قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات میں وسیع سطح پر پیدا ہونے والی اسلامی بیداری کو دشمنان اسلام کی فکرمندی کی بنیادی وجہ قرار دیا اور اس عظیم تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے دشمنوں کی جوابی سازشوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آج امریکا اور صیہونی، اسلامی ملکوں کے داخلی اختلافات پر بہت خوش ہیں اور ان مشکلات کے تصفیے کا طریقہ اسلامی ممالک کے درمیان تعاون اور مناسب و تعمیری اقدامات کی انجام دہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تہران کے دورے پر آنے والے ترک صدر سے منگل کی شام اپنی ملاقات میں ایران اور ترکی کے مشترکہ مفادات اور باہمی روابط کی تقویت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دنیائے اسلام کے کسی بھی ملک کی طاقت پوری اسلامی دنیا کی طاقت ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی کلی پالیسی یہ ہے کہ اسلامی ممالک ایک دوسرے کو تقویت پہنچائیں اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی پالیسی سے گریز کریں، آپ نے فرمایا کہ ایران اور ترکی کے تعلقات میں فروغ اس ہدف کے حصول میں مددگار ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: ہماری ہمیشہ یہ تاکید رہی ہے کہ مغرب اور امریکا پر بھروسہ کرکے اسلامی ملکوں کو کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے، چنانچہ آج علاقے میں اسلام اور علاقے کو نقصان پہنچانے والے مغرب کے اقدامات کا نتیجہ سبھی لوگ واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے علاقے کے بعض ملکوں کے حالات اور عراق و شام میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی ان معاملات میں دشمن کا پنہاں ہاتھ نہ دیکھ سکے تو وہ خود کو فریب دے رہا ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس حقیقت کی تصدیق کے لئے علاقے کی صورت حال پر امریکا اور صیہونیوں کی مسرت کا حوالہ دیا اور فرمایا: صیہونی اور بہت سی مغربی حکومتیں اور ان میں سب سے زیادہ امریکی ان واقعات پر خوش ہیں اور وہ داعش کے مسئلے کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے داعش کی عدیم المثال بربریت کے کچھ نمونوں اور بغداد پر قابض ہو جانے کے اس گروہ کے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے یہ بنیادی سوال اٹھایا کہ ان تنظیموں کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد کون لوگ کر رہے ہیں؟
آپ نے فرمایا کہ اغیار ہرگز نہیں چاہیں گے کہ یہ مسائل حل ہوں، بنابریں ان مسائل کے ازالے کا فیصلہ اسلامی ملکوں کو کرنا ہے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اجتماعی تعمیری موقف اختیار نہیں کیا جا رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں یمن کے بحران کو عالم اسلام کی ایک نئی مشکل سے تعبیر کیا اور اس بحران کی راہ حل کے تعلق سے فرمایا کہ یمن سمیت تمام ملکوں کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف یہ ہے کہ بیرونی مداخلت کی مخالفت کی جائے، بنابریں ہماری نظر میں بحران یمن کی راہ حل یہ ہے کہ اس ملک کے عوام کے خلاف بیرونی حملوں اور مداخلت کا سلسلہ بند ہو اور یہ حق صرف یمنی عوام کو ہے کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کی شکل میں رونما ہونے والے عظیم واقعے اور اسلام کی جانب قوموں کے گہرے میلان کو دشمنوں کی بے چینی کی اصلی وجہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: اس بیداری کے جواب میں دشمنان اسلام نے مدتوں پہلے اپنی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں بھی خیانت کی مرتکب ہوتی ہیں اور اپنی دولت اور اپنے وسائل دشمنوں کی خدمت کے لئے وقف کر دیتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں عراق کی صورت حال کا ذکر کیا اور دہشت گردوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے ایران کی جانب سے عراقی عوام کی مدد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: عراق میں ایران کی فوجی موجودگی نہیں ہے، تاہم ایران و عراق کے عوام کے درمیان بہت دیرینہ، بہت گہرے اور قریبی تعلقات ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے دنیائے اسلام کی روز افزوں سربلندی کی دعا کی اور علاقے کے مسائل کے حل کے لئے تبادلہ خیال اور فکری ہم آہنگی قائم کرنے کے تعلق سے ایران کی مکمل آمادگی کا اعلان کیا۔
اس ملاقات میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے تہران میں اپنی ملاقاتوں اور مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سفر میں باہمی امور کا جائزہ لیا گیا، ہم نے سیاسی و اقتصادی تعلقات کے ساتھ ہی علاقائی مسائل کے بارے میں بھی گفتگو کی۔
انہوں نے انرجی کے شعبے میں تہران اور انقرہ کے تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران ترکی اقتصادی تعاون کونسل کی تشکیل عمل میں آئی ہے اور ہم نے اپنے وزرا کو ہدایت دی ہے کہ کاموں کی انجام دہی پر نظر رکھیں تاکہ تندہی کے ساتھ کام انجام پائے اور اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو سالانہ تیس ارب ڈالر کی سطح تک لے جانے جیسی توقعات پوری ہوں۔
ترکی کے صدر نے عالم اسلام کے مسائل کو مغرب کی مداخلت کے بغیر اندرونی طور پر حل کئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ علاقے میں بہت سے مسائل ہیں جنھیں باہمی تعاون سے ہمیں حل کرنا ہے اور ان مشکلات کے حل کے لئے ہمیں مغرب کا منتظر نہیں رہنا چاہئے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ وہ دہشت گرد تنظیم داعش کے جرائم کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں داعش کو مسلمان نہیں مانتا اور میں نے اس کے خلاف موقف اختیار کیا ہے۔