اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں آپ برادران و خواہران عزیز کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ایک بار پھر مجھے یہ موقع دیا کہ حج کے عظیم فریضے کے کارکنوں کے اجتماع میں اس فریضۂ الہی کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں۔ اسی طرح آپ عزیزوں کی زحمتوں بالخصوص محترم عہدیداروں کی زحمتوں کا بھی جو اس واجب الہی کی بہتر سے بہتر ادائیگی اور اس خلا کو پر کرنے کے لئے آپ نے اٹھائی ہیں، شکریہ ادا کرتا ہوں اور خدا وندعالم سے دعاگو ہوں کہ آپ کو حضرت بقیۃ اللہ الاعظم کا منظور نظر اور ان کی پاکیزہ دعاؤں کا مستحق قرار دے اور آپ کی اس خدمت کو قبول فرمائے۔
حج کے تعلق سے دو اہم نکات پائے جاتےہیں، جو ہمیشہ باقی رہیں گے اور کبھی فراموش نہیں ہوں گے۔ ان میں سے ایک حج میں معنویت کا موضوع ہے۔ شروع سے آخر تک، ذات احدیت پر توجہ، اخلاص اور پروردگار کے سامنے اظہار عبودیت، اس فریضے کی روح ہے۔ دوسرے فرائض اور واجبات میں یہ خصوصیت اس طرح اور اس کیفیت کے ساتھ نہیں پائی جاتی۔ اگرچہ ہر واجب اور عبادت کا انحصار پروردگار کے ذکر اور اس پر توجہ پر ہے۔ جب لوگ حج کے فریضۂ الہی کے مرکز میں پہنچتے ہیں تو مادی زندگی کی حدود سے نکل کے مکمل طور پر معنوی فضا میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس معنوی فضا میں انسان حقیقی معنی میں اپنی تطہیر کرکے لوٹ آتا ہے۔ اگر انسان پوری عمر میں ایک بار اپنی تطہیر کرلے تو اس کے لئے کافی ہے کیونکہ حج ایک بار واجب کیا گیا ہے اور واجبات انسان کی ضروریات اور احتیاج کی بنیاد پر ہیں۔ اگر خدا کی طرف عروج اور تکامل کے لئے ہمیں سترہ رکعت نماز سے زیادہ کی ضرورت ہوتی تو خدا اس کو واجب کرتا۔ کم ترین واجب وہ ہے جو ہمارے لئے حکم واجب کی صورت میں آیا ہے۔ جس کے اندر بھی استطاعت ہو، من استطاع حج اس پر واجب ہے، یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ من استطاع واجب کو محدود کرتا ہے۔ نہیں یہ واجب کو وسعت دیتا ہے۔ بغیر کسی استثنا کے عمر میں ایک بار واجب ہے اور کوئی نہ کرسکے، نہیں کرسکتا ہے تو اس پر واجب نہیں ہے کیونکہ توانائی نہیں ہے۔ بنابریں تطہیر اور پاکیزگی کے لئے معنویت کے اس ابلتے ہوئے چشمے اور مخزن میں ایک بار جانا کافی ہے۔ البتہ اگر اس سے زیادہ ہو سکے تو بہتر اور زیادہ تطہیر ہوگی لیکن کم ترین لازم، ایک ہی بار ہے۔ تو دیکھیے کہ حج کا معنوی پہلو کتنا قوی ہوگا۔
یہ وہ نکات ہیں کہ جن کے ذریعے ہمیں واجب کو اچھی طرح پہچاننا اور سمجھنا چاہئے۔ اگر ہم نے دیکھا کہ حج میں معنویت سے دوری، دکھاوا اور مادی پہلو آگیا اور حج کے سفر میں جو طرز عمل ہم خود اختیار کرتے ہیں یا ہم پر مسلط کئے جاتے ہیں، وہ معنویت کےخلاف ہیں تو جان لینا چاہئے کہ ہم فلسفۂ حج سے دور ہوگئے ہیں۔ جو لوگ حج اور ایام حج میں ان کاموں پر زیادہ وقت لگاتے ہیں، جو معنویت کے برخلاف یعنی خدا سے دوری اور مادیت میں غرق ہونے کے مترادف ہیں، تو درحقیقت اس سرمائے کو کم کرتے ہیں جو خدا وند عالم نے حج میں انہیں عطا کیا ہے جبکہ ان کو اس اندازہ نہیں ہو پاتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ حاصل کررہے ہیں جبکہ ان کے ہاتھ سے کچھ جارہا ہے اور مادی باتوں میں غرق ہونا معنوی ہدیے کو کم کردیتا ہے۔
حج لبیک یعنی دعوت الہی کو قبول کرنے اور اس کا جواب دینے سے شروع ہوتا ہے۔ حج کے تمام مناسک اور اعمال جیسے احرام، احرام کا لباس اور محرمات احرام، طواف، سعی، نماز اور وقوف وغیرہ میں سے ہر ایک، ایک طرح سے ہمارے وجود کے ایک حصے کو معنویت اور خدا سے متصل کرتا ہے۔ یہ مرکب مجموعہ درحقیقت ایک شفاف چشمہ ہے جس میں اپنی تطہیر کرنی چاہیے۔ خیال رکھیں کہ حج کا یہ پہلو ختم نہ ہونے پائے۔ ماضی میں، اس زمانے میں جب امور حج کے ذمہ دار وہ لوگ تھے، جنہوں نے معنویات کو نہ تو محسوس کیا تھا اور نہ ہی اس کی بو سونگھی تھی، ان سے کوئی توقع نہیں تھی۔ البتہ ایسے افراد تھے جو خود اہل معنویت تھے اور خدا پر توجہ اور اس کے ذکر کے ذریعے اپنی اس ضرورت کی تکمیل کرتے تھے لیکن کوئی نظام نہیں تھا جوانہیں معنویت کی طرف لے جاتا۔ آج صورتحال مختلف ہے۔ آج وہ لوگ امور حج کے ذمہ دار ہیں جو اہل معنویت ہیں، خدا کی معرفت رکھتے ہیں، اس کا ذکر کرتے ہیں، معنویت کی لذت سے واقف ہیں، ذکر و معرفت خدا کی شیرینی کو محسوس کرتے ہیں۔ بہت فرق ہے امور حج کے ایسے ذمہ داروں میں اور ان لوگوں میں، جو جانتے ہی نہیں کہ حج ہے کیا؟ یہ نہیں جانتے کہ ایک معمولی تفریحی سفر اور عظیم حج الہی میں کیا فرق ہے؟ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ایک سفر ہے جو انسان سیاحت اور تفریح کے لئے کرتا ہے۔
آج آپ امور حج کے ذمہ دار ہیں۔ اہل معنویت امور حج کے ذمہ دار ہیں۔ میں تمام محترم حضرات، ذمہ دار افراد، برادران و خواہران اور ہر اس فرد سے جو کسی بھی طرح سے حجاج کرام سے واسطہ رکھتا ہے، گزارش کرتا ہوں کہ ان کی ایک کوشش یہ ہونی چاہیے کہ حجاج کرام کو روح حج و معنویت کے نزدیک کریں اور لوگوں کو سماجی مسائل سے قطع نظر، انسان کے انفرادی عروج میں حج کے اثرات سے آگاہ کریں جیسے یہ کہ حج انسان کو کامل کرتا ہے، اس کو پاک کرتا ہے، اس کی تطہیر کرتا ہے، اس کا تزکیہ کرتا ہے، اس کو زیور معنویت سے آراستہ کرتا ہے، اس کو عظیم سرمایہ عطا کرتا ہے، اس کی جھولی بھر دیتا ہے۔ یہ سب صرف کہنے اور بیان کرنے سے نہیں ہوگا بلکہ آپ کو اپنے عمل، توجہ اور رفتار و کردار سے لوگوں کو معنویت کا راستہ دکھانا ہوگا۔ اگر یہ ہوگیا تو دوسرے نکتے کی جو اہم اور ناقابل فراموش نکات میں سے ہے، تکمیل زیادہ آسان ہوجائے گی۔
دوسرا نکتہ، سماجی ہے۔ خداوند عالم نے اس واجب کو اس طرح قرار دیا ہے کہ مسلمین ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئیں۔ اگر حج نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ کوئی مسلمان اپنی عمر کے آخری حصے تک نہ صرف یہ کہ بہت سی مسلم اقوام کو نہ دیکھے بلکہ ان کا نام بھی نہ سنے۔ حج مختلف اقوام، مختلف آداب و رسوم اور مختلف زبان والوں کو، جن میں سے دو افراد اگر زیادہ دنوں تک بھی ایک جگہ رہیں تب بھی یہ یقینی نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ذرہ برابر بھی انس پید کریں گے، (انہیں) ایک جگہ پر جمع کرتا ہے اور ان سب کو ایک عمل، ایک ذکر، ایک ہی عشق اور ایک ہی ہدف عطا کرتا ہے۔
اچھا تو توقع کیا ہے؟ توقع یہ ہے کہ ایک نتیجہ نکلے۔ وہ ایک نتیجہ کیا ہے؟ وہ چیز جو ایک شخص سے، صرف ایک قوم سے نہیں بلکہ تمام اقوام سے ارتباط قائم کرتی ہے، کیا ہے؟ یہ وہ چیز ہے جو اقوام کے درمیان پائی جاتی ہے اور وہ اسلام ہے۔ مختلف نسل کی مسلم اقوام کے درمیان جو چیز مشترک ہے وہ کیا ہے؟ وہ اسلام سے محبت، اسلامی اقدار، اسلامی آرزوئیں اور اسلامی اہداف ہیں جو اسلام نے ان کے لئے معین کیے ہیں۔ بنابریں حج اس کی تکمیل چاہتا ہے۔ کچھ لوگ اس واضح بات کو کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کے لیے اس کی تشریح کی ضرورت ہے؟ بعض تشریح کے بعد بھی نہیں سمجھتے، شقاوت کو اس کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے اور اس واضح امر اور صریحی حق کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔ مشرقی، مغربی، کالے، گورے اور مختلف زبان کے لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں، چند دنوں تک ایک ہی طرح اعمال انجام دیتے ہیں، ایک جگہ پر عبادت کرتے ہیں، ایک جگہ سوتے ہیں اور ایک جگہ بیٹھتے ہیں۔ یہ اعمال ذاتی اور قومی پہلوؤں سے بالاتر امر کے لئے ہیں ورنہ ممکن تھا کہ یہ اعمال ہر شخص اپنے شہر کی جامع مسجد میں انجام دیتا۔ لوگوں کو ایک خاص جگہ پر کیوں بلایا گیا ہے؟ اس لئے کہ ایک ساتھ ہوں اور ایک ساتھ ہونے کا احساس کریں اور اس چیز کو جو قومی مجموعے سے بالاتر ہے یعنی مسلمان ہونے اور وحدت اسلامی کو سمجھیں۔ یہ وہی چیز ہے جس پر اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب نے پہلے دن سے اب تک زور دیا ہے اور کہتا آرہا ہے کہ حج مسلمانوں کے ایک دوسرے سے واقف ہونے، اتحاد، مسلمانوں کے مشترکہ مفادات کی تکمیل اور مشترکہ دشمن سے دوری یعنی مشرکین سے برائت کے لئے ہے۔ یہاں چونکہ مرکز اسلام ہے، روح و حقیقت اسلام ہے، توحید ہے اور خانۂ خدا توحید کا مرکز، توحید کا مظہر، علامت اور رمز توحید ہے، لہذا یہاں نعرۂ توحیدی ہے اور مشرکین سے برائت بھی شرک سے برائت ہے۔ یہ بالکل واضح بات ہے۔ اب وہ کہتے ہیں جناب مسئلے کی کتاب میں کہاں لکھا ہے کہ مشرکین سے برائت واجبات حج میں سے ہے؟ اچھا تو کہاں لکھا ہے کہ اسلامی نظام کی حفاظت واجبات میں سے ہے؟ اور جو اس کو نہ سمجھے اس نے اسلام کو نہیں سمجھا ہے؟
کچھ باتیں ایسی ہیں کہ لکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ جہاں بھی دین کے آثار پر نظر ڈالیں، اس کو واضح طور پر دیکھیں گے۔ البتہ انسان کے اندر، بصیرت، سمجھ بوجھ، معرفت اور قوت ادارک ہونی چاہیے۔ کون ہے جو حج میں توحید، معنویت اور وحدت مسلمین کو دیکھے اور نہ سمجھے کہ یہ عظیم اجتماع اس لئے ہے کہ کفر کے سامنے اسلام اور توحید کی عظمت پیش کی جائے؟ آج جو دشمن چاہتے ہیں اس کے برخلاف، حج میں توحید، شرک کے سامنے اور اس کے مقابلے پر ہے۔ آپ دیکھیں کہ آج امریکا کتنے ذلت آمیز انداز میں اسلامی جمہوریہ سے دشمنی کررہا ہے۔ یہ دشمنی کس لیے ہے؟ وہ نہیں چاہتا کہ کلمۂ حق، معنویت اور اسلام کہیں سر اٹھاسکے اور دنیا کے سامنے خود کو پیش کرسکے۔ اگر اسلامی جمہوریہ ایران، صرف اسلامی نعرے لگاتا، جیسے نماز، دعا، عبادت، قرآن وغیرہ کی بات تو کرتا مگر سامراج کے مقابلے پر نہ آتا اور وہ جو بھی کہتے، اس کے جواب میں کہتا ہاں، بالکل ٹھیک، جو آپ فرمائیں تو آپ کی قسم، اس سے انہیں کچھ بھی لینا دینا نہ ہوتا۔ وہ اس بات کے مخالف نہیں ہیں کہ اسلام ذلیل ہو۔اگر اسلام، نعوذ باللہ، ذلیل کیا جائے تو وہ اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔ وہ اسلام کی عزت و عظمت کے مخالف ہیں۔ اگر کہیں کوئی ملک ہو، اسلام اور لا الہ الا اللہ کا پرچم بھی اس کے پاس ہو، اسلام کے نعرے بھی لگائے، لیکن عالمی سامراج کے مقابلے میں وہ خود کو گرادے تو عالمی سامراج پاگل نہیں ہے کہ اس کی مخالفت اور اس سے جنگ کرےگا۔ وہ اسلام، جو امریکا کے مقابلے میں زمین پر گرجائے، وہ امریکا کے لئے ضرررساں نہیں ہے۔ تو پھر وہ اس کی مخالفت کیوں کرے گا؟ یہ امریکا کا نوکر ہے، اس سے پیسے بھی لیتے ہیں، اس کی مدد بھی لیتے ہیں اور اپنی بات بھی اس پر مسلط کرتے ہیں۔ ایسے اسلام کا کوئی دشمن نہیں ہوگا۔ وہ اس اسلام کے مخالف ہیں کہ جو ان کے مقابلے پر آجائے۔ جو اپنے آپ کو سمجھے اور لوگوں کو اپنی طرف بلائے۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود کو مکے میں مقید نہیں کیا۔ اگر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود کو مکے میں، گھر میں قید کرلیتے، لوگوں کو دعوت اسلام نہ دیتے، کسی پر اعتراض نہ کرتے تو کوئی ان کی مخالفت نہ کرتا۔ اسلام صاحب عزت ہے۔ اسلامی عزت و عظمت، جو سر نہیں جھکاتی ہے، سربلند رکھتی ہے، دشمن کے دباؤ میں نہیں آتی بلکہ بارہا اس نے سامراج کو ذلیل کیا ہے، اس کی ناک زمین پر رگڑ دی ہے، مستحکم ہونی چاہئے۔ جس طرح کہ اسلامی جمہوریہ، ضعیف النفس لوگوں اور کوتاہ بینوں کی تمام بدگمانیوں کے برخلاف جو کہتے تھے کہ جناب یہ ناممکن ہے، یہ کام نہ کریں، ڈریں عوام کی مدد، خدا کی عنایت اور اس مرد موحد کی قیادت میں --- ہمارے عظیم امام ( رحمت اللہ علیہ) حقیقی موحد تھے اور توحید ان کے پورے وجود میں جاری تھی، انہوں نے اپنے پورے وجود سے خدا اور عزت و عظمت الہی کو قبول کیا تھا-- دشمن کو ذلیل کرکے خود صاحب عزت ہوگئی۔
یہ اسلامی جمہوریہ انہیں بری لگتی ہے، اس سے برہم ہیں اور اس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس پر تہمت بھی لگاتے ہیں۔ اس کے خلاف نعرے بھی لگاتے ہیں۔ اس کے خلاف غلط اور جھوٹ بھی بولتے ہیں اور ظلم بھی کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ وہ جو بھی کہتے ہیں، ظلم ہے۔ سازش بھی کرتے ہیں۔ اس ملک میں فتنہ بھی پھیلانا چاہتے ہیں۔ یہاں، وہاں، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی مشکلات بھی کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ تخریبی کارروائی کرتے ہیں، ملک کی تعمیر نو میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ تعمیر مشکل ہے مگر تباہ کرنا آسان ہے۔ آج حکومت تعمیر کررہی ہے اور بنارہی ہے۔ ایک عمارت تیار کرنے کے لئے مدتوں اینٹوں پر اینٹیں رکھی جاتی ہیں تب جاکے عمارت تیار ہوتی ہے لیکن ایک دھماکہ خیز مادے سے آسانی کے ساتھ منہدم کی جاسکتی ہے۔ وہ اس مشکل کام کو روکنا چاہتے ہیں، اس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ خباثت کرتے ہیں۔ کس لیے؟ اس لیے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ وہ قوم ہے جو اسلامی دعوت پر، اسلامی نعروں کے ساتھ اپنی زندگی اور دنیا و آخرت سنوارنے پر کمر بستہ ہوئی ہے اور دشمن کے سامنے جھکنا نہیں چاہتی۔ اس لیے اس قوم سے دشمنی کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے حج میں بھی توحید کے نعرے کی مخالفت کرتے ہیں۔
میرے عزیزو! حج کو ان دو خصوصیات سے پہچانیے؛ انفرادی اور معنوی خصوصیت۔ ہر دل میں انقلاب لانے کی خصوصیت؛ یہ ہزاروں دل جو یہاں سے احرام باندھتے ہیں اور خانۂ خدا کی طرف جاتے ہیں، میقات و وعدہ گاہ الہی کی طرف جاتے ہیں تاکہ متغیر، خدائی اور معنوی ہوکے واپس آئیں۔ دل اپنے گھروں سے ہی احرام باندھتے ہیں۔ ذکر خدا کرنے والے، خضوع و خشوع سے مملو دل، میقات آنے سے پہلے ہی احرام باندھ لیتے ہیں۔ یہ وہ خصوصیت ہے جس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ دوسری خصوصیت جو اجتماعی، اسلامی، امتی اور قومیت سے بالاتر معنی و مفہوم کی حامل اور امت اسلامیہ سے متعلق ہے، اثبات عزت توحید، نفی شرک اور شرک، مشرکین، شرک کی دعوت دینے والوں اور مخالفین توحید سے برائت ہے جس طرح بھی اور جس شکل میں بھی ہوسکے۔ جیسے خود حج ہے کہ من استطاع الیہ سبیلا استطاعت پر منحصر ہے۔ البتہ پیروان آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ان سرزمینوں میں، ان کے آثار اور یادگاروں کو بھی تلاش کرتے ہیں جن کے وہ شیدائی اور چاہنے والے ہیں۔ وہ اپنے مظلوم ائمہ کی یادگاروں کی جستجو بھی کرتے ہیں کیونکہ یہ سرزمین ان کے درس اور نورانیت کے پھیلنے کا مرکز رہی ہے۔
اہل تشیع کے اماموں کی امامت کے ڈھائی سو برسوں کے دوران، ہمارے ائمہ انہیں شہروں میں، انہیں گلی کوچوں میں، انہیں سڑکوں اورگھروں میں، اسی سرزمین پر، انہیں متبرک زیارتگاہوں میں بیٹھے اور تشنہ اور مشتاق عوام کو اسلام، اور معرفت کی تعلیم دی۔ ان کی یادگاریں، ان کے آثار، ان کے ذکر کی علامتیں اور ان کی متبرک قبور وہاں ہیں۔ آج بھی روئے زمین پر ان کے وارث، حج کے ایام میں وہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے سید و سردار، مشتاق دلوں کے محبوب اور خلقت کے مولا و آقا، عرفات، منیٰ، مشعرالحرام اور طواف میں ہوتے ہیں۔ عاشق دل، جستجو کریں اور خود کو مرکز معنویت سے متصل کریں۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ہمارے دلوں کو نور، معنویت اور حقیقت کے منابع سے آشنا کردے۔ ہمارے دلوں کو خود سے متصل کردے اور ہمیں اپنے اولیاء سے الگ نہ کر۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، امت اسلامیہ کے حج کو قبول فرما۔ امت اسلامیہ کے لئے اس حج کو مبارک فرما، عظیم اسلامی حج کے امور کے کارکنوں پر اپنی برکتیں اور رحمتیں نازل فرما۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ