بنت رسول صدیقہ طاہرہ خاتون دو عالم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت اور رہبر کبیر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے یوم پیدائش کی مناسبت سے تہران میں حسینیہ امام خمینی فضائل و مناقب فاطمی سے معطر ہو گیا۔ حسینیہ میں ذاکرین اہل بیت کی محفل منعقد ہوئی جس میں کثیر تعداد میں ذاکرین و شعراء نے شرکت کی، قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی محفل میں شرکت فرمائی۔ قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب میں ولادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مبارکباد پیش کی اور اسی دن امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے یوم پیدائش کی مناسبت سے خراج عقیدت پیش کیا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ذکر اہل بیت اور مدح سرائی کو سننے والوں کے دلی جذبات کو حرکت میں لانے، ان کی امیدیں بڑھانے اور معرفت میں اضافے کا بہترین فنکارانہ روش قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عورت کے مسئلے میں مغرب کے نقطہ نگاہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ مرد و زن کے ذاتی و سماجی حقوق کے سلسلے میں اسلام و قرآن کا نقطہ نگاہ سب سے منطقی، باوقار اور قابل عمل نقطہ نگاہ ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے نوجوان ذاکرین اور مدح سراؤں نیز اس میدان کے کہنہ مشق افراد کے اہل بیت عصمت و طہارت کے تئیں خاص عقیدت سے مملو دلوں اور درخشاں صلاحیتوں کو ملک کے لئے عظیم نعمت، گراں قدر موقعہ اور بے مثال برکت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اہل بیت کے مداح اور ذاکر کی شان یہ ہے

کہ جذبات کو حرکت میں لائے اور انہیں فکر و خرد کی سمت لے جائے۔ پوری تاریخ میں عقل و خرد و استدلال کے ساتھ جذبات و احساسات کی طاقت سے دین، اخلاقیات اور روحانیت و معنویت کی حفاظت کی جاتی رہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ شاعر اور مدح سرائی کرنے والے کا شعر اور طرز ادائیگی کا انتخاب ایسا ہونا چاہئے کہ اس سے سننے والوں کی معرفت میں اضافہ ہو، لوگوں کی ہدایت میں گہرائی پیدا ہو اور دین و راہ زندگی کے تعلق سے ان کا علم بڑھے۔

قائد انقلاب اسلامی نے دینی معارف و تعلیمات کی تشہیر و تبلیغ میں قصیدے اور غزل کے شائستہ انداز کی گہری تاثیر کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس خصوصیت کا بخوبی استعمال کرنا چاہئے، یہ مناسب نہیں ہے کہ بے معنی اشعار، یا ضعیف اور غلط نکات کے حامل اشعار کے انتخاب یا قصیدہ پڑھنے کے نامناسب اور شرعی حدود سے خارج انداز سے اس سنہری موقعہ کو ضائع کر دیا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق اگر وقت کے اہم تغیرات اور لوگوں کی بنیادی ضروریات کو اشعار میں نظر انداز کیا جائے تو یہ موقعہ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مقدس دفاع کے دوران، شعراء اور مدح سرائی کرنے والے حضرات نے ملک کی اس وقت کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس عظیم عملی جہاد کی بھرپور پشت پناہی کی اور بے نظیر اور گہرے معانی کے حامل اشعار پیش کرکے اپنا فریضہ پورا کیا۔

شعر کی خداداد صلاحیت اور اچھی آواز کو مذہبی تعصب کی آگ بھڑکانے اور اختلافات کو ہوا دینے کے لئے استعمال کرنے کو قائد انقلاب اسلامی نے شاعری اور مدح سرائی سے حاصل ہونے والے مواقع کو ضائع کرنے کا ایک اور مصداق قرار دیا۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مواصلاتی شعبے کی وسعت اور اسے مذہبی اختلافات بھڑکانے والی احمقانہ باتوں کے لئے استعمال کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آج موجودہ دور میں اختلاف کی آگ کو ہوا دینا اور فرقہ وارانہ تعصب کو برانگیختہ کرنا بالکل غلط اور برخلاف مصلحت فعل ہے، ائمہ علیہم السلام نے بھی اپنے زمانے میں اس طرح کی چیزوں کی ممانعت فرمائی ہے۔

داخلی اختلافات میں شدت پیدا کرنے والے اقدامات کو بھی قائد انقلاب اسلامی نے موقع ضائع کرنے کے مترادف قرار دیا اور فرمایا کہ سال رواں کو سیاسی و اقتصادی جہاد سے موسوم کیا گيا ہے اور جہاد ہمیشہ عقل، ہدایت اور جذبہ ایمانی کے ذریعے انجام پاتا ہے اور جذبہ جہاد دل کی گہرائی سے چشمے کی مانند ابلتا ہے یہ کوئی محکمہ جاتی حکم اور رسمی معاملہ نہیں ہے۔

قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ جہاد کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے سامنے موجود درخشاں و یقینی افق کی بابت امید و نشاط اور حسن ظن کا ماحول ہو۔ چنانچہ اگر لوگوں کے ذہنوں میں شک و تردد کی کیفیت پیدا کی گئی، ان کے دلوں میں مایوسی و ناامیدی پھیلائی گئی اور انہیں بے عملی، تساہلی اور لا

تعلقی کی دعوت دی گئی تو پھر جہاد ممکن نہیں ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پیہم مجاہدانہ حرکت جو ترقی کے لئے ہر ملک اور ہر تہذیب کی اہم ضرورت ہے، شوق و امید کی شاہراہ کی متقاصی ہوتی ہے اور معرفت و آگاہی بڑھانے، حکمت، امید اور محکم عقائد کی کاشت کرنے میں شاعروں اور مدح سراؤں کا کردار بہت نمایاں ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ عوام الناس مذہبی شعرا اور مدح سراؤں کے شعر اور انداز بیان کے ساتھ ہی ان کے اخلاقیات اور رفتار و کردار پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ مبلغین اور شعرا تقوا، اخلاقیات، تدین اور دل و زبان کی پاکیزگی کے اعتبار سے جتنے زیادہ آراستہ ہوں گے موثر مدح کا حق ادا کرنے اور لوگوں کے دلوں کو متاثر اور ان کی معرفتوں میں اضافہ کرنے کے لئے اس بہترین موقعے کے استعمال میں اتنے ہی زیادہ کامیاب رہیں گے۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں دوسرے اہم نکتے کے طور پر عورت کے احترام کی ضرورت کا جائزہ لیا۔ آپ نے عورت کے سلسلے میں مغربی پالیسیوں کی مذمت کی اور فرمایا کہ عورت کے سلسلے میں مغرب کی مادہ پرست ثقافت نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ نا قابل معافی عظیم گناہ ہے جس کے نقصانات کا کسی بھی طرح تدارک نہیں ہو سکتا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جسم کی نمائش، مردوں کی لذت کا سامان فراہم کرنا اور عورتوں کے پروقار حصار کا ٹوٹ جانا عورت کے سلسلے میں مغربی ثقافت کے مظاہر ہیں جنہیں مغربی دنیا آزادی قرار دیتی ہے اور اس کے برخلاف طرز زندگی کو قید و بند کی زندگی کا نام دیتی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عورت کو اس نگاہ سے دیکھنے کا نتیجہ خاندان اور کنبے کا تصور ختم ہو جانے کی صورت میں نکلا ہے اور جب معاشرے میں خاندان اور کنبے کا تصور متزلزل ہو جائے تو اس معاشرے کی مشکلات جڑ پکڑ لیتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مغربی ثقافت اپنے خباثت آلود جنسی قوانین کے نتیجے میں جس پر وہ عمل پیرا ہے شکست و سقوط کی جانب بڑھ رہی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تہذیبوں کا زوال بھی ان کے معرض وجود میں آنے کے عمل کی مانند تدریجی طور پر انجام پاتا ہے اور مغربی تمدن آج اسی زوال کی راہ پر گامزن ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے عورت کے مقام و مرتبے پر اسلام کی خاص توجہ اور قرآنی نقطہ نگاہ کی تشریح کرتے ہوئے اس نقطہ نگاہ کو سب سے زیادہ منطقی، باوقار اور قابل عمل نقطہ نگاہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کے نزدیک روحانی منزلیں طے کرنے اور سماجی و ذاتی حقوق سے بہرہ مند ہونے کے اعتبار سے مرد و زن میں کوئی

تفریق نہیں ہے، البتہ انسانی خلقت کے اعتبار سے ان میں کچھ فرق ضرور پائے جاتے ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے عورت کی انفرادی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہوئے گھر چلانے، بچوں کی پیدائش، گھریلو ماحول کی حفاظت کے اہتمام، خاندانی انس و محبت اور بچوں کی پرورش اور تربیت کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ گھر چلانا اور بچے پیدا کرنا عورتوں کا عظیم جہاد اور فن ہے جو صبر و تحمل اور جذبات و احساسات کے ساتھ انجام پاتا ہے، اگر اس پر ضروری توجہ کی جائے تو معاشرے کی ترقی یقینی ہو جائیگی۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں عورت کے احترام و اکرام کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ عورتوں سے محترمانہ، محبت آمیز اور پاکیزہ برتاؤ کیا جانا چاہئے۔