اسی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے بارہ آبان تیرہ سو ستتر ہجری شمسی مطابق تین نومبر انیس سو اٹھانوے عیسوی کو طلبا کے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔ چـونکہ تیرہ رجب یعنی حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت با سعادت کا دن بھی تھا لہذا قائد انقلاب اسلامی نے آپ کی آفاقی شحصیت کے کچھ پلوؤں پر بھی روشنی ڈالی۔ تفصیلی خطاب پیش نظر ہے:
بسم‏الله ‏الرّحمن‏الرّحيم

مولائے متقیان امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے یوم ولادت کی اس نشست میں موجود تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اسی طرح اپنی قوم، پورے عالم اسلام اور تمام حریت پسندوں کو بھی اس دن کی مناسبت سے تہنیت پیش کرتا ہوں۔ اس سال اس عظیم عید کے موقع پر امریکی سفارت خانے پر قبضے کا دن بھی منایا جا رہا ہے کہ جو ہماری قوم میں عالمی سامراج سے مقابلے کے قومی دن کی حیثیت سے مشہور و معروف ہے۔ اگر ہم امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں چند مختصر جملے کہنا چاہیں اور تاریخ کی اس عدیم المثال اور عظيم شخصیت کے بارے میں تفصیلات سے گریز کریں کہ جس کے لئے کتابيں بھی ناکافی ہيں، تو سب سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ ان نادر شخصیتوں میں سے ہيں جو ماضی میں بھی اور آج بھی نہ صرف شیعوں کے درمیان، نہ صرف مسلمانوں کے درمیان بلکہ غیر مسلم حریت پسند لوگوں کے درمیان بھی مقبول رہی ہيں۔ بڑی شخصیات میں یہاں تک کہ پیغمبروں میں بھی بہت کم ایسی شخصیتيں نظر آتی ہيں جو اپنے عقیدت مندوں اور پیروکاروں کے حلقے سے باہر کے لوگوں میں بھی اتنے زیادہ ثناخوان رکھتی ہو جتنے امیر المومنین علیہ السلام کی تعریف کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ البتہ ہماری معرفت کم اور نظر قاصر ہے۔ ان کی شخصیت غیر معمولی ہے۔ ہم امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو سمجھ ہی نہيں سکتے؛ خاص طور پر ان کے معنوی و الھی پہلو کو کہ جنہيں سمجھنا بہت سے اولیائے خدا کے لئے بھی دشوار ہے؛ لیکن امیر المومنین علیہ السلام کی ظاہری شخصیت میں بھی اتنی کشش ہے کہ جن لوگوں کو معنوی امور اور انسانوں اور اولیائے خدا کی معنوی شخصیتوں سے کوئی آشنائی نہيں ہے وہ بھی تاريخ کے اس عظیم رہنما کے بارے میں کچھ چيزیں جان سکتے ہیں اور ان کے عقیدت مندوں کے زمرے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں، چاہے وہ نوجوانی کا دور رہا ہو یعنی بعثت کی شروعات کا چاہے عنفوان شباب کا دور رہا ہو یعنی وہ دور جب مدینہ ہجرت ہوئی کہ جس وقت حضرت علی علیہ السلام کی عمر بیس برس سے کچھ زیادہ تھی، چاہے پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد اور ان دشوار حالات کا زمانہ ہو اور چاہے ان کی ‏ عمر کا آخری دور ہو یعنی ان کی عمر کے آخری پانچ برس جب آپ نے حکومت اور خلافت قبول کر لی تھی، تقریبا پچاس برسوں کی اس پوری مدت میں ان کی بہت سی اہم خصوصیات واضح ہوئی ہيں جس سے تمام لوگ خاص طور پر نوجوان، درس و نصیحت لے سکتے ہيں۔
تاریخ کی عظیم شخصیتیں، نوجوانی بلکہ لڑکپن کی عمر سے ہی کچھ خصوصیات کی حامل رہی ہيں یا انہوں نے یہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کی ہیں۔ عظیم انسانوں کی عظمت عام طور پر ایک طرح کی جہد مسلسل پر منحصر ہوتی ہے جس کا ہم امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی میں مشاہدہ کر سکتے ہيں۔ نشیب و فراز سے بھری ان کی زندگی میں ایک نکتہ مجھے نظر آتا ہے جس کا میں آپ سے ذکر کر رہا ہوں کہ امیر المومنین علیہ السلام نوجوانی کی شروعات سے، شہادت تک بصیرت و صبر یعنی بیداری و پائیداری کے مظہر رہے ہيں۔ وہ ایک لمحے کے لئے غفلت، کج فہمی، فکری انحراف و حقائق کو غلط انداز میں دیکھنے جیسی کمزوری کا شکار نہیں ہوئے۔ جس دن سے غار حرا میں اور کوہ نور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھوں اسلام کا پرچم لہرایا اور کلمہ لا اله‏ الا الله آپ کی زبان پر جاری ہوا اور نبوت و رسالت کی تحریک شروع ہوئی، امیر المومنین علیہ السلام کو اس کی معرفت تھی اور ہمیشہ اس تحریک سے جڑے رہے اور اس راستے میں آنے والی تمام مشکلات کا پورے عزم کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔ جہاں کوشش کی ضرورت تھی، کوشش کی، جہاں جنگ ضروری تھی، وہاں جنگ کی، جہاں قربانی کی ضرورت پڑی وہاں پورے خلوص سے اپنی جان پیش کردی اور میدان جنگ میں گئے۔ اسی طرح اگر سیاسی و حکومتی سرگرمیوں کی ضرورت پڑی تو بھی انہوں نے یہ کام انجام دیا۔ ان کی بصیرت و بیداری ایک لحظہ کے لئے بھی ان سے جدا نہيں ہوئی۔ دوسری خصوصیت صبر و پائیداری کی رہی ہے۔ وہ اس راستے پر پورے عزم و ارادے کے ساتھ ڈٹے رہے۔ یہ ڈٹا رہنا، نہ تھکنا، اور ان انسانی خواہشات کا اسیر نہ ہونا بہت اہم ہے جو انسانوں کو کاہلی اور سب کچھ چھوڑ دینے کے لئے ورغلاتی ہے۔ یقینا امیر المومنین علیہ السلام کی عصمت کی تقلید نہيں کی جا سکتی۔ امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت کا کسی سے بھی موازنہ نہيں کیا جا سکتا۔ ہم اپنے آس پاس اور اپنی تاريخ میں جتنے بھی عظیم انسان دیکھتے ہيں اگر ان کا امیر المومنین علیہ السلام سے موازنہ کیا جائے تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کسی ذرے کا آفتاب سے موازنہ کیا جائے، موازنہ ممکن ہی نہيں ہے، تاہم امیر المومنین علیہ السلام کی یہ دو خصوصیات قابل تقلید و قابل پیروی ہے۔ کوئی یہ نہيں کہہ سکتا کہ امیر المومنین علیہ السلام میں صبر و بصیرت کی جو خصوصیت تھی وہ اس لئے تھی کہ وہ امیر المومنین تھے۔ اس خصوصیت کے سلسلے میں سب کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو امیر المومنین علیہ السلام سے قریب کریں جتنا بھی ان کی توانائی میں ہو۔
تمام لوگوں اور انسانی سماجوں کے لئے جتنے بھی مسائل پیش آتے ہيں، انہی دو میں سے ایک کی وجہ سے ہیں: یا عدم بصیرت کی وجہ سے یا عدم صبر کی وجہ سے۔ یا غفلت کا شکار ہو جاتے ہيں اور حقائق کی شناخت کرنے سے قاصر رہتے ہيں، حقائق سمجھ نہيں پاتے، یا حقائق کو سمجھنے کے باوجود جد و جہد سے تھک جاتے ہيں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دو میں سے ایک یا دونوں کی وجہ سے تاريخ بشریت مختلف اقوام کے مصائب و پریشانیوں کی داستانوں سے بھری ہوئي ہے؛ عالمی تسلط پسندوں کی جانب سے کمزور و غافل اقوام پر تسلط کے واقعات سے اٹی پڑی ہے۔ دسیوں برسوں تک، کبھی سیکڑوں برسوں تک کوئی قوم کسی عالمی تسلط پسند آمر یا بڑی طاقت کے زیر تسلط رہتی ہے کیوں؟ کیا اس قوم کے لوگ انسان نہيں تھے؟ کیوں نہیں، وہ انسان تھے؛ لیکن بصیرت نہيں رکھتے تھے یا اگر بصیرت رکھتے تھے تو اپنی اس بصیرت کے ساتھ ضروری صبر سے محروم تھے یعنی بیدار نہيں تھے یا ان میں پائیداری نہيں تھی۔
انقلاب سے قبل تمام برسوں میں ، آپ جتنا بھی پیچھے جائيں، مشقت، ذلت، بدحالی، امراء اور تسلط پسند طبقے کی جانب سے مختلف قسم کے دباؤ اور غیر ملکیوں کی جانب سے تحقیر و حقارت آمیز رویہ ہی ہمارے ملک میں نظر آئے گا۔ ہمارے ملک میں برسہا برس انگریزوں نے، روسیوں نے اور برسوں تک دونوں نے اور آخر میں برسہا برس امریکا نے جو چاہا ہماری قوم کے بارے میں فیصلہ کیا۔ ہماری قوم یہی قوم تھی اور اس میں یہی صلاحیتیں تھیں کہ جن کی بنا پر وہ آج الحمد للہ مختلف میدانوں میں آپ نوجوانوں کی شکل میں ستاروں کی طرح چمک رہی ہیں اور اپنا لوہا منوا رہی ہے، لیکن نا اہل حکومتوں اور بے بصیرتی کی وجہ سے (ہمیں دبایا گیا) ہماری اسی قوم میں بصیرت و صبر کی کمی تھی۔ جب ایک دور میں سماج کے با خبر افراد نے، معزز لوگوں نے، دانشوروں نے اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیات نے میدان عمل میں آنے کا فیصلہ کیا، لوگوں میں بصیرت کی روح پھونکی، لوگوں کو صبر کی تلقین کی «و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر» کو سماج میں رائج کیا، یہ پر تلاطم سمندر وجود میں آیا اور ذلتوں سے بھری تاریخ کا بہاؤ بدلنے اور ملک سے غیر ملکیوں کے تسلط کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی-
آج آپ اگر عالمی سیاسیات پر نظر ڈالیں تو اگر کوئی ایسی قوم نظر آئی کہ جو کسی کے زیر تسلط نہيں ہے تو وہ ایرانی قوم ہوگی۔ اگر اس طرح کے مزید کچھ ملک اور کچھ قومیں ہوں تو بھی ان میں سر فہرست ایران اور ایرانی قوم ہوگی ۔ کیوں؟ کیونکہ ہمارے عوام، ہماری قوم کے نوجوانوں، ہماری قوم کے حکام، ہماری قوم کے رہنماؤں کے ذریعے قوم کو امیر المومنین علیہ السلام کے صبر و بصیرت کی تعلیم دی گئی۔ یہ دونوں خصوصیتیں اتنی ہی اہم ہیں۔ آج بھی دنیا میں جو لوگ تسلط پسند و مداخلت پسند سیاسی طاقتوں کے سربراہ ہیں یا اقتصادی کمپنیوں کے مالک یا پھر کینسر کی طرح پھیلے ہوئے ذرائع ابلاغ و پروپیگنڈہ مشینری کے مالکین ہیں سب کے سب انہی دو باتوں کے ذریعے اقوام پر حکومت کرتے ہيں، اپنی مرضی مسلط کرتے ہيں یا یہ کوشش کرتے ہیں کہ اقوام کو غفلت میں رکھیں اور ان سے ان کی بصیرت چھین لیں۔ اگر پوری طرح سے ان کی بصیرت ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوں تو پھر کسی خاص مسئلے میں جو ان کے لئے اہم ہوتا ہو کوشش کرتے ہیں کہ سماج کے انسانوں اور اقوام کی بصیرت اس مسئلے میں ختم کر دیں یا انہیں بے صبری کا شکار کر دیں۔ کبھی ایک قوم یا گروہ یا کچھ لوگ کسی صحیح راستے کے سلسلے میں بے صبری کا شکار ہو جاتے ہيں۔ یہ بے صبری بھی سمجھائی اور باور کرائي جانے والی چیز ہے۔ اقوام کو بے صبر بنایا جا سکتا ہے۔ آج کل، آپ لوگوں کو تو علم ہے ہی، تشہیراتی چینلوں میں اربوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہيں تاکہ اقوام کو یہی باتیں سمجھائی جائيں اور وہ صحیح فیصلے یا صحیح موقع پر صبر و ضبط سے خود کو دور سمجھیں اور اس سے دور ہو جائيں۔ یہ جو سامراج اور سامراجی طاقتوں کا سرغنہ امریکا، اسلامی انقلاب یا اسلامی جمہوری نظام کا مخالف ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی انقلاب نے ایک عالمی بیداری پیدا کی اور استقامت کا ماحول تیار کیا۔ شاید آپ لوگوں نے سنا ہو کہ امریکا کے سیاسی تجزیہ نگاروں نے سیمیناروں میں اور خاص میٹنگوں میں یہ بات کہی ہے کہ آج ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ اسلامی انقلاب ہے۔ کیوں سب سے بڑا مسئلہ ہے؟ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ایک قوم نے اس تسلط پسند طاقت سے اپنا راستہ الگ کر لیا ہے تو اس میں سب سے بڑے مسئلے کی کیا بات ہے؟ سب سے بڑا مسئلہ اس لئے ہے کہ سامراج اقوام کی غفلت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جب دنیا میں ایک ایسا علاقہ بنا جہاں سے پوری دنیا میں بیداری پھیلنے لگی، اقوام بیدار ہونے لگيں، ان کی راہنمائی کی جانے لگی، ایک عملی تجربہ انہیں حاصل ہو گیا تو وہ مرکز یقینی طور پر اقوام عالم کو خواب غفلت میں رکھنے والی پالیسیوں کا مخالف ہوگا ۔ جی ہاں حقیقت یہی ہے۔ ایرانی قوم، اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام اس بات کا باعث بنا کہ دیگر قومیں بیدار ہو جائيں۔
جب یہ عظیم انقلاب نہیں تھا اور ہماری قوم اس طرح سے جوش و خروش کے ساتھ میدان میں نہيں اتری تھی تو بہت سے یہ اسلامی ملک جو آج اسلام پسندی کا نعرہ لگا رہے ہيں، امریکا دشمنی کی بات کر رہے ہيں اور اپنے ملک میں امریکی مداخلتوں سے پریشان ہو رہے ہیں، اس طرح نہيں تھے۔ یہ ممالک سرڈالے آرام سے بیٹھے ہوئے تھے! اگر کبھی کوئی دانشور یا راہنما سامنے بھی آتا اور کوئی بات ان سے کہتا تو وہ کہتے؛ نہيں جناب یہ ممکن نہیں ہے۔ کوئی فائدہ نہيں ہے، کون امریکی تسلط سے نجات حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہے؟ کہتے تھے کہ یہ ممکن نہيں ہے، وہ مایوسی کا شکار تھے۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے اقوام عالم پر چھائے نا امیدی کے اس بادل کو ہٹا دیا، بہت سی قومیں بیدار اور پر امید ہو گئيں اور نوجوانوں میں اسلامی رجحان و میلان پیدا ہوا۔ جب اقوام، اسلام میں دلچسپی لینے لگیں تو اس سے سامراج کو کیا نقصان پہنچتا ہے؟ ظاہر ہے؛ اسلام، مسلمانوں پر سامراجی طاقت کے تسلط کا مخالف ہے، اسلام اس کی اجازت نہيں دیتا، جیسا کہ ایران میں ہے۔
آپ نوجوانوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ آپ جس ملک میں رہ رہے ہيں اس پر نہ امریکا اور نہ ہی کسی دوسری طاقت کا کسی بھی قسم کا تسلط ہے اور نہ ہی اس ملک کی پالیسیوں اور حکومت پر ان کا کوئی اثر ہے۔ کسی زمانے میں اس ملک میں امریکا اور برطانیہ کے سفیر جو چاہتے تھے، ملک کے سربراہوں کو حکم دیتے تھے! اس دور میں اگر امریکی سفیر، اہم ترین عالمی یا ملکی مسائل میں کوئی نظرئہ رکھتا اور ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی سے یا اس کے وزیر اعظم یا کسی بھی وزير سے اپنا نظریہ بیان کرتا تو ممکن نہيں تھا کہ وہ لوگ اس کے نظرئے کے خلاف کوئی کام کریں۔ یہاں تک کہ اگر وہ بات اس کے خود اپنے نظریات کے خلاف بھی ہوتی تب بھی وہ اسے قبول کرنے پر مجبور تھے۔ اس ملک پر غیر ملکیوں کا تسلط اس حد تک تھا۔ ایران اور برطانیہ کے درمیان تیل کا معاہدہ کچھ ہی دنوں میں ختم ہونے والا تھا۔ پہلوی دور میں کچھ لوگ بیٹھے اور انہوں نے ایک ایسا معاہدہ تیار کیا جس میں کسی حد تک ایران کے مفادات کا خیال رکھا گیا تھا۔ رضاخان کابینہ کی میٹنگ میں آیا اور متعلقہ وزیر کے سامنے سے اس معاہدے کی کاپی اٹھائی ار سب کے سامنے اسے آگ میں ڈال دیا اور معاہدہ جل گیا! کیوں؟ کیونکہ اس سے قبل برطانوی سفیر اور نمائندہ اس کے پاس گیا تھا اور کئ گھنٹے بند دروازے کے پیچھے دونوں کے درمیان گفتگو ہوئی تھی اسے جو کہنا تھا وہ کہہ چکا تھا۔ وہ (شاہ) بھی آیا اور اس نے اس معاہدہ کو جلا دیا، جس میں ایران کے تھوڑے سے مفادات کا خیال رکھا گیا تھا لیکن غیر ملکی دشمن کو وہ پسند نہيں تھا۔ اس لئے اس نے اسے آگ میں ڈال کر جلا دیا۔
ہمارے ملک میں پہلوی دور کی تاريخ اس طرح کی ہے۔ ایرانی قوم کے مفادات، پہلے برطانیوی مفادات کے زیر اثر تھے اور حالیہ تیس چالیس برسوں میں امریکا کے مفادات کے تابع رہے۔ اگر کسی چیز میں امریکی مفادات ہوتے، کسی سودے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا تو نا ممکن تھا کہ ہمارے ملک کے حکام اس کے برخلاف کوئی کام کریں یا ان کی مرضی کے خلاف کوئی انجام دیں۔ انقلاب کامیاب ہوا اور یہ غلط روایت اور انتہائی ذلت آمیز صورت حال ختم ہو گئی۔
امریکی جاسوسی اڈے پر قبضے کے بعد، امریکیوں نے بار بار پوچھا کہ آپ لوگوں نے یہ کام کیوں کیا؟ یہ بے عزتی ہے؛ یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے طلبہ نے جاسوسی کے اڈے (امریکی سفارت خانے) پر جو قبضہ کیا تھا وہ سچ مچ ایسا ہی اقدام تھا۔ جی نہيں، انقلاب کے بعد ہماری قوم اور اسلامی جمہوری نظام نے امریکیوں کے ساتھ انتہائی مناسب رویہ اختیار کیا تھا۔ انقلاب کے اوائل میں عوام نے، امریکا کے خلاف جذبات کے تحت امریکی سفارت خانے جاکر کچھ لوگوں کو پکڑ لیا اور مدرسہ رفاہ علوی جہاں امام خمینی رحمت اللہ علیہ قیام پذير تھے لے کر گئے، لیکن امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے حکم دیا اور انہیں رہا کر دیا گيا بلکہ ان کے لئے ملک سے باہر جانے کے اسباب فراہم کئے گئے اور وہ صحیح و سلامت چلے گئے۔ کسی نے ان پر حملہ نہیں کیا لیکن امریکا ماننے والا نہيں تھا۔ امریکیوں نے انقلاب کے شروعاتی مہینوں میں ہی ہر دن انقلاب کے خلاف کوئی نہ کوئی سازش اور کوئی نہ کوئی حرکت کی۔ آئے دن ہماری قوم کے خلاف دشمنی کی۔ ان کے دشمنیوں کے رد عمل میں ہمارے نوجوانوں نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیا اور وہاں کے اہل کاروں کو کچھ دنوں تک پکڑے رکھا۔ اس کے بعد انہیں واپس بھیج دیا اور سب کچھ ختم ہو گیا۔ امریکا سے تعلقات بھی ختم ہو گئے۔ اس بنا پر امریکا کی سامراجی پالیسی، اول انقلاب سے سازشوں اور دشمنیوں پر مبنی رہی ہے۔ انہیں یقین تھا کہ کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ہی وہ اسلامی نظام اور اس انقلاب کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائيں گے! انہيں یقین تھا کہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائيں گے؛ لیکن ان سے غلطی ہوئی تھی اور وہ ہماری قوم، اسلام، ہمارے ملک کے حکام اور انقلاب کو پہچان پانے سے قاصر تھے۔ آج بھی وہ وہی غلطی دوہرا رہے ہيں۔ آج بھی امریکی حکام کا لہجہ بظاہر نرم ہو گیا ہے اور ظاہری طور پر ان کا لہجہ بدل گیا ہے لیکن اصل میں صورت حال وہی ہے۔ وہ ہمارے ملک کے سیاسی و اقتصادی امور پر تسلط سے کم کسی چیز پر خوش ہونے والے نہيں ہیں۔ وہ انقلاب سے قبل کی صورت حال کے خواہاں ہیں؛ البتہ وہ ایسی بات نہيں کرتے تاہم ان کا مقصد یہی ہے وہ لوگ اسلام کی حکمرانی اور اس اصول کے مخالف ہيں جو عوام کی بیداری و پائیداری کا باعث بنا ہے۔ جو چیز بھی اقوام میں بیداری کا باعث ہو، ہر سامراجی نظام اور آج کے زمانے کا سامراجی ملک امریکا اس کا مخالف ہوگا، کیونکہ یہ لوگ اقوام عالم کی بیداری کے خلاف ہيں۔ جو چیز بھی عوام کو بیداری و پائیداری عطا کرتی ہو ان کی نظر میں بری ہوگی۔
اسلام نوجوانوں کو پائیداری و استقامت عطا کرتا ہے۔ انہوں نے اسے آٹھ سالہ جنگ اور خود انقلاب کے دوران آزما لیا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ اسلام سے محبت کس طرح سے نوجوانوں کو پورے عزم کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہنے کا حوصلہ دیتی ہے؛ کس طرح عوام کو دشمن کی بظاہر فولادی اور نا قابل شکست دیوار کے سامنے ڈٹے رہنے پر تیار کرتی ہے اور وہ دیوار آخرکار منہدم بھی ہو جاتی ہے۔ وہ یہ دیکھ چکے ہيں، اسی لئے اسلام کے دشمن بن گئے ہیں۔ اپنے پروپیگنڈوں میں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہيں کہ ایران اور امریکی حکومت کے درمیان تعلقات نہ ہونے کا نقصان ایرانی قوم کو پہنچے گا! جی نہيں جناب، سو فیصد ایرانی قوم کے فائدے میں ہے۔ یہ ایک پرانا اور بے اثر حربہ ہے کہ اقوام کو یہ باور کرایا جائے کہ اگر کوئی قوم امریکا سے تعلقات رکھے گی تو اس کے تمام مادی و اقتصادی مسائل حل ہو جائيں گے؛ نہیں، کسی دور میں کچھ احمق حکومتیں یقینا ایسا ہی سوچتی تھیں۔ ہمارے ملک میں بھی انقلاب کے اوائل میں، کچھ لوگ جنہيں طاقت حاصل ہو گئی تھی اور عہدے نصیب ہو گئے تھے ایسا ہی سوچتے تھے لیکن دنیا کے مختلف علاقوں سے ملنے والے تجربات نے اس کے بر عکس حقیقت ثابت کی ہے۔ الجزائر میں عوام اقتصادی مسائل کا شکار تھے، یہ بہت تفصیلی گفتگو ہے، وہاں یہ ظاہر کیا گیا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات ان کے مسائل کو حل کر دیں گے! نتیجتا وہ اس سمت گئے؛ لیکن کیا ہوا؟ جو ہوا وہ آج آپ الجزائر میں دیکھ رہے ہيں: عوام سے دور حکومتیں، ظالم فوجی حکومتیں، عوامی و اسلامی تحریکوں کی سرکوبی، شدت پسند گروہوں کا تسلط کہ جس کے بارے میں آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے الجزائر کے گاؤں میں یا دار الحکومت کے اطراف کے علاقوں میں نا معلوم افراد کے ذریعے بیس، پچاس، سو لوگ مار ڈالے جاتے تھے۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے سابق سوویت یونین کے سربراہ کے نام جو خط لکھا تھا اس میں فرمایا تھا کہ آپ جو اپنے ملک میں نیا نظام لا رہے ہيں، ہوشیار رہیں اور مغرب اور امریکا کی جانب اس طرح سے نہ جھکیں کہ وہ لوگ آپ کے امور پر مسلط ہو جائيں۔ آج آپ ان کی حالت دیکھ ہی رہے ہيں۔
امریکا کے ساتھ تعلقات کا اقتصادی لحاظ سے وہی نتیجہ ہوگا جو آج آپ روس میں دیکھ رہے ہیں۔ بہت سے ایسے ممالک ہيں جن کا اس وقت میں نام نہيں لینا چاہتا، ان کے امریکا کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں لیکن اقتصادی لحاظ سے ان کی حالت صفر اور بے حد خراب ہے اور ان کی کرنسی قدر انتہائی کم ہے۔ یہ سب کچھ ایرانی قوم کے لئے ایک تجربہ ہے۔ ایرانی قوم اگر اپنی مادی و اقتصادی حالت درست کرنا چاہے گی، انشاء اللہ یقینا درست کر لے گی، تو اس کے لئے عزم و ارادے، ٹھوس فیصلے، تمام طبقوں کی محنت، حکومت کے ساتھ تعاون، حکام کی حمایت، شجاعت اور خارجہ پالیسیوں میں خود مختاری اور غیر ملکی پروپیگنڈوں سے متاثر ہوئے بغیر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو کسی بھی ملک کی صورت حال کو بہتر بناتی ہیں؛ نہ کہ امریکا کے ساتھ تعلقات، نہ کہ ان تسلط پسند طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا کہ جن کے ساتھ تعلقات کا ہمیں برسوں کا تجربہ ہے۔ ایرانی قوم دشمن کے دھوکا دینے والے ان پروپیگنڈوں سے متاثر ہونے والی نہيں ہے۔ حالانکہ آپ نوجوانوں نے اس دور کو جو ہم نے دیکھا ہے اور جس کی سختیوں اور دکھوں اور ایرانی قوم کی ذلتوں کو اپنے پورے وجود کے ساتھ محسوس کیا ہے، نہيں دیکھا لیکن آپ اس دور سے آشنا ہو سکتے ہيں۔ آپ لوگ یہ جان سکتے ہيں کہ اس دور میں ایرانی قوم کی کیا حالت تھی۔ ایرانی قوم کے پاس امریکا کے ساتھ برسہا برس، دسیوں سال کے تعلقات کا تجربہ ہے! یہ ملک صیہونیوں اور امریکی سرمایہ کاروں کی پناہ گاہ بن گیا تھا، جو یہاں آکر عیش کیا کرتے تھے؛ ایسا نہیں تھا کہ وہ یہاں ٹیکنالوجی لاتے تھے، ‎سائنسی ترقی لے آتے تھے، یونیورسٹیوں کا معیار بلند کرتے تھے، یہاں کے نوجوانوں کی علمی سطح بڑھاتے تھے۔ ایسا کوئی کام نہيں کرتے تھے۔ اس دور میں ایرانی، دنیا کے کسی بھی علمی و سائنسی مرکز میں کسی بڑے مقام پر نظر نہيں آتے تھے؛ لیکن آج وہی ایرانی نوجوان ہيں جو عالمی علمی مقابلوں میں اعلی مقام حاصل کرتے ہيں۔ اس دور میں دنیا میں ایران قابل ذکر ملک نہيں تھا۔ اگر ایران کا نام لیا جاتا تو کسی چیز کے حوالے سے لیا جاتا تھا۔ خاص لوگوں کی نشست میں تیل کے سلسلے میں اور عوام کے حلقوں میں قالین کے سلسلے میں! لیکن آج ایرانی نوجوان، ایرانی فوجی، ایران کی اہم علمی شخصیتیں، ایران کے اعلی افراد، با صلاحیت نوجوان، ایرانی نوجوانوں کی علمی کاوشیں اقوام عالم اور ایران کے دوستوں کی آنکھوں میں چمک کا باعث ہیں۔، آپ لوگوں کی کامیابیاں، عالم اسلام میں بہت سے لوگوں کے دلوں کو خوش کرتی ہيں، کیا وجہ ہے کہ جب آپ کسی مقابلے میں فاتح ہوتے ہيں تو مصر و فلسطین و شام و ترکی یہاں تک کہ کچھ لاطینی امریکی ممالک میں بھی کچھ لوگ خوشیاں مناتے ہیں؟ کیونکہ آج ایران پوری دنیا میں مقبول ہے۔ مقبولیت استقامت اور سامراج کے سامنے انکار کا ثمرہ ہے۔ دشمن کے کچھ ایجنٹ چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم کے اس انکار کو چھین لیں؛ لیکن خدا کے فضل سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہيں ہوں گے۔
میں آپ نوجوانوں کے لئے دعا کرتا ہوں اور امید ہے کہ خداوند عالم آپ لوگوں کا تحفظ کرے گا اور آپ کی ہدایت کرے گا اور آپ کے قدموں کو قوت عطا کرے گا اور آپ کے ذہنوں کو انشاء اللہ بصیرت کے نور سے روشن کرے گا اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو آپ سے خوشنود کرے گا اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روح آپ سے شاد ہوگی-

والسّلام عليکم و رحمة الله و برکاته