قائد انقلاب اسلامی نے رضاکار فورس کو ایک ملک گیر فورس قرار دیا اور فرمایا کہ اس تنظیم کے افراد صرف فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہر ادارے، ہر علاقے، ہر شہر اور ہر گاؤں میں رضاکار سرگرم عمل ہیں جو حق و انصاف اور جذبہ ایمانی کے معیار پر عمل کرتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی کے بقول یہ وہ افراد ہیں جو نام و نمود اور شہرت و مقبولیت کے خواہاں نہیں بلکہ بے لوث خدمت کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے داخلی حالات کی جانب بھی اشارہ کیا اور بعض نہایت اہم ہدایات دیں۔
تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے:

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

میں آپ رضاکاروں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ تاريخی لحاظ سے یہ ایام انتہائی اہم ہیں؛ امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت ان ایام کی عظمت کا ایک پہلو ہے اور ان کی شہادت میں ایک پیغام مضمر ہے اور یہی وجہ ہے کہ خود امام محمد باقر علیہ السلام نے وصیت کی تھی کہ ان کے بعد دس برسوں تک منا میں، ان کی شہادت کی یاد منائي جائے۔ ہمارے ائمہ علیھم السلام کی تاریخ میں اس کی مثال نہيں ملتی۔ امام محمد باقر علیہ السلام کی یاد منانا یعنی تحریفوں اور اسلام کی صورت مسخ کرنے کی کوششوں کے مقابلے میں خالص اسلامی تحریک کے احیاء کو یاد کرنا ہے۔ ان ایام کی دوسری خصوصیت، روز عرفہ اور عید الاضحی سے مزین ہونا ہے؛ عید قربان سے لیکر عید غدیر تک کا وقت در اصل ایک ایسا دورانیہ ہے جو امامت کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: «و اذ ابتلى ابراهيم ربّه بكلمات فأتمّهنّ قال انّى جاعلك للنّاس اماما» (اور جب ابراہیم کا ان کے پروردگار نے کچھ کلمات کے ذریعے امتحان لیا اور انہوں نے اس آزمائش کو مکمل کیا تو ان سے کہا: میں تمہيں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں-بقرہ 124) ابراہیم کو خداوند عالم نے امامت کے منصب پر فائز کیا۔ کیوں؟ کیونکہ انہوں نے سخت امتحان کامیابی سے مکمل کیا تھا۔ اس کی ابتداء، عید الاضحی کے دن کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ غدیر کا دن آن پہنچا کہ جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کی امامت کا دن ہے۔ یہ بھی سخت امتحانات کے بعد ممکن ہوا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی پوری با برکت زندگی امتحانوں میں گزاری ہے اور ان سب امتحانوں میں کامیاب رہے ہيں۔ تیرہ یا پندرہ برس کی عمر سے، نبوت کی تصدیق سے لیکر، لیلۃ المبیت تک کہ جب آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خاطر اپنی جان کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور قربانی کے اس جذبے کی عملی شکل آپ نے پیغمبر اعظم کی ہجرت کے موقع پر پیش کی اور اس کے بعد بدر و احد و حنین و خیبر اور دیگر مواقع پر آپ نے بڑے بڑے مراحلے سر کئے۔ یہ عظيم عہدہ، انہی امتحانوں میں کامیابی کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عید الاضحی اور عید غدیر کے درمیان ایک قسم کا رابطہ سا محسوس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اسے عشرہ امامت کا نام دیتے ہيں اور یہ مناسب بھی ہے۔
ہفتہ رضاکار بھی ایک اہم دورانیہ ہے، ایک عظیم یادگار ہے۔ مختلف مواقع کو خاص ہفتوں سے منسوب کیا گيا ہے جو پورے سال کے دوران یکے بعد دیگر آتے رہتے ہيں لیکن اس (ہفتہ رضاکار) کی خصوصیات غیر معمولی ہیں؛ کیوں؟ چونکہ خود رضاکار دستے غیر معمولی ہیں۔ یہ (رضاکار فورس کی تشکیل) ایک ایسا واقعہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ کہ ایک ملک میں عوام، ایک حقیقت، ایک نظام کا، اپنے پورے وجود سے، بہترین وسائل سے اور ایمان کے بلند ترین درجے پر فائز لوگوں کی مدد سے دفاع کریں اور ان کے جہاد و جد و جہد کی کوئی حد نہ ہو۔ اس طرح کے واقعے کی مجھے دنیا کے کسی دوسرے گوشے میں کوئی مثال نہیں ملی۔ کم سے کم عصر حاضر میں کہ جو گوناگوں انقلابوں، تبدیلیوں اور نظاموں سے پر ہے، مجھے ایسے کسی واقعے کا علم نہیں ہے۔ یہ تو صرف ہمارے انقلاب کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ ہمارے عظیم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا نورانی قلب تھا جو اس حقیقت سے آشنا ہوا اور آپ نے الہی الہام اور خدا کی مدد سے اس حقیقت کو عملی شکل میں پیش کیا اور عوام کے نورانی دلوں میں موجزن اس جذبے نے، انقلاب کو ایسا عظیم عطیہ دیا۔ رضاکار فوجی دستہ کی حقیقت یہ ہے۔ اگر ہم رضاکار دستوں پر بغور نظر ڈالتے ہيں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ رضاکار دستے پائیداری، ثابت قدمی اور قومی وقار کا راز ہیں۔ کچھ چنندہ لوگ، با ایمان لوگ ہر اس شعبے میں جہاں ملک و قوم کو ان کی ضرورت تھی بغیر کسی پس و پیش کے سرگرم عمل ہو جائيں، اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کریں، ان کو بروئے کار لائيں اور اس کے بدلے کسی اجرت کے متمنی بھی نہ ہوں، نام و نمود سے بھی رغبت نہ رکھتے ہوں، یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ ہمیں عام بات محسوس ہونے لگی جیسے دوسری بہت سی انتہائی اہم باتیں جب مسلسل نظروں کے سامنے ہوں تو معمول کی باتیں لگنے لگتی ہیں۔ لیکن دنیا میں کہیں اور اس کی مثال نہیں ملے گی۔ جس شعبے نے سب سے پہلے رضاکار فوج کو اپنی سمت کھینچا وہ ملک کی خودمختاری اور سرحدوں کے دفاع کا شعبہ تھا۔ جان دینے کا معاملہ تھا، زندگی کی تمام لذتوں سے منہ موڑنے کی بات تھی۔ بوڑھے، جوان کسی میں کوئی فرق نہیں تھا، سب کے سب آگے آئے، خواتین آئيں، مرد آئے، نوجوان آئے، ضعیف العمر آئے اور سرگرم عمل ہوکر آزمائش میں شامل ہو گئے۔ اس سے بڑا امتحان اور کیا ہو سکتا ہے؟ اس دور میں بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو ملک کے لئے، انقلاب کے لئے اور ملک کی خودمختاری کے لئے اپنی جان و مال اور چین و سکون کو قربان کرنے پر تیار نہیں تھے لیکن عوام کا ایک بڑا حصہ آگے بڑھا، میدان عمل میں آیا، جو کچھ ان کے پاس تھا سب کچھ اپنے ساتھ لے آئے۔ اپنی جان، اپنا مال، اپنا چین و سکون، اپنی حیثیت سب کچھ ملک کی خودمختاری و وقار کے تحفظ کے لئے قربان کر دیا۔ یقین کریں اگر آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران، رضاکار نہ ہوتے تو آج ہمارے ملک کی صورت حال مختلف ہوتی۔ دشمن کا قبضہ ہوتا اور یہ عام تحریک، یہ ہر سو نظر آنے والا جوش و خروش، رضاکارانہ طور پر میدان جنگ میں آنے والے نوجوان اور ان کی وجہ سے پورے خاندان میں پیدا ہونے والا انقلاب اور ملک و نظام کے دفاع کا جذبہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ یہ بہت اہم واقعہ تھا۔ جنگ کے بعد بھی ہر موڑ پر رضاکار دستے سب سے آگے رہے۔ ہراول دستے کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں۔ جب سیاسی اقتدار، سیاسی استحکام کی بات ہوتی تو عوام سے نکلنے والے رضاکار دستے پورے ملک میں اس سیاسی عمل کو استحکام عطا کرتے، دنیا کے سامنے قابل تقلید نمونہ پیش کرتے تھے۔ اگر ثقافت کی بات ہوتی، تعمیر نو کی بات ہوتی تو آپ دیکھ لیں پورے ملک میں ان لوگوں کے توسط سے کیسے عظيم کارنامے انجام پذیر ہوئے، یہاں تک کہ علمی و سائنسی میدانوں میں بھی، جن کا کچھ لوگوں نے اپنی تقریروں میں ذکر بھی کیا اور بڑی اچھی باتیں بتائيں۔ علمی شعبوں میں بھی با ایمان نوجوان، جن کی یہی خصوصیت ہے کہ وہ با ایمان ہیں، شہرت اور نام و نمود کے متمنی نہیں ہیں، اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہیں اور ان کا نصب العین اسلامی نظام کے اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوتا ہے۔ انہی کو کہتے ہیں رضاکار دستے۔ ان خصوصیات کے حامل نوجوان آگے بڑھے۔ آج ہمارے ملک کے قابل فخر کارنامے، انہی خدمت گزار و اہم افراد کی جفاکشی کا نتیجہ ہیں۔ ان حقائق کی سے بے خبری یعنی رضاکار دستوں سے انجان رہنا، رضاکار دستوں کے حق میں بہت بڑا ظلم ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کے رضاکار دستے، کچھ رضاکار فوجی دستوں یا رضاکار فوجی اداروں تک ہی محدود ہیں۔ بلا شبہ دستے نمونہ رضاکار دسے ہیں لیکن رضاکار دستے انہی تک محدود نہيں ہیں؛ رضاکار دستوں بسیج کا مفہوم بہت وسیع ہے، یہ تمام شعبوں میں پیھلے ہوئے ہيں۔ شاید فوجی شکل میں موجود رضاکاروں سے سو گنا یا اس سے زیادہ غیر فوجی شکل میں مختلف محکموں میں، موجود ہيں۔ یونیورسٹیوں میں، کارخانوں میں، مختلف عوامی طبقوں میں، گاؤں میں، شہروں میں، قبائلی علاقوں میں، دینی مدارس میں مختلف اشکال میں رضاکار موجود ہیں۔ ایک جامع و مقتدر و لا متناہی موجودگی ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔ یہ لوگ نہ مال و دولت سے رغبت رکھتے ہيں نہ ہی عہدے و ظاہری جاہ و حشم سے انہیں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ان کا اعلی عہدے داروں کے احکامات سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ رضاکار دستے کا پیمانہ، بصیرت و ایمان ہے۔ ایمان کا سرچشمہ اس کے دل سے پھوٹتا ہے، اسے جذبہ عمل عطا کرتا ہے۔ بصیرت اس کی سمت و جہت کا تعین کرتی ہے۔ اسے بتاتی ہے کہ معیاروں کو کیسے پہچانا جائے، راستے پر کیسے گامزن ہوا جائے۔ رضاکار دستے کے معنی یہ ہیں۔ کسی بھی دوسری تنظیم کا رضاکار تنظیم سے موازنہ نہيں کیا جا سکتا۔ رضاکار دستوں کی تشکیل کے اس عمل کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اس کی نقل اتاری جا سکتی ہے۔ یہ خود انہی دستوں سے مخصوص ہے اور انہی کی خاصیت ہے۔ اسے نہ جاننا، ان پر ظلم ہے۔ جب انسان کو رضاکار تنظيم کی حقیقت کا علم ہو جاتا ہے تب جاکر اسے پتہ چلتا ہے کہ انقلاب، ملک اور نظام کے دشمنوں کی جانب سے رضاکار دستوں کی مخالفتوں، دشمنیوں اور کینہ توزیوں کا راز کیا ہے؟ اس وقت اسے اس کی وجہ پتہ چلتی ہے۔ بلند و بالا چوٹیوں پر باد مخالف کا زيادہ دباؤ ہوتا ہے۔ واضح علامتوں پر پہلے توجہ مبذول ہوتی ہے اور ان سے دشمنی برتی جاتی ہے۔ دشمنوں کو علم ہے کہ ملک میں، قوم کے درمیان، رضاکاروں کی موجودگی کتنی اہم حقیقت ہے۔ اسی لئے وہ اس با اثر و مفید عنصر کو اپنے حملوں کی آماجگاہ بنانے کی کوشش کرتے ہيں۔ یقینا یہ مظلومیت ہے لیکن مظلومیت کے معنی ہمیشہ کمزوری کے نہيں ہوتے۔ دنیا کے مضبوط ترین افراد بھی مظلوم رہے ہيں۔ امیر المومنین علیہ السلام، مختلف عصروں سے تعلق رکھنے والے انسانوں میں سب سے زیادہ طاقتور تھے لیکن سب سے زيادہ مظلوم بھی واقع ہوئے۔ ہمارا انقلاب، ہمارا نظام، عصر حاضر کی انتہائی مضبوط و با اثر حقیقت ہے لیکن اس پر ظلم بھی ہوتا ہے۔ خود امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والے ایک طاقتور انسان کی حیثیت سے بھی اپنے دور کے انتہائی مظلوم انسان تھے۔ بنابریں مظلومیت اور طاقت میں کوئی تضاد نہيں ہے۔ رضاکار تنظیم مظلوم ہے؛ لیکن طاقتور ہے، با اثر ہے، متاثر کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور اس کے اثرات گہرے اور دائمی ہوتے ہیں۔ رضاکار تنظیم کے عہدے داروں کو چاہئے کہ تنظیم کو اور بھی موثر بنائیں۔ جب تک رضاکار تنظيم بسیج ہے، اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کو کوئی خطرہ لاحق نہيں ہوگا۔ یہ ایک بنیادی ستون ہے۔ مختلف معاملات میں رضاکار دستوں نے اپنی حیاتی اہمیت پوری طرح سے ثابت کی ہے۔ با ایمان لوگوں کے لئے جو پورے ملک میں، تمام طبقوں میں بغیر کسی باہمی اختلاف کے سرگرم عمل ہیں اور جنہیں رضاکار دستے کہا جاتا ہے جو یقینا ان کے لئے صحیح نام اور اسم با مسمی ہے، اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ ہوشیار رہیں، کمزوریوں کو پہچانیں، نقصان پہنچانے کے دشمنوں کے منصوبوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ تمام کامیاب تحریکوں کے لئے دو کام ضروری ہوتے ہیں؛ ایک تو یہ کہ ترقی کے لئے راہوں کا تعین کیا جائے اور دوسرے یہ کہ خامیوں، کمزوریوں اور بیماریوں پر توجہ دی جائے تاکہ کمزوریاں ختم کی جا سکیں۔ یہ بھی ایک طرح سے دوراندیشی ہے اور یہ بھی ترقی کی راہ کے تعین کی طرح ہر تحریک کی اہم ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ آج سب نے یہ بات سمجھ لی ہے اور سب کو پتہ چل گیا ہے کہ اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی محاذ آرائی، انقلاب کے پہلے عشرے جیسی نہيں ہے۔ اس محاذ آرائی میں انہوں نے زورآزمائی کی اور شکست کھائی؛ قومیتی بغاوتیں شروع کروائیں، ان میں بھی انہيں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جنگ مسلط کر دی جو آٹھ برسوں تک جاری رہی لیکن اس میں بھی انہیں ہار ہی کا منہ دیکھنا پڑا، اس لئے اب وہ ان راستوں کو نہيں آزمائيں گے، یعنی اس کا بہت کم امکان ہے تاہم ہمیشہ ہر طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے تاہم اسلامی نظام سے مقابلہ آرائی میں سامراجی طاقتوں کی پہلی ترجیح اب یہ راستہ نہيں ہے۔ ان کی پہلی ترجیح وہ چیز ہے جسے آج نرم جنگ کا نام دیا جا رہا ہے؛ یعنی ثقافتی وسائل کے ذریعے جنگ، دراندازی، جھوٹ، افواہ اور جدید ترین وسائل اور ایسے ذرائع ابلاغ کا استعمال جو آج سے دس بیس یا تیس برس پہلے نہیں تھے اور اب ان میں ترقی ہوئی ہے۔ نرم جنگ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام کے دل و دماغ میں شکوک و شبہات بھر دئے جائیں۔ نرم جنگ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی سماج میں، عوام میں ایک دوسرے کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کردی جائيں، لوگوں کو ایک دوسرے سے بددل کر دیا جائے، اختلافات پیدا کر دیئے جائيں، کسی بات کو بہانہ بنا کر عوام میں تفرقہ ڈال دیا جائے۔ جیسے اس سال انتخابات کے بعد پیش آنے والے واقعات میں آپ نے دیکھا۔ ایک بات کو بہانا بنا کر عوام میں اختلافات پیدا کر دئے گئے۔ خوش قسمتی سے ہمارے عوام با بصیرت ہیں۔ اس طرح کی حرکتیں، دوسرے ممالک میں حالات کو مکمل طور پر بدل دیا کرتی ہیں؛ دوسرے علاقوں میں یہی طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ عوام میں ایک دوسرے کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کئے جاتے ہيں، انتخابات جیسے کسی واقعے کو بہانہ بنایا جاتا ہے، شکوک و شبہات پیدا کئے جاتے ہيں، لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کینہ پیدا کیا جاتا ہے، عوام کو ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسی ہنگامے میں مخاصمانہ جذبہ رکھنے والے مفاد پرست ایجنٹوں سے غیر قانونی حرکتيں کروائی جاتی ہیں اور حکام بھی گو مگو کی کیفیت سے دوچار ہوکر یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کس کی حرکت تھی؟ کیا تھا اور کیا ہوا؟ یہ ان کے بنیادی منصوبوں کا حصہ ہے۔ وہ اس طرح کی صورت حال چاہتے ہيں۔ اب آپ غور کریں اس طرح کی صورت حال میں انسان کے لئے سب سے زيادہ اہمیت کس چیز کی ہے؟ بلا شبہ بصیرت کی۔ میں بصیرت کا بار بار ذکر کرتا ہوں، اس کی وجہ یہی ہے۔ عوام کو یہ جاننا چاہئے کہ کیا ہو رہا ہے؛ انہيں ان عناصر کو دیکھنا چاہئے جو حالات بناتے اور بگاڑتے ہیں، ہنگامے کرتے ہيں تاکہ عوام کے مظاہروں کی آڑ میں غدار افراد اور اغیار کے ایجنٹ آئيں اور وہ کام انجام دیں جو وہ چاہتے ہيں اور عوام کی بھیڑ میں انہيں تلاش کرنا بھی ممکن نہ ہو۔ یہ وہ کام ہے جو دشمن کرنا چاہتا ہے۔ ہر اقدام جو بصیرت پر منتج ہو، غدار عناصر کی شناخت میں مددگار ثابت ہو، بد طینت عناصر کو عوام سے الگ کرنے میں معاون ہو وہ اچھا اقدام ہے۔ جو اقدام اس بات کا باعث بنے کہ ماحول خراب ہو، ہنگامے ہوں، لوگ ایک دوسرے کے خلاف سوچنے لگیں، ایک دوسرے پر الزام عائد کریں، گنہگار و بے گناہ خلط ملط ہو جائیں وہ اقدام ضرر رساں اور غلط ہے۔
میں اس بات پر تاکید کرتا ہوں کہ عوام کی فرد فرد کو، ایرانی قوم کو، مختلف سیاسی مکاتب فکر کو، سب کے سب کو، ان گنے چنے افراد کے مقابلے میں جو اس انقلاب کے اصولی طور پر مخالف ہیں، ملک کی خودمختاری کے خلاف ہیں اور جن کا مقصد ملک کو امریکا اور سامراج کے حوالے کر دینا ہے، اتحاد کے ساتھ ڈٹ جائيں۔ دشمن مختلف اقوام میں اس طرح کے ایجنٹ تیار رکھتا ہے؛ ہماری قوم میں بھی اس طرح کے لوگ ہيں جن کی تعداد بہت کم ہے لیکن بہرحال ہماری قوم میں بھی اس طرح کے لوگ مل جاتے ہیں۔ عوام کو، اس عظیم ملت کو، خواص و عوام سب کے درمیان سے، اس طرح کے خود فروش عناصر کو الگ کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں کوئی بھی غلطی نہيں کرنی چاہئے۔ میں دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگوں کے بیانوں سے اور ان کی کچھ باتوں سے ماحول ایسا خراب ہو جاتا ہے کہ لوگوں حیران و پریشان ہو جاتے ہيں۔ عوام میں ایک دوسرے کے خلاف، دانشوروں کے خلاف اور حکام کے خلاف بد گمانی پیدا ہو جاتی ہے، یہ صحیح نہيں ہے۔
اب کچھ لوگ، چاہے پریس سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی اور شعبے سے، نصیحتیں قبول نہيں کرتے؛ انہيں ہماری نصیحتوں کی ضرورت نہيں ہوتی، خدا جانے اس قسم کے اخبار و جرائد و ذرائع ابلاغ کی پالیسیوں کا تعین کہاں ہوتا ہے؟! ان کی روزی روٹی اختلاف پیدا کرنے پر منحصر ہوتی ہے لیکن جن لوگوں کو ملک کے مفادات سے دلچسپی ہوتی ہے، جو لوگ حقائق کی فتح چاہتے ہيں، میں ان لوگوں کو مخاطب کر رہا ہوں اور انہيں یہ نصیحت کر رہا ہوں کہ وہ غیر اہم اور چھوٹے موٹے اختلافات سے احتراز کریں۔ افواہيں تراشنا اور انہیں پھیلانا صحیح نہيں ہے۔ آج ہم دیکھتے ہيں کہ کھل کر اور نمایاں طور پر ملک کے حکام کی توہین کی جاتی ہے۔ ان لوگوں کے خلاف جن پر ملک کی بھاری ذمہ داریاں ہیں، سنگین الزامات لگائے جاتے ہيں۔ ان کے خلاف افواہيں پھیلائی جاتی ہیں۔ چاہے وہ صدر محترم ہوں، پارلیمنٹ کے اسپیکر ہوں، تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سربراہ ہوں اور چاہے عدلیہ کے سربراہ۔ اس سے کوئی فرق نہيں پڑتا۔ یہ سب کے سب ملک کے حکام ہیں۔ ملک کے حکام وہ لوگ ہيں جن کو کسی نہ کسی کام کی ذمہ داری سونپی گئ ہے۔ عوام کو ان پر اعتماد کرنا چاہئے۔ ان کے سلسلے میں حسن ظن رکھنا چاہئے۔ افواہیں نہيں پھیلانا چاہئے۔ البتہ دشمن یہی چاہتا ہے۔ دشمن افواہیں پھیلانا چاہتا ہے، دشمن لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے اور حکام کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ انتخابات کے بعد کے واقعات کے دوران آپ لوگوں نے مشاہدہ کیا۔ شروعات میں سب سے پہلے جو کام کیا گیا وہ ملک کے سرکاری حکام کی کارکردگی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا تھا، نگراں کونسل اور وزارت داخلہ کی کارکردگی کے بارے میں۔ اس قسم کے شکوک و شبہات بہت نقصان دہ ہیں۔ یہ دشمن کی خواہش ہے۔ رضاکار نوجوانوں کو ایمان، بصیرت، حوصلے اور معیاروں پر ایک ساتھ توجہ دینی چاہئے۔ جن اہم چیزوں پر توجہ دی جانی چاہئے ان میں سے ایک رضاکار تنظیم کی سرگرمیوں میں پایا جانے والا تنوع ہے۔ حالیہ دنوں میں رضاکار تنظیم کے لئے جن ترجیحات کا اعلان ہوا ہے، علم و علمی تخلقیات اور ثقافتی سرگرمیوں سے متعلق ترجیحات کا جو اعلان ہوا ہے وہ بڑی اچھی بات ہے۔ بہت سے ایسے کام ہیں جنہيں انجام دیا جانا چاہئے لیکن انہيں انجام دینا رضاکارانہ جذبے اور اس طرح کے مضبوط ایمان کے بغیر ممکن نہيں ہے۔ یقین رکھیں جب تک اس ملک میں رضاکار فوجی دستے ہیں، جب تک سچائی، پاکیزگی، بے لوث خدمت کا جذبہ ہمارے عوام خاص طور پر نوجوانوں میں موجود ہے دشمن ہمارے انقلاب، ہمارے نظام اور ہمارے ملک کو کسی بھی طرح کا کوئی نقصان نہيں پہنچا سکتا۔ جو لوگ دشمن کے اشاروں، دشمن کی ترغیب، دشمن کی مسکراہٹ، دشمن کی تالیوں پر خوش ہوکر ہمارے نظام ، ہمارے آئین اور ہمارے عوام سے ٹکرانا چاہیں گے وہ در اصل اپنا سر فولادی دیوار سے ٹکرانے کی کوشش کریں گے۔ اس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ آپ لوگ ہوشیار رہيں، کسی کو کسی ایک غلطی یا لغزش کی بنا پر منافق نہيں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کسی کو بھی صرف ایک ایسی بات کہنے پر جو میری اور آپ کی مرضی کے خلاف ہو ولایت فقیہ کا مخالف نہيں کہا جا سکتا۔ فیصلوں میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ میں آپ نوجوانوں کو،
اپنے عزيز فرزندوں کو اور پورے ملک کے پر جوش نوجوانوں کو یہی نصحیت کروں گا۔ اپنے حوصلوں کی پوری شدت، پوری طاقت، پورے ایمان اور تابناک مستقبل کے تئیں پورے تیقن کے ساتھ حفاظت کریں لیکن فیصلوں اور شناخت میں باریک بینی سے کام لیں۔ مصداقوں کی شناخت میں لاپروائی، کبھی کبھی بہت بڑا نقصان پہنچا دیتی ہے۔ خداوند عالم پر توکل کریں اور خدا سے امداد طلب کریں۔ میں آپ لوگوں کے لئے دعا گو ہوں۔ انشاءاللہ حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی توجہ آپ سب اور ہمارے ملک کے تمام نوجوانوں اور عوام کے شامل حال ہوگی اور انشاء اللہ ان کی پاکیزہ دعائيں تمام مراحل میں ہمارا سہارا بنیں گی اور ہماری قوم کے مسائل کو حل کریں گی۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌