قائد انقلاب اسلامی نے نماز عید کے خطبوں میں ماہ رمضان سے بہرہ مند ہونے کے موقعے کو بہت بڑی نعمت قرار دیا اور سب کو اس نعمت عظمی کی قدردانی اور ماہ رمضان سے حاصل ہونے والے گراں قدر معنوی سرمائے کی حفاظت کی دعوت دی۔ آپ نے الگ الگ رفتار و گفتار اور مزاج و پسند کے مختلف عوامی طبقات اور خاص طور پر نوجوانوں کی ذکر و عبادت کی محفلوں میں شرکت کو اللہ تعالی سے انسانوں کی فطری و ذاتی محبت کا دلکش نظارہ قرار دیا اور فرمایا کہ ایران کے با ایمان عوام اللہ تعالی سے ماہ رمضان میں قائم ہونے والے رابطے کی حفاظت اور اس رشتے کی تقویت کے ذریعے اپنے اندر عروج و تکامل کی بنیادوں کو مضبوط کریں گے اور ایسی قوم تمام مادی و معنوی میدانوں میں ہمیشہ کامیابی سے ہمکنار رہے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے نماز عید کے دوسرے خطبے میں ماہ رمضان میں مختلف عوامی طبقات منجملہ اساتذہ، طلبہ، حکام، ملازمین، سرمایہ کاروں اور دیگر طبقات کے افراد سے اپنی ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران کی بلند ہمت، پر عزم اور جوش و جذبے سے سرشار قوم حتمی طور پر ترقی و پیشرفت اور افتخار و عزت کی تمام بلندیوں کو سر کرے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے یوم قدس کی مناسبت سے ملت ایران کی شاندار ریلیوں کو اسی عزم و ارادے کی جلوہ گاہ قرار دیا اور فرمایا کہ اسلام اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے دشمن گزشتہ اکتیس برسوں میں یوم قدس سے عوام کی دلچسپی میں کمی دیکھنے کے متمنی تھے لیکن ایران کی وقت شناس قوم نے اس سال ایشیا، مشرق وسطی، افریقا، یورپ اور امریکا کے مسلمانوں کے درمیان سب سے پیش پیش اور زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں قدم رکھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نماز عید کے خطبے میں پاکستان میں آنے والے سیلاب کو عالم اسلام کا سب سے ہنگامی مسئلہ قرار دیا اور اس تباہ کن سیلاب کے بھیانک پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے پاکستان کی مسلمان قوم کے درد و غم پر افسوس ظاہر کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے پاکستان کے مومن اور مصیبت زدہ عوام کی مدد کی اپیل کی۔
نماز عید کے خطبوں کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

پہلا خطبہ

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین الحمد للہ الّذی خلق السّموات و الارض و جعل الظّلمات و النور ثم الذین کفروا بربھم یعدلون احمدہ و استعینہ و استغفرہ و اتوکّل علیہ و اصلّی و اسلّم علی حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ حافظ سرّہ و مبلغ رسالاتہ حبیب قلوبنا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین و صل علی ائمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المؤمنین اوصیکم عباد اللہ و نفسی بتقوی اللہ ۔
( حمد و ستائش اس اللہ سے مخصوص ہے جو تمام دنیاؤں کا پروردگار ہے، حمد و ستائش اس اللہ کے لئے ہے جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو خلق کیا اور تاریکیاں اور نور قرار دئے پھر بھی کچھ لوگ اپنے پروردگار کے سلسلے میں کفر و انکار سے کام لیکر اس سے برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی تعریف کرتا ہوں، اسی سے مدد چاہتا ہوں اور اسی کی بارگاہ میں استغفار کرتا اور اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں۔ میں اس کے حبیب و نجیب پر جو اس کی تمام مخلوقات میں سب سے بہتر، اس کے اسرار کے محافظ اور اس کے پیغام کے مبلغ ہیں صلوات و سلام بھیجتا ہوں، وہ جنہیں ہمارے قلوب دوست رکھتے ہیں، قاسم کے پدر گرامی ، خدا کا انتخاب، حضرت محمد (ص) ہیں اور ان کی سب سے طیب سب سے طاہر منتخب و برگزیدہ ہدایت یافتہ افراد کی ہادی و رہنما آل پر ( درود و سلام ہو ) خصوصا روئے زمین پر جو اس وقت اللہ کی نشانی ہیں اور صلوات و سلام ہو مسلمانوں کے امام، محروموں کے حامی و پشتپناہ، مومنین کے رہنماؤں پر۔ میں اللہ کے بندوں کو اور خود اپنے آپ کو تقوائے الہی کی نصیحت کرتا ہوں۔)

اس مبارک و مسعود عید فطر کی تمام امت اسلامیہ، ایران کی ملت عزیز اور عزت و شرف کے حامل آپ تمام نمازیوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ہر ایک کو اور خود اپنے آپ کو بھی تقوائے الہی کے پاس و لحاظ اور اپنی تمام رفتار و گفتار اور افکار میں پروردگار کے احکام واجبات و محرمات کا خیال رکھنے کی نصیحت و سفارش کرتا ہوں۔
خداوند متعال کا شکر گزار ہوں کہ اس نے موقع دیا، عمر عطا کی اور ہم کو ایک اور ماہ رمضان اور ایک اور عید فطر دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ ایک بڑی نعمت ہے۔ الہی میہمانی میں شرکت کی نعمت۔ ہماری ملت نے در حقیقت اس مہینے سے کما حقہ فائدہ اٹھایا اور عوام نے اس ماہ شریف و عزيز کی قدر کو سمجھا، ان مجلسوں، ان محفلوں، ان تلاوتوں، ان تسبیحوں، ان دعاؤں اور ان تمام پروگراموں میں، جو زیادہ تر نوجوانوں کے قلوب اور ان کی پاک و پاکیزہ روحوں کو جذب کر لیتے ہیں، شریک ہوئے اور اس ملت کے لئے انشاء اللہ رحمت الہی کے دریچے بازہوگئے۔ اس کی قدر کرنا چاہئے۔
اللہ تعالی سے متعلق عشق و ارادت اور معنویت ہمارے عوام کے وجود میں گھر کرچکی ہے اور اس کی جڑیں گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ ممکن ہے بعض افراد خطا و اشتباہ سے دوچار ہوں، اپنی انفرادی زندگی میں غلطیاں کر بیٹھیں لیکن ماہ رمضان المبارک انہیں بھی یہ موقع فراہم کر دیتا ہے کہ خداوند متعال کی طرف پلٹ آئیں، اسے یاد کریں ذکر و تسبیح اور توبہ و استغفار کرے۔ تمام انسانوں کے یہاں خدا سے ارتباط پیدا کرنے والی روح اور معنوی جذبہ موجود ہے۔ شاعرانہ زبان میں اس کو یوں بیان کیا گيا ہے؛

خاک دل آن روز کہ می بیختند شبنمی از عشق در او ریختند
(خاک دل کا خمیر جب تیار کیا جا رہا تھا تو اسی لمحہ اس میں عشق کی شبنم کی آمیزش کر دی گئی تھی )

یہ عشق ، مادی عشق نہیں ہے، یہ عشق ہوس میں آلودہ نہیں ہے یہ عشق ، خدا کا عشق ہے یہ ذات حضرت رب العزت کا عشق ہے، یہ جوہر وجود کا عشق ہے جو تمام انسانوں میں موجود ہے، خود وجود میں آمیختہ ہے ( سورۂ روم کی تیسویں آیت کے مطابق ) فطرت اللہ الّتی فطر النّاس علیھا ( یہ وہ الہی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے )
مادی محرکات، مادی جذبے اور مادی کشش خس و خاشاک اور گرد و غبار کی طرح اس گوہر کے گرد جمع ہوجاتی ہے۔ جب ماہ رمضان آتا ہے گویا ( باد ) نسیم کی صورت اس گرد و غبار کو صاف کر دیتا ہے۔ یہ گوہر جلا حاصل کر لیتا ہے اور خداوند متعال کی نظر کرم سے دوبارہ زندگی حاصل کر لیتا ہے لہذا اس ماہ رمضان میں بھی، ہم نے دیکھا کہ مختلف مزاج، مختلف رفتار و گفتار اور مختلف انداز کے لوگوں نے مجالس خصوصا قدر کی مبارک شبوں میں شرکت کی اور بہرہ مند ہوئے پوری طرح استفادہ کیا اور اشک افشانی کی ۔

دل چو بہ آن قطرہ غم اندود شد
بود کبابی کہ نمک سود شد
دیدہ ی عاشق کہ دھد اشک ناب
ھست ھمان خون کہ چکد از کباب

یہ آنسو جو آنکھوں سے جاری ہوتے ہیں در حقیقت پاک و بیدار دلوں سے نکلتے اور جاری ہوتے ہیں۔ ہمارے عزيز و محترم عوام کو اس کی قدر جاننا چاہئے۔ ایک ذخیرہ آپ کے ہاتھ آیا ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہاتھ آنے والے ثمرے کی حفاظت کیجئے ؛ قرآن کے ساتھ جو انس پیدا ہوا ہے اس کی حفاظت کیجئے، یہ انس ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ یہ اول وقت نماز جماعت، مسجد میں نماز پڑھنے کی عادت، یہ کیفیت اور حضور قلب کے ساتھ نماز کی ادائگی، جہاں تک بھی ممکن ہے پورے سال اسی طرح جاری رہے۔ ہرگز اس کی اجازت نہ دیجئے گا کہ مادی محرکات، یہ خس و خاشاک، مادی گرد و غبار کے ڈھیر اس گوہر پر بیٹھ جائیں۔ جو قوم ان خصوصیات کی حفاظت کرتی اور معنوی عروج اور معنوی کمال کو باقی رکھتی ہے وہ قوم تمام میدانوں میں، مادی میدان میں بھی اور معنوی میدانوں میں بھی، عزت میں، اقتدار میں، ہر قسم کے قومی سرمائے ایجاد کرنے میں کامیاب رہتی ہے اور انشاء اللہ ہماری قوم بھی اس مقام پر پہنچ کر رہے گی۔
آج بھی عید فطر کا دن ہے جو علل الشرائع کی روایت کے مطابق : فیکون یوم عید و یوم اجتماع و یوم فطر و یوم زکاۃ و یوم رغبت و یوم تضرع ( جلد اول ص 268) عید بھی ہے، لوگوں کے اجتماع کا دن بھی ہے۔ آج کے دن پورے عالم اسلام میں تمام مسلمان عید فطر مناتے ہیں۔ یہ ایک ہی وقت میں ایک نقطے اور مرکز کی طرف توجہ امت اسلامیہ کے لئے ایک عظیم موقع ہے، یوم زکوۃ و یوم رغبۃ وہ دن ہے کہ آپ سب کے قلوب خداوند متعال کی طرف راغب ہیں و یوم تضرع یہ وہ دن ہے کہ انسان خدا کے سامنے تضرع اور گریہ و زاری کرتا ہے۔ یہ عید، توجہ اور حاضری دینے کی عید ہے، معنی و مفہوم کی عید ہے۔
دعا ہے کہ خداوند متعال ہمیں توفیق عطا کرے، آپ کو اور ہم سب کو توفیق دے کہ ہم سب آج کے دن، جو عید کا دن ہے اور جمعہ کا مبارک دن بھی ہے الہی فیوضات سے فائدہ اٹھائیں۔

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
قل ھو اللہ احد، اللہ الصمد ، لم یلد و لم یولد ، و لم یکن لّہ کفوا احد

خطبۂ دوم
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین سیّما علی امیرالمومنین و الصّدّیقۃ الطاھرۃ و الحسن و الحسین سیّدی الشباب اھل الجنّۃ و علیّ بن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد و موسی بن جعفر و علیّ بن موسی و محمد بن علی و علیّ بن محمد و الحسن بن علی و الخلف القائم المھدی صلوات اللہ علیھم اجمعین و صلّ علی ائمّۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المؤمنین، اوصیکم و نفسی عباد اللہ بتقوی اللہ ۔

خطبۂ دوم میں سب سے پہلے میں یوم قدس کے پرشکوہ جلوسوں کی مناسبت سے ایران کی عظیم الشان ملت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ؛ ملت ایران نے اپنا جوش و خروش ، اپنا جذبہ اپنا عزم و ارادہ اور اپنی موقع شناسی اس پر شکوہ اجتماع میں نمایاں کر دی ہے۔ اکتیس سال گزر چکے ہیں جب امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے اس یوم قدس کا اعلان کیا تھا۔ دشمنوں کو توقع تھی کہ اس کا رنگ روز بروز پھیکا پڑتا جائے گا اور فراموشی کی نذر ہوجائے گا لیکن خدا کا شکر کہ روز بروز یہ جذبہ ، یہ شعلۂ فروزاں لوگوں کے دل اور لوگوں کے عمل میں اور زیادہ پختہ ہوتا چلا گیا ۔
اس سال مختلف ممالک میں، ایشیا میں، مشرق وسطی میں، افریقہ میں، امریکہ میں، یورپ میں دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں نے اس دن کو برپا کیا اور ایران کی عظیم ملت نے جو امت اسلامیہ کے اس عظیم الشان اقدام کا اصل محور ہے، یہ دن بڑے ہی پرشکوہ انداز میں منایا اور دنیا کو دکھا دیا کہ ایسے حالات میں، جب بین الاقوامی تقاضے پائے جاتے ہوں، وہ اپنے فرائض کو اور زيادہ جوش و خروش کے ساتھ، اشتیاق و لگن کے ساتھ اور بہت زیادہ وسیع پیمانے پر انجام دیتی ہے۔
صیہونی حکومت نے اپنی شقی القلبی کی حد کر دی ہے۔ دنیا کے گوشہ و کنار سے جس قدر بھی (فلسطینیوں کی) حمایت کی صدا بلند ہوئی، اس حکومت نے بے توجہی برتی اور بلا وقفہ جرائم انجام دئے۔ ان حالات میں ایران کی مسلمان قوم نے ہرسال سے زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ یوم قدس برپا کیا۔ اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف مغرب خصوصا امریکہ کی موذیانہ کوششوں نے ہماری ملت کے جذبے اور زیادہ جوان کر دئے، جبکہ عالمی استکبار اور عالمی تسلط پسندوں کے نزدیک فلسطین کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو وہ کسی بھی قیمت پر طاق نسیاں کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں، ملت ایران نے اس مسئلے کو مرکزي مسئلہ بنا دیا۔ آفرین ہو اس عظیم ملت کی جراتوں کو، ہماری ملت عزیز کی رفتار و گفتار میں امید اور جوش و جذبہ موجیں مار رہا ہے۔ میں نے اس امید اور جذبے کی تابانی اس سال یونیورسٹی کے طلبہ سے ملاقات کے دوران، یونیورسٹیوں کے اسکالرز سے ملاقات میں، ملک اور نظام کے اعلی حکام اور ملازمین کے ساتھ نشست کے دوران، مختلف اداروں کے سربراہوں اور عہدہ داروں، افسروں اور محنت کش طبقے کے ساتھ ملاقات اور مختلف طبقوں اور گروہوں کے افراد سے ملاقاتوں کے دوران اسی ماہ رمضان المبارک میں ان کی گفتگو اور بات چیت میں مشاہدہ کیا ہے۔ ایک ملت جو اس طرح کی امید سے سرشار ہو اور مستقبل کے سلسلے میں اس طرح کی امید افزا اور عزم و ارادے سے معمور نگاہ رکھتی ہو، یہ ملت بلا شبہ اور یقینا بلند چوٹیوں پر رسائی حاصل کرے گي۔
عالمی اور علاقائی مسائل میں ، بہت سے مسائل ہیں جو امت اسلامیہ کے لئے بہت اہم ہیں لیکن وہ مسئلہ جو سب سے زیادہ فوریت رکھتا ہے پاکستان کے سیلاب کا مسئلہ ہے۔ یہ کہنے کو تو سیلاب ہے لیکن حقیقت میں ایک بلائے عظیم ہے۔ ملت پاکستان کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت ہے۔ یہ ملت، امت اسلامیہ کے درمیان مومن ملتوں میں سے ایک ایسی ملت ہے جو مختلف مواقع پر گوناگوں مسائل میں پیش پیش رہی ہے۔ اپنی دینداری کے اعلان، دینی غیرت و حمیت کے مظاہرے اور دین کی پابندی کے لئے پہچانی گئی ہے۔ آج یہ ملت ایک عظیم مصیبت میں مبتلا ہے، دریائے سندھ نے شمال سے جنوب تک تباہی برپا کر رکھی ہے۔ پاکستان کے شمال میں چین کی سرحدوں سے لیکر پاکستان کے جنوب میں بحر ہند تک طویل و عریض پورے خطے میں ایک عظیم سیلاب، ایک عظیم طغیان اور ایک عظیم طوفان نے لوگوں کی زندگي کو پوری طرح دگرگوں کر دیا ہے۔ دس ہزار سے زیادہ دیہات بہہ گئے۔ تمام کھیت کھلیان اور باغات جو اس ملت کی خورد و خوراک کا سرچشمہ تھے اس ملت کی برآمدات کی امید اور دولت و ثروت کی آمدنی کا ذریعہ تھے پوری طرح تباہ و نابود ہو چکے ہیں۔ دسیوں ہزار مدرسے، مسجدیں اور امام باڑے جو اس طویل و عریض پٹی پر واقع تھے تباہ ہو گئے ہیں۔ اس دریائے سندھ کا عرض، جیسا کہ مجھے رپورٹ ملی ہے ، عام حالات میں تقریبا دو کلومیٹر ، ایک کلومیٹر اور ( بعض جگہ) نیم کلومیٹر ہے لیکن اس وقت خاص طور پر جس جگہ دوسری ندیاں اس سے ملی ہیں تقریبا نوے کلومیٹر کے عرض میں پانی ہی پانی پھیلا ہوا ہے! عوام الناس، مویشی، زندگیاں، گھر کاشانے اور امیدیں سب کچھ ختم ہوچکی ہیں، جیسا کہ اندازے لگائے گئے ہیں تقریبا چالیس سے لیکر پچاس ارب ڈالر تک اس سیلاب سے پاکستان کو نقصان پہنچا ہے ۔ تقریبا دو کروڑ افراد آوارہ وطن اور ہزاروں افراد بچے، عورتیں، بوڑھے اور ضعیف و لاغر بیچارے جاں بحق ہو چکے ہیں ۔
ان لوگوں کو آج پانی کی ضرورت ہے، غذا کی ضرورت ہے، لباس کی ضرورت ہے، سر چھپانے کی جگہ کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ زندگي کی اشیائے ضروریہ کے محتاج ہیں ، ماہ رمضان میں ملت پاکستان نے ان حالات میں روزہ رکھا ہے۔ عید فطر کا دن ہے، اجتماع کا دن ہے، امت اسلامیہ کا دن ہے، ہمارے عوام کو ہمت سے کام لینا چاہئے۔ حکومت جمہوریۂ اسلامی نے امدادی اقدامات کئے ہیں۔ بعض افراد نے نجی طور پر بھی امدادیں کی ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہیں اور زيادہ امداد کی ضرورت ہے۔ یہ ہم سبھی کا فریضہ ہے۔ ہمارے مومن بھائی، ہمارے مسلمان بھائی، وہاں ایک ایسی عظیم مصیبت میں مبتلا ہیں۔ یہ صرف آپ ملت ایران سے خطاب نہیں ہے، پورے عالم اسلام سے خطاب ہے۔ تمام ملتوں سے خطاب ہے۔ تمام مسلمان ملکوں کے مسلمانوں سے خطاب ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم سے خطاب ہے۔ سبھی کو ہمت سے کام لینا چاہئے۔ سب کو مدد کرنا چاہئے، ( جو امدادیں ) جمع ہوئی ہیں کہتے ہیں ایک ارب دو ارب! ( یہ کہاں ) اور اس عظیم ملت کی ضروریات کہاں؟! ان چیزوں سے ان کی ضروریات پوری نہیں ہوں گي۔ پاکستان کو بہت ہی سخت نقصان پہنچا ہے۔ جس قدر بھی ممکن ہے مدد کرنا چاہئے۔ خداوند عالم توفیق عطا کرے کہ ( لوگ ) جہاں تک ان کے لئے ممکن ہے مدد کر سکیں ؛ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔
البتہ، ہم کو پاکستان کی سیاسی بے ثباتی اور عدم استحکام کی طرف سے بھی تشویش ہے، تسلط پسند طاقتیں، جو جارح طاقتیں ہیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، موقع پرست عناصر غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں، بعض جارحیت پسند حکومتیں پاکستان کو اپنی فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دینا چاہتی ہیں، یہ بھی ہو رہا ہے۔ یہ بھی ایک تشویشناک مسئلہ ہے اور ہمیں توقع ہے کہ پاکستان کی با شعور قوم خود اس موضوع کی طرف دھیان دے گی؛ حکومت پاکستان اپنے فرائض کو جانتی ہے اور انشاء اللہ خداوند عالم ان کی مدد کرے کہ وہ بہترین انداز میں اپنی اس مصیبت سے باہر نکل سکیں۔
اسی طرح فلسطین کا مسئلہ، عالم اسلام کا پہلا مسئلہ ہے۔ غزہ میں جرائم اب بھی جاری ہیں۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر جرائم جوں کے توں اب بھی جاری ہیں۔ صیہونی حکومت نہایت ہی بے شرمی اور دیدہ دلیری کے ساتھ فلسطین کے مظلوم عوام پر اپنے ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے اور وہاں واشنگٹن میں امن کے اجلاس ہو رہے ہیں۔ امن کس کے ساتھ؟ چاہتے ہیں فلسطین کے مسائل پر، ملت فلسطین کے دشمنوں کے جرائم پر پردہ ڈال دیں۔ یہ مذاکرات کہ جس کا نام انہوں نے امن مذاکرات قرار دیا ہے ! ایک غاصب نے آکر ایک ملت کے گھر اور کاشانے کو غصب کر لیا ہے اور اسی پر اکتفا نہیں کی، اس ملت کا سر کچلنے کے لئے ہر قسم کے ممکنہ وسائل و امکانات کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ بھی بالکل ہی بے فکری اور لاپروائی کے ساتھ۔ مغربی دنیا، امریکہ اور دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ حملہ آور ظالم و جابر سر کچلنے والے کی حوصلہ افزائی اور ترغیب بھی کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی امن کے لئے اجلاس بھی منعقد کر رہے ہیں۔ کون سی مصالحت؟ کیسا امن ؟! کس کے اور کس کے درمیان؟ اس طرف بے شرم و بے غیرت ظالم و ستمگر صیہونی بھی نہایت ہی دیدہ دلیری کے ساتھ فلسطینیوں کے مقابلے میں کھڑے کہہ رہے ہیں ٹھہرو! یہودیوں کی آبادکاری کو قبول کرلو ( زبان نہ کھولو) ان کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ قدس شریف کو مسلمانوں کے قبلۂ اول کو ، فلسطین عزيز کو یہود علاقہ بنانے کی غرض سے اپنے ظلم و ستم اور سازشوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں یہ ہمارا ایک اصلی مسئلہ ہے ۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ خداوند متعال مسلمان ملتوں کو توفیق عطا کرے ، مسلمان حکومتوں کی مدد کرے کہ وہ اس تلخ حادثے کے سلسلے میں اس تلخ واقعے کے تئیں اپنے فرائض کو پہچانیں، البتہ ملت فلسطین، خوش قسمتی کا مقام ہے کہ اس قدر دباؤ کے باوجود پوری قوت و طاقت کے ساتھ ثابت قدم ہے۔ آدمی کو یقین نہیں آتا؛ ایک قوم اس قدر ثابت قدم، اس قدر باہمت اور اس قدر باغیرت ہو سکتی ہے!! یہ عجیب و غریب قسم کے دباؤ ان کو پسپائي پر مجبور نہیں کر سکے کہ وہ پیچھے ہٹ جاتے۔ بیس تیس سال پہلے کے مقابلے میں آج فلسطینیوں کی طاقت کہیں زيادہ ہے، وہ اور زيادہ باعزم اور پختہ نظر آتے ہیں۔ ان کی توانائیاں بھی بحمداللہ پہلے سے بہتر ہیں اور کسی شک و شبہ کے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینی جوان ایک دن غاصبوں کے ہاتھ قطع کرکے ہی دم لیں گے اور اس جھوٹے اور فریبی نظام کی بساط سرزمین فلسطین سے وہ ضرور سمیٹ دیں گے ۔
پروردگارا! اس ملت کی عبادت، اس ملت کی زحمات، اس ملت کے گریہ و زاری اور اخلاص و پاک دلی کو جو ماہ رمضان المبارک اور عید فطر کے دن نظر آئی اپنے لطف و کرم کے تحت قبول فرما۔ پروردگارا! اپنی رحمت و مغفرت کےدروازے ان لوگوں کے لئے کھول دے۔ پروردگارا! لوگوں کے مسائل و مشکلات کی گرہیں کھول دے ۔ پروردگارا! ترقی و کامرانی کی بلند چوٹیوں کی طرف اس قوم کی پیش قدمی کو اور زيادہ سریع اور آسان کر دے ۔ پروردگارا! ہم سب کو بخش دے ۔ پروردگارا! ہم سب کو ماہ رمضان المبارک کے فیوض اور عید سعید فطر کے برکات اور خضوع و خشوع کے فیضان سے محروم نہ کرنا ۔ پروردگارا! ہمارے درمیان سے اٹھ جانے والوں کو اپنے لطف و رحمت سے نواز ۔ پروردگارا! امت اسلامیہ کو روز بروز سربلندی و سرافرازي عطا فرما۔

 بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و العصر، ان الانسان لفی خسر الّا الّذین امنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحق و تواصوا بالصّبر ۔

 

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ