قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیر کی شام ملک کے مختلف سول اور فوجی اداروں کے اعلی عہدیداروں اور کارکنوں سے ملاقات میں داخلی و خارجہ مسائل کے سلسلے میں انتہائی کلیدی نکات بیان فرمائے اور کہا کہ اس وقت امریکا کا سب سے اہم منصوبہ اور انتہائی پیچیدہ سازش، اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام اور اداروں کے اندازوں کو درہم برہم کر دینا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے علاقے اور دنیا کے انتہائی حساس معروضی حالات اور سامنے موجود انتہائی حساس تاریخی موڑ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ اپنے خردمندانہ اندازوں کی اصلی بنیادوں یعنی اللہ اور خلقت کے اصولوں پر اعتماد، دشمن کی شناخت اور اس پر کبھی بھروسہ نہ کرنے کی روش کی مدد سے اپنا پرافتخار سفر، عوام پر تکیہ کرکے اور قوم کے اہداف کی تکمیل کے لئے اب تک کے تجربات اور مربوط مساعی کے ذریعے، طے کرتی رہے گی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رمضان کے مبارک مہینے کو تقوا و بندگی اور خداپسندانہ اعمال سے شیطان اور شیطانی اعمال کے تصادم کے میدان سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ مقابلے کے اس میدان میں شیطان کے مد نظر ایک اہم ہدف ہے اور تقوا کا بھی ایک انتہائی اہم ہدف ہے۔ شیطان کا ہدف یہ ہے کہ انسانوں کے اندازوں اور تخمینوں کے نظام میں خلل ایجاد کرے تاکہ ان کے اندازے غلط ہوں اور انہیں غلط اندازوں کی بنیاد پر اقدامات انجام دیں، جبکہ تقوی انسان کی آگاہی کا راستہ ہموار اور حق و باطل کے فرق کو نمایاں کرتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انسانوں کو اندازے کی غلطی میں مبتلا کرنے کے سلسلے میں ڈرانا اور لالچ دینا شیطان کے دو اہم حربے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ شیطان ایک طرف تو انسانوں کو ڈراتا ہے اور دوسری طرف پرکشش وعدوں کے ذریعے ان کے سامنے کسی سراب کی مانند جھوٹے تصوراتی مستقبل کا خاکہ کھینچتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اس حصے میں امریکا اور دیگر سامراجی طاقتوں کا مزاج اور طرز عمل سمجھنے کے سلسلے میں انتہائی کلیدی نکتہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: امریکا اور دیگر تسلط پسند طاقتوں کا رویہ شیطان کی روش سے ملتا ہے کیونکہ یہ طاقتیں بھی ہمیشہ دھمکی اور لالچ کے ذریعے اور خاص طور پر ایسے وعدے کرکے جن پر وہ کبھی بھی عمل نہیں کرتیں، دوسرے ممالک کو مرعوب اور مغلوب کرتی ہیں۔ اسی طرح شیطان بھی دھمکی اور لالچ کے ذریعے انسان کو نئے اندازے اور تخمینے طے کرنے پر اکساتا ہے اور اسے اندازوں کی غلطی میں مبتلا کر دیتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اندازے کی غلطی کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس بڑے خطرے کی طرف سے سب ہوشیار رہیں، کیونکہ اندازے اور تخمینے کی غلطی کے نتیجے میں انسان کی قوت ارادی اور توانائیاں غلط سمت میں صرف ہوکر در حقیقت ضائع ہو جاتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق اس سلسلے میں حکام کو اور بھی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا: اندازے کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ انسان روحانی و معنوی عوامل اور سنت الہیہ کو نظرانداز کرکے صرف ظاہری اور خالص مادی عوامل و وسائل تک خود کو محدود کر لے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ سعادت یا بدبختی اور ترقی یا پسماندگی کا انحصار صرف مادی عوامل و اسباب پر نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ روحانی عوامل اور کبھی نہ بدلنے والی سنت الہیہ بہت موثر عوامل و اسباب ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ناقابل تدارک غلطی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے روحانی عوامل اور سنت الہیہ کی اہمیت و مقام و منزلت کی تشریح کرتے ہوئے کچھ آیات قرآنی کا حوالہ دیا اور عصری دنیا میں ان کے عینی و عملی مصادیق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اگر راہ خدا میں آگے بڑھئے اور دین خدا کی نصرت کیجئے تو نصرت و اعانت خداوندی یقینی طور پر آپ کا مقدر ہوگی، یہ سنت الہیہ ہے جو تاریخ میں بار بار دہرائی جاتی رہی ہے اور اس کا تازہ عصری نمونہ ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح ہے جو دنیا کا انتہائی اہم تاریخی موڑ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں حکام کو خاص طور پر اندازے اور تخمینے کی غلطی سے خود کو محفوظ رکھنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن کو یہ موقع ہرگز نہ دیجئے کہ دھمکی اور لالچ کے ذریعے آپ کے اندازوں اور تخمینوں کے نظام کو متاثر کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں استکبار سے اسلامی جمہوریہ ایران کے مسلسل جاری پیکار کو شیاطین انس و جن کے خلاف انبیائے الہی کی جنگ کا تسلسل قرار دیا اور فرمایا کہ شیاطین کے تمام تر ظاہری زرق و برق کے باوجود ملت ایران کی خداپسندانہ تحریک روز بروز زیادہ عمیق اور وسیع تر ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دشمن نے فوجی دھمکیوں اور پابندیوں کی صورت میں اپنے دو حربوں کو ناکام ہوتا دیکھ کر ایران کے حکام اور اداروں کے پالیسی سازی کے نظام میں خلل ڈالنے کی کوششیں شروع کی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پابندیوں کو مزاحمتی معیشت کے دائرے میں جدوجہد کے ذریعے بے اثر بنایا جائے جبکہ فوجی دھمکیاں لشکر کشی پر آنے والے بڑے اخراجات کی وجہ سے صرف لفاظی کی حد تک محدود ہو گئی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے اصلی راستے کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ جیسا کہ جناب صدر محترم (ڈاکٹر حسن روحانی) نے فرمایا، اقتصادی منصوبہ بندی اس امکان کو مد نظر رکھ کر انجام دی جائے کہ دشمن پابندیوں میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں کرے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ممکنہ ایٹمی معاہدہ ہو جانے کے بعد بھی پابندیوں کا سلسلہ جاری رہنے کا عندیہ دینے والے امریکی حکام کے بیانوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جیسا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں، ایٹمی مسئلہ صرف ایک بہانہ ہے، اگر یہ مسئلہ ختم ہو جائے تو دشمن انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق یا دیگر مسائل کو نئے بہانے کے طور پر اٹھانا شروع کر دیگا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فوجی دھمکی کے امریکی حربے کے بارے میں فرمایا: بے گناہ شہریوں کا قتل عام، جرائم اور غارت گری جیسی چیزوں سے اپنی بیزاری کی وجہ سے امریکا لشکر کشی سے گریزاں نہیں ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت فوجی حملہ امریکا کے لئے فائدے کا سودا نہیں رہ گیا ہے، اسی وجہ سے عالمی مبصرین اور ایران کے عوام اس کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کی طرف سے صدام نامی درندے کی حمایت، ایران کے مسافر بردار طیارے پر میزائل حملے اور سیکڑوں بے گناہ عورتوں، مردوں اور بچوں کے قتل عام، عراق اور افغانستان میں لاکھوں لوگوں کے قتل عام، رنگین انقلاب کے نام پر متعدد ملکوں میں خونریز بحران پیدا کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکیوں کی نظر میں قوموں کی زندگی، سکون و چین اور سلامتی کی کوئي وقعت نہیں ہے، چنانچہ اگر انہیں لشکر کشی میں فائدہ نظر آ جائے تو وہ ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کریں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ان رپورٹوں کا حوالہ دیا جن کے مطابق امریکا نے صیہونی حکومت کے حملے سے روکا ہے، آپ نے فرمایا: اگر یہ رپورٹیں صحیح ہیں تو امریکا کی جانب سے اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ حملہ کرنا فائدے کا سودہ نہیں ہے اور ہم خود بھی تاکید کہ ساتھ یہی کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پر حملہ کسی کے لئے بھی فائدے کا سودا ثابت نہیں ہو پائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں مزید فرمایا کہ پابندیوں کے سلسلے میں بھی اور دھمکیوں کے سلسلے میں بھی دشمن بالکل خالی ہاتھ ہے، لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ ہم حقیقت میں اہل ایمان بنیں اور میدان عمل میں ڈٹے رہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد ایران کے اعلی عہدیداروں کے اندازوں اور تخمینوں کو غلط سمت میں لے جانے کی سامراجی طاقتوں اور خاص طور پر امریکا کی کوششوں کے سلسلے میں انتہائی ظریف نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمن جانتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ اگر کسی ہدف کے حصول کا تہیہ کر لے تو اسے حاصل کرکے رہتی ہے، لہذا اس کی کوشش یہ ہے کہ ایرانی عہدیداروں کے پالیسی سازی کے نظام میں خلل ڈال کر ایسی صورت حال پیدا کر دے کہ یہ حکام امریکی مفادات سے ٹکراؤ رکھنے والا کوئی بھی ہدف اپنے ایجنڈے میں شامل ہی نہ کریں، یہی نرم جنگ ہے جس کا ذکر کئي سال قبل کیا جا چکا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ امریکا کی یہ سازش بھی ناکامی سے دوچار ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ نے شروع ہی سے منطقی طرز عمل کی بنیاد پر اور دو بنیادی عناصر یعنی اللہ اور سنت خداوندی پر اعتماد اور دشمن کی صحیح پہچان اور اس پر کبھی بھروسہ نہ کرنے کے تحت اپنی پالیسیوں اور اقدامات کو قوت عقل پر مرکوز رکھا ہے اور آئندہ بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان دونوں عقلی عناصر کے لازمی عوامل کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: عوام الناس اور ان کی محبت اور سچے جذبات پر اعتماد، سب کچھ کر سکتے ہیں کہ جذبے پر یقین، عمل و اقدام پر تکیہ اور تساہلی اور بے عملی سے اجتناب، نصرت خداوندی پر اعتماد اور فرائض کی ادائیگی کی راہ میں جدوجہد، تجربات سے استفادہ اور اپنی خود مختاری و آزادی پر ثابت قدمی نیز قوموں کے ساتھ سامراجی طاقتوں کے روئے کا بغور جائزہ اسلامی جمہوریہ ایران کی قوت عقلیہ یعنی نظام کی پالیسیوں اور اقدامات کی بنیاد کو تشکیل دینے والے عناصر ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سامراجی طاقتوں کی دشمنی در حقیقت اس خردمندی کی مخالفت ہے، ورنہ صرف (اسلامی جمہوریہ کے) نام اور اسلام کے نام پر کچھ تکلفاتی ضوابط سے انہیں کوئي پریشانی نہیں ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکا کے ایک عہدیدار کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ایران اور امریکا کے درمیان تو مفاہمت ممکن ہے مگر اسلامی جمہوریہ اور امریکا کے درمیان مصالحت کا کوئی امکان نہیں ہے۔۔ آپ نےفرمایا : یہ بات درست ہے۔ کیونکہ پہلوی دور حکومت کے اس ایران سے امریکا کو کوئی شکایت نہیں تھی جو اس پر پوری طرح منحصر تھا، لیکن وہ اسلامی جمہوریہ سے جو خود مختاری، ایمان، اسلامی اتحاد و یکجہتی اور ظلم کی مخالفت کی دعوت دیتا ہے، اپنی دشمنی ختم نہیں کر سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اعلی حکام سے اپنے اس خطاب میں کئی اہم سفارشات کیں۔ آپ نے اپنی پہلی سفارش میں علاقے اور دنیا کے انتہائی حساس حالات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حقیقت میں ہم بڑے اہم تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں اور اگر ہم نے خود کو مستحکم نہ بنایا تو سب ہم پر دھونس جمانے کی کوشش کریں گے، لہذا ہمیں چاہئے کہ خود کو اور طاقتور بنائیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملک کی قوت و طاقت میں اضافے کے اہم عوامل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جذبات کا بیدار ہونا، پرامید نظر، سعی و کوشش، اقتصادی، ثقافتی اور سیکورٹی شعبے کی خامیوں اور خلا کی شناخت اور پھر اس خلا کو پر کرنے کے لئے موثر اقدامات، اداروں کے درمیان امداد باہمی، اداروں کا عوام الناس کے ساتھ تعاون، ایران کی طاقت میں اضافے کے اہم عوامل ہیں۔
ملک کے حکام کے لئے قائد انقلاب اسلامی کی دوسری سفارش یہ تھی کہ وہ عوام کی خدمت کرنے اور لگن سے کام کرنے کے اس موقعے کو غنیمت جانیں۔ آپ نے فرمایا کہ آپ یہ مت کہئے کہ ہمیں کام ہی نہیں کرنے دیا جاتا! اس طرح کی باتیں پہلے بھی کہی جاتی رہی ہیں جو ہرگز قابل قبول نہیں ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ دستیاب وسائل کو استعمال کیا جائے اور کام کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی کی جانب سے اسلامی نظام کے عہدیداروں کے لئے تیسری اہم سفارش یہ تھی کہ اپنے جملہ اقدامات اور فیصلوں کو اسلامی انقلاب کے اصولوں کے دائرے میں رکھیں اور فروعی باتوں میں الجھنے کے بجائے عوام کی مشکلات و مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے عہدیداروں سے چوتھی سفارش تینوں شعبوں (مقننہ، مجریہ اور عدلیہ) کے مابین دوستانہ روابط اور دیگر اداروں کو ایسے ہی روابط کی ترغیب دلانے سے تعلق سے کی۔ آپ نے تینوں شعبوں کے سربراہوں کے اجلاسوں کے انعقاد، ان شعبوں کے درمیان دو طرفہ ملاقاتوں، تبادلہ خیال اور باہمی مشاورت کی ضرورت پر زور دیا اور ساتھ ہی مجاہدانہ نظم و ضبط کی ضرورت پر بھی تاکید کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں حکومت کے لوگوں کے روئے کے سلسلے میں بھی کچھ نکات بیان کئے اور حکومت کو بھی چند ہدایات دیں۔
حکومت کے ساتھ برتاؤ کے طریقے کے سلسلے میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں حکومت کی تائید اور حمایت کرتا ہوں اور جو بھی توانائی میرے اختیار میں ہے اسے حکومت کی مدد کے لئے استعمال کروں گا، مجھے حکومتی عہدیداروں پر پورا اعتماد ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ماضی میں بھی تمام منتخب حکومتوں کی ولی امر مسلمین کی طرف سے پشت پناہی کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: ان تمام حکومتوں میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں تھیں، البتہ گزشتہ حکومتوں پر تنقید ماہرین کی سطح پر ہونی چاہئے اور عمومی پلیٹ فارم پر تنقید کرنے میں مصلحت نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ موجودہ حکومت کے بارے میں بھی ہر طرح کی تنقید، منصفانہ، محترمانہ اور دردمندانہ انداز میں اور عیب جوئی اور ایذا رسانی کے جذبے سے پاک ہونی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے حکومت کو بھی چند ہدایات دیں۔ آپ نے سب سے پہلی چیز یہ کہی کہ حکومت مزاحمتی اور خود کفیل معیشت سے متعلق پالیسیوں کو پوری سنجیدگی سے لے۔ آپ نے فرمایا: صدر محترم اور بعض حکام نے کم و بیش مزاحمتی معیشت سے متعلق پالیسیوں کی حمایت میں بیان دیئے ہیں لیکن اصل میں ضرورت عمل کی ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ بیان دینے کی حد تک تو مزاحمتی معیشت کی حمایت کی جائے لیکن عملی طور پر ہماری پیش قدمی بالکل کند ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مزاحمتی اور خود کفیل معیشت داخلی پیداوار اور معیشت کے داخلی ڈھانچے کے استحکام پر استوار ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ اقتصادی رونق بھی داخلی صلاحیتوں کو فعال بنانے اور داخلی پیداوار کو بڑھانے سے ہی ممکن ہے، اس کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں پرعملدرآمد کے سلسلے میں بینکوں اور صنعت و معدنیات کے شعبے کو بھی کچھ ہدایات دیں۔ آپ نے بینکوں کے بارے میں فرمایا: بینکوں کو چاہئے کہ مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں پرعملدرآمد کے سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں اور خود کو ان پالیسیوں کے اجرء اور حکومت کے متعلقہ پروگراموں سے ہم آہنگ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے صنعت و معدنیات کے شعبے کو یہ سفارش کی کہ اپنی محنت اور سرگرمیوں میں اور اضافہ کریں کیونکہ جمود کی حالت سے باہر نکلنے کے سلسلے میں سب سے اہم ذمہ داری صنعت و معدنیات کے شعبے کی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق زراعت کا شعبہ بھی انتہائی حیاتی اہمیت رکھتا ہے، آپ نے اس شعبے کے لئے حکومت کی طرف سے حمایتی پالیسیوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ زراعتی شعبے کے سلسلے میں حمایتی پالیسیاں تیار کرنے کے ساتھ ہی کاشتکاروں اور ڈیری فارم چلانے والوں کے مسائل کو بھی برطرف کیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں گیارہویں حکومت کے اعتدال کے نعرے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اعتدال بہت اچھا نعرہ ہے جس کی سب حمایت کرتے ہیں کیونکہ انتہا پسندی ہمیشہ سرزنش کا باعث ہوتی ہے۔ تاہم قائد انقلاب اسلامی نے اعتدال کے سلسلے میں حکومت کو ایک اہم سفارش کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ہوشیار رہئے کہ ملک کے سیاسی میدان میں کچھ لوگ اعتدال کا نعرہ بلند کرکے دیندار افراد کو حاشیئے پر نہ دھکیل دیں، کیونکہ یہ مذہبی طبقہ ہی ہے جو پرخطر مواقع پر سب سے پہلے سینہ سپر ہوکر کھڑا جاتا ہے اور مشکلات کے حل میں حکومت کی حقیقت میں مدد کرتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلام ہی اعتدال ہے، یعنی کفار سے سختی کے ساتھ مقابلہ اور آپس میں حد درجہ محبت و رواداری، یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اعتدال کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دیندار طبقہ جن امور کو اپنی شرعی ذمہ داری سمجھ کر انجام دیتا ہے ان پر روک لگا دی جائے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد سیاسی حلقوں اور ذرائع ابلاغ کو بھی بڑی اہم سفارش کی اور ان حلقوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام الناس کی ذہنی و فکری آسودگی اور احساس تحفظ بہت اہم ہے، چنانچہ یہ درست نہیں ہے کہ بعض بے بنیاد باتوں کو موضوع بحث بناکر اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی باتوں کو دہرا کر عوام کے فکر و اعصاب سے کھلواڑ کیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایٹمی مسئلے کا بھی ذکر کیا اور اسے انتہائی حساس مسئلہ قرار دیا۔ آپ نے ایٹمی مسئلے میں صدر مملکت کی بات کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ سچائی یہی ہے کہ اس مسئلے میں ہمارا مد مقابل فریق اتنی سختی کر رہا ہے کہ ہم اس پروگرام کی کم ترین سطح پر ہی رضامند ہو جائیں۔
آپ نے فرمایا کہ یورینیم کی افزودگی کا انتہائی کلیدی مسئلہ دونوں فریقوں کے درمیان اختلاف کی اصلی وجہ بنا ہوا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کا ہدف یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو 10 ہزار سیپریٹنگ ورک یونٹ ((saprating work unit SWU) پر اکتفا کرنے پر تیار کر لیں۔ البتہ انہوں نے آغاز میں تو پانچ سو (SWU) اور ایک ہزار (SWU) کی بات کی تھی۔ دس ہزار (SWU) دس ہزار پرانی قسم کی سنٹری فیوج مشینوں سے حاصل ہوتی ہے جو پہلے سے ہمارے پاس موجود ہے۔ جبکہ متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ ملک کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے ایک لاکھ نوے ہزار (SWU) کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکیوں کی اس دلیل کو غلط اور غیر منطقی قرار دیا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے سلسلے میں اپنی تشویش کی وجہ سے وہ ایٹمی ٹکنالوجی کے ایران کی مقامی ٹکنالوجی میں تبدیل ہو جانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ایٹمی ہتھیار تک رسائی کا راستہ قابل اطمینان طور پر بند کرنے کے لئے معین طریقے اور ذمہ دار ادارے موجود ہیں، اور ایران اس سلسلے مین کہیں کوئی اعتراض نہیں کرتا اور اس کی ضمانت بھی دی جا چکی ہے لیکن جہاں تک امریکا کا سوال ہے تو اسے ہرگز یہ حق نہیں ہے کہ نیوکلیائی ہتھیاروں تک ملکوں کی ممکنہ رسائی پر اظہار تشویش کرے کیونکہ خود امریکا یہ ہتھیار استعمال کر چکا ہے اور آج بھی اس کے پاس کئي ہزار جوہری بم موجود ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے سلسلے میں آپ کا جو ریکارڈ ہے اس کے پیش نظر تو ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں تشویش ظاہر کرنا آپ کا کام نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ البتہ ہمیں اپنی ایٹمی مذاکراتی ٹیم پر پورا اعتماد ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ملک و قوم کے حقوق اور ملت ایران کے وقار پر ہرگز آنچ نہیں آنے دیگی اور ایسا کوئي بھی قدم اٹھانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دیگی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی میدان میں تحقیق اور ریسرچ کو ایٹمی مذاکرات میں ہر حال میں مد نظر رکھے جانے پر زور دیا اور فرمایا کہ ایک اور اہم مسئلہ جس کے بارے میں مد مقابل فریق کو بڑی فکر لاحق ہے، ان تنصیبات کو محفوظ رکھنے کا ہے جنہیں تباہ کرنا دشمن کے لئے ناممکن ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ وہ فوردو ایٹمی مرکز کے بارے میں کہتے ہیں کہ چونکہ اس ایٹمی مرکز کو نقصان پہنچانا ممکن نہیں ہے لہذا اسے بند کر دیا جانا چاہئے، یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح اپنے خطاب میں علاقائی مسائل اور خاص طور پر عراق میں سر اٹھانے والے فتنے کا ذکر کیا اور فرمایا: توفیق الہی سے عراق کے صاحب ایمان عوام اس فتنے کی آگ کو خاموش کر دیں گے اور علاقائی قومیں بھی روز بروز روحانی و مادی ارتقاء کے راستے پر گامزن ہوں گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ماہ رمضان کو توبہ و مناجات کا مہینہ اور بداعمالی، بد فکری اور برے عزائم کے دوزخ سے نکل کر نیک کرداری، نیک اعمالی اور مثبت سوچ کی بہشت کی طرف پیش قدمی کی تمہید قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ماہ رمضان کی دعاؤں میں انسان کو جو اعلی تعلیمات دی جاتی ہیں ان میں، معرفت و ہدف کے ساتھ عمل کی انجام دہی، تساہلی، بے عملی اور بیزاری سے اجتناب، بے توجہی، سخت دلی، رجعت پسندی اور غفلت سے دوری کی تعلیم ہے اور ان تعلمیات پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے میں حکام کی ذمہ داریاں عام افراد سے زیادہ ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنی تقریر میں رمضان کے بابرکت مہینے کی اخلاقی و ثقافتی برکتوں اور تعلیمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی انقلاب کا اصلی ہدف در حقیقت انبیاء کی بعثت کا ہدف یعنی اخلاقی مدارج کی تکمیل ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ حکومت ثقافتی فرائض نیز مزاحمتی معیشت سے متعلق پالیسیوں کے نفاذ کو اپنی اہم ترین ذمہ داری سمجھتی ہے۔ صدر روحانی نے اپنی حکومت کی گیارہ مہینے کی کارکردگی کی مختصر رپورٹ پیش کی۔ صدر مملکت نے اقتصادی میدان میں اپنی خدمات اور اہداف، افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے انجام دیئےجانے والے اقدامات اور آئندہ کے منصوبوں کے سلسلے میں گفتگو کی۔
ڈاکٹر روحانی نے خارجہ پالیسی کی سطح پر اپنی حکومت کی کارکردگی کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ایرانوفوبیا پھیلانے اور نئے نئے بہانے تراشنے کی عالمی استکباری طاقتوں کی سازش ناکام کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ظالمانہ طور پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی دیوار میں ایسا شگاف ڈال دیا گيا ہے جو بھرا نہیں جا سکتا۔ ڈاکٹر روحانی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران استدلال اور منطقی موقف کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کی میز پر بیٹھا ہے اور ملت ایران کے حقوق سے ذرہ برابر بھی صرف نظر نہیں کیا جائے گا۔ ڈاکٹر روحانی نے کہا کہ آج اگر دشمن کی توسیع پسندی اور بیجا مطالبات کی وجہ سے ایٹمی مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو ساری دنیا کو علم رہے گا کہ مذاکرات کی ناکامی کے لئے قصوروار دوسرے فریق ہیں اور ایران قوم کی بھرپور حمایت وپشت پناہی کے ساتھ قانونی راستے پر مسلسل آگے بڑھتا رہے گا۔
ڈاکٹر روحانی نے علاقے میں حالیہ تغیرات اور بدامنی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے والے گروہوں کی تشکیل کرکے اور اسلامی جہاد جیسے مقدس الفاظ اور اصطلاعات کا غلط استعمال کرکے امت مسلمہ کے دشمن در حقیقت اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے پیغام کی ترویج کو روکنا چاہتے ہیں جو در حقیقت خود مختاری و آزادی اور اتحاد و پائیداری کا پیغام ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن و ثبات قائم کرنے اور جہالت، انتہا پسندی، وحشی پن اور تشدد سے مقابلے کے اپنے فرائض پر اسلامی جمہوریہ ایران پوری طرح کاربند ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ علاقے میں بدامنی، انسان کشی اور خونریزی کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔