قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بہت بہت خوش آمدید' یہ دیکھ کے خوشی ہوئی کہ ہمارے ملک کی ممتاز اور برگزیدہ خواتین کی فکری جہت اس سمت میں ہے کہ انشاء اللہ نوید بخش اور باعث مسرت ہوگی۔ میں بھی آپ کی خدمت میں حضرت فاطمہ زہرا( سلام اللہ علیہا) کی جو تاریخ کے ہر دور کی خواتین اور انسان کی تمام نسلوں کے لئے اسوۂ حسنہ نیز انسان کامل کا نمونہ ہیں اور انسان کا ملکوتی پہلو آپ میں جلوہ گر ہے، آپ کی ولادت باسعادت کی آپ خواہران عزیز، ملک کی تمام خواتین، تمام مسلم خواتین اور مسلمین عالم کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔
خواتین کے مسئلے کے بارے میں جو آج بھی دنیا کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے، بہت کچھ کہا گيا ہے اور کہا جا رہا ہے۔ جب ہم دنیا کے انسانی نقشے پر نظر ڈالتے ہیں اور انسانی معاشروں کو دیکھتے ہیں، اپنے ملک جیسے اسلامی معاشروں میں بھی، تمام اسلامی ملکوں میں بھی، غیر اسلامی معاشروں میں بھی اور نام نہاد ترقی یافتہ اور متمدن معاشروں میں بھی، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام معاشروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کے مسئلے کے نام سے ایک بڑا مسئلہ اب بھی موجود ہے۔ اس سے انسانی مسائل کی نسبت ایک طرح کی کج فکری، کجروی اور کوتاہ نظری کی عکاسی ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے تمام دعووں کے ساتھ اور ان تمام مخلصانہ اور ہمدردانہ کوششوں اور خواتین کےمسئلے میں انجام دیئے جانے والے تمام وسیع ثقافتی کاموں کے باوجود اب تک دو جنس کے مسئلے میں، عورت کے مسئلے میں اور اس کے نتیجے میں دوسری شکل میں مرد کا جو مسئلہ درپیش ہوتا ہے، اس میں صحیح اور سیدھے راستے تک نہیں پہنچ سکا ہے۔
شاید آپ خواتین میں ایسی خواتین بھی ہوں جنہوں نے دنیا کی فنکار خواتین کے ادبی اور ثقافتی فن پاروں کو دیکھا اور پڑھا ہو جن میں سے بعض کا فارسی میں ترجمہ ہو چکا ہے اور بعض اپنی اصلی زبانوں میں موجود ہیں۔ یہ تمام آثار اسی مسئلے کی عکاسی کرتے ہیں جس کا ذکر کیا گیا۔ یعنی اب تک انسان، عورت کے مسئلے کو اور اس مسئلے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دو صنفوں یعنی عورت اور مرد کے مسئلے کواور نتیجتا انسانیت کے مسئلے کو حل نہیں کرسکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، انتہا پسندی، کجروی اور غلط ادراک اور ان کے نتیجے میں وجود میں آنے والی زیادتیوں، مظالم، نفسیاتی بیماریوں، خاندان سے متعلق مشکلات اور عورت اور مرد کے رابطے کی نوعیت سے متعلق مسائل بشریت کے لاینحل مسائل میں شامل ہیں۔ یعنی وہ انسان جس نے مادی میدان میں، اجرام فلکی کے میدان میں اور سمندروں کی گہرائیوں میں اتنے انکشافات کئے ہیں، نفسیاتی مسائل سماجی مسائل اقتصادی مسائل میں اتنی باریک بینی کا دم بھرتا ہے اور واقعی ان میں سے بہت سے میدانوں میں کافی پیشرفت کی ہے لیکن اس مسئلے میں ناکام رہ گیا ہے۔ اگر میں ان مشکلات کو فہرست وار بیان کرنا چاہوں تو بہت زیادہ وقت درکار ہوگااور آپ خود ان سے واقف ہیں۔
خاندان کا مسئلہ جو آج دنیامیں ایک بنیادی مشکل بنا ہوا ہے، کہاں سے وجود میں آیا؟ عورت کے بارے میں نقطۂ نگاہ سے یا عورت اور مرد کے رابطے کے بارے میں نظریئے سے وجود میں آیا ہے۔ خاندان جو وجود بشر کا فطری اور بنیادی مرکز ہے، آج اتنے بحران سے کیوں دوچار ہے کہ آج کی نام نہاد متمدن مغربی دنیامیں کوئی خاندان کی بنیادوں کے استحکام کے بارے میں بہت ہی ہلکا پیغام بھی دیتا ہے تو اس کا استقبال ہوتا ہے؟ عورتیں بھی استقبال کرتی ہیں اور مرد بھی استقبال کرتے ہیں اور بچے بھی استقبال کرتے ہیں۔ اگر آپ دنیا میں اس خاندان کے مسئلے کا جائزہ لیں اور خاندان میں جو بحران پایا جاتا ہے اس پر صحیح طور پر توجہ دیں اور تحقیق کریں تودیکھیں گے کہ یہ بحران اس بات کا نتیجہ ہے کہ دو جنسوں (یعنی عورت اور مرد) کے تعلقات، ان کے ایک ساتھ رہنے اور ان کے آپسی روابط کے مسائل کو حل نہیں کیا گیا ہے یا دوسرے الفاظ میں نقطۂ نگاہ غلط ہے۔ اب ہم جو ان افکار کو دیکھتے ہیں جو مردوں نے پش کئے ہیں تو کہتے ہیں کہ عورتوں کے بارے میں نظریہ صحیح نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مردوں کے بارے میں نظریہ صحیح نہیں ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دونوں جنسوں کے باہمی رابطے کی کیفیت کے بارے میں نقطۂ نگاہ یعنی دونوں جنسوں کو ہندسی قرار دینے کا نظریہ غلط ہے۔
مسائل اور مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ علاج کیا ہے؟ علاج یہ ہے کہ ہم خدائی راہ حل تلاش کریں۔ کیونکہ عورت اور مرد کے بارے میں، پیام وحی اہم مسائل پر محیط ہے۔ دیکھیں کہ وحی اس بارے میں کیا کہتی ہے۔ وحی نے صرف وعظ کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ بلکہ اس نے نمونہ بھی پیش کیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ جب خدا وند عالم نبوتوں کی تاریخ میں مومن انسانوں کے لئے قرآن میں مثال پیش کرنا چاہتا ہے تو فرماتا ہے کہ وضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امرائت فرعون (2)حضرت موسی کے زمانے میں اتنے مومن تھے۔ اتنے لوگوں نے راہ ایمان میں سعی و کوشش اور فداکاری کی لیکن خداوند عالم اس نمونے کا نام لیتا ہے۔ یہ کس لئے ہے؟ کیا خدا نے عورتوں کی جانبداری کرنی چاہی ہے۔ یا نہیں مسئلہ کچھ اور ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ یہ عورت معنوی سفر میں اس جگہ پر پہنچ گئی ہے کہ صرف اس کی مثال دی جاسکتی ہے کسی اور کی نہیں۔ البتہ یہ حضرت فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) سے پہلے کی بات ہے۔ یہ مریم کبری ( سلام اللہ علیہا ) سے پہلے کی بات ہے۔ یہ بات اس زمانے سے متعلق ہے۔ فرعون کی بیوی نہ پیغمبر ہے اور نہ پیغمبر کی زوجہ ہے اور نہ ہی کسی پیغمبر کے گھرانے سے اس کا تعلق ہے۔ معنوی تربیت، رشد اور بالیدگی ایک عورت کو اس منزل تک پہنچادیتی ہے۔
البتہ اس کے برعکس بھی ہے۔ یعنی برائی میں بھی یہی ہے۔ خداوند عالم بدترین انسانوں کی مثال میں فرماتاہے کہ ضرب اللہ مثلا للذین کفروا امرائت نوح وامرائت لوط (3) بد ترین انسانوں کی مثال میں بھی دوعورتوں کو پیش کیا ہے۔ نوح اور لوط کے زمانے میں اتنے کفار تھے۔ برے لوگ تھے لیکن قرآن مثال میں انہیں نہیں پیش کرتا ہے بلکہ نوح اور لوط کی بیویوں کو ( بدترین انسانوں کی) مثال میں پیش کرتا ہے۔
یہ مختلف بلندیوں اور گوناگوں پستیوں میں صنف عورت پر توجہ کی وجہ کیا ہے؟ شاید اس وجہ سے ہو کہ قرآن اس دور کے لوگوں کے غلط طرز فکرکی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہے، جو افسوس کہ آج بھی باقی ہے، چاہے جزیرۃ العرب کے لوگوں کی فکر ہوجو بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے اور چاہے ایران اور روم جیسی اس دور کی دنیا کی بڑی سلطنتوں کے لوگوں کا غلط طرز تفکر ہو۔
آج کے یورپ کی تہذیب کی بنیاد وہی رومی سلطنت کی ثقافت ہے۔ یعنی آج یورپ، مغرب، امریکا اور مغرب کے حلقہ بگوشوں کی ثقافت پر سر سے پاؤں تک جو چیز حاوی ہے وہ وہی سلطنت روم کے خطوط و اصول ہیں۔ وہی آج بھی معیار ہیں۔ اس زمانے میں بھی عورت کو اعلا ترین درجے تک لے جاتے تھے، اس کا احترام کرتے تھے اور آرائش کی اشیاء اور زیورات سے اس کی آرائش کرتے تھے لیکن کس لئے؟ مردوں کی ایک مادی ترین اور پست ترین بشری خصلت کی تسکین کے لئے۔ یہ ایک فرد انسان اور صنف عورت کی کتنی بڑی توہین اور تذلیل ہے۔
ایران میں بھی بالکل اسی طرح تھا۔ ساسانی بادشاہوں کے حرمسراؤں کے بارے میں کچھ سنا ہے ؟ حرمسرا رکھنے کا مطلب کیا ہے؟ حرمسرا رکھنے کا مطلب عورت کی توہین ہے۔ ایک مرد کے پاس طاقت ہے اس لئے وہ اپنے لئے اس حق کا قائل ہے کہ حرمسرا میں ایک ہزار عورتوں کو رکھے۔ اگر اس بادشاہ کی پوری قوم اتنی ہی طاقتور ہوتی تو ہر ایک، ایک ہزار، پانچ سو، چار سویا دو سو عورتیں رکھتا۔ یہ عورت کے بارے میں کس نقطۂ نگاہ کی عکاسی کرتا ہے؟
اور پھر ایسی دنیا میں پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک بیٹی کی پرورش اورتربیت کرتے ہیں۔ یہ بیٹی ایسی لیاقت اپنے اندر پیدا کرتی ہے کہ پیغمبر خدا آکے اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہیں۔ حضرت فاطمۂ زہرا کے دست مبارک پر پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بوسے کومحبت پر ہرگز محمول نہیں کرنا چاہئے۔ یہ بہت غلط حقیر تعبیر ہوگی اگر ہم یہ خیال کریں کہ چونکہ آپ پیغمبر کی بیٹی تھیں اس لئے حضور ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے محبت کرتے تھےاور آپ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے تھے۔ آیا اتنی اہم ہستی اور وہ بھی اس عدالت اور حکمت کے ساتھ جو پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی میں پائی جاتی ہے اور جو پوری طرح وحی و الہام الہی پر انحصار کرتی ہے، وہ خم ہوکے اپنی بیٹی کے ہاتھوں کو بوسہ دے گی؟ نہیں بات کچھ اور ہے۔ اس کا مطلب کچھ اور ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ نوجوان بیٹی، یہ عورت، جو دنیا سے رخصت ہوئی تو اس کی عمر اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان تھی، اٹھارہ سال بھی کہا گیا ہے اور پچیس سال بھی لوگوں نے بتایا ہے، ایک غیر معمولی ہستی اور ملکوت انسانی کے بلند ترین درجے پر فائز ہے۔ یہ عورت کے بارے میں اسلام کا طرز فکر ہے۔ اس طرز فکر کو اختیار کریں۔ سماجی مسائل اور ثقافت کے تعلق سے تحقیقات میں بھی جو خواتین کی سماجی اور ثقافتی کونسل کی رکن خواتین کی ذمہ داری ہے اور تعلیم و تربیت میں بھی جس کی فکر میں آپ دانشور خواتین ہیں، اس طرز فکر سے کام لیں۔
علم و دانش بہت اور باشرف ہے اور میں اس بات کے حق میں ہوں کہ ہمارے معاشرے کی خواتین علم کے تمام شعبوں میں صاحب مہارت اور دانشور ہوں۔ البتہ اس سے پہلے کے جلسے میں (4) جو گذشتہ سال یا اس سے پہلے کے سال میں تھا، میں نے میڈیکل کے شعبے کو ترجیحی قرار دیا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ میڈیکل کے شعبے میں ہماری ضرورت فوری ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمام شعبوں میں خواتین کو اعلی مہارت حاصل کرنی چاہئے۔ فرض کریں کہ ہمارے ملک کی پانچ کروڑ کی آبادی میں اگر تین ساڑھے تین کروڑ لوگ ملک کو ثمر بخش بنانے کی عمر میں ہیں تو فطری طور پر ان ساڑھے تین کروڑ لوگوں میں آدھی خواتین ہیں۔ کیا ان کے اندر موجود ان تمام لیاقتوں اور استعدادوں کو آسانی سے نظر انداز کردیا جائے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ان کے وجود میں جو ذخائر الہی ہیں انہیں نظر انداز کردیا جائے؟ ان کے درمیان دانشور خواتین بھی ہوں گی لیکن دانش اپنی تمام عظمتوں کے ساتھ اس معنوی درجے اور حیثیت کے مقابلے میں جو خدا وند عالم نے عورت کو عطا کی ہے، ہیچ ہے۔
آپ فرض کریں کوئی خاتون علم کے اعلا درجے پر فائز ہو لیکن انسانی مسائل میں اپنے انسانی روابط میں، ( عورت اور مرد کی ) دوصنفوں میں سے ایک صنف کی حیثیت سے پستی میں ہو تو آپ کیا سمجھتی ہیں، اس کی کوئی اہمیت ہوگي؟ البتہ جو خاتون دانشور ہوگی، وہ بہت کم پستی کا شکار ہوگی --- جہالت کی ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ عورتوں کو ان سے تھوڑا زیادہ پستی کی طرف لے جاتی ہے-لیکن پستی کی کوئی محدود حد نہیں ہے۔
کوئی عورت علم کے اعلا درجے پر فائز ہونے کے باوجود اس گوہر انسانی سے، جو اس کے لئے باعث شرف ہے، جس طرح مردوں کے لئے یہ گوہر انسانی باعث شرف ہے، اور مرد اور خواتین اسی گوہر کو اپنے اندر متجلی کرنے کے لئے علم و حکمت حاصل کرتے ہیں، غافل رہے، اس پر توجہ نہ دے اور اس کی بے احترامی کرے تو پھر اس (علم) کی کیا اہمیت ہے؟ عورت اور مرد میں گوہر انسانی کو رشد کرنا چاہئے۔ یہ شرف کا مسئلہ ہے۔
ہمارے معاشرے میں اسلامی شرف اور اقدار کا احیاء ہونا چاہئے۔ مثلا حجاب کا مسئلہ شرف کا مسئلہ ہے۔ حجاب کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے جو اگرچہ اعلاترین چیزوں کے لئے تمہید ہے لیکن خود ایک شرف ہے۔ ہم جو حجاب کی اتنی پابندی کرتے ہیں وہ اس لئے ہے کہ حجاب کا تحفظ اعلا معنوی درجے تک پہنچنے میں عورت کی مدد کرتا ہے اور اس کو ان لغزشگاہوں میں پھسلنے اور گرنے سے بچاتا ہے جو اس کے راستے میں ہیں۔
اس کی ضد وہی رومی ثقافت ہے جو آج یورپ پر حکمفرما ہے۔ وہ ہر چیز میں معاملہ کرلیتے ہیں دو تین چیزوں کو چھوڑ کے۔ ان میں سے ایک اور شاید اہم ترین عورت اور مرد کی دو صنفوں کے درمیان حائل اس پردے کے تحفظ یعنی اس چیز کے مقابلے میں جس کو جنسی آزادی کہا جاتا ہے، خود کو روکنے اور تحمل پر وہ سختی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جوکام بھی کریں، اہم نہیں ہے۔ ان کی نگاہ میں جو اس مسئلے پر تاکید کرتا ہے وہ رجعت پسند ہے۔ اگر کسی ملک میں خواتین مردوں سے تھوڑاالگ ہوں تو یہ خلاف تہذیب ہے۔ وہ سچ کہتے ہیں کیونکہ ان کی تہذیب کی بنیاد رومی تہذیب کے کھنڈرات پر رکھی گئی ہے اور اس سے الگ ہٹ کے کچھ نہیں ہے لیکن شرف کے لحاظ سے یہ غلط ہے اور اس کے برعکس صحیح ہے۔
ہمیں مغرب سے شکایت ہے کہ آئے اور گذشتہ اداوار میں اور آج تک عورت کی اتنی توہین اور تذلیل کی۔ آپ دیکھیں کہ یورپ میں مغربی ملکوں میں ابھی کچھ عرصہ پہلے تک عورت کے اپنے مستقل مالی حقوق نہیں تھے۔ میں نے ایک بار پوری دقت کے ساتھ اعدادو شمار نکالے اور چار پانچ سال قبل ایک گفتگو میں، شاید نماز جمعہ کے خطبے میں (5) اس کو بیان کیا۔ مثلا بیسویں صدی کے اوائل تک ان تمام دعووں کے ساتھ جو کئے گئے ہیں، مغرب میں پردے کی اس مخالفت کے ساتھ جس میں روز بروز اضافہ ہوا، اس بے لگام جنسی اختلاط کے ساتھ، جس کو وہ عورت کے احترام اور اس کو اہمیت دینے کا نام دیتے ہیں، مغرب کی عورت کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ اس دولت کو جو اس کی اپنی تھی آزادی کے ساتھ اپنے استعمال میں لائے۔ شوہر کے مقابلے میں اپنی جائداد کی خو د مالک نہیں تھی۔ یعنی جو عورت شادی کرتی تھی اس کی دولت اور جائداد اس کے شوہر کی ہوجاتی تھی۔ اس کو اس جائداد اور دولت کو خود استعمال کرنے کا حق نہیں تھا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی کے اوائل میں عورت کو مالکیت اور کام کرنے کا حق دیا گیا۔ یعنی یہ حق بھی جو بنیادی ترین انسانی حقوق میں سے ہے عورت کو نہیں دیا گیا تھا۔ لیکن تاکید اور دباؤ اس مسئلے پر تھا جو حقیقی شرف کی جس کو اسلام اہمیت دیتا ہے، ضد ہے۔ ہم جو حجاب پر اتنی تاکید کرتے ہیں وجہ یہ ہے۔
ہماری نظر میں عورت کے لباس کے تعلق سے جو بحثیں ہوتی ہیں وہ اچھی ہیں لیکن اس بات پر توجہ رہنی چاہئے کہ عورت کے لباس اور پردے کے تعلق سے کوئی بھی بحث ایسی نہیں ہونی چاہئے جو مغرب کی تشہیراتی یلغارسے متاثر ہو۔ اگر اس سے متاثر ہوئی تو بحث خراب ہوجائے گی۔ مثلا آئیں اور اس بارے میں سوچیں کہ حجاب ہو لیکن چادر نہ ہو۔ یہ فکر غلط ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ صرف چادر ہی ہونی چاہئے۔ نہیں، میں یہ کہتا ہوں کہ چادر بہترین حجاب ہے۔ ہماری ایک قومی علامت ہے۔ اس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ عورت کی کسی بھی قسم کی سرگرمی اور تحرک کے منافی بھی نہیں ہے۔ اگر واقعی سیاسی و سماجی سرگرمیوں اور فکری کام کی بنا ہو تو عورت کا رسمی لباس چادر ہوسکتی ہے، اور جیسا کہ میں نے عرض کیا چادر بہتر ین حجاب ہے۔
البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ عورت چادر نہ اوڑھے اور حجاب میں رہے لیکن یہاں اس حد کا تعین کرنا ہوگا۔ بعض چادر سے اس لئے بچنا چاہتی ہیں کہ مغرب کی تشہیراتی یلغار ان کے دامنگیر نہ ہو لیکن چادر سے فرار اختیار کرتی ہیں اور بغیر چادر کے صحیح معنوں میں حجاب بھی نہیں کرتیں۔ کیونکہ مغرب اس پر بھی حملے کرتا ہے۔
کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے چادر ترک کر دی، بالفرض وہ مقنعہ اور وہ لباس ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن (6) اور ان چیزوں کا استعمال شروع کر دیا جو قرآن میں ہیں، تو وہ دست بردار ہو جائیں گے؟ نہیں، وہ ان چیزوں پر رکنے والے نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی منحوس ثقافت من و عن یہاں بھی رائج ہو۔ جس طرح کہ شاہ کے زمانے میں رائج تھی۔ اس زمانے میں عورتوں کا حجاب نہیں تھا۔ حتی ان جگہوں پر جب ان کاموں کی نوبت آتی تھی تو بے راہ روی بڑھ جاتی تھی۔ چنانچہ شاہ کے زمانے میں اسی شہر تہران میں اور ہمارے ملک کے بعض دیگر شہروں میں یورپی شہروں سے زیادہ بے راہ روی تھی۔ یورپ میں عام عورت اپنے لباس میں ہوتی تھی لیکن یہاں ایسا نہیں تھا۔ جو دیکھا تھا، سنا تھا، جانتا تھا اور جو مناظر اس وقت کے اس وقت نظروں کے سامنے ہیں، واقعی حیرت ہوتی تھی کہ اس طرح کیوں ہو۔ چنانچہ آج بہت سے پسماندہ مسلمان اور غیر مسلمان ملکوں میں یہی حالت ہے۔ شرف اور اقدار سے متعلق امور کی پوری دقت اور باریک بینی کے ساتھ اور بغیر کسی چشم پوشی کے پابندی ہونی چاہئے۔
البتہ خاندان کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ محترمہ (7) نے خواتین کی سماجی اور ثقافتی کونسل کے منصوبوں کی طرف اشارہ کیا۔ ان منصوبوں میں آپ کی زیادہ توجہ اس بات پر ہونی چاہئے اور اصولا ہے کہ، خواتین کے مسائل کو حل کریں۔ یہ دیکھئے کہ مسائل کہاں ہیں۔ ایک اہم مسئلہ خاندان میں ہے۔ جائیے دیکھئے کہ خاندانوں میں کیا ہورہا ہے۔ آپ جانتی ہیں اور دیکھتی ہیں۔ دیکھئے کہ کون سی چیز یہ مشکلات لاتی ہے۔ مشکلات کی جڑ کا پتہ لگائیے اور ان مشکلات کو دور کرنے کے لئے طویل المیعاد منصوبے تیار کیجئے۔
ماں کا مسئلہ، ازدواجی زندگی کا مسئلہ، گھر اور خاندان کا مسئلہ، بہت سے بنیادی اور حیاتی مسائل ہیں۔ تمام منصوبوں میں بنیاد خاندان ہونا چاہئے۔ یعنی آپ اگر بہت بڑی ڈاکٹر یا کسی بھی شعبے کی ماہر ہوجائیں اگر خاتون خانہ نہیں ہیں تو یہ آپ کے لئے ایک نقص ہے۔ خاتون خانہ آپ کو ہونا ہے۔ اصل محور یہ ہے۔ اگر ناقص مثال دینا چاہیں تو شہد کی مکھیوں کی ملکہ سے تشبیہ دیں۔
خاندان وہ مرکز ہے جہاں محبت و مہربانی کے جذبات و احساسات کو رشد و بالیدگی ملنی چاہئے۔ بچوں کو محبت و نوازش ملے۔ شوہر جو مرد ہے اور مرد کی فطرت عورت کی فطرت سے خام ہوتی ہے، خاص شعبوں میں وہ زیادہ کمزور ہوتا ہے اور اس کے زخم کا مرہم صرف زوجہ کی نوازش ہوتی ہے، حتی ماں کی نوازش بھی کارگر نہیں ہوتی ہے، اس کو نوازش ملنی چاہئے۔ ایک بڑے مرد کے لئے زوجہ وہ کام کرتی ہے کہ ماں اپنے چھوٹے بچے کے لئے وہ کام کرتی ہے اور دقت و ظرافت سے کام لینے والی خواتین اس نکتے سے واقف ہیں۔ گھر میں محبت و مہربانی کے احساسات و جذبات کا بنیادی محور خاتون خانہ ہوتی ہے اور جس گھر میں محبت و مہربانی نہ ہو اس میں خاندان بے معنی شکل میں ہوگا۔
آپ کام پر بھی جاتی ہیں، گھر سے باہر بھی ہوتی ہیں، ڈاکٹر ہیں، آپریشن بھی کرتی ہیں، اپنے مریضوں کو بھی دیکھتی ہیں، علمی کام بھی کرتی ہیں، کوئی پروجکٹ بھی لکھتی ہیں، یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں، یہ سب امور اپنی جگہ لیکن ان کے ساتھ ہی گھر کا حصہ بھی نظر میں رکھنا چاہئے۔ البتہ گھر کے حصے میں، تمام دوسری چیزوں کی طرح، کمیت سے زیادہ کیفیت پر توجہ دی جاسکتی ہے۔ یعنی کمیت کم کو کم کرنا۔ عورت کا چوبیس گھنٹے گھر میں رہنا ایک معنی رکھتا ہے لیکن ان چوبیس گھنٹوں میں سے کم کرکے کیفیت بڑھادی تو معنی کچھ اور ہوجائیں گے۔ اگر آپ نے دیکھا کہ آپ کے اس کام سے اس قضیے کو نقصان پہچ رہا ہے توپھر اس کی فکر کیجئے۔ یہ اہم اور بنیادی مسئلہ ہے؛ الا بعض ہنگامی نوعیت کے امور کے۔ تمام چیزوں میں ایسی ضرورت بھی درپیش ہوتی ہے جو قاعدے سے مستثنی ہوتی ہے۔ میں قاعدہ اور اصول بیان کررہا ہوں، مستثنی باتوں کا ذکر نہیں کررہا ہوں۔
میں نے سنا ہے کہ انشاء اللہ خواتین کے لئے مخصوص یونیورسٹی کھولنے کی بات ہو رہی ہے۔ یعنی ایسی یونیورسٹی جس میں طالبات کے ساتھ ہی اساتذہ، چانسلر، حتی دفتری عملہ بھی خواتین پر مشتمل ہوگا۔ خاص طور پر میڈیکل کے شعبے میں یہ فکر بہت اچھی ہے۔ میں اسی طرح جو ایک نظر دوڑاتا ہوں، مسئلے کے تمام جوانب کا جائزہ لیئے بغیر، اس لئے کہ اس کام کا وقت نہیں تھا، دیکھتا ہوں کہ اجمالی طور پر یہ کام ہمارے معاشرے میں خواتین کی اقدار و اہداف کے تعلق سے بہت مناسب اور اچھا ہے۔ دعا ہے کہ انشاء اللہ اس میں کامیاب رہیں۔
ایک اور بنیادی کام تعلیم نسواں کا ہے۔ جملہ انتہائی اہم کاموں میں سے ایک خواتین کو کتاب پڑھنا سکھانا ہے۔ کوئی ایسا نیا طریقہ ایجاد کیجئے کہ خواتین میں گھر کے اندر کتابوں کے مطالعے کی عادت ہو۔ افسوس کہ ہماری خواتین کو کتابوں کے مطالعے کا زیادہ شوق نہیں ہے۔ ہزاروں کتابیں بازار میں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن ان کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ یہ کتابیں انسانی علوم و معارف ہیں جو ذہنوں کو بہتر سمجھنے، بہتر سوچنے، بہترنئی ایجادات کرنے اور صحیح اور بہتر موقف اختیار کرنے کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔
جملہ اہم امور میں سے ایک عورتوں کے لئے امور خانہ داری کی انجام دہی کی صحیح روش یعنی شوہر اور بچوں کے ساتھ سلوک کی تربیت ہے۔ بہت سی عورتیں ہیں جو بہت اچھی ہیں، خوش اخلاق، بردباراور صابر ہیں لیکن شوہر اور بچوں کے ساتھ کس طرح پیش آئیں اس کی روش نہیں جانتیں۔ یہ روشیں علمی ہیں جن میں انسانی تجربے سے روز بروز پیشرفت آئی ہے اور اچھے مراحل میں پہنچی ہیں۔ ایسی خواتین ہیں جن کے پاس بہت اچھے تجربات ہیں۔ ایساطریقہ تلاش کریں کہ جو خواتین ان مسائل میں عام خواتین کی رہنمائی کرسکیں، وہ یہ کام کریں۔
امید ہے کہ وہ رکاوٹیں جن کی طرف اشارہ کیا گیا(8) ہمارے معاشرے کی خواتین کے راستے سے ہٹ جائیں گی تاکہ وہ آگے بڑھ سکیں۔ الحمد للہ انقلاب نے ہمارے ملک کی خواتین کی بڑی مدد کی ہے۔ میں نے ایسے گھرانے اور ایسی خواتین کو دیکھا ہے اور دیکھ رہا ہوں کہ واقعی حوادث میں ان کا ایثار، فداکاری اور دریا دلی مردوں سے زیادہ ہے۔ شہیدوں کے پسماندگان کے ساتھ میری نشست و برخاست عام طور سے زیادہ رہتی ہے۔ بارہا میں نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ شہیدوں کے خاندان میں عام طور پر ان حوادث کو برداشت کرنے میں شہید کی ماں کا حوصلہ شہید کے باپ کے حوصلے سے بہتر اور بلندتر ہے۔ البتہ بعض مورد اس کے برعکس بھی ہیں۔ لیکن تقریبا اکثر اور زیادہ تر ایسا ہی ہے کہ ماں کا حوصلہ باپ سے بہتر اور بلند ہے۔ اس انقلاب کے زیر اثر خواتین نے بہت اچھی ترقی اور پیشرفت کی ہے۔ انقلاب میں عورتوں کا کردار فیصلہ کن رہا ہے۔ جنگ میں بھی ان کا کردار فیصلہ کن رہا ہے۔ مستقبل میں بھی انشاءاللہ ان کا کردار فیصلہ کن رہے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ خواتین کے وقار کے ان پہلوؤں کا پاس و لحاظ رکھیں۔ یہ مستقبل کے ضامن ہیں۔ امید ہے کہ خداوند عالم آپ کی مدد کرے گا۔
گفتگو کے آخر میں ایک جملہ عرض کروں گا۔ یہ آرائش کا مسئلہ جو ہمارے معاشرے میں مدتوں پہلے آہستہ آہستہ کم ہوگیا تھا یااوائل انقلاب میں خواتین آرائش اور زیورات پر توجہ نہیں دیتی تھیں، لیکن افسوس کہ جیسا کہ سنا جارہا ہے، ہمارے معاشرے میں یہ چیزیں دوبارہ بڑھ رہی ہیں۔ ہمارے معاشرے کی دانشور، مفکر اور سمجھدار خواتین کو اس خطرے کو سمجھنا چاہئے۔ خواتین کو آرائش اور حسن کی نمائش کی طرف نہیں جانا چاہئے۔ البتہ مردوں کے لئے بھی یہ خطرہ ہے۔ لیکن عورتوں میں اس کا امکان اور خطرہ زیادہ ہے اور پھر اس مسئلے میں بہت سے امور میں مرد اپنی عورتوں کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ آپ واقعی اس مسئلے کے خلاف جدوجہد کریں اور خود بھی خیال رکھیں۔
میں اعتدال اور ناگزیر حد تک آرائش کا مخالف نہیں ہوں لیکن اگر اس میں زیادتی ہو تو بہت فضول چیز ہے۔ لباس میں، آرائش میں، زیورات میں خواتین کو اس بات کو زیادہ اہمیت دینی چاہئے کہ خود کو ان سے روکیں۔ ان چیزوں پر توجہ نہ دیں تاکہ اس ظاہری خوبصورتی سے زیادہ حقیقی زیبائی اور درخشندگی پر توجہ مرکوز ہو۔ ان شاء اللہ کامیاب و کامران رہیں۔ گفتگو طولانی ہوگئی۔ لیکن اس بنیادی مسئلے میں بہت سی باتیں کہنے سے رہ گئی ہیں۔ انشاء اللہ خدا وند عالم آپ کو توفیق عطاکرے اور آپ کی مدد کرے۔ ان شاء اللہ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کی عنایات آپ پر ہوں اور آپ کو یہ توفیق حاصل ہو کہ اسلام کی عظیم خواتین بالخصوص حضرت فاطمۂ زہرا ( سلام اللہ علیہا) کے راستے پر باقی رہیں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- خواتین کی سماجی اور ثقافتی کونسل کی اراکین ؛ محترمہ شجاعی، محترمہ خزعلی، محترمہ خواجہ نوری، محترمہ مصطفوی، محترمہ جلودار زادہ، محترمہ احمدی، محترمہ صفار زادہ، محترمہ ناظرزادہ، محترمہ مکنون، محترمہ عباسی، محترمہ صابر آملی اور محترمہ بیات اور ڈاکٹر مہرپور، حجت الاسلام والمسلمین عمید زنجانی تھے۔
2- تحریم ؛ 11
3- تحریم 10
4-ملک کی خاتون ڈاکٹروں سے ملاقات میں خطاب۔ مورخہ 26-10-1368 مطابق 16-1-1989
5- نماز جمعہ کے خطبے مورخہ 1-8-1986
6-نور؛ 31
7- محترمہ شجاعی۔
8- خواتین کی ترقی اور رشد کی راہ میں موجود رکاوٹوں کی طرف محترمہ لبافی نژاد کا اشارہ۔