قائد انقلاب اسلامی آ‏یت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکا کی سابقہ کارکردگی سے ثابت ہوتا ہے کہ ایٹمی مسئلہ ایران سے عناد اور دشمنی کا محض ایک بہانہ ہے اور دشمن کی پرفریب مسکراہٹ سے کوئی کسی غلط فہمی میں نہ پڑے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اتوار کی صبح استکبار سے مقابلے کے قومی دن کی مناسبت سے ہزاروں طلبہ کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ملت ایران سے امریکا کی دشمنی کی بنیادی وجوہات کا جامع جائزہ پیش کیا اور جاری مذاکرات سے تعلق رکھنے والے محنتی حکام کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر امریکا سے مذاکرات کا نتیجہ برآمد ہوا تو چہ بہتر اور اگر کوئي نتیجہ نہ نکلا تو اس مکرر سفارش کی اہمیت اور واضح ہو جائے گی کہ مشکلات کے حل کے لئے ہمیں اپنے داخلی وسائل و ذرائع کا ہی سہارا لینا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تیرہ آبان مطابق چار نومبر کو رونما ہونے والے تین انتہائی اہم تاریخی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سنہ 1964 میں ایران میں امریکی فوجیوں اور اہلکاروں کو عدالتی استثنا فراہم کرنے والے کیپیچولیشن قانون کے خلاف تقریر کی وجہ سے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلا وطنی، سنہ 1978 میں امریکا کے حمایت یافتہ ڈکٹیٹر کے کارندوں کے ہاتھوں تہران میں اسکولی طلبہ کا بے رحمانہ قتل عام اور سنہ 1979 میں امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لینے کا طلبہ کا شجاعانہ اقدام، یہ تینوں ہی واقعات ایک اعتبار سے امریکا سے مربوط ہیں، اسی لئے چار نومبر کو استکبار سے مقابلے کے قومی دن سے موسوم کیا گیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قرآن میں استعمال ہونے والے لفظ استکبار کی تشریح کی لیکن اس سے قبل اس نکتے پر تاکید فرمائی کہ سنہ انیس سو اناسی میں جن مومن و شجاع طلبہ نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کیا، انہوں نے جاسوسی کے مرکز میں تبدیل ہو چکے اس سفارت خانے کی حقیقت کو آشکارا اور ساری دنیا کے عوام کو اس سے باخبر کر دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس وقت ہمارے نوجوانوں نے امریکی سفارت خانے کو 'جاسوسی کے گھونسلے' کا نام دیا اور تین دہائیاں گزر جانے کے بعد آج یورپی ممالک میں جو امریکا کے اتحادی ہیں امریکی سفارتخانوں کو جاسوسی کا گھونسلہ کہا جا رہا ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان دنیا سے تیس سال آگے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے استکبار کے معنی و مفہوم پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ استکبار کا اطلاق ان افراد اور حکومتوں پر ہوتا ہے جو دیگر اقوام کے امور میں مداخلت اور ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کو اپنا حق سمجھتی ہیں اور کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ استکبار کے مد مقابل، وہ قومیں اور وہ انسان ہوتے ہیں جو استکبار کے جبر و استبداد، مداخلت پسندی اور توسیع پسندی کو برداشت نہیں کرتے بلکہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ملت ایران کا شمار اسی زمرے کی ملتوں میں ہوتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی حکومت استکباری حکومت ہے جو دنیا بھر کی اقوام کے امور میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ملت ایران نے اپنے انقلاب کے ذریعے در حقیقت امریکا کی تسلط پسندی اور استبداد کی نفی کر دی اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ملک کے اندر استکباری طاقتوں کی جڑیں کاٹ دیں، ایرانی قوم نے بعض دیگر اقوام کے برخلاف اس کام کو ادھورا نہیں چھوڑا کہ بعد میں اس کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہوتی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ استکباری طاقتوں کے ساتھ رواداری سے ملکوں اور قوموں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ آپ نے فرمایا کہ امریکا کا استکباری رویہ باعث بنا کہ اس کے تعلق سے قوموں میں بے اعتمادی اور بیزاری پیدا ہو اور تجربات سے ثابت ہو گیا کہ جس قوم اور جس حکومت نے بھی امریکا پر اعتماد کیا اس نے چوٹ کھائی ہے، خواہ اس کا شمار امریکا کے دوستوں میں ہی کیوں نہ ہوتا ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس ضمن میں ایران کی ڈاکٹر مصدق حکومت کے امریکا پر اعتماد اور جواب میں ان کی حکومت کے خلاف امریکا کی انیس اگست کی بغاوت اور اسی طرح شاہ محمد رضا پہلوی کے فرار کے بعد اس سے امریکیوں کی بے وفائی جیسی کئی تاریخی مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج قوموں کے اندر دنیا کی سب سے نفرت انگیز حکومت امریکی حکومت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر آج دنیا میں منصفانہ طور پر سروے کرایا جائے تو دنیا کے عوام کی نظر میں کوئی بھی حکومت امریکی حکومت جتنی قابل نفرت نہیں ہوگی۔ بنابریں استکبار سے مقابلہ اور عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ جو درست تجزئے پر استوار ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے تمام نوجوانوں کو استکبار سے مقابلے کے موضوع کا درست تجزیہ کرنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ اوائل انقلاب کے نوجوانوں کو امریکا کے خلاف جدوجہد کے سلسلے میں کسی تجزئے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ انہوں نے امریکا کے ظلم و ستم اور اس کی جانب سے بے رحم شاہی حکومت کی حمایت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا، لیکن آج کے نوجوانوں کو چاہئے کہ درست تجزیہ و تحلیل سے اس حقیقت کو سمجھیں کہ ایرانی قوم استکبار اور امریکا کے روئے کی کیوں مخالفت کرتی ہے اور امریکا سے ملت ایران کی بیزاری کی وجہ کیا ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد امریکا کے تعلق سے کچھ موجودہ مسائل کے سلسلے میں انتہائی اہم اور اساسی نکات بیان کئے۔ آپ نے گروپ پانچ جمع ایک ( امریکا، فرانس، برطانیہ، چین، روس اور جرمنی) سے مذاکرات کرنے والی ایرانی ٹیم کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ فرزندان انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مامور کردہ افراد ہیں جو انتہائی سخت مہم بڑی محنت سے انجام دے رہے ہیں، لہذا کوئی بھی ان کی توہین نہ کرے، انہیں کمزور کرنے کی کوشش نہ کرے اور نہ ہی ان پر سازباز کا الزام عائد کرے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ چھے ممالک کے ساتھ جن میں امریکا بھی شامل ہے صرف ایٹمی مسائل کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے، دوسرے کسی موضوع کا اس سے تعلق نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ان شاء اللہ مذاکرات سے ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچنے پائے گا بلکہ اس سے ملت ایران کو ایک تجربہ حاصل ہوگا اور سنہ 2003 اور 2004 میں یورینیم کی افزودگی کو عارضی طور پر روکنے کے تجربے کی مانند اس تجربے سے بھی عوام کی تجزیاتی و فکری صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس قومی تجربے کے نتائج کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ دس سال قبل یورپیوں سے مذاکرات میں ہم نے ایک طرح کی پسپائی کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی کے التواء کو جو ہم پر مسلط کر دیا گيا تھا، قبول کیا لیکن دو سال کے التواء اور اس دوران کئی تنصیبات کے بند ہو جانے کے بعد ہم سب سمجھ گئے کہ اس طرح کے اقدامات کے باوجود مغربی ملکوں کی طرف سے کسی تعاون کی امید رکھنا بے عبث ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا ہوتا تو ممکن تھا کہ کچھ لوگ دعوی کرتے کہ ایک بار پسپائی کر لی ہوتی تو ایٹمی مسئلہ معمول کی حالت پر پہنچ جاتا لیکن عارضی طور پر یورینیم کی افزودگی روکنے کے تجربے سے سب کو معلوم ہو گیا کہ ہمارے حریف کچھ اور مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، لہذا کام دوبارہ شروع کر دیا گيا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج ایران کے ایٹمی مسئلے کی صورت حال دس سال قبل کی نسبت بہت بدل چکی ہے۔ آپ نے امریکا سے متعلق مسائل پر کام کرنے والے حکام کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ جاری مذاکرات کے سلسلے میں ہم پرامید نہیں ہیں کیونکہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس سے وہ نتائج نکل سکیں گے یا نہیں جو ملت ایران کو مطلوب ہیں لیکن ہمارا یہ ماننا ہے کہ یہ تجربہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ قوم بیدار رہے اور حالات پر گہری نظر رکھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بعض سادہ لوح یا خاص مقصد کے تحت کام کرنے والے افراد کی تشہیراتی سرگرمیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض افراد بیرونی ذرائع ابلاغ کی آواز سے آواز ملاتے ہوئے اس کوشش میں لگ گئے ہیں کہ رائے عامہ کو گمراہ کرکے ایسا تاثر پیدا کریں کہ اگر ہم ایٹمی مسئلے میں پسپائی اختیار کر لیتے ہیں تو تمام اقتصادی و غیر اقتصادی مشکلات حل ہو جائیں گي۔ اس تشہیراتی حربے پر خط بطلان کھینچنے کے لئے قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی مسئلہ زیر بحث آنے سے پہلے کی امریکا کی ایران مخالف سازشوں اور منصوبوں کا حوالہ دیا اور پورے ملک کے عوام، خاص طور پر طلبہ و طالبات کو سفارش کی کہ اس سلسلے میں بہت تدبر اور غور و فکر سے کام لیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس ضمن میں کچھ بنیادی سوال اٹھائے۔ آپ نے کہا کہ انقلاب کے اوائل میں جب امریکا نے پابندیاں عائد کیں اور انہیں جاری رکھا تو کیا ایٹمی معاملہ زیر بحث تھا؟ جب ایران کے مسافر طیارے کو نشانہ بنایا گیا اور دو سو نوے مسافروں کا قتل عام کیا گیا، کیا اس وقت ایٹمی مسئلہ زیر بحث تھا؟ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد انقلاب مخالف گروہوں کی امریکا کی جانب سے سیاسی و اسلحہ جاتی مدد ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کی وجہ سے تھی؟
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ان سارے سوالات کے منفی جوابات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بنابریں ایٹمی مسئلہ محض ایک بہانہ ہے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ ہماری پسپائی سے کبھی یہ مسئلہ حل ہو گیا تو پھر وہ ایران سے اپنا عناد اور دشمنی جاری رکھنے کے لئے میزائلی شعبے میں پشرفت، صیہونی حکومت کی مخالفت اور اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے اسلامی مزاحمت کی حمایت جیسے بہانے پیش کریں گے۔ ان حقائق کا ذکر کرنے کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سے امریکیوں کی دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ ملت ایران کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے یہ موقف رکھتی ہے کہ امریکا ایران کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔ آپ نے فرمایا کہ امریکا اسلامی جمہوریہ کے وجود اور ملت ایران کے منتخب اسلامی نظام کے اعتبار و رسوخ و قدرت کا مخالف ہے، چنانچہ حال ہی میں امریکا کے ایک سیاستداں نے جو تھنک ٹینک سے بھی رابطہ رکھتا ہے، صریحی طور پر کہا ہے کہ ایران ایٹمی طاقت ہو یا نہ ہو دونوں صورت میں خطرناک ہے کیونکہ اثر و رسوخ رکھنے والا ملک ہے اور خود ان کے بقول علاقے میں ایران کی برتری قائم ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ایٹمی مسئلہ محض ایک بہانہ ہے، امریکی بس اس صورت میں دشمنی سے باز آ سکتے ہیں کہ ملت ایران بالکل الگ تھلگ، بے اعتبار اور بے وقعت ہوکر رہ جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ داخلی وسائل اور صلاحیتوں پر توجہ اور قومی طاقت پر تکیہ مسائل و مشکلات کی بہترین راہ حل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی قوم اپنی داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں پر تکیہ کرتی ہے تو دشمن کے غیظ و غضب سے متزلزل نہیں ہوتی، ہمیں بھی یہی ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سابق اور موجودہ جملہ حکام سے ہمیں یہی کہنا ہے کہ امور کی انجام دہی اور گرہوں کی گشائش کے لئے ایران کی اپنی گوناگوں اور وسیع صلاحیتوں، افرادی و قدرتی و جغرافیائی توانائیوں کو بروئے کار لائیں۔ آپ نے فرمایا کہ سفارتی تگ و دو اور محنت کشی بھی بہت ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ داخلی توانائیوں پر تکیہ کرنے کا مطلب سفارت کاری کی نفی کرنا نہیں ہے لیکن یہ توجہ رکھنا چاہئے کہ سفارتی محنت، مہم کا ایک حصہ ہے، اصلی محور داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں پر تکیہ کرنا ہے جس سے مذاکرات کی میز پر خاص اعتبار و اقتدار کی پوزیشن حاصل ہوتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس نکتے پر عوام اور حکام کی توجہ مرکوز کراتے ہوئے فرمایا کہ ایران دشمنوں کا مقابلہ کرنے میں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد سے اب تک کبھی لاچاری اور بے بسی کا شکار نہیں ہوا اور آئندہ بھی نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انقلاب کے پہلے عشرے میں بہت سے مادی وسائل منجملہ، پیسہ، اسلحہ، تجربہ، مسلح فورسز، کچھ بھی ہمارے پاس نہیں تھا جبکہ اسلامی انقلاب کا مد مقابل محاذ یعنی صدام کی بعث حکومت اور اس کی حامی مغربی و مشرقی طاقتیں اپنی قدرت و توانائی کے اوج پر تھیں لیکن وہ ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس وقت ملت ایران اور اس کے مخالف محاذ کی صورت حال گزشتہ برسوں کی نسبت بالکل تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس آج سائنس، ٹکنالوجی، اسلحہ، عالمی ساکھ، دسیوں لاکھ با صلاحیت اور مستعد نوجوان موجود ہیں اور مد مقابل محاذ یعنی امریکا اور اس کے اتحادی گوناگوں سیاسی و اقتصادی مشکلات اور بے شمار اختلافات سے دوچار ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کے سیاسی اختلافات، امریکی حکومت کے سولہ روزہ شٹ ڈاؤن، لا ینحل اقتصادی مشکلات، ہزاروں ارب ڈالر کے بجٹ خسارے، گوناگوں مسائل منجملہ شام پر فوجی حملے کے سلسلے میں یورپ اور امریکا کے مابین گہرے اختلافات کو ملت ایران کے مد مقابل محاذ کی صورت حال کے چند نمونے قرار دیا اور فرمایا کہ آج ملت ایران پوری طرح آگاہ، مقتدر اور پیشرفتہ قوم ہے جس کا بیس یا تیس سال قبل کے دور سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ بیشک وہ دباؤ ڈالیں گے لیکن داخلی توانائیوں کا سہارا لیکر ہمیں دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے مشکلات کو عبور کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سفارتی سطح پر اور مذاکرات کی میز پر حکومت اور عہدیداروں کے اقدامات اور کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اقدام ایک تجربہ اور ممکنہ طور پر ایک مفید عمل ہے، اگر اس سے نتیجہ حاصل ہوا تو چہ بہتر اور اگر کوئی نتیجہ نہ نکلا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وطن عزیز کو اپنی مشکلات کے حل کے لئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ میں اپنی سفارش کو ایک بار پھر دہراؤں گا کہ متبسم چہرے کے ساتھ سامنے آنے والے دشمن پر ہمیں اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سفارتی اور مذاکراتی عمل میں مصروف عہدیداروں کو میری سفارش یہ ہے کہ آپ بہت محتاط رہئے، دشمن کی پرفریب مسکراہٹ آپ کو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ کر دے! قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حکام کو چاہئے کہ مد مقابل فریق کے بیانات اور اقدامات پر گہری توجہ رکھیں، کیونکہ وہ ایک طرف تو مسکرا کر ملتے ہیں اور مذاکرات میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں لیکن دوسری جانب یہ بھی کہتے ہیں کہ تمام آپشن میز پر ہیں۔ اب یہ نہیں معلوم کہ وہ ہمارا کیا بگاڑ لیں گے؟!
قائد انقلاب اسلامی نے ایران پر ایٹمی بمباری کا مطالبہ کرنے والے ایک امریکی عہدیدار کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر امریکی حکام کی اس بات میں صداقت ہے کہ وہ مذاکرات میں سنجیدہ ہیں تو انہیں چاہئے کہ اس طرح کی مہمل بیانی کرنے والے افراد کا منہ توڑ دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جس حکومت کو یہ زعم ہے کہ عالمی مسائل اور ایٹمی مسائل کے تعلق سے اس کی ذمہ داریاں ہیں، یہ اس کی حماقت ہے کہ ایٹمی حملے کی دھمکی بھی دیتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج امریکا میں حکومت اور کانگریس پر طاقتور صیہونی سرمایہ داروں اور کمپنیوں کے غلبے کی وجہ سے امریکی حکام پست صیہونی حکومت اور صیہونی حلقوں کے ساتھ حد سے زیادہ رواداری برتنے پر مجبور ہیں، یہ بیچارے ان کا خاص خیال رکھنے پر مجبور ہیں، لیکن ہم تو ان کا خاص خیال رکھنے پر مجبور نہیں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم نے روز اول سے ہی یہ بات کہی اور مستقبل میں بھی کہتے رہیں گے کہ ہم صیہونی حکومت کو غیر قانونی حکومت اور (استکبار کی) 'ناجائز اولاد' سمجھتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے قوم اور حکام کی دانشمندی و ہوشیاری کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم حکام کے ہر اس اقدام کی حمایت کریں گے جو ملک کے مفاد میں ہو لیکن عوام، حکام اور خاص طور پر نوجوانوں کو یہ سفارش بھی کروں گا کہ اپنی آنکھیں پوری طرح کھلی رکھیں کیونکہ قوم کے اہداف کے حصول کا واحد راستہ ہوشیاری و بیداری قائم رکھنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ پروردگار عالم کے لطف و عنایت سے نوجوان نسل اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ ملک کو اپنے ہاتھ میں لے اور اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وطن عزیز کو بلند چوٹیوں پر پہنچائے۔