قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیر کی صبح صدارتی اور مقامی انتخابات کے عہدیداروں سے ملاقات میں فرمایا کہ انتخابات کے اجرائی امور انجام دینے والے اور نگرانی کرنے والے سبھی ادارے تمام مراحل میں قانون کی مکمل پابندی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے آئندہ چوبیس خرداد مطابق چودہ جون کو ہونے والے انتخابات میں عوام کی وسیع اور پرجوش شرکت کو ملک کی ترقی کے عمل کے تسلسل کی ضمانت قرار دیا۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں شام میں جلیل القدر صحابی رسول حضرت حجر بن عدی کی مزار کی بے حرمتی کو انتہائی تلخ اور اندوہناک سانحہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ تمام مسلمانوں اور خاص طور پر عالم اسلام کی دینی، سیاسی اور علمی شخصیات کو چاہئے کہ اس پست سوچ کے خلاف اپنے فریضے پر عمل کریں اور فتنے کی آگ کو پھیلنے سے روکیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کو عظیم اور گراں بہا ملی و اسلامی امانت سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ شورائے نگہبان (نگراں کونسل)، جملہ نظارتی و اجرائی ادارے اور انتخابات کے لئے پرامن ماحول فراہم کرنے پر مامور ایجنسیاں اس عظیم امانت کی محافظ ہیں اور ان کے دوش پر بڑے عظیم اور دور رس نتائج کا حامل فریضہ ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کو ملک اور نظام کو حیات نو عطا کرنے والا کلیدی عمل قرار دیا اور فرمایا کہ گزشتہ چونتیس سال کے دوران منعقد ہونے والے تمام انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت سے ہر دفعہ مشکلات اور بلاؤں کے بادل چھنٹے ہیں اور ملک و ملت و انقلاب کے پیکر میں ایک نئی جان پڑی ہے۔ آپ نے چودہ جون کے انتخابات کو بعض زاویوں سے ماضی کے بعض انتخابات سے زیادہ اہم قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک ساتھ صدارتی اور مقامی انتخابات کے انعقاد کی وجہ سے بھی آئندہ انتخابات کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے تمام شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی کونسلوں کی تشکیل کو جملہ امور اور فیصلوں میں عوام کی دائمی اور حقیقی شراکت کی علامت قرار دیا۔ آپ نے عہدیداروں، عوام اور ممتاز شخصیات کو سفارش کی کہ صدارتی انتخابات پر توجہ مقامی انتخابات کی اہمیت کے نظر انداز ہو جانے کا باعث نہ بنے۔

قائد انقلاب اسلامی نے آئندہ چودہ جون کو ہونے والے انتخابات کی خاص اہمیت کے دیگر پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے آئین اور دیگر قوانین کی رو سے صدر کے وسیع فرائض، اختیارات اور وسائل پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ اس آئينی مقام و منصب سے واضح ہے کہ صدارتی انتخابات کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی عظیم خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آپ کو اسلامی نظام میں عوام الناس کی فیصلہ کن شراکت کے عمل کا بانی اور معمار قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے نظام حکومت کی نوعیت کے تعین کے لئے استصواب رائے اور دیگر انتخابات کے انعقاد پر امام خمینی کی پر زور تاکید اور گہری نگرانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مختلف شعبوں میں عوام کی شرکت اور سمت کا تعین کرنے والا فیصلہ کن انتخاب اسلامی جمہوریہ کی ماہیت کا جز ہے اور بحمد اللہ اب تک یہ پرکشش اور حوصلہ بخش ماہیت اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے۔ میدان میں عوام کی موجودگی کو کم کرنے کی عبث کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی فرمایا کہ بعض لوگوں نے انتخابات کو بے رونق بنانے یا ملتوی کرانے کی بڑی کوشش کی لیکن توفیق الہی سے یہ کوششیں ناکام رہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی اس طرح کی کوششیں ناکام ہی رہیں گی۔۔ قائد انقلاب اسلامی نے میدان میں عوام کی دائمی موجودگی کو اسلامی جمہوریہ کے وجود اور حیات سے وابستہ مسئلہ قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ، قوم کی عمومی شراکت اور اعلی عملی اہداف کی جانب عوام کی ہمہ گیر پیش قدمی کا ہی نام ہے اور دشمن اسی حقیقت کے ادراک کی بنا پر یہ کوشش کر رہا ہے کہ عوام کی شراکت و موجودگی کو بے رونق اور محدود کر دے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں مزید فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کا اقتدار عوام کی شراکت، ان کے جذبات و احساسات، ان کی فکر و بصیرت اور عقل و خرد پر استوار ہے اور اگر یہ مضبوط پشتپناہی نہ ہوتی تو دنیا کی خبیث تسلط پسند طاقتیں اسلامی جمہوریہ جیسے اہداف اور پالیسیوں والے نظام کو باقی نہ رہنے دیتیں۔ آپ نے فرمایا کہ بیشک فضل پروردگار اور عزیز عوام کی بلند ہمتی کے نتیجے میں انشاء اللہ مجوزہ انتخابات انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ اور بہترین انداز میں منعقد ہوں گے۔

قائد انقلاب اسلامی نے صدارتی و مقامی انتخابات کے عہدیداروں سے اپنے خطاب میں تمام مراحل میں قانون کی مکمل پابندی و پاسداری کی اہمیت پر خاص تاکید کی اور ووٹنگ میں عوام کی بھرپور شرکت کے بابرکت اثرات و ثمرات کو ختم کر دینے کی اغیار کی دائمی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سنہ دو ہزار نو میں کچھ لوگوں کو قانون کے برخلاف عمل اور مطالبہ کرنے پر اکسایا گيا تاکہ عوام مشتعل ہوکر نظام کے مد مقابل اٹھ کھڑے ہوں لیکن لطف پروردگار سے یہ سازش ناکام ہو گئی۔ آپ نے سنہ دو ہزار نو میں بعض ابہامات کو دور کرنے کے لئے انجام دئے جانے والے اقدامات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ جو لوگ ملک اور قوم کے لئے اتنے بڑے خسارے اور نقصان کا باعث بنے انہوں نے در حقیقت قانون کی بالادستی قبول کرنے اور قانونی راہوں پر عمل پیرا ہونے سے انکار کر دیا تھا، البتہ اسلامی نظام اپنی عوامی ماہیت کی وجہ سے ان رخنہ اندازیوں پر قابو پانے میں کامیاب رہا۔

قائد انقلاب اسلامی نے قانون پر مکمل عمل آوری کو انتخابی مشکلات کے سد باب کا بنیادی طریقہ قرار دیا اور فرمایا کہ تمام شہروں اور قریوں میں عوام کی یہی خواہش ہے کہ جو شخص بھی جو بھی بات کرے یا جیسی بھی توقع کا اظہار کرے وہ قانون کے دائرے میں ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے قانون کی روح پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ تمام مراحل کے دوران منجملہ اہلیت کی جانچ پڑتال، انتخابات کے انعقاد، ووٹوں کی گنتی، بیلٹ باکس کی حفاظت اور دیگر تمام مراحل میں تمام عہدیداروں اور متعلقہ افراد کو چاہئے کہ مکمل دیانتداری کے ساتھ صرف قانون کے مطابق عمل کریں اور بحمد اللہ اب تک ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے انقلابی صبر و تحمل کی عادت کو عمومی ضرورت قرار دیا اور فرمایا کہ انتخابات کے مسئلے میں، فاتح اور مغلوب کی مغرب کی مادہ پرستانہ اصطلاحات کو رائج نہیں ہونے دینا چاہئے۔ بیشک انتخابات میں فطری بات ہے کہ کسی امیدوار کے بارے میں کچھ لوگوں کی توقعات پوری نہیں ہو پاتیں، تو ایسی صورت میں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے درست روش کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے چودہ جون کے انتخابات کے سلسلے میں دقت نظری کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے ملک کے آئندہ حالات کے تعلق سے منتخب صدر کے ہر بیان اور ہر اقدام کے منفی اور مثبت دونوں طرح کے ممکنہ اثرات کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ امیدواروں کی صلاحیتوں، ان کی آمادگی، دیانتداری اور فرض شناسی کا گہری نظر سے جائزہ لینا چاہئے اور صحیح تشخیص کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جو شخص بھی پاکیزہ نیت کے ساتھ اور فریضے کی ادائیگی اور ملک کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے میدان میں قدم رکھے گا اس کی ہدایت اللہ کرے گا۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انتخابات عوام کا حق اور فریضہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ صلاحیتوں کو ایک ساتھ رکھ کر مجموعی طور پر پرکھنے کی ضرورت ہے، جس شخص کو ہم ملک کے اجرائی امور کی کنجی سونپنا چاہتے ہیں اس کے اندر عوام دوستی، اقدار کی پابندی اور محنت و لگن جیسی خصوصیات کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دشمنوں کے سامنے استقامت و پائیداری کے جذبے، مدبرانہ صلاحیت، قانون کی پاسداری، عوام کے مختلف طبقات پر بھرپور توجہ اور عوام کی مشکلات و مسائل کے مکمل فہم و ادراک کو صدر کی ضروری خصوصیات میں قرار دیا۔ آپ نے انتخابات کے نتیجے میں ہر فرد کے ووٹ کو خاص اثر کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ میرے ایک ووٹ سے انتخابات کے نتیجے پر کیا اثر

پڑنے والا ہے، کیونکہ یہی ایک ایک ووٹ جمع ہوکر آخر میں کروڑوں کی تعداد میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور انتخابات کے نتیجے کا تعین ہو جاتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ انشاء اللہ آئندہ انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت سے اعلی اہداف کی جانب ایران کی ہمہ گیر پیش قدمی اور اس کی پیشرفت اور سلامتی میں نئی جان آ جائیگی۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں رسول اسلام کے جلیل القدر صحابی حضرت حجر بن عدی کے مزار کے انہدام اور اس عظیم ہستی کے پیکر مطہر کی بے حرمتی کے غم انگیز اور تلخ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سانحے کی تلخی اس بات سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ امت اسلامیہ کے اندر پست، پسماندہ اور رجعت پسندانہ سوچ رکھنے والے کچھ افراد موجود ہیں جو صدر اسلام کی نورانی ہستیوں اور بزرگان دین کے احترام و تعظیم کو شرک و کفر سمجھتے ہیں۔ ایسی خرافاتی فکر کو اسلام اور مسلمانوں کے لئے بہت بڑی مصیبت قرار دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ وہ افراد ہیں جن کے پیشرؤوں نے بقیع میں ائمہ اطہار کی قبروں کو مسمار کیا اور اگر تمام مسلمانوں کے اٹھ کھڑے ہونے کا خوف نہ ہوتا تو انہوں نے پیغمبر اسلام کے روضہ اقدس کو بھی منہدم کر دیا ہوتا۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس طرح کے کج فہم افراد جو بزرگان دین کے روضوں کی زیارت اور وہاں جاکر اپنے لئے اور ان ہستیوں کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں طلب رحمت کو شرک سمجھتے ہیں وہ باطل سوچ اور پست جذبے کے افراد ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ شرک تو یہ ہے کہ کچھ افراد امریکا اور برطانیہ کے خفیہ اداروں کے آلہ کار بن جائیں اور اپنی حرکتوں سے مسلمانوں کو رنج پہنچائیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ کیسی سوچ ہے جو زندہ طاغوتوں کے سامنے خاکساری و بندگی اور ان کی اطاعت و پیروی کو شرک نہیں کہتی لیکن بزرگان دین کے احترام کو شرک قرار دیتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خبیث تکفیری جماعت جسے مالیاتی و غیر مالیاتی ہر طرح کی پشت

پناہی حاصل ہے، اس وقت اسلام کے لئے بہت بڑی مصیبت میں تبدیل ہو گئی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس سانحے پر شیعوں کے مناسب رد عمل کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ شیعہ فرقے کے لوگ شیعہ سنی اختلاف کی آگ بھڑکانے کے لئے کوشاں دشمن کی سازش کا شکار نہیں ہوئے اور انہوں نے بلوغ فکری کا مطاہرہ کیا۔ جبکہ برادران اہل سنت نے بھی آگاہی اور بلند طرز فکر کا ثبوت دیا۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جانب سے اس تلخ سانحے کی مذمت کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے کیونکہ اگر علمی ہستیوں، دانشوروں اور سیاسی شخصیات نے اپنے فریضے پر عمل نہ کیا تو فتنہ یہیں پر نہیں رکےگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سیاسی طریق کار، دینی فتؤوں، دانشوروں کے مقالوں اور مفکرین اور سیاسی شخصیات کے سنجیدہ اقدامات کے ذریعے اس فتنے کی آگ کو پھیلنے سے روکنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس طرح کے مذموم اقدامات میں دشمنوں کے خفیہ ہاتھ کے آشکارا ہو جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو بین الاقوامی ادارے، شخصیات اور سیاستداں کہیں آثار قدیمہ کو نقصان پہنچ جانے پر بڑے مغموم نظر آتے ہیں، اس کھلی ہوئی توہین اور گستاخی پر مہر بلب ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بیشک اللہ گھات میں ہے اور اس کی تدبیر دشمنوں کے مکر و حیلے پر غالب آئیگی اور جو حلقے امت اسلامیہ کی پیشرفت اور اس اتحاد و یکجہتی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں ان کے ہاتھ باندھ دیگی۔

قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل شورائے نگہبان (نگراں کونسل) کے سکریٹری آیت اللہ جنتی نے امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال اور انتخابات کے انعقاد کی نگرانی کے لئے ٹیموں کی تشکیل کی رپورٹ پیش کی۔

اس موقعے پر وزیر داخلہ مصطفی محمد نجار نے بھی اس دفعہ گیارہویں صدارتی انتخابات، چوتھے مقامی انتخابات، پارلیمنٹ اور ماہرین کی کونسل کی کچھ سیٹوں کے لئے وسط مدتی انتخابات کے ایک ساتھ انعقاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کی تیاریاں کئی مہینے پہلے سے شروع کر دی گئی ہیں۔