بیس مہر سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی مطابق بارہ اکتوبر دو ہزار گيارہ عیسوی بدھ کی شب مغربی ایران کے صوبہ کرمان شاہ کے شیعہ اور سنی علمائے کرام سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے دنیا میں اسلام کی جانب زبردست رجحان پیدا ہونے کے تین مواقع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کی جانب رجحان کی پہلی لہر ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کے ساتھ شروع ہوئی جبکہ دوسری دفعہ اشتراکی نظام کی شکست کے بعد یہ لہر ابھری ـ آپ نے فرمایا کہ علاقے میں عوامی تحریکوں اور مغرب میں سرمایہ دارانہ نظام سے عوام میں پیدا ہونے والی مایوسی کے بعد اسلام کی جانب رجحان کی تیسری لہر اٹھی ہےـ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس تقدیر ساز موڑ پر علمائے کرام کو چاہئے کہ خود کو علم و روحانیت کے زیور سے آراستہ کریں تاکہ قرآن و سنت کی روشنی میں دینی تعلیمات کو آج کی نسل کے لئے قابل فہم اور منطقی شکل میں پیش کر سکیں ـ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج جب مارکسی نظام کے بے نتیجہ ہونے کا اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف درست ثابت ہو چکا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں بھی اس کی بات سچ ثابت ہو رہی ہے تو علمائے دین کو چاہئے کہ دنیا بھر میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے سامنے جن کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے، مستحکم عقلی بنیادوں کے سہارے عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کی منطقی تعلیمات پیش کریں ـ
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح اور اب مصر میں عظیم انقلاب کی کامیابی بظاہر ناممکن نظر آنے والا واقعہ ہےـ آپ نے فرمایا کہ دشمن آج اسلام پر حملہ کرنےاور نوجوانوں میں شکوک و شبہات پھیلانے کے لئے جدید وسائل کو بروئے کار لا رہا ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے نوجوان نسل کی ضرورتوں کے مطابق روشوں سے استفادہ کرنے کی صورت میں ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے نئے اور سخت میدانوں میں اترنے کے لئے علمی و روحانی آمادگی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ کام کی دشواریوں سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ ایسے کاموں کی طرف قدم بڑھانا چاہئے جو بظاہر محال اور ناممکن نظر آتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ علماء کی ایک اور اہم ذمہ داری سماجی امور میں بھرپور شراکت ہے جو نصیحت و ہدایت اور اخلاقیات کے ساتھ ہو۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
والحمد للہ رب العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم محمّد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین و صحبہ المتنجبین سیّمابقیّۃ اللہ فی الارضین۔ قال اللہ الحکیم فی کتابہ؛ بسم اللہ الرّحمن الرّحیم الّذین یبلّغون رسالات و یخشونہ ولا یخشون احدا الّا اللہ و کفی باللہ حسیبا(1)
میرے لئے، ملک کے دوروں میں، ملک کے محترم افاضل اور علمائے کرام سے جو مختلف صوبوں میں خدمت کر رہے ہیں اور نوجوان طلبا اور ان نو نہالوں سے ملاقات جو دینی تعلیم و تربیت کے حصول میں مصروف ہیں، لذت بخش اور شیریں ملاقاتوں میں ہوتی ہے۔ آج کی رات بھی الحمد للہ اس اجتماع میں شیعہ و سنی افاضل و علمائے کرام اور حصول علم میں مصروف طلاب، براداران و خواہران گرامی موجود ہیں، یہ میرے لئے بہت ہی شیریں، غنیمت اور معنوی و روحانی لحاظ سے ثمر بخش موقع ہے۔
چند جملے اپنی گزارشات کے عرض کروں گا لیکن اس سے پہلے کہ اپنی بات عرض کروں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس عظیم عالم، مجسمہ اخلاق اور زاہد بے مثال کا تذکرہ اور قدردانی کروں جس نے آیت اللہ بروجردی مرحوم کے حکم کے مطابق اپنی عمر اس صوبے میں گزاری اور اپنی زحمات کا اجر شہادت کی شکل میں پایا۔ شہید محراب آیت اللہ اشرفی، سنا ہے کہ ان کی برسی انہی ایام میں ہے۔ مجھے بارہا ان سے کرمانشاہ میں ان کے گھر میں ملاقات اور تنہائی میں بیٹھ کے ان سے گفتگو کرنے کی توفیق حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ دیگر نشستوں میں بھی انہیں دیکھا تھا۔ اسلام آباد میں صوبے کے آئمہ جمعہ کی نشست میں بھی ان سے ملاقات ہوئی تھی جس میں شہید صدوقی یزد سے آئے تھے اور دوسرے لوگ بھی موجود تھے۔ بمباری کے سائے میں صوبے کے آئمہ جمعہ کی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا اور ہم نے بھی شرکت کی تھی۔ متعدد نشستوں میں، میں نے انہیں نزدیک سے دیکھا تھا۔ حق اور انصاف یہ ہے کہ وہ عالم باعمل کے سچے مصداق تھے۔ ان کی زبان ہی تبلیغ نہیں کرتی تھی بلکہ ان کا عمل بھی تبلیغ کرتا تھا۔ ان کی مہماں نوازی، ان کا زہد اور بہت سی ظاہری باتوں سے ان کی بے اعتنائی ان کی خصوصیات میں تھی۔ بہت بڑے انسان تھے۔ خدا نے انہیں اجر دیا۔ نسبتا طولانی عمر میں خدا نے ان کی موت کو شہادت میں قرار دیا۔ بارہا عرض کیا ہے کہ شہادت ایک تاجرانہ موت ہے۔ نفع بخش موت ہے۔ یہ ہم خرما و ہم ثواب کی مصداق ہے۔ موت ناگزیر ہے۔ آنی ہی ہے۔ کل نفس ذائقۃ الموت (2) اگر انسان کو یہ سعادت حاصل ہو، پالنے والے ہم بھی اس سعادت کے مشتاق ہیں، تو اس ناگزیر حادثے کو خدا کے ہاتھ فروخت کر دے اس صورت میں اس نے بہت فائدہ اٹھایا۔ انّ اللہ اشتری من المومنین انفسھم (3) خدا جان خریدتا ہے۔ خدا خریدار ہے۔ یہ بہت بڑی سعادت ہے اور اس عظیم انسان کو یہ سعادت حاصل ہوئی۔
اس صوبے میں ہمارے دیرینہ دوست، الحاج آقا بہاء الدین محمدی عراقی بھی انہیں سعادتمند ہستیوں میں تھے جنہوں نے شہادت حاصل کی۔ الحاج آقا بہاء الدین قم میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اچھے شاگردوں میں اور ہمارے دوستوں میں تھے۔ ان دونوں شہیدوں پر خدا کی رحمت ہو۔
اسی طرح عالم با اخلاق، مہربان، متواضع بہت ہی مخلص اور پیاری ہستی کے مالک الحاج آقا مجتبی حاج اخوند کو بھی یاد کرتے چلیں۔ یہ بھی قم کے مدرسہ حجتیہ سے ہمارے دیرینہ دوستوں میں تھے۔ مومن، پارسا، صالح اور صادق۔ خدا کی رحمت ہو ان پر۔
اسی طرح آقائے نجومی مرحوم ( رضوان اللہ تعالی علیہ) کو بھی یاد کر لیں جو عالم، فاضل، تعلیم یافتہ، محنتی ہونے کے ساتھ ہی فن و ہنر کی بلندی پر فائز تھے اور حقیقی فنکار تھے۔ انقلاب کے بعد، صدارت کے دور سے پہلے میں کرمانشاہ کے ایک سفر میں ان کے گھر گیا تھا اور میں نے ان کے فن پاروں کو نزدیک سے دیکھا تھا۔ اس کے بعد امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد انہوں نے اپنا ایک فنپارہ میرے لئے بھیجا تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ اس حدیث شریف کو کہ من نصب نفسہ للنّاس اماما فلیبدء بتعلیم نفسہ قبل تعلیم غیرہ (4) کو میرے لئے لکھیں تاکہ وہ میری آنکھوں کے سامنے رہے۔ ہم خود اپنے آپ کو تعلیم دینے کے فریضے کو فراموش نہ کریں۔ انہوں نے اس حدیث کو بہت ہی خوبصورت کتابت میں لکھا۔ میں نے اس کو فریم کرواکے اپنے کمرے میں اپنی آنکھوں کے سامنے لگایا ہے۔ من نصب نفسہ للنّاس اماما فلیبدء بتعلیم نفسہ قبل تعلیم غیرہ اگر یہ تعلیم ہو جائے تو غیر کی تعلیم آسان ہو جاتی ہے۔ ہمارے کام کی مشکل یہ ہے۔
میرے عزیزو' میرے بھائیو' میرے بچو' نوجوانو' طلبا و طالبات، اگر آپ چاہتے ہیں کہ پھول کی مانند آپ کی خوشبو فضا کو معطر کرے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ دینداری چشمے کی مانند آپ سے جاری ہو اور پیاسے رغبت کے ساتھ اس کی طرف آئیں اور اس سے سیراب ہوں تو راستہ یہ ہے فلیبدء بتعلیم نفسہ
یہ آیہ شریفہ جس کی تلاوت کی کہ انّما یخشی اللہ من عبادہ العماء (5) اس میں خشیت ( خوف خدا) کو علما کی خصوصیات میں قرار دیا گیا ہے۔ علما کی خصوصیات بہت ہیں لیکن خدا نے خشیت کا انتخاب کیا ہے۔ کوہ و دشت و صحرا، باغ اور پہاڑوں کے دامن میں موجود اپنی نشانیوں کے ذکر کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے کہ انّما یخشی اللہ من عبادہ العلماء علم کی خاصیت یہ ہے کہ انسان کو اس عظیم نعمت کا مستحق بنا دیتا ہے۔ انسان کے دل پر خشیت خدا سایہ فگن ہو جاتی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس کو حاصل کریں۔ آپ نوجوان حضرات میرے مقابلے میں زیادہ آسانی سے یہ کام کر سکتے ہیں۔ ہماری عمر کو پہنچیں گے تو جس نے نوجوانی میں کام کیا ہوگا، اس کے کام آئے گا ورنہ کام مشکل ہے۔ خشیت کو آج اپنے اندر پیدا کریں۔ خدا کے سامنے خشوع کو آج اپنے اندر وجود میں لائیں۔ تضرع الی اللہ ( خدا کے حضور تضرع، گڑگڑانے کی صفت) آج اپنے اندر پیدا کریں۔ نوافل کو جو مقرب الی اللہ ہیں، آج سے شروع کریں۔ یہ باتیں آپ کے کام آئیں گی۔ یہ عمر تو ختم ہو جائے گی۔ بعض بڑھاپے تک پہنـچتے ہیں اور بعض نہیں پہنچتے۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں۔ بیس سال اور تیس سال سے ستر سال کی عمر کا فاصلہ جس میں ہم ہیں، کم ہے۔ برق رفتاری سے گزر جاتا ہے۔ بیس سال اور تیس سال کی عمر میں انسان سوچتا ہے کہ ابھی ستر سال تک پہنچنے میں بہت وقت ہے۔ نہیں چشم زدن میں وقت گزر جاتا ہے اور پھر خدا کے پاس جانا ہے۔ اگر اس مختصر فاصلے میں، تھوڑے سے وقت میں، فائدہ اٹھانا چاہیں، کام کرنا چاہیں، توشہ فراہم کرنا چاہیں تو اس کی بنیاد نوجوانی میں ہی رکھنا چاہئے۔ میں طلبا و طالبات کے لئے، خشوع، یاد خدا، تقوا اور تقرب الی اللہ کی کوشش کی سفارش کو حصول علم کی جو ان کی محنت کا اصل سرمایہ، سفارش سے زیادہ ضروری سمجھتا ہوں۔ اگر علم ہو اور تقوی نہ ہو تو علم بے فائدہ اور بعض اوقات مضر بھی ہو جاتا ہے۔ دینی اور غیر دینی دونوں علوم کے ایسے ماہرین گزرے ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے علم سے نہ خود کوئی فائدہ اٹھایا اور نہ ہی دوسروں کو فائدہ پہنچایا بلکہ علم ان کے لئے وبال جان بن گیا۔ علم اور عالم کے بدن میں دینداری کی روح ضروری ہے۔
کرمانشاہ بہت ہی اہم شہر ہے۔ جیسا کہ علمائے کرام نے اشارہ فرمایا، ماضی بعید میں بھی کرمانشاہ میں بڑے علما گزرے ہیں۔ گزشتہ دو ڈھائی صدیوں کے دوران اس شہر میں عظیم علمی خانوادے وجود میں آئے۔ جیسے خاندان آل آقا، جیسے خاندان جلیلی اور دیگر خاندان جن میں ایک دو اور دس نہیں بلکہ زیادہ علما رہے ہیں۔ باقی رہنے والے علمی خانوادے ۔
ایک اور نقطہ جوکرمانشاہ کے تعلق سے اس سلسلے میں میرے لئے پرکشش ہے، یہ ہے کہ جس طرح کہ کرمانشاہ کے عوام غریب نواز، مہماں نواز اور یہاں آنے والوں کے تئیں، رحمدل اور فیاض ہیں، یہ خصوصیت علما میں زیادہ ہیں۔ آقا محمد علی مرحوم ( رضوان اللہ علیہ) وحید بہبہانی مرحوم کے بیٹے، جو اپنے والد کے ممتاز ترین شاگرد تھے، کرمانشاہ آئے اور یہیں رہ گئے۔ اگرچہ کرمانشاہ کا قصد نہیں رکھتے تھے لیکن کرمانشاہ میں رہ گئے۔ ان کو روک لیا اور وہ خانوادہ آل آقا کے بانی ہوئے۔ وہ خود عالم تھے اور ان کی اولاد اور خاندان میں بہت علما گزرے۔ یہ ایک نمونہ ہے۔
دوسرا نمونہ آقا سید حسین حائری مرحوم ہیں۔ وہ آخر عمر میں مشہد آئے تھے۔ اس وقت ہمارے بچپن کا زمانہ تھا۔ مجھے کسی حد تک وہ یاد ہیں۔ وہ آقا سید محمد اصفہانی مرحوم کے بھائی کے بیٹے اور آقا سید محمد اصفہانی اور آخوند ملائے بزرگ کے شاگرد تھے جو عراق سے آئے طویل برسوں تک کرمانشاہ میں رہے۔ وہ اصفہان میں حد جاری کرتے تھے۔ ممتاز ہستی تھے۔ عالم بھی تھے اور اخلاق اور دینداری میں بھی ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ آقائے آقا مرتضی حائری مرحوم نے خود آقا سید حسین مرحوم کے حوالے سے میرے لئے نقل کیا کہ کوئی صاحب آقا سید حسین کے گھر آئے تھے اور ایک مدت تک وہاں رہے۔ وہ اہل معنی و صاحب سلوک اور اہل ریاضت تھے۔ وہ ان سے کہتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو وہ کام کریں کہ میں حضرت تک پہنچ سکوں۔ انہوں نے انہیں راستہ سکھایا۔ اس کے بعد اطلاع دیتے ہیں کہ مجالس کے عشرے میں، محرم کا عشرہ تھا یا کوئی اور عشرہ، حضرت مجلس میں تشریف لاتے ہیں۔ حضرت تشریف لائے ان کی مجلس میں، یہ داستان بہت تفصیلی ہے۔ وہ ایسی ہستی تھے۔ یہ معنوی پہلو تھا۔ علمی لحاظ سے بھی آخوند ملا فتحعلی سلطان آبادی کی تعلیم و تربیت انہوں نے کی تھی۔ اس وقت وہ سامراء میں تھے۔
ایک اور شخصیت سردار کابلی مرحوم کی ہے۔ مختلف فنون میں ممتاز علمی ہستی۔ یہ کتاب جو ان کے بارے میں لکھی ہے، بہت مفید اور اچھی کتاب ہے۔ میں نے کئی سال پہلے اس کتاب کو دیکھا۔ وہ تقریبا ساٹھ سال کرمانشاہ میں رہے۔ بزرگوں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ میں نے اس کتاب میں پڑھا ہے کہ الحاج آقا قمی مرحوم (رضوان اللہ علیہ) مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے جاتے وقت یا واپسی میں کرمانشاہ آتے ہیں اور سردار کابلی سے ملاقات کرتے ہیں۔ کسی مسئلے میں، قبلے وغیرہ کے بارے میں دونوں میں بحث ہوئی۔ سردار کابلی مرحوم نے کوئی ایسی بات کہی کہ الحاج حسین قمی مرحوم نے ان سے کہا کہ یہ چیز آپ مجھے سکھائیں۔ کتاب کا مصنف لکھتا ہے کہ میں نے خود دو جلسے دیکھے میرے خیال میں وہ کہنا چاہتا ہے کہ میں نے خود دیکھا۔ چونکہ میں نے برسوں پہلے یہ کتاب پڑھی ہے کہ الحاج حسین قمی جیسی ممتاز علمی ہستی اور مرجع تقلید، سردار کابلی کے سامنے بیٹھتے ہیں اور سردار کابلی انہیں وہ بحث سکھاتے ہیں، الحاج حسین قمی مرحوم کا اسّی سال کی عمر میں مرجع تقلید ہونے کے باوجود سیکھنا، بذات خود ایک درس ہے۔ ایک عالم کے لئے یہ کام نہ صرف یہ کہ عار نہیں ہے، عیب نہیں ہے، بلکہ فخر کی بات ہے۔ ہم طلبا کو یہ باتیں سیکھنی چاہئے۔ آپ نوجوانوں کو اس روش پر چل کے آگے بڑھنا چاہئے۔ یہ کابلی تھے، کابل کے رہنے والے تھے۔ ہندوستان میں پلے بڑھے تھے۔ اس کے بعد نجف میں رہے اور پھر یہاں آئے۔ کرمانشاہ نے ان کی پذیرائی کی، انہیں اپنی آغوش میں جگہ دی۔ سردار کابلی مرحوم جو کئی فنون کے ماہر تھے، ساٹھ سال کرمانشاہ میں رہے۔
مہاجر علما میں سے ایک مرحوم شہید اشرفی اصفہانی تھے جو اس شہر میں رہے۔ اس شہر کی یہ خصوصیت ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کے قلوب میں علمائے دین کی کتنی جگہ ہے۔ یہاں کے لوگ علما سے محبت کرتے ہیں۔ جب کوئی ان کو ملتا ہے، اس کی خصوصیات کو دیکھتے ہیں، اس کو پسند کرتے ہیں، سمجھ لیتے ہیں، تو کرمانشاہ کے لوگ اپنے خلوص کے ساتھ اتنی گرمجوشی سے اس سے پیش آتے ہیں کہ اس کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اپنے وطن میں نہیں ہے۔ مرحوم، اصفہانی تھے لیکن گویا وہ خود کو کرمانشاہی سمجھتے تھے۔ کرمانشاہی ہو گئے تھے۔ یہ تمہید تھی۔ اب چند باتیں عرض کرتا ہوں۔
ایک بات میرے عزیزو' علمائے کرام، افاضل محترم، نوجوان طلبا اور مستقبل کی امیدو' یہ ہے کہ آپ جان لیں کہ آج علما کے فرائض بہت سنگین ہیں۔ اگر ہمیشہ علما کے کندھوں پر سمجھانے، بیان کرنے اور تبلیغ الّذین یبلّغون رسالات اللہ کا فریضہ تھا تو آج یہ فریضہ سنگین تر ہو گیا ہے۔ کیوں؟ دو وجہ سے۔ ایک یہ ہے کہ دنیا میں، اسلامی دنیا میں بھی اور غیر اسلامی دنیا میں بھی، تبلیغ اسلام کے مواقع فراہم ہو گئے ہیں۔ اس کا میں اختصار کے ساتھ ذکر کروں گا اور ایک اس لئے کہ اسی وجہ سے اور اسلام کے خوف سے، اسلام پر حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لہذا فریضہ بڑھ گیا ہے۔ جب موقع ہو تو فریضہ بڑھ جاتا ہے۔ جب اس موقع کی وجہ سے حملہ، دشمنی اور یلغار ہو تو فریضہ اور سنگین ہو جاتا ہے۔ آج آپ اس صورتحال سے دوچار ہیں۔ ڈرنا بالکل نہیں چاہئے۔ و یخشونہ ولا یخشون احدا الّا اللہ کسی چیز سے نہ ڈریں۔ سختیوں سے نہ گھبرائیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کہیں کہ دشواریاں نہیں ہیں۔ کیوں نہیں، دشواریاں ہیں لیکن ان دشواریوں سے نہ ڈریں۔ سخت اور دشوار کاموں کا خیر مقدم کریں۔ وہ کام کریں جو نہ ہونے والا نظر آئے۔ کیا ایران میں یہ نہیں ہوا؟ ایران میں ایک کام ایسا ہوا ہے کہ سارے صاحب دانش تحلیل و تجزیہ کرنے والے گھنٹوں بیٹھ کے سوچتے بلکہ راتیں اور دن اس فکر میں گزار دیتے تب بھی اس کے علاوہ اور کسی نتیجے پر نہ پہنچتے کہ یہ کام محال ہے۔ وہ کام کیا تھا؟ وہ یہ تھا کہ یہ ملک جو ثقافتی لحاظ سے مغرب سے وابستہ تھا، سیاسی لحاظ سے مغربی اقتدار کے پنجے میں تھا، اقتصادی لحاظ سے مغرب کا بازیچہ تھا اور سربراہان مملکت خود کو امریکا کے فرمان کی اطاعت پر مجبور سمجھتے تھے، البتہ محمد رضا وغیرہ کی حکومت اس بات سے کہ ان کی باتیں سننے پر مجبور تھی، رنجیدہ تھی، لیکن اس نوکر کی مانند تھی جو اپنے مالک کے حکم سے ناراض ہوتا ہے۔ ناراض ہے لیکن، کچھ بھی ہو اس کے حکم پر عمل کرنا ہے۔ جس کی ثقافت یہ ہو، جس کی سیاست یہ ہو، جس کا اقتصاد ایسا ہو، جس کے حکام ایسے ہوں، جو ہر لحاظ سے مغرب سے وابستہ اور اسلام سے دور ہو، ناگہاں یہ ملک ایک سو اسی ڈگری گھوم گیا اور یہاں ایسا نظام بر سراقتدار آیا کہ جس نے مغرب کو بد گمانی کے ساتھ اور بعض معاملات میں دشمنی کی نگاہ سے دیکھا اور اسلام اور اسلام کے نفاذ کا راستہ اختیار کیا یعنی یہاں اسلامی جمہوری نظام تشکیل پایا۔ ہر تجزیہ نگار کہتا تھا کہ یہ کام محال ہے۔ یہ بات ممکن نہیں ہے لیکن ہوئی اور یہ محال انجام پایا۔
میں آپ کو بتاؤں کہ حتی خود ہمارے بعض مجاہدین کہتے تھے کہ نہیں ہوگا۔ آقائے طالقانی مرحوم نے خود مجھ سے کہا کہ امام کہتے ہیں شاہ کو جانا ہوگا معلوم ہے کہ شاہ نہیں جائے گا۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ شاہ جا سکتا ہے۔ آقائے طالقانی مرحوم نے خود مجھ سے کہا کہ ان کی باتیں عجیب ہیں، یہ ناممکن باتیں ہیں۔ وہ کہتے تھے ہوسکتا ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کہا شاہ جائے گا۔ کوئی بھی یقین نہیں کر رہا تھا لیکن شاہ گیا۔ نہ صرف یہ کہ شاہ گیا، بلکہ امریکا بھی گیا، مغرب بھی گیا، استعمار اور سامراج بھی گیا۔ کوئی یقین نہیں کرتا تھا لیکن یہ ہوا۔
کوئی یقین نہیں کرتا تھا کہ دور حاضر میں، اسلامی ملکوں میں سب سے بڑا انقلاب مصر میں آئے گا۔ کیمپ ڈیوڈ کا مصر، حسنی مبارک کا مصر، دوسری جگہوں پر اس کو ممکن سمجھتے تھے لیکن مصر میں کوئی ممکن نہیں سمجھتا تھا۔ مصر میں انقلاب آیا۔ یہ وہ بات ہے جو ہمیں یاد رکھنی چاہئے۔ جائیے ناممکن کو ممکن بنائیے۔ بڑے کام کرنے کا فیصلہ کیجئے تا کہ کر سکئے۔ ولایخشون احدا الّا اللہ بہت اچھا، زحمتوں کا کیا؟ تکلیفوں کا کیا؟ محرومیتوں کا کیا؟ جواب یہ ہے کہ و کفی باللہ حسیبا خدا کو فراموش نہ کریں۔ خدا کے پاس آپ کا حساب ہے۔ میزان الہی میں آپ کی محنت، آپ کی محرومیت، آپ کے نفس کی تکالیف، آپ نے جن تشویشوں اور پریشانیوں کا سامنا کیا، جو محنت کی، جو کام کیا، جو خون جگر پیا، جو صبر کیا، یہ سب ہرگز فراموش نہیں ہوگا۔ و کفی باللہ حسیبا۔
یہ ہمارا راستہ ہے۔ وہاں ہمیں علما کے عنوان سے خشوع کی سفارش کرتا ہے۔ یہاں یبلّغون رسالات اللہ کی سفارش کرتا ہے۔ اچھا، رسالات اللہ، رسالات انبیاء اللہ، ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے و کذلک جعلنا لکل نبیّ عدّوا شیاطین الانس والجن یوحی بعضھم زخرف القول غرورا و لو شاء ربّک ما فعلوہ فذرھم وما یفترون (7) نبی کے بارے میں موقف اور صف بندی یہ ہے۔عدوّا شیاطین الانس والجن شیاطین جن و انس دونوں اس پر حملہ کرتے ہیں۔ اگر ہم اور آپ رسالات الہی کی تبلیغ کریں تو ہمیں شیاطین جن و انس دونوں کا منتظر رہنا چاہئے کہ ہم پر حملہ کریں گے۔ اس کے لئے خود کو تیار کریں۔ روحانی لحاظ سے اپنے باطن میں محکم حصار کھینچیں اور یہ حصار، حصار ایمان اور توکل کا حصار ہے، تاکہ مغلوب نہ ہوں اور اندر سے شکست نہ کھائیں۔ بیرونی فرار اور ہزیمت، اندرونی فرار اور ہزیمت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ انسان کے اندر کی شکست ہے جو اس کو بیرونی شکست سے دوچار کرتی ہے اور اس پر شکست مسلط کرتی ہے۔ اگر آپ اپنے دل کے اندر شکست نہ کھائیں تو کوئی بھی آپ کو شکست نہیں دے سکتا۔ جو حصار آپ کے دل کے اندر ہونا چاہئے وہ خدا پر ایمان اور توکل علی اللہ کا حصار ہے۔ و علی اللہ فلیتوکّل المومنون(8) وعلی اللہ فلیتوکّل المتوکّلون (9) ومن یتوکّل علی اللہ فھو حسبہ (10) الیس اللہ بکاف عبدہ (11) یہ ہمارے درس ہیں۔ قرآن کو پڑھیں اور اس پر غور کریں۔ ان باتوں کو درس کی حیثیت سے یاد کریں۔ یہ زندگی کا دستور العمل ہے۔ یہ ایک طرح کی تیاری ہے۔
ایک آمادگی بیرونی آمادگی ہے۔ یہ شیطان جو حملہ کرتا ہے، ہمیشہ ایک طرح سے حملہ نہیں کرتا۔ آج شیطان، انٹرنیٹ، سیٹلائٹ ٹی وی، ماڈرن اور پوسٹ ماڈرن مواصلات کے ذریعے آپ کے پاس آتا ہے۔ نئی باتیں کرتا ہے۔ ہارڈ ویئر کو اس نے ماڈرن بنا دیا ہے۔ اس کے پاس ماڈرن سافٹ ویئر بھی ہے۔ شبہات پیدا کرتا ہے۔ عقیدے میں خلل ڈالتا ہے۔ ذہن میں وسوسہ پیدا کرتا ہے۔ ناامیدی پیدا کرتا ہے۔ اختلاف ڈالتا ہے۔ اس وقت پیٹرو ڈالر کچھ جگہوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ مجھے خبر ہے، مجھے اطلاع ہے۔ یہ رپورٹیں ایسی ہیں جو عام طور پر نشر نہیں ہوتیں۔ بعض اسلامی ملکوں میں ریت کی طرح پیسے گرائے جا رہے ہیں تاکہ سنیوں کے درمیان شیعہ مخالف لابی تیار کریں۔ یہ اس طرف سے ہے اور دوسری طرف سے بھی ایک نام نہاد شیعہ خطیب کو پیسے دیتے ہیں کہ ٹی وی پر شیعہ کے نام سے امّ المومنین عائشہ پر الزام لگائے اور انہیں برا بھلا کہے۔ ان کی توہین کرے۔ یہ ان کی روشیں ہیں۔ ان روشوں کے مقابلے میں آپ کیا کام کر رہے ہیں؟ اہلسنت کیا کام کر رہے ہیں؟ شیعہ کیا کام کر رہے ہیں؟ ان کے کاموں کے دھوکے میں نہ آئیں۔ اختلاف ان کے لئے سب سے بڑی نعمت ہے۔
میں یہیں پر یہ نکتہ بھی عرض کر دوں کہ آپ کا صوبہ ایسا صوبہ ہے جہاں شیعہ اور سنی دونوں کی ملی جلی آبادی ہے۔ شیعہ اور سنی علما میٹنگ کریں۔ ایک دوسرے کو سمجھیں۔ باہم گفتگو کریں۔ ہمیں مشترکہ کام کرنے ہیں۔ بہت اچھا، آپ اپنی فقہ بیان کریں۔ اپنی فقہ پڑھائیں اور آپ اپنی فقہ بیان کریں اور اپنی فقہ پڑھائیں۔ آپ جعفری فقہ بیان کریں اور آپ شافعی فقہ بیان کریں۔ اپنے عقائد رکھیں لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ مشترکہ کام بھی کرتے رہیں۔ میں شافعی فقیہ یا شافعی مقلد سے یہ نہیں کہتا ہوں کہ جعفری ہو جاؤ۔ شیعہ ہو جاؤ۔ نہیں، اگر چاہا، تحقیق کی آیا تو آیا نہ آیا تو نہ آیا۔
ہر ایک اگر اپنے مذہب اور اپنے کام کی حفاظت کرنا چاہے تو کرے۔ اگر مذہبی بحث کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ میں مذہبی بحث کو بھی قبول کرتا ہوں۔ اگر پسند کریں تو علما اور صاحبان فن کے درمیان علمی مذہبی بحث کریں۔ بیٹھیں اور یہ کام کریں۔ لیکن عوام کے درمیان اور عوام کی نظروں میں نہیں بلکہ علمی نشستوں میں ایک دوسرے سے بحث کریں۔ وہ اپنا استدلال پیش کرے اور وہ اپنا استدلال بیان کرے۔ یا ایک قائل ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود بعض مشترک امور ہیں۔ بعض مشترکہ مسائل ہیں جن کے مشترکہ حل کی ضرورت ہے۔ شیعہ عالم دین اپنے عوام کے درمیان اور سنی عالم دین اپنے لوگوں کے درمیان اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اس اثر و رسوخ سے کام لیں اور ان مشترکہ مسائل کو برطرف کریں۔ آج کچھ لوگ ہیں جن کا اسلحہ کفر کا فتوی ہے۔ خود کو تکفیری کہنے میں عار بھی محسوس نہیں کرتے۔ یہ زہر ہیں۔ اس زہر کو اسلامی ماحول سے دور کرنا ضروری ہے۔ کوئی کسی کو کافر قرار دے اور کوئی کسی کو فاسق کہے۔ یہ تقریر میں منبر سے ایک بات کہے جو اس پر حملہ ہو اور یہ ایک بات کہے جو دوسرے پر حملہ ہو۔ یہ وہی بات ہوگی جو دشمن چاہتا ہے۔ بنابریں وہ سنگین فریضہ جو میں کہتا ہوں، ان تمام جوانب اور پہلوؤں پر محیط ہے۔ تربیت نفس اور دل میں خوف خدا اور خشوع پیدا کرنے کے قلبی فریضے سے شروع ہوتا ہے اور ان باتوں تک پہنچتا ہے۔
ایک اور فریضہ، حصول علم ہے۔ میں نے سنا ہے کہ کرمانشاہ کے بعض مقامی افاضل قم میں ہیں، جنہیں حضرات یقینا پہچانتے ہوں گے۔ ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے کہ یا وہاں سے ہجرت کرکے یہاں آئیں یا اگر پوری طرح نہیں آتے تو خاص ایام میں یہاں آئیں۔ سال میں دو مہینے، تین مہینے، چار مہینے یہاں آئیں۔ لوگوں کے درمیان جائیں۔ دیہی بستیوں میں جائیں۔ شہروں میں جائیں۔ مساجد کو آباد کریں۔ بنابریں مسئلہ علم، اہم مسئلہ ہے۔
البتہ حصول علم کے ساتھ ہی تبلیغ کا مسئلہ بھی ہے جو بہت اہم ہے۔ تبلیغ بہت مفصل امر ہے۔ اگر اچھی تبلیغ کرنا چاہیں تو پہلے اپنے مخاطبین کا انتخاب کریں۔ اگر آپ نوجوانوں سے بات کرنا چاہیں اگر آپ نے نوجوانوں کا مخاطب کی حیثیت سے انتخاب کیا تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا سوال کیا ہے؟
ایک طالب علم تھا جو مشہد میں ہمارے درس میں آتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ نہیں تھا۔ درس میں اس کو نہیں دیکھتے تھے۔ ایک مدت کے بعد اس کو دیکھا۔ پوچھا کہاں تھے؟ کہا فلاں جگہ تھا۔ صوبہ خراسان کے ایک دور افتادہ شہر میں، تبلیغ میں مصروف تھا۔ میں نے کہا پھر کیا ہوا؟ کہا میں اس نتیجے پر پہنچا کہ لوگوں کے لئے میں نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ کہا میں جو جانتا ہوں وہ ان کے کام کا نہیں ہے۔ یہ مخاطب کی شناخت نہ ہونا ہے۔ مخاطب کی شناخت حاصل کرنا ضروری ہے۔ دیہی، شہری اور تعلیم یافتہ۔
آج ہمارے پاس تعلیم یافتہ نوجوان کتنے ہیں۔ اسی کرمانشاہ میں تعلیم یافتہ افراد بہت ہیں۔ ایک زمانے میں یہ بات نہیں تھی۔ انقلاب سے پہلے پورے صوبہ کرمانشاہ میں شاید تین سو یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ افراد تھے۔ آج دس گنا یا شاید دسیوں گنا تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ یہ نوجوان ہیں، گوناگوں باتوں اور تشہیراتی لہروں کی زد پر ہیں۔ ان کے لئے سوال اٹھتے ہیں۔ آپ ان کے سوالوں کو جانیں اور ان کا جواب تیار کریں۔ اس کے بعد جواب دینے کے لئے بیٹھیں۔ اپنے مخاطب کا انتخاب کریں۔ اس کی فکر کو سمجھیں اور اس کی فکر اور ضرورت کی مناسبت سے، قرآن، سنت اور بزرگوں کے اقوال سے جواب تیار کریں اور اس کے سامنے پیش کریں۔ جناب آقائے ممدوحی نے فرمایا ہے اور صحیح فرمایا ہے کہ کچھ لوگ آئیں اور آقائے مطہری مرحوم کی کتابوں اور تفسیر المیزان سے نوجوانوں کے سوالات اور ان کی ضرورت کی مناسبت سے جواب کا انتخاب کریں اور پیش کریں۔ یہ کام بھی قم میں ہونا چاہئے۔ آپ جو قم میں ہیں، قم سے میرا خطاب ہمیشگی ہے۔ قم کو یہ کام کرنا چاہئے۔ کریں، انجام دیں، یہ کام ضروری ہیں۔
تعلیم کے برابر ہی یا تعلیم سے کچھ زیادہ تربیت پر غور کریں۔ قرآن میں ایک جگہ کو چھوڑ کے جہاں یعلمھم کا لفظ یزکیھم سے پہلے آیا ہے، ہر جگہ یزکیھم تزکیہ، تعلیم پر مقدم ہے۔ یزکیھم و یعلمّھم الکتاب والحکمۃ (12) یہ شاید اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تزکیہ کو برتری حاصل ہے۔ اپنے مخاطبین کا تزکیہ کریں۔ ان کی تربیت کریں۔ یہ تربیت بھی جیسا کہ میں نے عرض کیا، من نصب نفسہ للنّاس اماما فلبیدء بتعلیم نفسہ قبل تعلیم غیرہ سخت کام ہے۔ یہ سخت کام بھی انجام پانا چاہئے۔
مخاطب کے ذہن کی گہرائیوں میں اپنا اثر چھوڑیں۔ اس کے جذبات اور اس کی محبتوں کو حاصل کرنے پر ہی اکتفا نہ کریں۔ بلکہ کوشش کریں کہ اس کے ذہن کی گہرائیوں میں اپنا اثر چھوڑیں تاکہ گوناگوں حوادث کا سامنا ہونے پر ضائع نہ ہو۔
علما کے معاشرتی فرائض بھی ہیں۔ علما کو سماجی مسائل پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ لیکن بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سماجی مسائل میں علما کی مداخلت، علما کے انداز میں ہونی چاہئے۔ تحکمانہ انداز میں نہیں۔ اگر تحکمانہ انداز میں ہو تو مفید واقع نہیں ہوگی۔ عالم دین کی خصوصیت یہ ہے کہ عالمانہ انداز میں، اخلاق کے ساتھ، نصیحت کے ساتھ، راستہ دکھائے اور معاملے کے جوانب سے آگاہ کرے۔ جو کام لینا چاہے، لوگوں میں اس کا اشتیاق پیدا کرے، انہیں مطمئن کرے کہ انہیں وہ کام کرنا چاہئے۔ اگر تحکم کے ساتھ ہو تو فائدہ نہیں ہے۔ عالم دین کو عالمانہ انداز میں عمل کرنا چاہئے۔ البتہ اگر آپ صدر مملکت ہو جائیں تو صدر مملکت کی حیثیت سے کچھ فرائض ہیں، اگر جج ہوئے تو جج کی حیثیت سے دوسرے فرائض ہیں لیکن عالم دین کی حیثیت سے فریضہ یہ ہے کہ علما کی زبان میں انبیا کی زبان میں لوگوں سے گفتگو کریں۔ نہ تحکمانہ انداز ہو اور نہ ہی سیاسی جذبہ کارفرما ہو۔
نماز سب کچھ ہے۔ وہ شخص جس کے تمام روابط منقطع ہو گئے ہوں اگر نماز کا رابطہ محفوظ رکھ سکا تو نماز اس کو بچا لے گی۔ نماز بہت اہم ہے۔ اپنے مخاطبین میں نماز کا شوق پیدا کریں۔ نماز جماعت میں ان کی شرکت کی راہ میں آسانیاں پیدا کریں۔ یہ نماز سمینار جو ہر سال منعقد ہوتا ہے، پتہ نہیں کرمانشاہ میں اب تک منعقد ہوا یا نہیں، اس کو یہاں منعقد کریں۔ نماز کی شان و شوکت بڑھائیں۔
شیعہ اور سنی مبلغین، ایک دوسرے کو آزردہ خاطر نہ کریں۔ ایک ساتھ چلیں، آپس میں ہمدلی پیدا کریں۔ اپنے مخصوص معاملات میں سنی اپنا کام کریں اور شیعہ اپنا کام کریں۔ لیکن کچھ مشترکہ معاملات بھی ہیں ان میں ایک ساتھ مل کے کام کریں۔ اگر یہ ہو تو انشاء اللہ علما پیشرفت کریں گے۔
میں آپ سے عرض کروں کہ اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور دنیا میں اسلام کو نئی شان و شوکت حاصل ہوئی۔ دنیا میں بہت سے لوگوں نے سوچنا شروع کیا کہ یہ کیا تھا؟ یہ کون سی قوت محرکہ تھی جس نے اتنا عظیم واقعہ رونما کیا جس نے مغرب کو ہلا کر رکھہ دیا؟ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کی عظمت نے مغرب کو ہلاک رکھہ دیا۔ بہت سوں نے سوچا دیکھیں یہ کیا ہے۔ انہوں نے قرآن سے رجوع کیا، اسلام کے حقائق کو سمجھا، اسلام کے مشتاق ہوئے، اسلام کی طرف جھکاؤ پیدا ہوا۔ اس دور میں ایک ہجوم اور ایک موج نے اسلام کا رخ کیا اور یہ سلسلہ جاری رہا۔
دوسری لہر اس وقت اٹھی جب مارکسی نظام شکست سے دوچار ہوا۔ حتی اسلامی ملکوں میں بھی بہت سے نوجوان اور بہت مخلص لوگ ایسے تھے جنہوں نے مارکسی نظام سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ سوچتے تھے کہ سوشلسٹ حکومت قائم کرکے غربت، بے انصافی اور بہت کچھ اپنے ملکوں سے دور کر سکیں گے۔ ان میں بعض واقعی سچے لوگ تھے۔ میں نے ان میں سے بعض کو دیکھا تھا۔ مسلمان بھی اور غیر مسلم بھی، سچے لوگ تھے لیکن اسلام پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔ مارکسی ہو گئے تھے۔ اس لئے کہ ان کا خیال تھا کہ مارکسزم میں عوام کے لئے امید ہے۔ بعد میں جب ماکسزم کو شکست ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ نہیں، یہ مفید نہیں ہے تو اسلام کی طرف آئے۔
نوجوانوں کے یہ تمام گروہ جنہیں آپ نے دیکھا کہ مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں، یمن میں اور دوسری جگہوں پر اسلام کا نعرہ لگا رہے تھے، یہ ساٹھ اور ستر کے عشرے میں، یعنی تقریبا چالیس سال، تیس سال پہلے سب کے سب بائیں بازو کے نعرے لگاتے تھے۔ کمیونزم کے نعرے لگاتے تھے۔ اگر کوئی اسلام کی بات کرتا تھا تو بیچ بیچ میں مارکسی باتیں بھی ہوتی تھیں۔ حتی خود ہمارے ملک میں بھی اس طرح کی باتیں تھیں جن کا میں یہاں نام نہیں لینا چاہتا ہوں۔ تھے ایسے لوگ جو اسلام کی بات کرتے تھے لیکن اسلام کی باتوں کی تہہ میں در حقیقت مارکسی افکار کی تبلیغ اور ترویج ہوتی تھی۔ اس کا اثر بھی ہوتا تھا۔ جب مارکسزم کو شکست ہوئی تو یہ تمام گروہ مارکسزم سے مایوس ہو گئے اور اسلام کی طرف واپس آئے۔ اسلام کو دیکھا، قرآن پر نظر ڈالی اسلامی احکام پر نظر ڈالی، اسلامی جمہوریہ پر نظر ڈالی، تعجب کے ساتھ دیکھا کہ اسلام کے اصولوں پر ایک نظام قائم ہوا، تمام ماڈرن سلوگنوں اور ترقی پسند نعروں کو اختیار کیا ہے، تمام ظالم اور ستمگر طاقتیں اور اقوام کا خون چوسنے والے اس کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن وہ نظام کوہ کی مانند پائیداری سے ڈٹا ہوا ہے اور اس میں کوئی لرزش نہیں آ رہی ہے۔ تو انہیں تعجب ہوا اور کہا کہ حیرت ہے۔ آؤ دیکھیں یہ کیا ہے۔ جو چیزیں وہ ماکسزم میں تلاش کرنا چاہتے تھے اور اس میں نہ پا سکے تھے اور بعد میں مارکسزم پوری طرح ناکام ہو گیا، دیکھا کہ وہ سب کچھ اسلام میں ہے۔ یہ بھی وہ دور تھا کہ اسلام کی طرف جھکاؤ پیدا ہوا۔ ایک دور اب وجود میں آیا ہے مغربی لبرزم سے مایوس ہونے کا دور۔ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی اور سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کو آپ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟
وہ اپنی تشہیرات میں اس مسئلے کو معمولی ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے حقیقت معاملہ تو چھوٹی نہیں ہوگی۔ امریکا کے مالیاتی مرکز میں، امریکا کے اقتصادی دارالحکومت میں یعنی نیویارک میں اور وہ بھی وال اسٹریٹ پر جو سرمایہ داری کی دنیا کا اصل مرکز ہے ہزاروں لوگ جمع ہوں اور کہیں کہ ہم سرمایہ داری نہیں چاہتے۔ یہ مہاجر ہیں نہ سیاہ فام اور نہ ہی معاشرے کے نچلے طبقے کے لوگ ہیں۔ ان کے درمیان یونیورسٹی اساتذہ ہیں، سیاستداں ہیں، طلبا کے گروہ ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیپٹلزم کا نظام نہیں چاہتے۔ یہ وہی ہماری بات ہے۔ ہم نے بھی شروع سے کہا ہے کہ نہ مشرقی اور نہ مغربی یعنی نہ کیپٹلسٹ نظام اور نہ سوشلسٹ نظام۔ وہ سوشلسٹ نظام تھا جو جہنم واصل ہوا اور یہ بھی آہستہ آہستہ سقوط کی طرف جا رہا ہے۔ اس واقعے کے بعد اسلام کا اقبال اور بلند ہوگا۔ یہ ایک اور موج ہے، تیسری لہر ہے۔
آپ کو تیار رہنا چاہئے۔ علمائے اسلام کو آمادہ رہنا چاہئے۔ کمزور باتیں الگ رکھیں اسلام کی منطقی، محکم اور بنیادی تعلیمات کو جو قرآن اور سنت سے ماخوذ ہیں، آئمہ علیہم السلام کے اقوال سے ماخوذ ہیں، محکم عقلی مبانی کے ساتھ، معقول انداز میں اور انسانی معاشرے اور انسان کی ضرورتوں کی مناسبت سے بیان کی جائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اسلام کی طرف رجحان کی لہر میں تیزی آئے گی۔
مجھے آپ سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔ یہ نشست میرے لئے جیسا کہ میں نے عرض کیا بہت لذت بخش نشست ہے لیکن وقت کا خیال بہر حال رکھنا چاہئے۔
پالنے والے ' ہمیں جس طرح تو خود پسند کرتا ہے، علمائے دین میں قرار دے۔ پالنے والے'ہمارے ان عزیز نوجوانوں، ان نوجوان طلبا، بوستان علم دین کے ان نونہالوں کو جہاں بھی ہوں، کرمانشاہ میں یا کہیں اور، یہ توفیق عنایت فرما کہ علمائے با عمل میں قرار پائيں۔ اپنا فضل، رحمت اور ہدایت ہم سب پر نازل فرما۔ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1- احزاب:39 2- آل عمران: 185 3-توبہ:111 4-نہج البلاغہ، قصار73 5-فاطر: 28 6- 7-انعام:112 8-آل عمران:122 9-ابراہیم:12 10-طلاق:3 11-زمر:36 12- آل عمران: 164