تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں آپ تمام حضرات کا خیر مقدم کرتا ہوں اور اس کے بعد میلاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میں اس (مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے) کام کو نئے مرحلے اور دنیا کے دروازے کے عنوان سے دیکھتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی اختلافات اور تنازعات کے لحاظ سے مسلمانوں کی حالت افسوسناک ہے۔ تاریخ کے ادوار میں مسلمانوں کی بہت سی اہم فکری اور علمی توانائیاں آپسی اختلافات کی نذر ہو گئیں۔ میری بات کا غلط مطلب نہ نکالا جائے، اگر کوئی اپنے مذہب کے اثبات کے لئے علمی کاوش کرتا ہے تو میں اس کو رد نہیں کرتا ہوں۔ شیعوں کو بھی اور سنیوں کو بھی، اسی طرح ہر مسلک اور فرقے کے ماننے والے کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے مسلک کو دلیلوں کے ذریعے ثابت کرے۔ یہ اور چیز ہے۔ ہم اس کو رد نہیں کرتے۔ ہم جس چیز کو رد کرتے ہیں، وہ لڑائی اور ایک دوسرے کو کچلنے کی کوشش، ایک دوسرے کی توہین اور ایک دوسرے کی موجودیت کی نفی ہے۔ یہ غلط ہے۔
علمی بحث میں، فطری بات ہے کہ ہر ایک کا اپنا عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے وہ دوسرے عقائد کو رد کرتا ہے اور اپنے عقیدے کے صحیح ہونے کے دلائل پیش کرتا ہے۔ یہ سب قابل فہم اور قابل درک اور قابل برداشت ہے۔ یہی بحثیں ہیں جو ہمیشہ دامن تفکر کو وسیع تر اور عمیق تر کرتی ہیں اور اس میں پیشرفت کا سبب بنتی ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر دو فرقے، ایسی حالت میں کہ دونوں اسلام سے منسوب ہیں، دونوں ایک ہی بنیادی مبانی کے معتقد ہیں، ایک دوسرے کے مقابلے پر صف آرا ہو جائیں اور ایک دوسرے پر وار لگانے، زخم لگانے اور ایک دوسرے کو ختم کرنے پر کمر بستہ ہو جائیں تو یہ المیہ ہے۔ ہمیں اس کی روک تھام کرنی چاہئے۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، تاریخ میں مذہبی لڑائیاں، تنازعات اور جنگیں صاحبان اقتدار کے ذریعے وجود میں آئی ہیں۔ بنی عباس کے زمانے سے تازہ وجود میں آنے والے کلامی مکاتب کے درمیان جو جنگیں اس دور میں ہوئیں اور قتل عام ہوا، ان میں کبھی ایک خلیفہ تھا جس نے ایک فکر کی طرفداری کی تھی اور کبھی دوسرا خلیفہ تھا کہ جس نے دوسری فکر کی طرفداری کی تھی، اسی طرح بعد کے ادوار میں، ہمیشہ کچھ عناصر تھے جنہوں نے مختلف اسلامی عقائد کے ماننے والوں کو ایک دوسرے سے لڑايا۔ اگر یہ عناصر نہ ہوتے تو ان عقائد کے ماننے والے، طویل برسوں تک ایک دوسرے کے ساتھ امن و سکون کے ساتھ رہتے اور کبھی ان کے درمیان کوئی مشکل اور مسئلہ نہیں رہتا۔ اس کا نمونہ وہ اسلامی ممالک ہیں کہ جہاں مختلف اسلامی فرقے، ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس کا ایک نمونہ ایران ہے۔ اس کا نمونہ عراق ہے اور اسی طرح دوسرے ممالک ہیں۔ کب اسلام کے ماننے والے، عام لوگ ایک دوسرے کے مقابلے پر آئے ہیں؟ کب ان میں جنگ ہوئی ہے؟ بہرحال ہمیں ماضی کو فراموش کرکے یہ فرض کرنا چاہئے کہ جیسے تھا ہی نہیں۔
زمانہ حال میں بھی، اس لئے کہ مسلمین متحد و متفق نہ ہو سکیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا رہیں، بہت زیادہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ کوششیں ایسے وقت میں پوری شدت کے ساتھ جاری ہیں کہ مسلمین کو وحدت کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ ایک خیال کے مطابق جو حقیقت سے بہت قریب ہے، دشمنوں کی ان کوششوں کا محرک یہ ہے کہ اسلام کی حاکمیت اور سرداری کی جو آج عملی مراحل سے نزدیک ہوگئی ہے، روک تھام کی جائے۔ فطری بات ہے کہ اگر اسلام کی حاکمیت ہو اور اسلامی دنیا میں مسلمین اسلام سے متمسک ہونا چاہیں تو ان اختلافات کے ساتھ یہ ممکن نہیں ہے۔ اسلام کی حاکمیت اور قائدانہ کردار کی راہ میں المناک ترین رکاوٹ یہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں مسلمانوں کو، چاہے وہ ایک ملک میں ہوں یا متعدد اسلامی ممالک میں، اس سے فرق نہیں پڑتا، ایک دوسرے سے لڑا رہے ہیں۔
اگر آج ایک ملک کے جرائد اسلامی مذاہب میں سے کسی ایک مذہب پر حملہ کرنا شروع کر دیں اور دوسرے ملک کے جرائد جواب میں اس ملک کے مذہب پر حملے کریں، یعنی انہی سیاسی لڑائیوں کو دینی اور مذہبی فکر کی قلمرو میں داخل کر دیں اور دینی فکر اور تعصب کے ساتھ فرقوں کو ایک دوسرے سے لڑا دیں تو یہ اس بات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوگی کہ مسلمین اسلامی حاکمیت کی فکر کو عملی جامہ پہنائیں۔
بنابریں آج تقریب ایک فوری ہدف، غرض و غایت الہی اور فکر حیاتی ہے جس پر عمل ہونا چاہئے۔ یہ اس زمانے کا خلا ہے جو تمام ادوار سے زیادہ ہے اور ہمیں اسے پر کرنا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے زمانے کا خلا پر کرنے میں کامیاب رہیں، وقت کے تقاضے کو سمجھیں اور اس کو پورا کریں۔ بعض کام اگر خاص وقت میں انجام پائیں تو مفید رہتے ہیں۔ اگر اس وقت انجام نہ پائیں تو بہت سے فوائد سامنے نہیں آئیں گے۔
آج اسلامی دنیا کو اس تقریب کی ضرورت ہے۔ اس تقریب میں جیسا کہ بارہا کہا گیا، غرض یہ ہے کہ اسلامی فرقے فکر اور اعتقاد میں ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ ایک دوسرے کے بارے میں فرقوں کے بہت سے تصورات مذاکرات اور مباحثے سے، اچھے نتیجے پر منتج ہو سکتے ہیں۔ شاید بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں، بعض عقائد کی اصلاح ہو جائے اور بعض افکار میں حقیقی معنوں میں نزدیکی آ جائے۔ اگر یہ ہو جائے تو دوسری صورتوں سے بہت بہتر ہے۔ کم سے کم مشترکہ باتوں پر تاکید ہو۔ ان مذاکرات اور گفتگو کا کمترین فائدہ یہ ہوگا۔ بنابریں تفرقہ انگیز مسائل کو اٹھانے سے پر ہیز کیا جائے۔
فقہی مرحلے میں بھی مختلف مذاہب کے درمیان تبادلہ خیالات، بہت سے فقہی ابواب میں فتووں کے نزدیک آنے بلکہ فتووں کی وحدت پر منتج ہوگا۔ بعض اسلامی فرقوں نے بعض فقہی ابواب میں قابل ملاحظہ تحقیقات اور پیشرفت کی ہے۔ دوسرے ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ کبھی ممکن ہے کہ کتاب اور سنت سے بعض استنباط اور احکام میں، بعض فرقے نئے نتائج حاصل کریں۔ دوسرے ان سے استفادہ کریں گے اور باہم نزدیک یا مشترکہ فتؤوں تک پہنچیں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی کسی دوسرے مذہب کا کوئی فتوا نقل کیا جاتا ہے جبکہ اس مذہب میں وہ فتوا نیا ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس مذہب کے ماننے والے اس فتوے سے پرہیز کریں یا اس پر اصرار نہ کریں۔ ہم مشترکہ فتوے تک دسترسی کی کوشش کیوں نہ کریں؟
آخر میں شاید تقریب کا اہم ترین نتیجہ عملی قربت ہو۔ یعنی مسلمانوں کے عقیدتی اور فرقہ وارنہ علیحدگی کے احساس کے بغیر ، ایک دوسرے سے تعاون کی صورت میں نکلے۔ اگر ہمارے دشمن یہ ہونے دیں اور ہم عقل سے کام لیں، تو یہ کام بہت ممکن اور آسان ہے۔
ہم نے خود اپنے درمیان اور دوسرے معاشروں میں، خاص طور پر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مسلسل دیکھا ہے کہ شیعہ اور سنی بھائی ایک ساتھ بیٹھتے ہیں اور سیاسی و علمی مسائل اور اسلام سے متعلق امور کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہیں اور فراموش کر دیتے ہیں کہ ان کا مذہب کیا ہے اور ان کا مذہب کیا ہے۔ ہم نے ہمیشہ اپنے درمیان اس احساس کا مشاہدہ کیا ہے اور ہمارے ساتھ نشست و برخاست کرنے والی مختلف مذاہب کی شخصیات نے بھی اس کو دیکھا ہے۔
بنابریں، یہ تین مرحلے ہیں۔ اعتقاد کے مرحلے میں، فقہی احکام کے مرحلے میں، اور عملی تعاون کے مرحلے میں ( قربت)۔ ان تینوں مرحلوں میں نزدیکی اور قربت کو جو چیز یقینی بنا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ پہلے ہم دشمن کی سازشوں پر ہوشیاری کے ساتھ نگاہ رکھیں اور دوسرے اسلام کے ان معاملات پر زیادہ فکر کریں جو اس قربت اور نزدیکی کو یقینی بنائیں۔
اسلامی فرقوں کو قریب لانے کے لئے آیت اللہ بروجردی مرحوم (1) کی سرگرمیوں کے آغاز میں جیسا کہ مجھے اطلاع ہے، حدیث ثقلین پر توجہ تھی جس پر مختلف اسلامی فرقوں کے ماننے والوں کا اتفاق ہے اور اس کو متواتر نقل کیا گیا ہے۔ جس شکل میں شیعوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے، اسی شکل میں برادران اہلسنت کی کتابیں بھی اس حدیث سے پر ہیں اور دوسری شکلوں میں بھی اس کو نقل کیا گیا ہے۔ بہرحال اہل بیت رسول کے مسئلے اور ایسے ہی دیگر مسائل کو جو تمام مسلمانوں کو قبول ہیں، سارے مسلمان ان پر یقین رکھتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں اور ہر ایک ان پر دینی عقیدہ رکھتا ہے، محور اور بنیاد قرار دیں۔ اسلامی کتابوں میں بھی ایسے نکات مل جائیں گے جن کو وحدت اور قربت کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس انجمن کو عملی طور پر علمی تحقیقات کے گروہ تشکیل دینا چاہئے۔ یہ کام چاہے اس یونیورسٹی کے تحت ہو جو ان شاء اللہ قائم ہوگی یا کسی اور طریقے سے انجام دیا جائے، تاکہ مسلمانوں کو متحد اور ایک دوسرے کے قریب لانے کے مسائل کے بارے میں تحقیق کی جائے۔
ایک اہم کام جس کو انجام دینا ضروری ہے، تفرقہ انگیز باتوں کی اشاعت کی روک تھام ہے، چاہے شیعوں میں ہو یا سنیوں میں۔ آج مسلمانوں میں آپسی دشمنی پیدا کرنے کے لئے کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور پیسے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ اگر ہو سکے تو ہمیں اس کو روکنا چاہئے۔ اس طرح کی کتابیں وغیرہ ہر جگہ شائع ہو رہی ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایران میں ایسی کتابیں بالکل شائع نہیں ہوتیں۔ نہیں، افسوس کہ ایران میں بھی ایسی باتوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ تفرقہ اور دشمنی پیدا کرنے والی باتیں دونوں طرف سے شائع کی جا رہی ہیں۔ اس انجمن کو جن باتوں پر توجہ دینی چاہئے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ مذہبی بحث کریں۔ کتابیں بھی لکھیں۔ کلامی استدلال کریں، اپنی کتابوں میں اپنے پیش نظر فضائل بھی بیان کریں۔ یہ دوسری بات ہے۔ لیکن وہ باتیں جو تفرقہ ، دشمنی اور کینہ بڑھنے کا با‏عث بنیں، شائع نہ کریں۔ اس نکتے پر غور ہونا چاہئے۔ دیکھیں یہ انجمن اس بات کو کیسے کنٹرول کرتی ہے۔
میرے پاس دنیا کے مختلف علاقوں سے متعدد کتابیں آتی ہیں۔ ان کتابوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کتابوں کے ذریعے لوگوں نے کینہ، کدورت اور دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران میں پرچم اسلام و قرآن سربلند ہوا ہے اور پر کشش اسلامی نعرے یہاں سے بلند ہوئے ہیں تو اب دوسرے طریقوں سے دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں کے دلوں میں اس ملک، اس قوم اور اس حکومت کی دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کام کے لئے مخصوص کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ دشمن اپنا کام کر رہا ہے۔
بہرحال میں خدا وند عالم سے آپ حضرات کے لئے توفیق طلب کرتا ہوں۔ میں آپ عزیز برادران کا جنہوں نے بیڑا اٹھایا اور اس انجمن کی اعلا کمیٹی تشکیل دی، جناب واعظ زادہ (2) نے کمر ہمت باندھی اور اس راہ میں فکر اور سعی و کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اور ان تمام لوگوں کا جو آپ کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خدا وند عالم سے التجا ہے کہ ان شاء اللہ آپ کی نصرت کرے تاکہ آپ اس استقامت و پائیداری سے اس راستے کو طے کریں اور ہم اس کا نتیجہ ان شاء اللہ مستقبل قریب میں دیکھیں۔
شاید آپ کے کام کے نتائج ان ہستیوں کی ارواح تک بھی پہنچیں جنہوں نے پچاس ساٹھ سال قبل، پہلی بار دارالتقریب کی بنیاد رکھی اور اس راہ میں قدم بڑھایا۔ الفضل لمن سبق ہم ان کے پیروکار ہیں۔ البتہ ان کا ایک خاص طریقہ تھا اور ممکن ہے کہ اس انجمن کا طریقہ اور ہو۔ وہ مرکز ایسے حالات میں قائم ہوا تھا کہ زیادہ تر علمی اور فکری مسائل مد نظر تھے۔ لیکن آج حالات دوسرے ہیں۔ اس لئے کہ افسوس کہ آج اس مسئلے میں سیاست پوری طرح دخیل ہے۔ اس زمانے میں سیاسی عناصر اس طرح تفرقہ انگیزی نہیں کرتے تھے۔ لیکن آج نئے عناصر پیدا ہوگئے ہیں اور صاحبان اقتدار اور سیاسی طاقت رکھنے والوں کے پاس اس کے محرکات بہت ہیں، اس لئے آج اس راہ میں زیادہ کام ہو رہے ہیں۔
میں آپ حضرات کے لئے دعا گو ہوں۔ ان شاء اللہ میرا سلام دیگر حضرات تک بھی جو تشریف نہیں لائے ہیں، پہنچادیں۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ برکاتہ

(1) 1874 تا 1961
(2) سکریٹری جنرل انجمن التقریب بین المذاھب الاسلامیہ