بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں اساتذہ کو خوش آمدید کہتا ہوں، ہمارا یہ اجلاس ایک لحاظ سے علامتی اجلاس ہے اور ایک لحاظ سے ہمارے فریضے کا حصہ ہے۔ علامتی اس لحاظ سے کہ ہر سال اساتذہ کے ساتھ ہمارا اجلاس اس تعظیم اور احترام کی علامت ہے جو اسلامی نظام نے معاشرے میں اساتذہ کو دیا ہے۔ فریضے کی ادائگي اس لحاظ سے کہ یہ اجلاس آپ کا ہے اس میں آپ کو گفتگو کرنا ہے اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس ہے جسے ہم نے تشکیل دیا ہے۔ اساتذہ اور طلبا کے ساتھ ہمارے اجلاس ہوتے رہے ہیں جن میں میں نے نہیں بلکہ اجلاس میں حاضر کسی فرد نے خطاب کیا ۔ اس کا بڑا اچھا نتیجہ بھی سامنے آیا۔ کیوں کہ اہل نظر افراد کی زبانی ان کے پیش نظر اہم مسائل سننے کو ملے۔ ان اجلاسوں کی تفصیلات ٹیلی ویژن سے نشر کی جاتی ہیں انہیں عوام بھی دیکھتے ہیں اور عہدیداران بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ میرے لئے بھی بہت مفید ہے۔ اب تک اساتذہ کے ساتھ اس نوعیت کا کوئي اجلاس نہیں ہوا۔ ایک دو ہفتہ قبل کسی معلم نے خط ارسال کرکے یا پیغام بھیج کر اعتراض کیا تھا کہ فلاں صاحب اساتذہ کے ساتھ اس قسم کا اجلاس کیوں نہیں کرتے۔ ہمیں یہ بات مناسب محسوس ہوئی اور اچانک اس اجلاس کا موقع آ گیا۔ ہم نے پہلے یہ منصوبہ نہیں بنایا تھا کہ یہ اجلاس کرمان میں ہو بلکہ اس علاقے کا سفر پیش آ گيا اور میں ہر سال ہفتہ اساتذہ کے موقع پر اساتذہ کےساتھ جلسہ کرتا ہوں تو اس بار یہ موقع یہاں پیش آیا۔ تو یہ جلسہ آپ حضرات کا ہے۔
ابتدا میں میں چند جملے عرض کر دوں جس کے بعد، احباب اجلاس کو آگے بڑھائیں گے ۔
اساتذہ کے ساتھ یہ اجلاس کرمان میں منعقد ہوا ہے جو کہ میرے لئے بڑا عجیب اتفاق ہےکیوں کہ تعلیم و تربیت کے سلسلے میں کرمان سے میرا خاص تعلق اور رشتہ ہے۔ البتہ دیگر شعبوں میں بھی کرمان کے باسیوں سے میرے روابط رہے ہیں، طالب علمی اور جد و جہد کے زمانے میں ہمارے بہت سے کرمانی رفقا تھے مثال کے طور پر جناب ہاشمی رفسنجانی، جناب حجتی کرمانی، جناب باہنر اور اسیطرح دیگر افراد کرمان کے ہمارے وہ احباب بھی تھے جو دینی مدرسے کے طالب علم نہیں تھے ان سے میرے بڑے گہرے تعلقات رہے مثال کے طور پر جناب اسلامیت اور بعض دیگر افراد۔ البتہ کرمان سے تعلیم و تربیت کا جو میرا رشتہ اور رابطہ ہے وہ ان سب سے پرانا ہے۔ میں مشہد میں جب اسکول جاتا تھا تو اس وقت ہمارے استاد مرحوم مرزا حسین تدین کرمانی تھے۔ مشہد میں یہی ایک اسکول تھا جس میں مذہبی اصولوں کی پابندی کی جاتی تھی۔ اس اسکول کا نام دار التعلیم دیانتی تھا اور میں نے اس مدرسے میں چھے سال جناب تدین سے تعلیم حاصل کی ۔ مرحوم تدین واقعی ایک بڑی اہم شخصیت تھی ان کے سلسلے میں میرا یہ خیال طالب علمی کے زمانے میں ہی نہیں بلکہ اس وقت بھی تھا جب میں صدر تھا اور وہ مجھ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے تھے۔ میں نے ان پر نظر ڈالی مجھے ایک بڑی با وقار اور محترم شخصیت نظر آئی۔ آپ معلم بھی تھے اور منتظم بھی۔ وہ اسکول کے صحن میں ہاتھ میں ایک چھڑی لئے جب چلتے تو ان کے چہرے پر خاص رعب اور دبدبہ ہوتا ہے۔ ان سے لوگ محبت کرتے تھے۔ میں اور دیگر بچے بھی ان سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ جب اس اسکول میں میری تعلیم مکمل ہو گئي تو میرے ایک بھائی نے اس اسکول میں داخلہ لے لیا، تاہم بعد میں بھی ان سے میرا رابطہ رہا۔ ہر مہینے میں اپنے بھائي فیس دینے اسکول جاتا تھا تو بھی میں ان کو اسی وضع قطع میں دیکھتا تھا وہی وقار اور وہی احترام۔ ان کی خاص ہیبت تھی۔ غرضیکہ تعلیم و تربیت کے تعلق سے کرمان اور کرمانیوں سے میرا جذباتی لگاؤ اور رشتہ بہت پرانا ہے۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ یہ اجلاس کرمان میں منعقد ہوا ہے۔
البتہ اس کے بعد بھی بعض کرمانی اساتذہ سے میرا رابطہ رہا ہے۔ سن انیس سو ساٹھ کے عشرے کے اواخر اور ستر کے عشرے کے اوائل میں جب میں مذہبی تقاریر کے لئے کرمان آتا تھا تو بعض مذہبی اور انتہائی فعال نوجوان میرے پاس رہتے تھے ان میں سے ایک جناب محمد رضا مشارزادہ تھے جو استاد تھے۔ بہرحال اساتذہ سے میرے اچھے روابط ہیں۔
آپ حضرات جو یہاں پر موجود ہیں وہ صوبے کے اساتذہ کے طبقے کے نمائندہ ہیں ورنہ صوبے کے اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں ہمارے نوجوان بہت زیادہ فعال ہیں لہذا صوبے کی سطح پر قومی اور عوامی امور کو آگے بڑھانے میں آپ اساتذہ کا کردار بہت اہم ہے۔
میں اساتذہ کے طبقے کا دل سے احترام کرتا ہوں اور آپے کے کردار کو بہت زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتا ہوں۔ میری تمنا یہ ہے کہ یہ احساس و ادراک پورے معاشرے بالخصوص منصوبہ ساز اداروں اور شعبوں میں موجود رہے اور سب کو اساتذہ اور تعلیم و تربیت کی اہمیت کا صحیح اندازہ رہے۔

اجلاس میں بعض اساتذہ اور دانشوروں نے اپنے خیالات پیش کئے جس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے دوبارہ حاضرین سے خطاب فرمایا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میری نظر میں یہ اجلاس بہت اچھا رہا۔ بعض احباب نے فرمایا کہ ان باتوں کو ہم جانتے ہیں یہاں ہم آپ کے خطاب سے محظوظ ہونے آئیں ہیں۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ نہیں اساتذہ ان باتوں سے آگاہ ہیں اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ یہ اساتذہ کی باتیں ہیں جو دوستوں نے بیان کی ہیں۔ یہ باتیں متعلقہ حکام تک بھی پہنچیں گی اور عوام بھی انہیں سنیں گے۔ میرے لئے بھی یہ باتیں بہت اہم ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان باتوں اور تجاویز کو نئی سمت ملے اور موثر اقدامات کئے جائیں۔
اساتذہ میں سے دس افراد نے خطاب کیا ۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ اجلاس میں موجود ہمارے بہت سے بھائي بہن کچھ باتیں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے یہ باتیں بہت اہم ہوں یا بہت اہم نہ ہوں لیکن ان کے خیال میں یہ باتیں بیان کرنے والی ہیں۔ البتہ دامن وقت تنگ ہے۔ اگر ہمارے سارے دوست اجلاس میں تقریر کرنا چاہیں تو ایک یا دو گھنٹے کا وقت کافی نہیں ہوگا۔ بلکہ پینتیس چھتیس گھنٹے کے ایک پروگرام کی ضرورت ہوگی۔ لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ لہذا اگر آپ کی نظر میں کچھ ضروری باتیں ہیں تو آپ تحریر شکل میں مجھے دے دیں میں متعلقہ حکام سے کہوں گا کہ ان پر غور کریں۔
جو تجاویز اساتذہ نے پیش کیں ان میں بعض ایسی ہیں جن پر عملدرآمد تدریجی ہے۔ اساتذہ کی منزلت جیسا کہ بعض احباب نے فرمایا، حکم تقرری یا کسی قانون سے پیدا نہیں ہوتی یہ منزلت ایک تدریجی عمل کے تحت وجود میں آتی ہے بشرطیکہ اس پر پورا ایقان ہو۔ یہی کام جو ہم انجام دے رہے ہیں اس غرض سے ہے کہ معاشرے میں تعلیم و تربیت اور اساتذہ کی منزلت پہچانی جائے۔ لہذا کسی حکم اور قانون سے یہ ہدف حاصل نہیں ہوتا۔ انہیں آسودہ بنانے کی ضرورت ہے۔ البتہ اس سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں خود اساتذہ کی ہیں کچھ تعلیمی شعبے کے عہدیداران کی اور کچھ ذمہ داریاں ملک کے منصوبہ ساز حکام کی ہیں۔
ریٹائرڈ اساتذہ اور تنخواہوں کے سلسلے میں جو تجاویز آپ نے پیش کیں ان کا ماہرین کے ذریعے جائزہ لئے جانا چاہئے اور پھر نتائج سے حکومت کے آگاہ کیا جانا چاہئے۔ ایک استاد کو قانون قاعدے کے مطابق پورا حق ملنا چاہئے۔ البتہ جو کام ہم کر رہے ہیں وہ راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے اس سے اصل کام کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ہم مجریہ کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم یہ باتیں وزارت تعلیم و تربیت کو گوش گذار کریں گے پلیننگ و مینیجمنٹ ادارے کو اس سے آگاہ کریں گے۔ خود صدر محترم سے یہ بات کہیں گے۔ متعلقہ عہدیداران سے بھی سفارش کی جائے گی۔ صوبائی عہدیداروں سے بھی اس موضوع پر بات ہوگی۔ البتہ جہاں تک انتظامی امور اور مجریہ کے کام کا تعلق ہے قائد انقلاب کا اس میں کوئي رول نہیں ہوتا۔ یہ کام حکومت کا ہے، یہ حکومت کا فریضہ ہے اور صحیح روش یہ ہے کہ یہ کام حکومت انجام دے۔
جو تجاویز پیش کی گئيں بنیادی طور پر بہت اچھی تجاویز تھیں۔ ان سے تعلیم و تربیت کے امور میں آپ کی مہارت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ میں یہ تجاویز اپنے شعبے کے حوالے کروں گا کہ ان پر غور کیا جائے۔ انشاء اللہ جو تجاویز قابل عمل اور ممکن ہیں ان پر عمل کیاجائے گا۔
میں یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تعلیم و تربیت اور اساتذہ کے سلسلے میں میرا ایک بنیادی اور اصولی نظریہ ہے انگریزی نوازوں کے بقول آئيڈیالوجیکل نظریہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ سیاست کا تقاضا ہے کہ اساتذہ کی مدد کی جائے اور ان کی ضروریات کی تکیمل کی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں کوئي بھی مثبت یا منفی تبدیلی اس وقت تک نہیں آتی جب تک کہ اس میں اساتذہ اور شعبہ تعلیم و تربیت کا کردار نہ ہو۔ اگر کسی معاشرے کا تعلیم و تربیت کا شعبہ فعال، خلاقی صلاحیتوں کا حامل اور ذمہ دار ہے تو قومی سطح پر بڑے بنیادی اثرات مرتب ہوں گے۔ البتہ سیاسی جماعتیں اور حلقے بھی کوتاہ مدت اہداف مثلا فلاں انتخاب اور فلاں خواہش کے تحت تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہیں لیکن ان چیزوں کی اہمیت بہت کم ہے۔ یہ تعلیم و تربیت اور استاد کی تحقیر ہے۔
نئي نسل کے تشخص کا معمار استاد ہوتا ہے یعنی اس کا کردار خاندان اور والدین سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ آپ کے بچے بھی اسکول جاتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہوں گے کہ آپ کے بچے کے لئے استاد کی بات وحی کا مقام رکھتی ہے۔ بچہ گھر آتا ہے تو کچھ کام کرتا ہے کچھ کام نہیں کرتا۔ ورزش کرتا ہے یا آرام کرتا ہے یا کوئي اور کام کرتا ہے، کیوں، اس لئے کہ اس کے استاد نے ایسا کہا ہے۔ ماں باپ یہی باتیں بارہا کہہ چکے ہیں لیکن اس کا کوئي اثر نہیں ہے لیکن استاد کی بات کا بڑا اثر ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کے ذہن میں بسا اوقات استاد کی بات والدین کی بات سے زیادہ اہم اور قابل ترجیح ہوتی ہے ۔ تو یہ ہے معلم کا کردار۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچے کی شخصیت سنورے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ خود اعتمادی اور سماجی اقدار سے سرشار ذمہ داریوں کا احساس کرنے والی با صلاحیت اور کارہای عظیم پر قادر تخلیقی صلاحیتوں کی حامل نسل جس میں انسیت و ہمدردی کا جذبہ ہو جو منفی جذبات سے پاک ہو، ایسی نسل جو قربانیاں دینے کو تیار ہو وہ نسل جو اسراف اور ‌فضول خرچی کو ناپسند کرتی ہو، ہمارے معاشرے میں ستاروں کی مانند جگمگائے تو اس کا راستہ تعلیم و تربیت ہی ہے۔ ایسی نسل کے لئے تعلیم و تربیت کے شعبے کو چاق و چوبند ہونا پڑے گا۔
البتہ ہمارے احباب نے تعلیم و تربیت کے شعبے کی افرادی قوت، دفتری نظام اور مینیجمنٹ پر روشنی ڈالی، یہ سب بہت اہم ہے۔ اساتذہ کی مالی ضرورتوں کی تکمیل اور ان کو روزمرہ کی زندگی کی فکروں سے آزاد کرنا بہت ضروری ہے۔ اس میں کوئي شک نہیں، اس سلسلے میں تجاویز پیش کی گئي ہیں اور کام ہو رہا ہے۔ البتہ میں یہاں موجود اپنے بھائيوں اور بہنوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک دیندار اور اپنے فرائض سے آگاہ معلم کو مادی مسائل فرائض کی ادائگي سے روک نہیں سکتے۔ میری اس بات کہ یہ مطلب نہیں ہے کہ اساتذہ کی زندگي کی ضروریات کے سلسلے میں کوئی کوتاہی کی جائے، حکومت کے اختیار میں جو کچھ ہے وہ انجام دیا جانا چاہئے لیکن میری خواہش یہ ہے کہ مشکلات آپ کے پختہ ارادوں اور تعلیمی جذبے کو متاثر نہ کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی کوشش کرے ساتھ ہی آپ کو بھی اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے کہ ملک کا مستقل آپ کے ہاتھوں میں ہے اساتذہ کو چاہئے کہ حقیقی معنی میں اپنے فرايض اور منزلت کی پاسداری کریں ۔ استاد کی منزلت یہ نہیں ہے کہ اس کا احترام کیا جائے اور لوگ اس کے ہاتھوں کا بوسہ لیں، استاد کی منزلت یہ ہے کہ وہ کسی قوم کے تاریخی اور علمی عمل میں موثر کردار ادا کرے۔
اگر اساتذہ یہ کام کر سکے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ٹیچنگ کے حقیقی فریضے کو ادا کیا ہے۔
میرا نظریہ یہ ہے کہ اس شعبے کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے ایک مشاورتی کمیٹی کی ضرورت ہے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میں کسی ایک شخص کے ذاتی نظریات کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ ورنہ ممکن ہے کہ اس شعبے میں کوئي مغربی ممالک کی پیروی کرتے ہوئے محسوس کرے کہ نوجوانوں کو جنسیات کی تعلیم دینا چاہئے اور اچانک اس موضوع پر کوئي کتابچہ بھی شائع ہو جائے۔ لیکن سوال یہ ہےکہ اس موضوع پر کہاں تبادلہ خیال کیا گيا۔ اس سلسلے میں کہاں فیصلہ کیا گیا۔ کہاں اس کا جائزہ لیا گيا۔ ہم کب تک مغرب کی تقلید کرتے رہیں گے۔ کیاں جنسی امور میں مخصوص روش اختیار کرکے مغرب والوں کو کوئي فائدہ ہوا ہے؟ اس مسئلے میں وہ آج پریشان ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں بوڑھوں، مردوں اور عورتوں پر دینی تعلیمات کے نتیجےمیں حیا و عفت کا پاکیزہ حصار ہے۔ تو کیا ہم اس پاکیزہ پردے کے اپنے ہاتھوں سے چاک کر دیں۔ اس کو کون سی عقل سلیم قبول کرےگی۔ البتہ اس کا تعلق آپ لوگوں سے نہیں ہے، میں آپ کی خدمت میں بیٹھ کر متعلقہ افراد کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بھی ہوتا کہ کسی شخص کے دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ بچوں کی پہلی کلاس سے ہی انگریزی کی تعلیم دی جائے۔ کیوں؟ جب یہ بڑے ہو جائیں گے تو جس کو ضرورت کا احساس ہوگا انگریزی زبان سیکھےگا۔ امریکہ اور برطانیہ کتنے وسیع پیمانے پر پیسے خرچ کر رہے ہیں، تاکہ کسی قوم میں اپنی زبان کو آسانی سے رائج کر دیں؟ زبانی فارسی کے لئے دنیا میں ہمارے سامنے کتنی مشکلات ہیں ؟ دنیا میں ہمارے کلچر ہاؤس کام کر رہیں، ہمارے ثقافتی مرکز کے عہدیدار کو قتل کر دیا جاتا ہے ہماری ثقافتی سرگرمیوں کے لئے متعدد مسائل پیدا کئے جاتے ہیں؟ کیوں کہ ہم فارسی سکھانا چاہتے ہیں۔ اور ہم آپنے ہاتھوں سے انگریزی زبان کی ترویج کرتے ہیں جو مغربی کلچر کی ترویج کا اہم ترین ذریعہ بھی ہے۔ البتہ میں غیر ملکی زبانیں سیکھنے کے حق میں ہوں ۔ ایک ہی زبان نہیں آپ دس غیر ملکی زبانیں سیکھئے اس میں کوئي قابل اعتراض بات نہیں ہے لیکن یہ کام معاشرے کی ثقافت کا حصہ نہ بن جائے۔
آج کچھ ممالک ہیں جن کی قومی زبان ، سرکاری زبان نہیں۔ آج ہندوستان اور پاکستان کی سرکاری زبان انگریزی ہے۔ ان ممالک کے عدالتی امور کی زبان انگریزی ہے۔ جبکہ ان کے پاس ہندی اور اردو کے علاوہ سیکڑوں اپنی زبانیں ہیں۔ پاکستان میں اردو اور ہندوستان میں ہندی رائج ہے۔ لیکن وہ اس سے غافل ہیں کہ کس طرح ایک غیر ملکی زبان آئي اور اس نے ان کی قومی زبان پر غلبہ پالیا؟ اسی طرح یہ لوگ داخل ہوتے ہیں۔ برطانیہ نے ہندوستان میں بے تحاشا پیسے خرچ کئے اور نتیجے میں حالات موجودہ صورت اختیار کر گئے۔ بعض افریقی ممالک کی زبان، پرتگالی یا اسپینش ہے۔ وہ اپنی سرکاری زبان پر بالکل توجہ نہیں دیتے۔ یہ مناسب ہے؟ ایک غیر زبان کا قومی زبان پر غالب ہو جانا ٹھیک ہے؟ زبان کسی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔ ہم اسی کو کمزور کر دیں؟ کیوں؟ اس لئے کہ فلاں صاحب کا نظریہ یہ ہے۔ مدارس اور بچے آزمائش گاہ کے چوہے نہیں ہیں کہ ہم ان پر تجربہ کریں اور دیکھیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ لوگوں کے بچوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جا سکتا اس بنا پر دانشوروں اور مفکرین کا ایک مرکز قائم کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح تعلیم و تربیت کے شعبے میں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
میں جس بات کی پوری سنجیدگي سے حمایت کرتا ہوں وہ استاذہ کی تعلیمی سطح کو جہاں تک ممکن ہو بہتر بنانا ہے۔ اس سلسلے میں بعض تجاویز بھی پیش کی گئي ہیں مثال کے طور پر اساتذہ کے درمیان تحقیق، تصنیف کی ترویج۔
ان سب سے بڑھ کر دینداری ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی اور آئندہ نسل آپ سے راضی اور خوش ہو اور آپ کو اچھے نام سے یاد کیا جائے تو آپ بچوں کو دیندار بنائیے۔ بچوں کی دیندار بنانا صرف دینی تعلیم دینے والے استاد کا کام نہیں ہے بلکہ ریاضی کا استاد، فیزکس کا استاد اور ادبیات کا استاد بھی اپنے شاگردوں کے دلوں میں دینداری کی شمعیں روشن کر سکتا ہے۔ کبھی کبھی تو وہ دینیات کے استاد سے زیادہ موثر واقع ہوتا ہے۔ جب دینیات کا استاد کلاس میں آتا ہے تو دینی امور کی تعلیم اس کا فریضہ ہے، بچے بلکہ سبھی انسان فرائض کو اپنے شانوں پر بوجھ کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ یہ استاد بچوں کو کچھ ذمہ داریاں سونپنا چاہتا ہے۔ اگر وہ اس انداز بیان اور اس کی زبان میں شیرینی ہو اور بہت اچھا استاد ہو تو کسی حد تک وہ اپنی بات شاگردوں کے دلوں میں اتار سکتا ہے، اور اگر یہ خصوصیات نہ ہوئيں تو پھر اللہ ہی مالک ہے۔ لیکن فزکس کا استاد، کیمسٹری کا استاد، ریاضیات کا استاد، ادبیات فارسی کا استاد، تاریخ کا استاد اپنی گفتگو کے دوران صرف ایک لفظ سے بچے اور نوجوان کے دل و دماغ کو متاثر کر سکتا ہےاور اسے دیندار بنا سکتا ہے۔ آپ یہ کام کر سکتے ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں بھی اور بعد کے مراحل میں بھی۔ بچوں کو دیندار بنائيے۔ بچوں کو دیندار بنانا وہ اہم ہدف ہے جس سے ملک کا مستقبل سنور سکتاہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک صنعتی اور دیگر شعبوں میں ترقی کرے علمی پیش رفت کرے اور علاقے میں پہلے نمبر پر رہے تو یہ ہدف دینداری کے جذبے کے زیر سایہ ہی ممکن ہے۔ جب ایمان ہوتا ہے تو انسان ایمان کی سمت حرکت کرتا ہے اور تمام مسائل اور مشکلات کو برداشت کرتا ہے۔
انقلاب کی جدوجہد کے دوران جب جیل میں مجھے بہت زیادہ مشکل صورت حال در پیش ہوتی تھی تو مجھے کمیونسٹوں پر رحم آتا تھا میں کہتا تھا کہ ان کا تو کوئي خدا نہیں ہے۔ جب ہم بہت زیادہ مشکل میں پڑ جاتے ہیں تو اللہ تعالی سے مناجات کرتے ہیں دعا کرتے ہیں اور دو آنسو بہا لیتے ہیں ہمارے دلوں میں امید کی کرن موجود ہے۔ لیکن ان کمیونسٹوں کے پاس یہ نہیں ہے۔ انسان کے پاس اگر خدا ہے تو امید اور تابناک مستقل بھی ہے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ