقتصادی نظام تشکیل دینے والی کڑیوں کے طور پر پیش کیا گيا تا کہ اقتصادی میدان میں ملک کی مجموعی حرکت کو نظم و نسق دیا جا سکے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اقتصادی پابندیوں کے مقابلے کے لئے مزاحمتی معیشت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور مزاحمتی معیشت کے لوازمات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ آئین کی (نجکاری سے متعلق) دفعہ چوالیس کی پالیسیوں پر عمل کرکے معیشت کو عوام پر منحصر معیشت میں تبدیل کرنا، نجی شعبے کو تقویت، تیل پر انحصار میں کمی، اشیاء کے استعمال میں اعتدال پسندی، وقت اور وسائل و امکانات کا بنحو احسن او بھرپور استعمال، منصوبے کے تحت عمل اور قوانین اور پالیسیوں میں یکبارگی تبدیلی سے اجتناب، مزاحمتی معیشت کے بنیادی اصول سمجھے جاتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اشیاء کے استعمال کے صحیح مینیجمنٹ کے سلسلے میں فرمایا کہ آج استعمال میں اعتدال پسندی ایک جہادی عمل ہے چنانچہ سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور عوام سب کو چاہئے کہ فضول خرچی سے اجتناب اور داخلی مصنوعات کے استعمال پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ماہ مبارک رمضان کی چوتھی تاریخ کو اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں سے ہونے والی اس ملاقات میں ملک کے حکام اور عوام کو ان ایام اور شبوں کی برکتوں سے کما حقہ استفادہ کرنے کی سفارش کی۔ آپ نے اتحاد و یکجہتی پر خاص تاکید کی اور حکام سے فرمایا کہ قوم متحد ہے لہذا آپ کو بھی چاہئے کہ لا حاصل اختلافات اور پھر میڈیا میں ان کی تشہیر سے اجتناب کرتے ہوئے قومی اتحاد کی حفاظت کریں۔
قائد انقلاب اسلامی سے ملک کے اعلی حکام کی اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے توحید، انصاف، آزادی، انسانی وقار، پاکدامنی، خدمت گزاری اور ملکی ترقی جیسے قوم کے بنیادی اقدار، اصولوں اور حقوق کے تئیں حکومت کی وفاداری پر تاکید کی اور گزشتہ سات برسوں کے دوران اپنی حکومت کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔