بسم اللہ الرحمن الرحیم

 میں آپ لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ نگہبان کونسل کے ارکان اور دیگر نگراں اداروں کے ذمہ دار حضرات! آپ لوگوں نے اتنی بڑی اور اہم ذمہ داری اپنے دوش پر اٹھا رکھی ہے۔ انشاء اللہ اس عظیم فریضے کی ادائگی کے نتیجے میں خوشنودی باری تعالی آپ کے شامل حال ہو ۔
 ہمارے ملک کے آئين میں نگہبان کونسل کا مسئلہ ، بہت ہی اہم اور حساس ہے اور یہ ادارہ دیگر اداروں سے قدرے مختلف ہے۔ پارلیمنٹ میں منظور کئے جانے والے قوانین، آئين اور شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں اس کا تعین یقینا بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ اگر یہ کام نہ ہوتا تو پھر نظام کی اسلامی و شرعی ماہیت محفوظ رہنے کی کوئی ضمانت نہ رہتی اور یہ ایسا حساس ادارہ ہے جو ہمارے نظام کے اسلامی تشخص کی بقا کا ضامن ہے۔ آئين کی تشریح بہت اہم اورسنگین ہے۔ کبھی بھی کسی وجہ سے آئین کی کسی شق کے سلسلے میں اختلاف رای پیدا ہو جائے تو نگہان کونسل کا نظریہ فیصلہ کن ہوتا ہے اور نگہبان کونسل کے نظریئے کی اہمیت آئين کے جتنی ہوتی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ اسی طرح انتخابات کے انعقاد اور انتخابات کے شفاف ہونے کو یقینی بنانا بھی وہ اہم ذمہ داری ہے جو آئين میں نگہبان کونسل کو سونپی گئ ہے، اگر نـگہبان کونسل کی نگرانی نہ ہو اور اگر نگہبان کونسل انتخابات کے عمل کے شفاف ہونے کی تائید نہ کرے تو خود انتخابات پر ہی سوالیہ نشان لگ جائے گا اور اس کی کوئي حیثیت باقی نہيں رہے گی۔ خواہ وہ پارلیمانی انتخابات ہوں یا ماہرین کی کونسل کے انتخابات یا صدارتی انتخابات، تمام انتخابات کی نگرانی نگہبان کونسل کی ذمہ داری ہے۔ نگہبان کونسل کے دوش پر یہ ایک سے بڑھ کر ایک اہم ذمہ داریاں ہیں ۔
 آئين میں نگہبان کونسل کی شق، ملکی نظام کے صحیح ادراک کی علامت ہے ہی ساتھ ہی عقلی و منطقی نظام حکومت کے لحاظ سے بھی مدبرانہ اور دور اندیشی پر مبنی اقدام ہے۔ جب نگہبان کونسل کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئ، البتہ اصولی طور پر یہ ضروری بھی تھا کہ اسلامی حکومت کی کارکردگی کے دائرہ شریعت میں ہونے کی نگرانی کے لئے کوئی ادارہ ہو ، اس وقت بھی یہ تجویز معقول نظر آئی۔ چنانچہ اس وقت بھی جب جدید نظام اور عصر حاضر پر نظر ڈالی گئ تو ہم نے دیکھا کہ تقریبا تمام جگہوں پر اس قسم کا ایک ادارہ موجود ہے یعنی مستحکم اصولوں پر استوار حکومتی نظام میں شاید یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی ایسا ادارہ نہ ہو جو آئین اور نظام پر عملدرآمد کی نگرانی کرے۔ البتہ ہر نظام کے لئے اپنے اصول اور اقدار ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن کوئی نہ کوئي نگراں ادارہ ہوتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ ملک کے مفاد میں ہے۔ اب کچھ جگہوں پر اسے آئینی عدالت کہا جاتا ہے، کچھ جگہوں پر آئین کا محافظ ادارہ کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے ادارے ہوتے ہیں۔ ایران میں اسے نگہبان کونسل کہا جاتا ہے۔ البتہ اوائل انقلاب سے ہی بعض افراد کو نگہبان کونسل کے وجود پر اعتراض رہا ہے۔ ہمارے خیال میں اس قسم کا اعتراض نا انصافی تو ہے ہی، عالمی معاملات سے عدم واقفیت کی علامت بھی ہے۔ نگہبان کونسل یا ایسے کسی ادارے کے بغیر جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھے، اصول و اقدار پر استوار کسی نظام کو چلانا عقل سے بعید نظر آتا ہے۔ اس بنا پر آئین میں نگہبان کونسل کی تشیکل کی شق ، نہایت اہم اور ضروری تھی۔ آج ہم جیسے جیسے آگے بڑھ رہے ہيں، نگہبان کونسل کی اہمیت واضح ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے مختلف مواقع آئے جب واضح طور پر محسوس کیا گیا کہ آئین میں نگہبان کونسل کی شق کتنی ضروری اور کارآمد تھی۔ خدا نے ہم پر کتنا بڑا کرم کیا ہے جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائي فرمائي۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اعتراضات کو مسترد فرما دیا اور نگہبان کونسل کی تشکیل کا دفاع کیا، آپ کتنا بڑا کام کررہے تھے اور آپ کی دور رس نگاہیں کن ممکنہ مسائل پر مرکوز تھیں، اس کا اندازہ بخوبی ہو چکا ہے۔
 آپ نے غور کیا ہوگا کہ اسلامی حکومت کے دشمن، اپنے پروپگنڈوں میں جس چیز کو ہدف تنقید قرار دینا کبھی نہيں بھولتے وہ نگہبان کونسل ہے۔ وہ اس اہم اور موثر ادارے کی موجودگی سے پریشان ہیں۔ ہمیں نگہبان کونسل کے ارکان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، ادارے میں شامل فقہاء کا بھی اور قانون داں حضرات کا بھی، جو بظاہر ایک چھوٹے سے ادارے میں عوام کی توقعات مد نظر رکھتے ہوئے اتنا عظیم فریضہ ادا کر رہے ہيں ۔ عوام کو یہ اطمینان ہے کہ نگہبان کونسل جو اقدام کرتی ہے وہ آئین کے دائرے میں اور عقلی و منطقی بنیادوں پر استوار ہوتاہے۔ کونسل کے اقدامات میں مکمل نظم و نسق اور ہم آہنگی ہونا چاہئے، اس کے اقدامات کا بر وقت ہونا بھی ضروری ہے، تاخیر مناسب نہیں ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس عرصے میں کسی کو اس ادارے سے شکایت کا موقع نہیں ملا۔
 نگراں کمیٹیاں بھی نگہبان کونسل کی ہی ماہیت کا حامل ہیں یہ کمیٹیاں جو فیصلے کرتی ہیں وہ در حقیقت، نگہبان کونسل کے فیصلوں کی ہی ایک کڑی ہے، اس کے بارے میں میں یہ کہوں گا کہ یہ بھی بہت اہم کام ہے ۔ اگر کچھ لوگ اعتراض کرتے ہيں اور اس نظام پر سوال کھڑے کرتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہيں ہے۔ نظریات کا الگ الگ ہونا ایک فطری امر ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر ادارہ اور ہر انسان پوری طرح آگاہ ہو کہ وہ کر کیا رہا ہے۔
 آپ کے شانوں پر بہت حساس اور اہم ذمہ داری ہے۔ آپ ان افراد اور اداروں کی نگرانی کرتے ہیں جن کے ہاتھوں میں قوم کا مستقل ہے۔ ماہرین کی کونسل کے اراکین ہوں پارلیمنٹ کے اراکین ہوں یا صدر مملکت، سب میں خاص صلاحتیوں اور کچھ شرطوں کا ہونا ضروری ہے، ورنہ یونہی کسی کو قوم کے مستقبل کا ذمہ دار نہیں بنایا جا سکتا۔ ہر کسی کو تو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ آئے اور قوم کے لئے قانون سازی کرے، احکام جاری کرے کہ یہ کرنا ہے وہ نہیں کرنا ہے۔ اس کے لئے کچھ صفات کا ہونا شرط ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کا انتخاب کرنے والے افراد کے لئے کچھ شرطیں لازمی ہیں، کچھ صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔ ہر کسی کو تو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ قائد انقلاب اسلامی کا انتخاب کرے اور چاہےتو ہٹا دے۔ یہ ماہرین کی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ اعلی صلاحیتوں کے حامل کچھ چنندہ افراد کو یہ اختیارات دئے گئے ہيں۔ یا وہ لوگ جو ملک کے لئے قانون سازی کرتے ہیں اور حکومت کے لئے لائحہ عمل طے کرتےہیں، حکومت کو اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ اسے کس پالیسی کے تحت آگے بڑھنا ہے، در اصل ملک کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، ان اہم اور حساس عہدوں پر فائز ہونے کے لئے کچھ خصوصیات اور شرطوں کا ہونا ضروری ہے۔ یا جو حکومت کی باگڈور سنبھالنے والا ہے اور جس کے اختیار میں ملک کا سارا سرمایہ اور وسائل قرار پانے والے ہیں، جو چار برسوں تک ملک چلانے والا ہے، نظم و نسق پر نظر رکھنے والا ہے، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والا ہے، جو ملک کو بنانے اور سنوارنے والا ہے، مسائل کو حل کرنے کی سنگین ذمہ داری قبول کرنے والا ہے وہ ہر کوئی تو نہيں ہو سکتا۔ اس میں کچھ صلاحتیوں کا ہونا ضروری ہے۔ ان صلاحتیوں کا تعین کون کرے گا ؟ کیا کسی ایسے ادارے کی ضرورت نہيں ہے جو اس بات کا تعین کرے کہ کس شخص میں یہ صلاحتیں ہیں اور کس میں نہيں ہیں؟ ظاہر سی بات ہے کہ ایسے ادارے کی ضرورت ہے اور وہ ادارہ بلاشبہ نگہبان کونسل اور اس کے نگراں شعبے ہيں۔ دیکھیں یہ کتنا اہم کام ہے۔ جب ہماری سمجھ میں یہ آ جائے گا کہ یہ کونسل کتنی اہم ہے تو ہم یہ بھی سمجھ لیں گے کہ کیوں اسلامی نظام سے ناراض کچھ لوگ اس ادارے کے خلاف پروپگنڈے کرتے ہیں۔ غیر ملکی پروپگنڈہ مشنری کا کام بھی یہی ہے۔ ہمیشہ اور خاص طور پر انتخابات کے موقع پر نگہبان کونسل کا کردار اور کونسل کی جانب سے انتخابات کے امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لیا جانا، دشمنوں کی ہنگامہ آرائی کا موضوع قرار پاتا ہے۔
 کسی کو اہل یا نا اہل قرار دینا ایک ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اسے حکومتی نظام سے ہٹا دیں تو پھر نظام میں کچھ باقی نہيں بچے گا۔ کیوں کر اس کی اجازت دی جا سکتی کہ ایک آدمی جو نظام کے اصولوں پر یقین نہیں رکھتا ، جس کا طور طریقہ درست نہیں ہے، جسے ملک اور قوم کے مسائل سے کم اور غیر ملکیوں کے مفادات سے زیادہ دلچسپیی ہے، آئے اور حکومت یا قانون ساز ادارے کا سربراہ بن جائے؟ یہ مناسب ہے ؟ انتخابات کےامور کی دیکھ بھال نگہبان کونسل کی اہم ذمہ داری ہے، یہ بہت اہم اور ضروری کام ہے۔ اس کے خلاف جو ماحول تیار کیا جاتا ہے اس پر بالکل توجہ نہیں دی جانی چاہئے۔ ہاں کام صحیح ڈھنگ سے انجام دیا جانا چاہئے ۔ جتنا یہ کام اہم ہے اتنا ہی اس کام کو صحیح طریقے سے انجام دینے کی اہمیت ہے۔ یعنی معیاروں کو صحیح طور پر سمجھنا چاہئے اور صرف انہی معیاروں کی بنیاد پر کسی کی صلاحیت کی تائید یا تردید کرنی چاہئے۔ ان معیاروں سے آگے نہيں بڑھنا چاہئے اور نہ ہی ان پر توجہ دینے میں کوئی کوتاہی کرنا چاہئے۔
 معیار کا مطلب ہے قوانین اور اصول ۔ ذاتی راے کی کوئي حیثیت نہیں ہے۔ سیاسی رجحان، جماعتی رجحان یا دھڑے بندی بالکل نہيں ہونی چاہئے، سفارش پر توجہ نہيں دی جانی چاہئے۔ خدا کو حاضر و ناظر جان کر معین معیاروں پر نظر رکھنا چاہئے، نگرانی کے معاملے میں بھی اور پارلیمنٹ کے قوانین کی تائید یا تردید کے معاملے میں بھی۔ صرف قانون کو معیار قرار دیا جانا چاہئے۔ قانون کا احترام ضروری ہے۔ ممکن ہے کبھی انسان یہ محسوس کرے کہ اس وقت قانون کی پابندی شائد مصلحت کے خلاف ہو، لیکن ایسے موقع پر بھی قانون کی پابندی کو مصلحت کوشی پر ترجیح دینا چاہئے۔ کیونکہ اگر یہ ہونے لگے کہ لوگوں کے خیالات و نظریات اور مصلحت پسندی کی وجہ سے معیار اور قوانین نظر انداز کر دئے جائيں تو قانون کا وجود ہی عبث ہوکر رہ جائے گا ۔ کسی دن ایک شخص کسی کام کو مصلحت کے مطابق سمجھ رہا ہے لیکن دوسرے دن دوسرے شخص کو کسی اور کام میں مصلحت نظر آنے لگے۔ یا ایک ہی دن دو لوگ الگ الگ کاموں کو مصلحت کے مطابق تصور کریں۔ ذاتی نظریات پر قوانین کو قربان کیا جانے لگا تو قانون کا وجود بے معنی ہوکر رہ جائےگا ۔ اصول و قانون کو تمام مصلحتوں، آراء و نظریات پر ترجیح حاصل ہے۔ البتہ نگہبان کونسل میں قانونی و فقہی استدلال و بحث کے وقت ممکن ہے کچھ تبدیلیاں ہو جائيں اس میں کوئي مضائقہ بھی نہيں ہے ہر مجتہد و استدلال کرنے والے کی رائے میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ آج دلیلوں کی بنیاد پر وہ کسی نتیجے پر پہنچا ہے، کل ممکن ہے کہ مزید غور کرنے کے بعد اس کا خیال بدل جائے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہيں ہے۔ مختلف امور سے متعلق نگہبان کونسل کی آراء میں تبدیلی میں کوئي قباحت نہیں ہے لیکن اس تبدیلی کو بھی قوانین و اصولوں کی کسوٹی پر پورا اترنا چاہئے ۔
 دوسری بات، جس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں، یہ ہے کہ نگہبان کونسل میں جو چیز نظریئے اور رائے کے طور پر سامنے آتی ہے، خواہ وہ آئین کے سلسلے میں ہو، شریعت کے سلسلے میں ہو یا امیدواروں کی اہلیت کی تائید و تردید کے سلسلے میں ہو ، اس کے لئے پختہ دلیل و منطقی استدلال ضروری ہے۔ استدلال کا یہ عمل بڑی اہم قانونی شقوں اور پختہ دلیلوں پر استوار ہوتا ہے جو بعد میں قانونی اور شرعی امور سے سروکار رکھنے والے افراد کے لئے مستند مآخذ اور دستاویز قرار پا سکتا ہے۔ نگہبان کونسل میں کبھی کسی مسئلے پر بہت تفصیلی بحث ہوتی ہے۔ بڑی کارآمد باتیں اور نادر خیالات سامنے ہیں ، یہ بہت اچھی چیز ہے، یہ عمل جاری رہنا چاہئے، یہ گراں بہا فکری سرمایہ محفوظ کرکے محققین کو فراہم کیا جانا چاہئے تاکہ وہ اس سے استفادہ کریں۔
 اس طرح نگہبان کونسل ہمارے لئے اللہ کی ایک نعمت ہے اس نعمت کی قدر کرنا چاہئے اور یہ کوشش کرنا چاہئے کہ اس کا وقار مجروح نہ ہونے پائے۔ اس کے وقار کا خیال رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی تعریفیں کی جائیں بلکہ نگہبان کونسل کے فیصلوں اور اقدامات کی حمایت کی جانی چاہئے ۔ یہ آپ دوستوں، بھائیوں اور بہنوں کی ذمہ داری ہے ۔
  پروردگار عالم سے میری دعا ہے کہ آپ سب کو جزائے خیر دے۔ آپ کی زحمتوں کو قبول فرمائے اور امام زمانہ (ارواحنا لہ الفداء) کو آپ سے راضی و خوشنود رکھے۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ