قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دنیا، علاقے اور ملک کے حالات کا جامع تجزیہ کرتے ہوئے ایک نئے عالمی نظام کے وجود میں آنے کے آثار کی نشاندہی کی اور مغرب کے تسلط اور موجودہ عالمی نظام کی فکری و عملی بنیادوں میں تزلزل کے اصلی علل و اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ اس حساس دور میں سب سے اہم فریضہ نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کے عمل میں زیادہ موثر کردار ادا کرنے کے لئے ملک کی قوت و استحکام میں اضافہ کرنا ہے اور قوت و استحکام میں اضافہ سائنس و ٹکنالوجی، معیشت اور ثقافت جیسے تین عناصر پر منحصر ہے۔
مجتہدین کی کونسل (مجلس خبرگان) کے ارکان سے جمعرات کو اپنی ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اتحاد اور ہم خیالی ملک کی بنیادی ضرورت ہے اور سب کی ذمہ داری یہ ہے کہ حکومت اور اجرائی اداروں کی پشت پناہی کریں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملاقات کے آغاز میں کونسل کے سربراہ آیت اللہ مہدوی کنی کی گراں قدر شخصیت کی قدردانی کی اور ان کی فوری صحتیابی کے لئے دعا کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے کونسل کے ان ارکان کو بھی یاد کیا جو حالیہ چند مہینوں کے دوران انتقال کر گئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ماہ ذی القعدہ کو توبہ و استغفار کا مہینہ قرار دیا اور اس مہینے کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے کی سفارش کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالمی اور علاقائی حالات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے فرمایا: موجودہ تغیرات اہل مغرب بشمول امریکا اور یورپ کے ہاتھوں تشکیل پانے والے ستر سالہ عالمی نظام کی تبدیلی اور ایک نئے نظام کے معرض وجود میں آنے کی علامت ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ستر سالہ نظام کی فکری و اخلاقیاتی اور سیاسی و عسکری دو بنیادوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا اور علاقے کی سطح پر حالیہ برسوں میں رونما ہونے والے تغیرات سے واضح طور پر یہ اشارہ ملتا ہے کہ مغرب کے اقتدار کی دونوں بنیادیں تزلزل اور متعدد چیلجنوں سے دوچار ہو گئی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فکری و اخلاقی بنیادوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مغرب نے برسوں تک آزادی، جمہوریت، انسانی حقوق اور انسانوں کے دفاع کے پرکشش اور جاذب نظر نعرے پیش کرکے دنیا کے دیگر علاقوں اور ادیان بالخصوص دین اسلام پر اپنے سیاسی نظام کی برتری اور فوقیت کو منوانے کی کوشش کی اور بدقسمتی سے عالم اسلام میں کچھ افراد، شخصیات اور حکومتیں بھی ان نعروں سے حددرجہ متاثر ہو گئیں اور انہیں ایسا لگا کہ مغرب جن اقدار کی برتری کا دعوی کرتا ہے انہیں واقعی برتری حاصل ہے، آج بھی اس فکر کے حامل کچھ لوگ موجود ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغربی تمدن کی سیاسی و عسکری بنیاد کے بارے میں فرمایا کہ اگر کچھ قومیں، حکومتیں اور بعض حلقے مغرب کی پسندیدہ اقدار سے متاثر نہ ہوتے بلکہ اس نظام کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے تو ان پر سیاسی و عسکری حربوں سے دباؤ ڈالا اور ایران سمیت متعدد ممالک میں اس دباؤ کی متعدد مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: مغربی نظام اپنے تشہیراتی اداروں کی مدد سے جو روز بروز وسیع تر اور ماڈرن ہو رہے تھے، ان دونوں بنیادوں کو دنیا کی اقوام کے سامنے آئیڈیل کے طور پر پیش کرتا تھا اور دانشوروں، مفکرین اور اقوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا تھا کہ مغربی اقدار دنیا کی بہترین اقدار ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے موجودہ حالات میں مغرب کے عالمی نظام کے دونوں ستونوں میں زبردست تزلزل پیدا ہو جانے کا حوالہ دیتے ہوئے مغرب کے فکری تسلط کی بنیادوں کو در پیش سنجیدہ چیلنج اور مشکلات کے اسباب کی تشریح کی۔ آپ نے فرمایا: مغرب میں روز افزوں اخلاقی بحران جیسے لوگوں کے اندر ہدف اور مقصد کے فقدان کا احساس اور خاص طور پر نوجوانوں میں ذہنی انتشار کی کیفیت، خاندانوں کی بنیادوں کا ہل جانا، عورت کے سلسلے میں غلط رجحان اور فکر، نسائیت کی تحریک پر سوالیہ نشان، ہم جنس پرستی جیسی برائیوں کو اقدار کا درجہ مل جانا اور ان برائیوں کی مخالفت کو معیوب قرار دے دینا مغربی نظام کی فکری بنیادوں پر شدید اعتراضات کی بنیادی وجوہات ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغرب میں دین اور خاص طور پر دین اسلام کی جانب عمومی رغبت میں مسلسل اضافے اور قرآن کی طرف لوگوں کی توجہ کو اس کا دوسرا اہم سبب قرار دیا اور مغرب کے پسندیدہ نعروں اور ان کے عملی اقدامات میں ٹکراؤ اور تضاد پیدا ہو جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مغرب جو ہمیشہ ازادی، انسانی حقوق اور جمہوریت کا دم بھرتا تھا، عملی میدان میں ان نعروں کی مخالفت کرتا رہا، چنانچہ آج یہ مغربی ممالک کی جانب سے ان نعروں کا اعادہ قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دنیا کی خود مختار حکومتوں کے خلاف بغاوتوں کی مغرب کی طرف سے حمایت کے حیرت انگیز اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بعض رپورٹوں کے مطابق امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے بعد پچاس حکومتوں کی سرنگونی کے لئے اقدام کیا اور درجنوں عوامی تحریکوں کی مخالفت کی۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق جاپان پر امریکا کی ایٹمی بمباری میں دو لاکھ لوگوں کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا، گوانتانامو اور ابو غریب جیسی جیلیں اور یورپ میں درجنوں خفیہ جیلیں، مغربی ممالک کے پرکشش نعروں اور ان کے عمل کے تضاد اور ٹکراؤ کی مثالیں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: بیرونی تسلط کی مخالف حکومتوں اور قوموں کے خلاف طاقت کا استعمال، تشدد، سرکوبی اور پابندیاں، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل، لشکر کشی، جیسے عراق اور افغانستان پر حملہ اور پاکستان پر مسلسل انجام پانے والے حملے، مغرب کے فکری نظام میں پیدا ہونے والی کمزور اور اضمحلال کا چوتھا اہم سبب ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مغرب کے نعروں اور اقدار پر سوالیہ نشان لگ جانے کا پانچواں سبب القاعدہ اور داعش جیسے گروہوں اور فکروں کو وجود بخشنا ہے۔ آپ نے فرمایا: اگرچہ مغرب اور خاص طور پر امریکا کا یہ دعوی ہے کہ ان تنظیموں کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن گوناگوں شواہد کی بنیاد پر اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ یہ تنظیمیں مغربی طاقتوں اور ان کے علاقائی آلہ کاروں کی دین ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انہیں عوامل و اسباب کی وجہ سے مغرب کا فکری و اخلاقی نظام جس کی برتری کا وہ بڑا دعوی کرتا ہے نظروں سے گر گیا اور اب کوئی بھی آزادی، انسانی حقوق اور جمہوریت کی حمایت کے مغربی دعوؤں کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد مغربی نظام کی سیاسی و عسکری بنیادوں کے کمزور پڑ جانے کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ اس تزلزل کی سب سے اہم وجہ ایران میں انقلابی تحریک اور اسلامی نظریات کی بنیاد پر ایک نئے نظام کی تشکیل ہے جہاں اس سے پہلے امریکا کا گہرا اثر و نفوذ تھا اور یہ نظام مغرب کی گوناگوں سیاسی، عسکری، اقتصادی اور سیکورٹی یلغار سے ختم ہونا تو در کنار مزید مستحکم اور مقتدر ہوتا گیا۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ایران کا اسلامی جمہوری نظام مقتدر ہونے کے ساتھ ہی مظلوم نظام بھی ہے۔ آپ نے فرمایا: مقدس دفاع کے دوران ملت ایران کی آٹھ سالہ استقامت و پائیداری، کوئی معمولی بات نہیں ہے، کیونکہ اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ سامراجی طاقتوں کی عسکری اورسیکورٹی توانائیاں ایسی نہیں ہیں کہ کسی قوم کے جذبہ استقامت و متاثر کر سکیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے میں رونما ہونے والے واقعات منجملہ تینتیس روزہ جنگ لبنان، بائیس روزہ اور آٹھ روزہ جنگ غزہ اور غزہ کی حالیہ پچاس روزہ جنگ کو مغرب کے فوجی اور سیاسی اقتدار کی کمزوری کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ غزہ کی حالیہ جنگ ایک معجزاتی نمونہ ہے کیونکہ ایک چھوٹے اور محصور علاقے کے عوام کی استقامت نے صیہونی حکومت کو جو علاقے میں مغرب کی طاقت کا مظہر ہے، گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور صیہونی حکومت کے اصرار کے باوجود غزہ کے عوام نے جنگ بندی کا معاہدہ اسی وقت قبول کیا جب ان کی شرطیں تسلیم کر لی گئیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغرب کے بعض بااثر افراد کے نظریات کا حوالہ دیا جو یہ کہتے ہیں کہ فوجی حملے کی اسٹریٹیجی اب مغربی ممالک کے لئے منفعت بخش اسٹریٹیجی نہیں رہ گئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ مغرب کی عسکری توانائیاں شدید مشکلات سے دوچار ہو چکی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغربی تسلط کی بنیادوں میں آنے والی کمزوری کے اسباب و علل کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ جملہ اسباب اور وجوہات اس بات کی علامت ہیں کہ موجودہ عالمی نظام آگے جاری رہنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور ایک نیا عالمی نظام معرض وجود میں آ رہا ہے، اب بنیادی سوال یہ ہے کہ ان حساس حالات میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے اس سوال کے جواب میں دو نکات کا ذکر کیا۔ پہلا نکتہ یہ کہ دنیا اور علاقے کے حقائق کا بالکل صحیح ادراک ہو اور غلط تجزیئے سے اجتناب کیا جائے۔ آپ کا کہنا تھا کہ کچھ افراد ہمارے خطے بلکہ خود ملک کے اندر یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ مغرب کے سامنے ہمارے پاس واحد راستہ یہ ہے کہ سر تسلیم خم کر دیں! اگر ہم نے خود سر تسلیم خم نہ کیا تو وہ سیاسی اور اقتصادی دباؤ اور فوجی طاقت سے ہمیں ہتھیار ڈال دینے پر مجبور کر دیں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ تجزیہ اور سوچ بالکل غلط اور بہت خطرناک ہے، کیونکہ علاقے اور دنیا کے زمینی حالات مغرب کے اقتدار و تسلط کی بنیادوں میں تزلزل کی عکاسی کرتے ہیں، لہذا ضروری ہے کہ حقائق کا صحیح طریقے سے ادراک کیا جائے تا کہ تجزئے میں ہم سے غلطی نہ ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے موجودہ حالات میں عوام اور حکام کے فریضے کے سلسلے میں دوسرا نکتہ یہ بیان کیا کہ ملک کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنا کر نئے عالمی نظام میں موثر کردار ادا کرنے کے لئے خود کو آمادہ کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ملک کو مستحکم اور طاقتور بنانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام داخلی اور بیرونی توانائیوں کو بروئے کار لایا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کے طرفدار ہماری اسٹریٹیجی کی گہرائی کی علامت ہیں، اسی طرح لاطینی امریکا اور ایشیا کے کچھ علاقوں میں ہماری اسٹریٹیجی کا اثر ہے جس سے ہمیں صحیح طریقے سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سائنس و ٹکنالوجی، معیشت اور ثقافت کو ملکی اقتدار کے استحکام کے تین کلیدی عناصر قرار دیا اور فرمایا کہ ملک کی با اثر شخصیات، حکام اور حکومت کو چاہئے کہ تینوں میدانوں میں سرگرم عمل ہوں اور مربوط مساعی اور محنت کے ذریعے ملک کی زیادہ سے زیادہ تقویت کے لئے زمین ہموار کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے آبادی اور نوجوان نسل میں اضافے کو بھی قومی اقتدار کا بہت اہم پہلو قرار دیا اور ثقافت کے سلسلے میں فرمایا کہ ملک کے استحکام کو بڑھانے کے تین کلیدی عناصر میں ثقافت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست عوام الناس کے عقائد سے ہوتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے لوگوں کو عقائد اور نظریات پر اثر انداز ہونے کے لئے مغربی ذرائع ابلاغ کی وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی طرف سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ اس چیز کے تدارک کا طریقہ عقائد اور نظریات کے سلسلے میں تشریحی اور اطمینان بخش پروگرام تیار کرنا ہے اور اس سلسلے میں علماء، مقررین، ثقافتی و تشہیراتی اداروں، ذرائع ابلاغ بالخصوص قومی نشریاتی ادارے ( آئی آر آئی بی) کی بڑی اہم ذمہ داری ہے کہ عوام کے دینی عقائد اور نظریات میں گہرائی اور استحکام پیدا کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام الناس سے علماء کے خاص رابطے کو ایسا فیکٹر قرار دیا جس کا کوئی متبادل نہیں ہے، آپ نے موجودہ حالات میں اتحاد و یکجہتی کی اہمیت کے سلسلے میں فرمایا کہ اگرچہ سیاسی مسائل میں نظریئے کا فرق ہے مگر اس سے ملکی اتحاد و یکجہتی پر آنچ نہیں آنی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے حکام کی ہمہ جہتی حمایت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ لطف پروردگار سے حکومت، عدلیہ اور دیگر اداروں میں حکام محنت اور لگن سے کام کر رہے ہیں، حکومت نے ایک سال کے اندر بہت سے کام انجام دئے ہیں اور اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اجرائی امور کی سختیوں اور دشواریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حکومت اور اجرائی اداروں کی حمایت و پشت پناہی سب کا فرض ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید کہا کہ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اجرائی پالیسیوں اور پروگراموں کی خامیوں اور کمزوریوں پر کوئی تنقید ہی نہ کی جائے مگر یہ تنقید کردار کشی کے انداز میں نہیں ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ میں نے بارہا کہا ہے کہ ملک کا مستقبل بہت تابناک ہے اور یہ ہر پہلو سے بہتر مستقبل ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی سے مجلس خبرگان کے ارکان کی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل کونسل کے نائب صدر آیت اللہ ہاشمی شاہرودی نے اسلامی نظام کی روز افزوں قوت، فلسطین، عراق، شام اور لبنان میں اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی فتح کو اسلامی جمہوری نظام کی برکتوں سے تعبیر کیا اور کہا کہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ صرف ایک ملک کے اسلامی جمہوری نظام کے معمار نہیں، بلکہ پورے عالم اسلام کی سطح پر عظیم تبدیلی کا سرچشمہ تھے۔
آیت اللہ ہاشمی شاہرودی نے اسلامی تحریکوں کو ان کے راستے سے ہٹانے کی دشمنوں کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے دشمنوں کے حربوں کو ناکام بنانے کے لئے صحیح منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔