قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ملک کی علمی مہم کا نصب العین انسانی اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے دانش کے جدید اور ناشناختہ پہلوؤں کی تلاش کے ذریعے دنیا کی علمی سطح کا ارتقاء ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پیر کے دن ملک کی یونیورسٹیوں کے لئے تحقیقاتی پروجیکٹ انجام دینے والے ادارے جہاد دانشگاہی کے سربراہ، عہدیداروں اور محققین سے ملاقات میں فرمایا کہ ملک کی تیز رفتار علمی مہم کو آگے بھی اسی انداز سے جاری رکھنے کے لئے ملک کے جامع علمی روڈمیپ کے تناظر میں فرائض کے صحیح تعین اور اسلامی و انقلابی جذبے کی پابندی کے ساتھ مجاہدانہ انداز سے کام اور انتظامی اقدامات اور 'ہم کر سکتے ہیں' کے جذبے کی تقویت ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں کربلا کے تاریخ ساز نوجوان اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے فرزند حضرت علی اکبر علی علیہ السلام کے یوم ولادت کی مناسبت سے ایران میں منائے جانے والے نوجوانوں کے قومی دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ جہاد دانشگاہی ادارے کی ایک اہم خصوصیت مجاہدانہ فکر رکھنے والی ماہر افرادی قوت سے بہرہ مند ہونا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جہاد دانشگاہی بہت اہم ادارہ ہے کیونکہ یہ یونیورسٹیوں سے بھی وابستہ ہے جو علم و دانش کا محاذ اور ملک کی علمی ترقی کا مرکز شمار ہوتی ہیں اور ساتھ ہی یہ ادارہ مجاہدانہ انداز سے کام کرتا ہے اور رکاوٹوں کا سامنا ہونے پر بھی اپنی پیش قدمی کے عمل کو رکنے نہیں دیتا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ پرہیزگاری، پاکیزہ نیت اور اللہ تعالی کی ذات پر توکل، مجاہدانہ طرز عمل اور سعی و کوشش کی لازمی شرطیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ علمی کاموں میں یہ طرز فکر اور یہ جذبہ عنایت پروردگار اور علمی ارتقاء کے نئے راستے کھلنے کا باعث بنتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں ایک مغالطے کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ ممکن ہے کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر تقوائے الہی علمی پیشرفت کا مقدمہ ہے تو پھر وہ سائنسداں جن کے پاس تقوا نہیں حتی کہ وہ اللہ کو مانتے بھی نہیں تھے، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں عظیم پیشرفت حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ قائد انقلاب اسلامی نے اس سوال کے جواب میں قرآن کریم میں اللہ تعالی کی جانب سے کئے گئے اس وعدے کی طرف توجہ مبذول کرائی جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ جو انسان بھی سعی و کوشش کرے گا ارتقائی عمل میں اپنی محنت کے ثمرات اور مطلوبہ منزل تک پہنچے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: مگر الوہی طرز فکر اور سعی و کوشش اور غیر خدائی راستے پر چل کر انجام دی جانے والی محنت کے ثمرات اور پیشرفت کی کیفیت میں اساسی فرق ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس فرق کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مختلف میدانوں میں وسیع پیمانے پر حاصل ہونے والی ترقی کے باوجود انسانیت کے لئے گوناگوں خطرات، نقصانات، تنزل اور استبدادی رجحانات پیدا ہو گئے ہیں اور یہ مصیبتیں انسانوں کو بے شمار مسائل اور آلام میں مبتلا کر دیتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر علمی سرگرمیاں اور پیشرفت تقوی اور الوہی دائرے میں ہو تو یقینی طور پر اس کے ثمرات و نتائج ہر طرح کے ضرر رساں پہلو سے پاک اور انسانیت کے لئے نفع بخش ہوں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اس نقطہ نگاہ کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ پینتیس سال میں ملک کی یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کی کاوشیں اور کامیابیاں عام طور پر پینتیس سال کی مدت میں مجاہدانہ جذبے کے بغیر کی جانے والی محنت سے حاصل ہونے والے ثمرات سے بہت زیادہ اور معیاری ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ علمی مہم اسی انداز سے آئندہ ڈیڑھ سو سال تک جاری رہے تو ملت ایران کی علمی کامیابیاں اور ترقی امریکا جیسے ممالک کو ڈیڑھ سو سال میں ملنے ترقی سے زیادہ ہوگی۔ آپ نے مشرقی اور ایشیائی ممالک سے مغربی دنیا کے بڑھتے علمی فاصلے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس فاصلے کو مٹانے کے لئے مجاہدانہ انداز سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے پاکیزہ نیت، اللہ تعالی سے رابطہ، پروردگار کے سامنے خضوع، الوہی اہداف سے عدم انحراف کو مجاہدانہ عمل اور مینیجمنٹ کے بنیادی اصول قرار دیتے ہوئے فرمایا: اگر یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو اللہ تعالی ملکی انتظامی میدان، علمی، سیاسی، سماجی انتظامی امور اور عالمی روابط سمیت تمام میدانوں میں مدد کرے گا اور اپنے بندوں کے لئے نئے راستے کھول دے گا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 'ہم کر سکتے ہیں' کے جذبے کی تقویت کو مجاہدانہ پیش قدمی کی لازمی شرط قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ بد قسمتی سے برسوں تک ایرانی قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ وہ کچھ نہیں کر سکتی لیکن اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے 'ہم کر سکتے ہیں' کا جذبہ ملک کی سیاسی و انقلابی ثقافت میں شامل کر دیا، جس کا نتیجہ آج ایرانی قوم کی توانائیوں کے ظہور کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے برسوں میں عوام میں خود اعتمادی اور داخلی صلاحیتوں پر اعتماد کا جذبہ بیدار کرنے کی وسیع کوششوں کے باوجود 'ہم کچھ نہیں کر سکتے' کا غلط تصور پوری طرح ختم نہیں ہوا بلکہ آج بھی کچھ لوگ مختلف میدانوں میں اغیار سے آس لگاتے اور ان کی علمی، سیاسی، مادی اور عسکری پیشرفت سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں فرمایا کہ 'ہم کر سکتے ہیں' کے جذبے کا مطلب علمی ترقی کرنے والے دوسرے افراد سے علم حاصل کرنے سے گریز کرنا نہیں ہے مگر اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ ہمیں علم حاصل کرنا ہے، اس علم کے ساتھ دوسروں کی غلط ثقافت اور غلط پالیسی نہیں اختیار کرنی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علمی پیشرفت کے مسئلے میں، مطمح نظر بین الاقوامی سطح پر علمی ارتقاء اور علم کے نئے گوشوں کا انکشاف ہونا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم ملک کی علمی پیشرفت کی مدد سے دنیا کی بعض انتہائی مشکل اور پیچیدہ ٹکنالوجیوں کو ڈیولپ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، جو ہمارے لئے باعث افتخار ہے۔ مگر یہ ترقی پہلے ہی دیگر ممالک کے سائنسدانوں کی مدد سے حاصل ہو چکی ہے، لہذا ہمیں نئی سائنسی ایجادات کی کوشش کرنا چاہئے جو اب تک سائنس انجام نہیں دے سکی ہے، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں انسانی معاشرے کے لئے کوئی ضرررساں پہلو نہ ہو۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی سلسلے میں ایک انتہائی اہم اور مشکل ٹکنالوجی کے طور پر ایٹمی سائنس کا نام لیا اور فرمایا کہ یہ سائنس حد درجہ اہمیت رکھتی ہے مگر تباہ کن ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار کا ذریعہ بن گئي جو صد فیصد انسانیت کے نقصان میں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں اپنی علمی ترقی میں ایسی ایجادات اور انکشافات کی طرف بڑھنا چاہئے جو انسانی زندگی کے معیار کو انسانی اقدار کے دائرے میں ارتقائی عمل سے گزاریں اور ان میں انسانیت کے لئے کوئی ضرر رساں پہلو بھی نہ ہو۔