بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس بات میں کوئي شک نہیں کہ آپ لوگوں کے اس اجتماع میں ایسے لوگ کم نہیں ہیں جو بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ایسی باتیں ہیں جو کم از کم ان کی نظر میں قابل بیان اور قابل سماعت ہیں اور ہماری آج کی نشست میں ان کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ دامن وقت میں گنجائش نہیں ہے ورنہ میں اپنے بڑھاپے اور کم حوصلگی کے باوجود آپ لوگوں کی مزید باتیں سنتا لیکن کیا کیا جائے کہ وقت میں گنجائش نہیں ہے۔
نوجوانوں کو اپنی باتوں کو نگلنے کی بھی تھوڑی بہت عادت ڈالنی چاہیے۔ یہ بھی ایک مشق ہے۔ زندگی کے بہت سے مسائل میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی کوئی بات کہنا چاہتا ہے لیکن بوجوہ اسے اپنی بات کہنے کا موقع نہیں ملتا اور اسے اپنی بات کو نگلنا پڑتا ہے۔ بعض مواقع پر یہ ایک بہت بڑی مصلحت ہوتی ہے۔ اس کی عادت ڈالنے میں بھی مضائقہ نہیں ہے۔ ان شاء اللہ آپ کو ایسے مواقع میسر آئیں گے جہاں آپ وہ ساری باتیں کہہ سکیں جو آپ کے خیال میں کہنی چاہیے۔
آپ لوگوں نے یہاں پر جو تجاویز دی ہیں ان سے قطع نظر، جن میں سے بہت سی قابل غور ہیں اور ہمارے دفتر میں انہیں جمع کرکے ان کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا، میرے خیال میں طلباء کے لیے ان کی طالب علمی کے پیش نظر جو بات اہم ہے اور اہم ہونی ہی چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک مجموعی نگاہ میں ہمارا ملک ایران ،تاریخ اور جغرافیا میں کہاں واقع ہے؟ ہم یہ فرض کرنا چاہتے ہیں کہ طالب علم اپنے دل کی گہرائیوں میں اور اپنے جوان ذہن کی بلند پروازیوں میں ذاتی مسائل، روزگار وغیرہ سے عبور کر چکا ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ روزگار، زندگی، شادی اور گھر نہیں چاہتا، یہ سب تو زندگی کی ضروریات ہیں، بلکہ اس معنی میں کہ وہ زندگی کے ان عارضی اور چھوٹے موٹے اسٹیشنوں پر ہی رک نہیں جاتا بلکہ اس طالب علم کا جوان ذہن ان مقامات سے پرواز کرتا ہے اور آرزؤوں اور امنگوں کی تلاش کرتا ہے۔ امنگوں کی اس نگاہ میں، جو ہونی ہی چاہیے اور اگر نہ ہو تو جوانی اور زندگی بے معنی ہے، تاریخی، جغرافیائی اور سیاسی جغرافیا کے لحاظ سے ہمارا مقام کہاں ہے؟ آج اسلامی جمہوریۂ ایران کی حیثیت سے دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟
دوسرے یہ کہ اگر یہ امر عملی جامہ پہنے تو اس کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟ طلباء کے ساتھ ہماری اصل بات یہی ہے اور میرے خیال میں یہی وہ اصل نظریہ ہے جس کے بارے میں طلباء کو غوروفکر کرنا چاہیے۔
پہلے سوال کا جواب کہ ہمارا مقام کیا ہے؟ ایک مختصر سے جملے میں یہ ہے کہ ہمارا مقام ان برائیوں، مشکلات اور مصائب کا مقابلہ کرنا ہے جو دولت اور طاقت کے تسلط نیز دولت اور اقتدار کی بدعنوانی کے سبب پوری دنیا میں اور عالمی سطح پر وجود میں آئے ہیں۔ اسے کم مت سمجھیے۔ پیسے اور پیسے کی طاقت نے آج کی مادی دنیا کے سب سے ظریف، لطیف اور برجستہ حقائق کو بھی اپنی خدمت میں لینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہی اداکاری جس کے بارے میں ہمارے عزیز نوجوانوں نے بات کی ہے۔ آج دنیا میں فلمی صنعت کا سب سے برجستہ اور مضبوط مرکز ہالیووڈ ہے۔ آپ دیکھیے کہ ہالیووڈ کس چیز اور کن افراد کی خدمت کر رہا ہے؟ کن افکار اور کن نظریات کی ترویج کر رہا ہے؟ اور اس نے انسانیت کے لیے کیا منصوبہ بنایا ہے؟ مجھے نہ تو فلموں کے بارے میں مہارت حاصل ہے اور نہ ہی میں ہالیووڈ کو اچھی طرح سے پہچانتا ہوں، یہ میری بات نہیں ہے بلکہ میں ان افراد کا قول نقل کر رہا ہوں جن کا کام ہی یہی ہے اور جو انہیں مناظر اور میدانوں کے نقاد ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آج سنیما کا آرٹ، جس کے لیے میں نے برجستہ ترین مظہر کی حیثیت سے ہالیووڈ کی مثال دی ورنہ دنیا میں دیگر فلمی مراکز بھی اسی طرح سے ہیں، بے راہروی کی ترویج، انسان کی شناخت مٹانے کی کوشش ، تشدد کا پرچار اور اقوام کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لے آنے کی راہ میں کام کر رہا ہے تاکہ اونچا طبقہ بغیر کسی پریشانی اور تشویش کے زندگی گزارے۔ سنیما جو بہت ہی پیشرفتہ اور ماڈرن آرٹ ہے، اس طرح کا ہے، شاعری بھی ایسی ہی ہے، قصہ بھی ایسا ہی ہے، پینٹنگ بھی ایسی ہے، فن و ہنر کے دیگر شعبے بھی ایسے ہی ہیں۔
اقتصادی طاقتیں مذہب سے بھی فائدہ اٹھاتی ہیں، چرچ سے بھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ایک دو سال قبل میں نے ایک امریکی مصنف کی ایک کتاب پڑھی جس کا یہاں ترجمہ ہوا تھا اور طبع بھی ہوئي تھی۔ اس نے اس کتاب میں اہل اقتدار کی جانب سے چرچ اور اس سے متعلق مراکز سے فائدہ اٹھانے کے طریقوں کی تشریح کی ہے۔ میں جو چرچ کہہ رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسجدیں ایسی نہیں ہیں، جی نہیں، زور و زر مسجد اور معنویت سے بھی استفادہ کرتا ہے۔ دنیا پر پیسے کا تسلط بہت ہی عجیب چیز ہے۔ اس کا نتیجہ دنیا بھر میں بے پناہ غربت، کئی ارب لوگوں کی بھوک، انسان کی ترقی کرتی ہوئي نسلوں کی غلط اور معنویت سے عاری پرورش، اقوام پر تھوپی گئی جنگیں اور عالمی تنظیموں اور اداروں کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ ادارہ اقوام متحدہ سے وابستہ ہے اور ایٹمی اسلحوں کے عدم پھیلاؤ پر نظر رکھنے کے لیے وجود میں آیا ہے۔ آپ دیکھیے کہ ملکوں کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے، اس کا امتیازی سلوک کیسا ہے، اس میں سیاسی عناصر کی مداخلت کس طرح کی ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ طاقت اور ثروت کا اس ادارے پر تسلط ہے۔ یہ سب آج کی دنیا کی برائیاں اور چیلنجز ہیں؟ کون ان سب کا مقابلہ کرے گا؟ یہ ایک انسان، ایک جماعت یا ایک گروہ کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ چیز جو ان قاتل اور تباہ کن امواج کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہے وہ ایک عظیم اجتماعی بین الاقوامی تشخص ہے۔ آج یہ عظیم اجتماعی اور عالمی تشخص وجود میں آتا جا رہا ہے اور اس کا محور اسلامی جمہوری نظام ہے۔ ان باتوں پر غور کیجیے۔ یہ چیزیں آسان اور بغیر توجہ کے گزر جانے والی نہیں ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے فولادی جسم پر پڑنے والے مسلسل تازیانوں کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ بھی مایوسی کے ساتھ نہیں بلکہ پورے حوصلے کے ساتھ۔ بعض افراد ڈٹے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے۔ البتہ اگر ضرورت پڑی تو ہم خون کا آخری قطرہ تک نثار کر دیں گے لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
ہم آگے بڑھ چکے ہیں اور اس راہ پر جو اسلامی انقلاب نے ہمارے لیے معین کی ہے، بہت ہی واضح انداز میں پیشرفت کر رہے ہیں۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ دنیا کے سیاسی اقتدار کے مراکز وا شگاف الفاظ میں یہ کہیں کہ ایران ایک علاقائي طاقت میں تبدیل ہو چکا ہے اور اگر ہم نے روک تھام نہیں کی تو وہ ( ایران ) ایک عالمی طاقت میں تبدیل ہو جائے گا؟ یہ کوئي معمولی بات ہے؟ کیا آپ سوچتے ہیں کہ سائنسی لحاظ سے اتنی پیشرفتہ اتنی زیادہ دولت و ثروت والی دنیا میں دین، معنویت اور انصاف کے نام پر اور لوگوں کی پشتپناہی سے ایک سیاسی نظام کا وجود میں آنا اور ایسا مقام اور ایسی پوزیشن حاصل کرلینا معمولی بات ہے؟ آج یہ کام ہو چکا ہے۔ وہ خیمہ جو یہاں نصب ہے اور اس خیمے کی مضبوط رسیاں اور گہرائی تک پیوست کیلیں جو اس اسلامی ملک میں ہیں، دوسرے ممالک میں ٹھونکی گئی ہیں۔ مختلف اقوام میں ہماری جڑیں گہرائی تک پیوست ہیں۔ آپ لوگ ان شاء اللہ جب بڑے میدانوں میں داخل ہوں گے، ديگر ممالک کا سفر کریں گے اور اقوام کے درمیان جائیں گے تو اس بات کو زیادہ محسوس کریں گے۔ اس وقت دنیا کے ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران مسلم اقوام کے دل میں بستا ہے۔ ہم کچھ چیزوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ جب اسلامی جمہوریۂ ایران کے سربراہان مملکت دوسرے ملکوں کا دورہ کرتے ہیں تو ان کا جو عوامی سطح پر استقبال ہوتا ہے اس کا تصور کسی بھی ملک کے سربراہ کے لیے اپنے ملک کے علاوہ محال ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ میں بھی جب صدر تھا اور دوسرے ممالک کے دورے پر جاتا تھا تو ایسا ہی ہوتا تھا۔ میرے بعد والے صدر اور ان کے بعد والے صدر بھی جب مختلف ملکوں کے دورے پر گئے تو اقوام نے ان کے تئیں اپنی ارادت و محبت کا اظہار کیا۔ یہ صدر کا کمال نہیں ہے بلکہ اس عظیم تحریک کا کمال ہے، بیداری کی موج پیدا کرنے کا کمال ہے، آپ کے تشخص کا کمال ہے، اسلامی جہوری نظام کا تشخص۔ یہ ہماری شان ہے۔ ہم شیطانی مراکز کی اجارہ دارانہ اقتصادی طاقت کے لیے رکھی جانے والی بنیادوں کو متزلزل کر سکتے ہیں۔ وہ لوگ دنیا میں جنگ شروع کراتے ہیں، غربت و افلاس پھیلاتے اور بحران پیدا کرتے ہیں۔ ایک ثروتمند شخص اچانک ہی کئی ممالک میں اقتصادی بحران پیدا کر دیتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یورپ میں رہنے والے ایک امریکی یہودی سرمایہ کار نے اپنے جانے پہچانے نام کے ساتھ ملیشیا، انڈونیشیا، فلیپائن اور تھائی لینڈ کو دیوالیہ بنا دیا تھا۔ پیسے کی طاقت کو ملاحظہ فرمائیے۔ بنابریں اقتصادی طاقتیں بحران پیدا کر سکتی ہیں۔ بحران پیدا کرنا، جنگ شروع کرانا اور اسرائیل جیسے تشدد پسند اور سنگدل نظاموں کو وجود بخشنا ان کا کام ہے۔ ان سب کو چیلنج کرنا ہوگا۔ یہ کام کون کر سکے گا؟ ایک نہ تھکنے والا بین الاقوامی اجتماعی تشخص جو قلبی اور دینی ایمان پر استوار ہو۔ یہ انسان کو تھکنے نہیں دیتا۔ دین پر راسخ ایمان کے علاوہ ہر چیز تھکنے والی ہوتی ہے۔ یہ ان طاقتوں کو چیلنج کر سکتا ہے اور انہیں متوازن بننے پر مجبور کرنے کے بعد ختم کر سکتا ہے۔ ان شاء اللہ امام مہدی علیہ السلام کی سراپا عدل و انصاف حکومت میں یہ سارے کام ہوں گے البتہ اگر حوصلے، عزم، استقامت اور تدبیر سے کام لیں تو ہم بھی اس کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ ان امور کے لیے استقامت، شجاعت اور طاقت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور عقل و تدبیر کی بھی۔ یہ ایسے کام نہیں ہیں کہ انہیں آسانی سے اور یونہی انجام دے دیا جائے ، لیکن یہ کام ممکن ہے اور اب تک ایسا ہوتا آیا ہے ۔ اسلامی جمہوری نظام، کہ جس کا ایٹمی مسئلہ آج حل ہو چکا ہے، اور جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے، یہ صرف ایک مثال ہے، وہی نظام ہے جس کے پہلے دن سے ہی دنیا کے مستکبرین سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور اگر سوچ بھی لیتے تو اس بات کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ یہ ملک سائنسی شعبوں میں ترقی اور پیشرفت کرسکے گا ۔ آپ میں سے کسی نوجوان نے بتایا کہ اسلامی انقلاب کے اوائل میں یونیورسٹیوں میں پروفیسروں کی کمی تھی، ڈاکٹروں کی کمی تھی، ماہرین کی کمی تھی لیکن آج ہمارا ملک علمی اور سائنسی لحاظ سے پیشرفتہ ہے، البتہ ہمیں اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہم نے جو پیشرفت کی ہے وہ اس سے بہت کم ہے جتنی ہمیں پیشرفت کرنی چاہیے تھی یا جو ہماری صلاحتیوں کے مطابق ہو۔
کچھ دنوں قبل یہاں اساتذہ کی نشست تھی اور مختلف مضامین اور شعبوں کے اساتذہ اسی بات پر زور دے رہے تھے جو میرا ہمیشہ کا عقیدہ ہے اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوری نظام کی صلاحیت اور استعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، ہمارا مقام یہ ہے کہ ہم ہر کام کر سکتے ہیں۔ آج اگر آپ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے خلاف اقدام کئے جارہے ہیں، سازشیں کی جا رہی ہیں اور حملے کیے جا رہے ہیں تو یہ ہمارے مقام کی وجہ سے ہے۔ یہ پہلے سوال کا جواب ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم اس مقابلے میں کس طرح کامیاب ہوں گے؟ یہ ایسی چیز ہے جس کا تعلق آپ جوانوں سے ہے۔ وہ قوت جو ہمیں مختلف میدانوں میں پیدا کرنی ہے وہ پہلے مرحلے میں علمی قوت ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹیوں کی ذمہ داری سنگین ہے۔ یہاں پر ایک صاحب نے کہا کہ آئیے ہم لوگ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کی جگہ اسلحے کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی بات دنیا کے سامنے پیش کریں۔ یہ بہت ہی اچھا اور مناسب خیال ہے، اس کا کہنا بھی بہت آسان ہے؛ لیکن ایک عالمی معاہدہ صرف کچھ لوگوں کے کہنے سے تو ہو نہیں جاتا؛ اس کی پشت پناہی کے لیے ایک طاقت اور قوت کی ضرورت ہے جو اسے ایک بین الاقوامی معاہدے کی شکل میں لے آئے۔ اُس وقت کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور سابق سوویت یونین نے بیٹھ کر اسلحے کے عدم پھیلاؤ کے بارے میں ایک دوسرے سے اتفاق کیا لیکن چونکہ ان کا عمل کرنے کا ارادہ نہیں تھا اس لیے یہ بات عملی جامہ نہیں پہن سکی۔ کون ایک معاہدے کو اسلحے کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی حیثیت سے پیش کر سکتا ہے اور پھر دنیا کے ممالک کو اس معاہدے پر عمل کے لیے پابند کر سکتا ہے؟ البتہ طاقت اور اسلحے کے زور پر نہیں، بلکہ سیاست کے زور پر، مضبوط تہذیب کے زور پر اور قومی تشخص اور شخصیت کے غلبے کے زور پر۔ یہ کام ایک طاقتور ملک کر سکتا ہے۔
قوت حاصل کیجیے، اگر اسلامی ایران علمی اور سائنسی میدان میں اپنی بات دنیا کی سب سے اہم باتوں کی حد تک پہنچا دے تو یہ کام ہو سکتا ہے کیونکہ علم دولت و ثروت بھی پیدا کرتا ہے، فوجی طاقت بھی پیدا کرتا ہے اور خود اعتمادی بھی پیدا کرتا ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے، ایک بار پھر کہہ رہا ہوں اور آئندہ بھی بار بار کہتا رہوں گا کہ آپ کے مستقبل کی طاقت کی بنیاد، علمی قوت میں ہے۔
یونیورسٹیوں کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ آپ طلباء کو بھی اور پروفیسروں کو بھی جاننا چاہیے کہ ہماری یونیورسٹیوں کی افادیت کو ختم کرنے کی سازشیں تیار کی جا رہی ہیں۔ آپ لوگوں کو اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ تحقیقی مراکز کا بجٹ دیر میں دیا جاتا ہے، ٹھیک ہے اس کی تلافی کی جا سکتی ہے اس کے لیے کوشش کی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگ سازشیں کر رہے ہیں کہ کلاسوں اور تحقیقی ورکشاپس کے دروازے ہی بند کر دئیے جائیں اور طالب علم کو علم کے حصول کی طرف سے بے رغبت کر دیا جائے۔ ان سازشوں کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ اس مقابلے کی ذمہ داری حکومت اور حکام پر بھی ہے، آپ لوگوں پر بھی ہے اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد پر بھی ہے۔
خدایا! اس ماہ مبارک میں ہمارے دلوں کو اپنے سے زیادہ آشنا اور مزید قریب کر دے۔ خدایا! تو نے ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں جو نورانیت پیدا کی ہے اور ہمارے نوجوانوں کو جس شفافیت اور معنویت سے بہرہ مند کیا ہے اسے ہمارے اسلامی ملک کے عزیز جوانوں کے لیے ہمیشہ محفوظ رکھ۔ خدایا! ہمارے نوجوانوں کی دعاؤں کو شرف قبولیت عطا کر اور ان کی مرادوں کو بر لا۔ خدایا! ہمارے نوجوانوں اور دیگر ممالک کے نوجوانوں کے تعلقات میں، جو ہمارے ایک دوست کی بات تھی جس کی میں دعا کے طور پر تائید کر رہا ہوں، روز بروز اضافہ کر۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ